مئی ۲۰۱۰

فہرست مضامین

کتاب نما

| مئی ۲۰۱۰ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

مدینۃ النبیؐ، ڈاکٹر رانا محمد اسحاق، ڈاکٹر رانا خالد مدنی۔ ناشر: ادارہ اشاعت اسلام،         ۴۰۸-گلشن بلاک، علامہ اقبال ٹائون، لاہور-۵۴۵۷۰۔ فون: ۳۶۱۲۱۸۵۶-۰۴۲۔ ملنے کا پتا: ادبستان، ۴۳- ریٹی گن روڈ عقب سنٹرل ماڈل سکول، لوئرمال، لاہور۔ صفحات: ۴۶۴۔ قیمت: ۱۵۰۰روپے۔

زیرنظر کتاب کے مؤلف نے ایک صحیح حدیث کا ترجمہ ان الفاظ میں نقل کیا ہے: ’’اے  اللہ تعالیٰ! مدینہ بھی ہمیں مکہ مکرمہ کی طرح محبوب کردے بلکہ اس سے بھی زیادہ محبوب کردے‘‘۔ مؤلف نے مدینہ طیبہ کی برکت، پاکیزگی اور فضائل کے بارے میں مذکورہ بالاحدیث کے علاوہ بھی متعدد احادیث کا ذکر کیا ہے۔

فاضل مصنف نے مدینۃ النبیؐ کے موضوع پر بلکہ اس کے متعلقات پر بھی نئی پرانی تصاویر سمیت بمقدارِ کثیر لوازمہ جمع کردیا ہے۔ بلاشبہہ اسے مدینہ منورہ پر ایک انسائیکلوپیڈیا یا دائرہ معارف قرار دینا غلط نہیں ہوگا۔ کتاب کے موضوعات و محتویات کی فہرست ۱۴ صفحوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ مدینہ طیبہ کے مختلف نام، قرآن اور حدیث میں مدینہ کے صفاتی اسما، حدودِ حرمِ نبویؐ سے متعلق احادیث، مدینہ سے نبی اکرمؐ کی محبت، مدینہ کی عجوہ کھجور کی فضیلت، مسجدنبویؐ کی تعمیر اوّل سے  لے کر اس میں ہونے والی ۱۹۸۴ء تک توسیعات اور تبدیلیوں کی تفصیل (از سنہ ایک ہجری تا ۱۴۰۵ھ مطابق ۱۹۸۴ئ)۔ مسجد نبویؐ کے فضائل، اس کے مختلف حصے، ستون، حجرے، نقشے، تصویریں، زیارتِ قبرنبویؐ سے متعلق احادیث کا تجزیہ وغیرہ۔

مدینہ طیبہ کی ان تفصیلات کے ساتھ سیرتِ طیبہ کی تفصیلات، خصوصاً آنحضوؐر کے مدنی دور کے بعض واقعات، شہداے اُحد، جنگ ِ احزاب، مدینہ کی مختلف مساجد، پہاڑوں، کنوئوں، چشموں، معروف ڈیموں، جنگلات، مدینہ میں زراعت، مدینہ کی مارکیٹیں، معروف لائبریریاں، شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس سٹی، مدینہ یونی ورسٹی، حتیٰ کہ مدینہ کے باشندوں کے معاشرتی طورطریقے، خوشی اور غمی کی رسومات، شادی کی تقریب، حق مہر، دلھن کا انتخاب، مدینہ کے معروف شادی گھر، عید کی تقریب، تعزیت کا طریقہ وغیرہ وغیرہ کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔

فاضل مصنف مدینہ یونی ورسٹی میں زیرتعلیم رہے۔ بعد میں بھی حجازِ مقدس میں کئی سال تک قیام کیا۔ زیرنظر تحقیق موصوف کے زمانۂ قیامِ حجاز کی یادگار ہے جسے اُن کی وفات (۲مئی ۱۹۹۷ئ) کے بعد اُن کے لائق بیٹے، ڈاکٹر رانا خالد مدنی نے بلاشبہہ بڑی کاوش اور اہتمام سے شائع کیا ہے۔ اس کتاب کی تحریر و تصنیف، طباعت و اشاعت اور پیش کش میں علم و تحقیق سے مصنف اور ناشر کی لگن کا انداز ہوتا اور ان کا تحقیقی و جمالیاتی ذوق بہت واضح نظر آتا ہے۔     مدینۃ النبی اور مسجدنبویؐ کے تعلق سے اتنی مختلف النوع اور اتنی کثیرتعداد میں تصویریں شاید ہی کسی کتاب میں یک جا ملیں گی۔ یہ سب کتاب کے حُسن اور وقار و وقعت میں بھی اضافہ کرتی ہیں۔

