صدر جارج بش کی حکومت خود اپنے ملک میں اور بین الاقوامی میدان میں سخت مشکلات کا شکار ہے اور کسی ایسے اقدام کے لیے بے چین ہے جس سے پے در پے شکستوں اور ہزیمتوں کے بعد کسی نوعیت کی سرخ روئی کا دعویٰ کیا جاسکے۔ عراق کی جنگ کے پانچ سال کے جتنے بھی جائزے آئے ہیں، وہ بش کی پالیسیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جنگ غلط دعوئوں اور جھوٹ پر مبنی رپورٹوں کے سہارے سے شروع کی گئی۔ یہ جانتے ہوئے کہ عراق کے پاس عمومی تباہی کے مہلک ہتھیار نہیں ہیں، ان معدوم ہتھیاروں اور ان کے مغربی دنیا کو خیالی خطرات کے نام پر فوج کشی کی گئی۔ صدام کے دور میں نہ صرف عراق میں القاعدہ کا کوئی وجود نہیں تھا ،بلکہ عراق اور القاعدہ کا کسی سطح پر بھی کوئی رابطہ نہیں تھا، مگر القاعدہ کو بھی نشانہ بنانے کے لیے عراق پر حملہ کیا گیا اور عراق ہی نہیں پوری عرب دنیا میں القاعدہ کے ظہور اور سرگرمیوں کے لیے جواز فراہم کیا گیا۔ عراق کی جنگ میں ۳ہزار سے زیادہ امریکی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں، اس سے ۱۰ گنا زیادہ زخمی ہوئے ہیں اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب فوجی عراق کی جنگ میں کچھ کردار ادا کرنے کے باعث ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں جس سے پوری امریکی فوج کا ذہنی اور اخلاقی توازن درہم برہم ہے۔ مالی اعتبار سے ۶۵۰ ارب ڈالر کے بلاواسطہ مصارف کے علاوہ جو بوجھ امریکی معیشت پر پڑا ہے، اس کا اندازہ چوٹی کے امریکی معاشی ماہرین کے خیال میں ۲ٹریلین (۲ ہزار ارب) ڈالر سے زیادہ ہے اور باقی دنیا کی معیشت پر اس کے علاوہ کم از کم ایک ٹریلین (ایک ہزار ارب) ڈالر کا بوجھ پڑا ہے۔
اس وقت جب دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ (۵ئ۱ ارب افراد) غربت کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے، امریکا نے صرف اپنے شوقِ جہاںبانی اور اسرائیل کو محفوظ کرنے کے لیے ہزاروں بلین ڈالر جنگ کی آگ میں جھونک دیے ہیں، اور اب عراق کی ناکامی پر پردہ ڈالنے اور توجہ کو دوسری طرف مبذول کرانے کے لیے افغانستان، ایران اور خصوصیت سے پاکستان اور اس کے شمالی علاقوں کو اپنی ترک تازیوں کے لیے منتخب کیا ہے۔ اس سلسلے میں نئی جارحانہ محاذ آرائی روزافزوں ہے۔ اس کا آغاز گذشتہ سال ہی ہوگیاتھا اور پرویز مشرف کی کمزوریوں کا فائدہ اُٹھا کر امریکا نے شمالی علاقہ جات میں بے دردی سے بلاواسطہ کارروائیوں کا سلسلہ تیز کیا۔ ایک اندازے کے مطابق گذشتہ دو سال میں ۳۶ بار امریکی فوجی کارروائیوں کے ذریعے ہماری سرزمین کو ہماری آزادی اور حاکمیت کا مذاق اڑاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا ہے جن میں سیکڑوں افراد بشمول معصوم بچے، بوڑھے اور خواتین شہید ہوئے ہیں۔ ان میں سے ۱۰ حملے ۳ نومبر ۲۰۰۷ء اور ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کے درمیان ہوئے ہیں جس سے پرویز مشرف اور امریکی قیادت کے گٹھ جوڑ اور آیندہ کے لیے پرویزمشرف کے کسی نہ کسی شکل میں اقتدار پر باقی رکھنے کی خواہش کے محرکات کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔
پاکستانی عوام کی عظیم اکثریت پرویز مشرف اور ان کی پالیسیوں سے برأت کا مسلسل اظہار کر رہی ہے۔ راے عامہ کے تمام ہی جائزے بتا رہے تھے کہ ۸۰ فی صد عوام ان سے نجات کے خواہاں ہیں اور یہی چیز ۱۸ فروری کے انتخابات میں ثابت ہوگئی۔ پرویز مشرف کی طرح امریکی قیادت بھی اپنی شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ۲۰۰۷ء کی بدلتی ہوئی فضا کے پیش نظر اس نے ملک کی دوسری سیاسی قوتوں سے جوڑ توڑ کا آغاز کردیا تھا، مگر یہ نقشہ آسمانی فیصلوں کے ذریعے درہم برہم ہوگیا۔ ۱۸ فروری کے بعد سے امریکا پر ایک گونہ گھبراہٹ کی کیفیت طاری ہے، اور اس کی پوری مشینری، صدربش سے لے کر اس کے مقامی سفارت کاروں تک بشمول دانش وروں اور صحافیوں کی فوج ظفرموج، نئی حکمت عملی کے لیے فضا ہموار کر کے اور نومنتخب قیادت کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے سرگرم ہیں۔ پرویز مشرف اور ان کے سیاسی حلیف ابھی تک امریکی حکمت عملی میں کلیدی مقام رکھتے ہیں لیکن اس وقت ساری کوشش پیپلزپارٹی کی قیادت کو اپنا ہم نوا بنانے میں صرف ہورہی ہے۔ اس کے شریک چیرپرسن جناب آصف علی زرداری نئے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور نئے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی خصوصی نشانہ ہیں۔ فوج کے سربراہ اور اعلیٰ قیادت بھی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔
اوّلاً، پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف اپنی نام نہاد جنگ میں حسب سابق آلۂ کار بنائے رکھنے کے لیے سفارتی دبائو اور معاشی لالچ کے تمام حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔ مخلوط حکومت نے چونکہ محض عسکری قوت سے سیاسی مسائل کے حل کے بارے میں اپنے کچھ تحفظات کا اظہار کیا اس لیے واشنگٹن میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ انتخابات کے فوراً بعد سفارت کاروں کی ایک فوج حملہ آور ہے اور پاکستان میں امریکی سفارت کاربھی سیاسی کارکنوں کی طرح متحرک ہیں۔ ایک طرف پرویز مشرف کو کسی نہ کسی حیثیت سے برسرِاقتدار رکھنے اور ایم کیو ایم کو اقتدار میں شریک بنانے کی ہمہ جہتی کوشش ہے تو دوسری طرف نئی حکومت کو امریکی تائید کی لالی پوپ دینے کے لیے کونڈولیزارائس نے کمال شفقت سے فوج کو سیاسی قیادت کے تحت کارفرما دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے (The need for Pakistan's military to be placed under civilian control)اور امریکی سینیٹرز اور سفارت کاروں نے معاشی اور فنی امداد میں تین گنا اضافے کی بات کی ہے۔ کانگرس نے اگلے پانچ سال کے لیے ۷ ارب ڈالر کی امداد کے پیکج کا دلاسہ دیا ہے۔ لیکن گاجرمولی والی اس سیاست کے ساتھ ڈنڈے اور لاٹھی والی بات کا بھی بھرپور اظہار کیا جا رہا ہے جو اس حکمت عملی کا دوسرا اور زیادہ خوف ناک ستون ہے۔
تمام شواہد اس امر کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ پرویز مشرف نے تمام قومی مفادات اور عزت و آبرو کو پس پشت ڈال کر محض اپنی کرسی کو بچانے کے لیے امریکا کو یہ عندیہ دے دیا تھا کہ امریکا اور ناٹو کی افواج جب چاہیں پاکستان کی سرزمین پر اقدام کرسکتے ہیں۔ الیکشن کے بعد اس کھلی چھٹی کا راز فاش ہوگیا اور قوم کا مزاج بالکل سب کے سامنے ہے کہ یہ ناقابلِ برداشت ہے۔ نیز امریکا اور مشرف کی عسکری قوت سے سیاسی مسئلے کو حل کرنے کی حکمت عملی کو بھی عوام نے صاف طور پر رد کر دیا ہے اور نومنتخب حکومت کے سب ہی عناصر سیاسی عمل اور مذاکرات کے ذریعے معاملات کو نمٹانے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ سب امریکا کے لیے ایک بڑی شکست اور بش کی خارجہ پالیسی کے لیے بڑا دھچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سفارتی دبائو اور معاشی لالچ کے ساتھ امریکا کی پوری قیادت پاکستان کو آنکھیں دکھانے اور اپنی مرضی سے پاکستان کی سرزمین پر فوج کشی کرنے کی دھمکیاں دینے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ نئی حکومت کو اس سفارتی دہشت گردی (diplomatic terrorism) کے ذریعے اسی طرح گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکیں جس طرح نائن الیون کے بعد اس وقت کے مطلق العنان حکمران جنرل پرویز مشرف کو کیا تھا۔
