عراق میں امریکی جارحیت کے پانچ سال مکمل ہونے پر دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ امریکی حکومت کو خود امریکی عوام اور دانش وروں اور کانگرس کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ عملاً امریکا کو اس جنگ کی بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے اور روز بروز امریکی فوجوں کے انخلا کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جب صدام حسین کی حکومت کا تختہ ۲۰۰۳ء میں اُلٹا گیا تو امریکا کے سامنے بظاہر دو اہداف تھے: اجتماعی تباہ کاری کے ہتھیاروں کی بازیابی اور مشرق وسطیٰ میں بتدریج جمہوریت کا قیام۔ یہ اہداف تو حاصل نہ ہوسکے اور امریکا اب ایران میں ’موت کا رقص‘ شروع کرنے کے لیے تمام ممکنہ تیاریاں کر رہا ہے۔ صدام حسین کے بعد عبوری حکمران کونسل اور اُس کے بعد دستوری حکومت، امریکی انتظامیہ کے اشارے پر ناچنے والی کٹھ پتلیاں تھیں جن کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں دوورقہ پڑھ کر سنا دینے کے سوا کوئی کردار نہیں۔ نوری کامل المالکی یہ کام بخیروخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ ہر روز مختلف لسانی اور مذہبی گروہوں میں تصادم ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکالا جاتا ہے کہ ’’افواج کا قیام بے انتہا ضروری ہے‘‘۔ شیعہ، سُنّی اور کُرد سیکڑوں برس سے عراق میں رہ رہے ہیں۔ مگر یہ امریکی پالیسی سازوں کا کمال ہے کہ وہ تینوں گروہوں کو وافر مقدار میں اسلحہ بھی فراہم کرتے ہیں، ایک دوسرے کے قتل پر آمادہ بھی کرتے ہیں، اور بعدازاں تینوں گروپوں کے گرفتار شدہ مجاہدین، اور ہلاک شدہ ’جہادیوں‘ کی تصاویر بھی عالمی نشریاتی اداروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔
کُردوں کی قوم پرست تحریک نے بھی اِس عرصے میں شدت اختیار کرلی ہے۔ شام، ایران اور عراق میں پھیلے ہوئے کُرد آزاد ریاست کی منزل تک نہ پہنچ سکیں گے اگرچہ ’نیوکونز‘ کے پالیسی سازوں کے سامنے ایک یہ حل بھی موجود ہے کہ عراق کو سُنّی، شیعہ اور کُرد عراق ریاستوں میں تبدیل کردیا جائے جو خودمختار ہوں لیکن امریکا کی باج گزار ہوں اور امریکی اشارے پر کسی بھی ہمسایہ عرب ریاست کے خلاف فوجی کارروائی کرسکیں یا امریکی کارروائی کے لیے’ محفوظ پناہ گاہ‘ فراہم کرسکیں۔ تین شمالی صوبوں میں کُردوں کی علاقائی حکومت ہے۔ اُن کی مسلّح افواج، قومی نشان اور جھنڈا ہے، لیکن داخلی بدامنی اور قومی انتشار نے اُن کو ایسے مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ جنگ اور فوجی کارروائی کا منظر ہی اُنھیں نجات کا منظر نظر آتا ہے۔ ایک ہزار سے زائد قبائل اور گروہ عراق میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اُن کے باہمی لسانی، قبائلی اور تہذیبی اختلافات بھی ہیں، تاہم اس پر اُن کا اتفاق ہے کہ غیرملکی حملہ آوروں کا نہ سازوسامان واپس جائے اور نہ وہ خود زندہ واپس لوٹیں۔ امریکا کی جانب سے مسلط جنگ اور باہمی خوں ریزی سے عراق میں ۱۰ لاکھ افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ تباہی و بربادی کے جو مناظر تشکیل پائے ہیں، عالمِ انسانیت اس پر ہمیشہ نوحہ کناں رہے گی۔
