ترکی کے سیاسی نظام پر نگاہ دوڑائیں تو دو حقیقتیں واضح طور پر سامنے آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اتاترک نے وہاں ایک ایسا ظالمانہ نظام ورثے میں چھوڑا ہے جس میں اسلام پسند قوتوں کے سامنے ہردروازہ بندکردیا گیا ہے، اور دوسری اہم ترین حقیقت یہ ہے کہ ترکی کی تاریخ میں جب بھی اس نظام کے بل بوتے پر اسلامی قوتوں کا راستہ روکا گیا وہ پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ اُبھر کر سامنے آئیں۔ ترکی کے حالیہ واقعات نے ایک بار پھر اسی عمل اور ردعمل کی مضبوط بنیاد رکھ دی ہے۔
آج سے ۱۰۰ برس قبل ۱۹۰۸ء میں عثمانی خلافت کی آخری مضبوط نشانی سلطان عبدالحمید کا اقتدار ختم کیا گیا اور آج سے ۸۵ سال پہلے اپریل ۱۹۲۳ء میں کمال اتاترک اور اس کی جمہوری پیپلزپارٹی کا اقتدار شروع ہوگیا۔ ۱۹۳۸ء میں اتاترک تو آں جہانی ہوگیا لیکن اس کی پارٹی ۱۹۴۶ء تک اکلوتی حکمران رہی۔ اتاترک کی موت سے ایک سال قبل ۱۹۳۷ء تک ترکی کا دستور یہی کہتا تھا کہ ’’ترکی کا سرکاری مذہب اسلام ہے‘‘ لیکن پھر جامع ترامیم کرتے ہوئے دستور کی شق ۲ میں لکھ دیاگیا کہ ’’ترکی ایک سیکولر ریاست ہے‘‘، اور یہ شق ناقابلِ تبدیل ہے۔ اتاترک نے اذان و نماز سے لے کر تلاوتِ قرآن تک اور انفرادی لباس و انداز سے لے کر ریاستی نظام و احکام تک ہرچیز سے اسلام کی روح و شناخت کو بے دخل کردیا۔ اتاترک کے ہوتے ہوئے نہ کسی کو اس کی مخالفت کی اجازت تھی اور نہ اس کی پارٹی کے مقابلے میں کوئی اور جماعت ہی تشکیل دینے کی۔ ایک بار اس کے ذاتی دوست فتحی اوقیار نے آزاد جمہوری پارٹی کے نام سے الگ جماعت تشکیل دی تو اتاترک مخالف عناصر اس میں جمع ہونے لگے۔ جلد ہی یہ جماعت کالعدم قرار دے دی گئی۔
اتاترک کے بعد عصمت اینونو حکمران بنا، تھا تو وہ بھی سیکولر لیکن وہ جان چکا تھا کہ ترکی میں یک جماعتی نظام اب مزید نہیں چل سکتا، اس نے بعض اپوزیشن رہنمائوں کو پارٹی بنانے کی اجازت دے دی۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے نام سے نئی جماعت بنی اور اس نے کچھ ہی عرصے کے بعد ہونے والے انتخابات میں ۴۶ نشستیں حاصل کر لیں۔ ۱۹۵۰ء میں اگلے انتخاب ہوئے تو اس نو تشکیل شدہ جماعت نے میدان مارلیا۔ اتاترک کی پیپلزپارٹی کو نہ صرف اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا بلکہ ایک ایک کر کے ان اسلامی مظاہر کو بھی بحال ہوتے دیکھنے کا عذاب سہنا پڑا جنھیں اتاترک نے بڑے جبروغرور سے ختم کیا تھا۔ سالہا سال کی پابندی کے بعد مساجد کے میناروںسے عربی میں اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی تو ترک دیوانہ وار سڑکوں پر ہی سجدہ ریز ہوگئے۔ پھر قرآن کریم کی تلاوت دوبارہ سے ہونے لگی۔ دینی تعلیم کے ادارے کھل گئے اور فوج میں بھی دینی تعلیم کا احیا ہوگیا۔
