بسم اللہ الرحمن الرحیم
اٹھارھویں دستوری ترمیم پاکستان میں دستور سازی کی تاریخ کا اہم سنگِ میل ہے۔ اپنی چند خامیوں کے باوجود، مجموعی طور پر پاکستان میں جمہوریت کے قیام، دستوری نظام کی اپنی اصل شکل میں بحالی، پارلیمنٹ کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی، صوبائی حقوق کی حفاظت، بنیادی حقوق کی عمل داری اور ایک اسلامی، وفاقی اور فلاحی ریاست کے قیام کے تاریخی سفر کا ناقابلِ فراموش باب ہے۔
دستور کسی ریاست اور معاشرے میں بنیادی قانون کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ضابطہ، قوم کی دیرینہ روایات و اقدار، اس کے سیاسی اور اجتماعی عزائم اور منزلِ مراد کا آئینہ ہوتا ہے۔ یہ اس تصورِحیات، اجتماعی نظام اور تاریخی وژن کا امین ہوتا ہے جو ایک قوم اپنے مستقبل کے بارے میں رکھتی ہے، اور اس کی جڑیں معاشرے اور ریاست کے زمینی حقائق میں پیوست ہوتی ہیں۔ اس طرح ایک نظامِ کار اور نقشۂ راہ وجود میں آتا ہے، جو زندگی کے تمام پہلوئوں کی صورت گری میں اساسی کردارادا کرتا ہے۔ دستور اگر ایک طرف اس لنگر کے مانند ہے جو جہاز کو اس کے قیام میں استحکام فراہم کرتا ہے تو دوسری طرف یہ مملکت کی کشتی کے لیے اس چپو کا کردار بھی ادا کرتا ہے، جو کشتی کو اس کی منزل کی طرف کشاں کشاں لے جانے کی خدمت انجام دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دستور، ملک کے پورے نظام کے خطوط کار متعین کرتا ہے۔ ریاست اور قوم کے تشخص کا محافظ و نگہبان اور اس کے تمام کلیدی اداروں کے لیے واضح خطوط کار متعین کرتا ہے۔ اس میں یہ صلاحیت بھی ہونی چاہیے کہ بدلتے ہوئے حالات کا ساتھ دے سکے۔ نئے حقائق اور بدلتی اور نئی اُبھرتی ہوئی ضرورتوں کی روشنی میں مطلوبہ ہدایت اور رہنمائی فراہم کرنے کی خدمت انجام دے سکے۔ یہ ہے وہ ضرورت، جو دستوری ترمیم کے ذریعے پوری کی جاتی ہے۔ دنیا کے تمام ہی دساتیر اس امر پر شاہد ہیں کہ وہ ریاست کے مقاصد اور نظامِ حکومت کے بنیادی ڈھانچے کی حفاظت کا ضامن ہوتے ہیں۔ چونکہ اس کے ساتھ وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگی کی ضرورت باربار رونما ہوتی ہے، اس لیے ریاستی دساتیر ایک زندہ دستاویز کے طور پر ان ضرورتوں کی تشفی کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔
امریکا کے دستور میں گذشتہ دو صدیوں میں درجنوں ترمیمات کی گئی ہیں، جو بنیادی ڈھانچے کی حفاظت کے ساتھ وقت کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا ذریعہ بنی ہیں۔ یہی صورت دنیا کے دوسرے ممالک کے دساتیر کی بھی ہے، لیکن پاکستان میں بار بار کی فوجی مداخلت اور دستور کی چیرپھاڑ کے باعث ہمارا مسئلہ بالکل مختلف نوعیت اختیار کر گیا۔ ہمیں دو چیلنج درپیش تھے: ایک یہ کہ دستور کے بنیادی اہداف کی روشنی میں نئے حالات اور مسائل کے تقاضوں کو دستور کے فطری ارتقا کے عمل کا حصہ بنایا جائے۔ نیز یہ کہ گذشتہ ۳۷ برسوں میں دستور میں جو ناہمواریاں اور انمل بے جوڑ تبدیلیاں اربابِ اقتدار اور خصوصیت سے فوجی حکمرانوں نے محض قوت کے نشے میں اور بڑی حد تک ذاتی اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے کی ہیں، ان سے دستورِ پاکستان کو کس طرح پاک کیا جائے۔ یہ بڑا مشکل اور نازک کام تھا، جسے الحمدللہ پارلیمنٹ کی دستوری اصلاحات کی کمیٹی نے بڑی محنت اور حکمت سے انجام دیا۔ اس عمل کے نتیجے میں دستور کی ۹۵ دفعات میں ضروری ترامیم کی گئیں۔
ان سفارشات کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ جس طرح ۱۹۷۳ء کے دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو قومی اتفاق راے سے تمام سیاسی جماعتوں کے بھرپور تعاون اور مؤثر حصہ داری سے، افہام و تفہیم کے ذریعے تیار اور منظور کیا گیا تھا، تقریباً اسی طرح ساڑھے نو مہینے کی مسلسل مشاورت اور کوشش کے ذریعے اٹھارھویں ترمیم کو مرتب کیا گیا ہے۔ کمیٹی میں اتفاق راے پیدا کیا گیا اور پھر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے مکمل اتفاق راے سے انھیں منظور کیا۔ اس طرح یہ ترامیم اب دستور کا جزولاینفک بن گئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں دستورِ پاکستان ایک طرف ان حشو و زوائد اور متعدد ناہمواریوں اور تضادات سے پاک ہوگیا ہے، جو دو مارشل لا حکومتوں میں آٹھویں (۱۹۸۵ئ) اور سترھویں (۲۰۰۳ئ) ترامیم کے ذریعے اس میں داخل کر دی گئی تھیں۔ دوسری طرف ان ۳۷برسوں میں جو نئے مسائل اور نئی ضرورتیں سامنے آئیں، ان کی روشنی میں دستور کو اس کی اصل شکل اور روح کے مطابق نہ صرف بحال کیا گیا ہے بلکہ اس کے بنیادی ڈھانچے اور مقاصد کے مطابق مزید ارتقائی منزلوں سے ہم کنار کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ بلاشبہہ کوئی بھی انسانی کوشش ہراعتبار سے مکمل اور خطا سے پاک نہیں ہوسکتی لیکن اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ بحیثیت مجموعی اٹھارھویں دستوری ترمیم ایک مثبت پیش رفت ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرناچاہیے۔ البتہ، اس میں اب بھی جو خامیاں رہ گئی ہیں، یا جو امور مزید اصلاح طلب ہیں، یا جو دستوری مسائل حل طلب ہیں، ان کے لیے کوششیں جاری رکھی جائیں تاکہ ہمارے قدم آگے ہی بڑھتے رہیں۔
اس وقت دستور کے بارے میں دستوری کمیٹی، پارلیمنٹ اور پوری قوم کے سامنے بنیادی طور پر دو چیلنج تھے: پہلا یہ کہ دستور میں جو انمل بے جوڑ چیزیں داخل کر دی گئی ہیں، ان سے اس کو پاک کیا جائے۔ لیکن اس پورے عمل میں اگر کچھ چیزیں صحیح اور دستور کے فریم ورک اور مقاصد سے ہم آہنگ ہیں تو ان کو محض اس وجہ سے رد نہ کردیا جائے کہ انھیں دستور کا حصہ بنانے کا عمل خام یا ان کا وجود محلِ نظر تھا۔ اس لیے ضروری تھا کہ ایک طرف جو عمل غلط ہوا ہے، اس کے غلط ہونے کا ادراک ہی نہیں اعلان بھی ہو۔ دوسری طرف تعصب یا ہٹ دھرمی کے راستے سے دامن بچاتے ہوئے خذ ما صفاء ودع ما کدر (جو صحیح ہے اسے قبول کرلو اور جو نادرست ہے، اسے ترک کر دو) کے زریں اصول پر عمل کرتے ہوئے جو تبدیلیاں صحیح مقاصد کے حصول اور دستور کے مزاج اور فریم ورک سے مطابقت رکھتی ہیں، ان کو قبول کرلیا جائے___ اس پس منظر میں اگر آپ اٹھارھویں دستوری ترمیم کی شق ۲ اور شق ۹۵ (ترمیم شدہ دستوری دفعہ ۳۷۰ اے اے) کا مطالعہ کریں، تو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے نافذ کردہ ایل ایف او کو، جو ایک غلط اور ناجائز اقدام تھا، بجاطور پر غلط اور ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح سترھویں دستوری ترمیم کو جو خاص حالات میں منظور کی گئی تھی، اسے بھی دستور کی زبان میں کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ان میں جو چیزیں دستور کے فریم ورک سے ہم آہنگ یا وقت کی ضرورتوں کو پورا کرنے والی ہیں، ان کو جاری رکھا گیا ہے___کچھ کو تحفظ دے کر اور کچھ کو دوبارہ اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے دستور کا حصہ بناکر۔
اس خاص طریقِ کار کے ذریعے دو مقاصد حاصل کیے گئے ہیں: ایک یہ کہ اصل اقدام کے ناجائز ہونے کا اعلان دستور میں آجائے، تاکہ آیندہ کے لیے دستور میں اس طرح کی دراندازیوں کا دروازہ بند ہو۔ پھر اعلیٰ عدالتوں پر بھی واضح ہوجائے کہ ان کے جواز (validation) کو پارلیمنٹ نے رد کر دیا ہے۔ دوسری طرف قوانین کے تسلسل اور مناسب تبدیلیوں کو محض ضد اور عناد کی بنا پر رد نہیں کیا گیا، بلکہ ان کو حیاتِ نو دے دی گئی ہے، جس کے نتیجے میں ان کو مکمل قانونی جواز حاصل ہوگیا ہے۔
اس عملِ تطہیر اور تصحیح کے ساتھ دستوری کمیٹی نے تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو نئی تجاویز دینے، دستور کو تازہ دم کرنے اور نئے مسائل کی روشنی میں ترامیم کی نشان دہی کرنے کی دعوت دی۔ ۸۰۰ سے زیادہ تجاویز آئیں، جن کا جائزہ لیتے ہوئے، جو کچھ اس وقت ضروری اور قابلِ عمل سمجھا گیا، اسے اس جامع دستوری ترمیم کا حصہ بنایا گیا ہے۔
۱- ہم پورے دستور پر نظرثانی نہیں کر رہے اور نہ دستور کے بنیادی ڈھانچے اور فریم ورک ہی میں کوئی تبدیلی ہمارے پیش نظر ہے۔ ہم صرف ان دو ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے جو اُوپر بیان کی گئی ہیں۔
