بیسویں صدی کی مسلم دنیا میں مختلف محاذوں پر اہل علم نے جو کارنامے انجام دیئے، ان کی اہمیت کے پورے احساس کے ساتھ، ان تمام کوششوں میں برصغیر میں اُبھرنے والی فکری انقلابی تحریک جس کی قیادت علامہ اقبال اور سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے کی، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ جمال الدین افغانی(۱۸۳۸ء-۱۸۹۷ء)، محمد عبدہٗ (۱۸۴۹-۱۹۰۵ء)،امیر شکیب ارسلان (۱۸۶۹ء-۱۹۴۶ء)اور سیّد احمد خان (۱۸۱۷ء-۱۸۹۸ء)نے اپنے اپنے شعبے میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں ،لیکن ان کے اثرات اپنے دائرہ کار تک محدود رہے۔
علامہ اقبال، حسن البنا اور سیّد مودودی کی اجتہادی فکر اور دعوتی قیادت نے دعوتِ فکر کوایک منظم عملی تحریک اور منصوبۂ اصلاح میں تبدیل کیا۔ جس کے اثرات ایشیا، یورپ، افریقہ، لاطینی امریکا اور شمالی امریکا وغیرہ میں نہ صرف رجالِ کار کی شکل میں بلکہ دعوتی اداروں اور تحریکات کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ علّامہ اقبال، حسن البناء، سیّد قطب اور سیّد مودودی کی تحریریں دُنیا کی ۴۵ سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہوکر دُنیا بھر میں پھیل چکی ہیں۔ یہاں پر ان تحریروں کے اثرات کا جائزہ مقصود نہیں ہے، بلکہ صرف یہ اشارہ کرنا ہے کہ ان کی فکر کے زیر اثر مسلم دنیا میں اسلامی احیاء کے کن زاویوں پر کام ہوا اور کن پر کام کی ضرورت ابھر کر سامنے آئی۔
مسلم دنیا میں کسی بھی احیائی کام کے لیے اس بات کی ضرورت تھی ،اور آج یہ بہت زیادہ بڑھ گئی ہے کہ مغربی فکر کو جسے ’عالم گیریت‘ کے عنوان کے تحت بہت سلیقے اور چابک دستی کے ساتھ پوری مسلم دنیا میں نظامِ تعلیم، سیاسی اداروں، عدالتی نظام اور دفاعی نظام کے ذریعے مسلط کیا گیا اور نتیجتاًمسلم تہذیب اور مسلم معاشرت اس کا پہلا ہدف قرار پائے ۔ما بعد جدیدیت کے دور میں فکرِمودودی نے پہلا اہم کام الحاد، مادیت ،یورپی ثقافت کے عالم گیریت کے نام پر سامراجی حاکمیت کی شکل میں مسلم ممالک میں رائج کیے جانے کاتنقیدی محاکمہ کیا۔ پھر سرمایہ دارانہ ، ملحدانہ اور اشتراکیت پر مبنی تصورات کا علمی رَدّ کے ساتھ اسلامی نظامِ حیات کو بطور بہتر اور اعلیٰ متبادل کے پیش کیا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم دنیا میں ایک فکری انقلاب ،توحیدی فکر کی شکل میں مغرب کے پیدا کردہ عصری، معاشرتی، سیاسی اور معاشی مسائل کا متبادل حل پیش کرے۔ اس کا فکری معیار وہ ہو جو مغربی فکری سحر کو توڑ کر اسلامی فکر و تہذیب کے خط و خال کو عرق ریزی کے ساتھ پیش کرتا ہو۔
ڈھائی سو سال کی ذہنی ،سیاسی، ثقافتی اور صحافتی غلامی نے مسلم ممالک کی آبادیوں کے ذہنوں کو اس طرح یورپ کے فکری سانچے میں ڈھال دیا ہے کہ آج ہر وہ قدر جو یورپی سند رکھتی ہو، عالمی طور پر ترقی کا پیمانہ سمجھی جاتی ہے۔ بڑی واضح مثال برطانیہ کے دو پیشہ ورانہ ادارے یعنی Times کی Ranking علمی درجہ بندی اور دوسرا Q.S (کوالٹی سسٹم)کی درجہ بندی ہیں ،جو نہ صرف مسلم دنیا بلکہ عملاً ان تمام ممالک میں جن پر یورپی سامراج کے اثرات رہے ہیں اور ہیں، وہ ان کی جامعات کی درجہ بندی کرتے ہیں۔ اس کی بنیاد پر اور یونی ورسٹیوں میں طالبانِ علم داخلہ لینے کی دوڑ میں شامل ہوتے ہیں۔جو پیمانے انھوں نے بنا دیئے ہیں وہی طے کرتے ہیں کہ کون سی جامعہ ترقی کر رہی ہے اور کون سی جامعہ رُوبہ زوال ہے؟ ایسے ہی HDI (ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس)جو یہ طے کرتے ہیں کہ انسانی زندگی کس معیار کی ہے اور خود انسان کتنے ترقی یافتہ ہیں؟ اس کا پیمانہ یہ ممالک اور ان کے دانش ور نہیں بلکہ مغرب طے کرتا ہے ۔ حتیٰ کہ اگلی صدی میں جن ممالک اور قوموں کو زندہ رہنا ہے یا رہنے کا حق نظری طور پر ملنا چاہیے۔ ان کے ۱۷ معیارات SDG's (سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز)بھی یورپ اور امریکا متعین کرتا ہے ۔جس کی بنیاد پرنہ صرف مسلم ممالک بلکہ پوری دنیا کے نظامِ تعلیم کو پڑھایا جائے گا ، خواتین کے حقوق کون سے ہوں گے؟ وہاں کا سیاسی نظام کس قسم کا ہو گا؟ غرض ان کی قومی ضروریا ت وہ ممالک نہیں بلکہ مغرب طے کر کے دیتا ہے اور ان ممالک کا کام صرف ان اہداف کے حصول کے لیے اپنے تمام وسائل کا لگا دینا ہے۔
یہی شکل نام نہاد انسانی حقوق کی ہے ۔ انسانی یا حیوانی حقوق (ہم جنسیت کا ریاستی سطح پر جائز اور قابل قبول طرز عمل ہو نا)مغربی سامراجی ادارے طے کرتے ہیں ، چنانچہ ان SDG'sکا نعرہ بھی اقوام متحدہ کے نقارخانے میں گونجتا ہے۔ پھر مسلم ممالک میں ان کے زیراثر طاقت ور حلقے فخر سے دعویٰ کرتے ہیں کہ آیندہ ۲۰ یا ۳۰سال میں ہم ان تمام معیارات پر اپنے فکری آقاؤں کی خواہش کے مطابق عمل کرکے اباحیت، مادیت اورعریانیت کا نفاذ اور خاندانی نظام سے نجات حاصل کرنے کے بعد برضا و رغبت مغربی استحصالی ،معاشی اور سیاسی نظام کے جال میں مکمل طور پر پابند سلاسل ہونے کا اعزاز حاصل کر لیں گے۔ اس بات کو دُکھ کے ساتھ نہیں بلکہ فخر اور خوشی کے شادیانوں کے ساتھ سربراہانِ ممالک اور وزرائے بے اختیار اپنے بیانات میں پے درپے بیان فرماتے ہیں۔لیکن اللہ کی مشیت ان کے تمام منصوبوں سے بر تر ہے___ان شاء اللہ، مسلم ممالک کے باشعور نوجوان اس خواب کو کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے دیں گے۔
یہ وہ بنیادی کام ہے جس کے بغیر تمام سیاسی سرگرمیاں، جلسے، جلوس اور عوامی مقبولیت کے دعوے اور مظاہرے بے معنی ہیں۔ اسلام کا تصورِ علم وحی کی صداقت، کاملیت، عملیت اور عالم گیریت پر مبنی ہے۔ یہاں علم نہ محض تجرباتی ہے، نہ محض قیاسی، نہ محض استقرائی یا استخراجی ،اور نہ صرف حسی تجزیاتی یا وجدانی، بلکہ ان تمام معروف اور رائج ذرائع علم سے ماورا،صدق ،حق ،علم نافع اور معروف پر مبنی وہ علم ہے،جو وقت اور مکان کی قید سے آزاد اور انسانی فطرت اور مقصد حیات اور مقاصد شریعت کی بنیاد پر اصلاح، ترقی اور سعادت و کامرانی کی ضمانت دیتا ہے۔
جب کہ مروجہ علم کی تقسیم یہ ہے کہ علم دنیاوی چیز ہے۔ چنانچہ انجینئرنگ، میڈیکل اور دیگر شعبہ ہائے علم دنیاوی سمجھے جاتے ہیں، جو روزی کمانے کے لیے ہیں۔ ان کے برعکس یہ تصور کیا جاتا ہے کہ دینی علوم قرآن و حدیث، فقہ، کلام وغیرہ کا تعلق تو صرف روحانی بالیدگی کے لیے ہے۔ یہ ایک سخت غیر اسلامی تقسیم ہے جو مسلم دنیا میں صدیوں سے رائج ہے۔ وحی الٰہی قرآن کریم کی شکل میں ہو یا اس کی تطبیقی شکل میں سنت رسولؐ کی شکل میں ہو، ہر دو شکلوں میں زندگی کو غیر منقسم اور توحید کا مظہر تسلیم کرتی ہے۔ انسان کی معیشت ،معاشرت ،سیاست ،جنگ و جدل، کائینات میں تحقیق و جستجو ہرشے کو دین کا حصہ اور دین کی رہنمائی پر مبنی قرار دیتی ہے۔ وحی کی کاملیت، جامعیت اور عملیت کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ محراب و منبر تک محدود نہیں ہے بلکہ عدالتیں ہوں یا ایوان نمائندگان یا معاشی منڈیاں اور دانش وروں کے قیاسی محل، ہر انسانی سرگرمی کو وحی الٰہی کے مطابق تشکیل دینا اور اسلام کو ’نظریہ‘ کی جگہ ’نظام‘ سمجھتے ہوئے اس کے نفاذ کے لیے فکر ،جان ، مال کو کھپا دینا ،علمِ نافع کے پیدا کرنے کے لیے تمام ذہنی قوتوں کو صرف کر دینا، دین کا مقصد و مدعا ہے۔
دینی اور دنیاوی تعلیم کی تقسیم کا تصور دراصل ایک سیکولر تصور ہے کیونکہ سیکولرزم آسان لفظوں میں Dualism یا ثنویت کا نام ہے کہ زندگی کو دوخانوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ ایک خانہ مسجد اور کلیسا کا ہو، اور دوسرا خانہ مارکیٹ، سٹاک ایکسچینج اور پارلیمنٹ کا پھر ان دونوں کا کوئی اتحاد اور امتزاج نہ ہونے پائے۔ اسلامی یا اخلاقی علم اس دو عملی کو توحیدی نظام میں تبدیل کرتا ہے۔ اس لیے علم کی تعریف اور علمِ نافع کا حصول اور معاشرے میں مختلف جہتوں میں عملی ترقی، جب تک توحید ی تصورِ علم کے مطابق نہیں ہوگی، نہ ہم ذہنی غلامی سے نکل سکتے ہیں اور نہ اللہ کی حاکمیت تمام شعبوں پر قائم کر سکتے ہیں۔
مسلم دنیا کے مقتدر طبقے اسلام کو نظریہ تو مانتے ہیں، نظام نہیں مانتے۔ وہ حرم کعبہ کی طرف جاتے وقت اللہ اکبر، لا اِلٰہ اِلَّا اللہ اور لہ الحمد ولہ الملک کا اعلان تو بلند آواز میں کرتے ہیں، لیکن بادشاہتوں اور سودی تجارتی منڈیوں اور بنکوں کے بغیر زندگی کو نامکمل بھی سمجھتے ہیں۔اس لیے اسلام کو بطور نظامِ حیات سمجھنے اور کم از کم اپنی ذاتی اور گھریلو زندگی میں نافذ کر کے اس کی عملیت کا ثبوت پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام صرف ایسی نوجوان نسل کرسکتی ہے، جس کے خون میں ایمان کی حرارت ہو اور نسل پرست سفید فام یورپی سامراجیت کی غلامی سے اس کا ذہن اور روح پاک ہو چکی ہو۔ الحمدللہ، آج ایسے سیکڑوں نہیں لاکھوں نوجوان مسلم اور غیر مسلم دنیا میں موجود ہیں، اور یہی اسلام کی نشاتِ ثانیہ یعنی زوال سے عظمت کی سمت کے سفر کا ذریعہ بنیں گے، ان شاءاللہ ۔
مسلم دنیا میں مساجد اس وقت سرکاری ،لادینی نظام یا نظام بادشاہی کی صدائے بازگشت کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ ملایشیا ہو یا ترکی یا کچھ اور، نام نہاد مسلم ممالک مطبوعہ سرکاری خطبہ جس میں آج تک سلطان کو ظلِ اللہ کا درجہ دیا گیا ہے،عوام الناس کے سامنے سنا دیا جاتا ہے۔ ان تمام مساجد میں حلقۂ غور و فکر قائم کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ تعلیم یافتہ افراد کے ساتھ عوام میں بھی دین کے نظریے کی جگہ نظامِ تربیت ہونے کا تصور واضح کیا جا سکے اور زمامِ کار کی تبدیلی کے لیے افرادی قوت کو فکری تطہیر و عملی تنظیم کے ذریعے یکجا کیا جائے ۔
عوامی اجتماعات اور ’عوامی قوت‘ کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ایک نظریاتی تحریک اور ایک عوامی تحریک میں بنیادی فرق ہے۔تحریکات اسلامی کی اصل پہچان ان کی سیرت و کردار کی اثر انگیزی ہے، کثرت تعداد نہیں۔قرآن کریم نے ۲۰صابرین کو ۲۰۰ گمراہ افراد پر غالب قرار دیا ہے، یعنی اصل قوت تقویٰ، صبر، استقامت اور توکل علی اللہ کی ہے، عددی اکثریت کی نہیں۔اسلامی احیاء کے لیے اصول بھی قرآنی ہی ہوں گے۔ کسی مقام پر کسی سیاسی جماعت کے کامیاب ہو جانے سے ایک اصول وجود میں نہیں آتا۔ اصول و صداقت وہ ہے، جو قرآن و سنت کے نصوص پر مبنی ہو۔تحریکات اسلامی کو اپنی علمی ،سیرت و کردار اور عصری مسائل سے آگاہی کے ساتھ ان کے قابلِ عمل اسلامی حل انسانوں کے سامنے پیش کرنے ہوں گے۔
یہ کام محض دعوے سے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے طویل المیعاد منصوبہ بنا کر مالی وسائل فراہم کرنے اور افرادی وسائل کی تلاش و تیاری کی ضرورت ہے ۔ایسے افراد کار کی تیاری جو قرآن و سنت، فقہ اور جدید علمی رجحانات پر عبور رکھتے ہوں اوران میں تخلیقی صلاحیت ہو۔ جب تک ایسے افراد کی ایک جماعت زندگی کے ہر شعبے میں تیار نہ ہوجائے، تحریکات اسلامی مطلوبہ تبدیلی نہیں لاسکتی ہیں۔ خواہشوں سے زیادہ ٹھوس انسانی وسائل کی تیاری تحریکات کا ہدف ہونا چاہیے ۔ یہ کام وہی کرسکتے ہیں جو مستقلاًحصولِ علم اور تحقیق کے عادی ہوں۔شہرت کی جگہ گوشہ نشینی کے ساتھ اس علمی جہاد کے ذریعے معاشرے کے عام انسانوں کو اسلام کے عظیم پیغام کے عملی پہلو سے متعارف کرا سکتے ہوں۔
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ لادینیت اور مغربیت کے فروغ کے باوجود مسلم دنیا اور خصوصاً پاکستان میں دینی مدارس کے ذریعے تعلیم پانے والے مدرسہ کے مسلک سے وابستہ طلبہ غیرشعوری طور پر اپنے مسلک کو راجح اور دیگر مسالک کو مشتبہ تصور کر لیتے ہیں۔ یہ بنیادی کام ہے کہ دین کی اس وسعت کو جس میں شور یٰ کی فرضیت نے تبادلۂ خیالات،مشاورت، بحث و مباحثہ اور تقلید ِجامد کو توڑنے کی راہ پیدا کی ہے، اس کا شعور عام کیا جائے۔ اس بات کو آگے بڑھایا جائے کہ صرف قرآن و سنت کے براہِ راست فہم سے عصری مسائل پر اظہارِ خیال کیا جائے، تاکہ آہستہ آہستہ مسلکی ذہنی جمود سے نکالا جاسکے۔ درحقیقت ملت اسلامیہ کی بنیاد پر اتحاد قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر اور غزہ اور فلسطین میں کوئی دشمنِ اسلام کسی کا مسلک نہیں پوچھتا ، صرف مسلمان ہونا اس کے شہید کیے جانے کے لیے کافی ہوتا ہے ۔
یہ کام صرف تحریکات اسلامی ہی کر سکتی ہیں کیونکہ وہ اپنی اپنی جگہ فقہی رہنمائی حاصل کرنے کے باوجود، وسیع تر دائرے میں اپنے آپ کو اُمت سے وابستہ سمجھتے، قرار دیتے اور عملاً چل کر دکھاتے ہیں۔وہ نہ مولانا مودودی اور نہ شہید حسن البنا کو، امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام مالک اور امام احمد بن حنبل کے مترادف قرار دیتی ہیں، اور نہ تحریکات اسلامی کے ان داعیوں نے اپنی رائے کو تحریک پر نافذ کرنے کی کوئی کوشش یا مثال قائم کی ہے۔
دلوں کو جوڑے بغیر اور مسلکی فاصلوں کو کم کیے بغیر، کوئی اصلاحی عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تحریکی افراد خود فقہ کا تقابلی مطالعہ اور خصوصا ً رواس قلعجی کی موسوعة فقہ الاسلامی جس کا ترجمہ اردو میں ہوچکا ہے، اس کا سبقاً سبقاً مطالعہ کیا جائے تاکہ وہ توسیع فکر پیدا ہو جو تحریکات اسلامی کا خاصہ ہے ۔
تحریکات اسلامی کی نوجوان قیادت کو اپنے اپنے دائر کار سے نکل کر عالمی تناظر میں رُوبہ زوال مغربی تہذیب کا براہِ راست تحقیقی مطالعہ کرنا چاہیے اور اسلامی تحریکات کے آیندہ ۲۵برسوں میں جو فکری اور عملی تقاضے اور محاذ سامنے آنے والے ہیں ، خصوصاً برقی ابلاغ عامہ اور مصنوعی ذہانت (AI)کے کثرت سے استعمال کو سامنے رکھتے ہوئے طریقِ دعوت، دعوتی مواد اور داعی کی مطلوبہ شخصیت و کردار کے حوالے سے حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔بعض عوامل مشترک ہیں اور بعض مخصوص ہیں، جو مشترک ہیں ان میں تعاون اور ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنا اور ان کو تسلیم کرنا ہی تحریکی حکمت عملی کا مطالبہ ہے۔
مختلف مقامات پر حالات اور مقامی تناظر میں حکمت عملی کا فرق ایک فطری عمل ہے جسے نظر انداز کرنا بھولپن ہے۔ اس لیے ایک مقام کی حکمت عملی کو دوسری جگہ آنکھیں بند کرکے اختیار کرنا بھولپن ہی نہیں حماقت بھی ہوگا، ایسے بھولپن کی بنا پر خصوصاً نوجوان کارکن ، تیونس اور ترکی کی مثال بطورِ تقلید بغیر کسی تحقیقی مطالعے کے پیش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر ان خطوط پر کام کیا جائے تو تحریک جلد اپنا مقصد حاصل کر لے گی ۔ یہ تصور ، عقلی اور تحریکی دونوں زاویوں سے سخت نظرثانی کا مستحق ہے ۔ حقائق وہ نہیں ہیں، جو تخیل و تصور میں قیاس کرلیے گئے ہیں۔
تحریکات اسلامی کو ردعمل کی ذہنیت سے نکلنا اور جاہلیت کے منابع کو سمجھ کر ان سے خطاب کرنا ہوگا۔ اس طرح ایک صحت مند مکالمہ جو قرآنی مطالبہ ہے، انھی شرائط پر کرنا ہوگا۔ بعض مسلم ممالک نے مغرب کی نقالی میں جو کوششیں کی ہیں، وہ سخت معذرت پسندانہ رویے کی مظہر ہیں۔اسلام کے واضح اور ابدی اصولوں پر مبنی دینی، عملی، معاشرتی، معاشی، سیاسی مسائل کو مخاطب کرتے ہوئے مکالمہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جس میں بغیر کسی معذرت خواہی کے جہاد، خواتین کے حقوق ، جنسی بے راہ روی، اسلامی ریاست اور پاپائیت پر مبنی عیسائی تصور وغیرہ پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ عالمی آبادی کا پھیلاؤ ، موسمی تغیرات، معاشی اور دفاعی حکمت عملی، مظلوم مسلم اقلیات اور مظلوم مسلم اکثریتی عوام کے مسائل پر زمینی حقائق کی روشنی میں تبادلۂ خیال کیا جائے تو نظر آئے گا کہ جتنی مسلم دنیا میں مسلم آبادی مظلوم اور بے بس ہے، شاید اس سے کچھ کم وہ ان نام نہاد جمہوری ممالک میں نہیں ہے جو اپنے لبرل اور جمہوری ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود اپنی نسلی قوم پرستی کی بنا پر وہ مغربی آٹھ بڑے قبیلے ہوں(گروپ آف جی ۸) یا ۲۲ ممالک کا اتحاد، دوسروں کو تو چھوڑیں ایک طرف، وہ خود اپنے عوام کو بھی حقوق دینے میں ناکام رہے ہیں جن پر دن رات تقاریر کی جاتی ہیں ۔اس مکالمے کے لیے تحقیقی مواد کی تیاری، موضوعات اور کس وقت کس موضوع کو اٹھایا جائے ،یہ سب کام غور وخوض کے بعد کرنے کی ضرورت ہے اور اس حکمت عملی کی تیاری میں مسلم ممالک کی تحریکی قیادت کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔
گذشتہ پانچ عشروں میں بار بار اس عزم کے اظہار کے باوجود کے بس چند دنوں میں، ملّت کے مفاد کو پیش نظر رکھنے والا چینل وجود میں آجائے گا، آج تک اس کام کو ترجیح کا مستحق نہیں سمجھا گیا۔ آج کا دور بر قی ترسیل کا ہے ۔ڈیجیٹل میڈیا کی طاقت کے استعمال کے بغیر کوئی نظریاتی جنگ نہیں لڑی جا سکتی۔ ایک نہیں دس ایسے اداروں کی ضرورت ہے، جو اسلامی تہذیب و تمدن اور اس کے حرکی واطلاقی پہلو کی دعوت و فکر کے مختلف پہلوؤں کو پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ پیش کرسکیں۔ (کسی حد تک الجزیرہ کی مثال سامنے ہے۔ اس سے قطع نظر کہ وہ کس فکر کا نمایندہ ہے، اس نے اپنا ایک مقام پیشہ ورانہ حیثیت سے منوایا ہے)۔
پہلے ہی بہت وقت ضائع ہوچکا ہے۔ اب مزید گنجایش نہیں ہے اور بغیر کسی تاخیر کے نہ صرف مستقل چینل بلکہ آن لائن بیسیوں چینل اور سوشل میڈیا پر متاثر کن پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ اس کام کو آگے بڑھانا چاہیے۔ اس تعمیری فکر کو عمومی سطح پر نوجوانوں کے لیے ،بچوں کے لیے ، اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے لیے، خواتین کے لیے، تاجروں کے لیے اور دیگر پیشہ ورانہ افراد کے لیے ان کی ضرورت کے پیش نظر مرتب کر کے پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ کام کسی بڑے سرمایے کا محتاج نہیں ،صرف ترجیح اور چند پُرعزم افراد کا اپنے کو اس کے لیے وقف کرنے کی ضرورت ہے۔
تحریکات اسلامی کو اپنی ترجیح میں اولین ترجیح، فکری تطہیر اور تحریکی فکر کے نمائندہ افراد کار کی تیاری کو رکھنا ہوگا۔ تحریک کو عوامی بنانے کی خواہش میں اس اوّلین ترجیح پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ مغرب سے ہمارا مقابلہ محض معاشی اور مادی یا سائنسی تحقیقی میدان میں نہیں ہے، بلکہ اصل مقابلہ فکری، ثقافتی، معاشرتی اور خاندانی سطح پر ہے۔اس کے لیے تحقیق پر مبنی مطالعے کی مسلسل کاوشوں اور ایسی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے، جو تعلیم کو قرآ ن و سنت کی بنیاد پر ایک بالکل نئی متحرک شکل دے سکے۔
کسی اِسلامی تحریک یا نظامِ جماعت کو چلانے کے لیے ذرا مختلف قسم کے اوصاف درکار ہیں۔ اس معاملے میں سرکارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت مقدسہ اور ان کے مسلکِ پاکیزہ کا مطالعہ اوّلین ضرورت ہے۔ بعد ازاں حضوؐر کی پیروی میں حضوؐر کے پروگرام کے مطابق اقامت ِ دین کا کام کرنے والوں کا جائزہ لینا مفید ہوسکتا ہے۔ اِس نقطۂ نظر سے جب مولانا مودودیؒ کے حُسنِ گفتار اور حسنِ کردار کو دیکھتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ شخص اپنے نبیؐ کی مشعل کو بلند کرنے اور اس کے گرد لوگوں کو جمع کرنے کے لیے خاص صلاحیتوں سے نوازا گیا تھا۔
وہ مرکز کے کارکنوں یا جماعت کے رفیقوں یا آنے والے مہمانوں سے ہمیشہ محبت و اعتماد کا معاملہ کرتے تھے۔ یہ کسی کو کبھی محسوس نہ ہوا کہ مولانا اس پر کوئی شک رکھتے ہیں، اس کو ناپسند کرتے ہیں، کسی اور کو ترجیح دے کر اسے محسوس کراتے ہیں کہ ہمارے پاس تو تم سے بہتر لوگ موجود ہیں اور تم بھی اگر اِن جیسا بننا چاہو تو ہماری پسند کی ترازو پر پورے اُترو۔
وہ ہر سوال یا اعتراض یا اختلاف پر تندوتیز بحث کرکے آدمی کو دبوچ نہیں لیتے تھے کہ اس کی جرأت ِ اظہار ہی کچل جائے۔ وہ کبھی اتھارٹی اور اختیار نہیں جتاتے تھے۔ وہ کسی سوال کا جواب یہ نہیں دیتے تھے کہ ’بس یہ ہمارا فیصلہ ہے‘۔ نہیں، وہ بار بار مختلف لوگوں سے مختلف طرز پر استدلال کرتے رہتے، اہلِ علم سے، اہلِ اخلاص سے، اختلاف کرنے والوں سے، دفتر کے کارکنوں سے، معترضین سے۔ اس طرح وہ دلیل کی قوت سے آہستہ آہستہ میدان فتح کرتے چلے جاتے۔ بات کرنے والے کی بات کو کبھی کاٹ کر نہ رکھ دیتے۔ یہ نہ محسوس کراتے کہ یہ ہم پہلے سے جانتے ہیں یا اس پر ہم پہلے بات کرچکے ہیں یا بیان دے چکے ہیں۔
کسی کو یہ بھی نہ کہتے کہ تم کسی سازش کا شکار ہو، تم پر کسی غلط قوت کا اثر ہے، بلکہ ان کا بنیادی طریقِ کار محبت سے تبادلۂ خیال کرنا ہوتا۔ پھر اگر کوئی شخص ساتھی بنتا تو وہ اس پر پورا اعتماد کرتے اور اس کو ایسی ذمہ داری یا ایسا مقام تفویض کرتے کہ وہ ہکّا بکّا نہیں، بلکہ کانپتا رہ جاتا اور درخواست کرتا کہ مجھ سے بہتر آدمی مل سکتے ہیں۔ وہ فرماتے کہ آپ یہ کام کریں تو سہی، شاید آپ ہی موزوں آدمی ثابت ہوں۔ چنانچہ مولانا مودودی کا اعتماد میرے جیسے چھوٹے چھوٹے آدمیوں کو بڑے بڑے کام کرنے کے قابل بنا دیتا۔
اُن کی بڑائی یہی تھی کہ جو اِن کے قریب ہوا، اُس کو انھوں نے احساس دلایا کہ ’تم ایک اہم آدمی ہو‘ اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ آہستہ آہستہ وہ آدمی بلند تر ہوتا چلا جاتا۔
مشاورتوں اور مجالسِ شوریٰ میں وہ نہ تو پہلے سے طے شدہ فیصلہ یا اسکیم یا منصوبہ لے کر آتے اور نہ جملہ ارکان سے الگ پہلے کسی گروپ کو کسی خاص امر کے لیے تیار کرتے، بلکہ صورت ِ حالات کا نقشہ سب سے سننے کے بعد کوئی ایک سوال سامنے رکھ دیتے۔ مثلاً انتخاب میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں اور پہلے سے اپنی طرف سے کوئی رجحان سامنے لائے بغیر تمام رفقا کو آزادانہ اظہارِ خیال کا موقع دیتے، یہاں تک کہ بات نتھر کر کسی ایک رُخ پر آجاتی۔ پھر وہ پھیلے ہوئے الفاظ اور خیالات کو سمیٹ کر سب سے یہ دریافت کرتے کہ کیا آپ کا نقطۂ نظر، یہ اور یہ ہے؟‘ اگر محسوس ہوتا کہ فیصلے کا مرحلہ نہیں آیا ، بلکہ اختلافی رجحانات موجود ہیں تو اجماع و اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے بحث کے خاص خاص پہلوؤں پر توجہ دلا دیتے کہ یہ اور یہ باتیں بھی زیرِ غور لاکر سوچیں۔ تاآنکہ دو تین دَور گفتگو کے چل کر کوئی ایسا فیصلہ طے پاتا ، جس پر پوری مجلس متفق الرائے ہوجاتی اور بالعموم کسی کے دل میں گھٹن نہ رہ جاتی کہ میری بات کو دبایا گیا ہے۔ اگر کسی فرد کو ایسی شکایت ہوتی تو ایک آدمی کے لیے ساری بات کے اجزا پھر سامنے لاتے۔
بہت ہی کم مواقع پر معمولی اقلیت کے استثنا کے ساتھ اکثریتی فیصلے بھی کرنے پڑے، مگر ایسے انداز میں کہ اختلافی اقلیت کو یہ محسوس نہیں ہوا کہ ہمارے خلاف کوئی خاص دباؤ ہے یا محاذ ہے۔ ایسے حضرات اپنی آراء کو ایک طرف رکھ کر بخوشی اکثریتی فیصلے کی علَم برداری میں تعاون کرتے۔
اسلامی نظام کی امارت اور اس کی تنظیم و تربیت کے بھاری کام کے لیے موجودہ دَور کے لحاظ سے بہترین نمونہ سیّد مودودیؒ نے نہ صرف عملاً پیش کیا بلکہ تحریری طور پر اپنے طریقِ کار کا ریکارڈ بھی چھوڑا اور عملی کردار کے گواہ بھی۔
مولانا کی صحت ِ قیادت اور ان کی روشن محبت و اعتماد کا راز یہ تھا کہ وہ تحریک کے کام کو اصلاً اقامت ِ دین کا کام اور اس کام کے ہر ضروری جز کو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ انھوں نے سیاست کو کاملاً تابع دین رکھا۔ دین سے آزاد سیاست، دین سے آزاد جمہوریت یا دین سے آزاد انتخابات کا کوئی تصور دُور دُور تک اُن کے ہاں نہ تھا۔ دین کی رہنمائی، مقاصد اور سرگرمیوں اور رابطوں میں بھی کار فرما رہتی۔ انھوں نے ووٹوں یا سیٹوں کی زیادہ تعداد حاصل کرنے کے لیے ایسے طریقے یا ایسے رابطے کبھی اختیار نہیں کیے، جو دینی اُصولوںکے خلاف ہوں۔
مولانا مودودیؒ کی ایک عظیم خوبی یہ تھی کہ وہ اونچے سے اونچے مرتبے پر ہوتے ہوئے بھی نچلی سے نچلی سطح کے کارکن تک برادرانہ یک جہتی کا گہرا رابطہ رکھتے۔ خط کتابت کے ذریعے، گفتگوؤں کے ذریعے، اپنی شام کی مجلسِ عام کے ذریعے، دَوروں میں ایک ایک کارکن سے ملاقات کے ذریعے، وہ اپنے رابطے کو گہرا کرتے رہتے تھے۔ وہ کارکنوں کا ذہن جس طرح کئی سال میں تشکیل کرتے تھے، پھر اس بات کا لحاظ کرتے تھے کہ وہ کوئی ایسا فیصلہ و اقدام محض منصب، امارت یا مجلسِ شوریٰ کے اختیارات کی بنا پر نہ نافذ کردیں ، جو خود اُن کی بنائی ہوئی ذہنیت سے ٹکرائے اور ان کی اپنی ہی دی ہوئی تربیت کی فصل کو ویران کر دے۔
مولانا مودودیؒ کی خاص صلاحیت یہ تھی کہ وہ تحریک کے اُصول و مقاصد کو ، جماعت کی روایات و اقدار کو، کارکنوں کے ذہن و مزاج کو پوری طرح نگاہ میں رکھتے تھے اور یہ اندازہ کر لیتے تھے کہ کس معاملے میں کس وقت جماعت اور اس کے کارکنوں کے جذبات و احساسات کیا ہیں اور ان کی مانگ کیا ہے اور ان کی بے زاری کا رُخ کدھر ہے اور ان کی محبت کی سمت کدھر ہے ، کس بات پر وہ جمع ہوں گے، کون سی چیز ان کو بحثا بحثی میں ڈال دے گی یا بکھیر دے گی۔ نتیجہ یہ کہ وہ کسی مسئلہ خاص کو بھی اُصولِ دین اور مصالحِ شرعیہ کے تحت خوب جانچتے اور پھر کارکنوں کے ذہن کی تحریکی ساخت کا بھی صحیح ناپ تول کرتے۔ اور جب وہ کوئی بات کہتے تو لوگوں کے چہرے روشن ہوجاتے اور دل کِھل اُٹھتے اور ان میں کام کرنے اور آگے بڑھنے اور قربانیاں دینے کی سپرٹ جاگ اُٹھتی۔ سب کے دل جمع ہوجاتے۔ بہت ہی کم کبھی ایسا ہوا کہ کچھ جزئی اُمور پر کارکنوں کا فوری طور پر پورا پورا اطمینان نہیں ہوا۔ لیکن پھر بھی وہ تھوڑی بہت افہام و تفہیم ہوجانے پر جادۂ فرض پر خوش خوش متحرک ہوگئے، یعنی اُوپر سے نیچے تک رشتۂ اعتماد بحال رہا۔
اندریں صورت تمام کارکن یہ سمجھتے تھے کہ مولانا مودودیؒ خود کوئی بیان دیں، فیصلہ ہو یا مجلسِ شوریٰ میں کوئی بات طے ہو، ہم سب کا لحاظ رکھا جاتا ہے اور ہمیں اہمیت دی جاتی ہے۔ کم سے کم یہ تو بالکل طور طریق نہ تھا کہ کارکنوں کی تحقیر کرکے انھیں کوئی ادنیٰ درجے کی چیز سمجھا جائے یا یہ ظاہر کیا جائے کہ کارکنوں کا ذہن یا نقطۂ نظر کچھ بھی ہوا کرے، فیصلہ کرنے والے تو ہم ہی ہیں، جس پر انھیں لازماً عمل کرنا ہوگا۔ سوچنے اور بات کہنے کا یہ انداز ہی خطرناک ہے۔ یہ ہماری خاص طرز کی تنظیم کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ ہم تو اپنے ہر کمزور ساتھی کو بھی احساس دلانا چاہتے ہیں کہ تم بہت اہم ہو اور ہم تمھیں ساتھ لے کے چلیں گے اور تم جو جذبات و احساسات رکھتے ہو اور جو کچھ تم نے لٹریچر اور تنظیم سے حاصل کرکے اپنا ذہن بنایا ہے، اس کا ہم پورا لحاظ رکھیں گے۔ تم اس مشینری کا لازمی حصہ ہو۔ تم سوال بھی کرو، مشورے بھی دو، اعتراض بھی اُٹھاؤ، پریشانی بھی ظاہر کرو، ہمیں تمھارے اس تعاون کی ضرورت ہے۔ یہ طرزِ عمل تھا جو مولانا مودودیؒ نے اختیار کیا۔ ہم سب جنھوں نے ان کے ساتھ کام کیا، وہ اس کے گواہ ہیں۔
ایسی بہت سی باتیں ہیں مولانا مودودیؒ کے متعلق جاننے کی اور پوچھنے اور بتانے کی۔ تاہم، ان گزارشات پر اگر اخلاص کے ساتھ غور کیا جائے تو ہر رفیق روشنی حاصل کرسکتا ہے۔ دوسری طرف ناراض ہونے والے مہربان زجروتوبیخ بھی کرسکتے ہیں ع
(میں تو ایک مسکین سا دل ہوں جو موجودہ کش مکش میں گھِر گیا ہے)۔[اکتوبر ۱۹۸۸ء]
سوال نامہ پڑھتے ہی میرے کانوں میں اذان کی آواز گونجنے لگی، اور میں سوچنے لگا کہ اسلام کی رُو سے انسان کی فلاح و بہبود، حقیقی عبادت ہے:
آج ہم نے بڑی حد تک ’عبادات‘ کو زندگی کے ’معاملات‘ سے جدا کر رکھا ہے۔ یوں ہم انسانی فلاح و بہبود کی تمنا میں سرگرمِ عمل رہنے کی عبادت سے غافل ہیں۔ جہاں تک نظریاتی اور عملی اقدامات کا تعلق ہے، ہمیں اقبال فراموشی کا چلن ترک کرنا اور اقبال شناسی کا چلن اپنانا ہوگا۔ اگر کل اقبال کے فکروعمل کے فیضان سے پاکستان عدم سے وجود میں آگیا تھا، تو آج ہمارے اس خطۂ زمین میں عمل سے زندگی جنّت نظیر کیوں نہیں ہوسکتی؟
