اس پُرآشوب دور میں ، جب کہ انسانیت تیزی سے جاہلیت کی کھائی میں گرتی چلی جارہی ہے، گنتی کے چند لوگ ایسے ہیں جو اپنا تن من دھن اللہ کی خاطر لگاکر دنیا و آخرت میں سرخ رُو ہوتے ہیں اور اُمت مسلمہ کے لیے امید کی کرن بن کر پھوٹتے ہیں۔ انھی قابلِ قدر ہستیوں میں سے ایک میری شفیق استاد ڈاکٹر فوزیہ ناہید گذشتہ ماہ (۱۳؍ مارچ ۲۰۰۸ئ) نفسِ مطمئنہ کی طرح راضی برضا، اپنے رب سے جاملیں، اناللّٰہ وانا الیہ رٰجعون!
ڈاکٹر فوزیہ ناہید ۷ فروری ۱۹۶۱ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ ابھی آٹھ برس کی تھیں کہ والدہ کا انتقال ہوگیا۔ زمانۂ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طالبات سے وابستہ ہوئیں اور مختلف ذمہ داریوں پر فائز رہنے کے بعد ناظمۂ اعلیٰ منتخب ہوئیں۔ بعدازاں پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (خواتین، PIMA) اور جماعت اسلامی حلقۂ خواتین میں مختلف ذمہ داریاں بھرپور انداز سے ادا کیں۔ وہ پچھلے ۱۲ برس سے امریکا میں مقیم تھیں۔ امریکا میں اسلامی تحریک اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا (ICNA) کے حلقۂ خواتین کی چار سال تک ناظمۂ اعلیٰ رہیں اور آخری دم تک تحریک کے لیے جدوجہد کرتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بہت سی خصوصیات سے نوازا تھا، اور بہت سے لوگوں کو ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ان کی یہی نیکیاں ان شاء اللہ ان کے لیے صدقۂ جاریہ بنیں گی۔
l سراپا تحریک: ان کی پوری زندگی سراپا تحریک تھی۔ ہر رول میں، ہر جگہ، ہر دائرۂ کار میں جہاں انھوں نے کام کیا، ایک تحریک برپا کی اور دعوت، تنظیم و تربیت کا بیک وقت کام کیا۔ طالبہ علم کی حیثیت سے کالج و یونی ورسٹی میں، بیٹی اور بہن کی حیثیت سے اپنے گھر والوں میں، ڈاکٹر کی حیثیت سے پروفیشنل خواتین میں، بہو کی حیثیت سے اپنے سسرال میں، بیوی کی حیثیت سے اپنے شوہر کے ساتھ، ماں کی حیثیت سے اپنے بچوں میں اور پھر جس جس حلقے میں ان کی رہایش رہی، ہر جگہ انھوں نے مستحکم بنیادوں پر کام کیا جس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ بلاشبہہ بہت سے لوگ اخلاص و ایثار سے خدمت کرتے ہیں، قرآن و حدیث کا علم پھیلاتے ہیں لیکن بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو یہ سب کام کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو تحریک سے جوڑتے ہیں، ان کا تزکیہ و تربیت کرتے ہیں اور انھیں اپنی صلاحیتوں کو تحریک میں کھپانا سکھاتے ہیں، اور باہم اخلاص کے رشتے میں پرو دیتے ہیں۔ آخری برسوں میں بھی فوزیہ باجی کو تنظیم جس بھی ٹیم کے ساتھ کردیتی وہ ٹیم خود بخود سب سے زیادہ متحرک ہوجاتی۔ وہ ان سے صرف کام نہیں لیتی تھیں، بلکہ ان سے محبت کرتی تھیں، ان کا تزکیہ و تربیت کرتی تھیں، ان کو دعوت کے عملی طریقے سکھاتی تھیں، نظمِ بالا سے جوڑتی تھیں، اور ان کے اندر قائدانہ اوصاف کو اُجاگر کرتی تھیں۔ شورائیت، بصیرت، قوتِ فیصلہ اور حکمت، ہر لحاظ سے ہمہ پہلو محنت کرتی تھیں۔
پہلے سال جب فلوریڈا پہنچی تھیں، تو ان کے جاے قیام کے قریب مسلمانوں کی کوئی بہت بڑی آبادی نہ تھی مگر اس کے باوجود انھوں نے صرف ایک ملایشین خاتون کے ساتھ بیٹھ کر دورۂ قرآن مکمل کیا۔ اس زمانے میں وہ پہلی بار انگریزی میں قرآن کا مطالعہ کر رہی تھیں۔ اپنے اس تجربے کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ میں ڈکشنری ساتھ رکھتی تھی اور ترجمے کے دوران جو لفظ بہت مشکل سا آجاتا تو اس کو دیکھتی جاتی تاکہ ملایشی بہن کو سمجھانے میں آسانی ہو۔ اس کے بعد نیویارک میں کثیرتعداد کے حلقوں میں دعوتی کام کیا۔ پاکستانی ، امریکی، عرب ہر زبان بولنے والی خواتین پر اثر ڈالا۔
میں حیران ہوتی تھی کہ فوزیہ باجی کے نہ صرف پاکستانی بلکہ دوسرے ممالک کی خواتین سے بھی اتنے اچھے اور مؤثر تعلقات کیسے قائم ہیں۔ پاکستان سے آنے والے پڑھے لکھے طبقے کی انگریزی ویسے تو بہت اچھی ہوتی ہے لیکن یہ بولنے میں گھبراتے ہیں اور بوجھل لہجے کی وجہ سے امریکیوں کو ان کی بات سمجھنے میں دقت بھی ہوتی ہے۔ ایک دفعہ میں نے ان سے کہا کہ آپ ان سب لوگوں سے کیسے اتنی دوستی کرلیتی ہیں؟ ان کے مزاجوں کو کیسے سمجھ لیتی ہیں؟ آپ تو یہاں امریکا میں پلی بڑھی نہیں ہیں۔ پھر یہاں کے ماحول میں بسنے والوں کے ذہنوں کو کیسے پڑھ لیتی ہیں؟ اس پر وہ اپنے روایتی انداز سے کھلکھلا کر ہنس پڑیں اور بولیں: ’’دیکھو! اللہ تعالیٰ کیسے کیسے لوگوں سے اپنا کام لے لیتاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک داعی کی تڑپ اور خلوص ان تمام ظاہری کمیوں پر بھاری ہوتا ہے۔
کسی نے تھوڑا عرصہ ساتھ گزارا ہو یا زیادہ، فوزیہ باجی ایک مثالی کارکن کی طرح اسے کسی نہ کسی طریقے سے دعوت ضرور دیتی تھیں۔ ایک بار وہ اپنی بیٹی کے علاج کے لیے امریکا ہی کی کسی دوسری ریاست کے ہسپتال میں کچھ روز کے لیے ٹھیری ہوئی تھیں۔ وہاں بیٹھے ہوئے وہ اپنا وقت ضائع نہ کرتیں۔ اپنی بیٹی کو کتابیں پڑھ کر سناتیں یا پھر فراغت ملتے ہی اپنے زیرتربیت دو تین خواتین کو ہسپتال کا نمبر دے دیا تاکہ رابطہ رہے اور نظم کے کام نہ رکیں۔ کچھ دیر کاموں کی ہدایات دینے کے بعد انھیں کہنے لگیں: ’’دیکھو، میں یہاں نیم پرائیویٹ کمرے میں ہوں۔ یہاں پر ایک اور امریکن عورت بھی ہے جو اپنے بچے کو لائی ہے۔ اس کے چہرے کے تاثرات سے لگ رہا ہے کہ اس کو میرا فون پر زیادہ دیر تک باتیں کرنا، ناگوار گزرتا ہے۔ میں تھوڑی دیر اس سے باتیں کر کے کچھ گنجایش پیدا کرتی ہوں۔ ان شاء اللہ تم سے بعد میں بات کروں گی‘‘۔ اگلے روز میں نے پوچھا: ’’کیا ہوا، اس عورت سے بات کیسی رہی؟‘‘ تھوڑا سا ہنستے ہوئے بتانے لگیں کہ: ’’پہلے تو وہ خفا خفا ہی رہی، مگر پھرمیں نے کچھ اس کی خدمت کی، ہاتھ بٹایا، بچے کے حوالے سے بات چھیڑی۔ اس کی مشکلات دریافت کیں اور پھر ان کے حل بتائے۔ اس طرح وہ ذرا مائل ہوئی۔ آخر میں خود ہی میرے بارے میں، اسلام کے بارے میں میم صاحبہ نے اتنے سوالات کیے کہ خودبخود میرا کام ہوگیا۔ اس کو قرآن کا ترجمہ اور کچھ کتابچے میں نے تحفے میں دیے اور بہت سی ویب سائٹس سے تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لیے کہا۔
یہ تین سال پہلے کی بات ہے جب انھیں کینسر ہوگیا، تو شروع میں انھوں نے ہر ذمے داری سے فوراً استعفا دے دیا تھا، اور صرف زیرتربیت افراد اور مرکزی نظم کے تربیتی کاموں میں ہاتھ بٹانے کی ہامی بھر لی تھی۔ جب ان کی پہلی کیموتھراپی اختتام کو پہنچی تو ہم سب سمجھ رہے تھے کہ وہ فہم قرآن کلاسز میں ٹیچر کی حیثیت سے واپس آکر ہمارے ارکان و امیدواران کی تربیت میں حصہ ڈالیں گی، لیکن انھوں نے اس ذمے داری کو لینے سے انکار کردیا۔ میں نے اپنے طور پر ان کو راضی کرنے کی کوشش کی تو کہنے لگیں: ’’اب کلاس کو اور تربیت کے اہم کام کو نئی ٹیم کے ساتھ باقاعدگی سے چلنے دو۔ میری طبیعت کا کچھ پتا نہیں ہے۔ آج ٹیسٹ صحیح آئے ہیں، کل نہ جانے کیا ہو۔ تم فکر نہیں کرو، اس کے باوجود میں ’غیرفعال‘ ہوکر نہیں بیٹھوں گی، ان شاء اللہ۔ پھر وہ ’اکنا‘ کے دعوتی پراجیکٹ Why Islam? (اسلام ہی کیوں؟) میں مرکزی سطح پر بھی شامل ہوگئیں، اور اس کام میں خواتین کے نظم کا بھرپور منصوبہ تیار کرایا۔ مقامی آبادی میں تیزی سے کام کرنے کے حوالے سے کارکنان کے اندر جذبہ بیدار کیا۔ مردانہ نظم سے ان تمام چیزوں پر تفصیلی مکالمہ کیا، اور ’اسلام ہی کیوں؟‘ پراجیکٹ کے لیے مرکزی ٹیم تیار کی۔
’اکنا‘ کا کام ایک عرصے تک صرف پاکستانی طبقے اور اُردو زبان بولنے والے مسلمانوں ہی تک محدود تھا۔ پھر ۹۰ کے عشرے میں انگریزی میں کام کی طرف پیش رفت ہوئی۔ ڈاکٹر فوزیہ کی نظامت کے دوران کچھ ارکان کی طرف سے نظام کو یک سر تبدیل کرکے ہر چیز کو فوراً انگریزی میں لانے کامطالبہ بہت زور و شور سے کیا گیا۔ انھوں نے اس پر بہت حکمت اور سلیقے سے کام کیا۔ وہ کہاکرتی تھیں کہ ہمیں بہت اہم کام کرنا ہے۔ امریکا میں اسلامی تحریک و دعوت کا کام کوئی اتنا آسان نہیں ہے کہ ہر کاغذی کارروائی کا انگریزی میں ترجمہ کر دو اور یہ کام ہوگیا۔ اس کے لیے دیرپا کام کرنا ہوگا۔ پہلے ہم میں سے ایسے افراد تیار ہوں جو مقامی آبادی کو سمجھ کر ان میں دعوتی کام کرسکیں۔ پھر جو لوگ مقامی آبادی میں سے تحریک سے وابستہ ہوں، ان کی تنظیم و تربیت کا معقول انتظام انھی کی زبان میں کیا جائے۔ اس کے لیے ویسا ہی نظام ہو جیسا مولانا مودودی نے تحریک کے شروع میں کیا تھا۔ انھی کی زبان میں لٹریچر تیار ہو، ان کی تربیت گاہیں ہوں، وہ تنظیمی اجتماعات کریں، تاکہ پہلی مقامی ٹیم کو تحریک کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجائے۔ اس کا طریقۂ کار، دعوت و تنظیم اور تربیت کا ربط، دوسری تنظیموں اور اس میں فرق اچھی طرح ان پر واضح ہوجائے۔ ان کی بنیادی عبادات، اخلاقیات سب پر سیرحاصل کام ہو اور پھر یہ لوگ نکل کر اس ملک میں بھرپور کام کریں۔ ساتھ ہی اُردو زبان بولنے والے، تارکین وطن کو بھی لے کر چلیں۔ اس طرح دوسری آبادیوں، ہسپانوی، بنگالی، عرب وغیرہ سب کے اندر دعوت پھیلائیں۔
سیرت و اخلاق کے حوالے سے تربیت کے لیے بہت سے افراد کو آپس میں جوڑ دیتی تھیں۔ مختلف مزاج کے افراد کی جوڑی بنا دیتی تھیں۔ اگر نئے اور پرانے افراد میں کھچائو محسوس ہوتا تو ایک نئے اور ایک پرانے فرد کو آپس میں کام کرنے کو دے دیتیں۔ نوجوان اور بزرگ افراد کو ساتھ کر دیتیں۔ اسی طرح شوریٰ میں بہت زیادہ بولنے والے شخص اور بہت خاموش رہنے والے کی جوڑی بنا دیتیں اور ساتھ بتا بھی دیتی تھیں کہ فلاں سے تم بات کی تہہ تک پہنچنا اور راے بنانا اور فیصلہ کرنا سیکھو، اور تم فلاں سے فورم پر صحیح انداز میں سلیقے کے ساتھ بات کو پیش کرنا سیکھو۔ ’اکنا‘ میں اخوہ نظام کی بنیاد انھوں نے ہی ڈالی۔ یہ اخوان کے نظام اسرہ کی طرح آپس میں کارکنان کے گروپس اور جوڑے ہیں۔ پہلے صرف ارکان میں پھر تمام کارکنان میںاس کو رائج کیا گیا۔ پھر افراد سے بڑھ کر ٹیموں اور شورائوں میں، پھر اس سے بڑھ کر شہروں کا نظام بنا دیا گیا، تاکہ شہروں کے نظم اور شورائیں ایک دوسرے کے ساتھ تعلق رکھیں اور سیکھیں۔
قرآن فہمی کے تین سالہ کورس میں ہم نے انھیں ’’میں ایسی ہوں‘‘ یا پھر ’’میں ایسا کیا کرتی ہوں‘‘ کہتے نہیں سنا۔ وہ آج کے دور کی بہت سی مثالیں دیتیں، لیکن دوسروں کی۔ اس میں بھی انھوں نے توازن کی تلقین کی۔ نظم کے افراد کا، مقررین کا، نمایاں کام کرنے والے تحریک کے ارکان و کارکنان کا تعارف اور ان کے کام کے تذکرے کو بالکل درست سمجھتی تھیں۔ شعبہ تربیت کے تحت ’’میں نے اپنے رب تک پہنچنے کا راستہ کیسے پایا؟‘‘ کے عنوان سے یہاں پر مضمون نویسی کا ایک مقابلہ ہوا تھا۔ نظم نے اس مقابلے کے مضامین کو بغیر ناموں کے ایک کتاب میں چھپوانے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے وقت وہ پاکستان گئی ہوئی تھیں۔ واپس آکر انھوں نے نظم کو قائل کر کے اور اس کی اجازت سے اپنی کتاب میں تمام افراد کے نام لکھوائے۔
ہر اجتماع میں ضرور کسی نہ کسی ساتھی کا تعارف یا اس کی تعریف ضرور کرتیں، آپس میں ان میں محبت پیدا کرتیں اور پھر نظم کے ساتھ جوڑ کر خود ان افراد کو چھوڑ دیتیں۔ بعض اوقات اگر ان ساتھیوں کے بہت فون آتے تو ارادہ کر کے انھیں نہ سنتیں اور کہتیں کہ اب آپ اپنے متعلقہ نظم سے تعلق رکھیں۔
قرآن پاک کو خود انھوں نے کئی علما سے پڑھا ہوا تھا لیکن پھر بھی بہت محنت سے متعدد تفاسیر، اور بے شمار احادیث و سیرت کی کتب اور اسلامی لٹریچر سے تیاری کرتی تھیں۔ ہرہرفرد کو فون کرتیں، ان سے روابط رکھتیں، فاصلوں کے باوجود کسی نہ کسی طرح ضرور ملنے کی کوشش کرتیں۔ اپنے روابط اور زیر تربیت افراد سے یوں نہ پوچھتیں کہ ٹیسٹ کیوں نہیں دیا، بلکہ فون کر کے کہتیں: بہت دنوں سے آپ کی پوزیشن نہیں آئی، مجھے اس بات کا بہت رنج ہے۔ جون جولائی کی چھٹیوں میں اپنی فیملی کے اصرار پر فوزیہ باجی بچوں کے ساتھ پاکستان گئیں۔ واپس آئیں تو کلاس کی حاضری کافی متاثر ہوچکی تھی۔ پھر سے مہماتی انداز میں تمام افراد کو جمع کیا اور ماحول بنایا تاکہ محنت سمیٹی جاسکے۔ قرآن کی اس کلاس کے ساتھ ساتھ لٹریچر کا مختصر کورس بھی کروا دیا، افراد کو متعلقہ نظم سے جوڑا، ان کی ناظمات سے رابطے رکھے۔ کلاس کے اختتام تک بہت سی بہنیں ’اکنا‘ کی رکنیت کے لیے بالکل تیار تھیں صرف اس لیے نہیں کہ انھوں نے قرآن کی تفسیر کا مطالعہ کیا تھا، گرامر پڑھ لی تھی، بلکہ اس لیے کہ انھوں نے قرآن کی برپا کردہ تحریک کو قرآن ہی کی روشنی میں سمجھا اور اس میں عملی قدم رکھا۔ اپنے اپنے نظم کے تحت عملی اور دعوتی و تربیتی میدان میں سرگرم عمل ہوگئیں۔
دعوت کے شعبے کے تحت انھوں نے ایک ہی ساتھ تمام امریکا میں ’اکنا‘ کے تحت دعوت بذریعہ قرآن کے نئے نئے انداز سمجھائے۔ پہلے ہی سال سے دعوتی اجتماعات میں مختلف تقریریں اور ڈسکشنز کے بجاے قرآنی کلاسیں، خاص ترتیب کے ساتھ دروسِ قرآن اور دورۂ تفاسیر کروانے پر توجہ مرکوز کر دی۔ اس مقصد کے لیے مدرسین کی تیاری بھی تمام حلقہ جات میں بھرپور انداز سے کی۔ مرکزی سطح سے فون، دوروں اور تربیت گاہوں کے ذریعے تفصیلی ہدایات، ورکشاپس، مشقی سیشن رکھوائے۔ وہ کہتی تھیں: ’اِدھر اُدھر جاکر درس دے کر آجانے والے نہیں، بلکہ ان کے خیال میں تحریک کو ایک جگہ جم کر کام کرنے والے درس کے ساتھ تربیت کرنے والے لوگوں کی ضرورت ہے۔ انھوں نے دعوتی مہمات رکھوائیں جو کہ ’اکنا‘ کی خواتین کے لیے کافی نیا تصور تھا۔ ان کے ذریعے کارکن کے دعوتی مزاج کو بیدار کرنے اور اس کو فروغ دینے کی کوشش کی۔
شعبۂ تربیت کی ازسرنو تشکیل و تنظیم کی۔ نصاب، جائزہ فارم، تربیت گاہیں، کلاسز، اخوہ نظام، قائدین کی تیاری، ان سب چیزوں کے مقاصد زیربحث لاتے ہوئے ازسرنو رائج کیا۔ ’اکنا‘ اور ایم اے ایس کے شعبۂ تربیت کی ٹیموں نے مل کر جو ہدایات مرتب کی تھیں ان کو خواتین میں عملی طور پر قائم کیا۔
نائن الیون کے بعد افراد کو سمیٹتے ہوئے ’آن لائن‘ (online) پروگرام کرنے کا طریقہ استعمال کیا۔ اس وقت اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ کارکن کا عزم اور حوصلے کو بلند رکھا جائے۔ بزدلی اور منافقت کے بہت سے رویوں سے بھی بچنا سکھایا اور آزمایش کی صورت میں حفاظتی تدابیر کا شعور بیدار کیا۔ مغرب میں مقیم مسلمانوں کے لیے وہ کافی مشکل مرحلہ تھا۔ بہت سے عام مغرب زدہ مسلمانوں نے تو اپنے رنگ ڈھنگ اور نام تک بدل کر غیرمسلموں جیسے کرلیے۔ بہت سے لوگ انتظامیہ کے آلۂ کار بن گئے۔ ایسے وقت میں کارکن کو اور عام افراد کو ایمان مضبوط رکھنا اور سکھانا یہ کام فوزیہ باجی اور ان کی مرکزی ٹیم نے آن لائن اور سرکلرز کے ذریعے کیا۔ آن لائن میٹنگز میں انھوں نے رخصت و عزیمت کے موضوع پر مکالمے اور تبادلۂ خیالات کا اہتمام کیا اور کہا کہ اپنی ذات کی حفاظت کے لیے ہرگز ایمان کا سودا نہ کرلینا۔ ایمان کی حفاظت پہلے کرنا، خواہ اس کے لیے اصحابِ کہف کی طرح اپنے آپ کو غار میں محصور ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
ان کے دورِ نظامت ہی میں میڈیا کے حوالے سے کام شروع ہوا۔ ویب سائٹ، ای میل وغیرہ اور دیگر ذرائع بہتر استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ قیادت کی تیاری اور فکری و تحقیقی کام کے لیے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک سائنسز کا انعقاد کیا___ غرضیکہ تھوڑی سی مدت میں انھوں نے ہرسطح پر، ہر سمت میں تحریک کو پھیلایا اور اس کو استحکام دیا۔
’اکنا‘ پر اس بات کا بہت دبائو ہوتا ہے کہ ہم بھی دوسری تنظیموں کے سے رنگ ڈھنگ اختیار کریں۔ عورتوں اور مردوں کے اندر تفریق ختم کرکے تمام کو ایک ہی حلقے کی طرح یک جا لے کر چلیں۔ مسجدوں کو ’ویمن فرینڈلی‘ (women friendly) بنانے کے لیے اور مسجدوں کی شورائوں کو مخلوط بنوانے کے لیے جدوجہد کریں۔
ایسے حالات میں انھوں نے تحریک کو دونوں انتہائوں سے بچاتے ہوئے ایک متوازن راستے پر رکھنے کی بھرپور کوشش کی کہ عورتیں اپنے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے بھرپور تحریک چلائیں۔ ایسا نہ ہو کہ جن کی گودوں میں مسلمانوں کی اگلی نسلیں پل رہی ہیں، وہی اس تحریک، اس کے عملی اتارچڑھائو اور مقصدِ زندگی سے ناآشنا رہ جائیں۔ بقدرِ ضرورت تمام اسلامی حدود پر عمل کرتے ہوئے مردانہ نظم سے رابطہ بھی رکھیں۔ تمام فیصلوں میں، اِلا.ّ یہ کہ معصیت کا اندیشہ ہو، امیر کی اطاعت اور اتباع کو اپنے اُوپر لازم سمجھیں۔ وہ کہتی تھیں کہ عورت کو اللہ تعالیٰ نے جو عظیم مقام دیا ہے، اس سے گرنے یا اس پر شکوہ کناں ہونے کے بجاے، اس پر شکرگزاری کا رویہ اختیار کریں۔ اس سلسلے میں ان کی یہ بھی کوشش رہی کہ اسلامی عمومی اجتماعات کے موقعوں پر عام افراد کو بھی ضابطۂ اخلاق دیا جائے، اس کو سمجھایا جائے تاکہ اختلاطِ مرد و زن سے بچا جاسکے۔
ہمارے پوچھنے پر بتاتی تھیں کہ انھوں نے تربیتی نظام کے تمام جزوجو تحریک میں قائم کیے وہ اپنے بچوں اور گھر والوں میں بھی قائم کیے۔ ان کا بھی اخوۃ نظام قائم کیا اور جوڑے بنائے، ان کا بھی رپورٹ فارم اور جائزہ سسٹم رکھا، ان سے قرآن کا مطالعہ ڈسکس کیا، شوریٰ کا نظام رکھا۔ شروع میں اخراجات کی وجہ سے تربیت گاہوں میں اپنی بیٹیوں کو نہیں لاپاتی تھیں لیکن پھر جب انگریزی میں خواتین کی تربیت گاہوں کا انعقاد شروع ہوا، تمام بیٹیوں کے ساتھ اپنی شدید علالت کے باوجود، ہنستی مسکراتی موجود ہوتی تھیں۔
اپنے بچوں کی نیکیوں پر بہت خوش ہوتیں۔ جب بڑی بیٹی چھوٹی سی عمر میں تہجد پر اٹھنے کی خود سے کوشش کرنے لگی تو دلی مسرت کے ساتھ ہمیں بتانے لگیں۔ میں جب بھی اپنے نانا نانی یا امی ابو کا ذکر کرتی کہ ان سے ہم نے یہ سیکھا تو کہتیں: ’’میں تم کو بتا نہیں سکتی کہ اولاد کی نیکی کو دیکھ کر ماں باپ کو اور بزرگوں کو کیسی راحت ملتی ہے۔ جب میرے بچے فلاں نیکی کا کام کرتے ہیں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دنیا ہی میں جنت مل رہی ہے‘‘۔حتیٰ کہ وہ گھروالوں سے تنظیمی ڈسکشن تک کرتی تھیں۔ تحریک کے تقابلی جائزے، سالانہ رپورٹ پر تبصرے، ’اکنا‘ کے دعوتی کام پر باتیں کرتی تھیں۔ واقعی اپنے گھر والوں کو نیکی کے سفر میں ساتھ ساتھ لے کر چلنا ایک مشکل کام ہے، لیکن اس کے اثرات بہت دُوررس ہیں۔
ہر روز رات میں اپنا جائزہ لیتیں، اور اگلے دن کے کاموں کی فہرست بنا لیتیں تاکہ سوچنے اور یاد کرنے میں وقت صرف نہ ہو۔ دورے اور تربیت گاہوں وغیرہ میں شرکت کے لیے سفر بھی بہت کرنا پڑتا۔ اس کے لیے بھی پورے دنوں کا کھانا تیار کر کے فریز کر کے جاتیں۔ گھر بھی ہروقت سادہ اور صاف ستھرا رکھتی تھیں۔
عام خواتین کی طرح ہر روز سودا لانے یا بازار شاپنگ میں وقت ضائع نہ کرتی تھیں۔ پورے ہفتے کی ایک فہرست بناکر ہفتے بھر کا سارا سامان ایک ساتھ ہی لاتیں۔ بازار کی دعا بہت پڑھتیں اور ہم سب کو بھی یہ دعا نصاب کے ذریعے یاد کروائی تاکہ اس مادہ پرستی کے فریب سے بچ سکیں۔
گھر آنے والے مہمانوں کی تواضع بھی خوب کرتی تھیں۔ نہ جانے کیسے اس کے لیے وقت نکل آتا تھا کہ کوئی آنے والا ہو تو جھٹ سے کئی کئی کھانے تیار کرلیتیں۔ عام طور پر کوئی زیرتربیت فرد ہو تو تمام کام پہلے سے کرلیتیں، تاکہ تمام وقت اس فرد سے ضروری باتیں کرسکیں۔
اگر کوئی فون کرے تو محبت سے بات کرنا، خلوص سے مشورے اور مسائل کا حل دینا، کتنی ہی مصروفیت ہو، ضرور وقت ملنے پر کال بیک کرنا، کم و بیش ہر دفعہ تحفے دینا___ یہ چیزیں ان کی شخصیت کا لازمی حصہ تھیں۔ ’اکنا‘ کی بزرگ خواتین ان کو اپنی بیٹیوں کی طرح چاہتی ہیں اور نوجوان خواتین ان کی گرویدہ! نئے پرانے سبھی لوگوں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔
دل یہی گواہی دیتا ہے کہ ایسی نفسِ مطمئنہ ! یقینا جنت میں جگہ پائیں گی۔ نیویارک، شکاگو، ہیوسٹن، کیلے فورنیا اور بہت سی جگہوں سے، بہت سے لوگ ملنے آئے اور سب کا یہی کہنا تھا کہ فوزیہ باجی کے آخری ایام تو ایسے تھے جیسے گل ہونے سے پہلے چراغ بھڑک اُٹھتا ہے۔ اسی طرح ایمان افروز اور دینی حرارت سے بھرپور دن تھے۔ سب کو اپنی طبیعت کے بارے میں بتانا، آیندہ کے لیے مشورے دینا، حوصلہ دینا اور یہ کہنا کہ میں تو تیار ہوں اپنے رب کے پاس جانے کو، بس مجھے جنت چاہیے، اپنی دعائوں میں مجھے یاد رکھنا، اور دین کے کاموں میںکوتاہی نہ برتنا۔ لمحہ بہ لمحہ موت کو سامنے آتا دیکھ کر بھی یہ حوصلہ، یہ پختگیِ عزم!
واقعی وہ ایک مثالی خاتون رہنما تھیں۔ عورت کی نیکی یا گمراہی دونوں ہی پوری قوم کے مستقبل پر اثرانداز ہوتی ہے۔ عورت ہی کی گود میں اگلی نسل کے رہنما نشوونما پاتے ہیں___ اگرچہ ۴۷ سال کی کم عمر میں اللہ تعالیٰ نے فوزیہ باجی کو (۱۳ مارچ ۲۰۰۸ئ) اٹھا لیا مگر انھوں نے زندگی جس جدوجہد میں گزاری، اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اس کو دنیا میں پروان چڑھائیں گے اور ان شاء اللہ یہ سب ان کے لیے صدقۂ جاریہ کا ذریعہ بنے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو قبول فرمائیں، ان کو صدیقین، صالحین اور شہدا کے ساتھ جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائیں، جس تحریک میں انھوں نے اپنا حصہ ڈالا، اس کو دنیا و آخرت میں کامیابی سے نوازے۔ آمین!