نام ور عرب محقق پروفیسر مصطفی محمد الطحان کتاب الفکرالاسلامی الوسط کی اصل فکر امام حسن البنا شہید (التعالیم) کی ہے۔ حسن البنا شہید ’اخوان المسلمون‘ کے بانی تھے اور اُمتِ مسلمہ کے لیے دلِ دردمند رکھتے تھے۔ انھوں نے اخوان المسلمون میں بیعت کے لیے ۱۰ ارکان (فہم، اخلاص، عمل، جہاد، قربانی، اطاعت، ثابت قدمی، یکسوئی، اخوت اور اعتماد) بیان کیے ہیں۔ پروفیسر الطحان نے ان ۱۰ ارکان کو شرح و بسط کے ساتھ اپنی کتاب میں بیان کیا ہے اور ان تمام مباحث میں قرآن و حدیث کو بنیاد بنایا ہے اور جہاں ضرورت محسوس کی ہے وہاں سیرت النبیؐ اور سوانح صحابہؓ سے بھی مثالیں پیش کی ہیں۔ دورِحاضر کے مسلمان اپنی زندگی کے دروبست کی درستی و اصلاح کے لیے اس کتاب سے ایک متوازن فکر اپنا سکتے ہیں۔
مولانا گل زادہ شیرپائو نے کتاب مذکور کا ترجمہ شُستہ اور رواں انداز میں کیا ہے، نیز جہاں ضرورت محسوس کی ہے وہاں پاورق میں بعض ضروری امور کی وضاحت اور اضافے بھی کیے ہیں۔ اس اہم کتاب کے ترجمے سے نہ صرف اخوان المسلمون کی تحریک اور اس کے بانی کی فکر سے آگاہی ہوتی ہے بلکہ اس نہج پر چلنے والوں کی فکری رہنمائی بھی ہوتی ہے، نیز خالص اسلامی فکر کی نمایندہ تحریکوں کے درمیان ربط و ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت اور اہمیت و افادیت کا احساس ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ دورِحاضر کی منتشر خیالی کے سیلاب کو روکنے کے لیے ایک متوازن اور معتدل فکر اپنانے میں یہ کتاب صحیح سمت میں رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)
ظلم اور مظلومیت، آفت اور بے سروسامانی، جنگ اور تباہی انسانی زندگی کے وہ کرب ناک پہلو ہیں، جن سے بظاہر فرار ممکن نہیں ہے۔ مگر ان تمام صورتوں میں متاثرین کی دست گیری اور سہارے کے لیے بعض افراد اور ادارے ایسی بے لوث خدمت انجام دیتے ہیں کہ انھیں بے ساختہ محسن کہا جاتا ہے۔ سرکاری انتظام سے ہٹ کر جو ادارے یہ کارہاے نمایاں انجام دیتے ہیں، انھیں غیر سرکاری تنظیمیں، رضاکار تنظیمیں یا نان گورمنٹل آرگنائزیشنز (NGO's) کہا جاتا ہے۔
ان این جی اوز میں سے بعض تو فی الواقع انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار، خیر النّاس من ینتفع الناس پر عمل پیرا ہیں۔ لیکن بعض این جی اوز خدمت کے نام پر ہمہ وقت عالمی سامراجی طاقتوں کے تزویراتی مفادات کے حصول کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ ایسی تنظیموں کو نہ صرف سامراجی چھتری میسر ہے بلکہ بے حد و حساب مالی وسائل اور دیگر سہولتیں بھی ان کے لیے مختص ہیں۔ یہ تنظیمیں مسلم دنیا میں لادینی تہذیبی یلغار کے ہراول دستوں کا کام کررہی ہیں۔
مگر اسی جہان رنگ و بو میں دوسرا منظر یہ ہے کہ مسلمانوں کی رفاہی رضاکار تنظیموں پر مغربی اور مشرقی سامراجیوں نے نہ صرف عرصۂ حیات تنگ کر رکھا ہے، بلکہ ان کے فنڈ منجمد کرنے، ان کے رضاکاروں کو ہراساں کرنے اور انھیں قید اور جلاوطن کرنے کے ساتھ، عطیات دینے والے افراد تک کو ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اسی پر اکتفا نہیں، بلکہ ان خدمت گار تنظیموں کو نام نہاد دہشت گردی کا مددگار بھی کہا جا رہا ہے۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ اس گھٹیا مقصد کے لیے خود اقوام متحدہ کو آلۂ کار بنانے سے بھی دریغ نہیں کیا جا رہا۔
