مصر عالمِ عرب کا بہت اہم ملک ہے۔ عالمِ اسلام کی مضبوط تحریک اسلامی، اخوان المسلمون اس ملک میں ۱۹۲۸ء میں وجود پذیر ہوئی۔ اپنے قیام کے کچھ ہی عرصے بعد اس تحریک کو گوناگوں مشکلات اور مصری حکومت کے تشدد کے علاوہ عالمی قوتوں کی چیرہ دستیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ تحریک کی بنیادیں قرآن وسنت کے مضبوط اور محکم اصولوں پر اٹھائی گئی تھیں، اس لیے تحریک کی قیادت اور کارکنان نے وقت کے طوفانوں کا ایسی پامردی سے مقابلہ کیا کہ دوست اس پر جھوم اٹھتے ہیں تو دشمن بھی اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ حسن البنا شہید ہوں یا ان کے قافلے کے دیگر شہدا، عبدالقادر عودہؒ، محمد فرغلی ؒاور سید قطبؒ سبھی آج دنیا میں روشن ستاروں کی مانند جگمگا رہے ہیں۔ تحریک کی قیادت میں حسن الہضیبیؒ سے لے کر عمرتلمسانی.ؒ تک اور مصطفی مشہورؒ سے لے کر محمدمہدی عاکف حفظہ اللہ تک سبھی صاحبِ عزیمت تھے۔ قیدوبند کی صعوبتیں اور ظلم وستم کے کوڑے ان کے پاے استقامت میں تزلزل پیدا نہ کرسکے۔
اخوان قانون اور دستور کے مطابق تبدیلی کے علَم بردار اور خفیہ سرگرمیوں کے مخالف ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ عدالتوں میں اپنے کیس لڑے مگر بدقسمتی سے مصری حکمرانوں نے کبھی عدالتوں کو آزادانہ فیصلے کرنے کی اجازت نہیں دی۔ جب جرأت مند قاضیوں نے جان جوکھوں میں ڈال کر انصاف پر مبنی فیصلے صادر کیے تو پاکستانی حکمران جنرل پرویز مشرف کی طرح مصری حکمرانوں کا کوڑا عدلیہ پر بھی برستا رہا۔ عدالتوں کے ججوں کا ضمیر اس کے باوجود زندہ ہے، اسی وجہ سے بیش تر مقدمات عسکری عدالتوں ہی میں چلائے جاتے ہیں۔ اخوان اپنے آغاز ہی سے سیاسی اور جمہوری دھارے میں شامل رہے ہیں لیکن مصری نظام نے انھیں کبھی قبول نہیں کیا۔ مصر کے گذشتہ عام انتخابات منعقدہ ۲۰۰۵ء میں اخوان سے متعلق امیدواروں نے اپنی آزادانہ حیثیت میں ساری دھاندلیوں کے باوجود ۸۸ نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ ملک کے عام انتخابات کے بعد شیڈول کے مطابق بلدیاتی انتخابات کاانعقاد اپریل ۲۰۰۶ء میں ہونا تھا مگر مصری حکومت نے مختلف حیلوں بہانوں سے وہ انتخابات دو سال کے لیے ملتوی کردیے۔ اس التوا پر ملک بھر میں شدید احتجاج ہوا، اور مصر کی سول سوسائٹی نے کئی دنوں تک اس مسئلے کو حکومت کی بوکھلاہٹ اور بزدلی قرار دے کر بلدیاتی انتخابات منعقد کرانے کی تحریک جاری رکھی۔
اس موقع پر تمام تجزیہ نگار کہہ رہے تھے کہ مصری حکومت اخوان کی مقبولیت سے خوف زدہ ہوکر بلدیاتی انتخابات سے راہِ فرار اختیار کرگئی ہے۔ اس دوران حسنی مبارک نے دستور میں کئی ترمیمات کیں، جنھیں حکمران پارٹی کے انگوٹھا چھاپ قانون سازوں نے منظور کرلیا مگر سول سوسائٹی نے ان پر ہمیشہ تحفظات کا اظہار بلکہ شدید مخالفت اور احتجاج کیا۔ ان دو سالوں میں مصر میں پھر سے پکڑدھکڑ کا ایسا سلسلہ شروع ہوا، جس نے جمال عبدالناصر کے فرعونی دور کی یادیں تازہ کردیں۔ ہزاروں کی تعداد میں اخوان جیلوں میں ڈالے گئے، حتیٰ کہ ان کے ارکان پارلیمنٹ کو بھی نہ بخشا گیا۔ ظلم کی حد یہ ہے کہ اگر اخوانی اسیروں کے اہلِ خانہ کی دیکھ بھال اور معاشی مدد کے لیے کوئی صاحبِ خیر خدمت سرانجام دیتا تو اس جرم کی پاداش میں اسے بھی جیل میں ڈال دیا جاتا۔ایسے تمام کیس خصوصی ملٹری عدالتوں میں چلائے جاتے ہیں۔ اخوان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمود عزت کے بقول: ایک ایسے مخیر مصری کو جس نے اسیروں کے بال بچوں سے تعاون کیا، ۵۵ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ (بحوالہ رسالہ الاخوان، شمارہ ۵۴۷، ۲۸ مارچ ۲۰۰۸ئ)
۲۰۰۸ء کے آغاز میں انھی پُرآشوب حالات میں حسنی مبارک حکومت نے ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کا اعلان کردیا۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ان انتخابات سے قبل اخوان کے اہم رہنمائوں کو پابندِ سلاسل کر دیا گیا اور انتخابات کا اعلان ہوتے ہی ملک بھر سے اخوان کے متوقع بلدیاتی امیدواروں کی پکڑ دھکڑ بھی شروع ہوگئی۔ ۸ اپریل انتخابات کی تاریخ تھی، جب کہ اس سے قبل اخوان کے ڈیڑھ سے دو ہزار کے درمیان مقامی رہنما ملک بھر کی جیلوں میں محبوس کر دیے گئے۔ تجزیہ نگاروں کے بقول حال ہی میں کی جانے والی دستوری ترمیم جس کے مطابق صدارتی امیدوار کے لیے ۹۰ ارکانِ پارلیمان اور ۱۴۰ بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کی تائید ضروری ہے، اس پکڑدھکڑ کی اصل محرک ہے۔ حسنی مبارک خوف زدہ ہے کہ کہیں اپوزیشن کا کوئی نمایاں لیڈر آیندہ انتخابات میں صدارتی امیدوار کے لیے اہلیت حاصل نہ کرلے۔
