بھارت کے سرکاری ادارے ’قومی انسانی حقوق کمیشن‘ نے ایک استفسار کے جواب میں بتایا ہے کہ ملک میں اکتوبر ۱۹۹۳ء سے اب تک ۲ہزار ۵سو ۶۰ پولیس مقابلے ہوئے، ان میں سے ایک ہزار۲ سو۲۴ مقابلے جعلی تھے۔ اترپردیش کے ریٹائرڈ آئی جی پولیس ایس آر دارپوری نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’اگر تمام معاملات کی جانچ کی جائے تو بمشکل ۵ فی صد مقابلے درست پائے جائیں گے بلکہ میرے خیال میں تو ۹۹ فی صد مقابلے فرضی اور جعلی ہوتے ہیں۔ میں نے ۳۲ سال کی ملازمت کے دوران صرف ایک اصلی پولیس مقابلے (encounter) کا سامنا کیا تھا‘‘ (سہ روزہ دعوت، دہلی، یکم اپریل ۲۰۱۰ئ)۔ اقتصادی ابحاث کے ایک بھارتی ادارے NCAER اور امریکی میری لینڈ یونی ورسٹی کے ایک مشترکہ سروے کے مطابق بھارت کی ایک چوتھائی سے زائد آبادی (۷ئ۲۵ فی صد) خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرتی ہے۔ خطِ غربت کا معیار بھی ملاحظہ ہو۔ دیہی آبادی میں ماہانہ آمدنی ۳۵۵روپے سے کم اور شہری علاقے میں ۵۳۸ روپے ماہانہ سے کم۔ ۴۱ہزار خاندانوں میں کیے جانے والے اس سروے کے مطابق بھارت کی مسلم آبادی میں یہ تناسب اور بھی زیادہ ہے، یعنی ۳۱فی صد۔ ان اعداد و شمار کے مطابق بھارت کے بعض علاقوں میں غربت کا تناسب ناقابلِ یقین حد تک زیادہ ہے، مثلاًچھتیس گڑھ میں ۳ئ۶۳ فی صد، جھاڑکھنڈ میں ۴۹ فی صد، مدھیہ پردیش میں ۵ئ۴۵ فی صد اور اڑیسہ میں ۳ئ۴۱ فی صد۔
ایک جانب تو یہ تلخ حقائق ہیں اور دوسری طرف دنیا میں یہ تصویر اور تصور گہرا کیا جا رہا ہے کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، مستقبل کی سوپرپاور ہے۔ ۲۰۵۰ء میں چار عالمی قوتیں چین، جاپان، بھارت اور برطانیہ عالمی پیداوار کا ۶۰ فی صد پیدا کر رہی ہوں گی۔ امریکا میں ہونے والی حالیہ توانائی کانفرنس میں وزیراعظم من موہن سنگھ نے بھی یہی لَے بلند کرتے ہوئے کہا ہے کہ عنقریب ہماری سالانہ ترقی کی شرح ۹ سے ۱۰ فی صد، بچت کی شرح ۳۵ فی صد اور سرمایہ کاری کا تناسب ۳۷ فی صد ہونے کو ہے۔ واضح رہے کہ بھارت میں اقتصادی ترقی کی شرح ۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۰ء کے درمیان تقریباً ۶ فی صد، ۲۰۰۰ء کے بعد تقریباً ۶ئ۸ فی صد، ۲۰۰۷ء میں ۴ئ۹ فی صد، ۲۰۰۸ء میں ۸ئ۷ فی صد اور ۲۰۰۹ء میں ۷ئ۶ فی صد رہی ہے۔
تعمیر و ترقی اور امن و استحکام ہرقوم اور ملک کی بنیادی ضرورت ہی نہیں اس کا حق بھی ہے۔ ایک اہم اور بڑا پڑوسی ملک ہونے کی حیثیت سے ہم بھارت کے اس حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ مسلّمہ حقیقت ہے کہ امن و ترقی کے ثمرات کسی ایک خطے میں محدود نہیں رہ سکتے۔ کسی بھی انسان کا امن و استحکام (اگر وہ واقعی انسان ہو تو) یقینی طور پر اس کے پڑوسیوں کے لیے بھی مثبت اثرات رکھتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی پوری دنیا کے سامنے رہنا چاہیے کہ دروغ گوئی پر قائم کیا جانے والا کوئی تاثر اور تصویر کا صرف ایک پہلو سامنے رکھ کر کیے جانے والے فیصلے اور پالیسیاں، کبھی کسی کو حقیقی کامیابی تک نہیں پہنچا سکتیں۔
