مئی ۲۰۰۸

فہرست مضامین

حکمت مودودیؒ

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | مئی ۲۰۰۸ | طاغوت

Responsive image Responsive image

’طاغوت‘ لغت کے اعتبار سے ہر اُس شخص کو کہا جائے گا، جو اپنی جائز حد سے تجاوز کرگیا ہو۔ قرآن کی اِصطلاح میں طاغوت سے مراد وہ بندہ ہے، جو بندگی کی حد سے تجاوز کر کے خود آقائی و خداوندی کا دم بھرے اور خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرائے۔ خدا کے مقابلے میں ایک بندے کی سرکشی کے تین مرتبے ہیں۔ پہلا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اُصولاً اس کی فرماں برداری ہی کو حق مانے، مگر عملاً اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے۔ اِس کا نام فِسق ہے۔ دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ اس کی فرماں برداری سے اُصولاً منحرف ہوکر یا تو خودمختار بن جائے یا اس کے سوا کسی اَور کی بندگی کرنے لگے۔ یہ کفر ہے۔ تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ مالک سے باغی ہوکر اس کے ملک اور اس کی رعیت میں خود اپنا حکم چلانے لگے۔ اس آخری مرتبے پر جو بندہ پہنچ جائے، اسی کا نام طاغوت ہے اور کوئی شخص صحیح معنوں میں اللہ کا مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ وہ اس طاغوت کا منکر نہ ہو۔ (تفہیم القرآن، ج ۱، ص۱۹۶-۱۹۷)

طاغوت طغیان سے ہے جس کے معنی سرکشی کے ہیں۔ کسی کو طاغی (سرکش) کہنے کے بجاے اگر طاغوت (سرکشی) کہا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ انتہا درجے کا سرکش ہے۔ مثال کے طور پر کسی کو حسین کے بجاے اگر یہ کہا جائے کہ وہ حُسن ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ   خوب صورتی میں درجۂ کمال کو پہنچا ہوا ہے۔ معبودانِ غیراللہ کو طاغوت اس لیے کہا گیا ہے کہ    اللہ کے سوا دوسرے کی بندگی کرنا تو صرف سرکشی ہے مگر جو دوسروں سے اپنی بندگی کرائے، وہ کمال درجے کا سرکش ہے۔ (تفہیم القرآن، ج ۴، ص ۳۶۶)

’طاغوت‘ سے مراد وہ حاکم ہے جو قانونِ الٰہی کے سوا کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرتا ہو، اور وہ نظامِ عدالت ہے جو نہ تو اللہ کے اقتدارِ اعلیٰ کا مطیع ہو اور نہ اللہ کی کتاب کو آخری سند مانتا ہو۔ لہٰذا... جو عدالت ’طاغوت‘ کی حیثیت رکھتی ہو، اس کے پاس اپنے معاملات فیصلے کے لیے لے جانا ایمان کے منافی ہے اور خدا اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کا لازمی اقتضا یہ ہے کہ آدمی ایسی عدالت کو جائز عدالت تسلیم کرنے سے انکار کردے۔ قرآن کی رُو سے اللہ پر ایمان اور طاغوت سے کفر، دونوں لازم و ملزوم ہیں، اور خدا اور طاغوت دونوں کے آگے بیک وقت جھکنا  عین منافقت ہے۔ (ایضاً، ص ۳۶۶-۳۶۷)

کسی کے طاغوت ہونے کے لیے اس کا خود طاغی (سرکش) ہونا تو شرطِ اوّل ہے۔ رہی دوسری شرط تووہ محض پوجا جانا نہیں ہے، بلکہ اس پوجے جانے میں اس کی اپنی خواہش اور کوشش کا دخل بھی ہونا چاہیے۔ بالفاظِ دیگر طاغوت وہ ہے جس نے نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں سرکشی کی ہو، بلکہ اِس سرکشی میں یہاں تک بڑھ گیا ہو کہ خدا کے بجاے اس نے اپنے آپ کو لوگوں کا رب اور اِلٰہ بنانے کی کوشش کی ہو۔ اس معنی کے لحاظ سے بتوں پر یا ان بزرگوں پر جن کو مرنے کے بعد بت بنایا گیا، طاغوت کا اطلاق نہ ہوگا۔ (مکاتیب سید ابوالاعلٰی مودودی، حصہ اوّل، ص ۱۲۲)