اخوان نے ان انتخابات کے لیے ۵ ہزار ۷ سو ۵۴ امیدواروں کا انتخاب کیا تھا، مگر پکڑدھکڑ اور خوف و ہراس کی وجہ سے صرف ۴۹۸ امیدوار کاغذات جمع کرا سکے۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ مصری تجزیہ نگار نبیل شرف الدین کے بقول: ان ۴۹۸ میں سے صرف ۲۰ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہوسکے، باقی سب کے کاغذات ہی مسترد کردیے گئے۔ اخوان کے نائب مرشدعام ڈاکٹر محمد حبیب نے اعدادوشمار کی روشنی میں اس صورت حال پر پریس کوبریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اب ایسے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے علاوہ ہمارے پاس اور کیا چارۂ کار ہے۔ اخوان کے علاوہ ایک اور تنظیم تحریکِ مصر براے تبدیلی (کفایۃ) نے بھی ان فراڈ انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ ان دونوں تنظیموں نے تمام سیاسی گروپوں اور آزاد امیدواران سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ انتخابات کا بائیکاٹ کردیں۔ اسی طرح ٹریڈ یونینز نے بھی ان انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔تجزیہ نگاروں کے بقول عملاً پولنگ اسٹیشنوں پر اُلّو بول رہے تھے اور حکومتی کارندے آزادانہ ٹھپے لگا رہے تھے۔
حقوقِ انسانی کی تنظیم براے عرب دنیا نے ۱۸ اپریل کو اس تشویش ناک صورت حال پر اپنے ردّعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مصر میں بدترین قسم کا سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے۔ تمام بنیادی حقوق معطل ہیں، حتیٰ کہ عسکری عدالتوں کا جو ڈھونگ رچایا گیا ہے، اس میں ملزمان کے رشتے داروں اور وکلا تک کو جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس کے علاوہ کسی فوٹوگرافر اور صحافی کو بھی ان کے قریب پھٹکنے نہیں دیا گیا۔ اگر کوئی صحافی اور کیمرہ مین وہاں پہنچ بھی پایا، تو اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ٹیپ ریکارڈر اور کیمرے تک چھین لیے گئے۔ انسانی حقوق کی اس تنظیم نے کہا ہے کہ انصاف کے عالمی ضوابط و قوانین کے علاوہ مصری دستور کی دفعہ ۱۶۹ کے تحت یہ ظلم کسی صورت گوارا نہیں کیا جاسکتا۔
ان حالات میں بظاہر حسنی مبارک نے بلدیات سے حزبِ اختلاف کا نام و نشان مٹا دیا ہے مگر مصر اور پوری دنیا کے مہذب شہری اس انتخاب کو ایک ڈرامے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں دیتے۔ اخوان کے نائب مرشدعام ڈاکٹر محمد حبیب نے اخباری نمایندوں سے بات چیت کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ یہ ہتھکنڈے نہ تو مصری حکومت کو استحکام دے سکتے ہیں، نہ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے حریت پسندوں کو سرنگوں کرسکتے ہیں۔ عالمی جریدے الشرق الاوسط کے تجزیہ نگاروں کے مطابق حسنی مبارک اپنے بیٹے جمال کو اپنی جانشینی کے لیے تیار کرچکا ہے۔ لیکن ان اوچھے حربوں سے حکومت اور ایوانِ صدارت کی ساکھ بُری طرح سے متاثر ہوچکی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اب حسنی مبارک دور کا خاتمہ قریب ہے کیونکہ مصر میں جس قدر نفرت موجودہ حکومت سے پائی جاتی ہے، اس کی کوئی مثال ماضی میں دیکھنے میں نہیں آئی۔
بلدیاتی انتخابات کے بعد مصر میں وسیع پیمانے پر احتجاج ہو رہا ہے۔ حسنی مبارک نے اس صورت حال کو آہنی ہاتھ سے قابو کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ملک بھر میں ۲۸ گورنروں (ڈی سی) کا نئے سرے سے تقرر عمل میں لایا گیا ہے۔ ان میں سے ۱۲ نئے چہرے سامنے آئے ہیں، جب کہ تین کے اضلاع تبدیل کیے گئے اور ۱۳ سابقہ اضلاع ہی میں بحال رکھے گئے ہیں۔ ان سے حسنی مبارک نے گذشتہ ہفتے حلف لیا ہے اور انھیں تلقین کی گئی ہے کہ امنِ عامہ میں گڑبڑ کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے۔ ان گورنروں نے حلف کے بعد اعلان کیا کہ ان کی ترجیحات میں ان عناصر کی بیخ کنی سرفہرست ہے جو امن و امان کا مسئلہ پیدا کریں، نیز وہ صدر کے سیاسی پروگرام کے محافظ بن کر کام کریں گے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومتی عزائم کیا ہیں۔