ترکی کے جدید سیاسی نظام میں اس بات کا سختی سے اہتمام کیا گیا تھا کہ فوج کی سرپرستی اور سیاسی جماعتوں کے قانون کا لٹھ استعمال کرتے ہوئے ہر اسلام پسند طاقت کا راستہ روک دیا جائے۔ اسلامی عناصر کسی صورت مجتمع ہوبھی جائیں تو وہ ایک چھوٹی جماعت سے زیادہ حیثیت اختیار نہ کرسکیں۔ پہلے تو یہ اسلامی عناصر مختلف سیاسی جماعتوں کے حصے کے طور پر کام کرتے رہے لیکن ۱۹۶۹ء کے آخر میں پروفیسر ڈاکٹر نجم الدین اربکان نے ملّی نظام پارٹی کے نام سے ایک مستقل بالذات پارٹی بنانے کا اعلان کردیا۔ دستوری پابندی کے باعث انھوں نے اپنے اسلامی ہونے کا اعلان تو نہیں کیا لیکن سب جانتے تھے کہ ان کی اصل شناخت کیا ہے۔ اس سے پہلے کہ لوگ اس پارٹی کی طرف متوجہ ہوتے ۱۹۷۰ء کے فوجی انقلاب کے بعد اسے کالعدم قرار دے دیا گیا۔ نجم الدین اربکان نے ملّی سلامت پارٹی کے نام سے نئی جماعت تشکیل دینے کا اعلان کردیا۔ ملّی سلامت پارٹی نے کئی دیگر جماعتوں سے اتحاد کرتے ہوئے قدم آگے بڑھانا شروع کیے ہی تھے کہ ۱۹۸۰ء میں ایک اور فوجی انقلاب کے ذریعے اس پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔ ۱۹۸۳ء میں، اربکان نے رفاہ پارٹی تشکیل دے دی اور احتیاط و کامیابی سے سیاسی سفر طے کرتے ہوئے ۹۰ کی دہائی میں بلدیاتی اداروں میں شان دار کامیابی حاصل کی۔ بلدیاتی اداروں کی کارکردگی کی بنیاد پر ۱۹۹۵ء میں رفاہ پارٹی نے پارلیمانی انتخابات میں بھی شان دار کامیابی حاصل کرلی اور ۱۹۹۶ء میں اربکان مخلوط حکومت کے سربراہ منتخب ہوگئے۔ حکومت کا ایک برس بھی پورا نہیں کیا تھا کہ سیکولرزم کی محافظ ہونے کی دعوے دار فوج نے دستوری عدالت کے ذریعے ان کی حکومت ختم اور پارٹی غیرقانونی قرار دے دی۔
کسی جھنجھلاہٹ کا شکار ہوئے بغیر اربکان نے فضیلت پارٹی تشکیل دے دی۔ رفاہ پر پابندی سے تین ماہ قبل ڈاکٹر اربکان سے ان کے دفتر میں ملاقات ہوئی تب فضا میں پابندی کا ارتعاش محسوس کیا جاسکتا تھا، انھوں نے کہا کہ رفاہ کے ہردفتر پر ہمارے نام کا مخفف آر پی لکھا ہوا ہے۔ ہمیں معمولی سی تبدیلی کرنا پڑے گی اور یہی دفاتر ایف پی، یعنی فضیلت پارٹی کے مراکز بن جائیں گے۔ ایسا ہی ہوا لیکن جلد ہی فضیلت کو بھی رفاہ کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا گیا۔ اربکان اور ان کے ساتھیوں نے سعادت پارٹی بنانے کا اعلان کردیا۔ اس موقع پر عبداللہ گل، طیب اردوگان اور ان کے ساتھیوں نے اپنی علیحدہ اور وسیع تر عوامی نمایندگی کی حامل ’انصاف و ترقی پارٹی‘ (جس کے ترکی نام کا مخفف اے کے پی ہے) بنانے کا اعلان کردیا۔ ہراسلام پسند کو اس تقسیم پر تشویش ہوئی لیکن ترک عوام کی اکثریت یہی سمجھی کہ یہ تقسیم حکمت عملی ہی کا حصہ ہے، بار بار پابندیوں کی تلوار سے بچنے کے لیے ’استاد‘ نے خود ہی اپنے ’شاگردوں‘ کو علیحدہ ہونے کا اشارہ کیا ہے۔
نومبر ۲۰۰۲ء میں انتخابات ہوئے تو اے کے پی نے تمام سیاسی پارٹیوں کو تاریخی شکست دے دی۔ طیب اردوگان اور عبداللہ گل کی بنیادی شناخت محنتی، امین اور باصلاحیت قیادت کی ہے۔ گذشتہ پارلیمانی سیشن کے دوران انھوں نے اپنے نام کے دونوں حصوں انصاف و ترقی کی لاج رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ انھوں نے کرپشن کے دروازے بند کرتے ہوئے پورے معاشی نظام کا ڈھانچا تبدیل کردیا۔ افراطِ زر کا تناسب ۶۵ اور ۷۰ فی صد سے کم کر کے ۹ فی صد تک پہنچا دیا۔ سود کا تناسب ۱۰۵ فی صد سے کم کر کے ۱۹ فی صد تک لے آئے، بیرونی قرضے ۲۳ ارب ڈالر سے کم کرکے ۹ ارب ڈالر تک لے آئے۔ ترکی کی برآمدات ۳۶ ارب ڈالر سے بڑھ کر ۹۵ارب ڈالر تک جاپہنچیں، فی کس آمدنی ۲۵۰۰ ڈالر سے بڑھ کر ۵۵۰۰ ڈالر فی کس ہوگئی، غریب خاندانوں کے لیے ۲لاکھ ۸۰ ہزار گھر بنوا کر انتہائی آسان قسطوں پر دے دیے، سردی کے موسم میں غریب خاندانوں میں ہر سال ۱۵ لاکھ ٹن کوئلہ مفت تقسیم کیا۔ اتاترک کے مسلط ہونے کے بعد سے لے کر اب تک ترکی میں ۴۵۰۰ کلومیٹر لمبی سڑکیں بنی تھیں۔ اے کے پی نے صرف اپنے پہلے دورِاقتدار میں ۶۵۰۰ کلومیٹر لمبی سڑکیں تعمیر کروا دیں۔ ان اقتصادی و تعمیراتی فتوحات کی فہرست طویل ہے اور جو منصوبے ابھی زیرتکمیل ہیں ان کی فہرست اور بھی طویل۔ اس کارکردگی کی بنیاد پر گذشتہ سال ہونے والے عام انتخابات میں انصاف و ترقی کو ۴۷ فی صد، یعنی ایک کروڑ ۶۵ لاکھ (۵ئ۱۶ ملین) ووٹ حاصل ہوئے۔ بعدازاں صدارتی انتخابات میں بھی تمام تر کوششوں کے باوجود عبداللہ گل کا راستہ نہ روکا جاسکا اور اس طرح ملکی نظام کے پانچ ارکان میں سے تین (پارلیمنٹ، وزارتِ عظمیٰ اور صدارت) انصاف و ترقی کے ہاتھ میں آگئے۔ سیکولرزم کے محافظ دو خطرناک کیمپ (فوج اور دستوری عدالت) اب بھی اس کے سر پر لٹکتی ہوئی ایک خوں خوار تلوار ہیں۔
مارچ میں ترک پارلیمنٹ نے کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں طالبات کے حجاب پر عائد پابندی ختم کردی، اور وہ بھی ان محفوظ الفاظ میں کہ آیندہ ان اعلیٰ تعلیمی اداروں کی طالبات پر کوئی ایسی پابندی عائد نہیں کی جائے گی جس کا ذکر دستور میں نہیں ملتا۔ یہ ترمیم اتنا بڑا جرم ٹھیری کہ سابق ’حقیرکارکردگی‘ اس کے سامنے ہیچ ٹھیری۔ ترک سیکولرزم کو سنگین خطرات لاحق ہوگئے اور اٹارنی جنرل نے ملک کی اعلیٰ دستوری عدالت میں منتخب حکومت اور صدر و وزیراعظم سمیت اس کے ۷۱ذمہ داران کو اپنے اپنے عہدوں کے لیے نااہل قرار دینے کا مطالبہ کردیا، ۴۷ فی صد عوام کی حمایت یافتہ ’انصاف و ترقی پارٹی‘ کو غیرقانونی قرار دینے کی اپیل کردی۔ حالانکہ دستور کے مطابق صدر کا مواخذہ صرف اسی صورت میں کیا جاسکتاہے کہ جب وہ دستور سے کھلی بغاوت کا مرتکب ہو اور یہ مواخذہ بھی پارلیمنٹ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