۲- اس کے لیے ضروری ہے کہ دستور کے فریم ورک کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔ پاکستان کا دستور تحریکِ پاکستان کے مقاصد کے پس منظر میں مرتب اور منظور کیا گیا ہے۔ ’قراردادِ مقاصد‘ (مارچ ۱۹۴۹ئ) اس فریم ورک کی بنیاد اور ماخذ ہے۔ پھر ۱۹۷۳ء کے دستور کو منظور کرنے والی دستورساز اسمبلی نے دستور کی بنیادوں کو واضح کر دیا ہے، جنھیں جو اس وقت کے صدرِ مملکت اور دستور ساز اسمبلی کے چیئرمین جناب ذوالفقار علی بھٹو نے دستور کے مسودے کے منظور ہونے کے موقع پر اپنے اختتامی خطاب میں اس طرح بیان کیا تھا:
بہت سے تنازعات کے بعد ۲۵ سال بعد ہم ایسے مقام پر آگئے ہیں جہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک دستور رکھتے ہیں اور کوئی اس بات سے انکارنہیں کرسکتا۔ یہ دستور پاکستان کے عوام کی مرضی کی نمایندگی کرتا ہے۔ کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جمہوریت کی کسی بھی تعریف کے مطابق یہ ایک جمہوری دستور ہے۔ کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ ایک وفاقی دستور ہے۔ کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ اسلامی دستور ہے۔ اس میں پاکستان کے کسی بھی سابقہ دستور یا دنیا کے دوسرے اسلامی ممالک کے دستور جہاں شاہی نظام ہے، زیادہ اسلامی دفعات ہیں۔
میرے دوستو! یہ دستور جو جمہوری ہے، جو وفاقی ہے اور اسلامی نظام کا جوہر اپنے اندر رکھتا ہے، اسلامی سیاسی نظام کا تحفظ کرتا ہے۔ یہ دستور عدلیہ کو آزادی فراہم کرتا ہے۔ یہ دستور شہریوں کو بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے۔ [نیشنل اسمبلی آف پاکستان (بحیثیت دستورساز اسمبلی) ۱۰؍اپریل ۱۹۷۳ئ، ص ۶۹-۲۴۶۸ سرکاری رپورٹ اور بحث، اپریل ۱۹۷۳ئ۔]
ا- دستور کی بنیاد اسلام اور اسلام کا دیا ہوا سیاسی نظام ہے، جس کی حفاظت اور جس پر عمل پہلا ہدف ہے۔
ب- دستور جمہوری ہے، جو پارلیمانی نظامِ حکومت کے اصول پر قائم ہے۔
ج- دستور ایک وفاقی نظام کا تصور پیش کرتا ہے۔
د- بنیادی حقوق کی حفاظت اس دستور کا ایک ناقابلِ تنسیخ پہلو ہے۔
ہ- عدلیہ کی آزادی دستور کا پانچواں ستون ہے۔
ان پانچوں بنیادوں کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے بار بار دستور کا بنیادی فریم ورک قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس حمودالرحمن نے قرارداد مقاصد کو اپنے اس تاریخی فیصلے میں grund-norm [معروف و مقبول ضابطہ] قرار دیا تھا، جس میں جنرل محمد یحییٰ خان کے اقتدار کو غاصبانہ اور ناجائز قبضہ قرار دیا گیا تھا۔ پھر عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے میں، جس میں جنرل پرویز مشرف کے اقدام کو جواز بخشا گیا تھا، اور اسے دستوری ترمیم کا حق بھی بن مانگے عطا کردیا گیا تھا، تاہم یہ بھی واضح کر دیا گیا تھا کہ یہ پانچوں اصول دستور کا بنیادی ڈھانچا ہیں اور ان میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح سپریم کورٹ نے اپنے ۳۱ جولائی ۲۰۰۹ء کے فیصلے میں دستور کے بنیادی ڈھانچے کو ان اصولوں سے عبارت قراردیا ہے اور عدالت عظمیٰ کا یہی احساس ۱۶دسمبر ۲۰۰۹ء کے فیصلے میں بھی پوری شان سے نظر آتا ہے۔
کمیٹی نے ایک اولیں اصول یہ طے کیا: اگرچہ اس کے سامنے ’میثاقِ جمہوریت‘ اور تمام سیاسی جماعتوں کی تجاویز رہیں گی، لیکن اس کا سارا کام دستور کے اس فریم ورک کے اندر ہوگا۔ ترامیم کا رد و قبول اس کسوٹی پر ہوگا۔ کمیٹی نے اپنے دائرۂ کار کا اس طرح تعین کیا:
کمیٹی سترھویں ترمیم، میثاقِ جمہوریت اور صوبائی خودمختاری کو پیش نظر رکھ کر ترامیم تیار کرے گی تاکہ پاکستان کے عوام کی جمہوری اور اسلامی تمنائیں پوری ہوسکیں۔
دستوری کمیٹی نے دوسرا اصول یہ متعین کیا کہ حتی الوسع کوشش ہوگی کہ تمام ترامیم اور تجاویز اتفاق راے سے مرتب کی جائیں، اور اگر یہ ممکن نہ ہو، تو پھر کمیٹی کی کل تعداد کے دو تہائی سے فیصلہ ہوگا جسے اختلاف کرنے والے ارکان اکثریت کے فیصلے کے طور پر قبول کرلیں گے، البتہ انھیں اختیار ہوگا کہ اپنی اصولی اور ’پارٹی پوزیشن کو اعادۂ موقف کے نوٹ‘ (note of reiteration) کے ذریعے ظاہر کر دیں اور مستقبل میں اپنے موقف کے حصول کے لیے کوشش کا حق محفوظ رکھیں۔ بظاہر یہ صرف لفظی کھیل نظر آتا ہے، لیکن حقیقت میں اتفاق اور تعاون کے ایک نئے ماڈل کو ترویج دینے کے لیے اختلافی نوٹ (note of dissent) کے بجاے سب نے اعادۂ موقف کی اصطلاح کو اختیار کیا۔
دستوری کمیٹی نے اپنی تمام کارروائیوں کو بند کمرے کی کارروائی اس لیے رکھا کہ تمام جماعتیں پوری آزادی کے ساتھ افہام و تفہیم کے عمل کو آگے بڑھا سکیں، اور وقت سے پہلے بحث و مباحثے کا بازار گرم نہ ہو۔ اس ذیل میں صرف اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری کے مسئلے کو استثنا حاصل رہا۔ یہ اسی طریق کار کا نتیجہ تھا کہ اختلافات کے باوجود بڑے بنیادی امور کے بارے میں کمیٹی متفقہ تجاویز مرتب کرسکی اور پارلیمنٹ کی متفقہ منظوری کے ۱۹۷۳ء کے دستور کی ۲۸۰ میں سے ۹۵ دفعات میں مکمل اتفاق راے کے ساتھ تبدیلی کا عمل ممکن ہوسکا۔
اٹھارھویں دستوری ترمیم کا سب سے بڑا نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعے مکمل اتفاق راے سے ۱۹۷۳ء کے دستور کو اس کے بنیادی ڈھانچے کی مکمل حفاظت اور مزید مضبوطی اور وسعت دینے کے ساتھ ۲۰۱۰ء کی ضرورتوں اور تقاضوں سے ہم آہنگ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں تقسیم اختیارات اور توازن کے سہ کونی انتظام (triconomy of power) کے بنیادی اصول کی پاسداری کی گئی ہے۔ تمام اداروں کو دستور کے فریم ورک میں اور دستور سے اختیارات حاصل کرنے والے اداروں کی حیثیت سے، اپنے اپنے وظیفے اور ذمہ داری کو ادا کرنے کے لائق بنایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ایک مشکل اور حساس مسئلے، یعنی مرکز اور صوبوں میں اختیارات اور ذمہ داریوں کی تقسیم کو نئے حالات کی روشنی میں ایک متفق علیہ فارمولے کی شکل دے کر منظوری دی گئی ہے، جس کا مرکزی تصور ملکیت، انتظام، نگرانی اور احتساب میں شراکت ہے۔
اس نئے مثالیے (paradigm) کے نتیجے میں ملک کو ایک ’مرکزیت کے حامل وفاق‘ (centralized federation) کے تصور سے ہٹ کر ایک ’باہم شراکت کے حامل وفاق‘ (participatory federation) کے تصور کی طرف لایا گیا ہے، جو اٹھارھویں ترمیم کا فی الحقیقت ایک اہم کارنامہ ہے۔ اگر اس تصور پر صحیح صحیح عمل ہو تو مرکز اور صوبوں میں جو کھچائو، بے اعتمادی بلکہ تصادم کی فضا بن رہی تھی، وہ ان شاء اللہ تعاون اور اعتماد میں تبدیل ہوجائے گی، اور اس طرح مرکز اور صوبوں کے درمیان زیادہ یک جہتی پیدا ہوسکے گی۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی متوقع ہے کہ مرکز گریز یا علیحدگی پسندی کی تحریکات اور غیرجمہوری راستے اختیار کرنے کے جو رجحانات سر اُٹھا رہے تھے، وہ ختم ہوسکیں گے۔ یوں معاشرے کے تمام عناصر کو جمہوری عمل کا حصہ بناکر اختیارات کی شراکت کے ذریعے ایک ایسے نظام کو فروغ دیا جاسکے گا، جس میں سب ایک ٹیم بن کر اپنا اپنا کردار ادا کرسکیں گے۔ اس طرح صوبوں کی مضبوطی اور خوش حالی کے ذریعے پورے ملک کی مضبوطی، استحکام اور خوش حالی کا حصول ایک حقیقت بن سکے گا۔ مگر یہ سب کام خلوصِ نیت، احساسِ ذمہ داری، ایثارکیشی اور پاکستانیت کے حقیقی شعور کے ساتھ ہی ممکن العمل ہے۔ اور اصل چیزیں اصولوں اور ضابطوں پر عمل ہے، محض انھیں کتاب دستور کا حصہ بنانا کافی نہیں۔
اٹھارھویں ترمیم کے پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر منظور ہونے کا ایک اور تاریخی اثر یہ ہے کہ اب دستور میں جو بھی ہے، اسے پوری پارلیمنٹ اور قوم کی تائید حاصل ہے۔ جنرل محمدضیا الحق کے نام اور ریفرنڈم کے ذریعے صدر بننے کے ذکر کو دستور سے خارج کرنے اور جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم اور اقتدار کے جواز سے دستور کے اوراق کو پاک کرنے کا جو مثبت قانونی نتیجہ رونما ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ آٹھویں اور سترھویں ترامیم کے جن اجزا کو دستور میں رکھا گیا ہے، وہ پاکستان کی پارلیمنٹ اور قوم کی مکمل تائید سے دستور کا مستقل حصہ بن گئی ہیں اور اب اس کی حفاظت کی ذمہ داری مکمل طور پر پارلیمنٹ اور پاکستانی قوم پر آتی ہے۔ ایسی تمام دفعات اب کسی آمرمطلق کے نشاناتِ جبر اور کسی عدالت کے جواز کا حاصل نہیں رہے، بلکہ ۱۹۷۳ء کے دستور کا جائز اور مبنی برحق حصہ بن گئے ہیں اور ان پر انگشت نمائی کا کوئی جواز باقی نہیں رہا، جو ایک خاص طبقے کا معمول بن گیا تھا۔