کتاب کے آخر میں آیاتِ قرآنی اور احادیث کے اشاریے، اور مصادر و مراجع کی   ایک مفصل فہرست شامل ہے۔ اس کے علاوہ قرآنی آیات و احادیث بلکہ جملہ عربی عبارات پر اِعراب لگانے کا التزام کیا گیا ہے۔ اُردو والے کہہ سکتے ہیں کہ اب مدینہ طیبہ پر ایسی خوب صورت، جامع اور وقیع کتاب اُردو میں بھی موجود ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


رسول اکرمؐ اور تعلیم، ڈاکٹر یوسف قرضاوی، ترجمہ: ارشاد الرحمن۔ ناشر: دارالتذکیر، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۷۲۳۱۱۱۹-۰۴۲۳۔ صفحات: ۲۶۱۔ قیمت: درج نہیں۔

علامہ ڈاکٹر یوسف قرضاوی کا شمار دورِ حاضر کے جید علما میں کیا جاتا ہے۔ آپ نے دورِحاضر کے مشکل ترین موضوعات و مسائل پر تحقیق کی ہے اور قرآن و سنت کی روشنی میں اعتدال کی راہ اپناتے ہوئے اُمت مسلمہ کو عمل کی راہ دکھائی ہے۔ اس کتاب میں سنت کو بنیاد بناکر تعلیم کی اہمیت کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ جناب ارشاد الرحمن نے اصل کتاب الرسول والعلم کا بامحاورہ اور سلیس و رواں اُردو ترجمہ کیا ہے۔

مصنف نے ایک وسیع موضوع کو پانچ ابواب میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ ابتدا میں علم کی فضیلت اور اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے اُمت مسلمہ کی اصل کمزوری کی نشان دہی کی گئی ہے۔  تحقیق کا شعبہ پوری اُمت مسلمہ میں زوال کا شکار ہے اور تحقیق خواہ دینی مسائل میں ہو یا دنیاوی علوم و فنون کے بارے میں، علم کی نقل تو ہو رہی ہے لیکن تحقیق و تجربے سے گریز اُمت مسلمہ کا وتیرہ ٹھیرا ہے۔ اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے تحقیق کو جِلا بخشنے، مشاہدہ و تجربے کے ذریعے نتائج اخذ کر کے علم میں اضافے کی جانب سنت رسولؐ سے بڑے مضبوط دلائل فراہم کیے گئے ہیں۔ علم کی اخلاقیات اور حصولِ علم کے آداب اور تعلیم کی اقدار و مبادیات جیسے موضوعات پر گراں قدر مواد جمع کیاگیا ہے۔ اُمت مسلمہ کی پستی کا سبب علم و تحقیق سے دُوری ہے۔ ایک طرف کم شرح خواندگی، معیاری تعلیمی اداروں کی کمی، تحقیق کی کمیابی اور علمی وسائل کا فقدان ہے تو دوسری طرف اُمت مسلمہ کے حکمرانوں کے علم دشمن رویے ہیں۔

کتاب کے مطالعے سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مصنف اکیسویں صدی کے علوم اور مسائل سے بخوبی واقف ہیں اور آج کے انسان کو قرآن وسنت کی روشنی میں مخاطب کرتے ہیں۔ ڈاکٹر یوسف قرضاوی کی یہ کتاب تعلیم کے موضوع پر ایک جامع دستاویز ہے اور اساتذہ، خطبا، علما اور تحقیق کے طلبہ کی ضرورت ہے۔ (معراج الھدٰی صدیقی)


مشرق تاباں، ڈاکٹر معین الدین عقیل۔ ناشر: پورب اکادمی، اسلام آباد۔ فون: ۵۸۱۹۴۱۰-۰۵۱ صفحات: ۱۶۸۔ قیمت: ۱۹۵ روپے۔

ڈاکٹر معین الدین عقیل اُردو دنیا کی معروف شخصیت ہیں اور ادبی تحقیق کے شعبے میں   ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ کئی برس تک اٹلی اور جاپان کی جامعات میں اُردو زبان و ادب کی تدریس کرتے رہے۔ کراچی یونی ورسٹی سے بطور صدرشعبہ اُردو سے سبک دوشی کے بعد ان دنوں  بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد میں، کلیہ علومِ عمرانی کے ڈین اور پروفیسر شعبۂ اُردو کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