بلاشبہہ عبادات کی پابندی لازم، مگر حی علی الفلاح کے پیغامِ ربانی پر صدقِ دل سے عمل عبادت کا حقیقی مفہوم ہے۔ ہمارا اقتصادی اور معاشرتی نظام جب تک انسانی فلاح و بہبود کی حقیقی عبادت سے نہیں پھوٹتا، ہمارے ہاں اسلام کی حقیقی انقلابی روح سرگرمِ کار نہیں ہوسکتی۔ اقبال نے کہا تھا:
مجلسِ ملّت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سُلطاں غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر
دہقاں ہے کسی قبر کا اُگلا ہوا مُردہ
بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیرِ زمیں ہے
دستِ دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی
اہلِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات
میری حقیر رائے میں ہم جب تک حی علی الفلاح کی صدائے حق پر کان نہیں دھریں گے، دُنیا اور آخرت کی نجات سے محروم رہیں گے۔
ادارہ ترجمان القرآن کی جانب سے یہ سوال کیا گیا ہے کہ اسلامی احیاء کے لیے کن فکری اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے؟ امید ہے کہ اس سوال کے جواب میں اہل فکرونظر کی جانب سے بہت سی مفید تجاویز سامنے آئیں گی۔ میں تفصیلی عملی تجاویز کے بجائے چند بنیادی نظری پہلوؤں کو اپنی تحریر میں زیر بحث لانا چاہتا ہوں۔
احیائے اسلام کے لیے سب سے پہلی ضرورت خود اُمت کے احوال میں تبدیلی ہے۔ صرف بیرونی اور دفاعی کوششیں اس کے لیے کافی نہیں ہیں، اصل توجہ اندر کی طرف مطلو ب ہے۔ سورۂ رعد اور اور سورۂ انفال کی دو مشہورآیات قوموں کے عروج و زوال کی بحث میں ہمیشہ نقل کی جاتی ہیں:
اِنَّ اللہَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۰ۭ (الرعد۱۳:۱۱) اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے 'انفس میں تبدیلی نہ کرلے۔ ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَہَا عَلٰي قَوْمٍ حَتّٰي يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۰ۙ (انفال ۸:۵۳)یہ اللہ کی اِس سنت کے مطابق ہوا کہ ’’وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے 'انفس کو نہیں بدل دیتی‘‘۔
ان آیتوں میں دو بڑی تبدیلیوں کا ذکر ہے: ’تغیر اللہ‘ کا دائرہ قوم کے مجموعی حالات ہیں۔ جن میں عروج و احیاء، قوت و کمزوری، تمکین و تنزل، دولت و افلاس،علم و جہالت، عزت وسربلندی اور ذلت و پستی، وغیرہ شامل ہیں۔یہ تبدیلی قوم خود نہیں لاتی بلکہ اللہ تعالیٰ لاتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ان ظاہری تبدیلیوں پر توجہ مرکوز کرکے احیاء و سربلندی کی کوئی تحریک کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔
دوسری تبدیلی ’تغیر القوم‘ ہے جس کا دائرہ 'انفس ہے۔ قوم جب اجتماعی طور پر اپنے 'انفس میں تبدیلی لاتی ہے تو اللہ تعالیٰ قوم کی حالت میں تبدیلی لاتا ہے۔گویا تبدیلی کا اصل ایجنٹ قوم کی اجتماعی نفسیات ہے۔ کسی قوم کو نہ اس کے دشمن ذلت و پس ماندگی کی کھائیوں میں دھکیل سکتے ہیں ، نہ اس کے دوست اور حلیف ، عروج و سربلندی کی چوٹیوں پر پہنچاسکتے ہیں، نہ حالات کے تھپیڑے اس کا مقدر بگاڑ سکتے ہیں اور نہ زمان و مکان کی خوش گواری اس کی قسمت چمکاسکتی ہے۔ حالت بدلتی ہے تو صرف اجتماعی نفسی کیفیت، یعنی انفس کی تبدیلی سے بدلتی ہے۔ تبدیلی کے بیج بوئے جاسکتے ہیں تو وہ صرف اور صرف افکار و خیالات،مزاج و نفسیات اور جذبات و احساسات کی زمین میں، یعنی انفس کی زمین میں بوئے جاسکتے ہیں۔
ہمارے خیال میں اسلام کے اوراُمت کے احیا کے لیے اصل ضرورت یہ ہے کہ سب سے زیادہ اس چیز پر یعنی اُمت کے انفس پر یا اُمت کی اجتماعی نفسیات پر توجہ دی جائے۔ انفس کی دیگر تفصیلات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، ہم اس تحریر میں دو سب سے زیادہ اہم باتوں کو زیربحث لانا چاہتے ہیں: ایک اپنی حیثیت اور مقصد کا شعور، اور دوسرے اجتماعی اخلاق اور اساسی قدروں کے نظام کا استحکام۔
جدید علم انتظام اور علم قیادت میں اسٹرے ٹیجی (strategy) اور اسٹرے ٹیجک مینجمنٹ (strategic management) کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اسٹرے ٹیجی کے بغیر کسی اجتماعیت کو بامعنی اور باشعور اجتماعیت (mature organisation)سمجھا ہی نہیں جاتا۔ اسٹرے ٹیجی میں مقصد و نصب العین کو مرکزی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ مقصد ونصب العین، اعتقادات یعنی belief system کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اگر کسی ادارےیا اجتماعیت کے عقائد کچھ اور ہوں، اورہدف کچھ اور،تو یہ ٹکراؤ اُسے کامیاب ہونے نہیں دیتا۔
اسی طرح اسٹرے ٹیجی کا ایک اہم حصہ اجتماعیت کی بنیادی اقدار (core values)ہوتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کی کامیاب اور باشعور اجتماعیتوں کے پاس اپنے عقائد، وژن اور قدروں یعنی کور ویلیوزکا نہایت مستحکم نظام پایا جاتا ہے۔ ان کا ایک دوسرے سے گہرا ربط و ارتباط ہوتا ہے اوراجتماعیت پر ان کی حکمرانی ہوتی ہے۔اُمت کی کم زوری کا ایک بڑا سبب اجتماعی نفسیات کی سطح پر اس پورے نظام کا درہم برہم ہونا ہے۔ مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ اُمت کا عقیدہ کچھ اور ہے اور عملاً اس کے اجتماعی مقاصد کچھ اور ہیں۔قرآن و سنت کی تعلیم کے مطابق اخلاق کے تصورات کچھ اور ہیں اور عملاً رائج معمولات (social norms) کچھ اور ہیں۔ اس نظام کے درہم برہم ہونے کے نتیجے میں اُمت ایک کٹی پتنگ بن کر رہ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف اور متضاد سمتوں میں ہوا کے دوش پر ڈولتے ہوئے ہم وہ قوت حاصل نہیں کرپارہے ہیں، جو چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے اور عروج و احیاء کی سمت پیش رفت کے لیے ناگزیر ہے۔
جہاں تک نصب العین کا تعلق ہے، تحریکات اسلامی کی صد سالہ جدوجہد کے باوجود حقیقت واقعہ یہی ہے کہ لاشعور اور جذبے کی سطح پر اُمت کے سامنے آج بھی ایسا واضح نصب العین نہیں ہے، جو اُس کے عقیدے سے پوری طرح ہم آہنگ بھی ہو، اوراُمت کا مشترک نصب العین (shared vision) بھی بن سکے۔یعنی اُمت میں ہر آنکھ کا خواب اور ہر دل کی آرزو اور تمنا بن جائے۔حالانکہ ایسانصب العین، اللہ کی کتاب نے بڑی وضاحت سے اُمت کو دے دیا ہے۔ اُمت مسلمہ خود اپنے ایمان و عقیدے کے مطابق ایک خاص حیثیت و کردار کی مالک ہے۔ قرآن مجید میں اسے ’خیر اُمت‘ (بہترین اُمت) کہا گیاہے، اور واضح کیا گیاہے کہ وہ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ’دیگر انسانوں کے لیے نکالی گئی‘ ہے (اٰل عمرٰن۳:۱۱۰) ۔ ’خیر اُمت‘ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے احادیث میں کہا گیا ہے کہ یہ اُمت خَیْرُ النَّاسِ لِلنَّاسِ ہے یعنی دوسرے انسانوں کے حق میں سب سے بہتر۔
ہمارے مفسرین نے مزید وضاحت کرتےہوئے لکھا ہے: والمعني أنهم خير الأ ممم و أنفع الناس للناس (اس کے معنی یہ ہیں کہ اُمت مسلمہ تمام اُمتوں میں سب سے بہتر اور انسانوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچانے والی ، یعنی نافع اُمت ہے)۔ ’خیر اُمت‘ کے لقب سے پہلے قرآن مجید نے اس اُمت کو ایک اور لقب ’اُمت وسط‘ کا دیا ہے(البقرہ۲:۱۴۳)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ اس میں وسط سے مراد عدل ہے۔ مفسرین کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے: أَيْ أَعْدَلُهُمْ وَخَيْرُهُمْ (وہ، یعنی مسلمان، انسانوں میں سب سے بہتر اور سب سے زیادہ عدل کرنے والے ہوتے ہیں)۔
ان آیتوں سے اُمت مسلمہ کی ایک خاص حیثیت سامنے آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کا تعلق سارے انسانوں سے ہے۔ خیر، نافعیت اورعدل اس کی اصل پہچان ہیں اور اس کی ان خوبیوں سے فائدہ اٹھانے والے صرف مسلمان نہیں بلکہ سارا عالم انسانیت ہے۔ اسے ساری انسانیت کی بھلائی کے لیے جدوجہد کرنی ہے۔ عدل و قسط پر مبنی ایک عالمی نظام اور امامت کبریٰ ،اُس کا اس دنیا میں منتہائے مقصود ہے۔
تحریروں اور تقریروں میں تو اس تصور کی اب ہر جگہ تکرار ہے، لیکن لاشعور اور جذبات کی گہرائیوں میں ابھی تک یہ تصور راسخ نہیں ہوسکا ہے۔ ذات، برادری، قبیلہ، نسل اور زبان کی اساس پر اجتماعی مفاد کو دیکھنے کا زاویہ آج بھی ہر جگہ کارفرما ہے۔ ’جدیدیت‘ نے اس میں قوم پرستی اور قومی ریاست کے تصورات کا اضافہ کردیا ہے۔
چنانچہ مسلم ممالک کے عوام میں بھی قومی ریاست کا ایک طاقت ور تصور ہرجگہ کارفرما نظر آتا ہے۔ حیثیت اور مقام کے بارے میں یہ کنفیوژن اُمت کو اس کے اصل مقصد سے دُور کردیتا ہے۔ جب مسلمان خود کو کسی نسل یا کسی برادری کا رکن سمجھنے لگتے ہیں تو محض اُس نسل یا برادری کا مفاد ان کا اصل مقصد بن جاتا ہے۔ جب وہ خود کو محض ایک قومی ریاست کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں تو صرف اس ریاست کی تعمیر وترقی ان کی دلچسپیوں کا محور بن جاتی ہے۔ اس وقت معاملہ چاہے مسلم اقلیتی ممالک کا ہو یا مسلم اکثریتی ممالک کا، ہر جگہ مسلمان اس فکری بحران سے دو چار ہیں۔
مسلم اقلیتی ممالک میں وہ خود کو ویسا ہی نسلی گروہ سمجھنے لگے ہیں جیسے اور گروہ پائے جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں قومی و نسلی کش مکش میں انھوں نے خود کو فریق بنالیا ہے،اور محض مسلمانوں کے بقا و تحفظ یا ان کے حقوق اور مادی ترقی کی جدوجہد کو انھوں نے ’اسلامی جدوجہد‘ سمجھ رکھا ہے۔
مسلم اکثریتی ممالک میں قومی ریاستوں کے دیگر باشندوں کی طرح محض اپنے 'مسلمان ملک کی تعمیر و ترقی کو وہ اپنا اصل ہدف سمجھنے لگے ہیں۔
مغربی ملکوں میں وہ مہاجر کی حیثیت سے جاتے ہیں تو ان کی دلچسپیاں یا تو اپنے اپنے وطن کے امورومسائل تک محدود ہوتی ہیں، یا متعلق مغربی معاشرے میں مسلمان مہاجروں کے مسائل ان کی جدوجہد کا اصل محور و مرکز بن جاتے ہیں، یا زیادہ سے زیادہ مشنری انداز کے دعوتی کام میں کچھ لوگ دلچسپی لیتے ہیں۔
حالانکہ یہ حقیقت کہ ان کے مخاطب اللہ کے تمام بندے ہیں ، ساری دنیا کے لیے ان کے پاس ایک پیغام اور ان کی فلاح و بہبود کا ایک منفرد پروگرام ہے ، ہر ایک کے لیے عدل ان کا مقصد ِوجود ہے اور دنیا کے ہر انسان کی فلاح و بہبود اور نجات کی کوشش ان کے خیر اُمت ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔ مگر عملی سطح پر یہ قدر پوری طرح نظر انداز ہوچکی ہے، اور ان کی اجتماعی نفسیات اور رویوں میں دور دور تک اس کا کوئی عکس نظر نہیں آتا۔
فکر کی سطح پر کرنے کا اصل کام یہی ہے کہ اُمت کے اندر اس شعور کو عام کیا جائے کہ اس کا دائرۂ عمل نہ مسلمان کمیونٹی تک محدود ہے، نہ کسی مسلمان ملک تک اور نہ دنیا کے مسلمانوں ہی تک۔ اسے نہ اپنے مسلمان ملک یا غیر مسلم ملک میں واقع اپنی ملت کے مفادات تک اپنی سوچ کومحدود رکھنا ہے، اور نہ محض عالمی سطح پرمسلمانوں کےمفادات کے تحفظ کو اپنا مقصد بنالینا ہے۔ وہ خیر اُمت اور اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ہے، اس کا تقاضا ہے کہ وحی الٰہی کی روشنی میں وہ ساری دنیا اور سارے عالم انسانیت کے مفاد کو اپنا مفاد بنائے۔ جب تک یہ نہیں ہوگا، اللہ کا دین محض مسلمان نام کے نسلی گروہوں کا یا مسلمان ملکوں کا ’قومی دین‘ بنا رہے گا اور اُس عالم گیر نظریاتی کشش سے (مسلمانوں کے غلط رویوں کی وجہ سے ) عملاً محروم رہے گا، جو اس دین کی فطری خصوصیت ہے:
عمل کی سطح پراصل ضرورت اُمت کے ’اخلاقی احیاء‘ (Moral Renaissance)کی ہے۔ اخلاقی قوت، اجتماعی اخلاق کا نام ہے، جس کا اہم مظہر سماجی معمولات (Social Norms) ہوتے ہیں۔ اجتماعی اخلاق کا مطلب یہ ہے کہ اخلاقی رویے پوری قوم میں اس طرح عام ہوجائیں کہ وہ ان کی شناخت اور ان کی پہچان بن جائیں۔ ہرمعاشرے اور تہذیبی گروہ کے کچھ تصورات، معمولات (norms )، اخلاقی اقدار اور اصول ہوتے ہیں ۔ ان میں بعض قدریں بہت اہم اور اساسی ہوتی ہیں، ان پر کسی قسم کی مصالحت کے لیے معاشرہ کبھی تیار نہیں ہوتا۔ یہی قدریں اس کی شناخت بنتی ہیں ۔ اسے جدید اصطلاح میں ’مرکزی اقدار‘ (core values) کہا جاتا ہے۔
جدید اجتماعی نفسیات میں مرکزی اقدار کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے اس لیے کہ کسی انسانی گروہ کے عملی رویے اصلاً مرکزی اقدار ہی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ یہ قدریں افراد کی نہیں بلکہ پورے سماج کی اجتماعی قدریں ہوتی ہیں۔ ان پر اتفاق کا مطلب محض خیال اور رائے کی سطح کا اتفاق نہیں ہوتا بلکہ پورے معاشرے کی متفقہ گہری عملی وابستگی ہوتاہے۔ مثلاًبعض جنگجو معاشروں میں 'بہادری مرکزی قدر ہوتی ہے۔ 'غیرت، 'مہمان نوازی وغیرہ بہت سے روایتی قبائلی سماج کی مرکزی قدریں ہوتی ہیں۔ جدید مغربی معاشروں میں 'فرد کی آزادی، اظہار خیال کی آزادی، 'جمہوریت 'وغیرہ مرکزی قدریں ہیں۔ ان قدروں کے نفاذ کے لیے کسی بیرونی قوت کی ضرورت در پیش نہیں ہوتی ۔بے شک ان قدروں کا عام ہونا ، تاریخ کے کسی مرحلے میں مصلحین و قائدین کی کوششوں کا نتیجہ ہوتا ہے، لیکن اس کے بعد ، ان کی تنفیذ (promulgation)کے لیے وعظ و نصیحت کی بڑی ضرورت بھی باقی نہیں رہتی۔ وہ قوم کی فطرت کا حصہ بن جاتی ہیں۔
حضرت شاہ ولیؒ اللہ (م:۱۷۶۲ء)نے ایسے ہی معمولات کو ’رسوم‘ کہا ہے اور 'صالح اِرتفاقات کے لیے اچھی 'رسوم کو ناگزیر قرار دیا ہے۔ اجتماعی اخلاق اور معاشرتی معمولات جتنے صالح، مفید اور نفع بخش ہوں گے، اخلاقی قوت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ہمارے خیال میں یہی ’انفس‘ ہے۔ اخلاق اس وقت اخلاقی قوت بنتے ہیں، جب مرکزی قدروں کا یہ نظام گہرا اور مضبوط ہوتا ہے۔ اخلاقی قوت بننے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جو قدریں اس طرح کی مرکزی قدروں کی حیثیت اختیار کرلیں، وہ ایسی ہوں جن سے عالم انسانیت کی فوز وفلاح اور عملی فائدہ بھی وابستہ ہو۔یعنی ان میں نافعیت کا پہلو ہو۔ مولانا ابوالکلام آزاد ؒ(م:۱۹۵۸ء)کے بقول قانون ’بقائے اصلح‘ اور ’بقائے انفع‘ ایک ہی قانون ہے۔وہی صالحیت مطلوب ہے جو نافع بھی ہو۔
سورۂ نحل: اِنَّ اللہَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ۰ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۹۰(النحل۱۶:۹۰)(اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو) کے مطابق، عدل، احسان، صلہ رحمی پر عمل اور برائی، بے حیائی اور ظلم وزیادتی سے گریز ہی مرکزی قدریں ہیں۔مرکزی قدروں کے فہم کے لیے اس آیت کی طرف رجوع کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ اس آیت کریمہ کو متعدد اہل علم نے قرآن کے فلسفۂ اخلاق کا خلاصہ قرار دیا ہے اور عمر بن عبدالعزیز ؒ (م:۷۲۰ء)کے حکم سے اور ان کے بعد سے مسلسل، یہ آیت خطبۂ جمعہ کا حصہ بنادی گئی۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کے مشہور’اخلاق اربعہ‘ سے بھی اسلامی اخلاق کا جامع تصور اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ شاہ صاحب ؒکے مطابق طہارت (اندرونی و بیرونی پاکیزگی اور نفاست)، اخبات (خدا کے سامنے نیاز مندی اور عجز و انکسار)، سماحت (بردباری، ضبط نفس اور اعتدال) اور عدالت (ہر معاملے میں عدل و انصاف)، یہ چار نفسیاتی خصوصیات ہیں، جو تمام اخلاقی محاسن اور اچھی رسوم کی منبع و سرچشمہ ہیں۔شاہ صاحب کا بیان ہمارے خیال میں بہت ہی جامع بیان ہے اوراس سے اسلام کی مرکزی قدروں کا بہت ہی واضح تصور سامنے آتا ہے۔
اس بات سے انکار مشکل ہے کہ ساری مسلم دنیا میں ان اساسی اسلامی اخلاقی قدروں کا چلن بہت کم ہے۔ شایدہی کوئی مسلم معاشرہ ہوگا، جسے اس کی طہارت و پاکیزگی کے حوالے سے جانا جاتا ہوگا ۔ عدل وانصاف کا اساسی قدر ہونا تو دور کی بات ہے،طرح طرح کی ناانصافیوں کا عام چلن اکثر مسلم معاشروں کی پہچان ہے۔ اس پرمستزاد، اخلاقی احیاء پر جو توجہ مطلوب ہے، وہ نہ صرف مسلم معاشروں میں بلکہ اصلاحی تحریکات میں بھی مفقود ہے بلکہ اسلامی تحریکوں کو بھی اس کام پر جو توجہ دینی چاہیے تھی وہ نہیں دے سکی ہیں۔
اخلاقی احیاء کے لیے ہماری کوششوں میںبعض بنیادی تبدیلیاں مطلوب ہیں:
سب سے پہلی مطلوب تبدیلی ترجیحات کی تبدیلی ہے۔بعض بڑی خرابیاں وہ ہیں، جن کا تعلق اُمت کی مرکزی قدروں سے ہے مگر اس کےباوجود ان پر اصلاحی جدوجہد کی بہت کم توجہ ہے۔
دوسری تبدیلی ٹارگیٹ گروپ کی تبدیلی ہے۔ بعض بڑی خرابیاں وہ ہیں جن کا تعلق اُمت کے خواص سے ہے۔ جب تک خواص میں اصلاح نہیں ہوگی ، اصلاح کا عمل عوام تک نہیں پہنچ سکے گا۔
تیسری تبدیلی اپروچ اور طریق کار کی تبدیلی ہے۔ اخلاقی احیاء اور اخلاقی قدروں کے فروغ کا عمل جرأت و ہمت چاہتا ہے، اوراس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے عوام کی ناراضی مول لینے کا حوصلہ چاہتا ہے۔ جس کی کمی اب ہمارے مصلحین میں عام ہے۔
خلاصہ یہ کہ احیاء کے عمل کومہمیزدینےکے لیے اب ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر ’بیرون‘ سے زیادہ ’اندرون‘ پر توجہ درکارہے۔ دشمنوں کی سازشیں اور ریشہ دوانیاں بھی اسی وقت کامیاب ہوتی ہیں، جب ہم اندرونی طور پرکمزور ہوں اور ہماری کمزوری کااصل سبب مادی نہیں بلکہ فکری اور اخلاقی ہے۔ اس لیے جب تک ان اصل اسباب پر ہماری بھرپورتوجہ نہیں ہوگی، احیاءکا خواب حقیقت کا رُوپ اختیار نہیں کرے گا ۔
عالم اسلام کا بحران گیارھویں صدی عیسوی میں صلیبی جنگوں سے شروع ہوا۔ اس وقت تک ان ممالک میں، جن کو پہلے ’اسلامی مشرق‘ کہا جاتا تھا اور اب ’مشرق وسطیٰ ‘کہا جاتا ہے، مسلمان اکثریت حاصل کر چکے تھے، یعنی افغانستان، ماوراء النہر، وسطی ایشیا ، ایران ، شام ، فلسطین، جزیرہ نما عرب، یمن، خلیج فارس وغیرہ کے علاقوں میں مسلمانوں کی اس وقت اکثریت ہو چکی تھی۔
یہ جنونی صلیبی جنگیں گیارھویں صدی سے لے کر چودھویں صدی عیسوی تک (۱۰۹۹- ۱۳۶۹ء) تک چلیں۔ ان کی آڑ میں پورا یورپ، عالم اسلام کے مرکزی علاقوں پر پل پڑا۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی قبرکو ’کافروں ‘سے بچانے کےنام پر پورے یورپ نے عالم اسلام کے مرکزی علاقوں پر مذہبی اور جذباتی نعرے لگاتے ہوئے دھاوا بول دیا حالانکہ ان کا اصل مقصد مزید زمینوں پر قبضہ کرنا تھا (جسے Lebensraum کا نام دیا جاتا ہے) کیونکہ امراء کے لیے یورپ میں زمین کم پڑ رہی تھی۔
ان جنونی حملوں کے دوران ترکیہ سے لے کر مغرب (مراکش) تک کو تا راج کیا گیا، جب کہ سب سے زیادہ نقصان فلسطین، شام اور مصر کو ہوا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی (م:۱۱۹۳ء) نے ’معرکۂ حطین‘ (جولائی ۱۱۸۷ ء) میں صلیبیوں کی کمر توڑ دی، تاہم یہ بے معنی جنگیں شاہ قبرص پیٹر کی موت (۱۳۶۹ ء)تک جاری رہیں۔
اسی دوران مسلمانوں کی کمزوری دیکھ کر تیرھویں صدی عیسوی میں مشرق سے منگولوں اور تاتاریوں نے عالم اسلام پر حملے شروع کردیئے ۔ جہاں جہاں صلیبی، منگول اور تا تاری گئے وہاں وہاں انھوں نے نہ صرف بے شمار لوگوں کا خون بہایا، بلکہ مسلمانوں کے سیاسی اور تجارتی اداروں کو بھی تہس نہس کرکے رکھ دیا۔تاتاری یلغار کو مملوکی قائد سیف الدین قطز نے عین جالوت میں ۳ستمبر ۱۲۶۰ء کو شکست دے کر ناکام بنایا۔
جب صلیبی جنون دھیرے دھیرے ٹھنڈا پڑا تو پرتگال اور اسپین نے مسلم ممالک پر سامراجی قبضے کی مہم چلائی اور مسلم ممالک کے ارد گرد بحری راستوں پر قبضہ کر کے وہ مسلم تجارت تہ وبالا کر ڈالی، جو اٹلی میں بندقیہ (وینس) سے لے کر چین کے کینٹن تک پھیلی ہوئی تھی، اور جس پر عالم اسلام کی اقتصادی خوش حالی کا بڑی حد تک انحصار تھا۔ پھر جلد ہی دوسری یوروپین اقوام جیسے انگریز، فرانسیسی ، ولندیزی، اطالوی اور بلجیئن وغیرہ نے مسلم دُنیا کے مختلف حصوں پر قبضے شروع کردیئے۔ یہ سلسلہ بیسویں صدی عیسوی کے وسط تک جاری رہا۔
بالواسطہ سامراج کے سمٹ جانے کی وجہ تسلط کی سوچ کا خاتمہ نہیں تھا بلکہ پہلی اور دوسری عظیم جنگوں کے نتیجے میں یوروپین طاقتیں بہت کمزور ہو گئی تھیں، اور اسی دوران ایک نئی طاقت – امریکا – ان کی جگہ لے رہی تھی۔ اس نئی طاقت کو مسلم ممالک پر براہ راست سامراجی قبضے کی زیادہ فکر نہیں تھی بلکہ وہ وہاں کے بازاروں، حکومتوں، فوجی و سول قیادتوں اور میڈیا و اخبارات پر قبضہ چاہتی تھی۔ مزید بر آں ان ممالک کے خام مال کو کم سے کم دام پر خریدنا اس کا بنیادی مطمح نظر تھا ۔
مسلم دُنیا کے زوال کا یہ سلسلہ تقریباً ایک ہزار سال سے جاری ہے اور اب تک تھما نہیں ہے۔ اس کا اثر علمی، ثقافتی اور تہذیبی زندگی کے ہر گوشے پر پڑا۔ پرانے مدارس بند ہوئے، علمی کام کے لیے علما کی مدد و ہمت افزائی کم سے کم تر ہوتی چلی گئی اور ہر میدان میں مغر ب کی نقالی کا بول بالا ہوگیا۔ دین دار حلقوں میں اصل اسلامی علوم (علومِ قرآن و حدیث وغیرہ) کے بجائے فقہ اور جامد تقلید نے لے لی، جس کی وجہ سے مسلمانوں میں مسلکی تعصب اور گروہ بندی کو فروغ ملا، جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور امت واحدہ آج بہت سے فرقوں میں بٹ چکی ہے۔ ان حالات میں ابن رشد (م: ۱۱۹۸ء) کے بعد عالم اسلام میں کوئی بڑا اجتہادی شان رکھنے والا عالم نہیں پیدا ہوا، بلکہ فقہی نصوص حفظ کرنے والے ’عالم‘ کہلائے۔
اس صورت حال کا اثر صرف خواص پر ہی نہیں بلکہ عوام پر بھی پڑا۔ ان کے سامنے کوئی رول ماڈل نہیں رہ گیا۔ علم کے لیے پیاس ختم ہوئی اور دولت و دنیاوی جاہ کے لیے ہوڑ لگ گئی۔ علما کا احترام ختم ہوا، نئے حاکم اپنے ملک اور عوام سے طاقت حاصل کرنے کے بجائے غیر ملکی حکمرانوں سے طاقت حاصل کرنے لگے بلکہ انھوں نے اپنے ملکوں میں غیر ملکی طاقتوں کو فوجی اڈے تک بنانے اور سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ غیر ملکی طاقتوں کی شہ پاکر بہت سے مسلم ممالک میں فوجی انقلابات برپا ہوئے، جنھوں نے معاشرے کی سیاسی اور اخلاقی صورتِ حال کو اور بھی تہ وبالا کیا اور ہرسطح پر آمریت ( ڈکٹیٹرشپ) کو قابلِ قبول بنایا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ مسلم ممالک کے حکمرانوں سے کوئی امید نہیں ہے کہ وہ اسلام کی نشاتِ ثانیہ ، عوام کی دینی اور اسلامی تربیت اور علم کے فروغ کی طرف متوجہ ہوں گے۔ ہر مسلم ملک میں آمریت کا دور دورہ ہے کہ جہاں حاکم کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں ہو سکتا ہے۔ تقریباً ساری حکومتیں مغربی طاقتوں کے بل پر قائم ہیں۔ بعض عرب ممالک میں آسانی سے آنے والی دولت نے بھی حکام اورعوام دونوں کا مزاج بگاڑدیا ہے۔اب محنت کرنے کی عادت ختم ہو گئی ہے۔ دفتر، دکان اور گھر، ہر جگہ غیر ملکی نوکروں، خادموں اور خادماؤں نے کام سنبھال لیا ہے۔ اس سے نہ صرف اخلاقی بگاڑ آیا ہے بلکہ عربی زبان پر بھی نئی نسل کا عبور کم ہو رہا ہے۔
اس اثناء میں، بالخصوص سامراج کے آنے کی وجہ سے ،مسلمان غیر مسلم ممالک میں پڑھنے اور کام کرنے جانے لگے اور ان میں سے بہت سوں نے وہاں رہنا، بسنا بھی شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں دنیا کے تقریباً ہر غیر مسلم ملک میں مسلمانوں کی اقلیتیں وجود میں آ گئیں۔ کہیں کہیں، جیسے جرمنی، فرانس، برطانیہ اور امریکا میں ،مسلمانوں کی معتدبہ تعداد آباد ہو گئی ہےاوراب اس کا کوئی امکان نہیں ہےکہ یہ لوگ اپنے اصل ملکوں کو کبھی واپس جائیں گے۔
ان زمینی حقائق کے ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کو مسلم اکثریتی ممالک سے زیادہ غیر مسلم ممالک میں لکھنے، پڑھنے، بولنے اور چھاپنے کی آزادیاں حاصل ہیں اور وہاں ان کے جان و مال بھی زیادہ محفوظ ہیں ۔ اس کی وجہ سے آج ایسے کئی ممالک میں مسلم اقلیتیں ایک غیر معمولی رول ادا کرنے کے لائق ہوگئی ہیں۔
آج مسلم اقلیتوں کے لیے ممکن ہے، اور یہ ان کی ذمہ داری بھی ہے، کہ وہ اپنی نئی آبادیوں میں ملی ہوئی آزادیوں کو استعمال کرکے نہ صرف اپنی زندگیوں میں اسلام پر عمل پیرا ہوں بلکہ اسلام کا وہ عملی ماڈل بھی پیش کریں، جس کے بغیر اسلام محض ایک نظریہ رہتا ہے ۔ غیر مسلم ممالک کی آزادیاں وہاں کے مسلمانوں کو یہ سب کرنے دیں گی، مثلاً وہ ایسا تعلیمی، اقتصادی اور اخلاقی اور عملی ماڈل پیش کریں، جس سے دنیا صحیح معنوں میں اسلام کی حقیقت سمجھ سکے۔
فروری ۱۹۷۶ء میں طرابلس (لیبیا) میں ’مسلم عیسائی ڈائیلاگ‘ منعقد ہوا تھا۔ اس میں میرے والد (مولانا وحید الدین خاں) بھی مدعو تھے۔ اس ڈائیلاگ میں آسٹرین نو مسلم محمداسد بھی موجود تھے۔ میں اس وقت لیبیا کی وزارت خارجہ میں کام کرتا تھا۔ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے چند لوگوں کو اپنے گھر پر مدعو کیا تاکہ مسلمانوں اور عالم اسلام کے مسائل کے بارے میں بات ہو۔ محمد اسد اور والد صاحب کے علاوہ اس میں معروف مصری عالم اورقاہرہ یونی ورسٹی میں میرے استاد ڈاکٹر عبد الصبور شاہین اور لیبیا کے مفکر محمد سلیمان القائد وغیرہ موجود تھے۔
اس گفتگو کےدوران یہ سوال آیا کہ ’’کس طرح اسلام نظامِ عالم کی تشکیل کرسکتا ہے؟‘‘ سب نے کچھ نہ کچھ رائے دی۔محمد اسد کی رائے تھی کہ ’’جب تک ہم اسلام کا کوئی ورکنگ ماڈل دنیا کے سامنے نہیں پیش کریں گے، کوئی ہماری بات کو سنجیدگی سے نہیں لےگا‘‘۔ جناب اسد کی یہ بات میرے دل میں گھر کر گئی ۔ تب سے میں نے اس بات کو متعدد بار اپنی تحریروں اور تقریروں میں دُہرایا ہے۔ میں اس تجزیے سے پوری طرح متفق ہوں اور یہ سوچ سمجھ کر اعتراف کرتا ہوں کہ آج کی معاصر دنیا میں ہم کسی بھی میدان میں اسلام کا ورکنگ ماڈل نہیں پیش کرپائے ہیں، چاہے وہ سیاسی نظام کاہو یا سماجی، معاشی نظام، تعلیمی و سائنسی نظاموں کا۔ ہر میدان میں ہم دوسروں سے پیچھے ہیں اور کچھ پیوند کاری کے ساتھ دوسروں کی محض نقالی کررہے ہیں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرے اور اسلام ایک عالمی طاقت بنے، تو ہمیں اسلام کا ایک عملی ماڈل پیش کرنا ہوگا۔ ہمیں عملی طور پر دکھانا ہوگا کہ اسلام جب کسی سوسائٹی پر حاکم ہوتا ہے تو وہاں ایسا ہوتا ہے۔ افسوس کہ اسلام کے نام پر آج ۵۸ حکومتوں کے پائے جانے کے با وجود آج تک مسلمان اسلام کا کسی بھی میدان میں ماڈل نہیں پیش کر پائے ہیں۔ یہ ایک ایسا اذیت ناک خلا ہے جسے آج بھی پُر کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم ایک اسلامی ورکنگ ماڈل نہ پیش کرلیں گے ہمیں اسلام کے بارے میں بڑے بڑے دعوے کرنے کا کوئی حق نہیں ہے اور نہ کوئی ہمارے دعوؤں کو سنجیدگی سے لے گا۔
مسلمانوں کی تہذیبی زندگی کی مناسبت سے چند اہم سوالات اُٹھا کر، ماہ نامہ ترجمان القرآن نے ایک نہایت مثبت قدم اُٹھایا ہے۔ تہذیبیں، زندگی سے الگ تھلگ اور کوئی معلق چیز نہیں ہوتیں بلکہ تہذیبی عمل عموماً اپنے زمانے کی متعدد رائج الوقت تہذیبوں، اُن کے مذہبی اور اعتقادی اصولوں اور انسانی زندگی پر حاوی، مادی بشمول حکومتی قوتوں کے درمیان پائی جانے والی کش مکش، تعاون اور افہام و تفہیم کا مرکب ہوتی ہیں۔ لہٰذا، اس حوالے کی مناسبت سے ہم نے تہذیبوں کی تفہیم اور ان کے باہمی مکالمے کا موضوع چُنا ہے اور گفتگو کے لیے درج ذیل بارہ نکات پیش کیے ہیں:
۱- حالیہ تاریخ میں تہذیبوں کے درمیان مکالمے کا موضوع اُس وقت منظرعام پر آیا تھا، جب ۱۹۹۰ء کے عشرے میں تہذیبوں کے تصادم کا چرچا ہوا۔ لفظ’تصادم‘ کے بیانیے کو عمومی طور پر ناپسند کیا گیا۔ کچھ عرصے کے بعد اقوام متحدہ کے تحت ’تہذیبوں کے مکالمے‘ کے نام سے ایک شعبہ بھی قائم ہوگیا، جس کی سربراہی اقوام متحدہ کے موجودہ سیکرٹری جنرل کے سپرد تھی۔ پھر یہ شعبہ رفتہ رفتہ گمنامی میں چلا گیا۔
۲- البتہ اس دوران اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں نے امریکا اور مغربی یورپ کی غالب دانست کے مطابق، قیادت میں مشترکہ عالم گیر اقدار کی نشان دہی کرکے اُنھیں قانونی اور نیم قانونی حیثیت دینے کی ایک کوشش شروع کر دی۔
۳- اس کوشش کے نتیجے میں ’مشترکہ عالم گیر اقدار‘ اور ’عالم گیر انسانی حقوق‘ کی گفتگو نے گذشتہ تین عشروں میں ایک اہم اگرچہ متنازع مقام حاصل کرلیا ہے۔