اس سلسلے میں دستور کی دفعہ ۲ (الف) جس کے ذریعے ’قرارداد مقاصد‘ کو دستور کا قابلِ تنفیذ حصہ بنایا گیا تھا، دفعات ۶۲ اور ۶۳ میں جو تبدیلیاں کی گئی تھیں اور دستور کا باب ۳-الف بہ سلسلہ وفاقی شرعی عدالت اور اس کی متعلقہ دفعات ۲۰۳-اے سے لے کر ۲۰۳-جے تک فوجی آمر کے سایے سے آزاد ہوکر دستور کی باقی دفعات کی طرح پارلیمنٹ کا فیصلہ قرار پائیں ہیں۔ یہاں پریہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ایل ایف او اور سترھویں دستوری ترمیم کو تو منسوخ کیا گیا ہے، مگر اس کے برعکس آٹھویں ترمیم سے بالکل مختلف معاملہ کیا گیا ہے۔ اسے صرف ۱۹۸۵ء کی پارلیمنٹ کی توثیق ہی کی بنا پر نہیں، بلکہ ۱۹۸۸ء سے لے کر ۱۹۹۹ء تک کی پارلیمنٹوں کی تائید اور توثیق کی بنیاد پر، ۲۰۱۰ء کی ترمیمات کے ذریعے مکمل سندِجواز اور دستور کی باقی دفعات کے ہم رنگ قرار دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ خود ’میثاقِ جمہوریت‘ میں ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء کی شکل میں دستور کی بحالی کے مطالبے میں بھی اس امرواقعی کو امرقانونی کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔
اٹھارھویں ترمیم کے بعد دستور اب ایک مکمل یک جان، یک روح وجود کی حیثیت اختیار کرگیا ہے، اور یہ تجدیدِ عہد دراصل سیکولر لابی کی بڑی شکست ہے، وہ لابی کہ جس نے اس پورے عرصے میں ان دفعات کو نشانہ بنایا ہوا تھا اور خود کمیٹی کے کام کے دوران میں بھی اس طبقے نے انھیں سبوتاژ کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ ان کی کوشش تھی کہ: اسلامی دفعات میں جو اضافے ہوئے ہیں، ان کو کسی طرح ختم یا کم از کم تحلیل (dilute) کریں، لیکن الحمدللہ وہ اپنی اس کوشش میں ناکام ہوئے۔
ہم نے ان صفحات میں اٹھارھویں ترمیم کے تین نمایاں قانونی، اخلاقی اور سیاسی پہلوئوں کا ذکر کیا ہے یعنی (۱) ان کا مکمل اتفاق راے سے منظور کیا جانا (۲) اسلامی دفعات کو دستور کے وجود کا جزولاینفک (Integral) بنانا، اور (۳) صوبائی خودمختاری کے ایک نئے ماڈل کو دستوری شکل دینا۔ یہ دستوری کمیٹی، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایک عظیم خدمت ہے۔ ایسی خدمت جو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی جائے گی اور اس کے نتیجے میں ۱۹۷۳ء کے دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان نے ۲۰۱۰ء میں ایک زیادہ محکم، واضح اور نکھری شکل اختیار کرلی ہے۔ توقع ہے کہ مستقبل کی منزلوں کو طے کرنے میں یہ دستور اپنی اس ارتقا یافتہ شکل میں زیادہ مؤثر کردار ادا کرسکے گا۔
پاکستان کی دستوری تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ایک افسوس ناک صورت حال سامنے آتی ہے۔ وہ دستور ساز اسمبلی جسے ۱۹۴۶ء کے انتخابات میں منتخب کیا گیا تھا، اس کے سپرد حصولِ آزادی کے بعد دستور بنانا تھا، مگر افسوس کہ اسے قرارداد مقاصد کو منظور کرنے کے بعد دستور بنانے سے محروم رکھا گیا۔ پھر جب بڑی سخت جدوجہد کے بعد۱۹۵۴ء میں دستور کا مسودہ دستورساز اسمبلی میں لانے کا موقع آیا تو اس اسمبلی ہی کو غیرقانونی طور پر تحلیل کردیا گیا۔ پھر اس کی جگہ ایک نئی اسمبلی نے ۱۹۵۶ء میں پہلا دستور بنایا تو اس دستور کے تحت انتخابات کے انعقاد سے چند ماہ قبل اس دوسری دستورساز اسمبلی کو بھی تحلیل اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے متفقہ دستور کو منسوخ کردیا گیا اور بے رحم فوجی راج کا تاریک دور شروع ہو گیا۔
۱۹۶۲ء میں، وقت کے فوجی آمر نے ایک دستور مسلط کیا، جس سے قرارداد مقاصد حذف کردی گئی تھی اور جمہوریہ کے نام سے بھی ’اسلامی‘ کا لفظ نکال دیا گیا تھا، مگر عوامی دبائو کے تحت دوسال ہی کے اندر ان دونوں اسلامی دفعات کو بحال کرنا پڑا۔ البتہ ملک کا دستوری نظام، پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام میں تبدیل کر دیا گیا۔ فیڈریشن کا نام تو باقی رہا مگر عملاً وحدانی (unitary) نظام ملک پر مسلط کر دیا گیا۔ جنرل آغا یحییٰ خان نے جنرل ایوب خان کے دستور ۱۹۶۲ء کو منسوخ کردیا اور ایک نئی دستورساز اسمبلی وجود میں لانے کے لیے عام انتخابات کا انعقاد کرایا۔ یہ دستور ساز اسمبلی بدقسمتی سے پورے پاکستان کی جگہ صرف مغربی پاکستان کے لیے دستور بناسکی، کیونکہ ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء کو بھارتی جارحیت اور بنگلہ قوم پرستی کے مشترکہ عمل سے مشرقی پاکستان الگ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا تھا۔
ان مایوس کن حالات میں ۱۹۷۳ء کا دستور بنانا ایک بہت بڑی کامیابی تھی، مگر اس پر دیانت داری کے ساتھ عمل کرنے سے حکمرانوں نے پہلوتہی اختیار کیے رکھی۔ بلکہ پہلی سات میں سے چھے ترامیم ایسی تھیں، جن کے ذریعے دستور کے بنیادی ڈھانچے کو مجروح کیا گیا۔ صرف دوسری ترمیم کو استثنا حاصل ہے جس کے ذریعے ’مسلم ‘کی تعریف کی گئی اور وہ پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر منظور ہوئی۔ باقی تمام ترامیم کی پوری اپوزیشن نے مخالفت کی اور انھیں محض عددی قوت کے بل بوتے پر زبردستی دستور کا حصہ بنایا گیا۔ آٹھویں ترمیم اور پھر سترھویں ترمیم کے ذریعے پارلیمانی نظام کو عملاً نیم صدارتی نظام میں تبدیل کر دیا گیا۔ صدر مملکت کو نہ صرف پارلیمنٹ کاحصہ بنایا گیا، بلکہ اسے اسمبلی توڑنے اور اہم ترین تقرریوں کا اختیار بھی دے دیا گیا جس سے عملاً صدر کو چیف ایگزیکٹو کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ اٹھارھویں ترمیم کا اوّلیں ہدف دستور کو پارلیمانی نظام کی شکل میں لانا تھا۔ نیز ملک کو ایک ایسے وفاقی نظام کی صورت دینا تھا، جس میں مرکز اور صوبے اختیارات اور ذمہ داریوں میں حقیقی شراکت کرسکیں، مزید یہ کہ ۳۷سال کے تجربات کی روشنی میں دستور کو نئے حالات سے نمٹنے کے لائق بنانا تھا، تاکہ مملکت کے قیام کے مقاصد کو بہتر انداز میں حاصل کیا جاسکے۔
پارلیمانی نظام کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں فیصلوں، قانون سازی اور جواب دہی کا مکمل اختیار پارلیمنٹ کو حاصل ہوتا ہے۔ انتظامیہ، پارلیمنٹ میں سے وجود میں آتی ہے اور پارلیمنٹ کے سامنے پوری طرح جواب دہ ہوتی ہے۔ وزیراعظم کاانتخاب قومی اسمبلی کرتی ہے، جو بالغ حق راے دہی کی بنیاد پر براہِ راست منتخب ہوتی ہے اور وہی اسمبلی وزیراعظم پر عدمِ اعتماد کا اظہار کرسکتی ہے۔ مملکت کا انتظام، کابینہ کے ذریعے ہوتا ہے جسے پارلیمنٹ ہی میں سے مقرر کیا جاتا ہے اور وہ ’اجتماعی جواب دہی‘ کے اصول پر کام کرتی ہے۔ اہم تقرریاں وزیراعظم کے مشورے کے مطابق کی جاتی ہیں اور صدرمملکت کی حیثیت بڑی حد تک علامتی ہوتی ہے، جس کے لیے اس کا غیرجانب دار ہونا بھی ضروری تصور کیا جاتا ہے۔ کاروبارِ حکومت بالعموم صدر کے نام پر ہوتا ہے، اس لیے کہ وہ ریاست کی علامت اور وفاق کی شناخت تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن عملاً حکومت کی ذمہ داری کابینہ انجام دیتی ہے، جو وزیراعظم، وزرا اور وزراے مملکت پر مشتمل ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ پارلیمانی نظام میں اس بات کا خطرہ رہتا ہے کہ وہ کہیں وزیراعظمی نظام نہ بن جائے۔ اس کے لیے وزیراعظم کو بھی اداراتی مشاورت کے نظام کا پابند کیا جاتا ہے اور ’صواب دیدی اختیارات‘ کو جس حد تک ممکن ہو محدود کیا جاتا ہے۔ فیصلہ سازی اور تقرریوں کے عمل کو زیادہ سے زیادہ شفاف اور اہلیت کے مطابق بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، تاکہ اختیارات کا ارتکاز نہ ہو اور افراد اور اداروں کے درمیان توازن قائم رہ سکے۔
ان مقاصد کے حصول کے لیے ضروری تھا کہ صدر نے جو اختیارات آٹھویں اور سترھویں ترامیم کے ذریعے حاصل کرلیے ہیں، ان کو بطریق احسن وزیراعظم، کابینہ اور پارلیمنٹ کی طرف منتقل کیا جائے، اور ان سے وابستہ تصورات کوغیرمبہم بنانے کے لیے الفاظ بھی وہ استعمال کیے جائیں، جو توازن اختیارات کو حقیقی بناسکیں۔