زیرتبصرہ کتاب میں ڈاکٹر سلومی نے بڑی محنت کے ساتھ مغربی دنیا کے دہرے معیار کو بے نقاب کیا ہے اور مسلم دنیا کی رفاہی رضاکار تنظیموں کی سرگرمیوں اور ان سرگرمیوں کے خلاف مغربی ریاستی پابندیوں کے استحصال اور ظالمانہ اقدامات پر مبنی رویوں کو گہرے تحقیقی مطالعے کے ساتھ پیش کیا ہے۔ بوسنیا، کوسووا، افریقہ، ایشیا اور خاص طور پر فلسطین میں متحرک اسلامی رفاہی تنظیموں کی قربانیوں اور اَن تھک جدوجہد کا بہترین ریکارڈ پیش کیا ہے۔ لیکن معلوم نہیں کہ کس وجہ سے فاضل مصنف نے بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنے والوں کا تذکرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔ یہ اس کتاب کی ایک بڑی خامی ہے۔ اگرچہ بعض مقامات پر مصنف کے نقطۂ نظر میں اختلاف کی گنجایش موجود ہے۔ یہ کتاب مسلم رضاکار تنظیموں پر اعتماد کوپختہ کرتی ہے اور حالات کی سنگینی کا احساس بیدار کرتی ہے، تاہم معروف صحافی محمدیحییٰ خاں نے اسے انگریزی سے اُردو کے رواں اور عام فہم قالب میں ڈھالا ہے۔ انسانی خدمت کے کسی بھی دائرے میں متحرک فرد کے لیے یہ مفید مطالعہ ہے۔ (سلیم منصور خالد)
علامہ محمد اقبال فکروفن پر ۱۱ مقالات کا یہ مجموعہ اقبال اکادمی نے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی ’تقدیم‘ کے ساتھ شائع کیا ہے۔ پروفیسر ملک انگریزی زبان و ادب کے استاد اور کشمیر یونی ورسٹی سری نگر میں شعبۂ انگریزی کے صدر ہیں۔ وہ عربی اورفارسی زبانوں پر بھی بہت اچھی دسترس رکھتے ہیں۔ ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ Iqbal and English Romantics بھی اقبالیات پر ہے۔
زیرنظر کتاب میں اقبال کی شاعری اور فکر کا مطالعہ مختلف جہتوں اور زاویوں سے پیش کیا گیا ہے: اقبال کی عظمت کا راز، اقبال کے مذہبی افکار کی معنویت، اقبال اور ملتِ اسلامیہ کا احیاے نواور اقبال کا قرآنی انداز فکراقبال کے چند نہایت اہم موضوعات ہیں۔ بعض مضامین میں شخصیات کے حوالے سے تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے: اقبال اور شاہِ ہمدان، اقبال اور ورڈز ورتھ۔ بعض مضامین غزلوں اور نظموں کے تجزیے پر مشتمل ہیں (ذوق و شوق، بزم انجم، محاورہ مابین خدا و انسان)۔ دو مضامین (اقبال کے پسندیدہ اصنافِ شعر، بانگِ درا کی غزلیں)سے اقبال کے شعری فن کی بوقلمونی کا اندازہ ہوتا ہے۔
مصنف نقد و انتقاد میں اسلامی اور مشرقی فکروادب کے ساتھ ساتھ مغربی علوم کی صالح روایات کو بھی بروے کار لائے ہیں۔ ان کی آنکھ سرمۂ افرنگ کی بجاے خاکِ مدینہ سے روشن ہے۔ مصنف نے اقبال کے ان معترضین کا مدلل اور مُسکت جواب دیا ہے جنھیں اقبال کی اسلامیت پر اعتراض ہے۔ انھوں نے ثابت کیا ہے کہ اقبال ایک ایسا مفکر ہے جو دین فطرت کی بنیادوں پر عالمِ انسانیت کا ہمہ گیر ارتقا چاہتا ہے۔ متوازن اور عالمانہ افکار کا یہ مجموعہ ذخیرئہ اقبالیات میں ایک بیش قیمت اضافہ ہے۔(حمیداللّٰہ خٹک)
