وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا o (المزمل ۷۳:۴)
اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو۔
[جب حضوؐر کو یہ حکم دیا گیا کہ] آدھی رات تک تہجد میں مشغول رہا کر، یا کچھ بڑھا گھٹا دیا کر، اور قرآن شریف کو آہستہ آہستہ ٹھیر ٹھیر کر، پڑھا کر تاکہ خوب سمجھتا جائے، اس حکم کے بھی حضوؐر عامل تھے۔ حضرت صدیقہؓ کا بیان ہے کہ آپ قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے جس سے بڑی دیر میں سورت ختم ہوتی تھی۔ گویا چھوٹی سی سورت بڑی سے بڑی ہو جاتی تھی، صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت کا وصف پوچھا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں: خوب مد کرکے حضوؐر پڑھا کرتے تھے۔ پھر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھ کر سنائی جس میں لفظ اللہ پر، لفظ رحمن پر، لفظ رحیم پر مد کیا۔ ابن جریج میں ہے کہ ہر ہر آیت پر آپ پورا وقف فرمایا کرتے تھے جیسے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِپڑھ کر وقف کرتے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ پڑھ کر وقف کرتے، اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھ کر وقف کرتے، مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِپڑھ کر ٹھیرتے۔ یہ حدیث مسند احمد، ابوداؤد اور ترمذی میں بھی ہے۔ مسنداحمد کی ایک حدیث میں ہے کہ قرآن کے قاری سے قیامت والے دن کہا جائے گا کہ پڑھتا جا اور چڑھتا جا اور ترتیل سے پڑھ، جیسے دنیا میں ترتیل سے پڑھا کرتا تھا۔ تیرا درجہ وہ ہے جہاں تیری آخری آیت ختم ہو۔ یہ حدیث ابودائود و ترمذی اور نسائی میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن صحیح کہتے ہیں۔
[بہت سی] احادیث ہیں جو ترتیل کے مستحب ہونے اور اچھی آواز سے قرآن پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں، جیسے وہ حدیث جس میں ہے قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرو، اور ہم میں سے وہ نہیں جو خوش آوازی سے قرآن نہ پڑھے، اور حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کی نسبت حضوؐر کا یہ فرمانا کہ اسے آلِ دائود کی خوش آوازی عطا کی گئی ہے اور حضرت ابوموسٰی ؓ کا فرمانا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپؐ سن رہے ہیں تو میں اور اچھے گلے سے زیادہ عمدگی کے ساتھ پڑھتا، اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا فرمان کہ ریت کی طرح قرآن کو نہ پھیلائو اور شعروں کی طرح قرآن کو بے تہذیبی سے نہ پڑھو، اس کے عجائب پر غور کرو اور دلوں میں اثر لیتے جائو اور اس کے پیچھے نہ پڑجائو کہ جلد سورت ختم ہو۔ (بغوی)۔ ایک شخص آکر حضرت ابن مسعود ؓ سے کہتا ہے: میں نے مفصل کی تمام سورتیں آج کی رات ایک ہی رکعت میں پڑھ ڈالیں۔ آپ نے فرمایا: پھر تو تو نے شعروں کی طرح جلدی جلدی پڑھا ہوگا، مجھے وہ برابر برابر کی سورتیں خوب یاد ہیں جنھیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ملا کر پڑھا کرتے تھے۔ پھر مفصل کی سورتوں میں سے ۲۰ سورتوں کے نام لیے کہ ان میں سے دو دو سورتیں حضوؐر ایک ایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے۔