۱- نمایاں ترین چیز دستور کی دفعہ ۵۸ (۲) ب کی تنسیخ ہے، جس کے ذریعے صدر کو مرکز میں اور صوبوں میں اس کے نمایندہ گورنر کو اسمبلیاں توڑنے کا اختیار دیا گیا تھا (۱۱۲ (۲) ب)۔ بلاشبہہ آٹھویں ترمیم میں صدر کے اس اقدام کو عدالت میں قابلِ مواخذہ بنایا گیا تھا، اور سترھویں ترمیم میں ایسے اقدام کو آپ سے آپ سپریم کورٹ کے ’جائزے‘ (ریویو) کا پابند کر دیا گیا تھا، مگر اصل چیز صدر کا وہ صواب دیدی اختیار تھا، جو اسمبلیوں پر تلوار کی طرح لٹک رہا تھا۔ اب اس اختیار کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔
۲- صدر کو اپنے صواب دیدی اختیار سے مسلح افواجِ پاکستان کے تینوں سربراہوں اور جوائنٹ چیف کے تقرر کا اختیار تھا، وہ اَب وزیراعظم کو منتقل ہوگیا ہے۔ اسی طرح چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے ارکان، اور عبوری حکومت کے سربراہ کا تقرر کا اختیار بھی صدر کو حاصل ہوگیا تھا، لیکن اب اٹھارھویں ترمیم کے تحت یہ تقرریاں وزیراعظم کے ہاتھوں ایک پارلیمانی انتظام کی مشاورت سے واقع ہوں گی۔ گورنروں کے تقرر میں بھی اب وزیراعظم کا مشورہ فیصلہ کن ہوگا۔ اسی طرح ججوں کے تقرر کا بھی نیا نظام تجویز کیا گیا ہے۔ پبلک سروس کمیشن کا سربراہ بھی اب وزیراعظم کے مشورے پر مقرر کیا جائے گا۔
۳- آٹھویں ترمیم کے ذریعے وزیراعظم کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ صدرِ مملکت کو کابینہ کے تمام فیصلوں اور جملہ انتظامی امور اور قانون سازی کی تجاویز کے بارے میں مطلع رکھے، اور صدر کو بھی یہ اختیار تھا کہ وہ کابینہ سے اس کے کسی بھی فیصلے یا کسی بھی دوسرے امر کے بارے میں ازسرِنو غور کا مطالبہ کرسکتا تھا۔ ان تمام حصوں کو اب حذف کردیا گیا ہے، اور اس کے لیے ایک جامع دفعہ رکھی گئی ہے، جس کے تحت وزیراعظم تمام ملکی اور بیرونی امور پر صدر کو عمومی طور پر مطلع رکھے گا۔ مگر محض صدر کے ایما پر کوئی مسئلہ زیرغور نہیں آئے گا۔
۴- ایک اہم تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ دفعہ ۹۹ میں انتظامِ حکومت، صدر کے بجاے مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔ ایسی ہی تبدیلی گورنر اور صوبائی حکومت کے ذیل میں بھی کی گئی ہے۔ نیز حکومت کی جانب سے ’حکومتی قواعد کار‘ (rules of business) مرتب کرنے اور ان میں تبدیلی لانے کی ذمہ داری بھی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو حاصل ہوگئی ہے، جن کے سربراہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ہوں گے۔ صدر یا گورنر کا دخل اس باب میں بھی ختم کردیاگیا ہے۔
۵- دستور کی دفعہ ۴۸ میں صدر کو وزیراعظم کے مشورے پر ۱۵اور ۱۰ دن کے اندر اندر عمل کرنے کا پابند کردیا گیا ہے۔ ایسی ہی پابندی گورنر پر بھی عائد کی گئی ہے۔
۶- صدر کو ریفرنڈم کا جو صواب دیدی اختیار حاصل تھا، اب وہ بھی ختم کردیا گیا ہے، بلکہ کسی ایسے فیصلے کے لیے وزیراعظم کو بھی پارلیمنٹ کے مشترک اجلاس کی تائید کا پابند کیا گیا ہے۔
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح صدر کے اختیارات کو محدود اور اس کے مقابلے میں وزیراعظم اور پارلیمنٹ کے اختیارات کو مضبوط کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ وزیراعظم پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے، جب کہ صدر کی پارلیمنٹ کے سامنے کوئی جواب دہی نہیں ہے۔ وہ صرف ہر سال سیشن کے آغاز پر پارلیمنٹ سے خطاب کرتا ہے اور پارلیمنٹ اگر چاہے تو اس کا مواخذہ کرسکتی ہے، لیکن صدر کی عمومی جواب دہی کا کوئی نظام نہیں ہوتا۔
صدر آصف علی زرداری صاحب بار بار یہ احسان جتا رہے ہیں کہ: ’’میں نے پارلیمنٹ کو اور وزیراعظم کو اپنے اختیارات منتقل کر دیے ہیں‘‘۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ فوجی صدور نے یہ اختیارات جبراً حاصل کیے تھے اور ان غصب شدہ اختیارات کی واپسی ’میثاقِ جمہوریت‘ اور تمام سیاسی جماعتوں بشمول پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے منشور کا بنیادی حصہ تھا۔ اٹھارھویں ترمیم، صدر زرداری صاحب کا عطیہ نہیں ہے بلکہ عوامی مینڈیٹ کو پورا کرنا ہے۔ صدرموصوف نے دو سال تک ان اختیارات کی منتقلی میں مسلسل لیت و لعل کی، جس کی جواب دہی ان کو کرنا چاہیے، نہ کہ وہ اب دو سال بعد اس تبدیلی کو اپنا ذاتی احسان قرار دیں۔
واضح رہے کہ تیرھویں ترمیم کے موقع پر بھی یہ اختیارات اس وقت کے صدر جناب فاروق احمد خاں لغاری سے وزیراعظم کو منتقل ہوئے تھے اور صدر مملکت نے بخوشی اس ترمیم پر دستخط کردیے تھے، تب انھوں نے کوئی احسان نہیں جتایا تھا۔
پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام اور اہم تقرریوں کو خود وزیراعظم کے صوابدیدی اختیار کے دائرے سے نکال کر اداراتی مشاورت کے ذریعے انجام دینے والے نظام کا اختیار کیا جانا، اٹھارھویں ترمیم کے حوالے سے یہ ایک اہم تبدیلی ہے۔ اس کے لیے جو نیا نظامِ کار اختیار کیا گیا ہے، وہ پارلیمنٹ کو زیادہ کارفرما قوت بنانے اور وزیراعظم کے اختیارات کو محدود کرنے کا باعث ہوگا:
۱- سب سے اہم تبدیلی الیکشن کمیشن کے تصور اور اس کے تقرر کے طریق کار میں ہے، جس کے نتیجے میں الیکشن کا نظام زیادہ غیر جانب دار اور شفاف ہوسکے گا، جو جمہوریت کی روح ہے۔ اس سلسلے میں پہلی تبدیلی یہ ہے: اب الیکشن کمیشن ایک مستقل ادارہ ہوگا اور اس میں مرکزی کردار صرف الیکشن کمشنر کا نہیں بلکہ پورے کمیشن کا ہوگا، جو چیف الیکشن کمشنر اور چار ججوں پر مشتمل ہوگا، اور وہ چاروں صوبوں سے لیے جائیں گے۔ ان کا تقرر وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف باہمی مشورے سے کریں گے اور وہ تین نام ایک پارلیمانی کمیٹی کو دیں گے، جو ۱۲ افراد پر مشتمل ہوگی، جس میں ایک تہائی ارکانِ سینیٹ ہوں گے اور یہ کمیٹی تجویز کردہ ناموں میں سے ایک کا انتخاب کرے گی۔ اسی طرح کمیشن کا تقرر پانچ سال کے لیے ہوگا اور اس میں توسیع نہیں ہوسکے گی۔
۲- پبلک سروس کمیشن کے سربراہ کا تقرر بھی وزیراعظم، قائد حزب اختلاف کے مشورے سے کرے گا۔ یوں، الیکشن کے نظام کو شفاف اور قابلِ اعتماد بنانے اور سروسز کے انتخاب کے عمل کو حکومتِ وقت کی گرفت سے نکالنے اور معیار و قابلیت کے نظام کو ترویج دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
۳- اسی طرح ججوں کے تقرر کے نظام کو ہرسطح کے ’صواب دیدی اختیار‘ سے پاک کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سب سے سینیر جج کے چیف جسٹس بننے کے اصول کے تسلیم کیے جانے اور اس اہم ترین تقرری میں انتظامیہ کی مداخلت کو ختم کر دیا گیا ہے۔ نئے ججوں کے تقرر کر لیے برتری عدالت کو حاصل ہے، جس میں عدالتی کمیشن کا سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان ہوگا۔ اس میں سپریم کورٹ کے دو سب سے سینیر جج اور سپریم کورٹ کا ایک ریٹائرڈ چیف جسٹس یا جج ہوگا، جسے چیف جسٹس آف پاکستان باقی دو ججوں کے مشورے سے مقرر کریں گے۔ باقی تین افراد وزیرقانون، اٹارنی جنرل اور سپریم کورٹ کا ایک سینیرایڈووکیٹ جسے پاکستان بار کونسل نامزد کرے گی۔ اس طرح سات میں سے چار جج ہوں گے۔ یہ عدالتی کمیشن، نئے ججوں کے لیے جو نام تجویز کریں گے، وزیراعظم اپنے صواب دیدی اختیار سے تقرر کے لیے صدر کو نہیں بھیجیں گے، بلکہ ایک پارلیمانی کمیٹی کو بھیجیں گے، جس میں چار ارکان حکومتی پارٹی سے اور چار حزبِ اختلاف سے ہوں گے۔ نیز اُن میں سے چار قومی اسمبلی اور چار سینیٹ کے ارکان ہوں گے، جنھیں ۱۴ دن کے اندر اندر تجویز کردہ نام کی توثیق کرنا ہوگی اور صرف تین چوتھائی اکثریت سے انھیں نام رد کرنے کا اختیار ہوگا۔ گویا کہ اس طرح ہرسطح پر صواب دیدی اختیار کو ختم کرکے اداراتی مشاورت کا نظام قائم کیا جا رہا ہے اور نئے ججوں کے ناموں کا اوّلیں انتخاب عدلیہ کے توسط سے ہوگا۔
اٹھارھویں ترمیم کی اس تجویز پر کچھ حلقوں کی طرف سے سخت اعتراضات کیے جارہے ہیں اور اسے عدلیہ کی آزادی کے تصور سے بھی متصادم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان اعتراضات کا مختصر جائزہ لے لیا جائے:
پہلی اصولی بات یہ ہے کہ عدلیہ کی آزادی اور عدالت کے لیے ججوں کا تقرر دو الگ الگ امور ہیں۔ عدلیہ کی آزادی کا عمل ججوں کا عدلیہ کا حصہ بننے کے بعد شروع ہوتا ہے، اس کا تعلق ججوں کے تقرر سے نہیں۔ ججوں کے تقرر میں دو ہی چیزیں دیکھی جاتی ہیں: ایک قابلیت، دوسرے کردار، دیانت داری اور راست بازی___ عدلیہ کی آزادی کی ایک قابلِ ذکر مثال امریکا سے سامنے آتی ہے۔ یاد رہے امریکا میں ججوں کا تعین صدرِ مملکت کی تجویز پر سینیٹ کے ذریعے ہوتا ہے، لیکن تقرر کے اس طریقے کو آج تک کسی نے عدلیہ کی آزادی سے متصادم قرار نہیں دیا اور عدلیہ نے بھی اپنی آزادی کو برقرار رکھا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ دنیا کے دوسرے جمہوری ممالک میں ججوں کے تقرر کے طریق کار میں پارلیمنٹ کا کردار ایک واضح حقیقت ہے۔ جرمنی میں تومرکزی اور صوبائی اسمبلیاں باقاعدہ ووٹ سے ان کو منتخب کرتی ہیں۔ فرانس، اٹلی، ہالینڈ، جنوبی افریقہ، سنگاپور، تقریباً ۲۰ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں وزیرقانون، پارلیمنٹ کے نمایندوں اور قانون سے وابستہ اداروں کے نمایندوں کا اس میں دخل ہے لیکن اسے کہیں بھی عدلیہ کی آزادی سے متصادم قرار نہیں دیا گیا اور نہ ججوں کے کسی بھی عمل کے ذریعے منتخب یا مقرر ہوجانے کے بعد انھوں نے اپنی آزاد حقیقت کو مجروح ہونے دیا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ ججوں کے تقرر کے سلسلے میں پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو بدقسمتی سے صرف چیف جسٹس کی سفارش پر تقرر، یا وزیراعظم اور وزیرقانون کی تجویز پر تقرر، دونوں ہی کا ریکارڈ کوئی بہت قابلِ فخر مثال پیش نہیں کرتا۔ سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ صاحب نے اپنی خودنوشت میں خود اپنے تقرر کا جو احوال بیان کیا ہے، اور اس میں خود زرداری صاحب کا کردار ناقابلِ رشک رہا ہے۔ اسی طرح خود ’ججوں کے کیس‘ (۱۹۹۶ئ) نے جو ایک کلاسیک حیثیت حاصل کرچکا ہے، جو معیار مقرر کیا تھا، اس پر اس فیصلے دینے والے جج بھی پورے نہیں اُتر رہے تھے۔
ان حالات میں ایک نئے تجربے کی تجویز کو ابتدا ہی میں اس طرح مطعون کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ اس پر تجربے کی ضرورت ہے اور اگر تجربے کی روشنی میں کسی رد و بدل کی ضرورت ہو تو اس کا دروازہ بھی کھلا ہے۔ خود پاکستان بار کونسل نے کمیٹی کو جو تجویز بھیجی تھی، اس میں ۱۹افراد پر مشتمل کمیشن کی تجویز دی گئی تھی، جن میں سے سات جج اور چھے وکیل اور چھے ارکانِ پارلیمنٹ رکھے گئے تھے۔ گویا اس کمیشن میں جج اقلیت میں ہوتے اور وکیل اور پارلیمنٹ کے ارکان سات ججوں کے مقابلے میں ۱۲ بن جاتے ہیں۔ اگر پارلیمنٹ کے چھے ارکان کو اس کمیشن میں رکھا جاسکتا ہے تو ایک پارلیمانی کمیٹی کے بننے سے کون سی انہونی ہو جائے گی۔
اس مسئلے پر جذباتی، گروہی یا طبقاتی انداز میں غور نہیں ہونا چاہیے اور اٹھارھویں ترمیم کی تجویز پر کھلے دل سے عمل کرنا چاہیے۔ بلاشبہہ پارلیمنٹ کی کمیٹی کی بھی ذمہ داری بہت بڑی ہے اور پارلیمنٹ کے ارکان کو میرٹ اور اصول پرستی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، لیکن چشم زدن میں اس نظام کو دستور کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم قرار دینا مبالغہ آمیز حد تک زیادتی ہے۔
اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے عدلیہ کی آزادی کو زیادہ مؤثر بنانے کی تجاویز دی گئی ہیں، اور اس سلسلے میں دستور کی دفعہ ۲۰۰ اور ۲۰۳ میں جو ترامیم کی گئی ہیں، ان سے ان شاء اللہ عدلیہ مستحکم اور آزاد ہوگی اور ججوں کے تبادلوں کے سلسلے میں اگر وہ دو سال سے کم مدت کے لیے ہو تو ان کی مرضی کے خلاف تبادلہ اور تبادلہ قبول نہ کرنے پر ریٹائرمنٹ، عدلیہ کی آزادی کے اصول کے خلاف تھا اور اسے اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے ختم کیا گیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے ججوں کو جس طرح بے توقیر کیا گیا تھا، ان کا تقرر، تبادلہ، برخاستگی جیسی ذلت آمیزی اور ان کو اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے، بطور سزا ان کی مرضی کے بغیر ان کو اس عدالت میں بھیجنے کے تمام امکانات کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے جج اب عدالت عالیہ کے باقی تمام ججوں کے مساوی ہوں گے اور ان کو وہی تحفظ حاصل ہوگا جو دوسروں کو حاصل ہے۔ جس کے بغیر عدلیہ کی آزادی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ یہ تمام پہلو مثبت ہیں اور ان کو نظرانداز کرنا قرینِ انصاف نہیں۔
اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے عوام کے بنیادی حقوق کو مضبوط اور مستحکم کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم تبدیلی دستور کی دفعہ ۲۵-اے کا اضافہ ہے، جس کی رُو سے اب ملک کے ہر بچے کے لیے بنیادی تعلیم (۵ سے ۱۶ سال تک) مفت اور لازمی قرار دی گئی ہے اور یہ حق حاصل کیا جاسکے گا۔ یہ محض پالیسی کی سفارش نہیں ہے۔ اسی طرح حصولِ اطلاعات کا حق بھی کرپشن کو روکنے کے نظام کو شفاف بنانے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔اسی طرح right to fair trial and dur process of law پہلی مرتبہ ایک دستوری حق کے طور پر کتابِ دستور میں لکھا گیا ہے۔ دستور توڑنے یا معطل کرنے یا اس میں معاونت کرنے والوں اور اس عمل کو سندِجواز دینے والوں کو دستور کی دفعہ ۶ کی گرفت میں لایا گیا ہے۔ بلاشبہہ صرف دستور میں ’غداری کا ارتکاب‘ جیسے الفاظ کے اندراج سے فوجی طالع آزمائوں اور ان کے سیاسی اور خود عدالتی پشتی بانوں کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس جرم کے ان تمام پہلوئوں کے دستور میں آنے کا ایک ’سدِجارحانہ‘ (deterrent) کردار ضروری ہے۔ البتہ آمریت کا راستہ روکنے کا اصل ذریعہ تو راے عامہ کی قوت، اداروں کا استحکام، سیاسی جماعتوں کا اپنی ذمہ داری کو پورا کرنا، اور سب سے بڑھ کر اچھی حکمرانی کا وجود ہے۔ آزاد ذرائع ابلاغ بھی اس سلسلے میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس پس منظر میں دفعہ ۶ کو وسعت دینا اور اس جرم کے تمام پہلوئوں پر اس کو محیط کردینا ایک مفید خدمت ہے۔
اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے ایک انقلابی اقدام ’مشترک لسٹ‘ کا خاتمہ اور مرکز اور صوبوں کے درمیان تعلقاتِ کار کی نئی بساط بچھانا، ایک مستحسن قدم ہے جس کے نتیجے میں اختیارات اور وسائل، صوبوں کی طرف منتقل ہوں گے۔ قانون سازی کی مرکزی فہرست کے حصہ دوم کو وسعت دی گئی ہے اور مشترکہ مفادات کی کونسل (CCI) کو ایک مؤثر اور کارفرما ادارہ بناکر حکمرانی اور فیصلہ سازی میں مرکز اور صوبوں کے اشتراک کا ایک نیا نظام تجویز کیا گیا ہے۔ قومی اقتصادی کونسل (NEC)کو بھی مؤثر اور متحرک بنایا گیا ہے۔ ’قومی مالیاتی اوارڈ‘ کو صوبوں کو وسائل کی فراہمی کے لیے ایک نیاآہنگ دیا گیا ہے۔ ملک کے وسائل پر مرکز اور صوبوں میں ملکیت اور انتظام و انصرام کے اشتراک کا بندوبست تجویز کیا گیا ہے۔ پن بجلی کے منصوبوں کے سلسلے میں متعلقہ صوبے سے مشاورت لازم کی گئی ہے اور مرکز اور صوبوں میں تعلقاتِ کار کے نظام کو بالکل ایک نئی جہت دی گئی ہے۔
اگر ان تجاویز پر ایمان داری سے عمل ہوتا ہے اور مرکز اور صوبے اپنے اپنے کام ذمہ داری سے انجام دیتے ہیں، تو اگلے چند برسوں میں ملک کی قسمت بالکل بدل سکتی ہے۔ وسائل کا بہائو مرکز سے صوبوں کی طرف مڑسکتا ہے۔ بالکل نچلی سطح پر معاشی اور سیاسی گرمیوں میں غیرمعمولی اضافہ واقع ہوسکتا ہے، جو محرومیوں کو دُور کرنے کا ذریعہ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح صوبوں کی نمایندگی، مرکز ہی نہیں تمام مرکزی اداروں میں یقینی بنانے اور ماضی کی زیادتیوں کا ازالہ کرنے کا انتظام بھی دستوری ترامیم میں تجویز کیا گیا ہے۔
صوبائی خودمختاری کا نیا مثالیہ جو ان دستوری سفارشات میں دیا گیا ہے، اپنی اصل کے اعتبار سے ۱۹۷۳ء کے بعد ایک انقلابی آئینی اقدام ہے۔ خدا کرے کہ اس پر صحیح خطوط پر عمل ہوسکے۔ نتائج کا اصل انحصار عمل پر ہے اور ان ترامیم کے بعد اب مرکز اور صوبوں، سب کا بڑا امتحان ہے۔