امریکی انتظامیہ ۵۰۰ ارب ڈالر خرچ کرنے کے بعد اور تو کچھ حاصل نہ کرسکی، تاہم سرکاری اعلان کے مطابق ۴ ہزار امریکی فوجیوں کی لاشیں امریکا پہنچ چکی ہیں، ۲۳ ہزار اپاہج اور زخمی فوجی، مختلف امریکی ریاستوں میں زیرعلاج ہیں (www.antiwar.com)۔ امریکا عراق میں جنگ جاری رکھنے کے لیے ۷۲ کروڑ (۷۲۰ ملین) ڈالر روزانہ خرچ کر رہا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا مجبورہے کہ ہر ایک منٹ میں ۵ لاکھ ڈالر جنگی اخراجات کی صورت میں خرچ کرے۔ معروف تحقیقی مجلے فارن پالیسی نے ناکام ریاستوں کا گوشوارہ ۲۰۰۷ء میں عراق کو دنیا کی ناکام ترین ریاستوں میں دوسرا نمبر دیا ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال ریاست کو اس مقام تک پہنچانے کا سہرا واشنگٹن کے سر بندھتا ہے۔
امریکا کے سرکاری ترجمان اور پالیسی ساز ادارے جو اعلان بھی کریں، عراق سے امریکی افواج کو بالآخر نکلنا پڑے گا۔ پانچ برس قبل عراق پر مکمل امریکی تسلط تھا، اب اقتدار براے نام سہی عراقی انتظامیہ کے پاس ہے۔ امریکی بحری، بّری اور فضائی افواج کی نوعیت بھی ماضی والی نہیں رہی۔ امکان ہے کہ امریکی انتظامیہ اپنے فوجی دستے بتدریج عراق سے نکال لے، لیکن اس کی فوجی چھائونیاں اور دستے یہاں موجود رہیںگے، چاہے وہ دنیا کے دکھاوے کے لیے عراقی حکومت سے معاہدے کے بعد یہاں رہیں۔ ایسے معاہدے امریکی حکومت ’جنوبی کوریا‘ کی حکومت سے بھی کرچکی ہے اور بہ سہولت وہاں براجمان ہے۔
امریکا کو عراق میں قیام کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے اور مزید ادا کرنا پڑرہی ہے۔ عراق پرقبضے کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے ہوئے، خود امریکی عوام نے اس سے نفرت کا اظہار کیا۔ عراقیوں کی صدام حسین سے ناراضی ڈھکی چھپی بات نہ تھی، تاہم امریکی فوجیوں سے نفرت اُس سے کئی ہزار گنا زیادہ ہے۔ عراق کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں امریکا کے خلاف مظاہرے نہ ہوئے ہوں، یا امریکی فوجیوں کو نقصان نہ پہنچایا گیا ہو۔ امریکی فوجیوں کی سب سے بڑی تعداد دارالحکومت بغداد میں ہے اور یہیں سب سے زیادہ پُرتشدد واقعات رونما ہوئے ہیں۔ بم مارنے اور فوجی گاڑیاں اڑا دینے کے واقعات عام ہیں۔ عراق میں بم مارنے اور باہمی کُشت و خون کے کُل واقعات کا ایک چوتھائی بغداد میں رونما ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے کہا تھا: عراق میں جنگ غیرقانونی ہے، کیونکہ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر پر پورا نہیں اُترتی۔
واشنگٹن کے پالیسی ساز کانگرس کے دبائو اور عوامی ردعمل کے جواب میں کہتے ہیں کہ اگر فوری طور پر افواج، عراق سے واپس بلا لی گئیں تو اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ امریکی افواج عراق میں ناکام ہوگئیں،نیز یہ کہ امریکی افواج کے عراق چھوڑ دینے سے دنیا بھر کے ’دہشت گرد‘ عراق میں اکٹھے ہوجائیں گے۔ امنِ عالم، جمہوریت، روشن خیالی اور مہذب دنیا کو ناکام کرنے کے لیے نائن الیون، سیون سیون اور سیون الیون جیسے واقعات بار بار رونما ہوں گے۔ اس لیے کُلی طور پر نہیں، جزوی طور پر امریکی افواج اور بحری و فضائی بیڑے کی موجودگی ضروری ہے اور مشرق وسطیٰ میں ’جمہوریت کی ترویج‘ کی منزل بھی تو حاصل نہیں ہوسکی ہے۔