بھارت یقینا وسیع و عریض رقبے اور (۲۰۰۹ء کے اندازوں کے مطابق) ۱۶ئ۱ ارب کی آبادی پر مشتمل ملک ہے۔ بھارت میں دستور کے مطابق انتخابی عمل بھی تسلسل سے جاری ہے اور وہ مارشل لا کے سایے سے محفوظ رہا ہے۔ اقتصادی ترقی کا سفر بھی بالخصوص ۱۹۹۱ء کے بعد تیز تر ہوا ہے۔ سردجنگ کے دوران روس اور سردجنگ کے بعد امریکا کے علاوہ باقی عالمی قوتیں بھی بھارت کی بھرپور سرپرستی اور مدد کر رہی ہیں۔ اسرائیلی تعاون تو روزِ اوّل سے جاری اور مسلسل روز افزوں ہے۔ روسی سرپرستی بھی ہنوز جاری ہے۔ گذشتہ مارچ میں دلی آنے والے روسی وزیراعظم پوٹین نے عسکری معاہدوں سمیت مجموعی طور پر ۱۰؍ ارب ڈالر کے مزید معاہدے کیے ہیں۔ کم اُجرت اور پیشہ ورانہ صلاحیت رکھنے والی بھارتی افرادی قوت نے ایک دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔ (آئی ٹی) معلوماتی ٹکنالوجی کی ۵۰۰ بڑی عالمی کمپنیوں میں سے ۱۲۵ کمپنیوں نے اسی وجہ سے بھارت کو اپنی سرگرمیوں اور تحقیقات کا مستقل مرکز بنالیا ہے۔ ۷ ہزار ۵سو ۱۷ کلومیٹر طویل ساحل اور تیل سپلائی کے عالمی روٹ پر واقع ہونے اور امریکی و اسرائیلی منصوبہ بندی کے مطابق وسیع تر علاقائی دفاعی نظام میں بھی بھارت کو نمایاں طور پر شریک کیا جا رہا ہے۔ بھارتی ترقی اور خزانے میں ۳۰۰ ارب ڈالر سے زائد کے ذخائر کی حکایت بھی طویل ہوسکتی ہے، لیکن سادہ سا سوال یہ ہے کہ اگر بھارت میں ایسی ہی دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں تو وہاں ساڑھے تین یا چار سو روپے ماہانہ آمدن رکھنے والے ۲۶کروڑ سے زائد افراد کو اس سے جینے کا سہارا کیوں نہیں مل رہا؟ درجن بھر سے زائد علیحدگی کی تحریکیں کیوں وجود رکھتی ہیں؟ جرائم کے بارے میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۱۹۹۵ء اور ۲۰۰۷ء کے درمیان ایک لاکھ ۸۴ہزار بھارتی کسانوں نے بھوک اور غربت کے باعث خودکشی کرلی۔ ان میں ایک بڑی تعداد ان کسانوں کی تھی جنھوں نے زرعی آلات، ادویات اور ضروریات خریدنے کے لیے بنکوں سے قرض لیے ہوئے تھے جو سوددرسود جمع ہوجانے کے باعث خودہلاکتی ہی کے ذریعے ادا کیا جاسکتے تھے۔ ترقی و خوش حالی کا پیغام ان غریب کسانوں اور اب ان کے وارثوں تک کیوں نہ پہنچ سکا؟
ترقی کے لیے جس داخلی استحکام کی ضرورت ہے، اس میں بنیادی رکاوٹ اور دعواے ترقی سے متصادم ایک حقیقت خود ہندو طبقاتی عقیدہ و تقسیم بھی ہے۔ ۸۲ فی صد ہندو اکثریت میں سے، رام کے سر سے پیدا ہونے والے اعلیٰ براہمن طبقے کا تناسب صرف ۳فی صد ہے۔ ۴۳فی صد بے چارے اچھوت تو اعلیٰ طبقات کے لیے مخصوص مندروں تک کو بھی آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھ سکتے۔ ہیں تو یہ بھی انسان ہی، لیکن دیہاتی علاقوں میں یہ اُونچی ذات والوں کے سامنے بیٹھنے کی جسارت بھی نہیں کرسکتے۔ ان کے لیے مخصوص کھانے پانی سے پیٹ کی آگ نہیں بجھاسکتے۔ روشن، چمکتے بھارت (Shining India) میں یقینا اس وقت ۱۰۰ سے زائد ایسی کمپنیاں ہیں جن کا سرمایہ ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے، لیکن یہ ساری دولت و ثروت چندمخصوص طبقات اور علاقوںتک محدود ہے۔ ۲۰۰۷ء میں جاری ہونے والی اقوام متحدہ کی رپورٹ میں دنیا کے ۱۷۸ ممالک کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اس جائزے میں ملکی آبادی کو میسر ہونے والی مختلف بنیادی ضروریات، جیسے پینے کا پانی، تعلیمِ بالغاں، تعلیمی ادارے، مجموعی قومی ترقی میں عام افراد کا حصہ وغیرہ جیسے سوالات شامل تھے۔ نتائج آئے توبھارت ۱۲۸ویں نمبر پر کھڑا منہ بسور رہا تھا۔
