بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ o (الجمعۃ ۶۲: ۱) اللہ کی تسبیح کر رہی ہے، ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں ہے___ بادشاہ ہے، قدوس ہے، زبردست اور حکیم ہے۔
سورئہ جمعہ مدنی ہے اور اس کے دو رکوع ہیں۔ پہلے رکوع کے مخاطب یہودی ہیں، جب کہ دوسرے رکوع کے مخاطب مسلمان ہیں۔ دونوں رکوعوں کا زمانۂ نزول مختلف ہے لیکن ایک حکمت کے تحت ان کو ایک ہی سورت میں یک جا کردیا گیا ہے۔ پہلا رکوع فتحِ خیبر (۷ ہجری) کے بعد کسی وقت نازل ہوا، جب کہ دوسرا رکوع ہجرت کے بعد ابتدائی زمانے میں نازل ہوا۔
اس سورہ میں مسلمانوں کے ایک گروہ کی ایک کوتاہی پر گرفت کی گئی ہے جس کا ظہور ان کی طرف سے نمازِ جمعہ کے خطبے کے دوران میں ہوا۔ یہ واقعہ ہجرت کے بعد ابتدائی زمانے میں پیش آیا۔ نمازِ جمعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ طیبہ تشریف لانے کے بعدہی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق قائم کر دی گئی تھی اور جس واقعے کی طرف اس میں اشارہ کیا گیا ہے، وہ بھی ہجرت کے بعد ابتدائی زمانے میں پیش آیا۔
مدینہ طیبہ پہنچنے کے بعد کچھ ابتدائی خطابات ہوئے ہیں جو سورئہ بقرہ میں بیان کیے گئے ہیں۔ سورئہ بقرہ کے ابتدائی حصے میں سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں آباد یہودیوں کو خطاب کر کے اللہ تعالیٰ کی آیات سنائی تھیں۔ بعد کی سورتوں میں بھی یہود کو جگہ جگہ خطاب کیا گیاہے۔ سورئہ جمعہ کے پہلے رکوع کا خطاب، غالباً یہودیوں سے اللہ تعالیٰ کا آخری خطاب ہے۔ قبائلِ یہود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو ناکام کرنے کی کوششوں میں اپنے بُرے انجام کو پہنچ چکے تھے۔ ان کا ایک قبیلہ (بنوقریظہ) تو بالکل برباد ہوگیا (اس کے تمام مرد حضرت سعد بن معاذؓ کے فیصلے کے مطابق قتل کردیے گئے) اور دوسرے دو قبائل (بنوقینقاع اور بنونضیر) اُجڑ کر دوسرے علاقوں میں جابسے تھے۔ خیبر ان کا سب سے بڑا گڑھ تھا جو ۷ہجری میں فتح ہوا اور اس کے بعد اُن کے دوسرے شہر بھی اسلامی حکومت کے زیرنگیں آگئے۔
اس سورت کی یہ شانِ نزول سمجھ لینے سے اس کے پہلے رکوع کا مطلب آسانی سے سمجھ میں آجاتا ہے۔
فرمایا گیا کہ اللہ کی تسبیح کرتی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے۔ اس خدا کی تسبیح جو بادشاہ ہے اور قدوس ہے اور زبردست ہے اور حکیم ہے۔
تسبیح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو زمین و آسمان میں ہے، خواہ زبانِ حال سے خواہ زبانِ قال سے، اس بات کا اظہار اور اعلان کر رہی ہے کہ اس کا پیدا کرنے والا اور اس کا پروردگار ہر عیب، نقص، کمزوری اور خطا سے پاک ہے۔ کوئی غلطی اس سے سرزد نہیں ہوتی اور کوئی عیب اور نقص اس کے اندر نہیں ہے___ اور وہ بادشاہِ حقیقی ہے۔ زبردست ہے اور حکیم ہے۔
بادشاہ ہے، یعنی ساری کائنات کا اکیلا فرماں روا ہے اور قُدوس ہے، یعنی تمام کمزوریوں اور عیوب سے بالکل پاک ہے۔ مقدس اور مُنزّہ ہے۔ بادشاہ کے ساتھ جب لفظ قُدوس آتا ہے تو اس میں واضح طور پر یہ مفہوم آتا ہے کہ اس ہستی کو اقتدار اعلیٰ (sovereignty) حاصل ہے۔ اس کو کوئی ایسی کمزوری لاحق نہیں جس کی وجہ سے اس کے اقتدارِ اعلیٰ میں کوئی دخل دیا جاسکتا ہو۔ اس کے اقتدارِ اعلیٰ کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔
یہاں اللہ تعالیٰ کی تعریف میں دو باتیں فرمائی گئی ہیں: ایک یہ کہ وہ الملک القدوس ہے، یعنی ایسا بادشاہ ہے جو تمام کمزوریاں اور عیوب سے مُنزّہ ہے، دوسرے یہ کہ وہ العزیز الحکیم ہے، وہ زبردست اور غالب ہے اور اس کے ساتھ وہ حکیم ہے، حکمت رکھتا ہے___ ان دونوں چیزوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ بادشاہی اس چیز کا نام ہے کہ جو ہستی بھی بادشاہ ہو، اس کو اپنی رعیت پر کامل اقتدار حاصل ہو۔ کسی کو اس کے مقابلے میں چون و چرا کرنے کا یارانہ ہو۔ اس کی زبان قانون ہو۔ وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہ ہو۔ کوئی اس کے حکم پر نظرثانی کرنے والا نہ ہو۔ اس کا فیصلہ آخری فیصلہ ہو۔ یہ ہے بادشاہی کا تصور___ موجودہ زمانے میں بھی، جن لوگوں نے پولیٹیکل سائنس (political science) پر لکھا ہے، یہی بات کہی ہے کہ جہاں بھی حاکمیت اور اقتدارِ اعلیٰ ہے، بادشاہی پائی جاتی ہے، وہاں لازماً کامل اقتدار ہوگا، ایسا اقتدار جس کے مقابلے میں کسی کو چون و چرا کرنے کا حق نہ ہو۔
اب آپ دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جس ہستی کے متعلق بھی اس طرح کے کامل اقتدار کا تصور کیا جائے اس کے بارے میں فوراً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ واقعتا غلطی سے پاک ہے؟ کیا وہ حقیقتاً بے خطا اور بے عیب ہے؟ اگر کوئی ہستی ایسی ہو جو بے خطا نہ ہو اور پھر اس کو کامل اقتدار حاصل ہو اور اس کا فیصلہ آخری فیصلہ ہو اور کسی کو اس کے مقابلے میں چون و چرا کرنے کا حق نہ ہو، اس کی زبان سے جو نکلے وہ قانون ہو، کوئی اس کے قانون پر نظرثانی کرنے والا نہ ہو تو پھر اس سے بڑا ظلم اس کائنات کے اندر کوئی نہیں ہوسکتا۔ لامحالہ جس کو ایسا اقتدار اعلیٰ حاصل ہو اس کو لازماً مقدس ہونا چاہیے___ اگر وہ مقدس نہیں ہے تو اس کا اقتداراعلیٰ سراسر ظلم کے ہم معنی ہوگا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنی تعریف میں یہ فرماتا ہے کہ وہ الملک القدّوس ہے، بے خطا بادشاہ ہے جس کے اندر کوئی عیب اور نقص نہیں ہے۔
عزیز اس کو کہتے ہیں جس کے حکم کو نافذ ہونے سے کوئی دوسری طاقت روک نہ سکتی ہو۔ جو اس کا فیصلہ ہو، لازماً نافذ ہوکر رہے۔ کسی میں یہ طاقت نہ ہو کہ اس کے فیصلے کی مزاحمت کرسکے___ یہاں پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی صاحب ِ اقتدار ایسازبردست ہو کہ اس کی مرضی ہرحال میں نافذ ہوکر رہے اور کسی میں مزاحمت کرنے کی طاقت نہ ہو اور اس کے ساتھ وہ نادان بھی ہو، تو اس سے بڑا ظلم پھر دنیا میں کوئی نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ وہ عزیز ہے اور اس کے ساتھ حکیم ہے، زبردست ہے اور حکمت والا ہے۔ اپنے اقتدار کو، اور جو زور اس کو حاصل ہے اس کووہ حکمت کے ساتھ استعمال کرتا ہے، کیونکہ بادشاہی کی اصل یہ ہے کہ وہ بے خطا اور بے عیب ہو۔
انسان بادشاہی کے ساتھ بے عیبی کو اس قدر اہمیت دیتا ہے کہ جہاں بھی وہ بادشاہی فرض کرتا ہے وہاں اس کے ساتھ لازماً یہ بھی فرض کرتا ہے کہ وہ بالکل بے خطا ہے۔ اسی وجہ سے وہ کہتے ہیں کہ بادشاہ غلطی نہیں کرتا (king can do no wrong)، حالانکہ بادشاہ غلطی کرتا ہے۔ اس کے باوجود ان کو یہ فرض کرنا پڑا کہ بادشاہ غلطی نہیں کرتا کیونکہ اگر وہ کسی کو بادشاہ بھی مانیں اور یہ بھی مانیں کہ وہ غلطی کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انھوں نے ایک ظالم کو شاہی کا مالک مان لیا۔ اس لیے یہاں اللہ تعالیٰ کی یہ دو تعریفیں بیان فرمائی گئیں: ایک یہ کہ وہ الملک القدوس ہے اور دوسرے یہ کہ وہ العزیز الحکیم ہے۔
اب یہ بات کہ اس سورہ کی یہ تمہید کیوں اُٹھائی گئی ہے، وہ آگے کے مضمون سے واضح ہوتی ہے۔
ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیِّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ o وَّاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o (۲-۳)وہی ہے جس نے اُمّیوں کے اندر ایک رسول خود اُنھی میں سے اٹھایا، جو اُنھیں اُس کی آیات سناتا ہے، اُن کی زندگی سنوارتا ہے، اور اُن کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اِس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔ اور (اس رسولؐ کی بعثت) اُن دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے جو ابھی ان سے نہیں ملے ہیں۔ اللہ زبردست اور حکیم ہے۔
فرمایا گیا کہ اللہ نے اُمّیوں کے درمیان انھی میں سے ایک رسولؐ کو مبعوث کیا۔ یہودی تمام غیریہودی لوگوں کو gentile کہا کرتے تھے۔ عربی زبان میں اسی مفہوم کو اُمّی کا لفظ ادا کرتا ہے۔ اس کے معنی صرف اَن پڑھ کے نہیں، بلکہ یہودیوں کے ہاں اس کے معنی یہ تھے کہ سارے عرب جاہل ہیں، وحشی اور ناشائستہ ہیں، غیرمہذب ہیں اور اس قابل نہیں ہیں کہ ان کے ساتھ مہذب انسانوں کا سا برتائو کیا جائے۔ یہودیوں کا یہ تصور دنیا کے تمام غیریہودی لوگوں کے لیے تھا اور اسی بنا پر ان کا یہ قول تھا کہ لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْل (جسے قرآن مجید نے نقل کیا ہے)، یعنی اُمّیوں کے معاملے میں ہم پر کوئی گرفت نہیں ہے۔ ہم ان کا مال کھائیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ان کے ہاں یہودی عدالتوں میں جو قوانین نافذ تھے، ان کے اندر ایک یہودی کے حقوق اور اُمّی کے حقوق الگ الگ رکھے گئے تھے۔ اگر یہودی کسی اُمّی کا مال چرا لے تواس کے لیے قانون اور تھا، اور اگر کوئی اُمّی یہودی کا مال چرا لے تو اس کے لیے قانون اور تھا۔ ایک اُمّی دوسرے اُمّی کا مال چرائے تو اس کے لیے قانون اور تھا۔ لیکن اگر یہودی، یہودی کا مال چرائے تو اس کے لیے قانون اَور تھا۔ یہ ان کے تصورات تھے۔ قرآن میں یہ بات یہودیوں کے اسی طرزِعمل کے بارے میں آئی ہے۔ اسی خودساختہ تفوق کی وجہ سے یہودیوں کا یہ کہنا تھا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم نبی کیسے ہوسکتے ہیں___ کہاں یہ اُمّی قوم اور کہاں یہ نبوت اور عالم گیر ہدایت کا مقام۔ یہ شخص رسول ہو ہی نہیں سکتا، نہ ہمارے سوا کسی قوم میں رسول آسکتا ہے اور نہ ہمارے سوا کسی قوم میں اللہ کی کتاب آسکتی ہے۔ یہ ان کے غرور کا حال تھا اور اسی غرور کی بناپر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ماننے کو تیار نہیں تھے۔
ان کے اسی زعمِ باطل کو توڑنے کے لیے فرمایاگیا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کرنے والا اللہ ہے۔ وہ بادشاہ ہے اور عزیز ہے، اس کو یہ اقتدارِاعلیٰ حاصل ہے اور وہی یہ اختیار رکھتا ہے کہ جہاں چاہے اپنا رسول بھیجے اور جس کو چاہے اپنا رسول بنائے۔ تم نہیں مانو گے تو اپنی شامت بلائوگے۔ تم اس کے حکم اور فیصلے کو جھٹلاکر اس کا کچھ نہیں بگاڑو گے۔ وہ قُدوس ہے اور ایسا بادشاہ ہے جو غلطی سے مبّرا ہے۔ اس نے اگر اُمّیوں میں رسول بھیجا ہے تو کوئی غلطی نہیں کی ہے۔ تم نہیں مان رہے ہو تو تم غلطی کر رہے ہو۔ وہ زبردست ہے اور اس کی مزاحمت تم نہیں کرسکتے۔ جس رسول کو اس نے بھیجا ہے اس کی رسالت چلے گی تمھاری مزاحمت نہیں چلے گی۔ وہ زبردست ہے اور اس کے ساتھ حکیم بھی ہے۔ اس نے یہ کام حکمت کے ساتھ کیا ہے، نادانی کے ساتھ نہیں کیا ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ وہ بادشاہ اور عزیز ہے۔ اس کے فیصلے کی مزاحمت نہیں کی جاسکتی۔اور یہ سراسر اس کی حکمت ہے کہ اس نے اُمّیوں کے اندر یہ رسولؐ پیدا کیا ہے۔
اب آگے اس حکمت کو واضح طور پر بیان کیا گیا جس کی بنا پر یہ رسول بھیجا گیا۔ وہ حکمت یہ ہے کہ یہ قوم اس سے پہلے ضلالت میں پڑی ہوئی تھی مگر ہمارے رسولؐ کی آمد کے بعد تم دیکھ لو کہ اب اس کا کیا حال ہے:
یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ(۲) ہمارا رسولؐ ان کو اللہ تعالیٰ کی آیات سناتا ہے، ان کا تزکیہ کرتا ہے۔ وہ ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی آیات سنانے سے مراد یہ ہے کہ وہ انھیں قرآن سنا رہا ہے۔ اس کے ساتھ وہ ان کا تزکیہ کرتا ہے، یعنی ان کے دلوں میں اخلاص کی صفت کو پروان چڑھا رہا ہے۔ ان کا بگڑا ہوا تمدّن، ان کی بگڑی ہوئی معاشرت اور ان کی زندگی کا بُرا ہنجار، ان سب چیزوں کو وہ تمھاری آنکھوں کے سامنے درست کر رہا ہے۔ یہ اُمّی قوم جس ضلالت میں پڑی ہوئی تھی وہ بھی تمھاری آنکھوں کے سامنے ہے، اور جن لوگوں نے اس نبی سے آیاتِ الٰہی کو سن کر اپنی اصلاح کی اور اس کے تزکیے سے فائدہ اٹھایا وہ بھی تمھارے سامنے ہیں۔ ان کے اخلاق بھی تمھارے سامنے ہیں اور ان کے معاملات بھی تمھارے سامنے ہیں۔ اس طرح ان کا جو تزکیہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کررہے تھے، وہ اندھے کو بھی نظرآرہا تھا۔ اس رسولؐ کی بعثت سے پہلے جاہلیت کی سوسائٹی کی جو کیفیت تھی، اور اس معاشرے میں، جو اَب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت سے قائم ہورہا تھا، دونوں میں جو فرق واقع ہوا ہے، وہ تمھاری آنکھوں کے سامنے ہے۔
تزکیہ کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کے اندر جو برائیاں ہیں ان کو دُور کیا جائے اور جو بھلائیاں ہیں ان کو نشوونما دی جائے۔ اس طرح تزکیہ کا کام دوہرا کام ہے، برائیوں کو دُور کرنا اور بھلائیوں کو ترقی دینا۔ یہ دونوں کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت و رہنمائی کے تحت آیاتِ الٰہی کی تعلیمات کے مطابق اس وقت علانیہ ہورہے تھے۔ ان کی تفصیل بیان کرنے کی حاجت نہیں تھی۔ صرف یہ بتانا کافی تھا کہ دیکھو ہمارا رسول لوگوں کو فقط آیات الٰہی ہی نہیں سنا رہا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کا تزکیہ بھی کر رہا ہے۔
وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ (۲) وہ ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔
یہاں الکتاب کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے وہ تمام کتب ِ آسمانی کے مجموعے کے لیے بولا جاتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے جتنی کتابیں آئی ہیں وہ قرآنِ مجید کی زبان میں الکتاب ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ ایک ہی کتاب ہے جس کے بہت سے ایڈیشن بہت سی زبانوں میں آتے رہے ہیں۔ یہ سب کتابیں ایک ہی تعلیم اور ایک ہی ہدایت لے کر آئی تھیں۔ اس طرح لفظ الکتاب کے استعمال سے مقصود یہاں یہودیوں کو یہ بتانا تھا کہ ہمارا رسول کوئی نئی اور نرالی چیز لے کر نہیں آیا ہے بلکہ آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر اس وقت تک، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تک جتنی کتب ِآسمانی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہیں، ان سب کا علم وہ اس قرآن کے ذریعے سے لوگوں کو دے رہا ہے۔
جو شخص بھی کتب ِ آسمانی سے واقفیت رکھتا ہو وہ بڑی آسانی سے اس بات کو سمجھ سکتا ہے، اور آج بھی یہود و نصاریٰ اس بات کو مانتے ہیں، لیکن وہ یہ بات ایک دوسری زبان میں کہتے ہیں۔ بجاے اس کے کہ وہ اس بات کو مانیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہی تعلیم لے کر آئے جو تمام انبیا کی تعلیم تھی، وہ اس کو اس طرح سے بیان کرتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے سب کچھ یہود و نصاریٰ سے چرایا ہے اور اب اسے اپنی طرف سے پیش کر رہے ہیں۔ اس طرح اس بات کو نہیں مانتے کہ جو کچھ اسلام میں ہے وہ وہی کچھ ہے کہ جو تمام انبیا علیہم السلام اور تمام کتب ِ آسمانی کی تعلیمات ہیں۔ چنانچہ یہاں بیان فرمایا گیا کہ یہ اُمّی قوم جس کو کبھی کتب ِ آسمانی کی ہوا نہیں لگی تھی ان کا علم اب اس کو اس نبیؐ کے ذریعے سے حاصل ہو رہاہے۔ اس قوم کے اندر وہی تعلیم پھیل رہی ہے جو ساری کتب ِآسمانی لے کر آئی تھیں۔
اس کے بعد چوتھی چیز یہ بتائی گئی ہے کہ ہمارا رسولؐ ان لوگوں کو حکمت کی تعلیم دے رہا ہے۔ حکمت کی تعلیم کے معنی یہ ہیں کہ کسی قوم میں یہ دانائی پیدا ہوجائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایات کے مطابق زندگی کے معاملات کو چلانے کے قابل ہوجائے۔ ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ہدایت آتی ہے وہ تفصیلات (details) میں نہیں آتی، وہ جزئیات کے بجاے کلیات اور اصول پیش کرتی ہے۔ تاہم، بعض بڑے بڑے اہم معاملات میں جزئی احکام اس غرض کے لیے دیتی ہے تاکہ نشاناتِ راہ متعین ہوجائیں۔ اب جو چیز آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ کتب ِ آسمانی کی ہدایات سے اصول اور کلیات اور قواعد کو سمجھ کر روزمرہ زندگی میں پیش آمدہ معاملات کے اُوپر ان کا انطباق کرے اور یہ معلوم کرے کہ ان معاملات میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی ہدایات کے مطابق صحیح طرزِعمل کیا ہونا چاہیے، کیا چیز غلط ہے اور کیا چیز صحیح ہے، یہ وہ حکمت ہے جو کسی قوم کو صرف باقاعدہ تعلیم و تربیت سے حاصل ہوتی ہے۔ اس تعلیم و تربیت سے ایک قوم اس قابل ہوسکتی ہے کہ جس وقت بھی اس کے سامنے دنیا کا کوئی معاملہ پیش آئے تو وہ اس کے بارے میں خدا کی کتاب کی ہدایات اور اس کے رسولؐ کی سنت کو سامنے رکھ کر فوراً یہ راے قائم کرلے کہ اس معاملے میں جو کئی مختلف طریق کار ہوسکتے ہیں ان میں سے کون سا طریقِ کار ایسا ہے جو دینِ الٰہی کے مزاج کے مطابق ہے اور کون سا طریق کار اس کے مطابق نہیں ہے۔
یہ وہ حکمت ہے جو اللہ کے رسولؐ نے مسلمانوں کو سکھائی تھی اور یہ اسی حکمت کا یہ نتیجہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس اُمّی قوم کے یہ صحابہ کرامؓ جنھوں نے کسی یونی ورسٹی میں تعلیم نہیں پائی تھی، کسی کالج میں نہیں گئے تھے، ان میں سے بہت سے تو کتاب خواں بھی نہیں تھے، لیکن یہ لوگ دنیا کے ایک بہت بڑے حصے کے حکمران بنے اور اتنی بڑی سلطنت کے جو عظیم الشان اور ہمہ پہلو مسائل ان کو پیش آئے ان سب کو انھوں نے کتابِ الٰہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے دیے ہوئے اصولوں کے مطابق حل کر کے اور چلا کر دکھایا۔ یہ وہی حکمت تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سکھائی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیم وتربیت کے ذریعے سے ایک روحِ اسلامی ان کے اندر ایسی اُتار دی تھی کہ جس کی بدولت زندگی کے جو معاملات بھی انھیں پیش آئے انھوں نے بے تکلف ان کا حل معلوم کرلیا۔
اسی لیے فرمایا گیا کہ یہ اُسی کی حکمت ہے کہ اس نے ایک اُمّی قوم کے اندر اپنے رسولؐ کو بھیجا اور اس رسولؐ سے یہ کام لیا، جب کہ اس اُمّی قوم کی حالت یہ تھی کہ وہ کھلی کھلی گمراہی میں پڑی ہوئی تھی۔ علم و دانش سے بہرہ وَر ہر شخص ایک نظر میں اس قوم کو دیکھ کر یہ معلوم کرسکتا تھا کہ یہ قوم سخت گمراہی میں پڑی ہوئی لیکن اُسی قوم کو اللہ تعالیٰ نے اس نبی کے ذریعے سے تعلیم و تربیت سے آراستہ کر کے ایک مہذب اور غالب و حکمران قوم بنا دیا۔
پھر فرمایا: وَّاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ ط وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o (۳) ’’اور جو لوگ ابھی آکر ان سے نہیں ملے ہیں اُن کے لیے بھی اس کو رہنما اور ہادی بناکر بھیجا، اور وہ زبردست ہے اور حکیم ہے‘‘۔ گویا اس امر کا فیصلہ کہ خدا کس شخص کو نبی بنائے، اس پر نظرثانی کرنے والی کوئی طاقت نہیں۔ کسی کا یہ زور نہیں ہے کہ اس کے فیصلے کو بدلوا سکے اور وہ حکیم ہے۔ جو کچھ اس نے کیا ہے نہایت حکمت اور دانائی کے ساتھ کیا ہے۔
ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ط وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِo (۴) یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔
یہ اس حسد کا جواب ہے جو یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رکھتے تھے۔ وہ حسد کی بنا پر یہ کہتے تھے کہ جاہل، وحشی اور غیرمہذب قوم کے اندر نبوت اور رسالت کیسے ہوسکتی ہے۔ یہ تو صرف ہم بنی اسرائیل کے اندر ہونی چاہیے تھی۔ اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں ان کے حسد کا ذکر کیے بغیر فرماتا ہے کہ یہ اللہ کا فضل ہے، اس کو اختیار ہے جس کو چاہے عطا کردے۔ اس کے فضل کے تم ٹھیکے دار نہیں ہو اور نہ اس پر تمھاری کوئی اجارہ داری ہے۔
مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرٰۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًاط بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَo (۵) جن لوگوں کو تورات کا حامل بنایا گیا تھا مگر انھوں نے اس کا بار نہ اُٹھایا، اُن کی مثال اُس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوں۔ اس سے بھی زیادہ بُری مثال اُن لوگوں کی ہے جنھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا ہے۔ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔
یہودی اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہم کتب ِ آسمانی کے حامل ہیں۔ عرب قوم جاہل اور اُمّی ہے، اس کے اندر رسول آنے کا کیا کام ہے۔ اگر رسالت ہوگی تو ہمارے اندر ہوگی۔ ان کے اس فخر کا ان کو جواب دیا گیا کہ تمھارے بقول عرب کے لوگ تو اُمّی ہیں لیکن تم جو حاملِ کتاب بنے ہوئے ہو اور اس پر فخر کرتے ہو، تمھاری حالت تو جاہلوں سے بھی بدتر ہے، تم پر کتاب کی ذمہ داری ڈالی گئی تھی لیکن تم نے اس کا حق ادا نہ کیا۔ اس لیے اس وقت تمھاری مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر محض کتابیں لدی ہوں اور اسے کچھ معلوم نہ ہو کہ اس پر کیا چیز لدی ہوئی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اگر کسی کے پاس کتابِ الٰہی موجود ہو لیکن وہ یہ بات نہیں سمجھتا کہ یہ کتاب اسے کیا ہدایت دیتی ہے، کس چیز سے وہ اس کو روکتی ہے اور کس راستے پر چلانا چاہتی ہے، کس راستے کو وہ انسان کی بربادی کا سبب قرار دیتی ہے اور کس راستے کو وہ فلاح کا راستہ بتاتی ہے۔ اس کے بعد اس کا کتاب اُٹھائے پھرنا ایسا ہی ہے جیسے گدھا کتاب اُٹھائے پھرتا ہو۔ گدھے پر کتابیں رکھی ہوں تو اس کے اُوپر بوجھ تو ہوگا لیکن اس کو یہ علم نہیں ہوگا کہ ان کتابوں میں کہا کیاگیا ہے۔ ایسا ہی تمھاراحال ہے کہ تم بوجھ تو اللہ کی کتاب (تورات) کا اُٹھائے پھرتے ہو اور اس پر تمھیں فخر بھی ہے لیکن درحقیقت تم کو اس کتاب سے کچھ حاصل نہیں، تم اس کتاب کے اندر کوئی بصیرت نہیں رکھتے، تمھیں کچھ پتا نہیں ہے کہ یہ کتاب تم سے کیا چاہتی ہے۔ اس کے بعد فرمایا:
بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ o (۵) اس سے بھی زیادہ بُری مثال ہے ان لوگوں کی جنھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا ہے۔ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔
دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ گدھے کی مثال سے بھی بدتر مثال اُن لوگوں کی ہے جو اللہ کی آیات کی تکذیب کرتے ہیں اور یہی کام اُس وقت یہود کر رہے تھے۔
جب واقعہ یہ ہے کہ جو تورات کی تعلیم تھی اسی کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور وہی ان کے سامنے پیش کی اور وہ یہ بات خود بھی مانتے تھے کہ یہ آیات تورات کی تعلیم کے مطابق ہیں، پھر بھی انھوں نے ان کو جھٹلایا۔ ایک تو ہے آدمی کا کسی چیز سے ناواقف ہونا، اور دوسری بات یہ ہے کہ اس کے اندر بصیرت، ایمان اور اخلاص کا ایسا فقدان ہونا کہ وہ حق کو جانتے ہوئے بھی اس کا انکار کردے۔ اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ یا تو وہ اس بات کو جانتے نہیں تھے کہ کتب آسمانی کا منشا کیا ہے،اور یا وہ اتنے خبیث اور بدطینت تھے کہ یہ جان لینے کے بعد کہ یہ رسولؐ وہی بات پیش کر رہا ہے جو ہماری کتابوں میں ہے، اس رسول کو انھوں نے جھٹلایا۔ اس بات کو اس طرح سمجھیے کہ ایک شخص آپ کے سامنے آکر، خواہ وہ دنیا کے کسی کونے سے آئے، وہ باتیں پیش کرے جو قرآن میں لکھی ہوئی ہیں۔ اس کے بعد اگر آپ اس کی بات کو جھٹلاتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ قرآن کو جھٹلا رہے ہیں۔ گویا ان کا حال یہ تھا کہ جو تعلیمات تورات کے اندر موجود تھیں اور انھیں قرآن میں پیش کیا جا رہا تھا، ان کو انھوں نے جھٹلایا۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ بدترین مثال ہے ان لوگوں کی جنھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا۔ مزید فرمایا: وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ (۵)’’اور اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا‘‘۔
گویا جو شخص جان بوجھ کر، ایمان اور حق اور راستی اور انصاف کے خلاف چلتا ہے وہ ظالم ہے، اور جو لوگ یہ ظلم کریں تو اللہ تعالیٰ کا یہ قاعدہ نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کو ہدایت دے۔ اللہ تعالیٰ ہدایت انھی لوگوں کو دیتا ہے جو راہِ راست سے ناواقف ہوں لیکن اخلاص کے ساتھ راہِ راست معلوم کرنا چاہیں، اور اخلاص کے ساتھ اس بات کے لیے تیار ہوں کہ جب راہِ راست ان کے سامنے واضح ہوجائے تو بلاکسی تعصب کے اس کو قبول کرلیں، کیونکہ ان کا اپنا مفاد اس میں ہے کہ وہ راہِ راست پر چلیں۔ لیکن اگر کوئی شخص ایک طرف تو راہِ راست پر خود نہ چلے اور دوسری طرف جو شخص اس کے سامنے راہِ راست پیش کرے، اس سے لڑنے کو آئے اور اس کے خلاف لوگوں میں غلط فہمیاں پھیلائے، اس کو بدنام کرنے کی کوشش کرے اور ہرطریقے سے اس کے راستے میں کانٹے بچھائے تووہ ظالم ہے۔ پھر اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ وہ بدطینت اور خبیث ہے۔ پھر ایسے آدمی کو راہِ راست دکھانا اللہ تعالیٰ کا کام نہیں ہے۔ اللہ کو کوئی غرض نہیں پڑی ہے کہ وہ اس کے پیچھے ہدایت کو لیے پھرتا رہے۔ ایک شخص جب اللہ کی ہدایت کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے بلکہ اس کے ساتھ عداوت اور دشمنی پر اُتر آتا ہے، تو اللہ بھی پھر ایسے ظالم کو بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے کہ جہاں چاہے بھٹکتا پھرے۔ (جمع و تدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)