اس یلغار کا ایک اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ایڈمرل مائک مولین (Mike Mullen) نے جو امریکا کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے عہدے پر فائز ہیں، فرمایا ہے کہ عراق میں مصروف ہونے کے باوجود ہمیں دوسرے خطرات سے صرفِ نظر نہیں کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں خصوصی نظر پاکستان کے شمالی علاقہ جات پر رکھنا ضروری ہے جہاں سے خطرات کے پیغام پھوٹ رہے ہیں:
اگر مجھے کسی ایسی جگہ کا انتخاب کرنا پڑے جہاں سے اگلا حملہ ہونے والاہے تو یہ وہ جگہ ہے جسے میں یقینا منتخب کروں گا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں القاعدہ ہے، جہاں ان کی قیادت ہے اور ہمیں اس چیلنج کو ختم کرنے کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا۔
القاعدہ قبائلی علاقے میں دوبارہ مجتمع ہوگئی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ امریکا پر کسی دوسرے حملے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
ایک اور جاسوسی ایجنسی ایف بی آئی کے ڈائرکٹر روبرٹ موئیلر (Robert Meuller) کا ارشاد گرامی ہے کہ القاعدہ کے کارندے قبائلی علاقوں میں روپوش ہیں اور ’’وہ راتوں رات خاموشی سے غائب نہیں ہوجائیں گے‘‘۔
اس کورس میں جس بات کا سب سے زیادہ تذکرہ ہے، وہ یہ ہے کہ نائن الیون کے حملے کی منصوبہ بندی عراق میں نہیں ہوئی تھی، بلکہ افغانستان میں ہوئی تھی۔ پانچ سال تک عراق کو تاراج کرنے کے بعد اب یہ راگ الاپا جا رہا ہے کہ اصل خطرہ تو افغانستان اور پاکستان سے ہے اور ہم ناحق عراق میں پھنسے ہوئے ہیں۔ واشنگٹن سے ایک اہم رپورٹ کے مطابق :
گذشتہ ۱۰ دنوں میں خطرے کے نئے احساس، یعنی فاٹا میں القاعدہ قائدین کا دوسرے نائن الیون کا منصوبہ بنانے پر واشنگٹن میں درجنوں اجتماعات میں گفتگو ہوچکی ہے۔ (ڈان، ۲۱ اپریل ۲۰۰۸)
اس بحث و مباحثے کی انتہا خود صدر جارج بش کا وہ بیان ہے جو انھوں نے اے بی سی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے دیا ہے:
افغانستان اور عراق نہیں، بلکہ پاکستان وہ جگہ ہے جہاں سے امریکا پر نائن الیون جیسا دوسرا حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا جاسکتا ہے۔
پاک افغان سرحد کے ساتھ قبائلی علاقے آج کل دنیا کے خطرناک ترین علاقوں میں سے ایک ہے جہاں القاعدہ نے اپنے لیے محفوظ پناہ گاہیں قائم کرلی ہیں، اور امریکا پر حملہ کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔
جب اے بی سی کے نمایندے نے یہ سوال کیا کہ: If there was another 9/11 plot being hatched, it was probably hatched in Afghanistan and Pakistan and not in Iraq۔ بش کا جواب تھا:I would say not in Afghanistan, I would say in........جس پر سوال کرنے والے نے لقمہ دیا: Pakistan? اور صدر بش نے مہرتصدیق لگاتے ہوئے فرمایا: Yes, probably true ___اور ساتھ ہی فرمایا کہ اسی وجہ سے ضروری ہے امریکا میں FISA Law جیسے قوانین موجود رہیں جس کے ذریعے ٹیلی فون ٹیپ کرنے اور ان کو ریکارڈ کرنے کا حق حکومت کی ایجنسیوں کو دیا گیا ہے۔(ڈان، ۱۳ اپریل ۲۰۰۸ئ)
یہ ساری دھمکیاں اس لیے دی جارہی ہیں کہ پاکستان کی نئی حکومت کو دھمکا کر اسی طرح مطیع فرمان بنا لیا جائے، جیسے نائن الیون کے بعد پرویز مشرف کو کیا گیا تھا اور جو عملاً امریکا کے یرغمال کی حیثیت اختیار کرگئے تھے۔