کسی بھی انسان کے لیے دیگر اقوام کی ترقی اور کامیابی تکلیف کا باعث نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح کسی کی غربت و تکالیف پر خوشی محسوس کرنا بھی انسانیت کی نفی اور توہین ہے، لیکن بے بنیاد پروپیگنڈے کے ذریعے اپنی دکان چمکانے کی کوشش بھی بعینہٖ اتنی ہی معیوب اور باعثِ ملامت و نفرت ہے۔ اس وقت دنیا بالخصوص عرب ممالک میں اسی طرح کا یک طرفہ بھارتی اور بھارت نواز پروپیگنڈا عروج پر ہے۔ کشمیر میں ۷ لاکھ مسلح افواج کے ذریعے لاکھوں افراد کو موت، تشدد یا قید کی نامعلوم وادیوں میں اُتار دینے والا بھارت ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ کی خودساختہ کلغی سجائے، خود کو مستقبل کی اہم عالمی طاقت منوانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔ کئی مسلم ملک اور مسلم شخصیات بھی اس فریب کا شکار ہوچکی ہیں۔ عرب بالخصوص خلیجی تجزیہ نگار اس صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے کھلم کھلا اقرار و اظہار کر رہے ہیں کہ اب ہماری خارجہ پالیسی صرف اور صرف دوطرفہ مفادات کی بنیاد پر طے پارہی ہے۔ اب ہم بھارت کے ساتھ اپنے باہمی تعلقات کو پاکستان کے تناظر میں نہیں دیکھتے، اور نہ اب مجرد قومی خواہشات، کسی نظریاتی اعتبار یا دینی و نسلی شناخت کو اس راہ میں آڑے آنے دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں کشمیر کا ’ذکرِخیر‘ خصوصی طور پر کیا جاتا ہے کہ بالآخر عرب ممالک نے مسئلۂ کشمیر کو نظرانداز کردیا ہے۔ اس تبدیل شدہ عرب پالیسی کی دیگر وجوہات میں سے ایک اہم وجہ خود پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی بتائی جاتی ہے۔ پرویز مشرف کے اکتوبر ۲۰۰۴ء میں دیے گئے اس بیان کو خصوصی طور پر نمایاں کیا جاتا ہے کہ ’’مسئلۂ کشمیر کے حل کے لیے ہم اقوام متحدہ کی قراردادوں کے پابند نہیں ہیں‘‘۔ نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال اور مجموعی طور پر جہادی تحریکوں کے خلاف کیے جانے والے پروپیگنڈے کو تبدیلی کا ایک اور سبب بتایا جاتا ہے۔
بھارت کے ساتھ عالمِ عرب بالخصوص خلیجی ریاستوں کے تعلقات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بھارت کے ساتھ عرب ممالک کی تاریخ بیان کرتے ہوئے پوری تاریخِ اسلامی کے حوالے جمع کردیے جاتے ہیں۔ ۷۱۲ عیسوی میں محمد بن قاسم کی براستہ سندھ برعظیم پاک وہند میں آمد کے ساتھ ہی ساتھ، بھارتی ساحلی علاقے کیرالا میں مسلمان تاجروں کی آمد کا ذکر کیا جاتا ہے۔ بعض عرب تاریخ نویس تو لکھتے ہیں کہ ’کیرالا‘ بنیادی طور پر عرب تاجروںکا دیا ہوا نام ’خیراللہ‘ تھا، جو بعد میں کیرالا بن گیا، لیکن عجیب امر یہ ہے کہ برعظیم کے ساتھ عالمِ عرب کے ان تمام تاریخی بندھنوں کو بالآخر آج کے بھارت سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی یہ مفت مشورہ بھی دیا جاتا ہے کہ بھارت سے تعلقات کو پاکستان حتیٰ کہ بنگلہ دیش کے تناظر میں نہ دیکھا جائے۔ گویا کہ باہمی تعلقات میں مسلمان اور اسلام نام کی کوئی بنیاد باقی نہ رہنے دی جائے۔ اس حوالے سے سب سے مسموم پروپیگنڈا یہ کیا جاتا ہے کہ ’’مسلمانوں نے اپنی قوت کو تین حصوں میں تقسیم کرکے خود ہی کو کمزور کرلیا۔ مسلمان برطانوی سازش کا شکار ہوگئے‘‘۔ اکھنڈ بھارت کے اس نظریے کو بعض اسلام پسند طبقات کے مابین بھی اس شکر میں لپیٹ کر پھیلایا جاتا ہے کہ ’’مسلمانوں کے لیے راہِ نجات ہی یہ ہے کہ پھر سے یک جا ہو جائیں‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس منطق میں پھر آزادیِ کشمیر کی کیا گنجایش رہ جاتی ہے۔
ہندو ذہنیت کی براہِ راست یا بالواسطہ ترجمانی کرتے ہوئے عالمِ عرب میں ایک اور منطق اسرائیل کے بارے میں بھی پیش کی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ منطق بھی بعض مسلمان رہنمائوں کے ذریعے ہی پیش کی جارہی ہے۔ کبھی خود بھارتی ذمہ داران کو یہ خدشہ درپیش رہتا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات منظرعام پر نہ آپائیں وگرنہ عرب ممالک کی ناراضی مول لینا پڑے گی۔ اب اس خدشے کا دور لَدچکا۔ اب تو خود عرب ممالک اور اسرائیل مخالف عناصر کاایک گروہ بھی بھارت اسرائیل تعلقات کی ایک ایک تفصیل کامل جزئیات کے ساتھ بیان کرتا ہے اور پھر اس درست اور تلخ حقیقت سے یہ غلط اور مزید تلخ نتیجہ نکالتا ہے کہ ’’ہم عربوں نے بھارت کو اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اسرائیل کے شر سے بچنے کا اصل راستہ یہ ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط سے مضبوط کریں۔ اب تو ویسے بھی وہ مستقبل کی بڑی طاقت ہے۔ اسے سیکورٹی کونسل میں مستقل ممبر بنوانا چاہیے۔ اسے مسلمان ممالک کی تنظیم اوآئی سی میں بھی مبصر کی حیثیت سے شامل کرلینا چاہیے‘‘۔
اس وقت صرف خلیجی ممالک میں بھارتی باشندوں کی تعداد ۵۰ لاکھ سے متجاوز ہے۔ ہرسال بیرونِ ملک مقیم ہندستانیوں کی طرف سے بھیجے جانے والے ۵ئ۴۳ ارب ڈالر میں سے ۱۸ارب ڈالر صرف یہی خلیج میں مقیم افراد بھیجتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کئی خلیجی ریاستوں میں ہندستانی افرادی قوت کی اکثریت مسلمان ہے۔ یہ پُرامن ہندستانی مسلمان بھارت کے ساتھ خلیجی ریاستوں کے تعلقات کی مضبوطی کی اہم بنیاد ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ان کا مسلمان ہونا ان کے بارے میں منفی پروپیگنڈے کا سبب بنادیا جاتا ہے۔ ویسے تو بات صرف خلیج میں مقیم مسلمانوں کی نہیں ہے، اکثر بھارتی مسلمانوں کو الزامات کے اسی ترشول کی زد میں رکھا جاتا ہے۔ ’دہشت گرد‘، ’جاسوس‘، ’شدت پسند‘ اور نہ جانے کیا کیا القابات ان کے لیے مخصوص کردیے گئے ہیں، لیکن خلیج کے مخصوص حالات اور حساس نظامِ حکومت میں یہ الزامات بالکل ہی ناقابل فہم ہیں۔