پاکستان کی سلامتی کا راز انصاف کی بالادستی میں ہے، یہی رب تعالیٰ کا حکم ہے اور یہی پاکستانی قوم کی اُمنگ ہے۔ زیرنظر کتاب میں اقبال ایس حسین نے حالیہ برسوں میں درپیش اُن چیلنجوں کاجائزہ لیا ہے جن کی بدولت پوری قوم ذہنی اضطراب میں مبتلا ہوچکی ہے اور آزمایشوں کا ایک سلسلہ ہے جو مسلسل منظرعام پر آتا رہتا ہے۔
اگرچہ مصنف کی نصف درجن سے زائد کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں اور پاکستان و بیرون پاکستان میں مقبولیت حاصل کرچکی ہیں، تاہم زیرتبصرہ کتاب میں خالصتاً پاکستان، پاکستانی عوام، لال مسجد، سپریم کورٹ، عوامی سیاست، مذہبی جکڑبندی اور حکمرانوں کے کردار کا جائزہ لیا گیا ہے۔ حکمرانوں کو ان اقدامات کے نقصان کا صحیح اندازہ نہیں ہے، ورنہ وہ سپریم کورٹ کے ججوں، عدالتوں کے وکلا، قبائلی علاقوں کے زُعما اور سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو یک قلم منظر سے ہٹانے کی جسارت نہ کرتے۔
جنرل ایوب خان کے خلافِ آئین اقدامات کا جائزہ لینے کے بعد جنرل پرویز مشرف کے غیرقانونی اقدامات کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ اگر صدر پاکستان نے امریکی اشارے پر اپنے ہی عوام پر گولیاں نہ برسائی ہوتیں اور سپریم کورٹ کے ججوں کے ساتھ، پنجہ آزمائی نہ کی ہوتی تو اُس خلفشار سے بچ سکتے، جس نے اُنھیں عوام الناس میں یکسر غیرمقبول بنا دیا۔
اس کتاب کا ایک خاص پہلو قانون دانوں اور طبقۂ وکلا سے متعلق ہے، جس میں انتہائی جان دار انداز میں وکلا کی تحریک کا جائزہ لیا گیا ہے اور اُن قانونی نکات کی وضاحت کی گئی ہے جو شہریوں کو، عدالتوں کو اور ججوں کو بھی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ مصنف کا موقف ہے کہ اخلاقی گراوٹ کا سب سے بڑا مظاہرہ ججوں کو برطرف کرکے کیا گیا، اس کتاب کے کئی نکات سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے، تاہم مجموعی طور پر پاکستانی سیاست کے پیچ و خم سمجھنے میں اس سے غیرمعمولی مدد لی جاسکتی ہے۔ (محمد ایوب منیر)
پروفیسر سید محمد سلیم (۱۹۲۳ئ-۲۰۰۰ئ) اپنی ذات میں ایک جہانِ علم ودانش تھے۔ ان کی حیات ہمہ پہلو کمالات کا مجموعہ تھی۔ ان کی زندگی تعلیم و تعلم کے میدان میں گزری۔ تعلیم پر انھوں نے بڑا وقیع تحریری سرمایہ چھوڑا ہے جس میں زیرتبصرہ کتاب ایک ایسی کتاب ہے جس کا اُردو میں کوئی ثانی نہیں۔ نو ابواب پر مشتمل اس کتاب میں مغربی فلسفۂ تعلیم کا عمیق مطالعہ اور اس کے اثرات کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ یورپ کا کلیسائی معاشرہ، مسلکِ لادینیت کا آغاز، لادینی نظریات کی فتوحات، لادینیت کا فکری نظام، لادینی نظریات میں تزلزل، لادینی تحریک تعلیم گاہ میں، مغربی نظام تعلیم کی اقدار مقاصدِتعلیم اور دورِ جدید اسلام کی برکت ہے۔ پاکستان کے بے ثمر تعلیمی نظام کی اصلاح کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔ یہ اڈیشن پروفیسر سید محمدسلیم اکیڈمی کے زیراہتمام شائع کیا گیا ہے۔ (ملک نواز احمد اعوان)
