عین اس حالت میں کہ سیاست نے دین کو زندگی کے میدان سے دھکیل کے باہر نکال رکھا تھا، مغربی فلسفۂ سیاست اور مغربی امپیریلزم کا دَور ہمارے اُوپر مسلط ہوگیا۔ اس دَور نے ذہنی طور پر دین و سیاست کی علیحدگی کے تصور کی جڑیں بہت گہرائی تک اُتار دیں، اور داد دیجیے ساحرِ افرنگ کے کمالِ فن کی کہ اُس نے بے شمار مسلمان وکلا اپنے لغو نظریے کی تبلیغ کے لیے تیار کردکھائے۔ دوسری طرف اُس نے حکومت و سیاست کا کام چلانے کے لیے ذہین لوگوں کو چھانٹ چھانٹ کر ایسی تربیت دی کہ دین و سیاست کی وحدت کا تصور ان کے دل و دماغ میں کسی جانب سے نہ اُتر سکے، جیسے ٹیڑھے سوراخ میں کوئی سیدھی چیز داخل نہیں ہوسکتی۔
چنانچہ جس فضا میں آج ہم جی رہے ہیں___ اور کئی قرنوں سے جی رہے ہیں___ اس میں اگرچہ بعض بلندپایہ مفکرینِ اسلام کی کوششوں سے دین و سیاست کے ایک ہونے کے چرچے عام ہیں، لیکن اس کے باوجود موجودہ فضا اُس تصور کے پنپنے کے لیے حددرجہ ناسازگار ہے۔ یہ فضا ہمہ تن اُن آثار سے پٹی پڑی ہے جو ذہنوں کو خواہ مخواہ دین و سیاست کی تفریق کے تصور کی طرف دھکیلتے ہیں۔ ستم یہ کہ بڑے بڑے علماے دین اور سربراہ کارانِ سیاست عملاً اسی تصور کا شکار ہیں....
اس فضا میں جماعت اسلامی انبیا ؑکے مشن کی خادم بن کر اُٹھی ہے اور وہ دین و سیاست کو عملاً ایک کردینے کا ایک پروگرام اختیار کیے ہوئے ہے۔ وہ زندگی کے کسی شعبے میں بھی ادنیٰ سے ادنیٰ درجے میں مروّجہ ثنویت (dualism) کو گوارا کرنے پر تیار نہیں ہے، بلکہ یہ ثنویت جہاں کہیں جس شکل میں پائی جاتی ہے، جماعت اسلامی کی اُس سے جنگ ہے۔ (’اشارات‘، ادارہ ترجمان القرآن، جلد۳۳، عدد۶، جمادی الثانی ۱۳۶۹ھ، مئی ۱۹۵۰ئ، ص ۲۹۹-۳۰۳)