یہ سوال کہ عصر ِحاضر میں ایک جانب مسلم اکثریتی ملکوں میں اور دوسری طرف مسلم اقلیتی ممالک میں، اسلامی احیاء کے لیے کیا فکری اور عملی اقدامات کیے جانے چاہییں؟ایک بڑا وسیع موضوع ہے جس کے دوحصے ہیں :
مغربی ممالک میں رہنے والی مسلم اقلیت اپنی کیمونٹی کی حدتک توہاتھ پاؤں مارسکتی ہے، اُس سے آگے وہ کچھ نہیں کرسکتی۔ یعنی ان ممالک کے قوانین کے آگے وہ بے دست و پا ہے بلکہ اپنی اولاد تک کے بارے میں فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہے، ایسے میں اسلامی احیاء کی بات تو بہت دُور کی کوڑی ہے۔ اگر وہاں کوئی مسلمان بڑے سیاسی یا انتظامی عہدے پر پہنچ جائے تب بھی وہ کچھ نہیں کرسکتا کیو نکہ وہ سسٹم کے آگے بے بس ہے۔ ان کے آقا ان سے زیادہ بیدار مغز اور ہوشیار ہیں۔ مغرب میں کتنے ہی مسلمان ہیں جو بہت کام کررہے ہیں، لیکن کسی ایسی ’تبدیلی‘ کہ جس کے ڈانڈے ’مسلم احیاء‘ سے ملتے ہوں، وہ اُس کے نہ محرک ہیں اور نہ بن سکتے ہیں۔ ان کے آگے سب سے بڑی رکاوٹ وہ نظام (System) ہے، جو نہ صرف یہ کہ سوچ سمجھ کر بنا یا گیا ہے بلکہ سامراجی مفاداتی سوچ اس کی نگرانی اور رکھوالی بھی کرتی ہے۔
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
جن مسلم ممالک میں ’تھیوکریسی‘ ہے، مثال ایران، تو وہ بھی غلامی ہی کی ایک قسم ہے۔ جو معاشرے جمہوری روایات کے حامل ہیں، وہ ’عالمی غلامی‘ کے اسیر ہیں۔جن کے لیے ’اسلام‘سب سے بڑا خطرہ ہے اور عوامی ووٹ سے آئی ہوئی منتخب جمہوری حکومتوں کو بھی وہ چٹکی میں اڑا کررکھ دیتے ہیں، جس کی مثالیں مصر میں محمد مرسی کی حکومت کا تختہ اُلٹنا اور غزہ میں حماس کی حکومت کا خاتمہ کرنا ہے۔ایسی مثالوں کی کمی نہیں۔ گویاایک بات طے ہوئی کہ مسلم اقلیتی معاشرے ہوں یا مسلم اکثریتی ممالک، بنیادی مسئلہ’غلامی‘ ہے۔ کہیں مقامی سیاسی نظام کی جکڑبندی ہے، کہیں مذہبی طبقے کی گرفت ہے اورکہیں عالمی سامراجی نظام کی۔
آزادی ایک ایسی بنیاد ہے، جس پر قوموں کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔ یہ بنیاد جتنی مستحکم ہوگی ،اتنی ہی مضبو ط اور عظیم عمارت تعمیر ہوگی ۔آزاد قوموں میں ہی مذہب کا پیغام پھیلتا ہے (جیسے جزیرہ نمائے عرب میں پھیلا تھا) ،نظریات وافکار کو فروغ حاصل ہوتا ہے، تہذیب وتمدن اور ادب وثقافت پروان چڑھتے ہیں۔ بصیرت ،صرف آزاد لوگوں کا حصہ ہے،صرف آزاد قومیں ہی بصیرت کا دعویٰ کرسکتی ہیں۔ گویا احیاء کے لیے پہلا قدم، طوقِ غلامی سے آزادی ہے۔
مختلف پہچان کے حامل مسلم معاشروں میں ایک ہی قدر مشترک ہے، ایک ہی بائنڈنگ فورس (binding force) ہے اور وہ اسلام ہے۔ اسلام بین الاقوامی سطح کی ایک قابلِ لحاظ قوت ہے، لیکن سوال یہ اُٹھایا جاتا ہے کہ ’کون سا اسلام؟‘مسلمانوںکے اندر کی فرقہ بندی اور مسلک گردی نے ’اسلام ‘ کو بھی تقسیم کردیا ہے۔ اسلام کے معاشرتی ،اقتصادی اورسیاسی تصورات کے سلسلے میں مسلم دانش وروںمیں نہ صرف اختلاف ہے بلکہ بعض اوقات متصادم اور متضاد افکار وآراء بھی سامنے آتی ہیں۔لہٰذا ،احیاء کی بات کرنے والوں کو اتحاد ِامت کی تلقین کرنی ہوگی اور اتحادِ امت کے لیے مسلک گردی سے اُوپر اٹھنا ہوگا۔