دستور کی اسلامی دفعات کے سلسلے میں اٹھارھویں ترمیم کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے ۱۹۷۳ء اور ۱۹۸۵ء کی دفعات کو باہم یک جان کردیا ہے، اور اس طرح دستور کی اسلامی دفعات زیادہ مؤثر ہوگئی ہیں۔ سیکولر قوتوں کو اس سلسلے میں جو پسپائی ہوئی ہے، وہ اسلامیانِ پاکستان کی ایک بڑی کامیابی ہے، لیکن اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے صرف ان دفعات کو مستحکم ہی نہیں کیا گیا ہے، بلکہ کئی چیزیں ایسی ہیں جو شدید مزاحمت کے باوجود حاصل کی گئی ہیں، مثلاً:
۱- وزیراعظم کے لیے مسلمان ہونا دستور کے متن میں شامل کردیا گیا ہے۔ اس سے پہلے صرف وزیراعظم کے حلف میں اس کا ذکر تھا، جو ایک بالواسطہ کیفیت تھی۔
۲- سب سے اہم چیز وفاقی شرعی عدالت کی حیثیت، اس کے ججوں کی آزادی اور ان کو توہین آمیز حد تک جس بے وقعتی کا نشانہ بنایا گیا تھا، اسے ختم کرنا ہے۔ حکومت جس جج کو چاہے اس عدالت میں اُس کی مرضی کے خلاف بھیج سکتی تھی۔ اس عدالت میں اگر حکومت کسی جج سے ناخوش ہے، تو جس وقت چاہے اس کوتبدیل کرسکتی تھی، فارغ کرسکتی تھی، کوئی دوسرا کام اس کو سونپ سکتی تھی۔ ان کو ملازمت کا کوئی تحفظ حاصل نہ تھا اور عملاً بھی یہ سب کچھ ماضی میں کیا گیا۔ جس جج حتیٰ کہ چیف جسٹس نے بھی اگر حکومت کے اشاروں کو نظرانداز کیا، تو اسے یک بینی و دوگوش فارغ کر دیا گیا۔ اب شرعی عدالت کے جج بھی عدالت عالیہ کے ججوں کے مساوی ہوں گے۔ ان کا حلف بھی وہی ہوگا۔ ان کے تقرر، تبادلے اور برطرفی کے لیے وہی قانون لاگو ہوگا۔ پہلی مرتبہ وفاقی شرعی عدالت ایک حقیقی، آزاد اور بااختیار عدالت بن سکے گی۔
۳- اس کے ساتھ وفاقی شرعی عدالت میں علماے کرام سے بطور جج تقرر کے لیے جو مطلوبہ دینی اور علمی صلاحیت درکار تھی، اسے بھی بہتر بنایا گیا ہے۔ پہلے کسی بھی شخص کو جسے اسلامی علوم کا ماہر قرار دیا جائے جج مقرر کیا جاسکتا تھا۔ اب اس کے لیے وہی استعداد اور صلاحیت مقرر کردی گئی ہے جو دستور میں ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ (IIC) کے علما ارکان کے لیے ہے، یعنی ۱۵سال کا تجربہ، اسلامی قانون کی تعلیم، تحقیق یا افتا کا تجربہ۔
۴- اسلامی نظریاتی کونسل کے سلسلے میں بھی ایک ترمیم یہ کی گئی ہے کہ کونسل میں علما ارکان کی تعداد کل تعداد کا کم از کم ایک تہائی (۳/۱) ضروری ہے۔ پہلے ان کی زیادہ سے زیادہ تعداد چار تھی، جو اس وقت تو مناسب تھی جب کونسل کے کُل ارکان آٹھ ہوتے تھے، مگر اب جب کہ وہ ۲۰ہیں، ان میں چار کی تعداد بہت کم تھی۔ اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے علما کی کم سے کم تعداد ایک تہائی مقرر کی گئی ہے۔ اسی طرح علما اور مختلف مکاتبِ فکر کی بہتر نمایندگی کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔
۵- دستور کی دفعہ ۶۲ اور ۶۳ سیکولر لابی کا خاص ہدف تھے، لیکن نہ صرف یہ کہ ان میں اسلامی نقطۂ نظر سے کوئی تبدیلی یا تخفیف نہیں کی جاسکی، بلکہ دفعہ ۶۳ -ایف میں، جس کو بہت نشانہ بنایا گیا، ایسی ترمیم کی گئی ہے جس سے اس کے غلط استعمال کا دروازہ بند ہوگیا ہے۔ ایک شخص کی امانت، دیانت اور اچھی شہرت کے سلسلے میں نااہلی کو عدالتی فیصلے سے وابستہ کر دیا گیا ہے۔
پارلیمنٹ کا اصل کام قانون سازی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں قانون سازی کے لیے بے محابا آرڈی ننس جاری کرنے کا آسان راستہ اختیار کرلیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ ایک قسم کی ربڑ اسٹیمپ بن کر رہ گئی ہے۔ دنیا کے بیش تر جمہوری ممالک میں انتظامیہ کو آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی کا اختیار حاصل نہیں۔ امریکا اور یورپ میں تو اس کی ایک بھی مثال نہیں ملتی۔ برعظیم پاک و ہند میں برطانیہ نے اپنے دورِاقتدار میں آرڈی ننس کے ذریعے حکمرانی کا راستہ اختیار کیا۔ نتیجتاً جب اُن کے جانشین یہاں پر حکمران بنے تو انھوں نے بھی پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں قانون سازی کی یہ قبیح صورت جاری رکھی۔ تاہم اس میں ایک فرق ضرور ہے اور وہ یہ کہ بھارت میں ۱۰۰ میں سے بمشکل ۱۰ قوانین، آرڈیننس کے ذریعے اور ۹۰ معمول کی قانون سازی کے ذریعے کتابِ قانون کا حصہ بنتے ہیں، جب کہ پاکستان میں یہ تناسب بالکل اُلٹ ہے، یعنی ۸۰فی صد سے زیادہ قوانین آرڈی ننس کے ذریعے مسلط کیے جاتے ہیں اور ایک ہی آرڈی ننس کو بلاترمیم یا کچھ نمایشی تبدیلی کے بعد بار بار نافذ کیا جاتا رہتا ہے۔ بڑے مفصل قوانین کو نافذ کرنے کے لیے اسمبلی کے اجلاس کی برخاستگی کا انتظار کیا جاتا ہے۔ پھر اسمبلی کے اجلاس کے ختم ہونے کے ۲۴گھنٹے کے اندر ہی آرڈی ننسوں کی بارش شروع ہوجاتی ہے۔ سیاسی جماعتیں جب حزب اختلاف کا کردار ادا کرتی ہیں تو قانون سازی بذریعہ آرڈی ننس کی مخالفت کرتی ہیں اور جب اقتدار میں آتی ہیں تو بڑی ڈھٹائی اور سخت بے رحمی کے ساتھ اس مکروہ طریقے کو روا رکھتی ہیں۔ میں نے پوری دل سوزی کے ساتھ دستوری کمیٹی میں آرڈی ننس کے اس طرح مسلط کرنے کا دروازہ بند کرنے کی تجویز پیش کی، لیکن بڑی مشکل سے جو کچھ حاصل کیا جاسکا، وہ یہ ہے:
۱- پہلے جب سینیٹ برسرِکار (in session) ہو، اس وقت بھی آرڈی ننس نافذ کیا جاسکتا تھا۔ صرف اسمبلی کے سیشن کے دوران یہ پابندی تھی کہ آرڈی ننس نہیں لاگو کیا جاسکتا (دفعہ ۸۹)۔ اب فرق یہ پڑا ہے کہ اگر سینیٹ بھی سیشن میں ہو تو آرڈی ننس نہیں آسکے گا۔
۲- ایک ہی آرڈی ننس کو بار بار نافذ کرنا پارلیمنٹ کے ساتھ مذاق ہی نہیں، اس کی توہین بھی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے بھی اس کے بارے میں اپنے تحفظات کا کئی بار اظہار کیا ہے، مگر لاحاصل۔ اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے کم از کم یہ پابندی لگ گئی ہے کہ حکومت ایک ہی آرڈی ننس کو دوبارہ اپنی مرضی سے جاری نہیں کرسکتی۔ اگر اس کی مدت میں توسیع ناگزیرہے تو اس کے لیے پارلیمنٹ کے کم از کم ایک ایوان کی قرارداد لازم قرار دی گئی ہے، اور پارلیمنٹ کو بھی پابند کردیا گیا ہے کہ وہ ایک سے زیادہ مرتبہ توسیع نہیں دے سکتی۔
توقع ہے کہ اس کے بعد پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کے عمل میں اضافہ ہوگا اور آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی میں کمی واقع ہوگی۔
پارلیمنٹ کا ایوانِ بالا (سینیٹ) فیڈریشن کا مظہر اور صوبوں سے برابری کی بنیاد پر نمایندگی کی وجہ سے ان کے حقوق کے محافظت میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے سینیٹ کو قومی اسمبلی کے مساوی حیثیت تو نہیںدی جاسکی، لیکن نصف درجن سے زیادہ ترامیم کے ذریعے اس کے اختیارات اور کردار میں خاطرخواہ اضافہ ضرور کیا گیا ہے۔ اب سینیٹ سال میں ۹۰دن کے بجاے ۱۱۰ دن لازمی سیشن میں رہے گا۔ متعدد سرکاری اور پارلیمانی رپورٹوں کے بارے میں بھی یہ لازم کیا گیا ہے کہ ان کو قومی اسمبلی کے ساتھ سینیٹ میں بھی پیش کیا جائے، تاکہ سینیٹ ان پر اپنی راے دے سکے۔
جیساکہ اُوپر عرض کیا گیا ہے، سینیٹ جب سیشن میں ہوتو اس وقت بھی آرڈی ننس کے اجرا پر پابندی لگادی گئی ہے۔ اہم حکومتی پارلیمانی کمیٹیوں میں سینیٹ کو نمایندگی دی گئی ہے، یعنی ججوں کے تقرر کی کمیٹی اور الیکشن کمیٹی کے ارکان کی نامزدگی کی ذمہ دار کمیٹی وغیرہ میں۔ اسی طرح بجٹ، فنانس بل اور منی بل کے لیے بھی اب سینیٹ میں غوروبحث اور اپنی تجاویز دینے کے لیے سات کے مقابلے میں ۱۴ دن مقرر کیے گئے ہیں۔ قومی اسمبلی کے لیے لازم کیا گیا ہے کہ وہ سینیٹ کی سفارشات پر غور کرے گی، گو اس پر پابندی لازم نہیں ہے۔
اپنے جوہر کے اعتبار سے ایک بڑی اہم ترمیم یہ کی گئی ہے کہ اب مرکزی کابینہ اور وزیراعظم، قومی اسمبلی کی طرح سینیٹ کے سامنے بھی جواب دہ ہوں گے۔ گو وزیراعظم کے انتخاب کا فریضہ صرف قومی اسمبلی ہی ادا کرے گی، لیکن حکومت کی جواب دہی کو اب پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوںتک وسعت دے دی گئی ہے___ اس سلسلے کی تمام ترامیم کے نتیجے میں توقع ہے کہ سینیٹ کا کردار بڑھے گا، قانون سازی کا عمل بہتر ہوسکے گا اور صوبوں کی آواز کو زیادہ وقعت اور اہمیت حاصل ہوسکے گی۔ صوبائی خودمختاری کے نئے ماڈل پر عمل درآمد کے لیے سینیٹ کا کردار بہت کلیدی اہمیت کا حامل ہے اور ان سب ترامیم کا حاصل فیڈریشن کے باہم اور متوازن تعلقاتِ کار کے تصور کو ایک قابلِ عمل صورت دینا ہے۔