(تفسیر ابن کثیر، عمادالدین ابوالفدا ابن کثیر، ص ۳۸۴-۳۸۵)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن کا صرف پڑھنا مطلوب نہیں، بلکہ ترتیل مطلوب ہے جس میں ہر ہر کلمہ صاف صاف اور صحیح ادا ہو۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح ترتیل فرماتے تھے۔ حضرت اُم سلمہؓ سے بعض لوگوں نے رات کی نماز میں آپ کی تلاوتِ قرآن کی کیفیت دریافت کی تو انھوں نے نقل کر کے بتلایا جس میں ایک ایک حرف واضح تھا۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی، از مظہری)
ترتیل میں تحسینِ صوت، یعنی بقدر اختیار خوش آوازی سے پڑھنا بھی شامل ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کسی کی قراء ت و تلاوت کو ایسا نہیں سنتا جیسا اُس نبی کی تلاوت کو سنتا ہے جو خوش آوازی کے ساتھ جہراً تلاوت کرے۔ (مظہری)
.....اور اصل ترتیل وہی ہے کہ حروف و الفاظ کی ادایگی بھی صحیح اور صاف ہو ، اور پڑھنے والا اس کے معانی پر غور کر کے اُس سے متاثر بھی ہو رہا ہو، جیساکہ حسن بصریؒ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزرایک شخص پر ہوا، جو قرآن کی ایک آیت پڑھ رہا تھا اور رو رہا تھا۔ آپؐ نے لوگوں سے فرمایا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم سنا ہے: وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًابس یہی ترتیل ہے (جو یہ شخص کر رہا ہے) (القرطبی)۔ (معارف القرآن، مفتی محمد شفیع، ج ۸، ص ۵۹۰-۵۹۱)
حضرت امام صادق سے ’ترتیل‘ کی تفسیر میں یہ آیا ہے: جس وقت تم کسی ایسی آیت سے گزرو جس میں جنت کا ذکر ہو تو رُک کر خدا سے جنت کا سوال کرو (اور اس کے لیے اپنی اصلاح کرو)، اور جب تم کسی ایسی آیت سے گزرو جس میں جہنم کا ذکر ہو، تو خدا سے اس سے پناہ مانگو (اور خود کو اس سے دُور رکھو)۔
.....ایک اور حدیث میں انھی حضرت سے اس طرح نقل ہوا ہے: قرآن کو جلدی جلدی، سرعت اور تیزی کے ساتھ نہیں پڑھنا چاہیے۔ جس وقت تم کسی ایسی آیت سے گزرو جس میں جہنم کا ذکر ہو، تو وہاں رک جائو اور خدا سے جہنم کی آگ سے پناہ مانگو.....
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ زمانے میں بہت سے مسلمان اس واقعیت سے بہت دُور ہوگئے ہیں، اور انھوں نے قرآن کے صرف الفاظ پر اکتفا کرلیا ہے، اور ان کا مقصد صرف سورت اور قرآن کو ختم کرنا ہوتا ہے۔ بغیر اس کے کہ وہ یہ جانیں کہ یہ آیات کس مقصد کے لیے نازل ہوئی ہیں؟ اور کس پیام کی تبلیغ کر رہی ہیں؟ یہ ٹھیک ہے کہ یہ قرآن کے الفاظ بھی محترم ہیں، اور ان کو پڑھنا بھی فضیلت رکھتا ہے لیکن اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ الفاظ اور تلاوت ان کے مطالب و مضامین کو بیان کرنے کا مقدمہ اور تمہید ہے۔ (تفسیرنمونہ، ج ۲۵، ص ۱۵۱-۱۵۲)
حضرت حذیفہ بن یمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رات کی نماز میں حضوؐر کے ساتھ کھڑا ہوگیا تو آپ کی قراء ت کا یہ انداز دیکھا کہ جہاں تسبیح کا موقع آتا، وہاں تسبیح فرماتے، جہاں دُعا کا موقع آتا، وہاں دعا مانگتے، جہاں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا موقع آتا، وہاں پناہ مانگتے (مسلم، نسائی)۔ حضرت ابوذرؓ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رات کی نماز میں جب حضوؐر اِس مقام پر پہنچے اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ وَ اِنْ تَغْفِرْ لَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔ (اگر تو انھیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تو غالب اور دانا ہے) تو اسی کو دُہراتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی (مسنداحمد، بخاری)۔ (تفہیم القرآن، سیدابوالاعلیٰ مودودی، ج ۶، ص ۱۲۶-۱۲۷)
