مئی ۲۰۱۰

فہرست مضامین

اسرار بھائی ___ رفتید ولے نہ ازدل ما

پروفیسر خورشید احمد | مئی ۲۰۱۰ | یاد رفتگان

Responsive image Responsive image

۱۴؍اپریل ۲۰۱۰ء میں سینیٹ کے اجلاس میں شرکت کے لیے ابھی راستہ ہی میں تھا کہ موبائل فون سے ’مختصر پیغام‘ پڑھ کر دل سے ایک آہ نکلی___ اسرار بھائی ایک عالم کو سوگوار چھوڑ کر خالقِ حقیقی سے جاملے___ اِنَّا لِلّٰہ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔

’مختصر پیغام‘ بھیجنے والے نے ڈاکٹر اسرار احمد کی حرکت ِ قلب کے بند ہونے سے انتقال کی خبر اور نمازِ جنازہ میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ اسلام آباد میں ہونے کی وجہ سے آخری دیدار اور نمازِجنازہ میں شرکت سے محروم رہا، لیکن دل کی گہرائیوں سے ان کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعائیں کرتا رہا۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمر بھر کی مساعی کو شرفِ قبولیت سے نوازے، بشری لغزشوں سے عفوودرگزر فرمائے، ان کی قبر کو گوشۂ فردوس بنادے اور ابدی زندگی میں ان کو جنت کے اعلیٰ ترین مقامات سے نوازے، آمین، ثم آمین!

اسلامی جمعیت طلبہ کے ہم پر بے شمار احسانات ہیں۔ بلاشبہہ ان میں سب سے اہم زندگی کے اعلیٰ مقاصد اور اہداف کا شعور اور رب کی رضا کے حصول کے لیے اس کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے کا عزم، شوق، کوشش اور دین حق کی شہادت اور اس کے قیام کی جدوجہد کے لیے زندگی کو وقف کرنے کا عہد ہے۔ تاہم عام لوگوں کی نظر میں بظاہر ایک معمولی اور حقیقت میں بڑا ہی قیمتی احسان یہ بھی ہے، کہ اس کی آغوش میں شعور کی منزلیں طے کرنے والے ایک ایسے رشتۂ اخوت میں جڑ جاتے ہیں، جسے زمانے کی کروٹیں اور اختلافات کے طوفان بھی کمزور نہیں کرپاتے۔ یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا کے لیے ڈاکٹر اسرار احمد ایک عالمِ دین، ایک داعیِ خیر، ایک معتبر شخصیت ہونے کے ساتھ’ڈاکٹر اسرار‘ ہی ہوں گے، لیکن میرے لیے اور جمعیت کی پوری برادری کے لیے        وہ اوّل و آخر اسرار بھائی تھے، ہیں اور رہیں گے  ع

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

میری اور اسرار بھائی کی پہلی ملاقات ۱۹۵۰ء میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے سالانہ اجتماع منعقدہ لاہور میں ہوئی۔ میں جمعیت کا نیا نیا رکن بنا تھا اور ساتھ ہی کراچی جمعیت کی نظامت کا بار ڈال دیا گیا تھا۔ اسراربھائی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے غالباً پہلے سال میں تھے۔ برادرم ظفراللہ خان جمعیت کے ناظم اعلیٰ تھے اور ہماری سرگرمیوں کا گہوارا محترم نصراللہ خان عزیز صاحب کا گھر تھا۔ اس ملاقات میں جن تین ساتھیوں نے بہت متاثر کیا ان میں نسیم بھائی، اسراربھائی اور مسلم سرحدی نمایاں تھے۔ اخوت کا جورشتہ اس موقع پر قائم ہوا، اس نے ساری عمر ہم کو ایک دوسرے کے لیے اسراربھائی اور خورشید بھائی ہی رکھا___ اگرچہ ۶۰سال کے اس طویل عرصے میں اتفاق اور اختلاف، قربت اور عدمِ ارتباط کے شیریں اور تلخ لمحات سفینۂ حیات کو ہچکولے دیتے رہے۔ جمعیت میں ہم نے چار سال ساتھ گزارے۔ ۱۹۵۰ء میں نسیم بھائی ناظم اعلیٰ بنے، ۱۹۵۱ء میں خرم بھائی، ۱۹۵۲ء میں اسرار بھائی، اور ۱۹۵۳ء میں یہ ذمہ داری میرے کاندھوں پر ڈال دی گئی۔ پھر جماعت اسلامی میں بھی ہمارا ساتھ رہا۔ ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں میرے اور ان کے موقف میں بڑا فرق تھا، لیکن ذاتی محبت کا وہ رشتہ جو ۱۹۵۰ء میں قائم ہوا تھا وہ کبھی نہ ٹوٹا: الْحَمْدُلِلّٰہ عَلٰی ذٰلِکَ۔

اسرار بھائی اور مَیں ایک ہی سال اس دنیا میں آئے۔ وہ جمعیت میں میرے سینیر رہے۔ تقسیم سے قبل اسرار بھائی رہتک، ہریانہ میں ابتدائی تعلیم اور تحریکِ پاکستان میں شرکت کے مراحل سے گزرے۔ میں نے دہلی میں آنکھیں کھولیں اور وہاں تحریکِ پاکستان میں بھرپور شرکت کی۔ ہمارے یہ ابتدائی تجربات زندگی کے رُخ کو متاثر کرنے کا ذریعہ بنے لیکن اصل فیصلہ کن دور، اسلامی جمعیت طلبہ میں گزارے ہوئے چند سال ہی رہے۔ پہلے دن سے اسرار بھائی کی خطابت اور خوداعتمادی کا نقش دل پر ثبت ہوگیا۔