خدا سے منہ موڑ کر انسان ایک ہی طاغوت کے چنگل میں نہیں پھنستا، بلکہ بہت سے طواغیت اس پر مسلط ہوجاتے ہیں۔ ایک طاغوت شیطان ہے، جو اس کے سامنے نت نئی جھوٹی ترغیبات کا سدابہار سبزباغ پیش کرتا ہے۔ دوسرا طاغوت آدمی کا اپنا نفس ہے، جو اسے جذبات و خواہشات کا غلام بنا کر زندگی کے ٹیڑھے سیدھے راستوں میں کھینچے کھینچے لیے پھرتا ہے اور بے شمار طاغوت باہر کی دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بیوی اور بچے، اعزہ اور اقربا، برادری اور خاندان، دوست اور آشنا، سوسائٹی اور قوم، پیشوا اور راہنما، حکومت اور حکام، یہ سب اس کے لیے طاغوت ہی طاغوت ہوتے ہیں، جن میں سے ہر ایک اُس سے اپنی اغراض کی بندگی کراتا ہے اور بے شمار آقائوں کا یہ   غلام ساری عمر اسی چکّر میں پھنسا رہتا ہے کہ کس آقا کو خوش کرے اور کس کی ناراضی سے بچے۔ (تفہیم القرآن، ج ۱، ص ۱۹۷)

طاغوت کا مصدر ’طغیان‘ ہے جس کے معنی حد سے گزر جانے کے ہیں۔ دریا جب اپنی حد سے گزر جاتا ہے توآپ کہتے ہیں: طغیانی آگئی ہے۔ اسی طرح جب آدمی اپنی جائز حد سے گزر کر اس غرض کے لیے اپنی طاقت استعمال کرتا ہے کہ انسانوں کا خدا بن جائے یااپنے مناسب حصے سے زائد فوائد حاصل کرے تو یہ طاغوت کی راہ میں لڑنا ہے اور اس کے مقابلے میں راہِ خدا کی جنگ وہ ہے جس کا مقصد صرف یہ ہو کہ خدا کا قانونِ عدل دنیا میں قائم ہو۔ لڑنے والا خود بھی اس کی پابندی کرے اور دوسروں سے بھی اس کی پابندی کرائے، چنانچہ قرآن کہتا ہے:

تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا ط وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ o (القصص ۲۸:۸۳) آخرت میں عزت کا مقام تو ہم نے صرف ان لوگوں کے لیے رکھا ہے جو زمین میں اپنی بڑائی قائم کرنا اور فساد کرنا نہیں چاہتے۔ عاقبت کی کامیابی صرف خدا ترس لوگوں کے لیے ہے۔

حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا۔ ’’راہِ خدا کی جنگ سے کیا مراد ہے؟ ایک شخص مال کے لیے جنگ کرتا ہے، دوسرا شخص بہادری کی شہرت حاصل کرنے کے لیے جنگ کرتا ہے، تیسرے شخص کو کسی سے عداوت ہوتی ہے یا قومی حمیّت کا جوش ہوتا ہے، اس لیے جنگ کرتا ہے۔ ان میں سے کس کی جنگ فی سبیل اللہ ہے؟‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ’’کسی کی بھی نہیں، فی سبیل اللہ تو صرف اس شخص کی جنگ ہے جو خدا کا بول بالا کرنے کے سوا کوئی مقصد نہیں رکھتا‘‘۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ’’اگر کسی شخص نے جنگ کی اور اس کے دل میں اُونٹ باندھنے کی ایک رسی حاصل کرنے کی بھی نیت ہوئی تو اس کا اجر ضائع ہوگیا‘‘۔

اللہ صرف اس عمل کو قبول کرتا ہے جو محض اس کی خوشنودی کے لیے ہو اور کوئی شخصی یا جماعتی غرض پیشِ نظر نہ ہو۔ پس جہاد کے لیے فی سبیل اللہ کی قید اسلامی نقطۂ نظر سے خاص اہمیت رکھتی ہے۔ مجرد جہاد تو دنیا میں سب ہی جان دار کرتے ہیں۔ ہر ایک اپنے مقصد کی تحصیل کے لیے پورا زور صرف کر رہا ہے، لیکن ’مسلمان‘ جس انقلابی جماعت کا نام ہے، اس کے انقلابی نظریات میں سے ایک اہم ترین نظریہ بلکہ بنیادی نظریہ یہ ہے کہ اپنی جان و مال کھپائو، دنیا کی ساری سرکش طاقتوں سے لڑو، اپنے جسم و روح کی ساری طاقتیں خرچ کرو، نہ اس لیے کہ دوسرے سرکشوں کو ہٹا کر تم   ان کی جگہ لے لو، بلکہ صرف اس لیے کہ دنیا سے سرکشی و طغیان مٹ جائے اور خدا کا قانون دنیا میں نافذہو۔ (اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات، ص ۲۴۵-۲۴۶)