گذشتہ ماہ سید جلال الدین عمری کی تصنیف : تحقیقاتِ اسلامی کے فقہی مباحث پر تبصرہ شائع کیا تھا۔ اس پر کتاب کے فاضل مصنف کی طرف سے موصولہ چند توضیحات افادئہ قارئین کے لیے ذیل میں پیش کی جارہی ہیں۔(ادارہ)
’’آج کے دور میں اجتہاد کی کیا اہمیت ہے؟‘‘___ تبصرے کے آغاز میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس مجموعے کے پہلے ہی مضمون ’اسلامی شریعت میں اجتہاد کا عمل‘ میں تفصیل سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اجتہاد کی کیا اہمیت ہے اور احکامِ شریعت میں اجتہاد کی کتنی اور کہاں گنجایش ہے؟ اجتہاد کی مختصر سی تاریخ، تقلید اور اس کی مخالفت، دورِ جدید کے تقاضوں اور اجتماعی غوروفکر کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مگر اس تبصرے میں اس کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے، حالانکہ یہ تبصرے کی تمہید کا تقاضا تھا۔
مبصر نے ایک مقام پر توجہ دلائی ہے کہ: ’’مولانا عمری اصولی مباحث میں ائمہ اور اکابر علما کی آرا اور قدیم علوم سے نظائر تو بڑی خوبی سے پیش کردیتے ہیں لیکن موجودہ (خصوصاً بھارت کی) صورت حال میں ان اصول و نظائر کا عملی اطلاق کیسے ہوگا، اس سلسلے میں وہ کوئی واضح اور دوٹوک فیصلہ نہیں دیتے‘‘۔ اس کی مثال یہ دی گئی ہے کہ ’’غیرمسلموں سے ازدواجی تعلقات کے ضمن میں بھارت میں ہندو مسلم شادیوں کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ عمری صاحب نے اہلِ کتاب سے شادی پر تو اظہارِ خیال کیا ہے مگر ہندو مسلم شادیوں کا تذکرہ نہیں چھیڑا ہے۔ غالباً اس لیے کہ بہت سی پیچیدگیاں ہونے کا احتمال تھا‘‘۔ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ اس مضمون کا ابتدائی حصہ ہندستان (یا جہاں کہیں یہ صورت حال ہو) ہی کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’’اس طرح کے تعلقات مسلم نوجوانوں میں بھی شاذونادر نہیں رہے بلکہ کثرت سے دیکھے جا رہے ہیں۔ مسلمان لڑکے اور لڑکیاں غیرمسلم لڑکے اور لڑکیوں سے ازدواجی رشتے میں منسلک ہوجاتے ہیں۔ کورٹ میرج کے ذریعے اسے قانونی تحفظ بھی حاصل ہوجاتا ہے‘‘۔ (ص ۱۰۷)
اس کے بعد کہا گیا ہے: ’’اسلام نے ازدواجی رشتوں کے سلسلے میں عقیدے کو بنیادی اہمیت دی ہے وہ توحید کا علَم بردار ہے، اس لیے اس نے اہلِ شرک سے ازدواجی رشتے کو حرام قرار دیا ہے، اس لیے کہ دونوں عقیدوں کے درمیان جوہری اور اساسی فرق ہے‘‘ (ص ۱۰۸)۔ اس کے ثبوت میں قرآن کا حوالہ دیا گیا ہے اور یہ بتایاگیا ہے کہ عہدِرسالتؐ میں مشرکین سے جورشتے قائم تھے وہ ختم کردیے گئے۔ اسی مضمون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کا جواز ہے لیکن پسندیدہ نہیں ہے اور آخر میں عرض کیا گیا ہے کہ ’’جہاں تک بت پرست و آفتاب پرست، ستارہ پرست، آتش پرست اور اس طرح کی مشرک قوموں کا تعلق ہے، ان کی عورتیں مسلمانوں کے لیے حلال نہیں ہیں۔ یہ نص قرآن اور اجماع سے ثابت ہے‘‘ (ص ۱۳۵)۔ کیا اس کے بعد بھی مزید کسی وضاحت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور کیا یہ بات کہی جائے گی کہ ہندستان کے پس منظر میں اس پر گفتگو سے احتراز کیا گیا ہے۔ غالباً یہ پوری بحث کسی وجہ سے تبصرہ نگار کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکی ہے۔
اس کے علاوہ میں نے اپنی کتاب غیرمسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق کا حوالہ دیا ہے۔ اس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ جو لوگ اس طرح کے رشتوں کی حمایت کرتے ہیں ان کے کیا دلائل ہیں اور ان دلائل کی کیا کمزوریاں ہیں؟اس طرح کے رشتوں کی قانونی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے کہا گیا ہے : ’’اسلام جس ازدواجی تعلق کو صحیح نہیں تسلیم کرتا، اس کی بنیاد پر حقوق اور ذمہ داریوں کا سوال بھی اس کے نزدیک بے معنی ہے۔ جب کوئی عورت اسلامی قانون کی رُو سے کسی کی بیوی اور وہ اس کا شوہر نہیں ہے تو دونوں کے حقوق اور ذمہ داریاں ازخود ختم ہوجاتی ہیں۔ عورت نہ تو اپنے حقوق کا مطالبہ کرسکتی ہے اور نہ مرد کے مطالبات کی تعمیل اس کے لیے لازمی ہوگی۔ اس تعلق کے نتیجے میں جو اولاد ہوگی وہ بھی اپنے نان و نفقہ، تعلیم و تربیت جیسے قانونی حقوق سے محروم ہوگی۔ ان کے درمیان قانونِ وراثت نافذ نہیں ہوگا۔ اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ اس ناجائز تعلق پر عورت اور مرددونوں پر اسلامی ریاست میں حدِ شرعی نافذ ہوگی‘‘۔(ص ۹۷-۹۸)