بدقسمتی سے پاکستان میں مذہب کے نام پر تشدد کی مثالیں دیکھ کر اب لوگ یہ کہنے لگے ہیں کہ کیا مذہبی اتھارٹی، بے دھڑک لوگوں کو مارنے اور جلانے کی اجازت دیتی ہے؟ ایسی مذہبی بدحواسی پر قابوپانے کی بہت ضرورت ہے۔ جن معاشروں کو اخلاقیات کی ابجد پڑھانے کی ضرورت ہو، ان بانجھ معاشروں سے احیائے اسلام کی تحریکیں نہیں اٹھتیں۔ایسے معاشروں کو ساتھ ہی ساتھ اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔
اگر ہم ماضی پر نظر ڈالیں توا نیسویں اور بیسویں صدی میں کئی نظریہ ساز شخصیات اور کئی احیائی تحریکیں نظر آتی ہیں، جنھوں نے ایک طرف اسلام کے احیاء کی کوشش کی، اور دوسری طرف یہ دعویٰ بھی پیش کیا کہ ’’اسلام جدید دور میں سامنے آنے والے مسائل کا دوسرے نظاموں کے مقابلے میں بہتر اور قابلِ عمل حل پیش کرتا ہے‘‘۔مطلب یہ کہ تجدید واحیائے دین کی کوششیں کبھی سرد نہیں پڑیں۔ شاید اس قرآنی حکم کی وجہ سے کہ تمھارے اندر ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے، جو نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے ۔ (اٰل عمرٰن ۳: ۱۰۴)
لہٰذا، عصر جدید میں احیائے اسلام کے حوالے سے کئی نام ہمارے سامنے آتے ہیں: سید جمال الدین افغانی (م:۱۸۹۷ء)،شیخ محمد عبدہٗ(م:۱۹۰۵ء)،علامہ محمد اقبال (م:۱۹۳۸ء)، حسن البناء (م:۱۹۴۹ء)، علی شریعتی (م:۱۹۷۷ء)اور مولانا مودودی (م:۱۹۷۹ء) وغیرہ۔ ان سارے لوگوں کا تعلق اُ س دور سے ہے، جب ان کے ملکوں پر مغربی استعماریت کا غلبہ تھا اور وہ اپنے لوگوں میں اس غلامی سے آزادی کی جوت جگانے میں کامیاب رہے تھے۔ احیائے اسلام کا حقیقی مقصد یہی ہے کہ جبر واستبداد اور استعماریت پر مبنی نظام کی جڑوں پرضربِ کاری لگائی جائے اور فرسودہ رسوم وروایات (جن کااسلام سے کوئی واسطہ نہیں) ختم کردی جائیں۔ پھر صنعتی انقلاب کے دورِ مابعد (Post Industrial Revolution Era) کے اخلاقی، سماجی اور معاشی مسائل کا بہتر سے بہتر حل سامنے لایا جاسکے۔ حالات ساتھ دیں تو اسلامی ریاست کے قیام کی بھی جدوجہد کی جائے۔ بنیادی مقصد اسلام کی محض نظری خوبیاں اُجاگر کرنا نہیں ہے۔اصل مقصد لوگوں کو عمل اور حرکت پر آمادہ کرنا ہے۔ یہی اسلام کی خوبی ہے۔
کم وبیش ایک ڈیڑھ صدی سے ہمار امسئلہ جموداور تعطل ہے۔ یہ جمود اور تعطل فکری بھی ہے اور عملی بھی۔پوری امت، آپ سے آپ رُونما ہونے والے کسی غیرمعمولی کرشمے کے انتظار میں بیٹھی ہے۔ کسی ایسے مردِ حُر یا کسی مہدی کی منتظر ہے جو آئے اوران کے دلدّر دور کردے، لیکن خود انھیں کچھ نہ کرنا پڑے۔
تاریخ کے ہر دور میںمسلمانوں کو کوئی نہ کوئی ایسی شخصیت نظر آتی رہی ہے، جو اُمتِ مسلمہ کی عظمت ِرفتہ بحال کرسکتی تھی یا اُس کے بارے ایسا گمان کیا جاسکتا ہے کہ وہ امت کو قعرِمذلّت سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ عالم اسلام اُس کے گرد توقعات کا پہاڑ کھڑا کرلیتا تھا۔ کبھی انھیں مہدی سوڈانی کی شکل میں اپنی یہ آرزو پوری ہوتی نظرآئی تو کبھی جمال الدین افغانی کی صورت میں۔