اگلے صدارتی انتخابات جیتنے والا امریکی صدر مجبور ہوگا کہ سال ۲۰۰۸ء میں امریکی افواج کی تعداد میں واضح طور پر کمی کا اعلان کردے۔ سول سوسائٹی کے اراکین اور کانگرس مشترکہ طور پر مطالبہ کرچکے ہیں کہ فوج واپس بلائی جائے۔
امریکا نے بغداد میں جو حکومت قائم کی ہے، وہ بھی مجبور ہوجاتی ہے کہ امریکا کے غیرقانونی، غیراخلاقی تسلط کے خلاف لب کشائی کرے۔ جولائی ۲۰۰۶ء میں عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے عراق پر امریکی حملے اور اس کے نتائج کو ’ذبح کرنے والوں کی کارروائی ‘ قرار دیا۔ عالمی پیمانے پر بھی امریکا کو تنہائی کا سامنا ہے۔ کئی ممالک نے واشنگٹن کے اتباع میں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے فوجی عراق بھیجے تھے، مگر اب اُن میں سے اکثر نے اپنی فوجیں عراق سے نکالی ہیں۔ برطانیہ بھی اپنی فوجیں عراق سے نکال رہا ہے جو کہ امریکا کا جاںنثار ’شریکِ کار‘ رہا ہے۔ اُس کے بعد امریکا کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ عراق میں اپنی افواج کو ’کثیر المُلکی فوج‘ قرار دے۔
گذشتہ پانچ برسوں میں سیاسی تعمیرنو کے دوران، عراق کو انتہائی ناہموار حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وفاقی نظام اور سیاسی انتشار نے عراق کی شناخت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ عراق کو ایسی سیاسی قوت کی ضرورت ہے کہ جو لسانی، مذہبی اور قبائلی تعصب سے بالاتر ہوکر تعمیرنو کا مقامی عمل شروع کرے۔ یہ قوت عراق ہی سے اُبھرنی چاہیے، باہر سے آنے والی قوت یہ کام نہ کرسکے گی، نہ امن وامان اور سرحدوں کی حفاظت کا کام ہی، بیرونی ایجنٹ سرانجام دے سکیں گے۔
روسی افواج ۱۹۷۹ء میں افغانستان میں داخل ہوئیں اور ۱۹۹۲ء تک واپس جا چکی تھیں لیکن اس عرصے میں روس کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ سوویت یونین کے زوال پذیر ہونے کی صورت میں سامنے آیا۔ امریکا کو ویت نام، کوریا اور اب عراق کے تجربے سے یہ سیکھ لینا چاہیے کہ ’عالمی داداگیری‘کے دورانیے کو طول دیتے ہوئے اُس کو داخلی محاذ پر شکست در شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکی اراکینِ کانگرس، اراکینِ سینیٹ، تھنک ٹینکس، سول سوسائٹی کے ارکان اور انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے والے امریکی عوام یقینا اپنی حکومت پر دبائو ڈالیں گے کہ عراق سے اپنی افواج واپس بلالیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو اُن کی معیشت کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا، اور امریکا سے بڑھتی ہوئی نفرت انتقامی جذبے کو ہوا دینے کا باعث بنے گی جس سے عالمی امن تباہ ہوسکتا ہے اور اس کی ذمہ داری امریکا کے سر ہوگی۔ کاش! امریکی حکمران عقل کے ناخن لیں۔