کہانیاں معصوم ذہنوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ والدین، دادی اور نانی سے سنی ہوئی کہانیاں ذہن پر گہرا نقش چھوڑتی ہیں۔ اسکول کے ابتدائی برسوں میں بچہ سب سے زیادہ کہانیوں پر توجہ دیتا ہے۔ مسلم گھرانوں میں اس پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے کہ شہزادوں، شہزادیوں کی کہانیاں بھی اخلاقی پیغام رکھتی ہوں۔
محترمہ نصرت محمود نے آسان انگریزی میں ابتدائی جماعتوں کے بچوں کے لیے مختصر کہانیاں تحریر کی ہیں۔ ان کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ قرآن کریم میں جن جانوروں کا ذکر آیا ہے، اُن کے حوالے سے کہانی تشکیل پاتی ہے۔ اخی اور سارہ نامی بچے ان سے ملتے ہیں۔ وہ جانور، اپنے الفاظ میں اپنی کہانی سناتے ہیں اور یہ کہانی کسی نبی ؑکی زندگی کے حالات سے جڑ جاتی ہے۔ مچھلی اپنی کہانی سناتی ہے تواسی دوران میں حضرت یونس علیہ السلام کا تذکرہ تفصیلاً بیان کردیا جاتا ہے۔ مصنفہ نے کوشش کی ہے کہ قرآنی تفصیلات تک ہی محدود رہیں، مثلاً دائود علیہ السلام کے بارے میں عہدنامۂ قدیم و جدید میں جو تفصیلات ملتی ہیں، اُن کو کہانی میں شامل نہیں کیا گیا۔
تین حصوں پر مشتمل اس سیریز کے ذریعے ۳۰ جانوروں اور حشرات کا تذکرہ اس طرح کیا گیا ہے گویا دادی اماں، چھوٹے بچوں کو کہانی سنا رہی ہوں۔ طباعت کا معیار عمدہ ہے اور حسبِ موقع جانوروں کی تصاویر بھی دی گئی ہیں۔ بچوں کے لیے یہ انگریزی باتصویر کہانیاں ایک خوب صورت تحفہ ہیں۔ (م - ا - م)
مغرب نے ہماری تہذیب کے قلعے، ہمارے گھر پر نقب لگائی بالخصوص خواتین کو اسلام سے بدظن کرنا ہدف بنایا مگر عجب اتفاق ہے کہ آج مغرب میں قبولیت اسلام کا زیادہ رجحان خواتین میں پایا جاتا ہے، اور ہمارے ہاں بھی خواتین اسلام میں جذبۂ اسلام کا بھرپور مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے۔ ضرورت ہے کہ خواتین میں تعلیماتِ اسلام کو عام کرنے کے لیے عام فہم، دل چسپ اور ایمان افروز لٹریچر تیار کیا جائے۔ اشاعت کی دنیا میں دارالسلام آج ایک معیار کی حیثیت رکھتا ہے۔ زیرتبصرہ کتاب ادارے کی ایسی ہی ایک کاوش ہے۔ مسلم خواتین کے بارے میں احادیث اور تاریخ و سیر میں آئے واقعات، نیز آج کل کے ایمان افروز واقعات کو، جن میں خواتین کی پرہیزگاری، ذہانت اور بہادری ظاہر ہوتی ہے، جمع کر کے دل کش پیرایے میں فراہم کیا گیاہے۔ کُل ۱۰۲ واقعات ہیں۔ مطالعہ کرنے والے کو کچھ عربی بھی آتی ہو تو وہ صحیح معنوں میں لطف اندوز ہوگا۔ واقعات کی پیش کش میں موضوعاتی ترتیب ملحوظ رکھی جاتی تو زیادہ مناسب ہوتا۔ طباعت کا اعلیٰ معیار، ہر صفحہ آرٹ پیپر، ہر صفحہ رنگین پھول دار حاشیوں سے مرصع، یہ کتاب ۴۰۰ روپے میں بھی سستی لگتی ہے۔ سنہرے اوراق کے بعد سنہری کرنیں، امید ہے کہ یہ سنہری سلسلہ جاری رہے گا۔ (مسلم سجاد)