۴- ’عالم گیر انسانی حقوق‘ کے تصور کی بنیاد پہ کیے جانے والے متنازع اقدامات نے اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کے دائرئہ کار میں واضح تبدیلی پیدا کردی ہے۔ چنانچہ اقوام متحدہ کی ’سیکورٹی کونسل‘ اور ’سوشل اینڈ اکنامک کونسل‘ کے درمیان واضح تقسیم گڈمڈ ہوگئی ہے۔ ۱۹۴۵ء میں اقوام متحدہ کے قیام کے وقت یہ تقسیم بہت واضح تھی۔ سیکورٹی کونسل کا دائرئہ اختیار ’حکومتوں کے دائرۂ کار‘ تک محدود تھا، جب کہ ’سوشل اینڈ اکنامک کونسل‘ اُن اُمور پر مشتمل تھی، جو معاشرتی نوعیت کے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قابلِ تنفیذ فیصلوں کا اختیار سیکورٹی کونسل کے پاس تھا اور اُسے ہی پانچ بڑی طاقتوں کے ’ویٹو‘ کا پابند کیا گیا تھا۔
۵- انسانوں کی اجتماعی تنظیم میں حکومت کے اختیار، فرد کے اختیار، اور افراد کے غیرحکومتی سماجی اداروں کے اختیار کی ایک تقسیم پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے باہمی ’تقسیم کار‘ اور ’تقسیم اقتدار‘ کی وضاحت کی ایک اہمیت ہے۔
۶- اسلامی تہذیب ’حکومت‘ کو قوانین کے ’نفاذ‘ میں ’اوّلیت‘ اور قانون کی ’تشکیل‘ میں ’ماتحت‘ حیثیت دیتی ہے۔ اگرچہ دونوں پہلوئوں کو ضابطۂ حیات کی ایک ناقابلِ تقسیم اکائی کے اجزاء کے طور پر بیان کرتی ہے۔
۷- اسلامی شریعت میں فرد، معاشرے اور حکومت کے درمیان تعلقات کے لیے، اور اُن میں سے بعض وقت کی پابندی سے آزاد پائے دار اصول ہیں اور اُس کے مطابق ہی ان تعلقات پر مبنی معاشروں کا تاریخی ارتقاء ہوتا آیا ہے۔ یہی اسلامی تاریخ مسلمانوں کی پائے دار تہذیبی شناخت ہے۔
۸- مسلمانوں کی طرح دیگر بڑی تہذیبیں بھی اپنی اپنی تاریخ اور تہذیبی شناخت رکھتی ہیں، جن میں اُن کے پائے دار مرکزی اصولوں میں یہ ارتقائی عمل جاری ہے۔ تہذیبیں زمان و مکان کے پابند ارتقائی مراحل سے گزرتی رہی ہیں۔
۹- تہذیبیں اُن معنوں میں ’فیصلہ کن‘ ادارے نہیں ہیں، جن معنوں میں حکومتیں ہیں۔ ان دونوں کے فیصلہ کن ’عامل‘ (agency) ہونے کا وصف ایک دوسرے سے جوہری طور پر مختلف ہے۔
۱۰- بیسویں صدی کا ایک مخصوص امتیاز تھا۔ اُس میں ’حکومت‘ کے ادارے کو ایک ’تہذیبی عامل‘ (civilzational agent) کی حیثیت دے دی گئی اور تہذیبی شناختوں کو جوہری طور پر حکومتی شناختوں کے ماتحت کردیا گیا۔ یہ تصور یورپ سے اُبھرنے والے فلسفۂ روشن خیالی (Enlightenment) کا ایک اہم ستون تھا۔ اس تصور نے عالم گیر عیسائی تہذیب کے بطن سے ایک نئی تہذیب کو جنم دیا، جو رفتہ رفتہ اپنے طور پر اسلام اور عیسائیت کے علاوہ ایک تیسری بڑی عالم گیر تہذیب بن گئی۔ اس نئی عالم گیر تہذیب کو بعض افراد ’انسان دوست عالم گیر تہذیب‘ (Humanist Civilization) کہتے ہیں۔ اور دیگر افراد اسے اس بنیاد پر لادین کہتے ہیں کہ اُس میں دُنیا کی تخلیق، اس کے خالق اور مخلوق کے بارے میں تصورات، کثیرالتعداد ادیان یعنی اسلام اور عیسائیت، ہندومت اور بودھ مت کے تصورات کی نفی کرتے ہیں، یا ان سے واضح طور پر ممیز ہیں۔
۱۱- ہماری تحقیق کے مطابق یہ چار کثیرالتعداد تہذیبیں، دُنیا کی موجودہ آبادی کا ۹۰ فی صد ہیں۔
۱۲- اگر بیسویں صدی میں اُس صدی کے ’تصورِ قوم‘ پر ایک مکالمے کی ضرورت تھی، تو اکیسویں صدی کو ’تصورِ تہذیب‘ پر ایک مکالمے کی ضرورت ہے۔ اکیسویں صدی کی عالم گیریت (globalization) کی اُبھرتی ہوئی حقیقت نے گذشتہ صدی کی قومی حکومتوں اور اُس پر مبنی اقوام متحدہ کی تنظیم کو اپنی عمارت کے ایک ایسے وصف سے محروم کردیا ہے، جس کی حفاظت کے لیے یہ تنظیم بنائی گئی تھی۔ ہماری مراد ’قومی ریاست‘ کے حاکم اعلیٰ (sovereign) ہونے کا تصور ہے۔ اس تصور پر مبنی ’اقوام متحدہ‘ کو اپنی بنیاد سے محروم کردیا گیا ہے۔ اسی لیے وہ اپنے اصل فرائض میں ناکام اور اپنے غیرمتعلقہ فرائض میں بے جا مداخلت کے راستے پر چل نکلی ہے۔ ان حالات میں دُنیا کی پانچ کثیرالتعداد تہذیبوں یعنی اسلام، عیسائیت، ہندومت، بودھ مت اور لادینیت کے باہمی مکالمے پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس موضوع پر غوروفکر ، عالم گیر اسلامی تہذیبی احیاء میں ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
زیربحث سوال سے منسلک مختصر تحریر میں جہاں عالمی سطح پر مسلمانوں کی محکومیت اور بے چارگی کا رونا رویا گیا ہے،وہاں دوسری جانب خود مسلمانوں میں فکری تضادات اور انتشار کے بحران کا ذکر کیا ہے۔ ہماری رائے میں یہ انداز عصر رواں میں عمومی طور پر پائے جانے والی ثقافت کا مظہر ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہ دنیا’دارِ تکلیف‘ ہے۔ ہمیں اس دنیا کی زندگی کے حوالے سے جواب دہ ٹھیرایا گیا ہے۔ دین کے احکام پر حتی المقدور عمل کے حوالے سے ہم سے آخرت میں باز پُرس ہو گی۔
اسلامی تاریخ کے آغاز ہی سے ہمارے دینی اسلاف، حق کے ساتھ تعلق اور عمل کی اہمیت اُجاگر کرتے رہے ہیں۔ خلق قرآن کے مسئلہ پر جب امام احمد بن حنبل [م:۸۵۵ء] کو تفتیش و تعذیب‘ (inquisition) کے دوران سخت ترین حکومتی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو کچھ مسلمانوں نے افسوس کے ساتھ امام سے کہا کہ أو لا تری الحق کیف ظھر علیہ الباطل (کیا آپ دیکھتے نہیں باطل کیسے حق پر غالب آ گیا؟)۔ اس موقعے پر امام احمد بن حنبلؒ کا یہ جواب سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے:
کلا، ان ظھور الباطل علی الحق ان تنتقل القلوب من الھدی الی الضلالۃ، وقلوبنا بعد لازمۃ للحق،باطل کا حق پر غلبہ اور تسلط تب ہوتا ہے جب قلوب و اذہان ہدایت سے گمراہی کی جانب منتقل ہو جائیں۔ (درآں حالیکہ) ہمارے دل اب بھی حق کے ساتھ چمٹے اور جڑے ہوئے ہیں۔
چنانچہ اصل تشویش ناک صورت حال وہ ہے کہ جس میں حق، انسان کے قلب میں مغلوب، ایمان متزلزل اور اعتزاز بالدین برائےنام رہ جائے۔ اس ضمن میں یہ اَز حد ہمت افزا قول ملتا ہے:
دولۃ الباطل ساعۃ، دولۃ الحق الیٰ قیام الساعۃ، باطل کی قیادت و غلبہ تھوڑے وقت کے لیے ہے، جب کہ حق کی سربلندی اور فرماں روائی قیامت تک کے لیے ہے۔
اسی مفہوم کو شاہ عبدالقادر محدث دہلویؒ[م:۱۸۱۴ء]نے سورۃ الفتح آیت ۲۸ میں ’اظہارِ دین‘ کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’اسلام کا غلبہ ظاہر میں بھی ایک مدّت تک رہا اور یہ دلیل سے ہمیشہ غالب ہے‘‘۔ جدید تہذیب، آزادی کے نشے میں ایسی چُور ہوئی ہے کہ اجتماعی زندگی کے دائمی اصول اس کی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ انسان کی آزادیاں اس کی مصیبت کا سبب بن گئیں، کیوں کہ وہ فطری حدود سے متجاوز ہو گئیں۔ انفرادیت پسندی کے ڈانڈے عمرانی اور سیاسی نقطۂ نظر سے ’نراج‘ (Anarchy) اور عدم اقدار (Nihilism) سے جا کر مل جاتے ہیں۔ چنانچہ نٹشے [م:۱۹۰۰ء]کا فلسفہ خود پسندی، عدل و مساوات کی اخلاقی اقدار اور مملکت و معاشرت کی ذمہ داریوں کو ڈھکوسلا قرار دیتا ہے۔
جدید مغربی فلسفہ وفکر کا گہرا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں اخلاق و تہذیبی اقدار کی مابعد الطبیعی بنیاد کا اب کوئی تصور نہیں رہا ہے۔ پولینڈ کے فلسفی زگمنٹ بائومین [م:۲۰۱۷ء] کی کتاب Life in Fragments (ٹکڑوں میں بٹی زندگی) میں درج ہے کہ یورپ اور امریکا میں پڑھے لکھے لوگ ذہنی طور پر ایک خلا (void) اور انکارِ کُل (Nihilism) میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ راگ رنگ اور جنسیت زدگی کے مقبولِ عام کلچر نے عوام و خواص کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ یونانی و رومی تہذیبی فکر اور عیسائیت کے وجود اور کائنات کے حوالے سے بنیادی روحانی تعبیر ترک کرنے کے فکری و سماجی اسلوب نے ہستی اور بین الانسانی تعلق خاطر کی بنیادوں کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔
حقیقت میں اب وہاں خود انسان کا وجود خطرے میں ہے۔ بہت سے مقالے اور کتابیں Post Human Scenario [مابعد انسانیت]سے متعلق شائع ہو رہی ہیں۔ جرمن فلسفی ہائیڈیگر، ناسا کا چیف سائمن رامو، ادموند ہوسرل، امریکی نفسیات دان ایرک فروم، ہربرٹ مارکوزے، اڈرنو اوریاک ہائمر کی کتاب The Dialectic of Enlightenment مغرب کے فلسفۂ روشن خیالی کو خرافات قرار دیتی ہے۔ مطلقیت اور آفاقیت بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔ امریکی فلسفی ایڈم کرش کی کتاب The Revolt Against Humanity: Imagining a Future Without Us کے مباحث اس حوالے سے چشم کشا اور مایوس کن ہیں۔فرانسیسی دانش ور مثل فوکو کا خیال ہے: ’’ انسان ڈیڑھ دو سو سال میں اس کرئہ ارضی سے غائب (erase) ہو جائے گا‘‘۔
ان مغربی مفکرین کے خیال میں: ’’چونکہ انسان نے گذشتہ تاریخی ادوار میں فطرت اور حیوانی انواع کے ساتھ منفی رویہ اختیار کیے رکھا ہے، اس لیے اب اس کا یہاں سے ہٹ جانا ہی بہتر ہے۔ یہ پوزیشن Anthropocene Anti-humanism ہے۔ چنانچہ ’انسانیت‘ کے تصور اور تعین کو بدلنا ازحد ضروری ہے۔ یعنی ’انسان‘ کے اس پورے تصور کو ملیامیٹ کر دینا ہو گا جو وحی، ادیان اور عرفانی لٹریچر میں مذکور ہے۔آزادی، ڈویلپمنٹ اور لامتناہی سائنسی یا ٹکنالوجیکل ترقی کے ساتھ اب دعویٰ موت کو شکست دینے کا بھی ہے۔ (اگرچہ اس میں یہ یقیناً کامیاب نہیں ہو سکیں گے)۔
بہرحال، دوسری جانب مغرب ہی میں بعض ایسے سنجیدہ فکر اور علمی تجزیہ و تحلیل کے علَم بردار مفکرین بھی ہیں،جن کی تصانیف میں مغرب کی ٹکنالوجیکل اور ڈیجیٹل ترقی پر نہ صرف سخت تنقید ہے بلکہ اسے ’’انسانیت کے لیے انتہائی منفی قرار دیا ہے‘‘۔ تہذیب حاضر کے انھی نقاد مصنّفین کے ساتھ کارل آر ٹرومین اور جان گرے کی تحریریں مغربی تہذیب وکلچر سے وہم کے ازالے (Disillusionment) کا کھل کر اظہار کرتی ہیں۔ اور ساتھ ہی ’ہیومن کنڈیشن‘کی کلچرل اور نفسیاتی ناہمواریوں کے بارے میں سخت ذہنی کرب اور تشویش کے ساتھ بنیادی سوالات اٹھاتی ہیں۔
ہمارا خیال ہے کہ اب مغرب میں ’اکیڈیمیا‘ کے کچھ اعلیٰ حلقوں میں بنیادی علمی سوالات کو وجودی اور روحانی تناظر میں دیکھنے کا رجحان بھی پیدا ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں یورپ اور امریکا کے مقامی اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات و خواتین کا بالخصوص حلقہ بگوشِ اسلام ہونا اور انتہائی محنت سے مسلم ممالک میںطویل عرصہ قیام پذیر رہ کر دینی علوم کو حاصل کرنا اور پھر اسلام کی حقانیت کو نہ صرف اپنے آبائی خطوں بلکہ بین الاقوامی سطح پر پیش کرناہے۔ حقیقت یہ ہےکہ وطن عزیز پاکستان بالخصوص اور پوری دنیا میں بالعموم، قرآن و سُنّت کی تعلیمات کو اعلیٰ علمی سطح پر پیش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بانی انجمن خدام القرآن ڈاکٹر اسرار احمدؒ[م: ۲۰۱۰ء]نے قرآن و سنت کی تعلیمات اپنے فہم کے مطابق نصف صدی سے زیادہ عرصہ دُنیا کے طول و عرض میں انتہائی پُرجوش اور انقلاب آفریں انداز میں پھیلائیں۔ دوسری جانب بعض اسلامی دعوتی و سیاسی جماعتیں ’ترقی‘ اور’ اقتصادی فلاح‘ کو مذہبی اصطلاحات سے ملا کر آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ تاہم، اس نوع کی پیوندکاری سے اب کام نہیں چلے گا۔ سطحی باتوں سے باہر نکل کر دینِ متین کی تعلیمات اور احکام کو ٹھیٹھ انداز میں اس طرح پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ مفہومات سے اوپر اُٹھ کر وجودی و ایمانی احوال کے طو رپر محسوس ہوں۔
عصری سماجیات پر گہری نظر رکھنے والے جناب حامد کمال الدین کتاب انسان دیوتا کے حق میں پاپ میں رقم طراز ہیں:
نظام سے تو شریعت خداوندی یہاں بہت پہلے فارغ کرائی جا چکی۔ اب تو وہ ذہنوں سے کھرچ دی جانے لگی ہے ۔’معاشرے‘ سے بے دخل ٹھیرائی جانے لگی ہے۔ ’نظام‘ کی بحثیں اٹھانے والے خدارا معاملے کی صحیح پوزیشن کو سمجھیں۔ اس جنگ کا محاذ فی الوقع ’سماج‘ ہے نظام نہیں ہے، یعنی صحیح معنوں میں ایک غربت اسلام جو ہمیں درپیش ہے۔ یہاں آپ کو ’تعلیم عقیدہ‘ کی سطح پر آنا اور جاہلیت کے ساتھ ایک گہرا اختلاف اٹھانا ہو گا۔ ایک ’سماجی محاذ‘ اٹھانے تک جانا ہو گا۔ اسے ’ملتوں‘ اور تہذیبوں کی آویزش بنانا ہو گا۔ مسئلے کو ’شرک اور توحید‘ کی بنیاد پر لینا ہو گا: کیونکہ ’ہیومن ازم‘ کے ساتھ فی الواقع ہمارا اسی نوعیت کا مسئلہ ہے۔ اس سے کم سطح کا کوئی بھی علاج مرض کو اور بھی تقویت دے گا۔
مراد یہ ہے کہ ہمارے اسلامی سیکٹر کو ایکٹوازم کے غیر مؤثر افعال کو کم کر کے، مؤثر مشاغل کی طرف جانا چاہیے۔ معاملے کو کسی ایک ’سیاسی سکیم‘ یا برسوں پر محیط ’تعلیمی و تربیتی پروگرام‘ میں محصور جاننا نتائج کے اعتبار سے نتیجہ خیز نہیں رہا ہے۔ ہمیں سیکولرزم، ہیومن ازم اور جدیدیت یا بالفاظِ دیگر ’ایمان بمقابلہ کفر‘ کے مباحث کو فرد سے افراد اور سماج تک پھیلانے کی ضرورت ہے۔ سیاسی ایکٹوازم اور دعوتی و علمی و تعلیمی فعالیت میں جوہری تنوع ہے۔ پُرجوش تقاریر کےبجائے علمی واصلاحی مجالس اور حلقات کا اہتمام اُمّت کی روایت اور افراد میں پائیدار ذہنی تبدیلی لانے اور معاشرے میں دین اور دینی شعائر کے لیے ایک عروج پیدا کرنےکا کارگر منہج رہا ہے۔
کورین دانش ور اور سماجی نظریۂ ساز بیان چل ہان (Byung Chull Han) عہدحاضر میں نیو لبرل ازم، کیپٹل ازم اور ڈیجیٹل ٹکنالوجیز کے نتیجے میں پیدا شدہ نظاماتی تبدیلیوں اور انسانی صورت حال میں رُونما تغیرات پر گہری نظر رکھتا ہے ۔ ہان کا مضمون Why Revolution is Impossible Today? ? اسلامی احیاء کا کام کرنے والوں کے مطالعے میں آنا چاہیے۔ پچھلی صدی میں جتنی بھی انقلابی تحریکات اٹھیں، دینی ہوں یا لادینی، وہ جس نظام کو بدلنے کی خواہش مند ہیں، وہ سسٹم یا نظام کیا ہے جیسے سوال کا کوئی نہ کوئی جواب اپنے تصورات میں ایک پوشیدہ مفروضے کے طور پر رکھتی ہیں۔ انھی بیانات یا مفروضوں پر آج تک جدوجہد جا ری ہے، مگر سسٹم کی بنیادوں کو چیلنج نہیں کیا جاسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ انقلاب کا ذوقِ ندرت فکر و عمل کا طالب ہوتا ہے۔
بیان چل ہان، جدید ڈیجیٹل ماحول میں زندگی بسر کرنے والے کو Homo Digitalis قرار دیتا ہے۔ ہر سسٹم اپنے Devotional Objects پیدا کرتا ہے۔ ڈیجیٹل عہد کا معروض ’سمارٹ فون‘ ہے، جس نے فرد کو اندر باہر ہر دو طرح سے بدل دیا ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ’سمارٹ فون‘ کی سکرین پر ہر وقت مادیت اور نفس پرستی پر مبنی تصاویر اور شیطانی کلچر کو فروغ دیاجا رہا ہے۔ مادہ پرستی اور فحش مظاہر اور مناظر لوگوں کے مزاج کا حصہ بن گئے ہیں۔ ان مناظر سے بے شمار نفسیاتی بیماریاں اور خانگی زندگی میں تلخیاں پیدا ہو رہی ہیں۔حقیقت میں ہم ایک ایسے عہد میں جیتے ہیں، جو اپنی تشکیلی ساخت میں متعدد عناصر و عوامل کا ماحصل اور مرہونِ منت ہے۔ کچھ عوامل و عناصر تاریخی ہیں اور ماضی بعید سے تعلق رکھتے ہیں، اور کچھ عناصر کو ظہور پذیر ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔
تاریخی عناصر میں روم و یونان کا کردار، قرونِ وسطیٰ میں پائے جانے والے باطل عقائد اور پُرتشدد عمل، احیائے علوم، روشن خیالی، عقلیت اور اصلاح مذہب کی تحاریک، سائنسی انڈسٹریل انقلاب، ’انقلاب فرانس‘ وغیرہ ہیں، جو تمام جغرافیائی طور پر یورپ سے اُبھرے ہیں۔ ان تمام عناصر کے مجموعی نتائج کو ہم ’جدیدیت‘ کے لفظ سے بیان کرتے ہیں، جس کی علمیت، مابعد الطبیعیات اور اقدار ماضی کی اکثر روایتوں سے تضاد کی نسبت رکھتی ہیں۔اسی کے نتیجے میں ’جدید انسان‘ نے جنم لیا، جو اپنے تئیں خود آگاہ، مگر حقیقت میں خود اور خدافراموش‘ اور ماضی سے قطعی مختلف شعور کا حامل تھا۔ جو’آفاق‘ کا حِس کی شرط اور اساس پر اور ’انفس‘ کا جبلت (Instinct)کی بنا پر ادراک کرتا تھا۔ اس جدید انسان اور اس کے نظریات و تصورات کی یورپ سے ہمارے ہاں آمد استعمار (colonialism)کے ذریعے سے ہوئی۔
عہد حاضر کی تشکیلی ساخت میں وہ عناصر جو حالیہ چند عشروں سے معرضِ وجود میںآئے ہیں، وہ انفارمیشن اور ڈیجیٹل ٹکنالوجیز، سائبر سپیس اور اب ’مصنوعی ذہانت‘ (AI) ہیں۔ ان کی آمد اپنے اثرات کی دُنیا میں سب سےوسیع اور نفوذ و تاثیر میں بہت گہرا واقعہ ہے۔ یہ جدیدیت کا سب سے جدید مظہر ہے۔ ’جدیدیت‘ نے جس طاقت اور معیشت کے نظام کو جنم دیا تھا، اس کو ’سائبر سپیس‘ کی صورت میں گھر میسر آ گیا ہے ۔ علم اور تعلق کا مطلب اور درو بست تبدیل ہو گیا ہے۔ جدید معاشروں میں دینی اور روایتی زندگی کے اگر کوئی امکانات تھے تووہ اور بھی زیادہ کم ہوتے جا رہے ہیں۔
انسانی علوم، تعلقات، تہذیبی و ثقافتی مظاہر میں اعلیٰ و ادنیٰ، بلندی وپستی، معیاری و غیرمعیاری، اخلاقی و غیر اخلاقی کی تقسیم کو محفوظ رکھنے والے خطوط و معیارات اب دھندلاتے جارہے ہیں۔ اس کو بعض فلسفی ’مابعد جدیدیت‘ قرار دیتے ہیں،لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ ’جدیدیت‘ ہی کا تسلسل ہے اور انسانی زندگی پر اس کے انتہائی نتائج ہیں۔حقیقت میں یہ ایسی مسلسل تغیر پذیر صورت حال ہے، جس سے ہم سب دوچار ہیں اور ایک جال ہے جس کا ہم شکار ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا حاضر و موجود صورتِ حال کی معرفت اور جدیدیت کے کچھ نسبتاً تازہ مظاہر کو تفہیم و تجزیہ کی بنیاد قرار دیے بغیر حالات کی درست تفہیم اور صائب نظاماتی تجزیہ (systemic analysis) ممکن ہے؟ المیہ یہ ہے کہ جدیدیت کی ایک نسبتاً پرانی تفہیم پر کلی نظاماتی تحلیل و تجزیہ کی بنیاد اُٹھائی جاتی ہے۔ نظام کی سطح پر تبدیلی کو انقلاب قرار دینا ایک خاص تاریخی صورت حال کا نتیجہ ہے۔ بجائے انقلاب اور تبدیلی کے ان تصورات، جو اپنا ایک خاص تاریخی سیاق و سباق رکھتے ہیں، ان کا استنادی مقام و مرتبہ یا جواز مذہبی متون میں تلاش کیا جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انھیں اپنے عہد میں ہونے والے تغیرات سے متعلق رکھا جائے۔ سسٹم کی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں، انسانی نفس پر ہونے والی تاثیرات او ر طاقت و معیشت کے تصورات میں ہونے والے تحولات کا ادراک کیا جائے، اور ایسا زندہ تناظر دریافت کیا جائے، جو حاضرو موجود اسلوب حیات سے متعلق ہو۔ دوسرے لفظوں میں باطل کی نئی صورتوں اور ہئیتوں کو زیر بحث لایا جائے جسے علامہ اقبالؒ نے یوں نمایاں کیا ہے ؎
جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
ہمارے ’جدیدیت گزیدہ‘ اور مغرب پرست خواتین و حضرات کے علمی و ذہنی افق پر نظر ڈالیں تو ان میں کثیر تعداد متداول علوم ،سائنسی و سماجی علوم،پڑھے ہوئے ہیں،لیکن سماجی علوم وہی ہیں جن کی ترتیب و تسوید مغربی ممالک کے دانشوروں نےکی ہے۔ چنانچہ تہذیب و تمدن کے تمام مباحث میں لادینیت والحاد ان کے ذہنوں کو آلودہ کر گیا۔ وہ نظریات اور ’گمانوں کے لشکر‘اور محدود فکری پیراڈائم کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں اور ’یقین کا ثبات‘ انھیں حاصل نہیں ہے۔ کاش! انھوں نے کبھی کچھ وقت اور صلاحیت اپنے دین کے مطالعے میں بھی صرف کی ہوتی، تو انھیں معلوم ہوتا کہ مسلمان کی بنیادی شناخت مخلوق، عبد اور تابع فرمان وجود سے منسوب ہے جس کے ہرقول ، عمل اور نیت کا آخرت میں حساب لیا جائے گا۔ کتاب اللہ، (قرآن کریم) اور سنت رسولؐ ہمارے لیے ہدایت کی دو انتہائی روشن قندیلیں ہیں اور ہم ایمان و یقین اور اعمال صالح اور عبودیت کے ساتھ زندگی بسر کر کے آخرت کے دائمی انعام و اکرام سے نوازے جا سکتے ہیں۔
برسراقتدار حلقوں کی ترجیحات اور مجبوریاں اپنی جگہ، مگر داعیانِ اسلام کو بہرحال اپنے حصے کا کام بھرپور انداز میں کرنا ہے اور دورِ جدید کے فتنوں، کفر ، الحاد اور تشکیک کو گہرائی میں سمجھ کر ابطال کرنا ہے۔ جدید تعلیم یافتہ اور جذبۂ اسلامی کے حامل افراد کے لیے قدیم ’علم الکلام، کے اصول، منہج اور مباحث سے تعارف حاصل کرنا ازبس ضروری ہے۔ اسلام کی تہذیبی اور کلچرل شناخت و قوت جہاں ایک درجہ مظاہر (وضع قطع، لباس وآداب مجلس) میں بھی ہے،مگر اس کی اصل روح ایک جاندار عقیدے (ایمان بالغیب) میں ہے اور وہ ایسا واضح، ثابت اور محکم عقیدہ ہے، جس کا اثبات ہمیں قرآن کریم کے ہر صفحے پر ملتا ہے۔
پھر اس کی پشت پر ایک کامل شریعت اور اُسوئہ رسولؐ ہے، جس کا بیان معلوم و ثابت مراجع رکھتا ہے۔ ایمانیات کے اسی بیانیے کو ہمارے سلف صالحین اور اَساطین اُمّت نے بصیرت افروز قالب عطا کر کے تجدیدی کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ ہمارا یہی تُراثِ علمی، مغربی ڈسکورس کے غلبے اور ذہنوں کی غلامی اور ماتحتی کے اس دور میں تریاق کا کام کر سکتا ہے۔ داعیوں کی اعلیٰ علمی حیثیت و صلاحیت ہی ’سیکولر گلوبلائزیشن‘ اور ہمارے ملک میں اس کے پھیلائو اور اثرات کا توڑ کر سکتی ہے۔
اس کام کی انجام دہی کسی بڑی جماعت یا ہیئت ِ اجتماعی کے بجائے حلقات، سلسلۂ درس و تدریس یا اکیڈمی اور چھوٹی چھوٹی اجتماعیتوں کی شکل میں ممکن ہے، جن میں لمبا چوڑا اور اداراتی نظام اور دفتری پن نہ ہو،بلکہ ایسا سیٹ اپ ہو جس میں طلبہ، طالبانِ حق اور تشنگانِ علوم اسلامیہ مستفید ہوں اور اپنے قلوب و اذہان کو ایمان و یقین کے نور سے منور کر رہے ہوں۔ساتھ ہی یہ ایمان و عقیدہ ان کے وجودی احوال میں محقق ہو کر ان کے اخلاق و اعمال کو نہ صرف قرآن و سنت کے قالب میں ڈھال دیں بلکہ وہ دینی تعلیمات و اقدار کے داعی بھی بن جائیں۔ اور اس طرح تہذیب اور معاشرے کی سطح پر حقیقی اور دیرپا اسلامی تبدیلی کا باعث بنیں: اللّٰهُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَهُ، وَأَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَهُ۔
ظہورِ اسلام کےایک ہزار سال بعد تک مسلمان، قرآن کے اخلاقی احکامات کے تناظر ہی میں اپنی تاریخ کی تعبیر اور تجزیہ کرتے آئے ہیں۔ مسلمانانِ عرب نے اسلام کے اخلاقی تصورِ ِحیات کو، افریقا اور دجلہ و فرات کے علاقوں میں پچھلے چار ہزار سالوں کے دوران پروان چڑھنے والے رائج الوقت معاشرتی نظام اور پیداواری نظام سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ امتزاج کا یہ کام اُموی دور میں شروع ہوا، عباسی خلافت میں فکری طور پہ بار آور ہونے لگا ، اور عثمانی خلافت میں اس کوشان و شوکت اور غلبہ حاصل ہوا۔
جدیدیت کی ’پیراڈائم شفٹ‘ (Paradigm Shift) کے بعد حالات کا تقاضا تھا کہ مسلمان یہ ادراک کر لیتے کہ کوئی سابھی اخلاقی نظام ہو، انسان اپنے اظہار کے لیے بہرحال اسی مادی دنیا کے اسباب اوروسائل کا محتاج ہوتا ہے۔ لیکن افسوس کہ مسلم شعور آج تک تاریخ کو اس تناظر میں دیکھنے کی صلاحیت ہی پیدا نہیں کر سکا، اور اگر کیابھی تو جزوی اور محدود حد تک۔ اس لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ ان کی وہ تمام کوششیں، جو مسلم دنیا اور مسیحی مغرب کے درمیان فوجی طاقت، مادی دولت، اور ثقافتی اثر و رسوخ کےمسلسل بڑھتے ہوئے فرق کی تشخیص کے لیے تھیں، سودمند ثابت ہوتیں۔ کیونکہ یہ تشخیص انسانی معاشروں کے عروج و زوال کے معروضی اور آفاقی پیمانوں کے بجائے صرف عقائد کے زیرِ اثر ، جزوی، یا سطحی مفروضوں پر مبنی تھی۔ نتیجتاً، صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے یہ کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔اسی لیےاس بات سے اب ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے کہ قوت اور وسائل میں یہ تفاوت ، صرف مسلم معاشروں اور مغرب کے درمیان ہی نہیں ہے، بلکہ اب تو مسلم معاشروں اور کئی دیگرغیرمغربی معاشروں کے درمیان بھی یہ فرق بڑھتا جا رہا ہے۔
دُنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ صرف دینِ اسلام کی راہ سے بھٹکنا ان کی اس کمزوری کا سبب نہیں ہے۔ ہمارے دور میں مختلف تہذیبوں کے درمیان طاقت کےاس عدمِ توازن کے ادارک کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے اس بات کو شعوری طور پر سمجھ لیں کہ ایک ’جدید صنعتی معاشرہ‘ ماضی کےپیداواری نظاموں اور سماجی بندوبست سے بنیادی ہیئت ہی میں مختلف ہے۔ جب تک مسلمان تجزیے اور اصلاحِ احوال کی کوششوں کوان مبادیاتی (Fundamental) غلطیوں سے پاک نہیں کریں گے، اُس وقت تک، اپنی عظمتِ رفتہ کی بازیافت کے لیے مسلمانوں کی سب کوششیں ماضی کی طرح لا حاصل ہی رہیں گی۔
قبولِ اسلام کے بعد مسلمانانِ عرب چند ہی عشروں میں اپنے آبائی صحرائی مسکن جزیرہ نمائے عرب کے گرد پھیلے زرخیز ہلال نما (Fertile Crescent) خطےپر قابض ہو گئے ۔ عراق، شام، مغربی ایران اور مصر پر مشتمل یہ علاقہ اپنی جغرافیائی ہیئت، اور ہزاروں برس سے باقاعدہ کاشتکاری کا اولین مرکز ہونے کے ناتے، اس نام سے پہچانا جاتا تھا۔ پھرصرف ایک صدی میں وہ دریائے سندھ سے لے کر اسپین کے ساحل تک پہنچ چکے تھے۔ مگراس دنیا میں ایسی سلطنت قائم کرنے والے وہ نہ پہلے فاتح تھے اور نہ آخری۔ ان سے پہلے سائرسِ اعظم (م:۳۲۳ ق م)، سکندرِاعظم (م:۵۳۰ ق م) اور رومی فاتحین اور پھر منگول، مغربی یورپی اور روسی فاتحین فتوحات کرتے آئے۔
بلاشبہہ اسلام نے ہی عربوں کو وہ ولولہ، اتحاد اور اشاعتِ دین کا جذبہ دیا، جو اس کارِ عظیم کا محرک بنا۔ فتوحات کے لیے انھیں وہی جنگی حربےاور نظم و نسق کے طریقے استعمال کرنے پڑے، جو اس زمانے کے دیگر تمام معاشروں میں رائج تھے۔ عرب جن ہتھیاروں اور جنگی چالوں کا استعمال کر تے تھے، وہی ان کے دشمن بھی کر تے تھے۔ جب وہ وسیع و عریض علاقوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے، تو انھیں ریاست کے نظم و نسق کو چلانے کے لیے انھی انتظامی ڈھانچوں کا سہارا لینا پڑا، جو پرانی میسوپوٹیمین (بین النہرین) اور مصری سلطنتوں نے بنائے تھے۔ ان کے شوقِ شہادت اور جذبۂ ایمانی کی میدانِ جنگ میں اہمیت اپنی جگہ، مگر میدانِ جنگ میں فتح و شکست کا فیصلہ صرف جذبے کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ اسلامی فوج ہربار ہر جنگ میں فتح یاب نہیں ہو سکی۔ اُموی خلافت کے قسطنطنیہ پر تمام حملے ناکام رہے۔ فاطمی حکمران، یروشلم شہر کو صلیبیوں کے قبضے میں جانے سے نہ بچا سکے ، اور بنوعباس کا دارالخلافہ بغداد ہلاکو خان (م:۱۲۶۵ء)کےلشکر نے ۱۲۵۸ء میں تاراج کردیا۔ فتح و شکست جن مادی اسباب پر منحصر ہوتی تھی وہ کافر، عیسائی یامسلمان فوج سبھی کی دسترس میں ہوا کرتے تھے۔
عرب اور مسلمانوں نے جو بھی مادی ترقی اپنی سلطنت کے قیام کے بعد حاصل کی، وہ صرف دین پر عمل کرنے کا ہی انعام نہیں تھی، بلکہ اس میں ان کی فکری، علمی، اخلاقی اورہمہ جہت عملی جدوجہد بھی شامل تھی۔ عباسی خلافت کے سنہری عہد میں اسلامی تہذیب اپنے دور کی دوسری تہذیبوں سے دنیاوی خوش حالی کے حوالے سےکوئی بہت زیادہ بہتر نہیں تھی۔ ایک ہزار سال پہلے، دنیا میں تین بڑے تہذیبی مراکز تھے: اس دور کا خوش حال ترین معاشرہ چین کا تھا۔ سونگ خاندان کی چینی سلطنت میں ۱۰ کروڑ سے زیادہ لوگ باقی تہذیبوں سے کہیں بڑھ کے ایک ترقی یافتہ تمدن میں زندگی گزار رہے تھے۔ سلطنتِ روم کی شان و شوکت کی وارث بازنطینی سلطنت کا دارالحکومت قسطنطنیہ، دنیا کا امیر ترین شہر تھا۔ اسی دور کی تیسری بڑی طاقت عباسی خلافت کے مسلمان شہریوں کی خوش حالی اور معیارِ زندگی ان دو ہم عصر تہذیبوں کےشہریوں سے مماثلت رکھتے تھے۔ عرب اور مسلمانوں کی فتوحات کےنتیجے میں ہمسایہ ریاستوں کے زرخیز علاقے زیرِ قبضہ آگئے اور فاضل زرعی پیداوار اب دمشق اور بغداد آنے لگی۔ جس کے نتیجے میں انھیں مادی ترقی اور خوش حالی دیکھنے کا موقع ملا۔ مسلمان زراعت کے طریقوں میں کچھ جدت بھی لائے،مگردولت کی تخلیق کے کسی نئے نظام کو جنم نہیں دےسکے۔ اس دور کی مسلم خلافت سمیت تمام معاشروں میں زیادہ تر آبادی بمشکل ہی گزربسر کرپاتی تھی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ساڑھے پانچ ہزار سال پہلے انسانی تہذیب کے آغاز سے انسان کی فی کس آمدنی آج کے حساب سے دو سے تین ڈالر یومیہ تک ہی محدود چلی آ رہی تھی۔ اس معمولی گزربسر کے قابل فی کس آمدنی میں بڑھوتری کے آثار اٹھارھویں صدی کے وسط میں صنعتی انقلاب کےنتیجے میں آنا شروع ہوئے۔ ورنہ چین ہو یا ہندستان، مشرقِ وسطیٰ ہو یا یورپ، انسانی تاریخ کی ان سبھی عظیم تہذیبوں میں کم و بیش ایک ہی طرح کا معیارِ زندگی اور معاشی حالات تھے۔ مسلم دنیا کے حالات بھی ان سے چنداں مختلف نہیں تھے۔