آج پاکستان کی موجودہ قیادت کو ستمبر ۲۰۰۱ء ہی جیسے چیلنج سے سابقہ ہے، گو الفاظ اور اندازِ کار میں تھوڑا سا فرق ہے لیکن اصل فرق یہ ہے کہ پاکستانی عوام پرویز مشرف کی سات سالہ ناکام پالیسی کا پورا شعور رکھتے ہیں اور ۱۸ فروری کے انتخابات میں اپنے اس عزم کا بھرپور اظہار کرچکے ہیں اور اب امریکا کے تابع مہمل بن کر امریکا کی اس لڑائی میں کرایے کے سپاہی کا کردار ہرگز برداشت نہیں کریںگے۔ اس ناکام پالیسی کو جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں اور عوام نئی قیادت کو جس طرح عدلیہ کی بحالی کے معاملے میں پیچھے نہیں ہٹنے دیں گے، اسی طرح امریکا کی اس جنگ میں پاکستان اور اس کی افواج کے کردار کے بارے میں بھی ماضی کی پالیسی کو کسی نئی شکل میں جاری رکھنے، اور نئی زندگی دینے کی اجازت بھی ہرگز نہیں دیں گے۔
امریکا افغانستان، عراق اور پوری دنیا میں یہ جنگ ہارچکا ہے اور محض قوت اور دولت کے سہارے اسے جاری رکھنا ممکن نہیں۔ خود امریکا کے عوام کے ۸۰ فی صد اب صدربش کی پالیسیوں سے اختلاف کا اظہار کر رہے ہیں، اور نصف سے زیادہ صاف کہہ رہے ہیں کہ عراق اور افغانستان میں امریکا کی پالیسیاں ناکام رہی ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، اس کے عوام اور دانش ور اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکا کی اس جنگ میں شرکت کے نتیجے میں جو کچھ حاصل ہوا ہے، وہ یہ ہے:
۱- پاکستان اپنی آزادی، حاکمیت اور اپنی سرحدوں کو پار نہ کیے جانے کے باب میں سخت زخم خوردہ ہے۔ قومی عزت اور حمیت پر ضرب کاری لگی ہے اور عوام اپنی آزادی اور حاکمیت کی مکمل بحالی چاہتے ہیں۔
۲- ملک کی مغربی سرحد جو ہمیشہ سے محفوظ ترین سرحد تھی، اپنی وہ حیثیت کھو چکی ہے اور اب فوج کا ایک معتدبہ حصہ اس سرحد پر تعینات ہے جس کے نتیجے میں کشمیر اور بھارت دونوںکے محاذ پر کمزوری آئی ہے۔
۳- ملک میں عدم تحفظ میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ ملک کی فوج پاکستان کے شہریوں کے خلاف استعمال ہورہی ہے اور فوج اور عوام دونوں اس کی بھاری قیمت اداکر رہے ہیں۔ ۹۰ہزار فوجی قبائلی علاقوں میں برسرِپیکار ہیں اور گذشتہ تین سال میں ۱۲۰۰ سے زائد فوجی ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں۔ اسی طرح جنھیں دہشت گرد کہا جا رہا ہے ان کا جانی نقصان بھی اس سے کسی طرح کم نہیں۔ نیز ۳ہزار سے زیادہ عام شہری جن میں بچے، بوڑھے اور خواتین بھی خاصی تعداد میں شامل ہیں، لقمۂ اجل بن گئے ہیں۔ پورے علاقے میں انتشار، افراتفری اور خون خرابہ ہے۔ آبادی کے نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے اور بے یقینی اور عدم تحفظ کا دور دورہ ہے۔ فوج اور عوام کے درمیان جو اعتماد، محبت اور تعاون کا رشتہ تھا، وہ ٹوٹ گیا ہے اور فوج اورحکومت کے اداروں پر حملے روز افزوں ہیں۔ پورے ملک میں بدامنی اور تشدد کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے جو سول سوسائٹی اور مستحکم جمہوری نظام کے لیے بڑا خطرہ ہے، اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو ملک مزید عدم استحکام کی دلدل میں دھنستا چلا جائے گا۔