جاپان میں سات سالہ قیام کے دوران میں انھوں نے تصنیف و تحقیق کا سلسلہ برابر جاری رکھا، اور وقتاً فوقتاً ہفت روزہ تکبیر، کراچی میں علمی اور ادبی کالم بھی لکھتے رہے۔ زیرنظر مجموعے میں جاپان سے متعلق ثقافتی اور علمی و ادبی موضوعات پر لکھے گئے کالموں کو جمع کیا گیا ہے۔ (جاپانی سیاست و معاشرت سے متعلق مصنف کے کالم بعدازاں کسی اور مجموعے میں شامل ہوں گے)۔

اس کتاب میں شامل ۱۷ مضامین ادب، تاریخ، تعلیم، خطاطی اور علومِ اسلامیہ کے مختلف اور متنوع پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ بیش تر مضمون قلم برداشتہ لکھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں مگر ان میں بھی مصنف کا تحقیقی ذہن اور علمی رویّہ واضح طور پر نظر آتا ہے۔ کچھ مضامین جاپان کی نمایاں شخصیات پر ہیں، مثلاً پروفیسر سوزوکی تاکیشی جو اُردو کے ایک بڑے خدمت گزار تھے، جدید جاپانی ادب کے ایک رجحان ساز شاعرہاگی وارسکوتارویا، جاپانی خطاط کوٹتشی ہوندا اور سرراس مسعود وغیرہ۔ سر راس مسعود کے سفرجاپان، اسی طرح اُردو کا اوّلین سفرنامۂ جاپان اور سورج کو ذرا دیکھ جیسی کتابوں، پھر جاپان میں اُردو زبان، لسانیات، غالب اور اقبال کے تراجم جیسی تصنیفی کاوشوں کا ذکر ہے۔ جاپان میں اسلام اور دنیاے اسلام کے بارے میں مصنف کے بقول تحقیقی اور علمی کام جو اتفاقِ باہمی اور مشترکہ منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دیے جا رہے ہیں اس کی نظیر اسلامی دنیا میں بھی کہیں نظر نہیں آتی (ص ۱۵)۔ ایک مضمون میں یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان اور جنوبی ایشیا پر نہ صرف مضامین اور کتابوں کی شکل میں بلکہ جامعاتی تحقیق کے حوالے سے بھی قابلِ رشک کام ہو رہے ہیں۔ دو مضامین میں چین کے فرضی سفرناموں کا ذکر ہے۔ ایک مضمون میں معروف سیاح ابن بطوطہ کے سفرچین کے بارے میں بھی شبہہ ظاہر کیاگیا ہے۔

مجموعی طور پر یہ مضامین اپنے موضوعاتی تنوع اور اندازِ بیان کی وجہ سے نہایت دل چسپ اور معلومات افزا ہیں۔ ہرسطح کے اساتذہ، صحافی اور میڈیا سے وابستہ خواتین و حضرات اگر اس کتاب کا مطالعہ کریں گے تو انھیں احساس ہوگا کہ وقت ضائع نہیں ہوا۔(ر- ہ )


ڈاکٹر عبدالقدیرخان کا مقدمہ، نصرت مرزا۔ ناشر: رابطہ پبلی کیشنز، ۷۱۰-سیونتھ فلور،    یونی شاپنگ سنٹر، صدر کراچی۔ فون: ۳۵۲۱۲۷۳۱۔۰۲۱ صفحات: ۴۳۱۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

نصرت مرزا پاکستان کے ان نام وَر صاحب ِعلم و صاحب ِ درد کالم نگاروں میں شامل ہیں جو خونِ جگر میں انگلیاں ڈبو کر علمی، دینی اور تہذیبی مسائل کے بارے میں قوم کو شعور دیتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا مقدمہ، دردِ دل کے ساتھ لکھے جانے والے مضامین کی کتابی صورت ہے۔ پاکستان کو عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بنانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے شخص کے ساتھ اغیار ہی نہیں، اپنوں نے بھی محسن کشی کا ثبوت دیا ہے۔