بعثت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے آغاز سے ایک ہزار سال بعد تک مسلمانوں کی فتوحات، مال و دولت اور طاقت کے مذہبی اسباب کے باوجود یہ سب انھی دنیاوی آلات و ذرائع کے سہارے ممکن ہوا، جو اس دور میں مروج تھے اور دنیا کے تمام دوسرے معاشروں کو بھی یکساں میسر تھے۔ اپنی سلطنت کے قیام اور استحکام کے دوران دنیا میں دستیاب ان مادی ذرائع سے فائدہ اٹھانے میں مسلمان اکثر اوقات بہت کامیاب رہے، لیکن کبھی انھیں زیادہ کامیابی نہ مل پائی۔ اس دنیا میں اسلامی تہذیب کا عروج اپنے مخصوص اخلاقی جوہر کے باوجود زمان و مکاں میں کارفرما علت و معلول کے ان آفاقی اصولوں کے باعث ممکن ہوا، جو باقی تمام معاشروں پربھی اسی طرح لاگو ہوتےتھے ۔ چوں کہ عربوں کی اسلام قبول کر لینے کے بعد سے فتوحات اور خوش حالی کے ایک طویل دور کا آغاز ہوا تھا، اس لیے فطری طور پر مسلمانوں کے نزدیک ان کو ملنے والی طاقت، عظمت اور مادی خوش حالی اسلام کی فیوض و برکات کا لازمی نتیجہ تھیں ۔ سماجی عوامل اور نتائج کے لیے مادی اسباب و علل کے بجائے اخلاقی توجیہات تلاش کرنے کا یہ اندازِ فکر آج تک مسلمانوں میں مقبول ہے۔اس مخصوص تاریخی تجربے کے نتیجے میں مسلمان جس تجزیاتی طریقۂ کار کو آفاقی سمجھے بیٹھے تھے، وہ غیر اسلامی تہذیبوں کے عروج و زوال کےدرست تجزیے میں یکسر ناکام ثابت ہوا۔ یہ اندازِ فکر آج تک جدید صنعتی مغربی تہذیب کے عروج اور اس کے نتیجے میں عالمِ اسلام کے زوال کی درست تشخیص کرنے میں مکمل طور پہ غیرمتعلق ثابت ہوا ہے۔
اسلامی تہذیب سمیت دورِ جدید سے پہلے کی تمام تہذیبوں کا استحکام ایک مخصوص سماجی نظام اور تخلیقِ دولت کے روایتی نظام پر منحصرہوا کرتا تھا۔ لیکن یورپی نشاتِ ثانیہ کے ساتھ ہی مغربی یورپ کے ممالک میں یہ دونوں نظام ایک جوہری تبدیلی سے گزرنے لگے۔ یونان اور روم کے قدیم علوم، فلسفہ و منطق کی تکنیکی مہارت اور انسانی عظمت و عزم سے بھرپورفلسفۂ زندگی کو اپنا لینے کے بعد یورپی فلسفیوں نے ان کلاسیکل علوم میں اضافے بھی کیے۔ کائنات کے ہیلیؤ سینٹرک ماڈل کو تسلیم کرلینے سے انسان اور زمین کی مرکزیت کا عقیدہ متزلزل ہو گیا۔ استقرائی استدلال، تجرباتی سوچ اور علمِ ریاضی کے ملاپ نے جدید سائنس اور آئزک نیوٹن (م:۱۷۲۷ء)کے قوانین کو جنم دیا۔ کرۂ ارض کے گرد بحری مہمات اور امریکی براعظموں کی دریافت نےانسان کے ذہنی اُفق کو وسیع تر کردیا۔
انسان کی یہ دریافتیں اور پیش قدمیاں کئی ایجادات، انسانی زندگی میں بہتری کے ساتھ سماجی، معاشی اور سیاسی اداروں میں جدتیں لے کر آئیں۔ پرنٹنگ پریس کی آمد نےوسیع پیمانے پر اشاعتِ علم کو آسان کر دیا۔ کولمبیئن ایکسچینج اور دوسرے زرعی انقلاب نے یورپی باشندوں کی غذا کو پہلے سے بہت بہتر بنا دیا۔ ’تحریک اصلاح‘ (Reformation) کے بعد، چرچ کی سیاسی اجارہ داری کے خاتمے سے جدید قومی ریاستوں کے نظام کو پروان چڑھنے کا موقع ملا۔ یورپ میں ہونے والی مذہبی جنگوں بالخصوص ۳۰سالہ جنگ کے نتیجے میں ان کے فنِ حرب و ضرب میں بہت بہتری آئی ۔ اور بالآخر ۱۹ویں صدی میں صنعتی انقلاب نے صنعتی پیداواراور خدمات کی فراہمی کے ذریعے مغرب اور باقی دنیا میں ایک ایسی تفریق پیدا کر دی، جو روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
مغرب کا عروج، صرف مسلم دنیا کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام غیر مغربی تہذیبوں کے لیےبھی تباہ کن ثابت ہوا۔ برصغیر ہند میں برطانوی نوآبادی کے قیام سے نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو اور سکھ اقوام کو بھی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ۱۹ویں صدی کے دوران، امریکیوں نے جاپان میں تقریباً ۷۰۰ سال سے قائم شوگن نظام کو ختم کر دیا اوراس ملک کو باقی دنیا کے ساتھ رابطے پر مجبور کر دیا۔ ۱۹۱۱ء میں، پہلی جنگ عظیم سے ذرا پہلے، چین کے انقلابیوں نے دوہزار سال پرانے بادشاہت کے نظام کو ختم کر دیا، اور پہلی جنگ عظیم نے روسی اور عثمانی سلطنتوں کا بھی خاتمہ کر دیا۔ پرانی کولمبیائی تہذیبوں اور سب صحارن افریقا کی آبادیوں کا حال تو اور بھی برا ہوا۔ صرف پانچ سو سال پہلے تک، مغربی یورپ کی کوئی قوم اپنی سرزمین کے علاوہ کسی اور جگہ موجود نہیں تھی۔ لیکن ۱۹۱۳ء میں اس دنیا کا۸۴ فی صد رقبہ یورپی طاقتوں کے قبضے میں تھا۔ تہذیبوں کی کش مکش میں بازی کا ایسے پلٹ جانا انسانی تاریخ کا ایک ناقابلِ یقین واقعہ تھا۔
مسلم تہذیب کے بر عکس بہت سی غیر مغربی تہذیبوں نے مغرب کی بےپناہ قوت کو دیکھتے ہوئے جلد ہی یہ بھانپ لیا تھا کہ اب ان کا وجود خطرے میں ہے، اور دنیاوی طاقت کے ہرایک پیمانے پر مغرب کے ہم پلہ بن کر ہی اپنی اقدار کا تحفظ کیا جا سکتا ہے۔ ان اقوام نے اپنے عقیدے، اقدار، اور روایات کے ضروری خواص اور مغربی تسلط کی بنیاد یعنی صنعتی پیداواری نظام کے امتزاج کے لیے بھرپور کوششیں شروع کر دیں۔ یہ کوششیں رنگ لائیں اور وہ مکمل بربادی سے بچ گئے۔ حالانکہ ان تمام غیرمغربی تہذیبوں کے مقابلے میں یہ مسلمان ہی تھے، جو نہ صرف مغرب کا فلسفہ، ثقافت اور مذہب کو زیادہ اچھی طرح سے سمجھتے تھے بلکہ ایک طویل عرصے سے اس کے ساتھ برسرِپیکار بھی تھے۔ اسی لیے توقع کی جا سکتی تھی کہ مغرب کے مقابلے میں طاقت کے اس غیرمعمولی فرق کو وہ جلد ہی دُور کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آخر کیا وجہ بنی کہ تین سو سال سے جاری کوششوں کے باوجود مسلمان اپنے اور مغرب کے مابین طاقت اور وسائل کے اس غیرمعمولی تفاوت کو ختم نہیں کر سکے؟
ایک تو مسلمان ابھی تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ ان کے موجودہ بحران کی وجوہ داخلی نہیں۔ پچھلے پانچ سو سال کے دوران، دنیا کاکوئی بھی سیاسی نظام، مغرب کی یلغار کے سامنے نہیں ٹھیر سکا۔ ۱۸ویں صدی کے اواخر سے کوئی بھی معاشرہ معاشی پیداوار کے میدان میں مغرب کا مقابلہ نہیں کرسکا۔بلاتفریق سبھی غیرمغربی اقوام ،مغرب کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئیں۔ پھر بھی مسلمان یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ وہ اپنی کسی کوتاہی یا کمزوری کی وجہ سے پیچھے نہیں رہ گئے بلکہ مغرب اپنی غیر معمولی ترقی اور ’پیراڈائم شفٹ‘ کی وجہ سے دوسری تمام تہذیبوں سے آگے نکل گیا۔ ہم مسلمان اپنے ’زوال‘ کے اسباب کو اپنے ہی ماضی میں ڈھونڈتے ہیں۔ وہ آج بھی اپنی تاریخ کے اس لمحے کی کھوج میں ہیں جب وہ صراطِ مستقیم سے بھٹک گئے تھے، اور یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ انسانی تاریخ کو اس تناظر میں دیکھنے کا مخصوص و محدود نقطۂ نظر آفاقی اور معروضی نتائج نہیں دے سکتا۔
اپنی تہذیب کے عروج کے دوران مسلمان اپنے دین کے مِن جانب اللہ ہونے اوراسی کی طرف سے دنیا پر اس کے غلبے کو مقدر کردینے پر بجاطور پر نازاں تھے اور ماضی کے ان خوش گوار لمحوں کو درست طور پر یاد کرتے ہیں۔ لیکن پھر انھوں نے اس خدائی منصوبے کی تکمیل میں کام آنے والے وسائل اور انسانی کاوش کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ اس لیے ان کی طرف سے تاریخ کو دیکھنے کا ایک زاویۂ نظر متعین کرلینا عین فطری تھا۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی طاقت اور آن بان، ماضی میں ان کے خالص ایمان اور اچھے اعمال کی وجہ سے تھی، اسی لیے اب ایمان میں کمی اور اخلاقی گراوٹ ہی ان کی شان و شوکت چھن جانے کی وجہ ہے۔ اس تجزیاتی فریم ورک کے غیرمؤثر ثابت ہوئے تین صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، مگر اس کے باوجود، مسلم ذہن اب تک اس نظریے کی جگہ علت و معلول کے فطری اور آفاقی قوانین کی روشنی میں اپنے مسائل کا تجزیہ کرنے پہ آمادہ نہیں ہو سکا۔
جب مسلمان، مغرب سے کچھ سیکھنے پر مجبور ہو بھی جائیں تو وہ مغرب کے فکری پیمانوں کو اپنا نہیں سکتے یا پھر ان کے سطحی استعمال سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اسی لیے وہ جو بھی تجزیہ کرتے ہیں وہ تاریخی اور منطقی طور پر غلط ہوتا ہے۔ مسلمان غیر ارادی طورپر اخلاقی نظریۂ تاریخ کی روشنی میں ہی مغرب کے عروج کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ مغرب کی تاریخ میں وہی اخلاقی قوت کارفرما دیکھتے ہیں، جو کبھی خود ان کی اپنی کامیابی کا باعث تھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ مغرب میں یہ اُبھار، اخلاقی تعلیمات اور اقدار کسی بھی مابعد الطبیعیاتی نظام کا نتیجہ نہیں۔ ان کے نزدیک مغرب سیکولر ہوتے ہوئے بھی اس لیے کامیاب ہے کیونکہ وہ مسلمانوں کے دین اور ایمان سے کشید کی گئی آفاقی اقدار کا حامل ہے۔ مغرب کے عروج کی یہ سطحی سی وضاحت ہے، جو ان کے اپنے اندازِ فکر کے تضاد کی تصدیق کرتی ہے۔ جس سے معاملات کے درست ادراک کے لیے تاریخ کے کسی بھی معروضی اور تنقیدی تجزیے کی راہیں بھی مسدود ہو جاتی ہیں۔
مغربی طاقتوں کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے والی مسلم اقوام جب اپنے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر نہ کرسکیں تو پھرمغربی استعماریت(Colonisation) کے دور اور جبر کو ہی اپنی موجودہ ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھیراتی ہیں کہ اسی استعماریت اور نوآبادیاتی نظام نے ان کی شان وشوکت کو برباد کیا تھا اور یہ انھی جیسی یورپی نوآبادیاتی کالونیوں سے لوٹی ہوئی دولت تھی، جس کے سہارے یورپ میں صنعتی انقلاب آیا۔ جب آج کے جدید دور کو ماضی پر قیاس کرنے کی غلطی کی جائے گی تو اسی قسم کے تجزیے سامنے آئیں گے۔ اگر یہ مسلم اقوام طاقت اور عوامی فلاح و بہبود کے پیمانوں پر مغربی اقوام سے بہتر ہوتیں تو کوئی ایک تو جدیدیت کی اس یلغار کو روکنے میں کامیابی حاصل کر لیتی۔ آخر آزادی کے بعد بھی ان میں سے کوئی ایک قوم بھی اپنی عظمتِ رفتہ کا احیاء کیوں نہ کر سکی؟ اور کیوں کوئی ایک بھی مسلم ملک اپنے نوآبادیاتی دور کے آقا کی طاقت کے ہم پلہ نہیں آ سکا؟
دراصل صنعتی دور سے پہلے کی بادشاہتوں کے طرزِ حکمرانی اور جدید دور کی یورپی قومی ریاستوں کے غلبے میں مماثلت قائم کر کے کیا جانے والا تجزیہ نہ تو ماضی میں فاتح اور مفتوح کی دولت اور طاقت کے فرق کی کوئی درست وضاحت کرتا ہے اور نہ نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے صدیوں بعد بھی اس فرق میں مسلسل اضافے کی کوئی قابلِ قبول وضاحت پیش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دو سو سال سے مغرب کے عروج کو سمجھنے کے لیے کی جانے والی کوششیں ابھی تک یہ گرہ نہیں کھول سکیں کہ جدیدیت در اصل ماضی اور حال کے درمیان ایک واضح تقسیم، ایک ’کوانٹم لیپ‘ اور انسان کو دستیاب مادی اسباب میں ایک ’پیراڈائم شفٹ‘ کا نام ہے۔
جب بھی مسلمان محققین یورپ کے عروج کا معروضی تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی فکری کم مائیگی ان کے آڑے آتی ہے۔ وہ یورپی تاریخ میں عہدِ وسطیٰ کے بعد پیش آنے والے واقعات کے تسلسل میں سے ترقی کے ایسے تصورات و نظریات اخذ نہیں کر پاتے، جو آفاقی اور وقت کی قید سے آزاد ہوں۔ وہ کچھ مخصوص تاریخی واقعات میں ہی اُلجھے رہتے ہیں، یا پھر علامات اور نتائج کو ہی اصل مسئلہ سمجھنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں اور یوں ان کا تجزیہ منطقی مغالطے کا شکار ہوجاتا ہے ۔
کچھ مسلمان مؤرخین نے غیرالہامی فلسفۂ تاریخ پر کام کا آغازتو ضرور کیا، لیکن مسلم معاشرے بحیثیتِ مجموعی ایسے علمی پیمانے تشکیل نہیں دے سکے، جو اس عالمِ اسباب میں پیش آنے والے تاریخی واقعات کی عقلی توجیہہ کرنے کی ضرورت کو پورا کر پاتے۔ مسلم فلسفیوں نے واقعات یا شخصیات کے مشاہدے سے کوئی ایسا عقلی استدلال تشکیل نہیں دیا، جو ہر مابعدالطبیعیاتی نظام کے لیے معیار اور حوالہ بن سکے اور نہ مسلمانوں کا علمی ذخیرہ اتنا وسیع کیا جاسکا کہ وہ یورپی تاریخ کے ہرسیاسی، سماجی اور معاشی واقعے کا درست تناظر سمجھ کر اس کی نوعیت اور اہمیت پر کوئی آفاقی تجزیہ دے سکتا۔ اس طرح مسلمان کوئی ایسا متبادل نظامِ فکر اپنے معاشروں میں پیش نہ کرسکے، جو جدید مغرب کو اسی کے فکری پیمانوں، اسی کی علمی روایات اور اس کے فلسفیانہ سرچشموں کے تناظر میں سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
مسلم شعور نہ صرف مغرب کی کامیابیوں کی فلسفیانہ بنیادوں کا کھوج لگانےمیں کامیاب نہیں رہا ہے، بلکہ وہ یورپ کے سائنسی اور سماجی تجربات کے نتائج اورثمرات سے استفادے کا بھی کوئی داخلی پیمانہ متعین نہ کر سکا۔ کم و بیش تین سو سال سے جدید جنگی ساز و سامان، صنعتی مشینری، قانونی اور آئینی فریم ورک، جدید انتظامی سسٹم اور سماجی اور معاشی اداروں سے استفادے کے باوجود مسلمان ایک ایسا نظامِ فکر تشکیل دینے میں ناکام رہے ہیں، جس میں وہ اپنے ناقابلِ تغیر اخلاقی تصورات اور ان تصورات کے حصول یا تنفیذ کے لیے درکار ہر دم تغیر پذیر ذرائع میں واضح تفریق کر سکیں۔
مسلمان جدید ٹکنالوجی، جدید تصورات اور جدید اداروں سے استفادہ کرتے ہوئے ایک نفسیاتی تذبذب کا شکار بھی رہتے ہیں۔ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ قُرونِ اولیٰ میں خاص روحانی مداخلت کے باعث مسلم تہذیب اور ریاست کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ مسلمانوں کے اندر ایسے نظریات نہیں پنپ سکے جو انھیں اطمینان دلاتے کہ سائنس، عقل اور سماجی ارتقاء سے حاصل کیے گئے ذرائع کا استعمال قطعاً غیر اسلامی عمل نہیں ہے، اور یہ بھی کہ ایمان ان سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ جدید سے جدید تر علم اور ذرائع کے استعمال سے انسانی تاریخ میں اپنا کردار ادا کریں۔ ایسےعلم الکلام کے نہ ہونےکی وجہ سے جدید ٹکنالوجی، جدید تصورات اور جدید ادارے جب کبھی مسلم معاشروں میں راہ پاتے ہیں تو ان کو بے دلی سے اپنایا جاتا ہے، جس سے کسی بہتری کا امکان نہیں پیدا ہوتا۔
مسلم شعور کے مطابق تاریخ کا آغاز ہی اس وقت ہوا ،جب پیغمبرؐ ِاسلام کی دعوت پر انھوں نے کفر اور شرک چھوڑ کے اسلام قبول کیا۔ اس تاریخ کا نقطۂ عروج انسان کی اُخروی نجات ہے۔ علت و معلول کی پابند یہ مادی دنیا ہماری تاریخ کو ایک ضروری پس منظر فراہم کرتی ہے،مگر اس کی اہمیت اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ جب تک دنیا کے تمام معاشروں میں مادی حالات ایک جیسے تھے، تو یہ مسلم سوچ عالمی تاریخ کا ایک سادہ اور عملی نوعیت کا تجزیہ کرنے کے لیے کافی تھی ۔ لیکن انسانی تہذیب میں آنے والی ’پیراڈائم شفٹ‘ کے بعد تجزیے کے اس طریق کار کی کمزوریاں واضح ہونے لگیں۔ دوسری طرف اپنی ناکامیوں اور شکستوں کی وجوہ سے آنکھیں بند کر کے، مسلمان صدیوں بعد بھی پھر اسی اندازِ فکر کو اپناتے ہوئے ،احیاء کی اسی حکمت عملی پر اعتماد کرتے ہیں جو پہلے بھی انھیں کامیابی سے دوچار نہیں کرتی رہی ہے۔
یورپ کی طاقت کا درست ادراک نہ ہونے کے جو اثرات ہندستان میں مسلم احیاء کی کوششوں پر پڑے،ان کا ذکر کرتے ہوئے مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں:’’ حیرت تو یہ ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب کے زمانے میں انگریز بنگال پر چھا گئے تھے اور الٰہ آباد تک ان کا اقتدار پہنچ چکا تھا، مگر انھوں نے اس نئی ابھرنے والی طاقت کا کوئی نوٹس نہ لیا‘‘۔ مولانا مودودی ان حضرات کی شہادت کے ایک صدی بعد تجزیہ کرتے ہوئے درست نشاندہی کرتے ہیں کہ’’ سیّد احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید نے بھی سارے انتظامات کیے، مگر اتنا نہ کیا کہ اہلِ نظر علما کا ایک وفد یورپ بھیجتے اور یہ تحقیق کراتے کہ یہ قوم جو طوفان کی طرح چھاتی چلی جارہی ہے اور نئے آلات، نئے وسائل ، نئے طریقوں اور نئے علوم و فنون سے کام لے رہی ہے ، اس کی اتنی قوت اور اتنی ترقی کا کیا راز ہے؟ اس کے گھر میں کس نوعیت کے ادارات قائم ہیں، اس کے علوم کس قسم کے ہیں؟‘‘
اسلام، انسانیت کو اخلاقی زندگی کے مثالی اصول پیش کرتا ہے۔ ظہورِ اسلام کے وقت معاشرے کے سیاسی، معاشی اور سماجی بندوبست کو اس وقت کے جدید ترین پیمانے اور ادارے استعمال کرتے ہوئے اسلامی ’اخلاقی پیراڈائم‘ (Moral Paradigm) میں نافذ کیا گیا۔ ان اداروں کی ترقی میں بلاشبہہ بازنطینیوں، ساسانیوں اور مصریوں کے علاوہ بھی کئی اقوام کا کردار رہا تھا۔ اسلامی تہذیب ایمان کی روح سے سرشار تو تھی، لیکن اس کی تعمیرو ترقی میں اس زمانے کے مادی اسباب اور انسانی محنت ہی بروئے کار آئے۔ ۱۴۰۰ سال بعد آج اس سلطنتِ ایمان کو خطرات کی جو صورت حال درپیش ہے، اس سے بچاؤ کے لیے عقل اور انسانی کاوش ہی کی مدد درکار ہوگی۔ مولانا مودودی بھی اسی نتیجے پر پہنچے تھے۔پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحابِ نبیؐ کا صحیح اتباع یہ ہے کہ ’’تمدن اور اور قوانینِ طبعی کے اکتشافات سے اب جو وسائل پیدا ہوئے ہیں، ان کو ہم اسی طرح تہذیبِ اسلامی کا خادم بنانے کی کوشش کریں، جس طرح صدرِ اوّل میں کی گئی تھی۔(تنقیحات)
مسلم تاریخ کا عمیق نظر سے مطالعہ اِس امر کی جانب ہماری توجہ مبذول کرواتا ہے کہ مسلم اُمہ ایک ’وحدت‘ کے طور پر و جود میں آئی، جس کا مرکز جزیرہ نمائے عرب میں مقامِ حجاز تھا۔ تاہم، مرورِ زمانہ کے ساتھ یہ وحدت، ’کثرت‘ میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔ یہ ’کثرت‘ سیاسی و سماجی نیز ثقافتی و اقتصادی نوعیت کی بھی تھی۔ ’وحدت‘ سے ’کثرت‘ میں تبدیلی کے اِس عمل میں جغرافیائی تغیر کے ساتھ ساتھ تہذیبی تغیر و تبدل بھی وقو ع پذیر ہوتا گیا۔ یہاں یہ وضاحت ازحد ضروری ہے کہ ’کثرت‘ اپنی اساس میں ’وحدت‘ کا پرتو ہے۔ دوسرے معانی میں ’کثرت‘، وحدت کا سطحی اظہار ہے۔ اِن دو مظاہر میں دوئی محض انسانی عقل کا واہمہ ہے۔ مختلف علاقائی و سیاسی اکائیوں، بلکہ مسلم تہذیب میں انضمام نے مؤخرالذکر کو نہ صرف متنوع جہتیں فراہم کیں، بلکہ مسلم ڈسکورس (علمی روایت) کو گہرائی و گیرائی بخشی اور اس طرح مسلم تہذیب ترقی و ارتقاء کی منازل طے کرتی ہوئی عظمت کی بلندیوں کو چھونے لگی۔ اس تہذیب کو قوت بخشنے والا ڈسکورس اپنی روایت سے وابستگی رکھتے ہوئے وقت اور تاریخ کے تغیرات کے مطابق اپنی شکل اور ہیئت کو بدلنے کی سکت رکھتا تھا۔ یہ تہذیب سکوت و جمود سے ناآشنا تھی۔ اس لیے ہرآنے والے چیلنج کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتی تھی۔
معروف مؤرخ و فلاسفر آرنلڈ ٹائن بی (م:۱۹۷۵ء)کا یہ نظریہ کافی صائب ہے کہ جو تہذیبیں اپنی خلاق اقلیت کی مدد سے چیلنجوں کا مؤثر ردعمل (response) دیتی رہتی ہیں وہ ارتقاء اور ترقی کی منازل طے کرتی رہتی ہیں، اور جو تہذیبیں اِن چیلنجوں سے مغلوب ہوجاتی ہیں، وہ زوال کا شکار ہوتی چلی جاتی ہیں۔ راقم اس علمی نظریے میں اس قدر اضافہ کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ خلاق اقلیت تہذیبی ڈسکورس کو توانا رکھتی ہے اور علم و ایجاد کی نئی جہتیں دریافت کرتے ہوئے اِس ڈسکورس کو زمانی تغیر سے جنم لینے والے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کا اہل بناتی ہیں۔ خلاق اقلیت کے ساکت و جامد ہوجانے کے بعد یہ ڈسکورس پسپا ہونا شروع ہوجاتا ہے اور نتیجتاً زوال کے مہیب سائے اس تہذیب کو آن گھیرتے ہیں۔
علیٰ ہذا القیاس، ’وحدت‘ سے ’کثرت‘ کی جانب اس سفر نے بہت جلد مسلم تہذیب کو عالمی سطح پر سب سے توانااور مؤثرترین سیاسی و تہذیبی اکائی کے طور پر لاکھڑا کیا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی طور پر مسلم تہذیب منقسم ہوگئی۔ اس طرح اندلس، مصر، ایران اور وسطی ایشیا میں مختلف مملکتوں کا وجود عمل میں آگیا،لیکن اِن تمام سیاسی اکائیوں کے پس پردہ واحد تہذیبی ڈسکورس کارفرما رہا جس کی ابتداء پیغمبرؐاسلام نے حجاز سے کی تھی اور جس کا اصل الاصول ’وحدت‘ تھا، یعنی تمام نوعِ انسانی کو ایک وحدت میں پرونا، جو کہ ’وحدت میں کثرت‘ کے تصور ہی کے ذریعے سے عمل میں آسکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ڈسکورس جہاں کہیں بھی گیا، مقامی سیاق و سباق کو پیش نظر رکھا گیا۔ اندلس میں عرب اور بربر قبائلی روایات اور رسوم و رواج میں باہمی اتصال اور تعامل، اور اسی طرح ہندستان میں مسلمانوں کی صوفیانہ روایت کا بھگتی تحریک سے مشتق ہونے والے ضوابط پر صاد کرنا، دراصل مسلم ڈسکورس میں رواداری اور کثیرالجہتی عناصر کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت کی غماز کاوشیں تھیں۔ اسی حوالے سے ہم ایران، وسطی ایشیا اور براعظم افریقا میں نمو پانے والی متعدد ثقافتوں سے مسلم ڈسکورس کے اتصال کو بھی مثال کے طور پر پیش کرسکتے ہیں۔
ابن خلدون کے مقدمہ کی تفہیم جو راقم کو محسن مہدی اور روزنیتھال کے تراجم و تشریح کی مدد سے حاصل ہوتی ہے، اس کے مطابق تہذیب کا سیاسی و سماجی اظہار ،عصبیہ‘ کی بابت ہوتا ہے اور عصبیت کے باعث انسانی گروہ ارتقا کی منازل کو طے کرتے ہوئے اپنی انتہائی حالت میں سلطنت کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ عہدحاضر جو کہ ’جدیدیت‘ اور ’بعد از جدیدیت‘ کے اثرات سے عبارت ہے، اس میں سلطنت کو عہد ِ وسطیٰ کی بدترین سیاسی و حکومتی تنظیم کے طور پر تصور کیا جاتا ہے، جو جبرواستبداد کا مظہر تھی۔ ان تنقیدی نکات کا اقرار کرتے ہوئے راقم اس پہلو کی جانب اشارہ ضرور کرے گا کہ نظمِ سلطنت میں فرد کو اجتماع کے مقابلے میں قدرے زیادہ آزادی میسر تھی۔ ریاستی کنٹرول کی وہ شدت جو بعدازاں قومی ریاست کے وجود میں آجانے کے ساتھ عمل میں آئی، وہ سلطنت کے نظم میں عنقاء تھی۔ اس تمام تر بحث میں، یہ نکتہ پیش نظر رہنا ازحد ضروری ہے کہ قرون وسطیٰ میں مسلم تہذیب کامحور ایسی سلطنتیں ہی تھیں۔ فرد کو میسر آزادی اور ثقافتی، علمی و نظری اختلاط کے باعث مسلم ڈسکورس مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا اور ’کثرت‘ کے پھیلائو کے باوجود اس کا ’وحدت‘ سے ناتا برقرار رہا۔ سیاسی عداوتیں بھی تمدنی اور فکری جہتوں کا وحدت کے ساتھ تعلق نہ توڑ سکیں۔ شریعت اور طریقت کی سطحوں پر یہ ہم آہنگی قائم رہی۔
امام غزالی، بوعلی سینا، مولانا رومی، فرید الدین عطار، مسعودی، البیرونی اور ابن خلدون جیسے مشاہیر اسی وحدت کے غماز تھے، جو کثرت کو استحکام عطا کرتی تھی۔ یہ مشاہیر کسی ایک تمدن، ملک یا معاشرے کی نمائندگی کرنے کے بجائے ایک مربوط اور آفاقی مسلم طرزِفکر کی نمائندگی کرتے تھے، جسے راقم مسلم ڈسکورس کا نام دے رہا ہے۔ عباسیوں کے عہد میں بغداد، اندلس میں اُمویوں کے دور میں غرناطہ، وسطی ایشیا میں سمرقند و بخارا اور ہندستان میں دہلی، آگرہ اور جونپور مسلم ڈسکورس کے علَم بردار تھے، اور ان کا باہمی ربط بھی قائم و دائم تھا۔ اہل علم اور صوفیا تلاشِ حق کی خاطر سفر اختیار کرتے اور ان کی ایک مقام سے دوسرے مقام پر جاکر سکونت اختیار کرلینے کے سبب مسلم ڈسکورس ایک عالم گیر حقیقت بن گیا۔ ان مشاہیر کے ایک سلطنت کے علاقوں سے دوسری سلطنت میں جاکر بس جانے پر قطعاً پابندی نہ تھی۔ چنانچہ ان کے ذریعے سے مسلم ڈسکورس کے پھیلنے اور مقامی علمی و ثقافتی روایات سے اختلاط کا عمل جاری رہا۔
یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اٹھارھویں صدی کو مسلم تہذیب اور علمی روایت کے زوال کی صدی کہا جاتا ہے۔ یہ زوال انیسویں صدی کے نصف تک مکمل انحطاط پر منتج ہونے پر نوآبادیاتی نظام کی باقاعدہ شروعات کا باعث بنا۔ ہمارے خیال میں اٹھارھویں صدی میں مسلم سلطنتوں میں سیاسی شکست و ریخت کا عمل شروع ہوا جو کہ سیاسی تنظیمِ نو کا تقاضا کر رہا تھا۔ تمدنی و فکری حوالے سے یہ انحطاط قطعاً نہ تھا۔ زوال (Decline) کا سبق مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے پیروئوں کو برطانوی نوآبادیاتی افسروں اور مستشرقین نے پڑھایا۔ مسلم معاشروں اور مسلم فکری روایت کے لیے یہ پروانۂ اجل سے کم تر صورت نہ تھی۔ مسلم دُنیا میں جغرافیائی و لسانی نیشنلزم کی داغ بیل پڑی، جس سے ’کثرت‘ نے اپنی الگ ’وحدت‘ کو تشکیل دینا شروع کیا، جس سے ربط و ضبط اور علمی و تمدنی اختلاط کا عمل مکمل طور پر معطل ہوکر رہ گیا۔
یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ’وحدت‘ کا سب سے وقیع جوہر ’خلاقیت‘ (Innovation) ہے جو جزوی طور پر ’کثرت‘ کے ذریعے اپنے آپ کو آشکار کرتی ہے۔ ’کثرت‘ میں یہ خلاقی جوہر انسانی فکر کے ذریعے سے تشکیل پاتا ہے اور ارادہ اس خلاقیت کے طبعی اظہار کا محرک بنتا ہے۔ اس خلاقیت کو اپنی تکمیل تک پہنچنے کے لیے تسلسل کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تسلسل (روایت کا) خلاقیت کو اس کے منبع سے منسلک رکھتا ہے اور خلاقیت اسی تسلسل سے قوت حاصل کرکے اپنی اَزسرنو تنظیم کرتی ہے اور اپنے عناصر ترکیبی کو نئی توانائی بھی فراہم کرتی رہتی ہے۔ مشرق اور مغرب کی خلاقی روایتوں میں چند بنیادی اختلافات (differences) ایک روایت کے تسلسل میں تعطل کا پیدا ہوجانا ہے۔ انیسویں صدی میں ہم نے یہ عملاً ہوتے ہوئے دیکھا۔
مسلم اشرافیہ کو یہ یقین دلایا گیا کہ وہ زو ال پذیر ہے اور اسے حیاتِ نو کے لیے اپنے ڈسکورس کو تیاگ کر مغربی ڈسکورس کو اپنانا ہوگا۔ اس طرح انیسویں صدی کے تمام مقامی ڈسکورس لایعنی ہوکررہ گئے اور ہرطرف مغربی جدیدیت نے ڈیرے ڈال لیے۔ مقامی فکری و نظری روایات کو طاقِ نسیاں پر رکھ دیا گیا اور آج ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں رائج ڈسکورس کا اپنی کلاسیکی روایت سے دُور پار کا بھی کوئی رشتہ، واسطہ نہیں ہے۔
وحدت کے حوالے سے یہ واضح کرنا بھی اہمیت کا حامل ہے کہ انسانی عقل کی دسترس وحدت کی مکمل تفہیم کے لیے قطعاً ناکافی ہے۔ ’وحدت‘ ایک تسلسل کے ساتھ ’نامعلوم‘ سے ’معلوم‘ کی جانب انسانی رسائی کو ممکن بناتی چلی جاتی ہے۔ انسانی انحطاط کی بڑی وجہ یہی ہے کہ انسانی ارادہ کمزور پڑنے کی وجہ سے شعور ’نامعلوم‘ میں پوشیدہ حقائق کو ’معلوم‘ کے پیرائے میں منتقل کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
انیسویں صدی کے وسط میں مسلم فکر اور شعوراجتماعی طور پر اس اہلیت سے محروم ہوچکا تھا۔ قومیت کے مغربی تصور اور عقلیت پر حد سے زیادہ انحصار کرنے کی روش نے تخیل اور عینیت (Idealism) سے مسلم ڈسکورس کو دُور کردیا تھا۔ نوآبادیاتی عہد میں تقلید کو ترجیحی آپشن سمجھ کر اپنا لیا گیا۔ ’وحدت‘ اور ’کثرت‘ کا باہمی ربط و ضبط شکست و ریخت کا شکار ہوکر فکری انتشار میں بدل گیا۔ تفرقہ اور مذہبی نفاق روزمرہ کا معمول بن گیا۔ مقامی روایتوں نے اپنے آپ کو مغربی پیمانوں پر پرکھنا شروع کر دیا۔ خود تشخیصی کا عمل معدوم ہوگیا اور مسلم ڈسکورس ’اطراف‘ میں گم ہوکر رہ گیا۔
مغربی علوم کے غلبے کا اثر زائل کرنے کے لیے مسلم ڈسکورس کوحیاتِ نو بخشنا، سب سے اہم ہے اور اُسے محض مذہبی تفکر تک محدود کر دینا مغربی علمی و ثقافتی غلبے کو مضبوط تر بنانے کے مترادف ہے۔ چنانچہ مسلم کلاسیکی علمی روایت کو ایک نئے ولولے کے ساتھ جدید علوم کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے محض مدرسوں یا مساجد تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے۔
اوّلاً تو ’مسلم ڈسکورس‘ کو ایک نئی زندگی عطا کرنا ہوگی، جس کے لیے ’مستشرقیت‘ کے بالمقابل اپنے نظام ہائے علوم کی ترویج و ترقی کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ نوآبادتی عہد میں مغربی علوم اور بالخصوص ’مستشرقیت‘ نے مقابل نظام ہائے علوم کو اس کے بنیادی منابع سے کاٹ دیا جس کے باعث علمی و فکری روایت اس تسلسل سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی جو کہ اس روایت کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔
اس بات کا اعادہ کرنا ضروری ہے کہ اپنی علمی و فکری روایات (جو کہ بچی کھچی رہ گئی ہیں) کو ان کے کلاسیکی سرچشمے سے جوڑنا سب سے اہم اقدام ہے۔ اس ضمن میں اپنے سماجی و انسانی علوم کی بابت نظریہ سازی کا عمل مقامی سطح پر رائج کرنا ’بعداز نوآبادیاتی‘ معاشروں کی آزادیٔ فکر وعمل کے لیے لازمی ہے۔ تدریسِ علم اور افزائشِ علم کے ذریعے سے ہی مشرقی معاشروں بالخصوص مسلم اقوام خود مختاری کا مقصد حاصل کرسکتی ہیں۔ مزید برآں مسلم دُنیا کو میسر انسانی ذرائع کی ترقی وہ واحد راستہ ہے، جو اُسے عظمت ِ رفتہ کے حصول کے لیے ’خلاقیت‘ کے اُن جواہر سے آراستہ کرسکتا ہے، جو مغربی غلبے سے نجات کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ تعلیمی اصلاحات علم و ایجاد کی راہیں کھولیں۔ قانون کی حکمرانی جس میں عدل و انصاف ہر خاص و عام کو میسر ہو، اور صحت ِ عامہ کی سہولت جس کی تمام تر ذمہ داری ریاست کی ہو۔
آخر میں یہ کہتے ہوئے راقم اس بحث کو سمیٹنا چاہتا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک کو ’نیشنل سیکورٹی اسٹیٹ‘ سے ’سوشل سیکورٹی اسٹیٹ‘ کی طرف بڑھتے رہنا ہوگا۔ علاوہ ازیں اپنے تشخص اور قومی سلامتی کے لیے اپنے فیصلے خود کرنے ہوں گے۔ چاہے اس کے لیے ہم سب کو مشکل ترین لمحات سے ہی کیوں نہ گزرنا پڑے۔
مسلم معاشروں کے شہر یوں کو آزادی کے تصور سے آگاہ کرنا تعلیمی نظام کے اہم ترین مقاصد میں سے ایک ہونا ضروری ہے۔ آزادی ہی انسانی صلاحیتوں کو توانا کرتی ہے اور ان کے اظہار کے لیے معاون ثابت ہوتی ہے۔ یہی قدر (آزادی) مسلم ڈسکورس کا کلیدی تعارف ہے جوانسانوں کو ہر طرح کی غلامی سے آزادی کی نوید سناتا تھا۔ اسی لیے راقم اس امر پر زور دیتا آیا ہے کہ فتح علی ٹیپو جیسے مسلم رہنمائوں کو پاکستان کے بانیان کی صف میں لاکھڑا کرنا چاہیے۔ ٹیپو سلطان جیسی بلندقامت شخصیات دُنیاوی کامیابیو ں کی محتاج نہیں ہوتیں۔ ان شخصیات کا مقصد کسی کی بھی ذات سے بلند تر ہوتا ہے۔ زندگی اور موت کسی بھی مقصد کے لیے ہو تو زوال سے نکلنا اور عروج کی جانب سفر کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔ اِن حالات میں زندگی کا ہرلمحہ، کسی بامعانی مقصد کے حصول میں صرف کرنے کی ترغیب ہی نوجوان نسل کو تخیل کی نئی منزلوں کی جانب گامزن کرسکتی ہے۔
آزادی کی ماہیت میں جاکر یہ معلوم کرنا چنداں مشکل نہیں ہوتا کہ اس جذبے کی تکمیل ذمہ داری کے احساس کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے نوجوان نسل کو باور کرانا بہت اہمیت رکھتا ہے کہ آزادی اور احساسِ ذمہ داری لازم و ملزوم ہیں، بالکل اسی طرح جیسے حق (Right) اور فرض (Obligation) ایک دوسرے کے بغیر بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں۔
ملت اسلامیہ کو اس وقت بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے، جن سے نمٹنے کے لیے مطلوب احتیاطی تدابیر کے ساتھ ایسے فکری اور عملی اقدامات ضروری ہیں، جو اس مرحلے کے لیے موزوں ہوں اور مطلوبہ اسلامی نشاتِ ثانیہ کو فروغ دے سکیں۔ اس کے لیے فکری اور عملی اقدامات کا تعین کرنے کے لیےگذشتہ ایک عشرے میں امت کے مختلف فکری، علمی، سماجی اور سیاسی حالات کا ایک جامع جائزہ لینا ہوگا۔
گذشتہ عشرہ اسلامی تحریکات کی کامیابیوں سے بھرپور عشرہ تھا، جس میں وہ اپنے ممالک میں کئی عشروں کی انتھک محنت اور بے شمار قربانیوں کے بعد حکومت بنانے میں کامیاب ہوئیں اور وہ تمام قوتیں اور کٹھ پتلی حکومتیں بری طرح ناکام ہوئیں، جو دوسروں کے مفادات کے لیے کام کررہی تھیں۔ ’عرب بہار‘ کی شکل میں اس تبدیلی کا آغاز شمالی افریقا کے عرب ممالک سے ہوتا ہوا خلیج کے ممالک تک پہنچا۔ یہ شان دار آغاز ہمارے لیے نشانات راہ متعین کرنے اور نشاتِ ثانیہ کے لیے مطلوبہ طریقۂ کار تک پہنچنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ نیز ’عرب بہار‘ کے مد مقابل کوششوںاور فوجی انقلابات کا مطالعہ بھی ضروری ہے، جس نے ’عرب بہار‘ اور اس کے پھل کو پکنے سے پہلے ہی کچل ڈالا۔
ہمارے خیال میں گذشتہ عشرے کے ’عرب بہار‘ کے واقعات اور حادثات کا درست نتیجہ نکالنے کے لیے ہمیں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہیے، جو دو اور دو چار کی طرح ہماری کمی کوتاہیوں اور طاقت و کمزوریوںکی نشاندہی کرے۔ یہ کمیٹی ایک ایسا جامع مطالعہ پیش کرے، جو ہمیں متعین طور پر بتائے کہ ہماری ضرورت کیا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ پھر اسلامی تحریکات کے رہنما سر جوڑ کر بیٹھیں اور ان پر گہرا غور وخوض کریں ، اور ایک جامع اور مکمل پیش رفت کے لیے حکمت عملی تیار کریں ، جس میں تیاری اور بحالی کا مرحلہ بھی شامل ہو۔ اس طرح جامع منصوبہ بندی کی روشنی میں بیداری کے لیے ایک واضح اور متعین نقشۂ کار (روڈ میپ) ترتیب دیں۔
’عرب بہار‘ کے علاوہ، پچھلے عشرے میں اسلامی دنیا میں تین ایسے بڑے واقعات رونما ہوئے ، جن کا جائزہ لینا، مطالعہ کرنا، اور ان کے بارے میں حکمت عملی اختیار کرنا نہایت ضروری ہے۔ سب سے پہلے ترکی میں اسلام پسندوں کی حکومت اور اس کے خلاف بغاوت کی ناکام کوشش ، پھر افغانستان سے امریکیوں اور ان کے اتحادیوں کا انخلا اور طالبان کی حکومت اور وہاں اسلامی امارت کا قیام، اور آخر میں ۷؍اکتوبر ’طوفان الاقصیٰ‘ آپریشن جس میں فتح یا شہادت کا اعلان کیا گیا، جو ان سطور کے لکھنے تک جاری ہے اور جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جس نے نظریات، تصورات، اقدار اور توازن کے پیمانوں کو تبدیل کرکے رکھ دیا اور مسئلہ فلسطین کو ، جو تقریباً مر چکا تھا اور نام نہاد ’معمول پر لانے‘ (Normalization) کے ملبے میں دب گیا تھا، ایک مرتبہ پھر زندہ کردیا۔ لہٰذا، ان تینوں واقعات میں سے ہر ایک کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لینا ضروری ہے، کیونکہ دنیا، امت مسلمہ اور اسلامی تحریکوں کے حال اور مستقبل پر اس کا گہرا اثر پڑ رہا ہے۔
آیئے! ان چند اُمور کا جائزہ لیتے ہیں:
کارکنان اور خاص طور پر نوجوانوں میں امید کی شمع جلانی ہوگی۔ اُمید اورفتح کے یقین کے ساتھ جدوجہد ہو تو کام لگن اور محنت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ہم امید کی صرف ہوائی بات نہیں کرتے بلکہ ایسے امکانات پائے جاتے ہیں، جو ہمیں فتح اور نشاتِ ثانیہ کی عظیم امید کا پیغام دیتے ہیں۔ اس وقت امت مسلمہ ہر لحاظ سے ظلم و ستم، کرب، ناانصافی، محرومی اور ذلت کا شکار ہے۔ غیورعلما، جوان، مرد، عورتیں ، بڑے چھوٹے سب اس صورت حال سے پریشان ہیں۔ جس ظلم اور درندگی کا مظاہرہ ہمارے فلسطینی بہن بھائیوں کے ساتھ غاصب صہیونی اور عالمی طاقتوں نے کیا ہے اسے دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ہمیں ایک ایسے شعلے کی ضرورت ہے جو امت پر طاری جمود اور چھائی ہوئی خاموشی کو توڑ کر نویدِ سحر دے اور اس تاریک رات کا خاتمہ کرکے بہارِ تازہ کی راہ ہموار کرے۔
’عرب بہار‘ کے وقت ان ملکوں کے عوام ناکام کٹھ پتلی حکومتوں سے تنگ آگئے تھے اور ان سے چھٹکارا پانا چاہتے تھے۔ وہ آزادی اور عزّت کے ساتھ جینا چاہتے تھے۔ یہ اُمید ’عرب بہار‘ میں ایک اثر انگیز شعلہ بن کر سامنے آئی تھی۔ اس امید کو دوبارہ زندہ کریں اور دوبارہ کام شروع کریں ۔ امام البنا شہیدرحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا: ’آج کی امیدیں، کل کی حقیقتیں ہیں‘۔
ہم تبدیلی، تجدید اور تیز رفتار ترقی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ اس برق رفتارتبدیلی اور ترقی کا رجحان تقریباً ہر چیز میں ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے۔ معلومات، ٹکنالوجی، اور یہاں تک کہ خیالات و خواہشات تک میں تبدیلی اور ترقی دیکھی جاسکتی ہے۔ بڑی بڑی تبدیلیاں لمحوں میں رُونما ہوجاتی ہیں۔ نوجوان سب سے زیادہ اس تبدیلی سے متاثر بھی ہوتے ہیں اور اس کو اپناتے بھی ہیں۔ اسی وجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ نوجوان، وقت کے تقاضوں اور فی زمانہ رُونما ہونے والی تبدیلیوں اور ان کے چیلنجوں سے دوسروں سے زیادہ واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان ارتقا پذیر اور بدلتے ہوئے حالات کا کیسے مقابلہ کرنا اور ان کا تقاضا کیا ہے؟ پھر ان میں کام کرنے اور کارکردگی دکھانے کی طاقت بھی ہے اور میدان میں استقامت اور ثابت قدمی بھی دکھا سکتے ہیں۔ اس لیے انھیں تحریک اور ملک وقوم کے بہتر مستقبل کے لیے مختلف کمیٹیوں کا حصہ ہونا چاہیے اور فیصلہ سازی کے تمام فورموں میں ان کی بھر پور نمائندگی ہونی چاہیے۔
جامع اور ہمہ جہت جدوجہد سے میرا مطلب ہے کہ ہم دعوتی، فلاحی اور تعلیمی سرگرمیوں کے ذریعے معاشرے کے تمام طبقات تک پہنچ جائیں، یہاں تک کہ معاشرے میں کوئی ایسا فرد باقی نہ رہے جو یہ نہ جانتا ہو کہ ہم کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟ ہمیں معاشرے کے لوگوں کے ساتھ مثبت، نصیحت آمیز، مفید اور بااثر انداز میں اس طرح سے گھل مل جانا چاہیے کہ ہرایک کو یقین ہوجائے کہ ہم ان میں سے ہی ہیں اور جو کچھ کر رہے ہیں انھی کے لیے کر رہے ہیں۔
قومی اور ملکی معاملات میں ہماری مؤثر، مثبت اور بہترین شرکت ہونی چاہیے، ایسی شرکت جس میں اعلیٰ اسلامی اقدار اور بلند اخلاق جھلک رہے ہوں اور جس سے اُجاگر ہو کہ ہم ملک وملت کے عظیم تر مفاد کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔
ہم معاشرے میں کسی کو اپنے سے دُور نہ بھگائیں، نہ خود معاشرے سے کٹ جائیں اور نہ اپنے آپ کو دوسروں سے ممتاز سمجھیں ۔ہم ہر کسی کی بلا تفریق خدمت کریں۔ اس طرح ہم معاشرے کی ضرورت بن جائیں گے اور کوئی ہمیں وطن اور معاشرے میں اجنبی نہ سمجھے گا۔
سماجی خدمات فراہم کرنا اور ہر ایک کے لیے اچھاسوچنا ہمارا کام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خیر امت کہا ہے۔ ارشاد ہے:كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۰ۭ (اٰل عمرٰن۳:۱۱۰) ’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو، اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۲۸(السبا۳۴ :۲۸)’’ہم نے آپ کو صرف لوگوں کے لیے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ‘‘۔ تاہم، ہمیں چاہیے کہ لوگوں کی خدمت کے ساتھ ان پر واضح کریں کہ ان کی خدمت کے ذریعے ہم آپس میں اتحاد، یکجہتی چاہتے ہیں اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم سب ایک جسم کے مانند ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تَرَى الْمُؤْمِنِينَ فِي تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ كَمَثَلِ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى عُضْوًا تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى (بخاری)’’تم مومنوں کو ان کی ہمدردی، محبت اور شفقت میں ایک جسم کی مانند پاؤ گے ، اگر جسم کا ایک حصے کو تکلیف ہو تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے‘‘
اس وژن کو تمام مسلم معاشروں کے نظام حکومت، معیشت اور سیاست میں نمایاں ہونا چاہیے، بلکہ نظام حکومت میں اس سوچ کی نمائندگی تو اللہ اور قوم کی سب سے بڑی امانت ہے ، جسے مخلص، پاکیزہ، خدمت گزار ہاتھوں میں ہونا چاہیے۔ اسلامی تحریکوں کو پوری توجہ اور احتیاط کے ساتھ اس عظیم امانت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھنی چاہیے ۔یہ جدوجہد اخلاص وللہیت کے ساتھ ہونی چاہیے۔
اس بات کو واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ہماری جدوجہد کتنی ضروری اور ملک و قوم کے لیے اس کی کیا افادیت ہے؟ اس کام کے لیے ہمارے پاس پروفیشنل میڈیا اور تکنیکی ماہرین ہونے چاہئیں، جو ہماری کوششوں کو لوگوں کے سامنے لائیں اور انھیں یہ باور کرائیں کہ یہ وہ کوششیں ہیں، جو باوقار زندگی اور مہذب معاشرے کے لیے ناگزیر ہیں اور اس کے لیے جدوجہد کرنے والے مخلص اور خیر خواہ لوگ ہیں، لہٰذا ان کاوشوں کی قدر کی جانی چاہیے۔
ہمارے پاس ایسا میڈیا ہونا چاہیے جو اسلامی تحریکوں، ان کی کاوشوں اور ان کے کیے ہوئے کاموں، منصوبوں اور سرگرمیوں کے لیے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا دے، اوردشمنوں کی جانب سے ان کے بارے میں گمراہ کن پروپیگنڈے کا جواب دے اور اُن کی چال بازیوں اور سازشوں کا مؤثر جواب دے۔ایسامیڈیا جو علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر میڈیا کی آواز کے ساتھ آواز ملاسکے۔ ایسا میڈیا جوحقائق بیان کرے ، واقعات کی چھان بین کرے، سچائی کو پھیلائے، اور جھوٹ کا پول کھول کر رکھ دے۔ آج میڈیا ایک مضبوط محاذ بن چکاہے، جسے کسی بھی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس میدان کے اپنے تقاضے ہیں۔ اسلامی تحریکوں کو اس محاذ کی اشد ضرورت ہے۔
ہمارا دین رشتوں کو جوڑنے، نیکی کے کاموں میں تعاون کرنے، ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا حکم دیتا ہے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں آپس میں جھگڑے اور فساد عظیم سے خبردار کرتا ہے۔قرآن کریم کا ارشاد ہے:اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۱۰ (الحجرات ۴۹:۱۰) ’’بے شک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘۔
اسی طرح قرآن کہتا ہے: وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۰۠ وَاتَّقُوا اللہَ۰ۭ اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۲ ( المائدہ۵:۲) ’’جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔ اللہ سے ڈرو ، اس کی سزا بہت سخت ہے ‘‘۔ نیز فرمایا:يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا ۰ۣ وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۲۰۰(اٰل عمرٰن۳:۲۰۰) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھاؤ، حق کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو ، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو جسد ِ واحد قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشادفرمایا کہ: لَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ اِخْوَانًا وَلَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ اَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ (بخاری و مسلم) ’’ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے کا تجسس نہ کرو، اور خدا کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بھائی سے ناراض ہوکر تین دن سے زیادہ اسے چھوڑ دے‘‘۔ اور فرمایا: اِنَّ الْمُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا وَشَبَّكَ أَصَابِعَهُ (بخاری و مسلم) ’’بے شک مومن مومن کے لیے ایک عمارت کی طرح ہے جو ایک دوسرے کو سہارا دے ، آپؐ نے (سمجھانے کے لیے ) اپنی انگلیوں کو باہم جوڑ لیا‘‘۔
لہٰذا، اسلامی تحریکیں، جو ملت اسلامیہ اور اس کی روایات کی امین ہیں، ان اصول و مبادی کو روزمرہ زندگی میں فعال اور مؤثر بنانے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کرنی چاہیے، اور یہ یقینی بنانا چاہیے کہ معاشرے میں ان پر ہر صورت میں عمل کیا جائے۔ لہٰذا، اسلامی تحریکوں کے قائدین ایک مستقل کمیٹی بنائیں جو قومی زندگی میں ان اصولوں کی پاسداری پر نظر رکھے اور اسے فعال اور مضبوط کرنے کے لیے منصوبے اور طریقۂ کار وضع کرے۔ ہمارے ہاں کئی شعبے ہیں جن کے ذریعے ہم ان اصولوں کو مستحکم کر سکتے ہیں، جیسے: انسانی فلاح وبہبود کے میدان میں ، تعلیمی اداروں ، پیشہ ورانہ اور تخصص (اسپیشلائزڈ) اداروں میں، اسی طرح نوجوانوں اور خواتین کے میدانِ کار میں۔
بدقسمتی سے ہم ہمیشہ دوسروں سے متاثر ہوکر کام کرتے ہیں۔ دشمن حملہ آور ہوتا ہے،تو ہم دفاع کرتے ہیں، وہ ہمارے خلاف منصوبہ بندی کرتا ہے تو ہم جواب دیتے ہیں اور جدوجہد کے لیے اُٹھتے ہیں۔ یعنی ہم صرف دوسروں کی مرضی اور ان کے منصوبوں کے پیش نظر مصروف رہتے ہیں، ہم اپنی مرضی اور منصوبہ بندی سے کوئی کام شروع نہیں کرتے۔ ہمیں اس حالت اور کیفیت سے نکلنا ہوگا، لیکن کب اور کیسے نکلیں گے؟ یہ اسلامی تحریکات کے قائدین کے لیے بڑا اہم چیلنج ہے۔
ہمارے پاس تخلیقی اور پُراثر تزویراتی سوچ ہونی چاہیے جو آئیڈیاز تخلیق کرکے وژن تیار کرے۔ جو حالات کو بدلنے اور معاملات کو رُخ دینے کی صلاحیت رکھتی ہو ۔ ہمیں کچھ کر دکھانے والا اور اثر انداز ہونے والا بننا ہوگا، تاکہ دوسرے ہم سے متاثر ہوں۔ اسلامی تحریکیں بنیادی طور پر اثرانداز ہونے والی اور تبدیلی لانے والی تحریکیں ہیں۔ اس لیے اسلامی تحریکوں کے قائدین اس پہلو پر خصوصی توجہ دیں اور یہ کام علاقائی اور عالمی سطح پر ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دے کر اسے تفویض کریں۔
ہمیں موجودہ مرحلے سے گزر کر تہذیبی ترقی اور دنیا کی قیادت کے مرحلے میں داخل ہونا چاہیے۔ گذشتہ عشروں میں اپنی فکر کو پھیلانے کے لیے ، کتابوں ، مضامین لکھنے، کانفرنسوں کے انعقاد، سیمیناروں، ٹی وی چینلوں پر لیکچرز دینے ، ویب سائٹس، اورمدارس، یونی ورسٹیوں، مساجد، اور دیگر مختلف پلیٹ فارمز کے استعمال کا روایتی دور گزر چکا۔اب ہمیں اس سے آگے کا سوچنا ہوگا۔ الحمد للہ، تمام مسلمان اور غیر مسلم یہ جان چکے ہیں کہ اسلام ایک جامع اور ہر زمان ومکان کے لیے موزوں ہے۔ سب اسلامی حکومت کے تصور، اس کے طریق کار، خصوصیات اور فوائد سے واقف ہیں، اور یہ جانتے ہیں کہ اسلام ہی مسائل کا حل ہے ،اور اس کی ضرورت و افادیت کے قائل ہیں۔
اسلامی فکر کے فروغ کے بعد اب ہمیں فکر و دعوت پھیلانے کے مرحلے سے اس کے نفاذ کے مرحلے میں داخل ہونا ہے،اور تہذیبی میدان میں امت کی قیادت کرنی ہے۔ اس کے لیے ہمیں ہر شعبۂ زندگی میں معاشرے کو قیادت فراہم کرنی ہوگی۔ اس کے لیے افراد، ادارے، مراکز، نظام، قوانین اور مثالی انتظامیہ فراہم کرنا ہوگی۔ یہ کام کمٹ منٹ، محنت اور تحقیق، مطالعے اور گہرے مشاہدے کا متقاضی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہی اسلامی حکومت کے قیام کا مرحلہ بھی سر ہوسکے گا۔
یہ سوال کہ عصر ِحاضر میں ایک جانب مسلم اکثریتی ملکوں میں اور دوسری طرف مسلم اقلیتی ممالک میں، اسلامی احیاء کے لیے کیا فکری اور عملی اقدامات کیے جانے چاہییں؟ایک بڑا وسیع موضوع ہے جس کے دوحصے ہیں :
مغربی ممالک میں رہنے والی مسلم اقلیت اپنی کیمونٹی کی حدتک توہاتھ پاؤں مارسکتی ہے، اُس سے آگے وہ کچھ نہیں کرسکتی۔ یعنی ان ممالک کے قوانین کے آگے وہ بے دست و پا ہے بلکہ اپنی اولاد تک کے بارے میں فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہے، ایسے میں اسلامی احیاء کی بات تو بہت دُور کی کوڑی ہے۔ اگر وہاں کوئی مسلمان بڑے سیاسی یا انتظامی عہدے پر پہنچ جائے تب بھی وہ کچھ نہیں کرسکتا کیو نکہ وہ سسٹم کے آگے بے بس ہے۔ ان کے آقا ان سے زیادہ بیدار مغز اور ہوشیار ہیں۔ مغرب میں کتنے ہی مسلمان ہیں جو بہت کام کررہے ہیں، لیکن کسی ایسی ’تبدیلی‘ کہ جس کے ڈانڈے ’مسلم احیاء‘ سے ملتے ہوں، وہ اُس کے نہ محرک ہیں اور نہ بن سکتے ہیں۔ ان کے آگے سب سے بڑی رکاوٹ وہ نظام (System) ہے، جو نہ صرف یہ کہ سوچ سمجھ کر بنا یا گیا ہے بلکہ سامراجی مفاداتی سوچ اس کی نگرانی اور رکھوالی بھی کرتی ہے۔
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
جن مسلم ممالک میں ’تھیوکریسی‘ ہے، مثال ایران، تو وہ بھی غلامی ہی کی ایک قسم ہے۔ جو معاشرے جمہوری روایات کے حامل ہیں، وہ ’عالمی غلامی‘ کے اسیر ہیں۔جن کے لیے ’اسلام‘سب سے بڑا خطرہ ہے اور عوامی ووٹ سے آئی ہوئی منتخب جمہوری حکومتوں کو بھی وہ چٹکی میں اڑا کررکھ دیتے ہیں، جس کی مثالیں مصر میں محمد مرسی کی حکومت کا تختہ اُلٹنا اور غزہ میں حماس کی حکومت کا خاتمہ کرنا ہے۔ایسی مثالوں کی کمی نہیں۔ گویاایک بات طے ہوئی کہ مسلم اقلیتی معاشرے ہوں یا مسلم اکثریتی ممالک، بنیادی مسئلہ’غلامی‘ ہے۔ کہیں مقامی سیاسی نظام کی جکڑبندی ہے، کہیں مذہبی طبقے کی گرفت ہے اورکہیں عالمی سامراجی نظام کی۔
آزادی ایک ایسی بنیاد ہے، جس پر قوموں کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔ یہ بنیاد جتنی مستحکم ہوگی ،اتنی ہی مضبو ط اور عظیم عمارت تعمیر ہوگی ۔آزاد قوموں میں ہی مذہب کا پیغام پھیلتا ہے (جیسے جزیرہ نمائے عرب میں پھیلا تھا) ،نظریات وافکار کو فروغ حاصل ہوتا ہے، تہذیب وتمدن اور ادب وثقافت پروان چڑھتے ہیں۔ بصیرت ،صرف آزاد لوگوں کا حصہ ہے،صرف آزاد قومیں ہی بصیرت کا دعویٰ کرسکتی ہیں۔ گویا احیاء کے لیے پہلا قدم، طوقِ غلامی سے آزادی ہے۔
مختلف پہچان کے حامل مسلم معاشروں میں ایک ہی قدر مشترک ہے، ایک ہی بائنڈنگ فورس (binding force) ہے اور وہ اسلام ہے۔ اسلام بین الاقوامی سطح کی ایک قابلِ لحاظ قوت ہے، لیکن سوال یہ اُٹھایا جاتا ہے کہ ’کون سا اسلام؟‘مسلمانوںکے اندر کی فرقہ بندی اور مسلک گردی نے ’اسلام ‘ کو بھی تقسیم کردیا ہے۔ اسلام کے معاشرتی ،اقتصادی اورسیاسی تصورات کے سلسلے میں مسلم دانش وروںمیں نہ صرف اختلاف ہے بلکہ بعض اوقات متصادم اور متضاد افکار وآراء بھی سامنے آتی ہیں۔لہٰذا ،احیاء کی بات کرنے والوں کو اتحاد ِامت کی تلقین کرنی ہوگی اور اتحادِ امت کے لیے مسلک گردی سے اُوپر اٹھنا ہوگا۔
بدقسمتی سے پاکستان میں مذہب کے نام پر تشدد کی مثالیں دیکھ کر اب لوگ یہ کہنے لگے ہیں کہ کیا مذہبی اتھارٹی، بے دھڑک لوگوں کو مارنے اور جلانے کی اجازت دیتی ہے؟ ایسی مذہبی بدحواسی پر قابوپانے کی بہت ضرورت ہے۔ جن معاشروں کو اخلاقیات کی ابجد پڑھانے کی ضرورت ہو، ان بانجھ معاشروں سے احیائے اسلام کی تحریکیں نہیں اٹھتیں۔ایسے معاشروں کو ساتھ ہی ساتھ اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔
اگر ہم ماضی پر نظر ڈالیں توا نیسویں اور بیسویں صدی میں کئی نظریہ ساز شخصیات اور کئی احیائی تحریکیں نظر آتی ہیں، جنھوں نے ایک طرف اسلام کے احیاء کی کوشش کی، اور دوسری طرف یہ دعویٰ بھی پیش کیا کہ ’’اسلام جدید دور میں سامنے آنے والے مسائل کا دوسرے نظاموں کے مقابلے میں بہتر اور قابلِ عمل حل پیش کرتا ہے‘‘۔مطلب یہ کہ تجدید واحیائے دین کی کوششیں کبھی سرد نہیں پڑیں۔ شاید اس قرآنی حکم کی وجہ سے کہ تمھارے اندر ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے، جو نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے ۔ (اٰل عمرٰن ۳: ۱۰۴)
لہٰذا، عصر جدید میں احیائے اسلام کے حوالے سے کئی نام ہمارے سامنے آتے ہیں: سید جمال الدین افغانی (م:۱۸۹۷ء)،شیخ محمد عبدہٗ(م:۱۹۰۵ء)،علامہ محمد اقبال (م:۱۹۳۸ء)، حسن البناء (م:۱۹۴۹ء)، علی شریعتی (م:۱۹۷۷ء)اور مولانا مودودی (م:۱۹۷۹ء) وغیرہ۔ ان سارے لوگوں کا تعلق اُ س دور سے ہے، جب ان کے ملکوں پر مغربی استعماریت کا غلبہ تھا اور وہ اپنے لوگوں میں اس غلامی سے آزادی کی جوت جگانے میں کامیاب رہے تھے۔ احیائے اسلام کا حقیقی مقصد یہی ہے کہ جبر واستبداد اور استعماریت پر مبنی نظام کی جڑوں پرضربِ کاری لگائی جائے اور فرسودہ رسوم وروایات (جن کااسلام سے کوئی واسطہ نہیں) ختم کردی جائیں۔ پھر صنعتی انقلاب کے دورِ مابعد (Post Industrial Revolution Era) کے اخلاقی، سماجی اور معاشی مسائل کا بہتر سے بہتر حل سامنے لایا جاسکے۔ حالات ساتھ دیں تو اسلامی ریاست کے قیام کی بھی جدوجہد کی جائے۔ بنیادی مقصد اسلام کی محض نظری خوبیاں اُجاگر کرنا نہیں ہے۔اصل مقصد لوگوں کو عمل اور حرکت پر آمادہ کرنا ہے۔ یہی اسلام کی خوبی ہے۔
کم وبیش ایک ڈیڑھ صدی سے ہمار امسئلہ جموداور تعطل ہے۔ یہ جمود اور تعطل فکری بھی ہے اور عملی بھی۔پوری امت، آپ سے آپ رُونما ہونے والے کسی غیرمعمولی کرشمے کے انتظار میں بیٹھی ہے۔ کسی ایسے مردِ حُر یا کسی مہدی کی منتظر ہے جو آئے اوران کے دلدّر دور کردے، لیکن خود انھیں کچھ نہ کرنا پڑے۔
تاریخ کے ہر دور میںمسلمانوں کو کوئی نہ کوئی ایسی شخصیت نظر آتی رہی ہے، جو اُمتِ مسلمہ کی عظمت ِرفتہ بحال کرسکتی تھی یا اُس کے بارے ایسا گمان کیا جاسکتا ہے کہ وہ امت کو قعرِمذلّت سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ عالم اسلام اُس کے گرد توقعات کا پہاڑ کھڑا کرلیتا تھا۔ کبھی انھیں مہدی سوڈانی کی شکل میں اپنی یہ آرزو پوری ہوتی نظرآئی تو کبھی جمال الدین افغانی کی صورت میں۔
مسلم معاشروں کی زبوں حالی کے اسباب کا کھوج لگایا جائے تو دو طبقے سب سے زیادہ ذمہ دار نظر آتے ہیں:
۱-حکمران طبقہ:حکمران خواہ بادشاہ ،فوجی جرنیل یا منتخب خاندانی نمائندے ہوں، ان کا بنیادی مقصد اپنے مفادات اور اقتدار کا تحفظ رہا ہے ۔زوال پذیر اسلامی اقدار، سماجی ا ور اقتصادی اصلاحات کو فروغ دینے میں یہ سبھی مجرمانہ غفلت برتنے کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ انھوں نے کرپشن سے ملک کا دیوالیہ نکالا۔سامراجی قوتوں پر انحصار کیا، تاکہ اپنے اقتدار کو دوام بخش سکیں۔
۲-طبقۂ علما:خصوصاً وہ علما جو اپنے فرائض چھوڑ کر حکومتوں کے آلہ کار بن گئے۔
امام غزالی (م: ۱۱۱۱ء) کے نزدیک عوام کی زبوں حالی کے ذمہ داریہی دو طبقے ہیں: ایک حکمران طبقہ اور دوسرا سرکاری علما ومشائخ کا گروہ۔ لیکن امام غزالی نے دُور اندیشی سے کام لے کر اپنے دور کے حکمران کے خلاف مسلح مزاحمت یا انقلاب کے پرچار سے اجتناب کیا، کہ کہیں اس کے نتیجے میں مزید بدامنی اور لاقانونیت کا لاوا نہ پھوٹ پڑے۔
امام غزالی نشاتِ ثانیہ کے لیے دو مرحلے تجویز کرتے ہیں: وہ پہلے مرحلے میں عوام میں دین کا شعور پید اکرنے پر زور دیتے ہیں، اور دوسرے مرحلے میں سیاسی اصلاحات نافذ کرنے کی تلقین کرتے ہیں___ ابتدائی مرحلے کی تکمیل کے بغیر دوسرے مرحلے میں قدم رکھنے کو وہ خطرناک قرار دیتے ہیں۔ امام غزالی سماجی اور سیاسی تبدیلیاں لانے کے لیے انقلابی راستہ اختیار کرنے کے مخالف ہیں۔تاہم، اختلاف کے برملا اظہار کو ضروری خیال کرتے ہیں۔اس کے برعکس دورِجدید کے مفکرینِ احیائے اسلام ،رائے عامہ کی بیداری کو انقلاب کی کامیابی کے لیے اوّلین شرط قرار دیتے ہیں اورجب ممکن ہو زورِ بازو سے سیاسی قوت کے حصول کو درست سمجھتے ہیں۔ وہ ہر حکمران کے لیے عوام کی جانب سے غیر مشروط اطاعت کے تصور کو اس بنا پر چیلنج کرتے ہیں کہ ماضی کے ظالم حکمران ’اولیٰ الامر کی اطاعت‘ کے اسلامی تصور سے ناجائز فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔
اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملّی تشخص کو مضبوط کیا جائے، تاکہ طاغوتی طاقتیں ایک ایک ملک کو شکار نہ کرسکیں۔ غزہ کی مثال سامنے ہے۔۲۳ لاکھ محصور مسلمان کٹتے مرتے رہے ہیں اور امت مسلمہ سوتی رہی ہے۔ اتحادِ امت کے بغیر معاملہ حل نہیں ہوگا۔ اُمت کو مختلف فرقوں ،طبقوں اور مسلکوں میں تقسیم تو خود مسلمانوں نے کیا ہے۔ آگے چل کر یہ تقسیم عالمی استعماری طاقتوں کے لیے مفید ثابت ہوئی ہے۔ لہٰذا وہ تقسیم کی ان لکیروں کو اور گہرا کرتے ہیں۔
دوسرا مسئلہ قوم پرستی(Nationalism) کا ہے۔ جب تک وطنیت کا دامِ فریب کارگر اور مؤثر ہے، اُس وقت تک ملّی حفظ وبقا کااحساس پیدا نہیں ہوسکتا۔ ملّی تشخص کو مضبوط کرنے کے لیے مسلم ملکوں کی برادری قائم کی جائے۔ ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کا تجربہ اس لیے ناکام رہا کہ بعض مسلم ممالک اپنی خاندانی بادشاہت بچانے کے لیے امریکی غلامی میںہیں، اور امریکا وہ استعماری قوت ہے جو امت مسلمہ کو تقسیم کرنے کا ہنر جانتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ:’’قوت کے بغیر مذہب محض ایک فلسفہ ہے ،قوت کے بغیر اسلامی نظریات کی حفاظت نہیں کی جاسکتی‘‘۔ سوال یہ ہے کہ قوت کیسے حاصل کی جائے؟ اہلِ مغرب نے مشینی ایجادات، معاشی ترقی اور بحری تجارتی راستوں پر غلبے کے بل بوتے پر کمزور ممالک کواپنا محکوم بنایا تھا۔ احیائے امت کے لیے مسلمانوں کو بھی انھی میدانوں میں آگے آنے کی ضرورت ہے۔
یہ تو طے ہے کہ ’قوت‘میں زندگی ہے اور کمزوری کا دوسر انام موت ہے۔مسلمانوں کو زندہ رہنا ہے تو ’قوت‘حاصل کرنی ہوگی۔ فکری، اخلاقی، سیاسی، معاشی ، اقتصادی، اور عسکری،ہر نوع کی قوت۔ یہ قوت اسی وقت حاصل ہوگی جب مسلمانوں کو عملی بنایا جائے۔فی زمانہ اقبال کے شاہین کی ضرورت ہے۔
