پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں پاکستانی قوم اور ملّتِ اسلامیہ پر جو ظلم توڑے گئے ہیں اور جو زخم لگائے گئے ہیں، ان میں فلسطین اور القدس سے غداری، اسرائیل سے دوستی، اُمت مسلمہ کے دشمنوں سے پینگیں بڑھانا اور بھارت کے ساتھ دوستی کے نام پر جموںو کشمیر کے مسلمانوں سے بے وفائی اور پاکستان کی اصولی اور تاریخی کشمیر پالیسی کو یک طرفہ طور پر تبدیل کردینا سرفہرست ہیں۔ آج جب قوم نے تبدیلی کے راستے کو منتخب کیاہے، اس بات کی ضرورت ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر بھی مشرف کی پسپائی اور منافقت کی پالیسی کو یک سر ترک کر کے اس پالیسی کا اعادہ کیا جائے جس کی بنیاد قائداعظم نے رکھی تھی، اور جس پر یہ قوم ہر خطرے کو انگیز کرتے ہوئے پہلے دن سے یکسو تھی۔ واضح رہے کہ کشمیر کا مسئلہ نیا نہیں، تقسیمِ ہند کے نامکمل ایجنڈے کا ایک اہم حصہ ہے اور جب تک یہ مسئلہ حق و انصاف اور بین الاقوامی عہدوپیمان کے مطابق حل نہیں ہوتا، پاکستان اور ہندستان میں تعلقات کے معمول پر آنے کا (normalization ) کا کوئی امکان نہیں۔ پھر یہ مسئلہ کسی خطۂ زمین پر تنازع نہیں، یہ ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے حقِخود ارادیت کا مسئلہ ہے۔ انسانی حقوق بھی اس مسئلے کا حصہ ہیں لیکن اصل ایشو جموں و کشمیر کے مسلمانوں کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ اپنی آزاد مرضی سے کریں۔ پرویز مشرف نے اس مرکزی مسئلے (core issue) کا سارا فوکس تبدیل کردیا اور اسے محض پاک بھارت تعلقات کا ایک پہلو بنا کر تحریکِ پاکستان کے مقاصد سے غداری اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں سے بے وفائی کا ارتکاب کیا ہے جسے پاکستانی قوم کبھی معاف نہیں کرے گی۔
بھارت نے اپنی روایتی مکاری کے مطابق پرویز مشرف کی تمام پسپائیوں اور یک طرفہ رعایتوں (concessions) کے باوجود کسی ایک پہلو سے بھی مسئلے کے حل کی طرف کوئی قدم نہیں بڑھایا، بلکہ سیاچن اور سرکریک جیسے مسائل کے بارے میں بھی جو باتیں ۲۰ سال پہلے طے کر لی تھیں ان پر بھی عمل نہیں کیا اور ساری توجہ کشمیر کی تحریک آزادی کو کچلنے، عوام پر ظلم و ستم کی حکمرانی کو بڑھانے اور پاکستان کے لیے کشمیر سے آنے والی پانی کی راہیں روکنے کے لیے ڈیم سازی پر مرکوز کی۔ ظلم ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے خلاف بھارت ۳۰ سے زیادہ ڈیموں پر کام شروع کرچکا ہے اور کچھ پر مکمل کرچکا ہے اور پرویز مشرف اور ان کے حواری پاکستان کو بنجر بنانے کے لیے اس بھارتی منصوبے تک کا توڑ کرنے سے مجرمانہ غفلت برتے رہے ہیں۔
پرویز مشرف کی پالیسیوں کا سب سے بڑا نقصان پاکستان کو یہ ہوا ہے کہ ملک اور عالمی سطح پر ہماری اصولی پوزیشن بری طرح مجروح ہوئی ہے اور ہماری آواز میں کوئی وزن نہیں رہا ہے۔ نیز کشمیر میں جو عظیم تحریکِ مزاحمت جاری ہے اور جس میں اب تک ۶ لاکھ افراد اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں، جن میں سے ایک لاکھ تحریک کے حالیہ مرحلے میں شہید ہوئے ہیں، اس تحریک کو پرویز مشرف کی قلابازیوں نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان پر جو اعتماد جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو تھا، اس کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ کی تحریک پر ضرب لگی ہے اور جموں و کشمیر کے عوام بھارت کے ساتھ رہنے کو تو نہ پہلے تیار تھے اور نہ اب تیار ہیں، لیکن پاکستان سے جو ان کی اُمیدیں تھیں اور جس طرح وہ پاکستان کو اپنی منزل مراد سمجھتے تھے، اس کیفیت اور اس اعتماد پر ضرب کاری لگی ہے۔ اب بھی وہ پاکستان کی قوم سے اچھی توقعات رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں جو کچھ ہوا وہ پرویز مشرف کی غلط پالیسی کا نتیجہ ہے جس کی اب پاکستانی قوم اصلاح کرے گی۔ گو زخم لگ چکا ہے اور شیشے پر بال آگیا ہے لیکن ابھی اصلاح کا امکان ہے۔ نئی حکومت کو پاکستان کی تمام بڑی پارٹیوں کے منشور کے مطابق قوم کی متفقہ کشمیر پالیسی کا پوری قوت سے اعادہ کرنا چاہیے کہ اصل مسئلہ حق خود ارادیت کا ہے۔ کشمیر ایک متنازع ایشو ہے اور بھارت اور پاکستان کے درمیان یہی اصل مرکزی مسئلہ ہے۔ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی تحریک ہراعتبار سے تحریکِ آزادی ہے جو ان کا حق ہے اور جس کی تائید ہمارا فرض ہے۔ اس سلسلے میں کسی لاگ لپیٹ کے بغیر پاکستان کی پارلیمنٹ اور حکومت کو واضح اعلان کرنا چاہیے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار جلد از جلد دیا جائے اور ان سے بھارت کے غاصبانہ قبضے کی تاریک رات کو جلد از جلد ختم کیا جائے، نیز تحریک حریت کی بھرپور تائید کی جائے اور عالمی سطح پر ان کے مسئلے کو اٹھایا جائے۔ اگر مشرقی تیمور اور کوسووا کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے اور اگر آئرلینڈ کے مستقبل کی صورت گری کو وہاں کے لوگوں کی مرضی کے مطابق کرنے کا اصول تسلیم کیا جاتا ہے تو جموں و کشمیر کے مسلمان اس حق سے کیوں محروم ہیں؟
بھارت کے ظالمانہ دورِاقتدار کو ختم ہونا ہے۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ کوئی قوم کسی دوسری قوم کو اس کی مرضی کے بغیر ہمیشہ کے لیے زیردست نہیں رکھ سکتی۔ کشمیر کے مسلمانوں نے اپنی تاریخی اور جرأت مندانہ جدوجہد سے ثابت کردیا ہے کہ وہ بھارت کی غلامی میں رہنے کو تیار نہیں اور بھارت کے ظلم و ستم کی کوئی انتہا نہیں۔ حال ہی میں جو اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں، ان میں ہزاروں ان جوانوں کو قتل کر کے دفن کیا گیا جو بلاجواز اٹھا لیے گئے تھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان قبروں پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اور اسے ایک بین الاقوامی ایشو کے طور پر اٹھایا ہے، مگر پاکستان کی حکومت اس سلسلے میں اپنا فرض ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ بلاشبہہ اس وقت حکومت بڑے مشکل حالات میں گھری ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود کشمیر کے مسئلے پر ہر محاذ پر ضروری اقدام وقت کی ضرورت ہے۔ اعتماد سازی کے اقدامات (CBMS) کے دھوکوں کا وقت گزر چکا ہے۔ اب ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ جموں و کشمیر کے عوام کو ان کا حق خود ارادیت دیا جائے اور وہ اپنے مستقبل کے بارے میں جو فیصلہ کریں، اسے خوش دلی سے قبول کرلیا جائے۔ پرویز مشرف کی کشمیر پالیسی میں جو حماقتیں اور بے وفائیاں کی گئی ہیں اور اس سے جو دکھ اور نقصان تحریک آزادیِ کشمیر کو ہوا ہے، اس کا اعتراف کر کے تلافی کا سامان کیا جائے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر آج بھی پاکستان کی حکومت اور پارلیمنٹ عوام کے دلی جذبات کے مطابق اپنے اصولی اور تاریخی پالیسی کا بھرپور اعادہ کرے اور اس پر عمل درآمد کے لیے ہمہ جہتی پروگرام بناکر مؤثر کام کرے تو کشمیری عوام سابقہ قیادت کی غلطیوں سے درگزر کریں گے، اور اس جوش اور جذبے سے پاکستان سے یگانگت اور یک جہتی کا اظہار کریں گے جو ان کی ۶۰ سالہ تحریکِ آزادی کا طرۂ امتیاز ہے۔
قائدِحریت سید علی شاہ گیلانی اور کے ایل ایف کے قائد یٰسین ملک کا ایک پلیٹ فارم سے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو جاری رکھنے کا عزم اور بھارت کے تحت انتخابات کا بائیکاٹ یہ امید دلاتا ہے کہ تحریک حریت سے وابستہ تمام قوتیں مل کر اپنے مشترک مقصد کے لیے ایک بار پھر میدان میں اُتر رہی ہیں۔ سیاسی اور جہادی سب قوتوں کو مل کر کشمیر کی بھارت سے آزادی کی جدوجہد کو اپنے آخری نتیجے تک پہنچانا ہے اور پاکستان کی قوم اور قیادت اس جدوجہد میں اپنا قرار واقعی کردار ادا کرے گی۔ پارلیمنٹ کو اس سلسلے میں پوری یکسوئی اور جرأت کے ساتھ ملت اسلامیہ پاکستان کی کشمیر پالیسی کا اعلان کرنا چاہیے اور اس پر عمل کے لیے مؤثر پروگرام وضع کرنا چاہیے۔ یہ وقت جموں و کشمیر کے عوام اور ان کی تحریک آزادی کے ساتھ مکمل یک جہتی کے اظہار اور ان کی تقویت کے لیے ہرممکن ذرائع کے استعمال کا ہے۔
برسوں کے مطالعے اور سیکڑوں کتابوں کا حاصل
اُردو میں اپنے موضوعات پر بے مثال تحقیقی اور معلوماتی کتب
جتنا کام لوگ پوری زندگی میں نہیں کرپاتے، ایک استاد نے ریٹائرمنٹ کے بعد کردیا
میاں محمد اشرف
ہندو معاشرہ / امریکا/ اشتراکیت/ افریقہ/ یورپ اور اسلام میں غلامی پر علیحدہ علیحدہ
اس کے علاوہ ۱۲ دوسرے موضوعات مثلاً :آبادی، نسل پرستی، مہاجرین وغیرہ پر اسی پایے کی کتابیں
رعایت۲۰ فی صد ، ڈاک خرچ بذمہ ادارہ
آج ہی آرڈر دیجیے
فروغِ علم اکیڈمی: -1179 ماڈل ٹائون ہمک، اسلام آباد۔ فون: 051-4490380 موبائل:0334-5503848
website: www.farogheilm.com, email: ashraf@farogheilm.com