اٹھارھویں دستوری ترمیم پر پانچ اہم اعتراضات سیاسی، صحافی، اور قانونی حلقوں کی طرف سے ہو رہے ہیں۔ اس لیے ان کے بارے میں چند گزارشات پیش ہیں۔
بدقسمتی سے ماضی میں ججوں کے تقرر کے سلسلے میں دو انتہائی صورتیں رہی ہیں، یعنی: وزیراعظم کی سفارش پر تقرر یا چیف جسٹس کی سفارش پر تقرر۔ ان کے ذریعے اچھے جج بھی آئے ہیں اور ایسے جج بھی مقرر کیے گئے ہیں جو اعلیٰ عدلیہ کے لیے نیک نامی کا باعث نہیں بنے۔ اس لیے اس نئے تجربے کو جس کے خدوخال اور اس کے دلائل کا ذکر ہم اُوپر کرچکے ہیں، پوری احتیاط سے آگے بڑھانا ہوگا اور دونوں اداروں (جوڈیشل کمیشن اور پارلیمنٹ کی جوڈیشل تقرر کی کمیٹی) کو اپنی ذمہ داری پوری دیانت اور امانت سے ایک شفاف عمل کے ذریعے انجام دینا ہوگی۔ عدلیہ کی آزادی کا باب ججوں کے تقرر کے بعد شروع ہوتا ہے، اور کمیٹی کی کوشش رہی ہے کہ ہرسطح پر ’صواب دید‘ کی جگہ اداراتی مشاورت کے نظام کو رائج کیا جائے۔ اس نظامِ کار کو تجویز کرتے وقت جمہوری ممالک کے تجربات کو سامنے رکھا گیا ہے۔ البتہ اب کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی دونوں کی آزمایش اور امتحان ہے۔ گو ہماری نگاہ میں جو نظام تجویز کیا ہے، ان خطرات اور منفی پہلوئوں کے علی الرغم جن کی نشان دہی کی جارہی ہے، ماضی کے برعکس اس نظامِ کار میں خوبی کے امکانات زیادہ ہیں۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ جن خطرات کے بارے میں متنبہ کیا جا رہا ہے، متعلقہ ادارے اور ذمہ داران ان کا پورا ادراک کریں اور ان سے بچنے کی ہرممکن کوشش کریں۔ نیتوں پر حملہ صحیح رویہ نہیں۔
قرآن پاک میں بھی یہ اشارہ موجود ہے کہ باہمی تعارف اور پہچان کے لیے گروہوں اور قوموں کے نام ہوسکتے ہیں، لیکن معاشرے کی بنیاد اور معیار اور کمال کا تعلق شناخت کے لیے مقرر کردہ ناموں سے نہیں تقویٰ اور اخلاقی بالیدگی پر ہے (وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ط اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ طالحجرات ۴۹:۱۳) چونکہ صرف ’پختون خواہ‘ سے ایک خاص زبان اور قوم کا گہرا تعلق تھا، اس لیے مسلم لیگ (ن) کی تجویز پر جب کمیٹی کے ارکان کی اکثریت نے خیبرپختون خواہ پر اتفاق کرلیا تو اختلافی نقطۂ نظر رکھنے کے باوجود ہم نے بھی اسے قبول کرلیا۔
اس معاملے میں اے این پی نے دستوری ترمیم کی مکمل منظوری سے بھی پہلے جس طرح فتح کے شادیانے بجائے، ان کے اس عاجلانہ اور فاتحانہ انداز سے صوبے کے دوسرے لوگوں کو دُکھ پہنچا اور اشتعال انگیز فضا بن گئی۔ ساتھ ہی ہزارہ کے لوگوں کا سخت ردعمل سامنے آیا، جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس پر ستم بالاے ستم کہ صوبائی انتظامیہ نے ہزاروںلوگوں کی طرف سے اظہار راے کے جمہوری حق کو کچلنے کے لیے جس طرح قوت کا وحشیانہ استعمال کیا، اس نے حالات کو تیزی سے بگاڑ دیا۔ اس لیے ہم مرکزی اور صوبائی حکومتوں اور تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ مسئلے کا سیاسی حل افہام و تفہیم اور مذاکرات کے ذریعے تلاش کریں اور، فاتح اور مفتوح کی ذہنیت سے بالاتر ہوں۔ کوئی مسئلہ لاینحل نہیں، جذبات کا اظہار بجا، لیکن ان کو حدود میں رکھنا بھی ضروری ہے۔ نام کے مسئلے پر بھی مزید مذاکرات ہوسکتے ہیں اور ہزارہ کے لوگوں کے دوسرے تحفظات اور مطالبات کی روشنی میں تبدیلیاں بھی ممکن ہیں بلکہ وقت کی ضرورت ہیں۔
ہمارے خیال میں اس شق پر تنقید پوری ذمہ داری سے نہیں کی جارہی۔ جس طرح سیاسی جماعتوں میں قیادت کا انتخاب اور جمہوری روایات کا احترام ضروری ہے، اسی طرح پارٹی میں ڈسپلن بھی ایک ضروری شے ہے۔ دستور میں دفعہ ۶۳ (اے) کا اضافہ، پارٹی سے ’بغاوت‘ یا ’بے وفائی‘ کو قانون کی گرفت میں لانے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس میں جو ترامیم اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے کی گئی ہیں، وہ صرف دو ہیں: ایک یہ پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کی جگہ پارٹی کے سربراہ کو یہ اختیار دیا گیا ہے۔ اس کے بارے میں دو آرا ہوسکتی ہیں، لیکن پارٹی ڈسپلن کے نقطۂ نظر سے پارٹی کے سربراہ کو اس کا اختیار دینا کسی اعتبار سے بھی جمہوری اصولوں سے متصادم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ واضح رہے کہ اس دفعہ میں یہ بات بھی وضاحت سے لکھی گئی ہے کہ:
بشرطیکہ اعلان کرنے سے پہلے پارٹی کا سربراہ ایسے ممبر کو موقع فراہم کرے گا کہ وہ وجہ بتائے کہ اس کے خلاف ایسا اعلان کیوں نہ کیا جائے۔
اس طرح یہ اعلان دفاع کا حق دیے جانے سے مشروط ہے۔ لیکن دوسری شرط اور بھی اہم ہے کہ یہ اقدام محض اختلاف راے یا عام معاملات، حتیٰ کہ قانون سازی کے معاملات میں اختلاف کی بنیاد پر نہیں ہوسکتا۔ اس اقدام کا جواز صرف اس وقت ہے، جب ایک رکن پارٹی کے فیصلے کے خلاف صرف چار امور پر ووٹ دیتا ہے یا پارٹی کی ہدایت کے باوجود ووٹ دینے سے احتراز کرتا ہے، اور وہ یہ ہیں: lوزیراعظم یا وزیراعلیٰ کا انتخاب l حکومت پر اعتماد یا عدمِ اعتماد کاووٹl منی بل کے بارے میں ووٹl دستوری ترمیم پر ووٹ۔
واضح رہے کہ ۶۳-اے کا اضافہ ۱۹۹۷ء میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں ہوا تھا، اور اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے صرف دستوری ترمیم پر ووٹ کو اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے، نیز پارٹی سربراہ کو یہ اختیار دیا گیا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ اس ’بے وفائی‘ (defection ) کا تعلق صرف ان چار امور سے ہے___محض اختلاف راے یا ضمیر کے مطابق اظہارِ خیال سے نہیں ہے، جیساکہ میڈیا میں بہ تکرار کہا جا رہا ہے۔
نیز یہ بات بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ پارٹی کا سربراہ صرف ایک اعلان (declaration) کرے گا جسے چیئرمین سینیٹ یا اسپیکراسمبلی الیکشن کمیشن کو بھیج دے گا۔ فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا جو ایک عدالتی ادارہ ہے اور معاملے کے سارے پہلوئوں کا احاطہ کرکے اور متعلقہ فرد کو صفائی کا موقع دے کر کوئی فیصلہ کرے گا اور قانون کے مطابق اس فیصلے کو بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ آخری فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی۔
جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے اس کے نمایندہ نے اٹھارھویں دستوری ترمیم سے عمومی اتفاق کے ساتھ اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے مفصل نوٹ دیا ہے، جو رپورٹ کا حصہ ہے۔ اس میں جن اہم امور کا ذکر کیا گیا ہے، وہ مختصراً یہ ہیں:
۱- تعلیم کے حق کے بارے میں ہماری کوشش تھی کہ اس پر مکمل عمل درآمد کے لیے زمانی حد زیادہ سے زیادہ ۱۰ سال مقرر کی جائے، جس پر اتفاق نہ ہوسکا۔ اسی طرح ہم نے تعلیم کے ساتھ غربت کے خاتمے اور ہرشہری کو بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کو بھی ایک دستوری حق کے طور پر شامل کرانے کی کوشش کی، جسے موجودہ دستوری ترمیم میں شامل کرنے پر اتفاق نہیں ہوسکا۔
۲- دستور کی دفعہ ۴۵ میں صدر کو سزا میں تخفیف کا غیرمحدود اختیار حاصل ہے، جس کا حال ہی میں صدرزرداری نے اپنے منظورِنظر افراد کو قانون کی گرفت سے نکالنے کے لیے اس وقت استعمال کیا، جب کہ ابھی اٹھارھویں ترمیم کو نہ سینیٹ نے منظور کیا تھا اور نہ خود صدر ہی نے اس پر دستخط ثبت کیے تھے۔ ہماری تجویز تھی کہ یہ امتیازی، صواب دیدی اور اخلاق سے ماورا اختیار ختم کیا جائے اور عدالت کسی مجرم کے لیے جو بھی سزا طے کرے، اسے پورا ہونا چاہیے۔ لیکن اگر یہ تجویز قبول نہ ہو تو کم از کم حددو کے باب میں تخفیف کا اختیار تو لازماً ختم کیا جائے کہ شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ ہماری یہ تجویز بھی منظور نہ کی گئی۔