ان مسائل پر قابو پانے ہی میں’احیائے اسلام‘ پوشیدہ ہے۔
قرآن کریم امت مسلمہ میں ایک ایسے مستقل گروہ کے قیام کی ضرورت پر زور دیتا ہے، جو ’معروف‘ کا حکم دیتا اور ’منکر‘ سے لوگوں کو روکتا ہو۔ اس گروہ کا دائرہ جب امت تک محدود ہوتو اس کام کی نوعیت ’اصلاحی‘ ہوگی۔ جب اور جہاں یہ دائرہ تمام انسانوں تک وسیع ہوجائے گا تو یہ ’دعوتی‘ عمل ہوگا۔ ’معروف‘ ہو یا ’منکر‘ ان کا دائرہ بہت وسیع ہے اور وقت کے ساتھ وسیع تر بھی ہوتا رہتا ہے۔
اسلامی لٹریچر میں ’معروف و منکر‘ کی جو تعریف ملتی ہے، وہ بظاہر تو ان روایتی شکلوں تک محدود ہے، جو رسولؐ اللہ کے عہد میں پائی جاتی تھیں۔ لیکن یہ روایتی شکلیں کچھ اصول متعین کرنے میں مددگار ہیں، جن کی بنیاد پر ہم فی زمانہ معروف اور منکر کی نشان دہی کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری فکری تاریخ میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی ضرورت، وقت اور حالات میں تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ دو عوامل کی نشاندہی اس بحث کو آگے بڑھانے میں معاون ہوسکتی ہے:
اوّل یہ کہ جب غیر اقوام اور گروہوں سے تعامل (Interaction)ہوتا ہے تو روایتی شکلوں سے ماخوذ اصولوں کی تطبیق کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں معروفات کی فہرست میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور منکرات کی نئی شکلیں بھی سامنے آتی ہیں اور مسلم معاشروں کی حرکیات کو متاثر کرنے لگتی ہیں۔ اسلام نے مختلف تہذیبوں کو اسی عمل(process) کی روشنی میں ضم کیا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ اس تہذیبی تعامل یا انضمام کے نتیجے میں تہذیبی سطح پر اسلام متمول ہوتا رہا ہے۔
دوسرے عامل کا گہرا تعلق انسان اور کائنات کے باہمی تعلق کے تعین اور تسخیری قوتوں کے استعمال کے نتائج سے ہے۔ کیونکہ اس زمین پر انسانی زندگی کی بقا اور ارتقا کا انحصار کائنات کے ساتھ انسانی تعامل پر ہے، اس لیے اس تعلق کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ قرآن کریم نے کائنات اور اس کے مظاہر کو آیات الٰہی کہہ کر ایک طرف اس تعلق کو تقدس دیا ہے، تو دوسری طرف تسخیر کے تصور سے انسان اور کائنات کے باہمی تعامل کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ واضح رہنا چاہیے کہ اس تعلق اور تسخیر سے پیدا شدہ انسانی رویہ ہمیشہ سے انسانی شعور کا حصہ بن کر اس کے عمل کی تشکیل کرتے رہے ہیں۔ قرآن کریم کے نزول سے قبل کی تاریخ میں بھی یہی تعلق غیر شعوری طور پرکار فرمارہا اور بعد از نزولِ قرآن یہ شعور کا حصہ بن گیا ۔ لیکن سولھویں صدی کے بعد اس تعلق میں تبدیلی آئی، جس کابنیادی محرّک یہ تھا کہ انسان کو عطا ہوئی قوتِ تسخیر ’کیا ہورہا ہے؟‘ اور ’کیسے ہورہا ہے؟‘ کے جان لینے تک وسیع ہونے لگی۔ اس طرح کائناتی مظاہر میں کارفرما اصولوں اور ضابطوں کو جان لینے اور ان کے انطباق کے نتیجے میں آگہی اور ارتقا کے نئے نئے عظیم الشان دروازے کھل گئے، جو آج بھی وسعت پذیر ہیں۔
یہ کامیابیاں انسانی کاوشوں کا نتیجہ تھیں، جن پر نہ صرف نتائج کے استعمال بلکہ خود نتائج تک پہنچنے میں بھی انسان ہی متحرک تھا، اس لیے اس نئے علم پر مالکانہ حقوق بھی اسی کو حاصل رہے، جن کا استعمال وہ اپنے اقتدار کے حصول، اُسے باقی رکھنے اور مزید گہرا کرنے کے لیے استعمال کرنے لگا۔ یہ علم اور اس کی کامیابیاں معروفات کے پہلو بھی رکھتی ہیں اور منکرات کے بھی ۔مکمل طور پر ان سے اجتناب مسلمانوں کے عزّت اور وقار یا شدیدبے عزتی کا باعث ہے، جب کہ مکمل طور پر اس کی حمایت اس میں مضمر ظلم کا کارندہ بن جانے کے مترادف ہے۔
اس کا دوسرا انتہائی اہم پہلو یہ ہے، کیونکہ مسلمان بطور گروہ اس علم کے حصول اور ارتقاء میں برابر کے شریک نہیں رہے۔ اس لیے اس میں موجود معروف اور منکر کی پہچان کرنا بھی مشکل ہے، اس کے منکر کو پہچان پانا بھی آسان نہیں ہے اور اسے ظلم و استحصال سے روک پانا بھی ناممکن ہے۔ بے آگہی کے اس مقام پر ہونے کے نتیجے میں اپنے عہد کی اس بڑی حقیقت سے ہم ناواقف رہ کر کوئی ایساکام کرہی نہیں سکتے، جو تبدیلی لاسکے۔ اپنی خلقی صلاحیت کے اعتبار سے اسلام کی آفاقیت بجا لیکن ہم اسے جس طرح پیش کررہے ہیں، اس سے نہ صرف اسلام کی آفاقیت ثابت نہیں ہوتی بلکہ ہماری سرگرمیاں محض مسلمانوں کی اصلاح تک محدود ہوجاتی ہیں یا پھر عہد جدید کے انتہائی معذور اور اپاہج قسم کے تجزیے تک۔
ہم کو یہ سمجھنا چاہیے کہ موجودہ تحریکاتِ اسلامی جو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے قرآنی حکم کے پس منظر میں قائم ہوئیں، وہ بجا طور پر یہ سمجھتی ہیں کہ مسلم دُنیا کی اس صورتِ حال کو بحال کرنے کی کوشش کرنا، جس پر وہ چند صدیاں قبل فائز تھی، ان کی اساسی ذمہ داری کے ساتھ دینی غیرت کا تقاضا بھی ہے۔ ان کے لیے آج کی اس دنیا میں تبدیلی کی غالب حرکیات سے واقفیت اور اس کے لیے حکمت عملی، جس کی شکلیں آج بھی تیزی سے تبدیل ہورہی ہیں،وضع کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس ضرورت کی اہمیت کا اندازہ ایک سرسری مشاہدے اورمطالعے سے بھی ہوجاتا ہے۔
اس سلسلے میں دونکات کی طرف ابتدا ہی سے توجہ رہی ہے۔ ایک یہ کہ قرآن کریم اور سنت رسولؐ جو ہماری فکر کی اساس ہے، ان سے براہ راست رہنمائی کے رجحان کو عام کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ وہ ادارے جو انفرادی ذہنوں اور معاشروں کو کنٹرول کرنے کی حدتک مؤثرہیں مثلاً سیاسی مقتدرہ وغیرہ انھیں اپنے ہاتھ میں لینے کی ممکنہ کوشش کی جائے۔ گذشتہ ایک صدی سے مختلف مقامات پر تحریکات اسلامی ان دو نکات پر مشتمل حکمت عملی کے تحت کام کررہی ہیں۔ ان کی کامیابیوںو ناکامیوں کے ملے جلے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ یہی بڑھتا ہوا احساس توجہ دلاتا ہے کہ ہم عصرِ حاضر میں احیائے اسلام کی کوششوں اور درپیش چیلنجوں کا ادراک کریں اور جاری حکمت عملی کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے اس میں ضروری حذف و اضافہ کریں۔
موضوع کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے اس میں شامل دو اصطلاحوں یعنی ’عصرِ حاضر‘ اور ’احیائے اسلام‘ کی ممکنہ سطحوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس ضمن میں ’عصرِ حاضر‘ سے مراد وہ وقت اور حالات ہیں، جن میں اسلام کو پیش کرنے اور معاشرے کی اصلاح کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ ذرابھی اختلافی مسئلہ نہیں ہے کہ خود اللہ نے دین کو انسانوں تک پہنچانے میں عصر کا خیال رکھا ہے۔ گو کہ اساسی تعلیمات ایک ہی رہی ہیں، لیکن شکلوں اور تطبیق میں فی زمانہ تبدیلی آتی رہی ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسلام کی طرف دعوت دی، تو وہ عصری اعتبار سے کوئی اجنبی دعوت نہ تھی بلکہ اُس عہد کے تقاضوں کے پیش نظر ایک دعوت تھی۔ اس دعوت میں عصری عزائم، محرکات اور وسائل کا استعمال آپؐ نے کیا۔ دعوت پہنچانے کے لیے جو طریقے رائج تھے، آپؐ نے انھی کو استعمال کیا۔ مدینے پہنچنے کے بعد بچوں کو خواندہ بنانے کی خواہش اور کوشش ہم عصر رہنے کی کوشش تھی۔ جب یہودیوں سے سابقہ پڑا تو تجارتی معاملات میں آگے رہنے کی کوشش کی، جس کا استعمال یہودی یا دوسرے گرو ہ کرتے تھے۔
اُبھرتے ہوئے مسلم معاشرے میں یہودیوں کی شریعت کے عالم خود مسلمانوں ہی میں موجود تھے۔ پھر جب دشمنوں سے مقابلہ ہوا تو عسکری صلاحیتوں، جنگی ہتھیاروں کے استعمال اور عسکری حکمتوں کی مہارت میں دشمنوں کے ہم پلّہ افراد آپ کے پاس موجود تھے۔ اور جب مقابلہ آرائی میں اللہ نے کم تعداد کو بڑی تعداد پر غالب آ جانے کا مژدہ سنایا، تو وہ یہ نہ تھا کہ صلاحیتوں اور وسائل کے بغیر بھی انھیں کامیابی ملے گی۔ بلکہ یہ تھا کہ ان سب کے ہوتے ہوئے محض افراد کی کمی کو اللہ اپنی مددِ خاص سے پورا کر دے گا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ اشارہ بھی نہیں ملتا کہ عصری صلاحیتوں کے نہ ہوتے ہوئے بھی جدوجہد میں اللہ اپنی مددِ خاص سے کامیابی عطا فرمائے گا۔ قرآنی حکم اور سنت رسول یہی ہے کہ ہم جس عصر میں دعوت ، اصلاح یا تعارف کا کام انجام دے رہے ہوں، اس عصر سے نہ صرف واقف ہوں بلکہ اسے استعمال کرنے اور ممکنہ چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیتوں سے بھی آراستہ ہوں۔ آج کے دور میں عسکری کے ساتھ، فکری، علمی اور ٹیکنالوجیکل صلاحیتوں کا اضافہ ہو گیا ہے اورہم ان میدانوں میں پچھڑے ہوئے ہیں۔ اس پچھڑے پن کی طرف اس تحریر کی ابتدا میں بھی اشارہ کیا گیا ہے۔
مذکورہ بالا صلاحیتیں ماضی میں بالکل مفقود نہ تھیں، لیکن وہ محض نقطۂ نظر اور انفرادی روّیوں کی تشکیل کرتی تھیں۔ لیکن آج یہ’ کیا‘ کوجاننے کی صلاحیتیں آگے بڑھ کر’ کیسے‘ کے مرحلے میں داخل ہو کر ہر میدان میں پیداوار کا وسیلہ بن گئی ہیں۔ اس طرح دو گروہ: ایک وہ جو نالج پیدا کرتا ہے اور دوسرا وہ جو نالج جذب (consume) کرتا ہے، واضح نظر آتے ہیں ۔علم پیدا کرنے والے اور اس علم کو قابلِ صرف پیداوار میں تبدیل کرنے والے بالعموم مغربی معاشروں میں ہی پائے جاتے ہیں، جب کہ انھیں استعمال کرنے والوں کی کثیر تعداد ایشیا اور افریقا میں پائی جاتی ہے۔ اُمت مسلمہ بالعموم ’صارفین‘ کے دائرے میں آتی ہے اور اب قابلِ صرف پیداوار میں معلومات (ڈیٹا) اور اس سے ماخوذ نتائج اور ’مصنوعی ذہانت‘(AI) بھی شامل ہو گئی ہے، جس پر مغرب کے بعض گروہوں کی اجارہ داری ہونے کی بنا پر انفرادی آزادیاںبتدریج ختم ہوتی جارہی ہیں۔
اب نسلوں کی تربیت کا معاملہ ہو، غذائی ترجیحات ہوں یا ہمارا خانگی ماحول، ہم اپنی نجی ترجیحات طے کرنے میںبھی دوسروں پر منحصر ہوگئے ہیں۔ زراعت، ماحولیات، صحت، تغذیہ اور تفریحات جیسے تمام میدانوں میںآ ج کے انسانوں کی عظیم اکثریت مکمل طور پر آزاد نہیں ہے۔ دوسروں کی آواز یا پیغام ہم تک اور ہماری آواز دوسروں تک اس کرۂ ارضی کے کسی بھی مقام تک محض چند سیکنڈ میں پہنچ جاتی ہے اور حالات سے ہمیں باخبر کر دیتی ہے اور متاثر بھی کرتی ہے۔ معاشی سرگرمیوںمیں ہم بالکل بھی آزاد نہیں بلکہ ’سودی کاروبار‘ میں شامل ہوئے بغیر ہم معاشی ارتقا کی جدوجہد میں شامل ہی نہیں ہو سکتے۔ زمین اور فضاکی صحت آج شد ت سے زہریلی ہو چکی ہے۔
ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آج اکیسویں صدی کے نصف اوّل میں عام انسان جس ماحول میں رہ رہا ہے وہ اس ماحول سے بہت حد تک مختلف ہو چکا ہے جس میں اللہ کے رسولؐ نے دعوت دی تھی۔ یہ عظیم تبدیلی جن قوتوں کے بروئے کار ہونے سے پیدا ہوئی ہے، ان پر ہمارا بالکل بھی کنٹرول نہیں ہے۔ چنانچہ مسلمان محض اثر پذیر گروہ ہے، ان کے اثر انداز ہو پانے کا مستقل قریب میں دور دور تک امکان نظر نہیں آتا۔ چنانچہ وہ گروہ جو معاشرے میں انصاف کے قیام اور تبدیلی کا خواہاں ہے، وہ اس صورت حال کا باعث بنی ہوئی قوتوں سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔ یہ واضح ہے کہ ان تبدیلیوں کو پلٹا نہیں جاسکتا، البتہ ان کے اثرات کو سمجھا جا سکتا ہے اور پھر ان کا تدارک کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ان قوتوں کو تخلیقی انداز میں سمجھنا اور پھر ان کو اعلیٰ تر مثبت مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا اس سے زیادہ ضروری ہے۔ اسی مقام پر ہم رسول ؐاللہ کی درپیش عصر سے مماثلت سمجھ اور بیان کر کے اس مقام پر فائز ہو سکیں گے، جس پر پہنچنے والوں کو اللہ نے کم تعداد میںہونے کے باوجودکامیابیوںکا یقین دلایا تھا۔
اسلام کے احیاء میں موجودہ عصر کی اہمیت کی بحث کو یہاں وقتی طور پر ختم کرتے ہوئے اسلام کے احیاء کی تشریح اور آج کے تقاضوں پر ایک مختصر اظہارِ خیال کرتے ہیں:
دراصل عصر کی تفہیم ہی سے اسلام کے احیاء کی شکلیں اور تقاضے ابھرتے ہیں۔ احیاء کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اسلام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر کئی صدیوں بعد تک زندگی کی انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر فکر و عمل کی تمام سطحوں پر مؤثر اور رہنما تھا،اسی طرح آج پھر زندہ و متحرک ہوجائے۔ عصری تبدیلیوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے چیلنجوں کا ایک تعلق اساسیات سے ہے اور دوسرا پہلو عصری تبدیلیوں کی تفہیم اور ان پر قابو حاصل کرنے سے متعلق ہے۔
اساسیات عملی اور فکری جہتوں پر مشتمل ہے۔ مثلاً ’عملی جہت‘ میں صلوٰۃ، روزہ، زکوٰۃ اورحج شامل ہیں۔ جن کے لیے معاشرہ، عوامی دلچسپی، اور اس میں کمال کے حصول کی کوششیں، اسلام کے احیاء کے ایک تقاضا کو پورا کریں گی۔ ایسی کوششیں بہت بڑے پیمانے پر خاصے مؤثر انداز میں جاری ہیں۔
البتہ ’اساسی احیاء‘ کا دوسرا پہلو عقائد یعنی ’فکریات‘ سے ہے۔ مثلاً توحید، آخرت اور رسالت یہ وہ عقائد ہیں، جو ہماری فکری اساس ہیں۔ احیائے اسلام کی عصری کوششوں میں پوری توجہ ان عقائد کو جدید انداز میں سمجھنے کی کوششیں ہیں تاکہ نہ صرف امت مسلمہ میں جدید عقلیات کے پروردہ ذہنوں کے لیے یہ قابلِ فہم ہو جائیں بلکہ غیر مسلم ذہنوں کو بھی عقلی طور پر ان عقائد کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ عقائد کی تفہیمِ نو کے باب میں یہ اپروچ بڑی اہم ہے، لیکن اس کے بعض پہلو بہت کمزور ہیں۔ مثلاً توحید کو قابلِ فہم ہونے کے لیے بہت سے خداؤں کے مقابلے میں خدائے واحد کا پس منظر اور اس کے انسانی ذات اور اس کے رویوں اور معاشرے پر پڑنے والے اثرات کی مدد سے بیان کیا جاتا ہے۔
فی زمانہ بتوں کی پوجا کا معاملہ کوئی بہت زیادہ قابلِ توجہ رویّہ نہیں رہا۔ اسی طرح الحاد بھی ایک دوسری شکل میں ڈھل چکا ہے۔ آج کا ’جدید‘ ذہن ایک خدا کو بطور ایک تصور کے تو تسلیم کرتا ہے، مگر ہمہ وقت کائنات سے مربوط خدا کو یہ ’جدید‘ انسان تسلیم نہیں کرتا۔ اسلام کے ابتدائی دور سے ہی توحید کے عقیدے نے ایک زندہ اور ہماری زندگی اور کائنات سے ہمہ وقت ربط میں خدا کا تصور دیا۔ قرآن کریم میں جب اللہ نے یہ فرمایا: میں تمھاری رگِ جاں سے زیادہ قریب ہوں اور میں تمھیں سنتا ہوں، تو اس میں یہی پیغام دیا گیا ہے۔ چنانچہ مخلوقات میں مماثلت ، ہم رشتگی، باہمی انحصار اور باہمی ارتباط، جب جدید ریسرچ و تحقیق کے نتیجے میں منکشف ہوئے، تو یہ در اصل ان جاری اور متحرک رشتوں کا اظہار ہے، جو عقیدۂ توحید کے مظاہر ہیں۔
ان رشتوں کا انکشاف اس وقت ہوا، جب سائنسی اصولوں اور ضابطوں کی دریافت کو پیداوار میں اضافے کے لیے منطبق کیا جانے لگا۔ جس کے نتیجے میں پیداوار میں اضافہ تو ہوا، لیکن فطرت میں موجود توازن اور عمل میں بحران پیدا ہو گیا۔ اضافہ سے آسانیاں پیدا ہوئیں، مگر توازن میں بحران نے زندگی کے لیے مختلف سطحوں پر سنجیدہ مسائل پیدا کردیے۔
آسانیوں میں مضمر معاشی مفادات نے ایک چھوٹے سے گروہ کو مستفید کیا، لیکن انسانوں کی ایک کثیر تعداد شدید مشکلات کا شکار ہوئی۔ عقیدۂ توحید کو اس پس منظر میں سمجھنا اور سمجھانا عصرِجدید کا تقاضا ہے اور اس صورت حال کی خاطر بہتر پالیسی سازی اسلام کے احیاء کے لیے ضروری ہے، کیوں کہ اس کے بغیر بنیادی انسانی حقوق، عدل و قسط کی حفاظت اور ظلم و استحصال جس کا شکار نہ صرف انسانی زندگی ہے، بلکہ زندگی کی شکلیں متاثر ہوتی ہیں اور کائناتی توازن بگڑ جاتا ہے، اس کا مداوا ممکن نہیں۔ اسی طرح کی بحث عقیدۂ رسالت اور عقیدۂ آخرت کے تعلق سے بھی کی جاسکتی ہے۔
پیش نظر رہے کہ اسلام امن و سلامتی کا پیامبر ہونے کی حیثیت میں دورِ جدید میں علم اور ٹکنالوجی کی بنیادوں پر قائم ترقی یافتہ لیکن ظلم، استحصال، عدمِ عدل اور کائناتی اور نفسیاتی توازن میں بحران سے عبارت زندگی کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے؟ اس سوال کا جواب دیے بغیر نہ تو اسلام کے ساتھ عدل ہوسکتا ہے اور نہ اُن کے ساتھ جنھیں اسلام کا تعارف کرا رہے ہوتے ہیں۔ بلکہ ہمیں یہ بھی بتانا ہوگا کہ اسلام اس صورت حال میں سے کس طرح زندگی کو اَز سرنو صحت مند بنیادوں پر قائم کرے گا؟
سطور بالا میں ہم نے موضوع میں شامل دو اصطلاحوں ’عصرِ حاضر‘ اور ’احیائے اسلام‘ کو سمجھنے اور اس کے تقاضوں کو جاننے کی کوشش کی ہے، جس کے نتیجے میں اسلامی سرگرمیوں کا ایک نقشۂ کار اُبھرتا نظر آتا ہے، جس کی وضاحت ضروری ہے۔ البتہ اس سے قبل اس بحث کے چند اور پہلو بھی ہیں۔
عقیدۂ توحید کی مذکورہ بالا تفہیم در اصل اسم الٰہی،مثلاً ’الخالق‘ کے پس منظر میں ہے، اور اس کے عملی و فکری مضمرات کی مختصر وضاحت ہے۔ اسی طرح عقیدۂ آخرت کے دینیاتی معنیٰ یعنی مرنے کے بعد کی زندگی کے ہیں۔ لیکن انسانی زندگی پر اس کے اثرات میں جواب دہی کا عنصر اہم ترین ہے، جو صرف اللہ کے سامنے ہی نہیں بلکہ اس کائنات سے تعامل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اثرات کے لیے خود اس دنیا کے سامنے جواب دہی بھی اس میں شامل ہے۔ یعنی کائناتی وسائل، ارتقا اور تحقیق کے نام پر بے لگام استعمال نہیں کیے جاسکتے۔ اسلامی فقہ کی اصطلاح ’ضیاع‘ اس بحث کو ایک رخ عطا کرتی اور ترقی و تحقیق کی حدود متعین کرتی ہے۔
اسی طرح عقیدۂ رسالت انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بنیادی طور پر علم کے کئی میدان ایسے ہیں، جن کے بارے میں یقینی علم کے مقام کو انسان محض اپنی صلاحیتوں کے ذریعے نہیں پہنچ سکتا۔ یہ اس بات کا اعلان بھی ہے کہ یقینی علم کی ایک سطح وہ ہے جسے انسان اپنے حسّی ذرائع کی مدد سے حاصل کرتا ہے، جو بالعموم ’کیسے‘؟ کا جواب دیتی اور جسے ہم مادّی وجود سے ماخوذ علم سمجھتے ہیں۔
دوسری سطح وہ ہے جس کا تعلق ’کیوں؟‘ کے جواب پر مشتمل ہے، جس میں مقاصد، اخلاقیات، اقدار، اچھے اور برے کی تمیز اور حتمی سوالوں کے جواب مہیا کرتی اور بین الانسانی اور کائنات و انسانی رشتوں کو صحت مندانہ طور پر استوار کرتی ہے۔ بالفاظ دیگر عقیدۂ رسالت در اصل علمیات (Epistemology)سے متعلق ہے۔ عقیدۂ رسالت کی بدولت جو علم حاصل ہوتا ہے اس کی صفت یہ ہے کہ وہ عقلِ خالص کی مدد سے منکشف نہیں ہوتا۔ اس علم کے خلا کو یقینا عقل پُر کرنا چاہتی ہے لیکن تن تنہا پُر نہیں کر سکتی۔ اس تک پہنچنے میں جذبات کا کردار بہت اہم ہے اور ایک بار جذبات کی مدد سے جب یہ دروازہ کھل جاتا ہے، تو منکشف ہونے والا ہر علم عقل کو مطمئن کرتا ہے اور اس کی مدد سے اس کی باریکیاں انسان پر منکشف ہوتی ہیں۔
علم پر مبنی آج کے معاشرے میں علمیاتی بحث بڑی اہمیت کی حامل ہے اور آج کی دنیا اس مقام سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے، جس میں صرف مشاہدہ اور تجربہ ہی معیارِ حق تسلیم کیا گیا تھا۔ اب نئی علمیات کی شکلیں وسعت پذیر ہیں۔ اسلام میں علم کی جو سیکڑوں قسمیں بہت سے اسکالروں نے متعین کی ہیں، وہ در اصل اس وسعت پذیر علمیات کی طرف اشارہ ہیں۔ اسمائے الٰہی جن کا تعلق علم سے ہے، وہ بھی اللہ کی اس کائنات اور انسان سے متعلق متحرک رشتوں اور روابط کی نشاندہی کرتے ہیں۔
یہ نکتہ کہ ’اسلام چند ستونوں پر قائم ایک بلند و بالا عمارت ہے‘ بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ محض ستونوں کے استحکام یا محض عمارت چاہے، وہ کتنی ہی ہمہ گیر کیوں نہ ہو، اسلام کو قائم نہیں کر سکتی۔ چنانچہ، اسلام کو مستحکم کرنے یا اسے قائم کرنے کے لیے فی زمانہ ہر دوطرح کی سرگرمیوں پر اپنے عصر کے اعتبار سے توجہ دینی ہوگی۔ ستون جنھیں ’ارکان‘ کہا گیا ہے، ان کی اہمیت اور شکل، وقت اور مقام کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتی اور ہر مکتب فکر میں اس کی اہمیت واضح ہے اور اس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں پایا جاتا۔ البتہ اختلاف، عمارت کی تعمیر یعنی ’عصر ‘کے مطابق احیائے اسلام کی کوششوں میں ہو سکتا ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ ایک فطری امر ہے۔ چنانچہ ہم یہاں بحث میں ارکانِ اسلام کو مدِنظر نہیں رکھیں گے، صرف عمارت یعنی نظام کے قیام کی جدید حرکیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، بحث کے پس منظر میں ترجیحات کی وضاحت کریں گے۔
جدید حرکیات جن پر آج کی دنیا زندگی بسر کر رہی ہے، وہ دنیا میں ارتقاء کا باعث بھی ہے اور فساد و بربادی کا ذریعہ بھی۔ انسانی زندگی ’انفرادی ہویا اجتماعی‘ اس میں ایک طرف آسانیوں کی فراوانی ہے تو دوسری طرف شدید بحرانوں کا شکار بھی ہے۔ معلومات اور آگہی کے انتہائی اعلیٰ مقام پر فائز ہوجانے کے باوجود زندگی شدید نفسیاتی، سماجی اور معاشرتی بحرانوں کا شکار ہے۔ یہ در اصل اس ’ورلڈ ویو‘ (تصورِ جہاں) کی بدولت ہے، جو اس دنیا پر گذشتہ چند صدیوں سے حا وی رہا ہے۔ اس ’تصورِجہاں‘ کو سمجھنا اس پر تنقید اور قرآنی بنیادوں پر ایک ایسے ہی متحرک ’تصورِ جہاں‘ کی وضاحت اور تشکیل جو زندگی کے ہرہر پہلو کو محیط ہو، اور قرآنی اقدار کو قائم رکھتے ہوئے زندگی کے ارتقا کو جاری رکھ سکے، یہ دور جدید کی تحریکات ِاسلامی کی ترجیح ہونا چاہیے۔
موجودہ ’تصورِ جہاں‘ کی ناقدانہ تفہیم کے لیے اسلامی ’تصورِجہاں‘ کی وضاحت، انسانی زندگی کو شدت سے متاثر کرنے والی جدید فکر، سائنس کے رُخ اورپالیسیوں، ٹکنا لوجی کے اثرات اور انسان و کائنات کے باہمی رشتوں پر مشتمل اور انھیں متاثر کرنے والے تمام ڈسپلیز کا ناقدانہ جائزہ ضروری ہو گیا ہے۔ اسی کے لیے انفرادی شوق کی حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ ساتھ تحقیق کا ایسا اجتماعی نظم قائم کرنا ہوگا، جہاں نقد، تفہیم اور تشکیل کا کام انجام دیا جاسکے۔
جدید حرکیات کو جاننے کے لیے اس میدان میں اُترنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر نہ تو ہم اس کے اثرات کی گہرائی سے واقف ہو سکیں گے اور نہ نئی اسلامی حرکیات کی تشکیل کر سکیںگے۔ چنانچہ نوجوانوں کو اس تعلیمی نظام سے واقف کرانے اور اس کی بنیادوں کو سمجھنے، اسے خلّاقانہ (Innovative) طور پر بدلنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہونے کے لیے ایسے جدید تعلیم کے ادارے خود قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے لٹریچر سے استفادے کا ماحول تیار کرنا ازحد ضروری ہے، جو آج کی علمی اور معاشرتی دنیا کا ناقدانہ تعارف کراتے ہوں۔
سیاسی مقتدرہ کا حصول اہم ضرورت ہے، لیکن سیاسی کوششوں کے ساتھ ان تمام متبادل راستوں کی تلاش بھی جاری رکھنی چاہیے، جن کے ذریعے ہم وہ مقاصد حاصل کر سکیں، جو سیاست کے ذریعے پیش نظر ہیں۔
ترجیحات کے اعتبار سے مذکورہ بالا سرگرمیاں اوّلین اہمیت کی حامل ہیں کیوں کہ یہ سرگرمیاں فکری، تحقیقی اور تخلیقی نوعیت کی ہیں۔ ان کی خصوصی ذمہ داری ان افراد ہی کو سونپی جائے، جن کے اندر خصوصی ذوق اور صلاحیتیں موجود ہوں۔ البتہ اس طرح کے مطالعے اور ایسے مطلوب طرزِ زندگی کی تعمیر عوامی نوعیت کی ہوگی اور کوشش کی جائے گی کہ عوامی سطح پر بھی اس ذوق کی پذیرائی ہو۔ دوسری طرح کی سرگرمیاں، اصلاحی، تعمیری اور عوامی بہتری کے لیے ہوں گی۔
اس سلسلے میں آخری بات یہ ہے کہ ایسا مزاج بنانے کی ضرورت ہے، جس میں اسلام کو محض مسلمانوں کے دین کی حیثیت سے نہیں بلکہ عوام الناس کے لیے اور ان کی بہتری کے لیے پیش کیا گیا ہو۔ اس مزاج کا اظہار ہمارے لٹریچر اورگفتگو ؤں وغیرہ سے بھی ہو اور عوامی بھلائی کے کاموں سے بھی۔
یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ انسان بحیثیت مجموعی سچائی پر قائم رہنا چاہتا ہے اور اچھائی پسند کرتا ہے۔ اسی لیے ہونے والے ترقی کے تمام کاموں، اس کی اختراعات اور تحقیقات میں مثبت پہلو زیادہ نمایاں ہیں۔ چنانچہ، ہمیں جدید ترقیوں اور اس سلسلے میں انسانی کوششیں جو چاہے کسی بھی رنگ و نسل، مذہب اور قوم کے افراد کی ہوں کو تسلیم کرنا چاہیے اور ان کاموں کو اللہ کی نعمت سمجھ کر ان کے ممکنہ غلط استعمال اور اثرات کو سمجھانا چاہیے اور دعوت دینا چاہیے کہ ان کے اثراتِ بد سے انسان محفوظ رہیں۔
موضوع کا آخری نکتہ مسلمانوں کے اکثریت و اقلیت میں ہونے سے وابستہ ہے۔ اصولی طور پر یہ تمام کام ہماری ذمہ داری ہیں اور ایک سطح تک ان سے واقفیت ہر اس فرد کو ہونی چاہیے، جو ہمارے ساتھ اس عظیم جدوجہد میں شامل ہے، لیکن جہاں اکثریت میں ہیں وہاں یہ تمام کام یکساں اہمیت کے حامل ہیں اور جہاں اقلیت میں ہیں وہاں کے وابستگان کی فکری سطح یکساں رکھتے ہوئے مقامی حالات کی بناپر کچھ پہلوؤں پر زیادہ عملی توجہ دی جاسکتی ہے۔
اس بحث میں درج ذیل نکات پر آج کے دور میں خصوصی توجہ کی ضرورت ہے:
۱- رسولؐ اللہ کے دور اور آج کے دور میں موازنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ آج کے حالات میں ایسی تبدیلیاں آچکی ہیں، جنھیں سمجھنے اور متعلقہ صلاحیت اور استطاعت پیدا کیے بغیر اسلام اور اسلام کے پیغام کو کامیابی کے ساتھ عصر جدید میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔
۲- اسلام کے تعارف میں عقائد کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ روایتی فہم کے ساتھ جدید عملی ، علمیاتی اور ترقیاتی چیلنجوں کے پس منظر میں انھیں سمجھنا، تاکہ جدید دنیا کے مختلف پہلوؤں پر ناقدانہ تبصرہ کیا جاسکے، اور اس کے ذریعے فرد ، معاشرے اور کائنات کے ساتھ انسانی رشتوں پر ہونے والے ظلم کو سمجھا جاسکے اور عدل و قسط کے قیام کی شکلیں دریافت کی جاسکیں۔ یہ توحید، رسالت اور آخرت کے عقائد کا عملی اظہار ہوگا۔
۳- دور جدید جس علم، ٹکنالوجی، سائنس اور افکار سے عبارت ہے، اسے سمجھنے کی انفرادی اور اداراتی کوششوں کے بغیر ایسے افراد مہیا نہیں ہوسکتے، جو مذکورہ مقاصد کو حاصل کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔ ان علوم اور افکار کو سمجھنا اور مطلوبہ استطاعت کا حصول تربیتی نظام کا حصہ ہونا چاہیے۔ اس محاذ کو ثانوی نہیں، اساسی و بنیادی درجہ دینا چاہیے۔
جب ۱۵؍ اگست ۲۰۲۱ء کو تحریکِ طالبان افغانستان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل کا انتظام سنبھالا تو یہ ایک محیرالعقول واقعہ تھا۔ اس سے پہلے کم و بیش پورے افغانستان پر ان کا قبضہ ہوچکا تھا ۔تمام بڑے شہر ،ایئرپورٹوں اور اہم عسکری تنصیبات پر وہ ’امارت اسلامی‘ کے جھنڈے گاڑ چکے تھے۔ نیٹو افواج اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ افغانستان سے رخصت ہوچکی تھیں۔ ساڑھے تین لاکھ افغانوں پر مشتمل فوج، جس کو امریکا نے اربوں ڈالر خرچ کر کے تیار اور بہترین اسلحے سے لیس کیا تھا، طالبان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔امریکی کٹھ پتلی صدر اشرف غنی سمیت اُن کی پوری کابینہ ملک سے فرار ہو گئی اور بغیر جنگ لڑے طالبان کابل میں داخل ہو گئے۔ گذشتہ تین سال میں ایک طویل عرصے کےبعد افغانستان میں امن و امان بحال رہا۔ ’داعش‘ تنظیم نے متعدد مقامات پر کئی خودکش حملے کیے، جس سے سیکڑوں جانیں ضائع ہوئیں۔ لیکن اب وہ سلسلہ بھی تھم چکا ہے۔ داعش کی بیش تر قیادت ملک سے باہر نکل گئی ہے اور دیگر ممالک میں سرگرمِ عمل ہے ۔
۱-ملک میں مکمل امن و امان کی بحالی، جنگ کا خاتمہ، عوام کا تحفظ ،شاہراؤں کی حفاظت۔
۲- حکومتی رٹ کا قیام، کابل کی مرکزی حکومت کا پورے افغانستان پر مکمل کنٹرول ہے۔ ملک کے ۳۴ صوبوں اور ۴۰۰ اضلاع میں ایک ہی حکومت ہے۔ تمام صوبوں کے والی، اور بڑے چھوٹے اضلاع کے حکام اس کے سامنے جواب دہ ہیں، اور اس کا حکم پورے ملک میں نافذ ہوتا ہے۔
۳- قانون کی بالادستی اور لاقانو نیت کے خاتمے کے بعد پورے ملک میں شرعی قوانین نافذ ہیں۔ عدالتیں قائم ہیں اور وہ روزمرہ کے مسائل اور تنازعات کا بروقت فیصلہ کرتی ہیں۔ عالمی ادارے نے کابل کو اس خطے کا سب سے محفوظ شہر قرار دیا ہے جہاں جرائم کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