کتاب سات حصوں پر مشتمل ہے۔ مقدمے میں ڈاکٹر قدیرخان اور دیگر ایٹمی سائنس دانوں پر الزامات کا تجزیہ ہے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی معلومات اور اس کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے کا مناسب جواب دیا گیا ہے۔ وہ وثائق و خطوط بھی شامل کیے گئے ہیں جو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی ابتدائی کہانی سناتے ہیں۔

کتاب کا مطالعہ جذبۂ حب الوطنی اور دینی تعلق کو توانا کرتا ہے۔ چُست محاوروں کے استعمال اور برموقع اشعار نے کتاب میں دل چسپی کے عنصر میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہ کتاب   تاریک دور کے روشن کرداروں کی تاریخ میں گراں قدر اضافہ ثابت ہوگی۔ (م- ص)


ساحرہ کے افسانے، مرتبہ: سعیدہ احسن۔ ناشر: ادارہ بتول، ۱۴-ایف، سید پلازہ، ۳۰-فیروز پور روڈ، لاہور۔ فون: ۳۷۵۸۵۴۴۹-۰۴۲۔ صفحات: ۴۴۰۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

۳۹ افسانوں کا یہ مجموعہ اُن ’قلم کاروں کے نام‘ کیا گیا ہے ’جنھوں نے حُرمت ِ قلم کا پاس رکھا‘۔ سعیدہ احسن کے یہ افسانے آج سے تقریباً نصف صدی پیش تر ہفت روزہ قندیل میں ’ساحرہ‘ کے قلمی نام سے چھپتے رہے کیوں کہ اس زمانے میں (بعض گھرانوں کی روایات کے مطابق) کسی خاتون کا اپنے اصل نام سے افسانے لکھنا معیوب تصور کیا جاتا تھا۔

سعیدہ احسن کے افسانوں کا بنیادی موضوع ’عورت‘ ہے چنانچہ ان افسانوں میں عورت کی زندگی کے مختلف روپ ملتے ہیں۔ یہ کہانیاں صنفِ نازک کے احساسات و جذبات اور ناسمجھی اور  کم عمری کی وجہ سے جذباتیت کی رو میں بہہ کر کیے گئے فیصلوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ سب کہانیاں معاشرے میں جابجا بکھری نظر آتی ہیں۔ افسانہ نگار نے بہن بھائی کی محبت، میاں بیوی اور ساس بہو کے رشتوں کی نزاکتوں، بھابی، نند، دیورانی، جٹھانی، ملازم اور مالک، اولاد، ہمسایے اور سہیلیوں کے حوالے سے معاشرے کی رنگا رنگ تصویریں پیش کی ہیں۔ سعیدہ احسن نے ان رشتوں اور تعلقات کی اُونچ نیچ کو فن کی چھلنی سے گزار کر الفاظ کا روپ دیا ہے۔ وہ زندگی کے    تلخ حقائق کا گہرا ادراک رکھتی ہیں۔ اگر کوئی افسانہ نویس سرما کی نیم خنک دوپہر سے سورج کی جھلملاتی کرنیں لے لے اور اس کے ساتھ وہ قوسِ قزح کے رنگ بھی جمع کرلے، اور پھر دونوں کو اپنی تحریر میں جذب کرکے رات کی تاریکیوں سے اُجالے کی اُمید دلا دے تو اصلاح کی طرف جانے کا راستہ واضح اور روشن نظر آنے لگتا ہے۔

۱۹۵۰ء سے ۱۹۶۰ء تک کے عرصے میں لکھے گئے ان افسانوں میں قیامِ پاکستان کے بعد ٹوٹتی ہوئی اقدار اور مادہ پرستی پر مبنی معاشرے کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ پرانی اقدار پر ضرب پڑ رہی تھی اور نئی اقدار اپنا راستہ بنا رہی تھیں مگر ابھی اس کے فاسد اثرات پوری طرح ظاہر نہ ہوئے تھے۔ سعیدہ احسن جو اُس وقت نوعمر تھیں، انھوں نے ان مضمرات کو محسوس کیا، ان کے کچھ جملے ان کی گہری سوچ کی عکاسی کرتے ہیں: ’’جان دے کر بھی وہ اپنی کانفرنس کا کفارہ ادا نہ کرسکی تھی‘‘(ص ۷۶)۔ ’’بھڑوں کے ڈنک سے ہونے والی سوجن تو آہستہ آہستہ کم ہونے لگی مگر کسی کی زہریلی زبان کے ڈنک نے اُس کی روح تک کو اس طرح نیلا کر دیا تھا کہ پھر زیست نے آنکھیں کھول کر کسی کو نہ دیکھا‘‘(ص ۲۸۸)۔ ان جملوں کے اندر ایک گہرا پیغام چُھپا ہوا ہے۔