اس مجموعے کا دوسرا مضمون ہے: ’ہندستان کی شرعی و قانونی حیثیت‘۔ تبصرے کی روشنی میں یہ خیال ہوسکتا ہے کہ معاملہ ہندستان کا ہے، اس لیے اس سلسلے میں کوئی واضح بات نہیں کہی گئی ہوگی۔ چونکہ یہ ایک اہم موضوع اور ایک بڑے ملک اور اس کی سب سے بڑی اقلیت سے متعلق ہے، اس لیے اس بارے میں بھی اس مضمون کے حوالے سے کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
اس مضمون میں پہلے تو یہ بتایا گیا ہے کہ فقہاے کرام نے ’دار‘ کی تین قسمیں بیان کی ہیں: دارالاسلام، دارالحرب اور دارالبغی۔ پھر اِس بات کا بھی امکان ہے کہ دارالاسلام اور دارالحرب کے درمیان معاہدئہ صلح ہو۔ جب تک صلح ہے دونوں کے درمیان جنگ نہیں ہوسکتی۔ اس اصولی بحث کے بعد ہندستان میں مسلمانوں کے دورِ اقتدار، انگریزوں کے دورِ حکومت، ملک کی آزادی اور بعد کی صورت حال کا ذکر ہے۔ اسی ذیل میں اس کے سیکولر دستور اور اس کے تسلیم کردہ حقوق بیان ہوئے ہیں۔ اس کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ ہندستان گو دارالاسلام نہیں ہے، لیکن فقہا کی اصطلاح میں دارالحرب بھی نہیں ہے۔ فقہا کے نزدیک دارالہجرت سے ہجرت لازم ہے لیکن ساتھ ہی انھوں نے لکھا ہے کہ دارالحرب میں اگر ’’آدمی کو دین پر عمل اور دعوتِ دین کی آزادی حاصل ہو، وہ ظلم و زیادتی سے محفوظ ہو، ظلم ہو تو اسے دفاع کا حق حاصل ہو، اس کا قیام وہاں اُمت مسلمہ کے لیے مفید ہو تو اس کے لیے ہجرت صحیح نہیں ہے، وہاں قیام واجب ہے۔ یا کم از کم وہاں سے ہجرت کو فرض نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ بہ ظاہر ہندستان کا شمار اسی دوسری قسم میں ہوتا ہے‘‘۔ (ص ۴۹)
مسلمانانِ ہند کی دستوری حیثیت اور یہاں مسلمانوں (اقلیتوں) کو جو دستوری حقوق حاصل ہیں ان کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ ’’مسلمانوں کا اس ملک کو اپنا وطن بنانے اور یہاں رہنے، بسنے کا فیصلہ محض قانونی یا سیاسی مجبوری نہیں ہے بلکہ شرعی حکم اور دین کا تقاضا ہے‘‘ (ص ۵۱)۔ آگے عرض کیا گیا ہے کہ ’’جب ہندستان شرعاً و قانوناً مسلمانوں کا وطن ہے اور وہ یہاں اپنے مسلمہ حقوق کے ساتھ رہ رہے ہیں تو انھیں ممکنہ حد تک شرعی زندگی گزارنی لازم ہے۔ وہ شریعت کے ان تمام احکام کے مکلف ہیں جن کو وہ انجام دے سکتے اور جن کو وہ انجام نہیں دے سکتے، ان کے سلسلے میں کوئی کوشش کرنی ہوگی تاکہ اس کے مواقع انھیں حاصل ہوسکیں۔(ص ۵۱)
اس سلسلے میں یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ آج کے جمہوری ممالک یا ہندستان جیسے جمہوری ملک کی صورت حال ماضی میں نہیں تھی، اس لیے قدیم فقہا کے ہاں اس پر بحث نہیں ملتی، البتہ انھوں نے دارالاسلام اور دارالحرب پر جو بحثیں کی ہیں، ان سے اس سلسلے میں مدد اور رہنمائی ضرور ملتی ہے۔ پھر اس کی کچھ تفصیل فراہم کی گئی ہے۔ بہرحال یہ ایک نازک بحث ہے۔ میں نے اس میں اپنی راے وضاحت سے پیش کی ہے۔ امید ہے اصحابِ علم اس پر غور کریں گے۔
اس مجموعے کے دوسرے مضامین ہیں: دارالاسلام اور دارالحرب کا تصور، اسلامی ریاست میں غیرمسلموں پر اسلامی قانون کا نفاذ، اسلامی ریاست میں غیرمسلموں پر حدود کا نفاذ، اسلام کا قانونِ قصاص، قذف اور لعان کے احکام۔ یہ عنوانات آج کے دور میں اسلامیات کے طالب علم کے لیے دل چسپی اور غوروفکر کا موضوع بن سکتے ہیں۔ ان موضوعات کی طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی ہے۔ اگر مختصراً ہی اظہارِ خیال فرماتے تو استفادہ کیا جاسکتا تھا۔