۴- بدعنوانی اورکرپشن کا ہر سطح پر سد باب کردیا گیا ہے۔ رشوت ستانی ،بھتہ خوری، کمیشن وغیرہ جیسے مسائل جو گذشتہ حکومتوں میں عام تھے، ناپید ہیں۔ تمام حکومتی محصولات کی وصولی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ بجلی کے بل اور دیگر خدمات پر ادائیگی پوری طرح لی جاتی ہے، جس سے حکومت کو مستحکم بنانے میں بہت مدد ملی ہے ۔
۵- ملک میں اقتصادی ترقی، تجارت کے فروغ اور معاشی سرگرمیاں بڑے پیمانے پر جاری ہیں۔ افغان کرنسی کو عالمی بینک نےاس خطے کی مضبوط ترین کرنسی قرار دیا ہے۔ افغان تاجر بغیر کسی روک ٹوک کے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر آزادانہ طور پر کاروبار کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی کمپنیاں اور کاروباری افراد بھی افغانستان میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
۶- ملک میں بلاامتیاز یکساں طور پر ترقیاتی کام زور و شور سے جاری ہیں ۔ پہلے سال چھوٹے پیمانے پر کاموں کا آغاز ہوا،لیکن اب پورے ملک میں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ شاہراؤں کی تعمیر ہو رہی ہے، ڈیم بن رہے ہیں اور سالانگ ٹنل کی تعمیرِ نو ہو چکی ہے۔ ۲۸۰کلومیٹر طویل قوش ٹپہ نہر بن رہی ہے، جو کہ شمالی صوبوں کی لاکھوں ایکڑ زمین کو سیراب کرے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام ترقیاتی کام خود انحصاری کی بنا پر کیے جا رہے ہیں۔ کوئی غیر ملکی قرضہ نہیں لیا گیا۔ بیرونی ممالک مثلاً چین اگر کسی منصوبے میں شریک ہے، تو وہ امداد کے طور پر کام کر رہا ہے۔
۷- مرکزی بینک اور دیگر مالیاتی ادارے ملک کی ترقی اور معاشی کنٹرول میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، خاص طور پر قیمتوں کے کنٹرول اور درآمدات و برآمدات پر نظر رکھتے ہیں اور جو اقدام ضروری ہے وہ کرتے ہیں۔ غیر ملکی کرنسی کی آمد اور خروج پر بھی دسترس ہے ۔ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود ملک میں بینکاری کا نظام جاری ہے اور سودی نظام کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔
۸- اقوام متحدہ کے اداروں اور دیگر ملکوں کی حکومتوں کے ساتھ تعلقاتِ کار قائم ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام ،عالمی ادارہ صحت، ریڈ کراس وغیرہ تمام تر پابندیوں کے باوجود کام کر رہے ہیں اور ان کے کارکنان اور دفاتر کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے، جب کہ ان کو براہِ راست عوامی مفادات کے کاموں اور امدادی اشیاء کی تقسیم کی دسترس فراہم کی گئی ہے۔ زلزلوں، سیلابی صورتِ حال اور وبائی امراض، انسداد پولیو مہمات میں دیگر ریلیف کے کاموں میں عالمی رفاہی اداروں کو کام کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔ ان اداروں میں خواتین کارکنان بھی کام کر رہی ہیں ۔علاوہ ازیں شعبۂ صحت میں ایک لاکھ ۵۰ ہزار اور شعبہ تعلیم میں ۹۰ ہزار خواتین پر مشتمل عملہ کام کر رہا ہے۔
۹- پڑوسی ممالک کے ساتھ سماجی ومعاشی تعلقات کو فروغ دیا گیا ہے۔ چین، ایران، پاکستان ،روس، ازبکستان ،ترکمانستان، تاجکستان وغیرہ کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار اور سرحدیں کھلی ہیں، اور اس میں بہتری آرہی ہے۔ ان ممالک کو طالبنائزیشن کا جو خوف درپیش تھا وہ اب معروضی اور عملی معاشی تعلقات میں ڈھل چکا ہے۔ کمیونسٹ ملک چین کے ساتھ خاص طور پر معاشی تعلقات میں بہت اضافہ ہوا ہے اور اس وقت ملک کی ۷۰ فی صد بیرونی تجارت اس کے ساتھ ہے۔ کابل میں اکثر ممالک کے سفارت خانے فعال ہوچکے ہیں۔
۱۰- ملک میں مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ طالبان قیادت نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد جس عام معافی کا اعلان کیا تھا، اس پر عمل کیا جا رہا ہے۔ انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ جو لوگ بیرونی ملک جانا چاہتے ہیں یابیرون ملک سے واپس آنا چاہتے ہیں وہ بلا خوف و خطر آسکتے ہیں۔ اندرون ملک اور بیرونی ملک فضائی پروازیں بحال ہو چکی ہیں۔
۱- جس عبوری کابینہ کا اعلان ۲۰۲۱ء میں کیا گیا تھا،وہی ابھی تک چل رہی ہے اور مستقل حکومت اور نظام ابھی تک معرض وجود میں نہیں آیا۔ ملک میں جمہوری ،شورائی نظام اور پارلیمنٹ کا وجود نہیں ہے۔ باقاعدہ ملکی دستور و آئین بھی منظور نہیں کیا جاسکا ہے۔ ملکی انتخابات یا اس کا متبادل کوئی نظام بھی ابھی تک قائم نہیں کیا جا سکا ہے۔
۲- کسی بھی ملک نے ابھی تک امارت اسلامی افغانستان کو باقاعدہ رسمی طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ کئی ملکوں نے سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن پڑوسی ممالک سمیت کسی نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ میں بھی افغانستان کی نمائندہ نشست خالی ہے۔
۳- افغانستان پر عائد بین الاقوامی پابندیاں جاری ہیں ۔اقوام متحدہ ،سیکورٹی کونسل، مغربی ممالک و دیگر عالمی اداروں نے معاشی و سفارتی اور ذمہ دارانِ حکومت پر بین الاقوامی سفر کی جو پابندیاں عائد کی تھیں، برقرار ہیں۔ نیز بینکاری، ہوا بازی اور معاہدوں پر پابندیاں جوں کی توں ہیں۔ گذشتہ حج کے موقع پر طالبان کے اہم رہنما سراج الدین حقانی کو فریضۂ حج کے لیے خصوصی استثنا دیا گیا تھا۔
۴- گذشتہ دو برسوں سے افغانستان میں بچیوں کی ثانوی اور اعلیٰ تعلیم پر پابندی ابھی تک برقرار ہے۔ امیر المومنین ملاہبت اللہ کے ایک فرمان کے مطابق کالجوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کے دروازے طالبات پر بند کیے گئے تھے جس سے پوری دنیا میں طالبان قیادت کو ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ اس سال امارت اسلامی نے اعلان کیا کہ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جو اسلامی اصولوں کے مطابق بچیوں کا تعلیمی نصاب تیار کرے گی، لیکن ابھی تک اس معاملے پر کوئی اقدام سامنے نہیں آیا جس پر اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک امارت اسلامی کے حامیوں میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔
۵- پاکستان کے ساتھ تعلقات میں جو بہتری کی توقع کی جا رہی تھی، ابھی تک وہ پوری نہیں ہوئی۔ طالبان کے پہلے دور (۱۹۹۶ء-۲۰۰۱ء) میں پاکستان نے امارت اسلامی کی حکومت کو نہ صرف تسلیم کیا تھا بلکہ سفارتی محاذ پر اس کی بھرپور حمایت بھی کی تھی۔ اس کے بعد حامد کرزئی اور ڈاکٹراشرف غنی کے دور میں تعلقات کشیدہ رہے۔ طالبان کی کابل آمد پر پاکستان میں بھی بالعموم خوشی کا اظہار کیا گیا، لیکن اس کے بعد باہمی تعلقات میں تناؤ کی کیفیت پیدا ہو گئی جس کی بڑی وجہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے بڑے پیمانے پر دہشت گردی ہے۔ افغانستان سے متصل قبائلی اور جنوبی اضلاع میں ہزاروں کی تعداد میں ان کے وابستگان، فورسز کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں اور ان کی قیادت افغانستان میں موجود ہے۔
تیسری دوحہ کانفرنس منعقدہ ۳۰ جون تا یکم جولائی ۲۰۲۴ء میں ان کے یہ دونوں مطالبات منظور کر لیے گئے۔ کانفرنس میں افغانستان اور اقوام متحدہ کے نمائندگان کے علاوہ امریکا، روس، چین، پاکستان، ایران، تاجکستان، ازبکستان ،قازکستان،کرغزستان، ترکی ،جاپان ،انڈیا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، ناروے، سعودی عرب ،انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات، اور قطر شامل رہے۔ یورپی یونین اور اسلامک کانفرنس کے نمائندے بھی موجود تھے جس سے آپ اس کانفرنس کی اہمیت کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ کابل کے ایک مؤثرتھنک ٹینک سی ایس آر ایس کی ایک رپورٹ کے مطابق اس کانفرنس سے امارت اسلامی نے تین اہم فوائد حاصل کیے :
۱ -امارت اسلامی افغانستان کو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک بین الاقوامی فورم میں پوری نمائندگی دی گئی ۔جس سے اب تک اس کو محروم رکھا گیا تھا۔
۲- ایجنڈا میں وہ نکات شامل کیے گئے،جوافغانستان کی ضرورت ہیں اور زمینی حقائق کے مطابق ہیں ۔جن میں افغانستان پر عائد بین الاقوامی پابندیاں ختم کرنا، بینکاری کی سہولیات اور نجی سیکٹر پر پابندیاں ختم کرنا، افغانستان کے منجمد اثا ثے بحال کرنا ،افیون کی کاشت پر پابندی کے نتیجے میں متاثرہ کسانوں کو ریلیف مہیا کرنا جیسے نکات شامل تھے۔ جس پر کانفرنس کی دوسری نشست میں تفصیلی غور وخوض ہوا اور افغان نمائندوں کو سناگیا ۔
۳- بین الاقوامی برادری نے ایک طرح سے تسلیم کر لیا ہےکہ امارت اسلامی افغانستان کے ساتھ براہ راست رابطہ اور مل کر کام کرنا ناگزیر اور مفید ہے اور اس پر پابندیاں عائد کرنا اور دباؤ ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں، اس لیے اس کو اپنے ساتھ ملاکر چلانے کی ضرورت ہے ۔
اگر چہ اس کانفرنس سے فوری طور پر تو افغانستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، لیکن امارت اسلامی افغانستان نے عالمی فورم میں اپنی تین سالہ کارکرد گی بیان کی۔ جس میں امن و سلامتی، معاشی ترقی، پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات، ملک میں افیون کی کاشت پر مکمل پابندی اور افغانستان سے منشیات کی سمگلنگ جیسی بڑی سماجی لعنت کا خاتمہ شامل ہے۔ یہ کام طالبان کے پہلے دورِ حکومت میں بھی کیا گیا تھا، لیکن ملک پر امریکی قبضے کے دوران یہ پھربڑے پیمانے پر شروع ہوا اور ۲۰۲۰ء کے اختتام پر ایک اندازے کے مطابق صرف افغانستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد ۴۰لاکھ سے زائد تھی۔ منشیات کا خاتمہ امارت اسلامی افغانستان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔
دوحہ کانفرنس کے دوران ایک اہم اجلاس قطر کی میزبانی میں منعقد ہوا ،جس میں پاکستان، افغانستان اور ازبکستان کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں ان تین ممالک کے درمیان کارگو ریلوے سروس کے قیام کے منصوبے پر بات چیت کی گئی جس کی فنڈنگ قطر کرے گا۔ یہ پاکستان کے لیے ایک بہت اہم منصوبہ ہے، جس کے ذریعے وسطی ایشیائی ممالک اور روس کی مارکیٹوں تک براہ راست رسائی حاصل ہوسکے گی۔ازبکستان اور افغانستان کے درمیان پہلے سے ریلوے لائن موجود ہے، جو مزار شریف تک ہے ،جب کہ پاکستان کی طرف سے ریلوے طورخم تک ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے ’وائس آف امریکا‘ (VOA )کے مطابق اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شدت پسند گروپوں کا اتحاد تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان میں ’سب سے بڑا دہشت گرد گروپ‘ ہے۔ اسے پاکستان میں سرحد پار سے حملے کرنے کے لیے طالبان حکومت کی حمایت حاصل ہے۔
اقوام متحدہ کی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم دیر گئی۔ اس کے مطابق ٹی ٹی پی کی زیرقیادت، پاکستانی سکیورٹی فورسز اور شہریوں کے خلاف دہشت گردانہ حملوں میں بڑا اضافہ ہوا، جن میں حالیہ ہفتوں میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے: ’’ٹی ٹی پی، افغانستان میں بڑے پیمانے پر کام جاری رکھے ہوئے ہے، اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کے لیے، اکثر افغانوں کو (یا افغانستان کی سرزمین کو ) استعمال کرتی ہے‘‘۔ مزید یہ کہ ’’عالمی سطح پر نامزد دہشت گرد گروپ، جسے پاکستانی طالبان بھی کہا جاتا ہے، افغانستان میں تقریباً۶ہزار۵سوجنگجوؤں کے ساتھ کام کر رہا ہے‘‘۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ’ ’پاکستان، ٹی ٹی پی کے پاکستان میں بڑھتے ہوئے حملوں سے نمٹنے کے لیے مشکلات کا شکار ہے اور طالبان کی ٹی ٹی پی کی حمایت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
ان پُرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے اسلام آباد اور کابل میں طالبان حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں،جب کہ افغان طالبان (امارت اسلامی افغانستان ) دہشت گرد گروہ کی موجودگی کے الزامات کو مسترد کرتی ہے یا یہ کہ پڑوسی ممالک کو دھمکی دینے کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کرنےکی اجازت دیتی ہے‘‘۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ: ’’طالبان، ٹی ٹی پی کو ایک دہشت گرد گروپ کے طور پر تصور نہیں کرتے اور ان کے درمیان باہمی مضبوط تعلقات ہیں۔ ٹی ٹی پی ۲۰۰۷ء میں پاکستان کے غیر مستحکم (قبائلی علاقوں )سرحدی علاقوں میں اُبھری، جس نے افغان طالبان کو بھرتی اور پناہ فراہم کی کیونکہ اس کے بعد کے برسوں میں انھوں نے افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوجیوں کے خلاف گوریلا حملے تیز کر دیے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے: افغانستان میں القاعدہ کے علاقائی کارندے، جن کے طالبان سے طویل مدتی تعلقات ہیں، پاکستان کے اندر بڑے پیمانے پر دہشت گردانہ کارروائیوں میں ٹی ٹی پی کی مدد کر رہے ہیں‘‘۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں رکن ممالک کے حوالے سے بتایا گیا ہے: ’’ٹی ٹی پی کے کارندوں کو مقامی جنگجوؤں کے ساتھ مل کر القاعدہ کے اُن کیمپوں میں تربیت دی جا رہی ہے جو اس تنظیم نے متعدد سرحدی صوبوں جیسے ننگرہار، قندھار، کنڑ اور نورستان میں قائم کیے ہیں۔ اس طرح القاعدہ ٹی ٹی پی کی حمایت کر رہی ہے۔ اس طرح القاعدہ کے ساتھ ’زیادہ تعاون‘ ٹی ٹی پی کو ’پورے خطے کو خطرے‘ میں تبدیل کر سکتا ہے‘‘۔
لکھا گیا ہے: ’’نیٹو افواج کے ہتھیار، خاص طور پر رات میں دیکھنے کی صلاحیت (Night vision کے حامل حساس آلات) جو کہ طالبان کے قبضے کے بعد سے ٹی ٹی پی کو فراہم ہوچکے ہیں، پاکستانی فوجی سرحدی چوکیوں پر اس کے حملوں میں جان لیوا اضافہ کرتے ہیں‘‘۔
اسلام آباد میں حکام نے بھی بار بار سکیورٹی فورسز میں ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ جدید امریکی ہتھیاروں کو قرار دیا ہے جو بین الاقوامی افواج کے ہاتھوں پیچھے رہ گئے تھے اور ٹی ٹی پی کے ہاتھ لگ گئے تھے۔ امریکی محکمہ دفاع نے مئی [۲۰۲۴ء]کے آخر میں منظر عام پر آنے والی سہ ماہی رپورٹ میں ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’’پاکستانی انٹیلی جنس فورسز نے اس سال کے شروع میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران، M-16 اور M-4 رائفلز سمیت چند امریکی تیار کردہ چھوٹے ہتھیار برآمد کیے ہیں اور ٹی ٹی پی سمیت عسکریت پسند، پاکستان میں حملوں کے لیے ممکنہ طور پر محدود مقدار میں امریکی ساخت کے ہتھیاروں اور آلات بشمول چھوٹے ہتھیاروں اور نائٹ ویژن چشموں کا استعمال کر رہے ہیں‘‘۔ تاہم، اس میں آگے چل کر کہا گیا ہے: ’’امریکی ساختہ ہتھیاروں کی مقدار جس کا دعویٰ پاکستانی ذرائع نے کیا ہے کہ وہ پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کے ہاتھ میں ہے، یہ ممکنہ طور پر مبالغہ آرائی ہے‘‘۔
اسلام آباد نے بارہا کابل سے مطالبہ کیا ہے کہ ’’وہ ٹی ٹی پی کی زیر قیادت سرحد پار دہشت گردی کو لگام ڈالے اور محسود سمیت اس کے رہنماؤں کو پکڑ کر پاکستان کے حوالے کرے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق: ٹی ٹی پی نے بتدریج پاکستان کے خلاف حملوں کی تعداد کو ۲۰۲۱ء میں ۵۷۳ سے بڑھا کر ۲۰۲۳ء میں ۱۲۰۳ کر دیا ہے، اور یہ رجحان ۲۰۲۴ء میں بڑھتا جارہا ہے۔ پاکستانی حکام بھی تشدد میں اضافے کی وجہ ’زیادہ سے زیادہ آپریشنل آزادی‘ کو قرار دیتے ہیں جو تقریباً تین سال قبل طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے دہشت گرد تنظیم کو افغانستان میں حاصل ہوئی ہے۔ طالبان کی جاسوسی ایجنسی، جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس نے، ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کے لیے کابل میں تین نئے گیسٹ ہاؤسز کی سہولت فراہم کی اور مبینہ طور پر ٹی ٹی پی کی سینئر شخصیات کو نقل و حرکت میں آسانی اور گرفتاری سے استثنا کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں کے اجازت نامے جاری کیے تھے۔ اس جائزے میں یہ بھی بتایا گیا کہ ’’طالبان کو خدشہ ہے کہ[امارت اسلامیہ کی جانب سے] ’زیادہ دباؤ‘ ٹی ٹی پی کو افغانستان میں قائم داعش کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور کر سکتا ہے‘‘۔
طالبان نے اقوام متحدہ کی ان تازہ رپورٹوں پر فوری طور پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ تاہم، طالبان نے یہ ضرور ظاہر کیا ہے کہ ’’افغانستان پر الزام لگانے کے بجائے (ٹی ٹی پی) پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے‘‘۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس رپورٹ میں شائع شدہ حقائق یا تصورات زیادہ تر پہلے سے پاکستان اور افغانستان کی قیادت کے علم میں ہیں اور ان پر پاکستانی وزیر دفاع اور دیگر حکام اظہار خیال بھی کرتے رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں دہشت گردی کے واقعات کے بعد پاکستانی وزارت خارجہ میں افغان ناظم الامور کو بلا کر سفارتی انداز میں متنبہ بھی کیا گیا اور کم از کم ایک مرتبہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے مبینہ ٹھکانہ پر بمباری بھی کی گئی ہے اور آئندہ بھی ایسا کرنے کی وارننگ دی گئی ہے، جس پر افغان قیادت کی جانب سے شدید رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس وقت پاک افغان تعلقات تناؤ کا شکار ہیں اور اعلیٰ سطحی رابطوں کا فقدان ہے۔ پاکستان نے اب تک افغانستان کو سفارتی سطح پر تسلیم بھی نہیں کیا۔ تاہم، ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان افغانستان کو رسمی طور پر باقاعدہ تسلیم کرکے اس کے ساتھ اعلیٰ سطح پر مذاکرات کے عمل کا دروازہ کھولے، جس میں دونوں طرف کی سیاسی اور دینی قیادت شریک ہو۔ جنگی اقدامات کو خیرباد کہنا چاہیے اور دونوں ممالک کے درمیان روزمرہ بنیادوں پر مضبوط سیاسی، اقتصادی اور سماجی تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔ اس کام میں پاکستان ہی کو سبقت لینی چاہیے۔ گذشتہ ماہ جولائی کو فرینکفرٹ میں پاکستانی کونسل خانے پر جو افسوس ناک واقعہ ہوا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی لابی افغانستان میں پاکستان مخالف رائے عامہ کو کسی بھی وقت استعمال کر سکتی ہے، حالانکہ اس مظاہرے میں پاکستانی طلبہ بھی بڑی تعداد میں شریک تھے، جو ممتاز پختون قوم پرست شاعر گیلامند وزیر کی اسلام آباد میں پُراسرار ہلاکت کے خلاف احتجاجی مراسلہ پاکستانی سفارتی عملے کو دینے گئے تھے۔ مگر اسی دوران جن دو افغان طلبہ نے پاکستانی پرچم اُتارا تھا، ان کو اسی وقت پاکستانی طلبہ نے پکڑ کر پولیس کے حوالے بھی کیا تھا۔
’’۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بھارتی لوک سبھائی حملے کے نتیجے میں کیا مقبوضہ کشمیر پُرامن ہوگیا ہے؟‘‘ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔
گذشتہ پانچ برسوں کے دوران جہاں ایک طرف نئی دہلی سرکار کے ظلم و تشدد نے مختلف نئے حربے اپنائے ہیں، وہیں عوامی سطح پر محکوم کشمیریوں نے بعض حوالوں سے مایوسی اور ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے جدوجہد کے لیے نئے راستے اپنائے ہیں۔ یہ زمانہ ظلم کی مختلف داستانوں کومجسم پیش کرتا ہے اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آرایس ایس) کی مسلم نسل کش حکمت عملی کا جواب دینے کے لیے اپنی کوششوں میں تبدیلی لایا ہے۔
اس دوران تحریک آزادیٔ کشمیر اپنے عظیم رہنما سیّدعلی گیلانی کی رہنمائی سے ستمبر۲۰۲۱ءکو محروم ہوگئی۔ وہ مسلسل بھارتی حکومت کی قید میں تھے۔ انتقال سے قبل انھیں علاج معالجے کی سہولت سے محروم رکھا گیا۔پھر ان کی میّت بھی بھارتی فورسز نے قبضے میں لے لی اور خاندان کو تجہیزو تدفین کرنے کی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ اُن کی وصیت کے مطابق انھیں شہدا کے مرکزی قبرستان میں دفن کرتے۔ اہل کشمیر کے لیے گیلانی مرحوم ایک والد کی سی قدرومنزلت رکھتے تھے مگر لوگوں کو ان کے جنازے میں شریک نہیں ہونے دیا گیا۔
قابض حکومت کی جانب سے اخبارات سخت سنسرشپ اور پابندیوں میں جکڑے گئے۔ اسکولوں سے اُردو کی کمر توڑنے اور اسلامی تہذیب سے وابستہ اسباق کی بیخ کنی کے انتظامات کیے گئے، اور اسلامی اسکولوں کو قومیایا گیا۔ اچانک چھاپے مار کر لکھنے پڑھنے والے دانش وروں اور صحافیوں کی ایک تعداد کو مقدمات کے بغیر انڈیا کی دُور دراز جیلوں میں ٹھونسا یا غائب کردیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر سے اُن طلبہ کے راستے میں شدید ترین رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، جو اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ ملک جانا چاہتے تھے اور ان کے داخلے بھی ہوچکے تھے۔ اس پالیسی کا شکار وہ طلبہ بھی ہوئے، جو بھارتی حکمرانوں کے کشمیر موقف کے حامی ہیں، لیکن ان کا مسلمان ہونا، ان کی راہ میں رکاوٹ بنادیا گیا۔
اقوام متحدہ کے مطابق مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر متنازعہ علاقے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کے شہری کشمیر کے ایک دوسرے علاقے میں جانے کا حق رکھتے ہیں۔
۲۰۰۲ء میں جنرل پرویز مشرف کی جانب سے جموں و کشمیر میں یک طرفہ باڑ لگانے سے ایک تو یہاں کے لوگوں کا بنیادی شہری حق سلب ہوا، اور دوسری طرف جو طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کرنے آزاد کشمیر آئے تھے، بھارتی حکومت نے ان کی ڈگریاں تسلیم کرنے سے انکار پر مبنی قانون نافذ کردیا۔
اس مدت میں تمام تر بلندبانگ دعوئوں کے باوجود بھارتی حکومت نے یورپی ممالک کے صحافیوں کو آزادی سے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی، اور اگر ایک مرتبہ چند افراد کو جانے دیا بھی، تو ایک دو روز بعدہی انھیں کشمیر سے نکل جانے پر مجبور کر دیا گیا۔ پھر تجاوزات مٹانے کے نام پر خاص طور پر شہری علاقوں اور سری نگر شہر میں بڑے پیمانے پر بلڈوزر چلا کر سیکڑوں برسوں سے آباد کشمیریوں کے کاروبار تباہ اور گھربرباد کر دیئے گئے۔
۱۳جون کی شام نئی دہلی میں نریندرا مودی کی تیسری حلف برداری کی تقریب سے صرف ایک گھنٹہ پہلے ہندو یاتریوں سے بھری بس پر اچانک حملے کے نتیجے میں ۹؍افراد ہلاک ہوگئے۔ انھی دنوں انڈین سیکورٹی فورسز پر چار دن میں چار حملے ہوئے، جن میں کٹھوعہ کے مقام پر ہیرانگر میں دوحُریت پسندوں اور ایک بھارتی فوجی کی جان گئی۔جموں کا یہ علاقہ نسبتاً پُرامن تصور کیا جاتا رہا ہے۔ ذرا ماضی میں دیکھیں تو ۲۰۰۲ء میں جب جموں کے کالوچک علاقے میں فوجی کوارٹروں پر مسلح حملے میں درجنوں بھارتی فوجی اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہلاک ہوئے تھے، تو نتیجے میں پاک بھارت سرحدوں پر جنگ جیسی صورتِ حال پیدا ہوگئی تھی۔
اسی دوران کشمیر میں حُریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ ڈی ڈبلیو ٹی وی (جرمنی)کے نمائندے صلاح الدین زین کے مطابق ۹جولائی کو ضلع کٹھوعہ میں مجاہدین نے بھارتی فوجی قافلے کو نشانہ بنایا، جس میں پانچ فوجی مارے گئے، ان میں ایک کمیشنڈ افسر بھی شامل تھا۔ یہ واقعہ کٹھوعہ سے تقریباً ۱۵۰کلومیٹر کے فاصلے پر مچیڈی، کنڈلی، ملہار کے پاس پیش آیا۔ فوجی ذرائع کے مطابق حُریت پسندوں نے ٹرک پر دستی بم (گرنیڈ)پھینکا اور پھر فائرنگ شروع کردی۔ سیکورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کی، مگر اس دوران حُریت پسند جنگل کی جانب فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق فوجی قافلے پر دو سمتوں سے حملہ کیا گیا۔
ان مہینوں کے دوران جموں اور عام طور پر وادیٔ کشمیر کے علاقے میں حُریت پسندوں کا غلبہ رہا ہے۔ اس طرح خطۂ جموں میں بھارتی فوج پر حملوں میں خاصی تیزی آئی ہے، اور جولائی کے شروع تک یہ اپنی نوعیت کا پانچواں حملہ ہے، جس میں بھارتی فوج کو خاصا نقصان پہنچا ہے۔
جون کے مہینے میں حُریت پسندوں نے انڈین سیکورٹی فورسز کی ایک بس پر فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں وہ کھائی میں جاگری، اور نو افراد کی ہلاکت ہوئی۔ اس واقعے کے کچھ دن بعد مجاہدین نے ایک گائوں میں سیکورٹی فورسز سے مقابلہ کیا، جس میں سی آر پی ایف کا ایک فوجی مارا گیا اور دو مجاہدین نے جامِ شہادت نوش کیا۔ جون ہی میں ضلع ڈوڈہ (جموں) کے علاقے گندوہ میں مجاہدین اور بھارتی فورسز کے درمیان مقابلہ ہوا، اور تین مجاہدین شہید ہوئے۔
۹جولائی کو ’وائس آف امریکا‘ میں یوسف جمیل نے رپورٹ کیا ہے کہ ضلع کولگام کے مُدھرگام اور فرسل چھنی گام دیہات میں حُریت پسندوں اور بھارتی فوجیوں کے درمیان دو روز تک جھڑپیں جاری رہیں۔ ان جھڑپوں میں حزب المجاہدین سے تعلق رکھنے والے چھ حُریت پسند شہید ہوئے، جن میں: یاور بشیرڈار، ظہیراحمد ڈار، توحید راتھر، شکیل احمد درانی، عادل احمد اور فیصل احمد شامل ہیں، جب کہ دو فوجی مارے گئے۔ یہ سب مقامی کشمیر ی شہری تھے۔ بھارتی حکام کے مطابق: ’’وہ بھاری اسلحے سے لیس تھے‘‘ [جو ظاہر ہے کہ بھارتی فوجیوں ہی سے چھینا گیا تھا]۔ مقامی لوگوں کے مطابق ان تمام شہدا کا تعلق مقامی آبادی سے تھا اور یہ نوجوان مارچ ۲۰۲۱ء سے تادمِ آخر مجاہدین کی صفوں میں شامل رہے۔
انڈین حکومت دُنیا کے سامنے مسلسل یہ کہتی آرہی ہے کہ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد اُس نے جموں و کشمیر میں حُریت پسندی کو کچل دیا ہے۔ مگر دوسری جانب کشمیری نوجوان تحریکِ جہاد کا حصہ بنتے اور اپنا ایک اَن مٹ نشان چھوڑ جاتے ہیں۔اسی دوران میں انڈین فوج نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اسپیشل فورسز (پیراشوٹ رجمنٹ) کے کمانڈوز کو اس علاقے میں اُتارا اور تربیت یافتہ کھوجی کتوں کا بھی استعمال کیا ہے۔
’وائس آف امریکا‘ نے وادیٔ کشمیر کے جنوبی اضلاع میں جڑ پکڑنے والی تحریک جہاد پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ہے کہ ۸جولائی ۲۰۱۶ء کو یہاں پر بُرہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد انڈین فوجیوں نے سرچ آپریشن کے دوران مقامی مسلم آبادی کے ساتھ جس نوعیت کا بہیمانہ سلوک کیا، اس نے لوگوں کو نہایت گہرے زخم دیئے ہیں اور توہین و تذلیل کے واقعات نے ان کے دلوں سے خوف نکال دیا ہے اور حقارت بھر دی ہے۔
۲۴جولائی کو کپواڑہ کے علاقے میں مجاہدین اور بھارتی فوجیوں میں تصادم ہوا، جس میں ایک فوجی مارا گیا اور ایک مجاہد شہید ہوا۔ بھارتی فوجی حکام یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ حالیہ چند مہینوں میں فوج کے خلاف جنگجو سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے نئی فوجی پوسٹیں اور نئے فوجی کیمپ قائم کیے جارہے ہیں۔
آج صورتِ حال یہ ہے کہ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کو ہراساں کرنے کے لیے بھارتی حکومت کے جاری کردہ کالے قوانین کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔ فوج اور پولیس مل کر میڈیا پر پابندیاں عائد کیے ہوئے ہیں۔ انٹرنیٹ پر گہری نگرانی (سرویلنس) ہروقت جاری ہے۔ سیاسی قیادت کو جیلوں میں بند یا اپنی نگرانی میں جکڑ رکھا گیا ہے۔
۱۹جولائی کو کُل جماعتی حُریت کانفرنس کے ترجمان عبدالرشید منہاس نے ایک بیان میں یہ حقیقت آشکار کی ہے: بی جے پی کی حکومت جموں و کشمیر کے لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونے اور اپنی بات کہنے کی اجازت نہیں دے رہی، بلکہ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کو ہراساں کرنے کے لیے طاقت اور انسانیت کش قوانین کا اندھادھند استعمال کر رہی ہے۔ اسی طرح راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی چھتری تلے ’ہندوتوا‘ تنظیموں کے خفیہ ایجنڈے نے ۱۰لاکھ بھارتی فوج کی مدد سے کشمیر کی معیشت کو شدید بدحالی کا شکار کر دیا ہے، ان کے قدرتی وسائل چھین لیے گئے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں اور چھاپوں نے نفسیاتی دبائو زدہ درندہ صفت فوجیوں کے مظالم کا نشانہ بنارکھا ہے اور اندھا دھند گرفتاریوں نے خاندانوں کو تباہ کردیا ہے۔