ساحرہ کے کچھ افسانے، زندگی کے روزمرہ مشاہدات پر مبنی ہیں۔ ان کا اسلوب بیانیہ اور سیدھا سادا ہے۔ بظاہر ایک معمولی بات کو جو بظاہر توجہ طلب نہ ہو، اس طرح بناکر پیش کرنا کہ وہ زندگی کی سنگین حقیقت معلوم ہو، لکھنے والے کے ذہنِ رسا کی علامت ہے۔ ساحرہ کی کہانیاں اس کی ذہانت کی عکاس ہیں۔ افسانوں کے وہ قارئین جو روایات و اقدار پر یقین رکھتے ہیں،ان افسانوں کو دل چسپ پائیں گے۔ یہ مجموعہ خواتین کے تعمیری ادب میں ایک عمدہ اضافہ ہے۔ (زبیدہ جبیں)


تعارف کتب

  • رحمت عالمؐ ، علامہ سید سلیمان ندویؒ۔ ناشر: دعوۃ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد۔ صفحات: ۱۶۲۔ قیمت: ۸۰ روپے۔ [علامہ سید سلیمان ندوی کا نام برعظیم کے دینی و علمی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ زیرنظر کتاب بنیادی طور پر کم پڑھے لکھے افراد اور عام نوجوانوں کے لیے آسان پیرایۂ بیان میں لکھی گئی ہے۔بقول مصنف: ’’اس (کتاب) میں عبادت کی سادگی، طرزِ ادا کی سہولت اور واقعات کے سلجھائو کا خاص خیال رکھا گیا ہے تاکہ چھوٹی عمر کے بچے اور معمولی سمجھ کے لوگ بھی اس سے فائدہ اُٹھا سکیں اور اسکولوں اور مدرسوں کے کورسوں میں رکھی جاسکے (ص ۹)۔بلاشبہہ کتاب اسکولوں کے نصاب میں شامل کیے جانے کے لائق ہے۔ بھارت کے صوبہ بہار میں اسلامی مکتبوں میں اسے بطور نصابی کتاب پڑھایا جارہا ہے۔ اس نوعیت کی کتابوں کی اشاعت دعوۃ اکیڈمی کی قابلِ تحسین خدمت ہے۔]
  • ہمارے نبیؐ ، سید احمد علی شاہ۔ ملنے کا پتا: ادار ہ مطبوعات طلبہ، ۱-اے ذیلدار پارک،اچھرہ، لاہور۔ فون: ۴۴۵۵۷۴۸-۰۳۲۲۔ صفحات:۸۰۔ قیمت: درج نہیں۔ [بچوں کے لیے مختصر، جامع اور آسان الفاظ میں سیرتِ رسولؐ کے ساتھ ساتھ مفید جغرافیائی و تاریخی معلومات کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ آخر میں ’سارا جہاں جن کی تعریف کرے‘ عنوان کے تحت مشاہیر عالم (مسلم و غیرمسلم) کے نذرانۂ عقیدت کا تذکرہ بھی ہے۔ ہر باب سے پہلے سوالات کی فہرست دی گئی ہے تاکہ لوازمہ پڑھنے سے پہلے بچوں کو اہداف(حاصلاتِ تعلّم) معلوم ہوسکیں۔ وضاحت کے لیے حسب ِ ضرورت نقشوں کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔]
  • اُجالوں کا سفر، حکیم محمد منیر بیگ۔ ناشر: شافی پبلی کیشنز، لاہور۔ ملنے کا پتا: کتاب سراے، الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۹۵۔ قیمت: درج نہیں۔ [زیرنظر کتاب مختصر مگر بامقصد تحریروں کا مجموعہ ہے جس میں فاضل مصنف نے زندگی بھر کے تجربات و مشاہدات کو قلم بند کرتے ہوئے زندگی کو بہتر انداز میں بسر کرنے کے گُر بتائے ہیں۔ بعض واقعات مصنف کے قیامِ جاپان کے ہیں۔ انھوں نے دل چسپ واقعات سے مثبت اور سبق آموز نتائج اخذ کیے ہیں۔ اندازِ بیان سادہ مگر دل چسپ اور دل کش ہے۔]