۳- ہم نے سینیٹ میں غیرمسلموں کی نشستوں کے اضافے پر بھی اصولی اعتراض کیا تھا۔ ہماری نگاہ میں ’جداگانہ انتخاب‘ کا طریقہ حق و انصاف پر مبنی اور ملک کی نظریاتی اساس سے ہم آہنگ ہے۔ اس کے تحت غیرمسلموں کو اپنی آبادی کے تناسب سے نمایندگی مل جاتی ہے۔ لیکن جب اقلیتوں اور سیکولر لابی کے اصرار پر ’مخلوط طرزِ انتخاب‘ کا اصول تسلیم کیا گیا ہے تو پھر غیرمسلموں کے لیے علیحدہ نشستوں کا وجود ان کو دوہری نمایندگی دینے کے مترادف ہے اور یہ حق کسی سیکولر، جمہوری یا مغربی ملک میں بھی نہیں دیا جاتا۔ پاکستان میں غیرمسلم کسی ثانوی درجے کے محروم طبقے کی حیثیت نہیں رکھتے۔ یہ سیاسی پارٹیوں کا کام ہے کہ ان کو ٹکٹ دیں اور اس طرح وہ منتخب اداروں میں آئیں۔ چور دروازے سے داخل ہونا صحیح نہیں۔ ہم نے یہ بھی کہا کہ اس وقت بھی سینیٹ میں دو غیرمسلم سینیٹر موجود ہیں، اس لیے الگ نشستوں کا کوئی جواز نہیں۔
۴- ہماری نگاہ میں ججوں کے تقرر کے لیے جو، جوڈیشل کمیشن بنایا گیا ہے، اس میں حکومت کی نمایندگی کے لیے صرف وزیرقانون کا ہونا کافی تھا۔ ہم نے اٹارنی جنرل کی رکنیت کی مخالفت کی تھی۔
۵- ہم نے سول سروس کو سیاسی اثرورسوخ سے آزاد کرنے کے لیے ان کے لیے ان دستوری ضمانتوں کے اختیار کی تجویز بھی دی تھی، جو انھیں ۱۹۵۶ء کے دستورِ پاکستان میں حاصل تھیں۔
۶- ہم نے یہ بھی تجویز دی تھی کہ ملک کے اہم اداروں کے سربراہوں کی ملازمت کے سلسلے میں توسیع کا طریقہ ختم کیا جائے، چاہے ان کی مدت ملازمت میں کچھ اضافہ کردیا جائے۔ فوج اور دستوری سول اداروں کے سربراہوں کی مدت ملازمت میں توسیع کے بڑے تلخ نتائج سامنے آئے ہیں جو آج تک ملک بھگت رہا ہے۔ تمام سروسز چیف، پبلک سروس کمیشن اور الیکشن کمیشن وغیرہ کے سربراہوں کی مدت مقرر اور ناقابلِ توسیع ہونی چاہیے۔ صرف چیف الیکشن کمیشن کے سلسلے میں ہماری تجویز منظور ہوئی۔ فوج کے سربراہوں اور دوسرے دستوری اداروں کے بارے میں اسے قبول نہیں کیا گیا، حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت میں آزادی کے حصول سے آج تک کسی ایک بھی سروس چیف کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں کی گئی۔ اس طرح ہرشخص کو علم ہوتا ہے کہ اسے ایک متعین مدت میں اپنے کام کو مکمل کرنا اور پھر دوسروں کے لیے جگہ خالی کردینا ہے۔ ہمارے ملک میں ملازمت میں توسیع کا جو سخت مکروہ سلسلہ جنرل ایوب خان کے دور میں شروع ہوا، وہ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف تک جاری رہا، اور اب بھی ہر ایک کی نگاہ توسیع ہی پر ہوتی ہے۔
۷- جہاں ہم نے قانون سازی کی ’مشترک فہرست‘ کے خاتمے کی تجویز پیش کی، وہیں ہم نے یہ بھی کہا کہ ایک نظریاتی ملک کی حیثیت سے ضروری ہے کہ ملک میں یکساں نظامِ تعلیم ہو، کہ قومی یک جہتی کے لیے یہ نہایت ضروری ہے۔ اس لیے تعلیمی پالیسی اور نصاب کی یکسانی ضروری ہے۔ بلاشبہہ تعلیمی پالیسی کی تشکیل اور نصاب کی صورت گری میں ہرصوبے کے لوگوں کی شرکت ضروری ہے اور جہاں جہاں علاقائی ضرورتوں کے لیے مقامی ادب اور تاریخی روایات کو نصاب کا حصہ بننا ضروری ہو، وہ لازماً ہونا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ قومی اور ملکی ضروریات کے لیے یکسانی اور وحدت بھی ضروری ہے۔ اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے معاملات کو تو ’وفاقی فہرست‘ (حصہ دوم) میں شامل کیا جاسکا، لیکن یکساں نظامِ تعلیم اور یکساں نصاب کے لیے ہم کمیٹی کی تائید حاصل نہ کرسکے۔
۸-قومی زبان کے ساتھ جو مجرمانہ سلوک کیا جا رہا ہے اس کے خاتمے کی تجویز بھی ہم نے پیش کی اور مطالبہ کیا پانچ سال کے اندر اُردو کو سرکاری زبان کے طور پر لازماً نافذ کیا جائے، اور دستور کی دفعہ ۲۵۱ کی جو مسلسل خلاف ورزی ہورہی ہے، اسے ختم کیا جائے، لیکن ہماری یہ تجویز بھی مقتدر سیاسی پارٹیوں سے شرفِ قبولیت حاصل نہ کرسکی۔
۹- ہم نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ سینیٹ کا انتخاب متناسب نمایندگی کے اصول پر ہرصوبے سے بلاواسطہ (direct) طور پر کیا جائے، اور سینیٹ کو وزیراعظم کے انتخاب اور بجٹ اور منی بل کے باب میں قومی اسمبلی کے مساوی حیثیت دی جاسکے۔ اس پر ہمیں خاصی تائید حاصل ہوئی، مگر مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں ہوسکی۔
۱۰- ہم نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ تمام اہم کارپوریشنوں، فیڈرل اتھارٹیز اور مقتدر اداروں کے سربراہوں اور ’غیرپیشہ ورانہ سفارتی عہدے داروں‘ کے تقرر کی توثیق کم از کم سینیٹ کی کمیٹی سے حاصل کی جائے، کم و بیش اسی اصول پر جس پر ججوں کے تقرر میں پارلیمنٹ کے کردار کو شامل کیا گیا ہے۔ دنیا کے بیش تر جمہوری ممالک میں اور خصوصیت سے جہاں وفاقی نظام قائم ہے وہاں پارلیمنٹ یا ایوانِ بالا کا ایک کردار ہوتا ہے، لیکن یہ تجویز بھی شرفِ قبولیت نہ پاسکی۔
۱۱- ہم نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ تمام بین الاقوامی معاہدات اور کنونشنز کو پارلیمنٹ میں آنا چاہیے اور ان کے لیے پارلیمان کی توثیق ضروری قرار دی جائے۔ اس وقت یہ سارا اختیار محض کابینہ کو حاصل ہے، پارلیمنٹ کو ان کی ہوا بھی نہیں لگتی۔ یہ تجویز بھی قبول نہ کی گئی۔
۱۲- ہماری یہ بھی تجویز تھی کہ بنیادی حقوق میں اس حق کو بھی شامل کیا جائے کہ کسی شخص کو خواہ وہ پاکستان کا شہری ہو، یا پاکستان میں مقیم ہو، ہائی کورٹ کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے ملک کے سپرد نہیں کیا جائے گا، لیکن یہ بھی متفقہ دستاویز کا حصہ نہ بن سکی۔
۱۳- ہم نے یہ بھی تجویز دی تھی کہ جس طرح تمام وزرا، ارکانِ پارلیمنٹ حلف لیتے ہیں اسی طرح دستور کے تحت مقرر کیے جانے والے تمام مشیروں (advisors) سے بھی حلف لیا جائے بشمول حلف رازداری۔ اس وقت یہ تمام مشیر کسی حلف کے بغیر کابینہ اور پارلیمنٹ میں شرکت کرتے ہیں، جو بڑی بے قاعدگی ہے، جلداز جلد اس بے قاعدگی کا خاتمہ ہونا چاہیے، مگر اسے بھی متفقہ سفارشات کا حصہ نہ بنایا گیا۔
۱۴- ہم نے فاٹا کے علاقے میں سیاسی حقوق کی حفاظت، سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیوں کی آزادی، اور اس علاقے کے لوگوں کو فراہمیِ انصاف اور قانون کے باب میں پاکستان کے باقی تمام علاقوں کے مساوی قرار دینے اور ان کے اپنے منتخب نمایندوں کو علاقے کے مستقل انتظام کو طے کرنے کا موقع دینے کی تجویز بھی پیش کی۔ اس تجویز کے ایک حصے کو پالیسی کے لیے اپنی سفارشات میں تو شامل کرلیا گیا، مگر دستوری ترمیم کا یہ تجویز حصہ نہ بن سکی۔
ان تمام امور کو دستور کا حصہ بنانے کے سلسلے میں ہماری جدوجہد ان شاء اللہ جاری رہے گی۔
ہماری نگاہ میں اٹھارھویں ترمیم مجموعی طور پر ایک مثبت پیش رفت ہے اور اگر اس پر خلوص اور دیانت سے عمل کیا گیا تو حالات کی اصلاح اور حقیقی جمہوری اقدار کے فروغ، سماجی انصاف کے قیام اور علاقائی توازن کے پیدا کرنے میں اس کا کردار کلیدی ہوگا۔ ملک اور قوم، قیامِ پاکستان کے اصل مقاصد کی طرف مؤثر پیش قدمی کرسکیں گے، لیکن اس کا انحصار نیت، ادراک، اخلاص اور عمل پر ہے۔ دستور کے الفاظ ہمارے مسائل کا حل نہیں۔
اب مرکز، صوبے، سیاسی جماعتیں، تمام دستوری اداروں اور پوری قوم ایک عظیم امتحان میں ہے۔ وقت کی اصل ضرورت مسائل کا حل اور ان اہداف کا حصول ہے، جو دستور میں ان ترامیم کے بعد قوم کی آرزو اور تمنا کے طور پر واضح شکل میں سامنے آگئے ہیں۔ بلاشبہہ جو خامیاں رہ گئی ہیں، آیندہ دستوری ترامیم کے ذریعے ان کو دُور کرنا بھی ایک اہم ضرورت ہے، لیکن فوری ضرورت ان دستوری ترامیم پر مؤثر عمل درآمد ہے۔ اس سلسلے میں ذرا سی کوتاہی بھی تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ دستوری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اور خود اٹھارھویں دستوری ترمیم کی شق ۹۵ میں نئی دستوری دفعہ ۲۷۰ اے اے کے ذریعے ایک نقشۂ کار دیا ہے اور ایسے ادارات کے قیام اور کارفرمائی کی سفارش کی ہے جو ان تبدیلیوں کو حقیقت کا روپ دے سکیں۔ اب اصل امتحان میدانِ عمل میں قومی قیادت کی کارگزاری اور مرکز اور صوبوں کے نظام میں بنیادی تبدیلیوں کو حقیقت کے روپ میں ڈھالنے کا ہے۔ ہم اس کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں ع
پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے