مئی ۲۰۰۸

فہرست مضامین

۲۰۰۸ء ___دعوت کا سال

سیّد منور حسن | مئی ۲۰۰۸ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے ملت اسلامیہ کو درپیش جن حالات میں غلبۂ دین کی تحریک کا نقشۂ کار پیش کیا اور عملاً اس تحریک کو برپا کیا، اس دور کی دو خصوصیات خصوصی اہمیت کی حامل ہیں___ اول یہ کہ یہ نظاموں کی کش مکش کا دور تھا۔ ایک طرف مغرب کی لبرل تہذیب اور اس کا سرمایہ دارانہ نظام تھا جو اژدھے کی طرح پوری دنیا کو نگل رہا تھا اور اس نظام کی چکا چوند نے پورے عالم کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا تھا۔ دوسری طرف مشرق سے ابھرنے والا کمیونزم اور سوشلزم کا نظام تھا جو غربت کو ختم کرنے ، انسانی مساوات قائم کرنے اور سرمایہ داری کے چنگل سے لوگوں کو نجات دلانے کے خوش کن اور پرکشش نعروں اور فلسفے پر مبنی تھا لیکن یہ دراصل انسانوں کے لیے آمریت کا ایک شکنجہ تھا۔

ان دونوں نظاموں کے درمیان فکری اور نظریاتی سطح پر، اور فلسفے اور سلوگن کی سطح پر ایک آویزش تھی ،لیکن عملاً خود مغربی دنیا کی بعض اکائیاں بھی سوشلزم کی کسی نہ کسی شکل کی دلدادہ بن گئی تھیں۔ مزدور اور کسان، طالب علم اور جوان ،دانش وراور اہل قلم اور صحافی، نیز مظلوم و محروم طبقات کے دبے اور پسے ہوئے افراد ذہناً اشتراکیت کے اسیر ہو چکے تھے اور مغرب کے سرمایہ دارانہ معاشروں میں رہنے کے باوجود سوشلزم کا راگ الاپتے اور اسی کی مالا جپتے تھے۔

اس پس منظر میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے اسلام کو ایک مکمل اور مبنی برحق اور منصفانہ نظام کی حیثیت سے از سرنو پیش کیا، جو ایک طرف فرد کی سطح پر اس کو آسودگی ، سکون اور سکینت فراہم کرتا ہے، اسے انشراح صدر کی دولت سے مالا مال کرتا ہے اور ذہنی اور فکری کجی کو ہروسوسے اور شک سے پاک کرتا ہے۔ دوسری طرف افراد پر مشتمل معاشرے کو اپنے اداراتی نظام سے امن و سکون اور عدل و انصاف کی دولت سے بھی مالا مال کرتا ہے ، ضروریات زندگی بھی فراہم کرتا ہے اور بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے رب سے جوڑ کر انسانی مساوات، آزادی، اخوت اور انصاف پر مبنی نظام قائم کرتا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے کیپٹلزم ، نیشنل ازم ، کمیونزم اور سوشلزم کی خرابیوں اور کمزوریوں کو بھی بے نقاب کیا۔ ان کے نعروں اور دعوئوں کو کھوکھلا اور    بے وقعت ثابت کیا اور انسانی ضروریات کو انسانوں کے رب ، وحیِ الٰہی اور نبوت کی کرشمہ سازیوں سے بھی متعارف کرایا۔ اس لیے یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ نظری طور پر تمام نظاموں کے مقابلے میں اسلام بحیثیت نظام زندگی کے قابل قبول ، قابل عمل اور ایک ایمانی اور اخلاقی پیکج کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب ہو گیا۔

اس دور کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ وہ عقلیت (rationalism)کا دور تھا جو چیزوں کو عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر قبول کرتا، یا رد کرتا ہے۔ اس دور کا یہ دعوٰی تھاکہ عقل ہی معراج انسانیت ہے اور اسی کو زندگی کے تمام دائروں میں فیصلہ کن حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ مولانا مودودی ؒ نے اسلامی تعلیمات ، اسلامی معاشرے اور اسلامی ریاست کے حوالے سے جس بحث کو چھیڑا اس نے عقل کو بھی دنگ کر دیا اور اسلام بحیثیت نظام کے عقل اور استدلال ، فلسفہ اور نظریہ اور انسانی ذہن میں اٹھنے والے سارے سوالات و اعتراضات کا مسکت جواب فراہم کرتا چلا گیا۔ ا س طرح سیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے اس دور کے انسان کو عقلی طور پر بھی اپیل کیا اور قرآن و سنت کی تعلیم میں جو فطری کشش اور جذب و انجذاب کی خوبیاں ہیں، ان سے بھی متاثر کیا۔ مولانا مودودیؒ کی اس تحریک نے بالآخر جماعت اسلامی کا روپ دھارا اور اب اسے قائم ہوئے ۷۰ سال ہونے کو آئے ہیں۔ وقت بدلا ہے ، حالات بدلے ہیں ، کمیونزم اپنی جولانیاں دکھا کر اور چار دانگ عالم میں اپنا چرچا کرکے اور بظاہر ایک عالم کو اپنے حق میںاستوار اور متحیر کر کے ہوائوں میں تحلیل اور فضائوں میں گم ہوچکاہے، اس کی ریاست منتشر ہو چکی ہے ، اس کا فلسفہ بکھر چکاہے اور اس کا نظریاتی تار و پود ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا، اور وہ جو بیچتے تھے ۷۰ سال سے دواے دل وہ دکان اپنی بڑھا چکے ہیں۔

اس عرصے میں دنیا نے نیشنلزم کے حوالے سے بھی ان گنت تجربات کیے مگرمنہ کی کھائی ، خود اپنے پیر پر کلہاڑی ماری، اور پوری کی پوری انسانیت کو آگ اور خون کے دریا سے گزارا، اور اب نیشنلزم میں وہ اپیل ہے نہ جاذبیت اور کشش ، اور ایک نظام زندگی کی حیثیت سے ہرچند کہیں کہ ہے پر نہیں ہے والی صورت سے دوچار ہے۔ مغرب کا تہذیبی اور سرمایہ دارانہ نظام ، بلندیوں اور عروج کی ان گنت منازل سے گزرنے کے بعد اب کسی حقیقی پیغام اور مستقبل کی رفعتوں اور اُمنگوں سے عاری ہونے کا اعتراف کر رہاہے۔ اس نظام اور تہذیب کا امام امریکا اپنی اور اپنے اتحادیوں کی اور ناٹو کی فوجوں سے انسانیت پر حملہ آور ہے۔ ڈیزی کٹر اور کلسٹر بموں کی بارش ہے۔ انسانوں کی تباہی کا ہر عنوان دور تک سجا ہواہے لیکن اس نظام کے پاس انسانیت کے لیے ظلم اور بربادی کے علاوہ کوئی پیغام نہیں۔

گذشتہ کم و بیش آٹھ عشروں میں دنیا بھر میں متعدد اسلامی تحریکیں اٹھی ہیں۔ رجوع الی اللہ کے عنوان سے اٹھی ہیں ، بندوں کو بندوں کے رب کی طرف لے جانے کے پیغام کے ساتھ اٹھی ہیں، ففروا الی اللّٰہ کا مصداق بننے والوں کی تحریکیں اٹھی ہیں، اوردنیا بھر میں امریکی استعمار اور سرمایہ دارانہ تہذیب کے مظالم کے مقابلے میں دعوت، جدوجہد اور قربانی کے کلچر نے فروغ پایا ہے۔ تاریخ کے لمحۂ موجود میں     ؎

سالارِ کارواں ہے میرِحجازؐ اپنا

اس نام سے ہے باقی آرام جاں ہمارا

مصطفوی ؐ تہذیب اور مصطفویؐ کارواں منزل سے قریب تر ہو رہاہے اور تمام شیطانی اور طاغوتی قوتیں مکمل شکست اور ہزیمت سے دوچار ہوا چاہتی ہیں-

جماعت اسلامی کو اپنی ہم عصر تحریکوں میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے پہلے دن سے تنظیم جماعت کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ دی۔ مولانا مودودی ؒ نے ابتدا ہی میں یہ بات   بار بار دہرائی تھی کہ بدی ہر دائرے کے اندر منظم ہے، جب کہ نیکی منتشر ، اکیلی اور تنہا ہے لہٰذا نیکی اور بدی کے مقابلے میں ناگزیر ہے کہ نیکی اور خیر کی تمام قوتوں کو بھی منظم کیا جائے۔ انھیں پلیٹ فارم فراہم کیا جائے اور ایک سوچی سمجھی حکمت عملی سے آراستہ و پیراستہ کر کے ایک لمبی اور صبر آزما جنگ کے لیے انھیں تیار کیا جائے۔ اہداف اور مقاصد کو کھول کر بیان کیا جائے۔ منزل کا شعور اور  نشاناتِ منزل سے آگاہ کیا جائے اور قرآن و سنت کی تعلیم کو لے کر اٹھنے اور دنیا پر چھا جانے کا نقشہ اور فلسفہ دو اور دو چار کی طرح ذہنوں میں اتارا جائے۔

جماعت اسلامی نے روز اول ہی سے جہاں کرنے کے کام متعین کیے تھے، وہیں انھیں ایک منصوبے ، پروگرام اور نظام الاوقات کا آہنگ بھی دیا۔ ۲۰۰۸ء کو مرکزی مجلس شوریٰ نے دعوت کا سال قرار دیا ہے۔ شوریٰ کا اصل ہدف یہ ہے کہ کارکن کو رابطہ عوام کی طرف خصوصیت سے متوجہ کیا جائے۔ دعوت الی اللہ کی طرف لوگوں کو بلانا، فرداً فرداً بھی اور اجتماعی طور پر بھی، ان کی ضروریات اور مسائل سے ہم آہنگ ہو کر بھی اور اس سے ماورا آخرت کی جواب دہی، اللہ کی رضا اور حصول جنت کے لیے بھی۔

جماعت اسلامی ایمان کی تازگی، ذہنوں کی آبیاری ، قلب و نظر کی تبدیلی ، سوچ وفکر اور زاویۂ نگاہ کی پاکیزگی کو انقلاب اور اسلامی نظام کے برپا ہونے کا پہلا قدم سمجھتی ہے۔ جس معاشرے میں تعلق باللہ کی وافر مقدار موجود نہ ہو اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق خاطر اور عشق میں ڈوبا ہوا اتباع اور پیروی کا جذبہ مفقود ہو، اس معاشرے میں اٹھنے والی انقلاب کی لہریں کسی پاکیزہ ، بابرکت اور پایدار اسلامی انقلاب کی دستک ثابت نہیں ہوتیں۔ اس اعتبار سے جماعت کی پوری تنظیم کے لیے ناگزیر ہے کہ دعوتی مہمات کو شیڈول کے مطابق مرتب کیا جائے ، ضلعوں کی سطح پر یہ مہمات چلیں ، عوامی رابطے اور ممبر سازی کاکام کریں ، صوبائی نظم ا ن کی نگرانی کریں ، صوبے کی سطح پر بننے والی دعوتی کمیٹیاں ، دعوتی مہمات کے لٹریچر اور سرگرمیوں کو قریب سے دیکھیں اور پوری جماعت اس مہم کو اوڑھنا بچھونا بنائے ، دعوت کو اپنے لیے اول و آخر قرار دے اور اس کے نتیجے میں لاکھوں بندگانِ خدا تک پہنچے ، انھیں اپنا ہم نوا بنائے اور اسلامی نظام کو برپا کرکے معاشرے کے اندر ظلم کی جتنی شکلیں ، مہنگائی ، بے روزگاری ، لاقانونیت ، بد امنی ، فحاشی اور عریانی کی صورت میں موجود ہیں، ان سب سے نجات دلائے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ بنیادی طور پر خدا کا خوف رکھنے والا ، نبی اکرم صلی اللہ  علیہ وسلم کی محبت میں ڈوبا ہوا اور آخرت کی جواب دہی کے احساس سے معمور معاشرہ ہے۔ حالات کے جبر اور ظلم و استحصال کی ان گنت شکلوں نے ان ایمانی اور اخلاقی احساسات کو جا بجا مضمحل کیا ہے، انھیں ضعف پہنچایا ہے اور معاشرے پر غفلت کی ایک چادر تان دی ہے۔ دعوت الی اللہ، یعنی لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا ، بندگی کی جوت جگانا ، دامن مصطفی ؐ میں پناہ لینا اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپنانا، ان کی شریعت مطہرہ کو لے کر اٹھنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو جدوجہد اور کش مکش ہمارے درمیان چھوڑ گئے ہیں، انھیں اس کا خوگر بنانا، اس دعوتی مہم کا مقصود ہے۔

جماعت اسلامی کے کارکن کو اپنے ہم نوائوں اور ساتھیوں سے مل کر معاشرے میں بسنے والے تمام انسانوں تک خیر خواہی اور اپنائیت کا یہ پیغام پہنچانا چاہیے کہ پاکستان کی بھلائی بھی اس دعوت اور نظریے کے ساتھ مربوط ہے اور خود پاکستان کا وجود بھی اسلام اور نظریۂ پاکستان کے ساتھ وابستہ ہے۔ کارکن ، ناظم اور ہر سطح کے ذمہ دارانِ جماعت دعوت الی اللہ کو اگر موضوعِ گفتگو بنائیں گے اور اس کے لیے مولانا مودودی ؒ کی تحریروں اور آج کے اسلامی اور تحریکی لٹریچر سے استفادہ کریں گے تو معاشرے کی فضا بدل سکتی ہے ، اس کا رخ تبدیل کیا جاسکتاہے اور سوچ اور فکر کے تمام دھاروں کو اسلامی انقلاب اور تبدیلی کے عنوانات سے سجایا جاسکتاہے۔

ہم جس تبدیلی کے خواہاں ہیں اس کی جڑ اور بنیاد دعوت الی اللہ ہے۔ ذہن و فکر کی تبدیلی کے بغیر جسم و جاں کا قبلہ و کعبہ درست نہیں کیا جاسکتا۔ پایدار اور دیرپا انقلاب اس بات کا متقاضی ہے کہ دلوں پر دستک دی جائے، ذہنوں کو جھنجھوڑا جائے، کچھ کرنے اور کر گزرنے کے لیے آمادگی پیدا کی جائے، ایثار و قربانی کی شمع فروزاں کی جائے اور ایک بدلے ہوئے انسان کو دریافت کیا جائے۔ یہ کام قرآن و سنت کی دعوت ہی سے ممکن ہے۔ انسانی فطرت کو اپیل کرنے والا پیغام ہی دلوں کی دنیا کو بدل سکتاہے، ان میں انقلاب برپا کر سکتاہے۔

۲۰۰۸ء کا منصوبہ، تحریک سے وابستہ ہر فرد کو متحرک کرنے کا منصوبہ ہے اور یہ منصوبہ دعوت کی ہمہ گیریت ، تربیت اور تزکیے کے بھی تمام اہداف اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ منصوبے نے اس بات کو واضح کیاہے کہ فکری اور نظری اعتبار سے دعوتی جدوجہد کو تقویت پہنچانے کے لیے جماعت کے تمام تحقیقی و اشاعتی اداروں کو بھی ٹاسک دیا جائے۔ یہ ادارے مختصر کتابچوں کی تیاری ، دو ورقوں اور ہینڈ بلوں کی اشاعت اور ان کی مسلسل فراہمی کی منصوبہ بندی کریں اور اس لٹریچر کو مناسب قیمت پر فراہم کرنے کا اہتمام کریں۔

یوم نظریۂ پاکستان ۱۴ ؍اگست ، یوم تاسیس جماعت ۲۶ ؍اگست، یوم اقبال ۹ نومبر ، یوم یک جہتی کشمیر ۵ فروری اور ان سب کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر افطار پارٹیاں ، شب بیداریاں اور عیدملن کے اجتماعات منعقد کیے جائیں ، ان سب پروگراموں کی اصل اکائی ضلعی جماعتیں ہیں۔ ضلعی نظم ہی ان پروگراموں کی تفصیلات طے کر ے اور ہر یونٹ کو مؤثر بنانے کی تدابیر سوچے اور اختیار کرے۔ اسی دعوت بالقرآن کا موضوع رفتہ رفتہ کارکنوں سے اتر کر عوام میں سرایت کرجائے۔ پورے ملک میں سیکڑوں مقامات پر لاکھوں افراد نے فہم دین اور دعوت بالقرآن کے اجتماعات کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور مرد و خواتین کی بہت بڑی تعداد کو ان پروگرامات میں دل چسپی لیتے اور    ؎ 

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلمان

اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار

کا مصداق اور عملی نمونہ بنتے دیکھاہے۔ ایسے تمام اجتماعات میں حدیث نبوی ؐ اور اسوۂ صحابہؓ پر تعلیمی نوعیت کے نصاب ترتیب دے کر پروگرام منعقد کیے جائیں تاکہ فہم دین اور اسلام کا حقیقی انقلابی تصور اجاگر ہو سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں موثر افراد، کلیدی شخصیات ، سربرآوردہ لوگ اور راے عامہ پر اثرانداز ہونے والوں سے خصوصی رابطے ، انھیں لٹریچر کی فراہمی ، ان کے ساتھ الگ نشستوں کا اہتمام دعوت کے فروغ میں فیصلہ کن کردار اداکر سکتے ہیں۔ برادر تنظیمات ہمارے دست و بازو ہیں۔ جہاں جہاںنظم جماعت ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ، ان کی سرپرستی کرتا اور   ان کی ضروریات فراہم کرتا ہے، وہاں یہ برادر تنظیمات اپنی کارکردگی کے جوہر بکھیرتی ہیں، اپنی صلاحیت کا لوہا منواتی ہیں اور دعوت کے فروغ میں جماعت کے ہم رکاب نظر آتی ہیں۔

گذشتہ کئی برسوں سے منصوبۂ عمل میں لائبریری کے قیام اور فروغ پر زور دیا گیاہے۔  اب ضرورت اس بات کی ہے کہ لائبریری کے کردار کو توسیع دی جائے۔ ان کو اور زیادہ مؤثر بنایا جائے۔کتب اور رسائل کے ساتھ ساتھ دینی ، علمی اور دعوتی سی ڈیز بھی فراہم کی جائیں۔ہرضلعی صدر مقام پر   اور جس مقام پر بھی ممکن ہو ایک ماڈل لائبریری قائم کی جائے جہاں بیٹھ کر پڑھنے کی جگہ بھی اور رسائل و جرائد بھی باقاعدگی سے آتے ہوں، اور حسن انتظام لوگوں کو متوجہ کرے تو امید ہے کہ علاقے کے ممتاز افراد اور علم دوست شخصیات، نیز طلبہ اور نوجوانوں کی بڑی تعداد ان لائبریریوں سے استفادہ کرسکے گی۔

بچوں اور نوجوانوں کا تناسب پاکستان کی آبادی میں نصف سے زائد ہے۔ مستقبل کا کوئی پروگرام اور کوئی منصوبہ بندی اس حقیقت کو نظر انداز کر کے ترتیب نہیں دی جاسکتی۔ صوبائی سطح پر نوجوانوں میں کام کے لیے خصوصی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ انھیں دین سے وابستہ کرنے کی شعوری کوشش درکار ہے۔ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافے کے لیے تربیتی ورکشاپوں کا اہتمام ضروری ہے، اور ان کی مجموعی قوت کو تنظیم کی مضبوطی کے لیے استعمال کرنے کا نقشۂ کار بنانا ضروری ہے۔

نوجوانوں میں تحرک اور سرگرمی پیدا کرنے اور انھیں بے مقصدیت کے اندھیروں سے نکال کر بامقصد زندگی کی طرف لانے کے لیے نظم جماعت کو زیادہ سنجیدہ کوششیں کرنی چاہییں۔ ایک طرف نوجوانوں کی سوچ و فکر ،ان کے مسائل اور ضروریات اور معاشرے کی بے راہروی کا احاطہ کرنا ہوگا، تو دوسری طرف مثبت اور تعمیری سرگرمیوں کاایسا جال بچھانا ہو گا جو معاشرے پر اثرانداز ہو سکے اور نوجوانوں کی سیماب صفت شخصیت کو کردار کے سانچے میں ڈھال سکے۔ ہمیں اس سوال کا بھی سامنا کرنا چاہیے کہ نوجوانوں میں کام کے نتیجے میں بالآخر جماعت اسلامی کی  عددی قوت میں بھی اضافہ ہو اور وقت گزرنے کے ساتھ نظریاتی کارکن اور پتّا ماری سے کام کرنے والے، نیز مکمل سپردگی اور کامل حوالگی کا نمونہ بننے والے جماعت کی صفوں میں ذمہ داریوں کے مناصب پر اور نظام اسلامی کی جدوجہد میں پیش پیش نظر آئیں۔

رابطہ عوام کی دعوتی مہم کا لازمی تقاضا ممبر سازی ہے۔ اب سے کچھ پہلے کم و بیش ۵۰ لاکھ پاکستانیوں نے ممبر سازی کے گوشوارے پُر کیے تھے اور جماعت اسلامی کے مقصد اور کام سے اتفاق کا اظہار کیا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر سطح کا نظمِ جماعت ممبرسازی کے بعد کے تقاضوں کو تنظیمی سانچے میں ڈھالے۔ ممبر حضرات سے رابطے، جماعت کی پالیسیوں سے انھیں باخبر رکھنے ، مختلف سرگرمیوں میں انھیں شریک کرنے اور ان کی قوت کو جماعت کے حق میں استوار کرنے کی منصوبہ بندی، دو اور دو چار کی طرح کی جانی چاہیے۔ صوبائی جماعتیں اور ان کی صوبائی نگران کمیٹیاں ضلعی سطحوں پر اس کام کی نگرانی کریں تو فی الحقیقت معاشرے میں دعوت الی اللہ کا چلن عام ہو سکے گا اور ان گنت برائیوں کے سدّباب کے لیے اور منکرات کے استیصال کے لیے ممبر حضرات سے بڑا کام لیا جاسکے گا۔

میں یہ یاد دلاتا چلوں کہ اب سے ۳۰، ۳۵ سال پہلے تک مرکزی مجلس شوریٰ اپنے سالانہ اجلاس میں جو منصوبۂ عمل ترتیب دیتی تھی، اس میں جماعتوں کے ذمے کیے جانے والے کاموں کے اہداف اور اعداد و شمار بھی طے کیے جاتے تھے لیکن تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر شوریٰ میں اس راے کو تقویت حاصل ہوئی کہ مرکزی منصوبہ محض عمومی اور اصولی طور پر کام اور اس کی جہتوں کا تعین کرے، جب کہ نظم کی نچلی سطح پر اعداد و شمار اور سال بھر میں کی جانے والی سرگرمیاں ، ان کے اہداف وہی لوگ طے کریں جنھیں یہ منصوبہ لے کر چلناہے۔ اس لیے یہ ضروری قرار پایا کہ ہر سطح پر منصوبۂ عمل کا جائزہ لیا جاتا رہے، اور کم از کم ہر سہ ماہی یہ کام ضرورکیاجائے تاکہ جائزے کے نتیجے میں مقامی سطح پر منصوبے کے اہداف میں کمی بیش کی جاسکے۔