تلاوتِ قرآن کا یہی طریقہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق بھی ہے اور یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ماثور و منقول بھی ہے۔ قرآن کے مقصدِ نزول کے پہلو سے بھی یہی طریقہ نافع ہوسکتا ہے لیکن مسلمانوں میں یہ طریقہ صرف اس وقت تک باقی رہا جب تک وہ قرآن کو فکروتدبر کی چیز اور زندگی کی رہنما کتاب سمجھتے رہے۔ بعد میں جب قرآن صرف حصولِ ثواب اور ایصالِ ثواب کی چیز بن کے رہ گیا تو یہ اس طرح پڑھا جانے لگا جس کا مظاہرہ ہمارے حفاظ کرام تراویح اور شبینوں میں کرتے ہیں۔ (تدبر قرآن، امین احسن اصلاحی، ج ۸، ص ۲۳-۲۴)
یہ [دراصل] ایک عظیم مہم کے لیے من جانب اللہ تربیت تھی اور اس تربیت میں ایسے ذرائع استعمال کیے گئے جن کی کامیابی کی ضمانت من جانب اللہ دی گئی تھی۔ قیام اللیل، جس کی زیادہ سے زیادہ حد نصف رات یا دو تہائی سے کم یا ایک تہائی ہے، اس میں صرف ترتیل قرآن اور نماز ہوتی ہے۔ ترتیل قرآن کا مطلب ہے قرآن کو تجوید کے ساتھ قرآن کے اصولوں کے مطابق پڑھنا، جلدی جلدی بھی نہ ہو اور محض گانے بجانے کا انداز بھی نہ ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح روایات وارد ہیں کہ آپؐ نے قیام اللیل کے دوران گیارہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھا تھا لیکن ان گیارہ رکعات میں رات کے دو تہائی حصے سے قدرے کم وقت گزارتے تھے اور آپؐ قرآن مجید کو خوب رُک رُک کر تجوید کے ساتھ پڑھتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تربیت اس لیے کی جارہی تھی کہ ایک بھاری ذمہ داری آپؐ کے سپرد کی جانے والی تھی..... راتوں کو جاگنا، جب کہ لوگ سورہے ہیں، اور روز مرہ کی زندگی کی کدورتوں سے دُور ہونا، اور دنیاوی جھمیلوں سے ہاتھ جھاڑ کر اللہ کا ہو جانا، اور اللہ کی روشنی اور اللہ کے فیوض وصول کرنا، اور وحدت مطلقہ سے مانوس ہونا، اور اس کے لیے خالص ہوجانا، اور رات کے سکون اور ٹھیرائو کے ماحول میں ترتیل قرآن، ایسی ترتیل کہ گویا یہ قرآن ابھی نازل ہو رہا ہے اور یہ پوری کائنات اس قرآن کے ساتھ رواں دواں ہے۔ انسانی الفاظ اور عبارات کے سوا ہی یہ پوری کائنات قرآن کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ قیام اللیل میں انسان قرآن کے نورکی شعاعیں، اس کے اشارات، نہایت پُرسکون ماحول میں حاصل کرتا ہے اور یہ سب اس دشوارگزار راستے کا سازوسامان ہے۔ کیونکہ اس کٹھن راستے کی مشکلات رسولؐ اللہ کے انتظار میں تھیں اور یہ ہر اس شخص کا انتظار کرتی ہیں، جو بھی اس دعوت کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے۔ جو شخص بھی جس دور میں دعوتِ اسلامی کا کام کرتاہے، شیطانی وساوس اور اس راہ کے تاریک ترین لمحات میں یہی زادِ راہ کسی داعی کے کام آتا ہے اور اس سے اس کی راہ روشن ہوتی ہے (فی ظلال القرآن، سید قطب شہیدؒ، ترجمہ: معروف شاہ شیرازی، ج۶، ص ۶۷۶-۶۷۷)۔ (انتخاب و ترتیب: امجد عباسی)