۴- پاکستان کو نائن الیون کے بعد امریکا کے حواری بننے کی بڑی بھاری معاشی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ امریکا تو یہی طعنہ دیتا ہے کہ ہم نے ۱۱ ارب ڈالر کی امداد دی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس میں سے ۶ ارب ڈالر فوجی خدمات کے معاوضے میں دی گئی ہیں اور اصل معاشی امداد جس کا ایک حصہ قرض کی شکل میں ہے صرف ۵ ارب ہے، جب کہ پاکستان کو ملک اور بیرونی محاذ پر جو معاشی نقصان اس جنگ میں شرکت کی وجہ سے ہوا ہے، اس کا صحیح تخمینہ لگانا مشکل ہے۔ ۲۰۰۶ء میں صرف پانچ سال کی بنیاد پر خود امریکا کی نارتھ کمانڈ کی ویب سائٹ پر یہ نقصان ۱۰ سے ۱۲ ارب ڈالر قرار دیا گیا تھا۔ آزاد ذرائع کے مطابق گذشتہ سات سال میں یہ نقصان ۱۲ سے ۱۵ ارب ڈالر کا ہے جس کی کوئی تلافی نہیں کی گئی اور نہ اس کا کوئی مطالبہ مشرف حکومت نے کیا، بلکہ اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔
۵- نیم غلامی کے اس دور کا ایک اہم نتیجہ جمہوریت کی پامالی، آمرانہ نظام کا استحکام، عدلیہ کی بربادی، بنیادی حقوق کی پامالی اور ملک کو نظریاتی انتشار اور قدیم و جدید اور انتہاپسند اور روشن خیالی کی کش مکش میں جھونک دینا ہے۔
ان سارے نتائج کو بھگتنے کے بعد قوم بیدار ہوچکی ہے اور عوام، وکلا، طلبہ اور سول سوسائٹی نے ماضی کی پالیسیوں کو ترک کر کے ایک حقیقی جمہوری انداز میں دستور اور قانون کی مکمل پاس داری کرتے ہوئے اور ملک کی آزادی، عزت اور تہذیبی شناخت کے مطابق نئی پالیسیوں کی تشکیل اور ان کی روشنی میں اجتماعی زندگی کی تعمیرنو کا عزم کیا ہے۔ ان حالات میں امریکا کی سفارتی یلغار اور فوجی اقدام کی دھمکیوں کے اصل مقصد اور اہداف کو سمجھنا، اور ان کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔ امریکا دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ ہار چکا ہے اور اس وقت دنیا کے کسی بھی حصے میںاس کی پالیسی کی تائید موجود نہیں۔ امریکا نے معاشی اعتبار سے بھی ایک بھاری قیمت ادا کی ہے، اور گذشتہ ایک سال میں بقول اکانومسٹ چار بحرانوں نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا ہے، یعنی:
تعمیر مکانات میں مندی، قرضوں کا کمرتوڑ بوجھ، غذائی اشیا اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور ایک کمزور ہوتی ہوئی لیبرمارکیٹ۔ مارچ میں بے روزگاری کی شرح ۱ئ۵ فی صد تک بڑھ گئی، جب کہ نجی شعبے میں مسلسل چار مہینوں تک ملازمتوں میں کمی واقعی ہوئی۔ (دی اکانومسٹ، لندن،۱۲ اپریل ۲۰۰۸ئ)
ان حالات میں امریکا کی دھونس میں آکر کسی ایسی پالیسی سے بچنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جس کے نتیجے میں مندرجہ بالا پانچوں نقصانات ہمارا تعاقب کرتے رہیں گے۔ خارجہ پالیسی پر بنیادی نظرثانی اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ سے باعزت بے تعلقی ہمارے ملک میں استحکام، قومی مفاہمت، جمہوری استحکام اور دستور اور قانون کی بالادستی کے لیے ضروری ہے۔ اس کے لیے پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کی ریشہ دوانیوں سے بھی نمٹنا ضروری ہے۔ اس لیے کہ امریکا ایک طرف نئی حکومت کو اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کررہا ہے تو دوسری طرف حکومت پر دبائو ڈالنے کے لیے پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کے کردار کو جاری رکھنے کے لیے بھی ہرممکن کوشش کر رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کو سمجھ لینا چاہیے کہ دو کشتیوں میںسواری ایک فعلِ عبث ہے۔ اسے یکسو ہوکر جمہوریت اور عوام کے مینڈیٹ کے مطابق پالیسی سازی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اسی میں ملک و ملّت کی فلاح ہے اور یہی خود پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے بہترین مفاد میں ہے۔ امریکا کی حالیہ دھمکیوں، سفارتی ترک تازیوں اور معاشی امداد کی گنڈیریوں کے بارے میں ہم صرف اتنا ہی کہنا چاہتے ہیں کہ:
مشتری ہوشیار باش!