بطور یاد دہانی یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ جماعت اسلامی عملاً ایک تحریک ہے اور ایک تنظیم بھی۔ ماحول اور معاشرے میں ہونے والے مدو جزر اور اچانک درپیش آنے والے مسائل سے نہ ہم لاتعلق رہ سکتے ہیں، اور نہ کسی ’منصوبے‘ کے ہی اسیر ہو کر نئے اٹھنے والے طوفان کو نظر انداز کرسکتے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی رونما ہونے والی تبدیلیاں ، اسلامی تحریکوں کو پیش آنے والے واقعات اور خود اسلام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر پروپیگنڈے کی دنیا میں اُچھالا جانے والا کیچڑ اور اس بارے میں امت کا جو حقیقی موقف ہوسکتا ہے، اس کا احاطہ کرنا ، اس پر احتجاجی لہر اٹھانا، اپنے حکمرانوں اور دنیا بھر کی دریدہ دہن قوتوں کو للکارنا، یہ سب ہمارے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ ہمارے ایمان کا تقاضا اور ہماری تحریکیت کا امتحان ہے۔ لہٰذا سال کے مختلف حصوں میں منصوبۂ عمل کے ساتھ ساتھ ہنگامی نوعیت کی منکرات کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کوششیں بھی جاری رہیں گی۔

جن حالات سے اس وقت ملک گزر رہاہے ، اس میں باہم مل جل کر چلنے کی ایک عمومی فضا پیدا کرنے اور اتفاقِ راے کی حکومت قائم کر کے ایجنڈے کے کم سے کم نکات پر عمل درآمد کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ قومی مفاہمت کے نام پر جہاں یہ ضروری ہے کہ کم سے کم قومی ایجنڈے کا تعین کر کے عوام کو اعتماد میں لیا جائے اور انھیں سنہرے مستقبل کی تعمیر کی دعوت میں شریک کیا جائے وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ پارٹیوں کا ٹریک ریکارڈ، ان کا ماضی اور ان کے عمومی کردار کو ہرگز نظرانداز نہ کیا جائے ، بصورت دیگر قومی مفاہمت کے نام پر اسے سبوتاژ کرنے اور آپ ہی اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کا اسلوب بھی آپ سے آپ اس میں شامل ہو جائے گا۔ کسی بھی سطح پر جماعتوں کا اتحاد یا مل جل کر چلنے کا اعلان عملاً اپنے اپنے ضعف کا اعلان بھی ہوتا ہے جو کام اکیلے اور تنہا پارٹیاں اور پلیٹ فارم انجام نہ دے سکیں، ان کے لیے مل جل کر کوشش کی جاتی ہے۔ اس لیے اتحادوں اور مفاہمت کا ایجنڈا مختصراور کم سے کم ہوتا ہے، جب کہ مفصل اور زیادہ سے زیادہ ایجنڈا ہرپارٹی کا اپنا منشور ہوتاہے۔

آنے والے دنوں میں چیف جسٹس اور ان کے ۶۰سے زائد ساتھیوں کی بحالی آزاد عدلیہ کی طرف پہلا قدم قرار پائے گا۔ اس بارے میں جتنی افواہیں اور سازشیں جنم لے رہی ہیں وہ عوام کے عزم کو شکست نہ دے سکیں گی۔ کم و بیش ۶۰ ہفتوں پر مشتمل وکلا کی تحریک، بنچ اور بار کا اتحاد،  سول سوسائٹی ، میڈیا اور سیاسی کارکنوں کی جدوجہد کو بے معنی اور بے مقصد بنانے اور انھیں غیراہم قرار دے کر، ان کو پٹڑی سے اتارنے کی جو کوششیں بھی اِدھر اُدھر سے کی جارہی ہیں بالآخر لوگوں کے عزمِ صمیم کے سامنے وہ دم توڑ دیں گی۔ وزیراعظم نے ابتدائی ۱۰۰ دن کے لیے جس پروگرام اور ترجیحات کا اعلان کیا ہے یقینی طور پر وہ نہایت خوش کن ہے، زخموں پہ پھایا اورد کھوں کے مداوے کے مترادف ہے لیکن ابھی تک ان اعلانات کو عملی جامہ پہنانے کی کوئی مؤثر کوشش دیکھنے کو نہیں ملی۔ صوبائی حکومتوں کو ہدایات جاری ہونی چاہییں۔ طلبہ یونینز کے بارے میں بھی، ٹریڈ یونین سرگرمیوں کے حوالے سے بھی اور ایف سی آر کو ختم کرنے کے بارے میں بھی مرکزی حکومت کو ایک اچھے   ہوم ورک کا ثبوت فراہم کرنا چاہیے۔

یہ بات بھی خوش آیند ہے کہ عوام نے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی تک اپنے  حقیقی معاشی مسائل کے حل کو ملتوی کر رکھا ہے۔ عوام اس بات کو رفتہ رفتہ پا گئے ہیں کہ جس معاشرے میں قانون کی فرماں روائی نہ ہو اور محمود و ایاز ایک صف میں کھڑے نظر نہ آئیں ، وہاں مہنگائی ، بے روزگاری ، لاقانونیت اور محرومیوں کا مداوا نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ مرکز میں بننے والی اتفاقِ راے کی حکومت عوام کے معاشی مسائل حل کرنے کے لیے ایک ریلیف پیکج کا بھی فوری اعلان کرے اور یہ کام اچھی تیاری اور لائحہ عمل کی مشکلات کو عبور کر کے کیا جائے۔اس سلسلے میں یہ بھی ناگزیر ہے کہ معاشیات کو جاننے والے غریب اور پسے ہوئے عوام کا درد رکھنے والے اور بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی مایوسی اور ناامیدی کو شکست دینے کا عزم رکھنے والے مل بیٹھیں اور کم سے کم وقت میں ایک ریلیف پیکج کا اعلان کریں جس پر عمل ہوتا ہوا نظر آئے اور جو کسی نہ کسی درجے میں لوگوں کے لیے واقعی سُکھ کا باعث بن سکے۔

قبائلی علاقوں اور بلوچستان سے فوج کو واپس بلانا اب دیوار پر لکھی تحریر کے مانند ہے۔ فوج کی واپسی کے ساتھ ہی مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر مسائل حل کرنا ناگزیر ہے۔ جرگوں کا انعقاد ہونا چاہیے اور ہر جرگے کے فیصلے کو عمل کا روپ دینا چاہیے۔ امریکی ڈکٹیشن سے آزاد ہو کر اپنے مسائل اپنے ہی دائرے میں رہ کر اور اپنے ہی لوگوں کو اعتماد میں لے کر حل کیے جانے چاہییں۔ جتنے بڑے پیمانے پر بلوچستان اور صوبہ سرحد میں جانی اور مالی نقصان ہو چکا ہے، اس نے باہمی اعتماد کا بھی شدید بحران پیدا کیا ہے۔ مل بیٹھنے اور حسن نیت اور ارادے کی مضبوطی کے اظہار سے اور پھر فیصلے پر عمل درآمد سے اعتماد کے بحران کو شکست دی جاسکتی ہے اور اعتماد سازی اس کی جگہ لے سکتی ہے۔

صوبہ سندھ بقیہ صوبوں کے مقابلے میں جتنے بڑے پیمانے پر دہشت گردی کا سامنا کرتا رہاہے، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اس لیے اس بات کو دہرانا ضروری ہے کہ ۱۲ ربیع الاول ، نشترپارک کراچی میں ہونے والے علما کے قتل کی از سر نو تحقیقات کرائی جائیں۔ ۱۲ مئی ۲۰۰۷ء کو شہر کراچی میں جس طرح ۵۰ سے زائد لوگ ہلاک کیے گئے، اس پو رے واقعے کی بھی تحقیقات کی جائیں۔ نیز ۱۲مئی ۲۰۰۴ء کو کراچی میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں جس بڑے پیمانے پر دہشت گردی ہوئی اور سیاسی کارکنوں کو شہید کیا گیا، اس کا بھی نوٹس لیا جائے اور اب تازہ ترین واقعہ جو ۹ اپریل ۲۰۰۸ء کو ہوا ہے اور شہر کراچی کو آگ اور خون کے دریا میں دھکیل دیا گیاہے، اس کی بھی مکمل تحقیقات کی جائیں۔ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ بلیک میلنگ کی سیاست کو ختم کیا جائے اور بھتہ خوری اور بوری بند لاش کلچر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا جائے۔ ناگزیر ہے کہ اس کام کو کرنے کے لیے سندھ کی صوبائی حکومت پر عزم ہو، مرکزی حکومت کی مکمل آشیر باد اسے حاصل ہو اور دبائو میں آکر، بلیک میل ہو کر، خواہ یہ دبائو عالمی اور بین الاقوامی ہویا مقامی اور خفیہ اداروں کی طرف سے ہو،ایسے دہشت گردوں کو ہر گز ہر گز اقتدار میں شریک نہ کیا جائے جو ہزاروں جانوں کے اتلاف اور اربوں روپے کی املاک کو نقصان پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔

سیاسی جماعتوں سے اتفاق بھی کیا جاسکتاہے اور اختلاف بھی۔ ان کے ساتھ مل کر بھی کوئی حکمت عملی بنائی جاسکتی ہے اور کبھی ان سے ہٹ کر بھی، لیکن ایک فسطائی گروہ کو سیاسی جماعت سمجھنے کا جو خمیازہ اہل کراچی اور سندھ نے پچھلے بیس برسوں میں بھگتا ہے، اس کی اب تلافی ہونی چاہیے۔ بہت ہو چکا۔ پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا اور پانی سر سے بھی اونچا ہو چکا۔ عوام کی     بڑی تعداد قومی اور صوبائی سطح پر بننے والی حکومتوں سے خوش گمان ہے اور حکومتی رویوں کو اعتماد بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔ جو اپنے ایجنڈے اور اس کی ترجیحات کا بار بار اعلان کر رہی ہیں۔ لہٰذا سید یوسف رضاگیلانی کی حکومت کو ایک بڑا امتحان درپیش ہے۔ ہماری دعائیں اور نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں، لیکن وعدوں اور اعلانات کے پورا نہ ہونے اور امیدوں کے بر نہ آنے کے جو خوفناک نتائج ہو سکتے ہیں اور جتنے بڑے پیمانے پر بپھرے ہوئے لوگوں کا غیظ و غضب اپنے آپ کو منوانے کے لیے جو کچھ کرسکتاہے، اس سے بھی بے خبر نہ رہنا چاہیے۔

موجودہ حکومت نے کشمیر کے بارے میں ابتدائی چند بیانات کچھ عجلت میں دے دیے تھے، ہمیں اپنے اصولی موقف پر قائم رہنا چاہیے۔ اہل کشمیر کی جدوجہد کو تسلیم کرنا چاہیے۔ بین الاقوامی برادری نے ان سے جو وعدے کیے ہیں، ان کے مطابق انھیں حقِراے دہی ملنا چاہیے اور پاکستان کو اپنی اخلاقی ،سفارتی اور سیاسی تائید بڑھ چڑھ کر جاری رکھنی چاہیے۔ کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور دشمن کے ہاتھ میں اپنی شہ رگ دے دینے والے بالآخر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس خود کشی سے قومی سطح پر بچنے کا واحد نسخہ یہی ہے کہ کشمیریوں کو تنہا نہ چھوڑا جائے۔ بھارت کے عزائم کو ٹھیک ٹھیک سمجھا جائے اور اس خطے میں امریکی عمل دخل کو شکست سے دوچار کیا جائے۔

اس پورے پس منظر میں جماعت اسلامی کا کارکن بھی ایک بڑی آزمایش سے دوچار ہے۔ ۲۰۰۸ء کے منصوبۂ عمل پر اس کی روح کے ساتھ عمل بھی کرنا ہے اور چاروںطرف کے حالات سے باخبر رہ کر تحریکوں ، مہمات اور عوام کی آواز بن کر بھی اٹھنا ہے۔ ہم نے ہمیشہ قانون کے دائرے میں رہ کر بڑی بڑی تحریکیں اٹھائی ہیں۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کو اپنے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا ہے۔ آیندہ بھی ہمارا ہتھیار اللہ پر ایک جیتا جاگتا ایمان ، اس کی قدرت کاملہ پر  بھروسا اور اسی کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے رہنے کا عزم ہے اور یہ سب کام اس کی رضا اور آخرت کی فلاح کے لیے کیا جانا ہے، اور کس سے یہ بات مخفی ہے کہ اللہ تک جانے کے تمام راستے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوکر گزرتے ہیں اور سنت ثابتہ کو اپنانے سے ہموار ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہرکارکن کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ کمر ہمت کس.َ  لے ، تعلق باللہ کی استواری میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرے۔ سنت نبویؐ کو اپنائے ، شریعت مطہرہ کو لے کر اٹھے اور جو جدوجہد اور کش مکش نبی اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان چھوڑ گئے ہیں، اس کا خوگر بنے اور اس بارے میں کسی لیت و لعل سے کام نہ لے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ وہ ہمارے حالات کو سدھار ے گا ، ہمیں اپنی تائید سے نوازے گا ، ہماری ٹوٹی پھوٹی جدوجہد کو قبول کرے گا اور جن آرزوئوں اور تمنائوں کے ساتھ قربانیاں دے کر اسے باقی رکھا گیاہے، اس کو نتیجہ خیز بنائے گا اور ہم اپنے سر کی آنکھوں سے پاک سرزمین پر قرآن و سنت کا پاکیزہ نظام روبہ عمل دیکھ سکیں گے۔ ان شاء اللہ!


جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ نے ۲۰۰۸ء کو دعوت کا سال قرار دیا ہے اور اس کے لیے ایک جامع منصوبہ اور لائحہ عمل بھی مرتب کیا ہے۔ پوری جماعت اس منصوبے کے مطابق اپنی سرگرمیاں ترتیب دے رہی ہے، اسی مناسبت سے اس ماہ کے اشارات میں محترم قیم جماعت نے منصوبے کے اصل مقاصد و اہداف اور ان احوال ومسائل پر کلام کیا ہے جو آج ملک اور تحریک کو درپیش ہیں۔ (مدیر)