اللہ تعالیٰ نے اسرار بھائی کو دل و دماغ کی بہترین صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ علمی، دعوتی اور تنظیمی، تینوں اعتبار سے وہ منفرد شخصیت کے حامل تھے۔ قرآن سے شغف اور زبان و بیان پر قدرت کے باب میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔ بے پناہ خوداعتمادی کے حامل تھے جو کبھی کبھی   شدتِ اظہار میں غلط فہمی کا باعث بھی ہوجاتی تھی اور قائدانہ صلاحیت جو ان کو نمبر ایک پوزیشن سے کم پر ٹھیرنے نہیں دیتی تھی، ان کے مزاج اور کردار کی امتیازی شان تھے۔

وہ ایک اچھے اور مہربان ڈاکٹر تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سے طبّی علاج معالجے سے کہیں بڑا کام لینا تھا۔ علامہ اقبال، مولانا مودودی اور مولانا ابوالکلام آزاد نے ان کی فکر اور شخصیت کی صورت گری میں اہم کردار ادا کیا۔ دین کا جامع تصور ان کے رگ و پے میں سماگیا تھا۔ پھر اپنی محنت اور اللہ تعالیٰ کے خصوصی فیضان سے انھوں نے قرآن کریم کے پیغام کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔ اسلامی انقلاب کے طریق کار کے بارے میں انھوں نے مولانا مودودی کے تجزیے اور عملی جدوجہد سے اختلاف کیا، لیکن یہ حقیقت ہے جماعت سے رشتہ توڑ لینے کے باوجود وہ زندگی کے ہردور میں، اور اپنے آخری لمحے تک اسلام کے انقلابی تصورِ دین کے   علَم بردار رہے۔ اپنے علم اور ادراک کے مطابق پورے خلوص، یکسوئی اور جانفشانی کے ساتھ قرآن کے پیغام کو انسانوں تک پہنچانے اور دین کو غالب قوت بنانے کی جدوجہد میں شریک رہے۔ اسی جہاد زندگانی میں جاں جانِ آفریں کے سپرد کی۔

اسرار بھائی نے جدید اور قدیم، دونوں علوم سے بھرپور استفادہ کیا اور اس علم کو دعوتِ دین کے لیے بڑی کامیابی سے استعمال کیا۔ ان کی شخصیت کے سب سے اہم پہلو ان کی یکسوئی، خوداعتمادی اور خدمتِ دین کے لیے خطابت تھے۔ قرآن کو انھوں نے اپنا وظیفۂ حیات بنا لیا تھا۔ اس کے پیغام کو گہرائی میں جاکر سمجھا تھا اور جس بات کو حق جانا اس پر نہ صرف خود قائم ہوئے، بلکہ دوسروں کو بھی اس کے قیام کی منظم جدوجہد میں شریک کیا۔ ان کے درسِ قرآن کے پروگرام ملک اور ملک سے باہر دعوت کا اہم ذریعہ بنے۔ پھر الیکٹرانک میڈیا پر قرآن کے پیغام کو پھیلانے   کے لیے انھوں نے منفرد خدمات انجام دیں۔ بلاشبہہ ان کو اللہ تعالیٰ نے تحریر کی صلاحیت سے بھی نوازا تھا، تاہم ان کی تحریر میں بھی خطابت کی شان نمایاں رہی۔ جو کتابیں انھوں نے جم کر لکھی ہیں،       وہ ہراعتبار سے علمی شاہکار ہیں۔ البتہ ان کے لٹریچر کا بڑا حصہ ان کی تقاریر اور دروسِ قرآن کا مرہونِ منت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انھیں اعلیٰ تنظیمی اور قائدانہ صلاحیتوں سے نوازا تھا اور انھوں نے     اسلامی جمعیت طلبہ، انجمن خدام القرآن، تنظیم اسلامی اور عالمی تحریکِ خلافت کے ذریعے      اپنی بہترین صلاحیتیں دین کی خدمت میں صَرف کیں۔ یہ بھی ان پر اللہ تعالیٰ کا بڑا انعام تھا اور بلاشبہہ ان کی شعوری کوششوں کا بھی اس میں بڑا دخل تھا کہ ان کا پورا خاندان دین حق کی خدمت میں ان کا شریکِ سفر تھا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور جو چراغ انھوں نے جلائے ہیں وہ ہمیشہ روشن رہیں۔ گذشتہ کئی سال سے ہمیں ایک دوسرے سے ملنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ میری آخری ملاقات ان سے امریکا میں ہارٹ فورڈ سیمینری میں ہوئی، جہاں مجھے لیکچرز کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ ان کے حلقے سے چند نوجوانوں کے ذریعے جو میرے لیکچرز میں بھی شریک تھے، ان کے ساتھ ایک شام گزارنے کا موقع ملا۔ پروفیسر ابراہیم ابوربیعہ کے گھر پر ہم نے اکٹھے کھانا کھایا اور پرانے تعلقات کی تجدید کی۔

اختلافی امور پر بھی ملک میں اور ملک سے باہر بھی بارہا بات ہوئی، لیکن محبت اور اعتماد  کا جو رشتہ ۱۹۵۰ء میں قائم ہوا تھا، وہ زندگی بھر قائم رہا۔ یہ سب اللہ کا فضلِ خاص اور طریق کار      کے بارے میں اختلاف کے باوجود اصل مقصد کے اشتراک اور باہمی اخوت اور اعتماد کا نتیجہ تھا۔ اللہ تعالیٰ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے    ؎

ساز دل چھیڑ کے بھی، توڑ کے بھی دیکھ لیا

اس میں نغمہ ہی نہیں کوئی محبت کی