۳۱ مارچ کو دستوری عدالت نے اس اپیل کو سماعت کے لیے قبول کرلیا اور صدر عبداللہ گل کو مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے پارٹی کو دو ماہ کے اندر اندر اپنا جواب جمع کرنے کا حکم دیا۔ پارٹی پر پابندی لگانے کی اپیل کو سماعت کے لیے قبول کرلینا ہی اتنا بڑا سیاسی زلزلہ ہے کہ ہرشخص حیرت زدہ رہ گیا۔ اسٹاک مارکیٹ اور کرنسی کا نرخ متاثر ہونا تو فطری بات تھی، پورا سیاسی نقشہ ہی تلپٹ ہونے کا خدشہ لاحق ہوگیا۔
وزیراعظم رجب طیب اردوگان نے عوام کو بہرصورت صبروتحمل سے کام لینے کی اپیل کی ہے۔ حکمران پارٹی کے سامنے کئی راستے کھلے ہیں۔ ایک تو تصادم اور ایسا عوامی دبائو کہ جو دستوری عدالت اور فوج کو پسپائی پر مجبور کر دے، تجزیہ نگاروں کی اکثریت اس امکان کو مسترد کر رہی ہے۔ دوسرا راستہ دستوری ہے اور وہ یہ کہ دستور میں ترمیم کرتے ہوئے دستوری عدالت سے سیاسی جماعتوں پر پابندی کااختیار ہی چھین لیا جائے۔ عدالت کو اٹارنی جنرل کی اپیل کے خلاف یا حق میں فیصلہ دینے کے لیے ۱۱ میں سے ۷ ججوں کا اتفاق راے چاہیے۔ ان ۱۱ میں سے کئی جج سال کے آخر میں ریٹائر ہوجائیں گے اور ان کی جگہ نئے ججوں کا تعین خود صدر مملکت عبداللہ گل کریں گے، یعنی اگر دورانِ سال عدالت کسی وجہ سے اس سماعت کو مکمل نہ کرسکی تو عدالت کا اپنا ڈھانچا تبدیل ہوجائے گا۔ عدالت کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ ترکی کا یورپی یونین میں شمولیت کا خواب بھی ہے۔
ان تمام رکاوٹوں اور دستوری ترامیم کے امکانات کے باوجود ترک تجزیہ نگار خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ اٹارنی جنرل کی اپیل اور عدالت کا اسے سماعت کے لیے قبول کرلینا ہی واضح اشارہ ہے کہ فوج ان کوششوں کی پشت پر ہے اور اب حکمران پارٹی کو پابندی کا شکار ہونے سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ یہی تجزیہ نگار اس امر پر بھی متفق ہیں کہ اگر ایسا ہوگیا تو ’انصاف و ترقی‘ کی جگہ لینے کے لیے ایک نئی پارٹی کی تشکیل چند ہفتوں یا چند دنوں کی بات ہوگی اوردنیا ایک بار پھر اس تاریخی حقیقت کا اعادہ دیکھے گی کہ جب بھی پابندی لگی نئی پارٹی پہلے سے بھی زیادہ قوت کے ساتھ میدان میں آئی۔ اے کے پی نہ رہی تو نئی پارٹی دو تہائی اکثریت کے حصول اور مزید وسیع تر سیاسی صف بندی کا عملی مظاہرہ کرے گی، تب تک دستوری عدالت اور فوجی جرنیلوں کے پُلوں کے نیچے سے بھی بہت سا پانی بہہ چکا ہوگا۔ گویا کہ نام نہاد سیکولرزم کے نام نہاد محافظ اپنے ہی کھودے گڑھے کا شکار ہوچکے ہوں گے۔
وَّ مَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍo (ابراہیم ۱۴:۲۰) اللہ کے لیے ایسا کرنا بالکل بھی دشوار نہیں۔