بظاہر یہ ایک متضاد حقیقت ہے کہ ایک طرف مسلم ممالک سے تعلقات کی مضبوطی کا اہم ذریعہ، بھاری زرمبادلہ اور دوسری جانب الزامات کا تانتا؟ بدقسمتی سے بھارتی حکمرانوں، نمایاں مذہبی پیشوائوں اور دانش وروں کا ایک مؤثر طبقہ مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ تعصباتی تیشے کی یہی ضربیں لگانے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔ انھوں نے بعض خلیجی تجزیہ نگاروں کے منہ میں بھی یہ الفاظ دے دیے ہیں۔ ایک مثال ملاحظہ ہو: ’’اگرچہ بھارت کو جس دہشت گردی کا سامنا ہے، اسے عمومی طور پر پاکستان کے اندر سے امداد ملتی ہے لیکن بھارتی تحقیقاتی ایجنسیوں نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ ان شدت پسند دہشت گردوں کو خلیج میں مقیم بھارتی کمیونٹی سے تعاون ملتا ہے۔ انھیں وہاں اس نیٹ ورک میں شامل کیا جاتا ہے، ٹریننگ دی جاتی ہے اور پھر بھارت میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے‘‘۔ بھارت کی طرف سے مختلف خلیجی رفاہی اداروں کے بارے میں بھی اسی طرح کے شکوک پھیلائے جاتے ہیں اور خلیجی جامعات میں زیرتعلیم بھارتی طلبہ کے بارے میں بھی انھی شبہات کو ہوا دی جاتی ہے۔
شر میں سے خیر کی سبیل نکالنا الٰہی سنت ہے۔ اپنے ہی شہریوں کے بارے میں اس تشکیکی ذہنیت نے خلیج میں عمومی طور پر بھارتی مسلمانوں کے بارے میں اظہارِ ہمدردی پیدا کیا ہے۔ بھارت کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر تعلقات کی وکالت کرنے والے عرب دانش ور بھی بھارتی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ مسلم ممالک سے تعلقات مضبوط کرنے کے لیے بھارت اپنے ہاں ہندو تعصب کا سدباب کرے۔ گجرات میں ۲ہزار مسلمانوں کی شہادت اور اس سے پہلے بابری مسجد کی شہادت جیسے واقعات اور مسلمانوں کی عمومی پس ماندگی جیسے حقائق آج کے دور میں کسی سے مخفی نہیں رہ سکتے۔ اگرچہ فی الحال یہ کہنا دشوار ہے کہ بھارت عالمِ اسلام کی اس تشویش کے ازالے کے لیے کوئی عملی اقدام اُٹھا رہا ہے۔
بھارتی حکومت دانش وروں اور پالیسی سازوں کا ایک بہت بڑا طبقہ اپنی تمام تر مشکلات و مصائب کی ذمہ داری اپنے پڑوسی ممالک کے گلے ڈال دیتا ہے۔ ممبئی واقعات کے بعد سے مسلسل کیا جانے والا واویلا اس کا سب سے واضح ثبوت ہے۔ دلی کے ایک معروف تھنک ٹینک سے متعلق دانش ور براھما چیلانی ’’تبدیل شدہ دنیا میں بھارتی خارجہ پالیسی‘‘ کے عنوان سے الجزیرہ کے لیے لکھی گئی اپنی تحریر میں رقم طراز ہیں: اس سب کچھ (یعنی ترقی) کے باوجود بھارت کے جغرافیائی محل وقوع کا ایک انتہائی اہم عنصر، اس کے گرد تنی شورش زدہ کمان ہے۔ جیوپولیٹییکل تناظر میں یہ بھارت کا سب سے کمزور پہلو ہے۔ بھارت کا پڑوس مستقل طور پر اور انتہائی درجے کا فسادزدہ علاقہ ہے۔ بھارت کو ناکام اور استبدادی ممالک نے گھیرا ہوا ہے جو ایک یا پھر دوسرے راستے سے بھارت کے سیکولرزم، اس کی کثیرالقومی اور کثیرثقافتی شناخت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت کے گرد تنی یہ شورش زدہ کمان، لبنان سے پاکستان تک پھیلی ہوئی ہے اور علاقائی و عالمی امن پر گہرے منفی اثرات مرتب کر رہی ہے‘‘۔
یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ بھارت اپنے تمام پڑوسی ممالک سے شاکی ہے۔ ۱۲مبسوط صفحات پر پھیلے اسی سابق الذکر مقالے سے اپنے پڑوسیوں کے بارے میں چنیدہ حصے ملاحظہ کیجیے:’’بین الاقوامی سیاست اس نئی صورت حال کو ماننے پر آمادہ نہیں ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیاسی سرحدیں معدوم ہوچکی ہیں۔ ڈیورنڈ لائن ویسے بھی برطانوی استعمار کی سازش اور ایک مصنوعی لائن تھی جس نے دونوں طرف کے پشتونوں کو تقسیم کر کے رکھ دیا تھا۔ آج اس سرحد کا وجود صرف نقشوں میں باقی ہے… افغانستان اور پاکستان کے درمیان واقع یہ سرحدی علاقہ جہادیوں کاگڑھ بن چکا ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین اس سرحد کا سیاسی، اقتصادی یا نسلی حوالے سے کوئی وجود و کردار نہیں بچا۔ اس کا نتیجہ کیا ہوگا…؟ ’پشتونستان‘ کاقیام۔ وہ سیاسی وجود جس کے لیے پشتونوں نے طویل قربانیاں دیں اس کا سورج طلوع ہوکر رہنا ہے خواہ وہ اس علاقے میں موجود مسلح اسلامی تحریکوں کے خاتمے کے بعد ان کے ملبے تلے سے طلوع ہو‘‘۔
مقالہ نگار امریکا کی جانب سے پاکستان کے لیے اعلان کردہ مالی امداد پر اظہارِ تشویش کے بعد گویا ہیں: ’’مزید بدقسمتی یہ ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ دہشت گردی کو کچلنے کے بجاے اسے رام کرنا چاہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کے خطرات سے یوں آنکھیں موند لینے نے بھارتی سلامتی کو تباہی کے کنارے لاکھڑا کیا ہے۔ بھارت کے لیے اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے مغرب سے آنے والے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے مکمل تیاری کرے‘‘۔
بھارت کے مشرق میں برما اور بنگلہ دیش واقع ہیں۔ ان میں سے پہلی ریاست میں فوجی نظام کے جبروسفاکیت، امریکی پابندیوں میں توسیع اور انسانی تباہی عروج پر ہے، جب کہ دوسری میں اسلامی بنیاد پرستی کے مضبوط تر ہوتے چلے جانے کے باعث اس کے دوسرا پاکستان بننے کے خطرات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بنگلہ دیش آبادی کے اعتبار سے دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے اور اس کی خوں ریز ولادت سے لے کر آج تک وہاں سیاسی اتھل پتھل جاری ہے… پاکستان کی طرح بنگالی فوج کے خفیہ اداروں نے بھی جہادی جماعتوں کی سرپرستی اور آبیاری کی اور انھیں اندرون و بیرون ملک، اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کے علاوہ احمدی جماعت پر مظالم ڈھالنے کے لیے بھی استعمال کیا۔ بنگالی خفیہ اداروں کے خفیہ پاکستانی اداروں کے ساتھ گہرے خفیہ تعلقات ہیں اور اس نے بنگالی سرزمین کو بھارت کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کے لیے استعمال ہونے دیا، ساتھ ہی ساتھ شمال مشرقی بھارت میں علیحدگی پسندوں کی مدد کی‘‘۔