دوسری طرف بھارتی شہریوں کو وادیٔ کشمیر میں زبردستی آباد کرنے اور مقامی لوگوں کی تجارت پر اجارہ داری مضبوط بنانے کے لیے مربوط پروگرام پر عمل کیا جارہا ہے۔ تیزرفتار مواصلاتی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے شاہرائوں، پُلوں اور ریل گاڑی پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ کلچرل حملے کو تیز کرنے کے لیے متعدد پروگراموں کو وسعت دی جارہی ہے۔
یہ صورتِ حال، پاکستان اور دُنیا کے دیگر ممالک میں تحریک آزادیٔ کشمیر کو قوت فراہم کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ مگر افسوس کہ چند ماہ پہلے یہاں آزاد کشمیر میں معمولی واقعات کو بدامنی کی راہ پر دھکیل دیا گیا، جس نے پاکستان کی ساکھ کو صدمہ پہنچایا۔ بلاشبہہ اُس میں حقائق سے بے خبر نوجوانوں کا حصہ ہے اور ساتھ دشمن نے بھی اس صورتِ حال کو استعمال کیا ہے۔ کشمیر کے نوجوانوں کے جائز تحفظات کا سنجیدگی سے جواب دینا چاہیے۔ لیکن ردعمل پیدا کرکے اُن میں غصہ پیدا کرنے سے اجتناب بھی برتنا چاہیے۔ آزاد کشمیر کا مواصلاتی نظام بڑے پیمانے پر ترقیاتی کاموں کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر آزاد کشمیر میں اضطراب پیدا ہوگا تو اس کا منفی اثر مقبوضہ جموں وکشمیر کی تحریک پر پڑے گا۔ اس نزاکت کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے ذرائع ابلاغ میں سیاست دانوں اور انتظامیہ کو دُوراندیشی سے کام لینا چاہیے۔
بہت مشکل صورت حال ہے۔ حالیہ اسرائیل غزہ جنگ نے منطقی اندازِ فکر کو معطل کر رکھا ہے۔ درست طور پر کہا جاتا ہے کہ جنگ میں پہلی موت سچ کی ہوتی ہے۔
موجودہ تنازع کھڑا ہونا ہی تھا کیونکہ برق رفتار ’ابراہیمی معاہدوں‘ کے دوران فریق دوم یعنی فلسطینیوں کو مکمل نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ کم سے کم الفاظ میں بھی اسے انتہائی احمقانہ حکمت عملی کہا جاسکتا ہے۔ اس دھونس کا نتیجہ وہی ہوا جو ہونا تھا، نظرانداز فریق (اور اس کے حامیوں) نے اپنا ردعمل ظاہر کردیا۔ نتیجہ ایک مہلک نسل کشی کی صورت میں نکلا، جس نے فریقین کو ایک بند گلی میں دھکیل دیا ہے۔ اگر امریکا اپنا سارا وزن اسرائیل کے پلڑے میں ڈال دے تو مشرق وسطیٰ اور یورپ میں طاقت کا توازن مکمل طور پر بدل جائے گا۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو امریکا کبھی یہودی مسئلے کا غیر مشروط حامی نہیں رہا ہے۔ ۱۸۷۶ء میں وفاق کے حامیوں کی شکست کے ساتھ امریکی خانہ جنگی ختم ہوئی، تو یورپی سرمایہ دار اس طرف متوجہ ہوئے۔ ان کے پاس سرمائے کی فراوانی تھی اور وہ نئی منڈیوں کا رُخ کرنا چاہتے تھے، لیکن امریکی خانہ جنگی کے خاتمے کا انتظار کر رہے تھے۔
چنانچہ بہت جلد امریکا میں صنعت کاری کا عمل شروع ہو گیا۔ بڑے صنعت کار (جنھیں ڈاکو رئیس بھی کہا جاتا ہے) سرمائے کی تلاش میںتھے کیونکہ امریکا میں اس کی قلت تھی۔ صنعتوں، ریل گاڑیوں، نہروں، سڑکوں اور تیل کی صورت میں امریکی توسیع کسی حد تک یورپ سے حاصل ہونے والے یہودی سرمائے کے باعث ہی ممکن ہو پائی تھی۔
بیسویں صدی کے آغاز میں وال سٹریٹ کا سب سے بڑا بینکر پیئر پونٹ مورگن (Pierpont Morgan) بھی دراصل روتھ شیلڈ (Rothschild) اور دوسرے یہودی گروہوں کی نمایندگی کر رہا تھا۔ سرمائے کے ساتھ ساتھ یہودی بنکار، فنکار، عالم و دانش ور اور دوسرے ہنرمند بھی امریکا آکر بس گئے اور یہاں انھوں نے اپنے لیے ایک جگہ پیدا کر لی۔
دسمبر ۱۹۱۷ء میں برطانیہ نے فلسطین کے اندر یہودیوں کا قومی وطن قائم کرنے کے سلسلے میں اپنی مکمل حمایت کا اعلان کر دیا۔ بہت کم یہودیوں کو اس وقت سمجھ آئی کہ دراصل یہ انھیں یورپ سے نکالنے کا بہانہ تھا۔
سابق برطانوی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے یہ قرارداد تیار کی جو صہیونی نمایندہ بیرن روتھ شیلڈ تک پہنچا دی گئی۔ اس قرارداد میں واضح طور پر لکھا گیا تھا: فلسطین میں آباد عرب شہریوں کو بالکل پریشان نہیں کیا جائے گا اورنہ وہاں سے ہٹانے کی کوشش کی جائے گی۔
اس وقت برطانوی جنگی کابینہ کا واحد مقصد، جنگ عظیم اول میں کامیابی حاصل کرنا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اس اعلامیہ کے بعد صہیونی قوتیں اتحادیوں سے آ ملیں گی۔سیاسی بے رحمی کی ایسی مکمل ترین (یا بدترین) مثال ملنا مشکل ہے۔
۱۹۳۹ء تک جرمنی میں اقتدار ہٹلر اور نازی پارٹی کے پاس آ چکا تھا۔ ہٹلر کو جرمن عوام کےدرمیان جادوئی حیثیت حاصل تھی۔ اس کا بنیادی نظریہ آریائی نسل کی برتری، یہودی و جپسی نسلوں کی کمتری اور پہلی جنگ کے بعد جرمنی کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر استوار تھا۔
اس صورتِ حال میں ہٹلر اور اس کے ساتھی جس حل تک پہنچے، وہ یہ تھا کہ جرمنی سے یہودیوں کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔ اس پر جب امریکا و یورپی طاقتوں نے اعتراض کیا تو ہٹلر نے دوبدو جواب دیا، ’’ اس میں نیا کیا ہے؟ یورپی نوآبادیاتی قوتیں کئی صدیوں سے قتل عام جیسے افعال سرانجام دیتی آئی ہیں۔ اسپین اور پرتگال نے یہ کام جنوبی امریکا میں کیا، برطانیہ نے ساری دنیا میں، ولندیزیوں نے انڈونیشیا میں، جب کہ بیلجیم یہی کام کانگو میں کر رہا ہے‘‘۔ ‘ امریکا کو ہٹلر کا جواب یہ تھا: ’’نسل کشی اور کشور کشائی کے معاملے میں ہم تو امریکی نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ جس طرح امریکیوں نے مقامی باشندوں کو ختم کر کے ان کی زمین اور وسائل پر قبضہ کیا اور جس طرح وہاں سیاہ فاموں کو غلام بنا کر ہر قسم کے ظلم و جور سے گزارا گیا‘‘۔
ہٹلر کا کہنا تھا کہ: ’’نازی پارٹی یہودیوں یا دیگر نسلوں کے ساتھ جو کچھ کر رہی ہے وہ معمول کی کارروائی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس بار اس کا نشانہ یورپی بن رہے تھے اور نسل کشی کا یہ کام جدید ٹکنالوجی کی مدد سے صنعتی پیمانے پر کیا جا رہا تھا‘‘۔ یہ دلیل ناقدین کو خاموش رکھنے کے لیے کافی تھی۔ اتحادیوں کو آخرکار جنگ میں فتح مل گئی، لیکن اس کا باعث ان کی قوت نہیں بلکہ جرمنی اور جاپان کی ایک بنیادی غلطی تھی۔
جنگ عظیم دوم کے بعد امریکا اور اتحادیوں کو یہ سوال درپیش تھا کہ یہودی مسئلے کا کیا کیا جائے؟ انھیں یہ فکر اس لیے تھی کہ وہ اپنے ملک میں یہودی پناہ گزینوں سے بچنا چاہتے تھے۔ پیشہ ور اور تکنیکی ماہرین کو پہلے ہی امریکا اپنی جانب کھینچ چکا تھا۔
چنانچہ اسرائیل کا قیام اس مسئلے کا کامل ترین حل تھا، جس سے تمام قوتوں ، امریکا، یورپ اور اشتراکی روس کا منشاء بھی حاصل ہو جاتا اور انھیں یہودیوں کو اپنے علاقوں سے نکال باہر کرنے کا بہترین موقع بھی مل جاتا۔ ۱۹۵۶ء میں جب برطانوی، فرانسیسی اور اسرائیلی فوجیں مل کر نہر سویز پر حملہ آور ہوئیں، تو امریکا اور اقوام متحدہ نے اس پر اعتراض کیا۔ چنانچہ تھوڑے ہی عرصے بعد انھیں وہاں سے نکلنا پڑا۔
تاہم، ۱۹۷۳ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد امریکی منصوبہ ساز، اسرائیل کی دفاعی و جارحانہ صلاحیتوں سے متاثر نظر آئے، چنانچہ امریکا اسرائیل کا مربی بن گیا۔ اسے ایک دشمن اور ناقابل بھروسا خطے میں اپنی کاسہ لیس ریاست مل گئی تھی۔ اس خطے میں حکومتیں بدلنے یا ان کی تبدیلی کو روکنے کے لیے یہ ریاست ایک مضبوط عسکری قوت اور امریکا کے لیے ایک قابلِ اعتبار اتحادی ثابت ہوئی اور یوں دو طرفہ تعلقات مضبوط سے مضبوط ہوتے چلے گئے۔ لیکن پھر ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء آ گیا۔
آگے کیا ہوگا؟ کون جانتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جہاں فرشتوں کے بھی پَر جلتے ہوں وہاں بے وقوف بے دھڑک قدم رکھ دیتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے قیام اور پاکستان کی تقسیم میں بنیادی کردار ادا کرنے والے گروہ کا نام ’عوامی لیگ‘ ہے۔ قیام پاکستان کے پونے دو سال بعد۲۳؍جونٍ۱۹۴۹ء کو مشرقی پاکستان میں، مسلم لیگ کے لیڈر عبدالحمید بھاشانی اور شیخ مجیب وغیرہ نے علیحدہ پارٹی بنائی، جس کا نام ’آل پاکستان عوامی مسلم لیگ‘ رکھا۔ مگر بہت جلد، مشرقی پاکستان کی سات فی صد ہندو آبادی کو اپنی جانب مائل کرنے، یا پھر ہندو مقتدرہ کے زیر اثر پارٹی چلانے کے لیے ۱۹۵۳ء میں ’آل پاکستان‘ اور ’مسلم‘ کا لفظ اڑا کر اسے '’عوامی لیگ‘ بنا دیاگیا۔ اس پس منظر سے عوامی لیگ کی تشکیل میں مضمر ایک بنیاد واضح ہوتی ہے۔
عوامی لیگ نے اپنے قیام کے ساتھ ہی مغربی پاکستان کے خلاف مبالغہ آمیز پراپیگنڈے اور مسلم قومیت جو پاکستان کی بنیاد تھی، اس کی نفی پر زور دینا شروع کیا۔ اس مقصد کے لیے جھوٹ، اتہام ’غیربنگالی سے نفرت‘ اور تشدد کو اپنی پالیسی کا بنیادی پتھر قرار دیا (فاطمہ جناح کی حمایت کا ایک مرحلہ اور آخری مرحلے میں ۱۹۵۶ءکے دستور کی حمایت عوامی لیگ کے دو مثبت حوالے ہیں)۔
مارچ ۱۹۶۹ء میں جنرل یحییٰ خان کے ہاتھوں مارشل لا لگنے سے پہلے عوامی لیگ کا فسطائی رنگ، مشرقی پاکستان میں پوری طرح اپنا نقش جما چکا تھا۔ اس دوران ’اگر تلہ سازش کیس‘ جو براہِ راست بھارتی مداخلت اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے تعاون سے پاکستان توڑنے، مختلف تنصیبات پر قبضہ جمانے اور اہم حکومتی شخصیتوں کو قتل کر کے علیحدگی کے منصو بے کو عملی جامہ پہنانے پر مشتمل تھا۔ اس مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت پر عوامی لیگ اور اس کی طلبہ تنظیم ’چھاترو لیگ‘ (اسٹوڈنٹس لیگ) نے حملہ کر کے عدالتی مقام کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور ججوں نے بڑی مشکل سے جان بچائی۔ ایک مدت تک عوامی لیگ اور پاکستانی لیفٹ کی طرف سے اس سازش کے وجود کا انکار کیا جاتا رہا، لیکن ۲۲فروری ۲۰۱۱ء کو سازش کے ایک اہم کردار کیپٹن شوکت علی (ڈپٹی اسپیکر بنگلہ دیش پارلیمنٹ) نے اسمبلی کے فلور پر برملا اعتراف کیا کہ یہ منصوبہ سچ تھا، بلکہ ہم نے تو ۱۹۶۳ء ہی سے ’اگرتلہ‘ میں بھارت سے ساز باز شروع کر رکھی تھی۔ اگست ۱۹۶۹ء میں ڈھاکا یونی ورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ ڈھاکہ کے ناظم محمد عبدالمالک کو لوہے کے سریے مار مار کر شہید کر دیا گیا۔ ۱۹۷۰ء کے پورے سال میں کسی بھی مدمقابل پارٹی کو انتخابی مہم تک نہیں چلا نے دی گئی۔ انتخابی عملہ اپنی مرضی سے تعینات کرایا اور نتائج اپنی مرضی کے مطابق مرتب کیے، جنھیں عوامی لیگ کی ’زبردست جیت‘ قرار دیا جاتا ہے۔
۱۹۷۱ء شروع ہوا تو بھٹو، مجیب اور جنرل یحییٰ کے درمیان تناؤ کی فضا پیدا ہوئی۔ انجام کار یکم مارچ سے لے کر۲۵؍مارچ۱۹۷۱ء تک عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کے طول و عرض میں غیربنگالیوں کا قتل عام کیا، لُوٹ مار کی، عورتوں کی عصمت دری کی اور محب وطن بنگالی پاکستانیوں کو چُن چن کر مارنا شروع کیا۔ جس پر مارچ، اپریل ۱۹۷۱ء میں دنیا بھر کے اخبارات نے رپورٹنگ کی اور حقائق کے شائع کیے۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ نہ بنگلہ دیش میں، نہ انڈیا میں اور حد تو یہ ہے کہ خود پاکستان میں اس نسل کشی (Genocide) کا تذکرہ تک نہیں کیا جاتا اور تواریخ کی درسی کتب کو اس وحشیانہ جنون اور قاتلانہ شیطنت سے خالی رکھا گیا ہے۔ معلوم نہیں کون سا دستِ شرانگیز ہے، جس نے نصابوں اور اخباری صفحات کو ان دردناک تفصیلات سے دُور رکھا ہے۔
۱۶دسمبر۱۹۷۱ء کو انڈین فوج کے تعاون سے مشرقی پاکستان الگ کر کے بنگلہ دیش بنا لیا گیا۔ جس میں پاکستانی حاکم طبقوں کی غلط پالیسیوں کا ایک اہم حصہ تھا۔ لیکن مرکزی کردار بہرحال دشمن سے ساز باز کر نے والی عوامی لیگ ہی تھی۔ مراد یہ ہے کہ اپنے جائز حقوق کےلیے جدو جہد ایک جائز جمہوری عمل ہے، لیکن جھوٹ، نفرت، نسل کشی، فسطائیت اور دشمن سے ساز باز کو سیاسی جدوجہد نہیں کہا جاسکتا۔
مجیب نے اقتدار سنبھال کر ’مکتی باہنی‘ کے لوگوں کے لیے ملازمتیں محفوظ کرنے کی خاطر مخصوص کوٹا رکھا۔ ایسے مستحقین کا فیصلہ عوامی لیگ پارٹی ہی کرتی، نہ کہ کوئی غیر جانب دار اتھارٹی۔ مجیب نے ۱۹۷۲ء میں ڈھا کہ پہنچتے ہی پارٹی کا مسلح مافيا ’جاتیا راکھی باہنی‘ (JRB) کے نام سے قائم کیا، جو مجیب کی زندگی تک سیاسی مخالفین کے لیے تشدد اور دہشت کی علامت بنا رہا۔ (اس کے بارے میں معروف صحافی انتھونی مسکرہینس نے اپنی کتاب Bangladesh: A Legacy of Blood میں اسے ’’ہٹلر کی خاکی وردی والے غنڈوں کی طرح کا ایک ریاستی گینگ قرار دیا‘‘۔ہوڈر اینڈ سٹوگٹس، لندن، ۱۹۸۶ء، ص ۳۷)
اس نوعیت کے اقدامات سے لوگوں میں ردعمل پیدا ہونا شروع ہوا۔ آگے چلیں تو شیخ مجیب کے خون میں رچے فسطائی جذبے نے، ۲۴جنوری ۱۹۷۵ء د کو بنگلہ دیش میں ’بکسل‘(BKSAL) یعنی ’بنگلہ دیش کرشک سرامک عوامی لیگ‘ (بنگلہ دیش مزدورکسان عوامی لیگ) کی بنیاد رکھی، اور اس کے مقابلے میں ملک سے باقی تمام سیاسی پارٹیوں کو کالعدم قراردے دیا۔ پھر اسی سال ۱۵؍اگست کو بغاوت ہوئی، جس میں فوج کے نوجوان افسروں نے مجیب کے گھر پر حملہ کرکے اسے قتل کر دیا۔
۲۲جنوری ۲۰۰۶ء کو وزیراعظم خالدہ ضیاء (بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی: BNP )نے ملک میں عام الیکشن کرانے کا اعلان کیا، مگر شیخ مجیب کی بیٹی اور عوامی لیگی لیڈر حسینہ واجدنے ہنگامہ کھڑا کرکے ۱۱جنوری ۲۰۰۶ء کو انتخابی عمل پٹڑی سے اُتار دیا، یہی وہ موڑ ہے جہاں سے فساد کا آغاز ہوا۔ پھر اُس وقت بنگلہ دیش آرمی کے چیف جنرل معین الدین احمد کی سرپرستی میں ٹیکنوکریٹ کی ایسی حکومت بنی کہ اُس نے دسمبر ۲۰۰۸ء کے الیکشن میں عوامی لیگ کو کامیاب کرا دیا۔
جنوری ۲۰۰۹ء میں عوامی لیگ ایک خونیں رنگ و رُوپ کے ساتھ میدان میں اُتری، مگر جلد ہی ۲۵ اور ۲۶ فروری ۲۰۰۹ء کی رات ’بنگلہ دیش رائفلز‘ (BDR) کے جوانوں نے ہیڈکوارٹر پُل خانہ میں بغاوت کرکے بی ڈی آر کے ڈائریکٹر جنرل احمد سمیت ۵۷؍افسروں اور ۱۶ سویلین شہریوں کو قتل کردیا۔ یہاں پر ’مجیب اندرا گٹھ جوڑ‘ کی طرح ’حسینہ ، من موہن سنگھ گٹھ جوڑ‘ کا آغاز ہوا۔ پروفیسر ایویناش پلوال نے اپنی کتاب India`s Near East: A New History (۲۰۲۳ء) میں تفصیل بتائی ہے کہ حسینہ واجد نے پرنام مکھرجی کے ذریعے نئی دہلی حکومت کو پیغام بھیجا: ’جان بچائو‘ (SOS)۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی ہدایت پر انڈین آرمی پیراشوٹ رجمنٹ بٹالین کے میجر کمل دیپ سنگھ سندھو نے حکم ملنے پر ۲۶فروری کی شام تیاری شروع کی اور ڈھائی گھنٹے بعد ایک ہزار چھاتہ برداروں کے ساتھ ڈھاکہ اُترنے کے لیے تیار ہوگئے۔ بھارتی کمانڈوز نے ۲۷فروری کو بنگلہ دیش میں براہِ راست مداخلت شروع کی اور چار روز میں ناراض فوجیوں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ وہ دن اور آج کا دن، بنگلہ دیش آرمی اور اس کی مسلح معاون رجمنٹیں، انڈین فوج کی براہِ راست اور تابع مہمل اکائیاں ہیں، بلکہ حسینہ واجد نے یہ طے کرایا ہے کہ بنگلہ دیشی فوج کا سربراہ، انڈین فوج کے مشورے سے مقرر کیا جائے گا۔
حسینہ واجد نے ۲۰۰۹ء سے ۲۰۲۴ء کے دوران میں جو حکمرانی کی ہے، اس میں اپنے اقتدار کی مضبوطی، مدمقابل قوتوں سے انتقام، اپنی پارٹی مافیا کے استحکام اور انڈیا کے تابع نظامِ حکومت کو وسعت دینا شامل رہا ہے۔ اس دوران نام نہاد انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل (ICT) کے ذریعے جماعت اسلامی کے چوٹی کے رہنمائوں کو پھانسیاں دی گئی ہیں۔ جماعت اسلامی کو الیکشن لڑنے سے نااہل قرار دیا اور مولانا مودودی کی کتب کی اشاعت پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
اگرچہ ۲۰۱۸ء میں بھی کوٹہ سسٹم ، جو کہ عوامی لیگی کارکنوں کو نوازنے کا ایک شرمناک بہانہ تھا، اس کے خلاف مظاہرے ہوئے، مگر ان کو دبا دیا گیا۔ پھر عوامی لیگ نے اپنے فعال کارکنوں پر مشتمل ہائی کورٹ ججوں کے ذریعے کوٹہ سسٹم میں ۳۰ فی صد استحقاق کو محفوظ بنایا، تو نئی نسل میں بے چینی پھیلنا شروع ہوئی۔
یہ تقسیم اس طرح ہے کہ ۳۰ فی صد مکتی باہنی کے لوگوں کے پوتوں دوہتوں کا حق، ۱۰فی صد عورتوں کا، ۱۰ فی صد غیرترقی یافتہ علاقوں کا، ۵ فی صد قبائل کا اور ایک فی صد معذوروں کا حق ہے۔ اس طرح عوامی لیگ کے من پسندوں کو چھوڑ کر، پورے بنگلہ دیش کے نوجوانوں کے لیے ۴۴ فی صد حصہ رہ جاتا ہے، جو اپنی جگہ انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہے، کہ وہ جسے چاہے رکھیں۔
جولائی ۲۰۲۴ء میں مضطرب طلبہ و طالبات نے ڈھاکہ یونی ورسٹی میں احتجاج کیا تو ۱۳جولائی کی سہ پہر حسینہ واجد نے طنز کرتے ہوئے کہا: ’’کوٹے کی مخالفت کرنے والے غدار ہیں، یہ پاکستان کے ایجنٹ ہیں، اور رضاکار ہیں‘‘۔ یاد رہے ۵۴ سالہ تاریخ میں بنگلہ دیش نے اپنے ہاں لفظ ’رضاکار‘ کو: تعلیم، صحافت، تاریخ اور سیاست کے میدان میں گالی بنادیا ہے۔ جیسے ہی حسینہ واجد نے یہ جملہ کہا تو طلبہ و طالبات نے اس ’گالی‘ کو اپنے لیے اعزاز سمجھ کر اپنا لیا اور ڈھاکا یونی ورسٹی کے درودیوار گونجنے لگے: ’تو کون، میں کون___ رضاکار، رضاکار۔ اس پر حکومت نے جھنجلاہٹ میں کہا: ’’یہ نعرے لگانے والے غدار ہیں، جماعت اسلامی کے ایجنٹ ہیں، ان کو سبق سکھانے کے لیے عوامی لیگ کے کارکن اور ہماری طلبہ تنظیم چھاترو لیگ ہی کافی ہے‘‘۔ یہ بیان وزیرقانون، وزیرداخلہ اور وزیر اطلاعات نے تکرار کے ساتھ دُہرایا۔ ساتھ ہی عوامی لیگی مسلح کارکنوں کو کھلی چھٹی دے دی کہ وہ طلبہ و طالبات پر حملے کریں، ان کے سامان کو لوٹیں، کمروں کو آگ لگائیں، ہڈیاں توڑیں یا قتل کریں۔ یوں صرف دو دن میں پورا بنگلہ دیش ایک دہکتا ہوا الائو بن گیا۔
اسلامی جمعیت طلبہ جو اس تحریک میں حصہ لینے والا ایک حامی اور مددگار کردار ہے، اس کے تین ہزار سے زائد کارکنوں کو صرف پہلے دو روز میں گرفتار کرلیا گیا۔ پولیس تماشائی بن کر عوامی لیگیوں کی سرپرستی کے لیے ساتھ ساتھ چلتی رہی، اور عوام میں غصہ بڑھتا گیا، طلبہ و طالبات کٹ کٹ کر سڑکوں پر گرتے رہے۔ پھر جب بہتے خون کا دریا بلند ہوا تو حسینہ واجد نے جمعہ ۱۹جولائی کی رات پورے بنگلہ دیش میں فوج طلب کرکے کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کردیا، اخبارات کی اشاعت پر پابندیاں عائد کردیں، انٹرنیٹ کی سروس معطل اور سڑک پر آتے ہی مظاہرین کو گولی مار دینے کا حکم دے دیا۔ اس سب کے باوجود ہنگامے تھمنے میں نہیں آرہے۔
۲۴ جولائی کو طلبہ تحریک کے لیڈروں نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا، جو وی پی این کے ذریعے دُنیا میں پھیل گیا: ’’حسینہ واجد نے چھاترو لیگ (اسٹوڈنٹس لیگ) کے نام سے دہشت گرد پیدا کیے ہیں۔ اس نے ووٹ کی عزّت پامال کی ہے۔ اس نے جمہوریت کو برباد کیا ہے۔اس نے عدالتی نظام کو کچل کر رکھ دیا ہے۔ اس نے پولیس میں عوامی لیگی غنڈوں کو بھرتی کرکے عوامی لیگ پارٹی کو ذاتی مافیا کا درجہ دے رکھا ہے۔ اس نے بنگلہ دیش رجمنٹ کے ذہین ترین افسروں کو گولیوں سے اُڑا دیا ہے۔ اس نے میرٹ کے نام پر پارٹی بدمعاشوں کو بھرتی کرنے کا ایک مربوط نظام قائم کیا ہے، جس کے جال کو توڑنا عام آدمی کے لیے ممکن نہیں رہا۔ اس نے ملک کا اقتداراعلیٰ، انڈین حکومت اور انڈین فوج کے ہاتھوں بیچ دیا ہے۔ ہم ایسی حکومت اور ایسی پارٹی کے اقتدار کو مسترد کرتے ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق ڈیڑھ ہزار سے زیادہ طلبہ و طالبات اور شہری شہید ہوچکے ہیں۔ ۲۵ہزار سے زیادہ مہلک زخموں سے چور موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا ہیں۔ ۶۱ہزار سے زیادہ طلبہ و طالبات اور شہری گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ ہم عالمی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ نہتے بنگلہ دیشی طلبہ و طالبات کو بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں‘‘۔
’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ (AI)نے اپنے بیان میں کہا ہے: ’’ہم نے فوٹوگرافی، ویڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے اور دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ یہ معلومات جمع کی ہیں کہ بنگلہ دیشی سیکورٹی فورسز نے طلبہ و طالبات مظاہرین کے خلاف غیرقانونی اور بدترین طاقت استعمال کی ہے۔ ان نہتوں پر براہِ راست گولیاں چلائی گئی ہیں۔ بند جگہوں میں مظاہرین کو دھکیل کر خطرناک اور جان لیوا آنسو گیس کا استعمال کیا گیا ہے، اس طرح دم گھٹنے سے بہت سے لوگوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ ’اے کے پٹرن اسالٹ رائفلز‘ جیسے مہلک آتشیں اسلحے کا بے لگام اور اندھا دھند استعمال کیا گیا ہے۔ ہم فوری طور پر غیرجانب دار انہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں اور ہلاک شدگان کی درست معلومات فراہم کرنے پر زو ر دیتے ہیں‘‘۔ ۲۳جولائی کو ’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW) نے الزام عائد کیا: ’’بنگلہ دیش کی جیلیں اور حوالات سیاسی قیدیوں سے بُری طرح ٹھونسی ہوئی ہیں‘‘۔
۲۵جولائی کو ایک اور بھیانک واقعہ یہ ہوا کہ طلبہ مظاہروں کو دبانے کے لیے حکومت نے بنگلہ دیش میں اقوام متحدہ کے نشان والی بکتربند گاڑیوں اور ہیلی کاپٹروں کو استعمال کیا ۔ جس پر مختلف ممالک کے سفیروں نے عوامی لیگی حکومت پر سخت سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ معلوم ہونا چاہیے، اس وقت اقوام متحدہ کے ’امن مشن‘ پروگرام میں بنگلہ دیش آرمی، بنگلہ دیش پولیس، بنگلہ دیش بارڈر گارڈ (BBG) اور ’ریپڈ ایکشن بٹالین‘ (RAB) سستے کرائے کے فوجیوں کی مانند خدمات انجام دے رہے ہیں کہ ان کے پاس کرنے کا کوئی کام نہیں (کیونکہ ’دفاعی ذمہ داری‘ تو انڈین آرمی اپنے ہاتھوں میں لے چکی ہے، یا یہ ذمہ داری اسے دی جاچکی ہے)۔ اس لیے ان بنگلہ دیشی فورسز کا اقوام متحدہ کی گاڑیوں اور ہوائی مشینوں کے نشانات کے پردے میں طلبہ کے خلاف استعمال کرنا، دُنیا بھر میں زیربحث ہے۔
بظاہر امن کی فضا بحال ہوتی نظر نہیں آرہی۔ ان حالات میں انڈیا کی کوشش ہے کہ حسینہ واجد کی صورت میں بدنما حکومت سے جو کام لینا تھا وہ لے لیا اور اب اگر اس سے چھٹکارا پانا ضروری ہو تو اسے چلتا کیا جائے۔ جنرل معین الدین احمد کی طرح موجودہ بنگلہ دیش آرمی چیف جنرل وقارالزماں سے مدد لے کر عوام کی توجہ تقسیم کی جائے(یاد رہے جنرل وقار،حسینہ واجد کے قریبی عزیز اور بھروسے کے آدمی ہیں)۔ لیکن عوام نہ تو انڈیا کا نام سننا چاہتے ہیں اور نہ انڈیا سے منسلک کسی نسبت پہ اعتبار کرنے کو تیار ہیں۔ دوسری طرف انڈیا کے اخبارات اور آر ایس ایس کے سوشل میڈیا پر متحرک گروپ یہ کہہ رہے ہیں: ’’حسینہ واجد کی اقتدار سے بے دخلی، انڈین مفادات کی بربادی ہے۔ اگر یہ حکومت گئی تو جماعت اسلامی اسلامی نظام لانے کے لیے آگے بڑھے گی۔ پھر دوسری طرف خالدہ ضیاء کی بی این پی اور جماعت اسلامی نے پورے بنگلہ دیش میں مہم چلا رکھی ہے کہ مارکیٹ میں انڈیا کے ہرمال کا بائیکاٹ کیا جائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جماعت کے لوگوں کو دبایا،پکڑا یا مارا جائے‘‘___ دُنیا بھر کے امن پسند شہری ظلم کی اس یلغار پر نوحہ کناں ہیں۔
سوال : بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب ہم کسی کام میں جماعت اسلامی کے ساتھ تعاون کرتے ہیں تو اس کا سارا کریڈٹ جماعت اسلامی کو ملتا ہے۔ جماعت کو چاہیے کہ وہ دوسرے لوگوں کو بھی مطمئن رکھے؟
جواب :اگرکوئی شخص دین کا کام کرتا ہے اور خدا کی رضا کے حصول کے لیے کرتا ہے، تو اس کا ایسے سوالات اُٹھانا غلط ہے۔ نیکی، اللہ سے اجر پانے کی اُمید پر کرنی چاہیے نہ کہ کسی کریڈٹ کے لیے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی کوئی کام دُنیاوی اغراض کے لیے نہیں بلکہ اپنا دینی فریضہ سمجھ کے کرتی ہے۔جماعت کے ساتھ تعاون کے سلسلے میں اگر کوئی شخص کریڈٹ کا سوال اُٹھاتا ہے تو وہ گویا ہماری پوزیشن یہ بناتا ہے کہ ایک فریق تو کریڈٹ دینے والا ہے اور دوسرا کریڈٹ پانے والا۔ حالانکہ جماعت ہرگز اس بات کی مدعی نہیں ہے کہ اس کے کسی کو کریڈٹ دینے سے اسے کریڈٹ حاصل ہوگا اور نہ دینے سے نہیں ہوگا۔
مزیدبرآں اگر کوئی شخص کسی دینی فریضے کی ادائیگی میں ملک کی کسی دوسری تنظیم کے ساتھ تعاون کرتا ہے، تو اسے بجا طور پر یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کا اجر خدا کے ہاں محفوظ ہے۔ یہ خدا ہی ہے جو جانتا ہے کہ کون یہاں کس نیت سے کام کر رہا ہے اور وہی صحیح اجر دینے والا ہے۔ (آئین، ۲۹مئی ۱۹۷۰ء)
وہی ہے جو آسمان سے تمھارے لیے رزق نازل کرتا ہے۔
’رزق‘ سے مراد یہاں بارش ہے، کیونکہ انسان کو جتنی اقسام کے رزق بھی دُنیا میں ملتے ہیں، اُن سب کا مدار آخرکار بارش پر ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی بے شمار نشانیوں میں سے تنہا اس ایک نشانی کو پیش کرکے لوگوں کو توجہ دلاتا ہے کہ صرف اسی ایک چیز کے انتظام پر تم غور کرو تو تمھاری سمجھ میں آجائے کہ نظامِ کائنات کے متعلق جو تصور تم کو قرآن میں دیا جارہا ہے، وہی حقیقت ہے۔
یہ انتظام صرف اسی صورت میں قائم ہوسکتا تھا، جب کہ زمین اور اس کی مخلوقات اور پانی اور ہوا اور سورج اور حرارت و بُرودت سب کا خالق ایک ہی خدا ہو۔ اور یہ انتظام صرف اسی صورت میں لاکھوں کروڑوں برس تک پیہم ایک باقاعدگی سے چل سکتا ہے، جب کہ وہی اَزلی و ابدی خدا اس کو جاری رکھے اور اس انتظام کو قائم کرنے والا لازماً ایک حکیم و رحیم پروردگار ہی ہوسکتا ہے، جس نے زمین میں انسان اور حیوانات اور نباتات کو جب پیدا کیا تو ٹھیک ٹھیک ان کی ضروریات کے مطابق پانی بھی بنایا، اور پھر اس پانی کو باقاعدگی کے ساتھ روئے زمین پر پہنچانے اور پھیلانے کے لیے یہ حیرت انگیز انتظامات کیے۔
اب اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوسکتا ہے، جو یہ سب کچھ دیکھ کر بھی خدا کا انکار کرے، یا اُس کے ساتھ کچھ دوسری ہستیوں کو بھی خدائی کا شریک ٹھیرائے۔ (’تفہیم القرآن ‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۱، عدد۶، اگست ۱۹۶۴ء، ص۲۱-۲۲)
اُمت مسلمہ تاریخ کے ایک نازک دور سے گزر رہی ہے۔ اس ماحول میں استعماری قوتیں اور مسلم دُنیا کے غاصب طبقے، مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے مستقبل کی صورت گری کا اختیار اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے لیے شعوری طور پر وہ سیاسی، فکری، معاشی، تعلیمی، عسکری، ابلاغی، ثقافتی اور سفارتی قوتیں بروئے کار لارہے ہیں۔ ان قوتوں کے نزدیک مسلمانوں کی عمومی، مذہبی اور رواجی زندگی کو تو کسی حد تک برداشت بھی کیا جاسکتاہے، لیکن کسی مسلمان کی جانب سے اسلامی تہذیب اور اسلامی نظامِ زندگی کی جانب ایک قدم بڑھانا بھی ناقابلِ برداشت ہے۔ اس فسطائی سوچ کی علَم بردار یہ قوتیں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی اور وحشیانہ جارحیت سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ گذشتہ دو صدیاں خاص طور پر اس رویے کا قدم قدم پر ثبوت پیش کرتی ہیں۔ دوسری طرف مسلم اُمہ بہت سے انتظامی، اداراتی اور اخلاقی تضادات اور فکری انتشار کی شکار چلی آرہی ہے، پھر اخلاص، وفاداری اور احساسِ ذمہ داری کا بحران اس پر حاوی ہے۔ اس کش مکش میں سوال یہ اُبھرتا ہے:
اس سوال کے جواب میں اہل علم کی تحریریں آئندہ صفحات میں پیش کی جارہی ہیں،جب کہ ستمبر کے شمارے میں:l مفتی منیب الرحمانl مختار شنقیطی l ڈاکٹر اسعدزماں l سیّدامین الحسن lبازغہ تبسم lطارق جانlعبدالملک مجاہد l عبداللہ احسن lمبشرہ فردوس اور دیگر حضرات کے مضامین شائع ہوں گے۔ یہ جوابات اور تجزیے، مختلف پہلو اور مختلف نقطہ ہائے نظر پیش کرتے ہیں، جن میں بعض نکات سے ادارہ ترجمان کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔ تاہم، اس طرح قارئین گوناگوں افکار و خیالات سے مستفید ہوکر بہتر نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں۔(ادارہ)