اس مقالے میں برما پر شدید الفاظ میں تنقید کے ساتھ ہی ساتھ اس کے چین کی گود میں چلے جانے، اس کے ذریعے بھارتی علاقوں میں چینی مداخلت کے خدشات کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ پھر اس سے ملتے جلتے خدشات نیپال اور سری لنکا کے بارے میں بھی ظاہر کیے گئے ہیں۔ سری لنکا میں باغیوں کو کچلنے کے لیے حکومتی کارروائیوں پر تو اظہارِ اطمینان ہے لیکن اس امر پر افسوس کیا گیا ہے کہ یہ کارروائی چین سے ملنے والے اسلحے اور ہتھیاروں کے ذریعے کی گئی ہے۔ اب چین اس کے مقابل سری لنکا میں ایک ارب ڈالر کی مالیت سے بننے والی ھامبن ٹوٹا (hambantota) نامی بندرگاہ بنانے کا منصوبہ حاصل کرچکا ہے۔
یہ طویل اور مسموم مقالہ صرف ایک تجزیہ ہی نہیں، بھارتی ذہنیت اور پالیسیوں کا صحیح عکاس ہے۔ اپنے تمام پڑوسی ممالک کے بارے میں دشمنی کی حد تک سوء ظنی کے جذبات، امریکا سمیت پوری عالمی برادری کو طعنے اور کوسنے دے دے کر اسے ان ممالک کے خلاف اُکسانا، اور ان ممالک میں بھارتی عزائم کی تکمیل کو احسانِ عظیم قرار دینا خواہ وہ ’پشتونستان‘ کے خواب کی تکمیل ہو یا افغانستان کے لیے ۲ئ۱ ارب ڈالر کی بھارتی امداد کے جواب میں وہاں بھارتی نفوذ میں اضافے کا خواب، اس مقالے کی نہیں، بھارتی پالیسیوں کی اصل روح بھی ہے۔
ان تلخ حقائق کے باوجود، عالمِ عرب کے مخلص دوستوں کی طرح ہماری بھی دلی دعا ہے کہ، بھارت واقعی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بن جائے۔ بھارت واقعی ترقی یافتہ اور مستقبل کی ایک اہم عالمی طاقت بن جائے۔ بھارت میں امن و استحکام کا خواب منہ بولتی حقیقت بن جائے۔ لیکن بھارتی حکومت، پوری سیاسی قیادت اور اس کے ہر شہری کو یہ نوشتۂ دیوار ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اس کے لیے نفرت اور دشمنیوں کو نہیں اخلاص و محبت کو پروان چڑھانا ہوگا۔۶۳سال کے مشکل سفر کے بعد اب تو یہ بات خود کو سمجھانا ہوگی کہ مسئلۂ کشمیر کسی ضد اور ہٹ دھرمی کی بات نہیں لاکھوں کشمیری عوام کے جذبۂ آزادی کا نام ہے۔ فوج کشی اور زور زبردستی نہ پہلے کام آسکی نہ آیندہ کبھی کام آسکے گی۔ جنگ، فوج کشی اور ترقی و کمال دو متصادم و متضاد فلسفے ہیں___ تمام بھارتی شہری خواہ وہ مسلمان ہوں یا سکھ عیسائی اور کم ذات ہندو جب تک سب کو یکساں حقوق و مواقع نہیں دیے جائیں گے جمہوریت کا ہر دعویٰ باطل قرار پائے گا۔ اپنی ہی سچّرکمیٹی کی رپورٹ ملاحظہ فرمالیجیے یا گجرات و بابری مسجد کی تحقیقاتی رپورٹوں کو دیکھ لیجیے۔ بھارتی مسلمانوں کے ساتھ سوتیلوں کا سا سلوک خود واضح ہوجائے گا___ بھارت کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ بظاہر صورت حال کچھ بھی ہو، ۲۰کروڑ بھارتی مسلمانوں سمیت پوری مسلم اُمت کے حالات و واقعات دنیا کے ہرمسلمان کو اپنی جانب ضرور متوجہ کرتے ہیں۔ بالآخر سب مسلمان ایک ہی سچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں___ بھارت کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اس کے تمام پڑوسی کسی نہ کسی حوالے سے اس سے کیوں نالاں اور شکوہ کناں ہیں۔ رقبے اور آبادی میں کسی کا بڑا ہونا اقوام و ممالک کے درمیان برابری کے مسلّمہ اصول کی نفی نہیں کرتا۔ جمہوریت کا دعویٰ اس اصول کی آبیاری کا سب سے زیادہ متقاضی ہے۔ یہ بات بھارت سے زیادہ کون سمجھتا ہوگا کہ صرف آشائوں سے امن حاصل نہیں ہوتا، نفرت کی بھاشا اور مبنی بر منافقت پالیسی ترک کرنا امن کا پہلا زینہ ہوتا ہے۔