مسلم معاشروں کی زبوں حالی کے اسباب کا کھوج لگایا جائے تو دو طبقے سب سے زیادہ ذمہ دار نظر آتے ہیں:
۱-حکمران طبقہ:حکمران خواہ بادشاہ ،فوجی جرنیل یا منتخب خاندانی نمائندے ہوں، ان کا بنیادی مقصد اپنے مفادات اور اقتدار کا تحفظ رہا ہے ۔زوال پذیر اسلامی اقدار، سماجی ا ور اقتصادی اصلاحات کو فروغ دینے میں یہ سبھی مجرمانہ غفلت برتنے کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ انھوں نے کرپشن سے ملک کا دیوالیہ نکالا۔سامراجی قوتوں پر انحصار کیا، تاکہ اپنے اقتدار کو دوام بخش سکیں۔
۲-طبقۂ علما:خصوصاً وہ علما جو اپنے فرائض چھوڑ کر حکومتوں کے آلہ کار بن گئے۔
امام غزالی (م: ۱۱۱۱ء) کے نزدیک عوام کی زبوں حالی کے ذمہ داریہی دو طبقے ہیں: ایک حکمران طبقہ اور دوسرا سرکاری علما ومشائخ کا گروہ۔ لیکن امام غزالی نے دُور اندیشی سے کام لے کر اپنے دور کے حکمران کے خلاف مسلح مزاحمت یا انقلاب کے پرچار سے اجتناب کیا، کہ کہیں اس کے نتیجے میں مزید بدامنی اور لاقانونیت کا لاوا نہ پھوٹ پڑے۔
امام غزالی نشاتِ ثانیہ کے لیے دو مرحلے تجویز کرتے ہیں: وہ پہلے مرحلے میں عوام میں دین کا شعور پید اکرنے پر زور دیتے ہیں، اور دوسرے مرحلے میں سیاسی اصلاحات نافذ کرنے کی تلقین کرتے ہیں___ ابتدائی مرحلے کی تکمیل کے بغیر دوسرے مرحلے میں قدم رکھنے کو وہ خطرناک قرار دیتے ہیں۔ امام غزالی سماجی اور سیاسی تبدیلیاں لانے کے لیے انقلابی راستہ اختیار کرنے کے مخالف ہیں۔تاہم، اختلاف کے برملا اظہار کو ضروری خیال کرتے ہیں۔اس کے برعکس دورِجدید کے مفکرینِ احیائے اسلام ،رائے عامہ کی بیداری کو انقلاب کی کامیابی کے لیے اوّلین شرط قرار دیتے ہیں اورجب ممکن ہو زورِ بازو سے سیاسی قوت کے حصول کو درست سمجھتے ہیں۔ وہ ہر حکمران کے لیے عوام کی جانب سے غیر مشروط اطاعت کے تصور کو اس بنا پر چیلنج کرتے ہیں کہ ماضی کے ظالم حکمران ’اولیٰ الامر کی اطاعت‘ کے اسلامی تصور سے ناجائز فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔
اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملّی تشخص کو مضبوط کیا جائے، تاکہ طاغوتی طاقتیں ایک ایک ملک کو شکار نہ کرسکیں۔ غزہ کی مثال سامنے ہے۔۲۳ لاکھ محصور مسلمان کٹتے مرتے رہے ہیں اور امت مسلمہ سوتی رہی ہے۔ اتحادِ امت کے بغیر معاملہ حل نہیں ہوگا۔ اُمت کو مختلف فرقوں ،طبقوں اور مسلکوں میں تقسیم تو خود مسلمانوں نے کیا ہے۔ آگے چل کر یہ تقسیم عالمی استعماری طاقتوں کے لیے مفید ثابت ہوئی ہے۔ لہٰذا وہ تقسیم کی ان لکیروں کو اور گہرا کرتے ہیں۔
دوسرا مسئلہ قوم پرستی(Nationalism) کا ہے۔ جب تک وطنیت کا دامِ فریب کارگر اور مؤثر ہے، اُس وقت تک ملّی حفظ وبقا کااحساس پیدا نہیں ہوسکتا۔ ملّی تشخص کو مضبوط کرنے کے لیے مسلم ملکوں کی برادری قائم کی جائے۔ ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کا تجربہ اس لیے ناکام رہا کہ بعض مسلم ممالک اپنی خاندانی بادشاہت بچانے کے لیے امریکی غلامی میںہیں، اور امریکا وہ استعماری قوت ہے جو امت مسلمہ کو تقسیم کرنے کا ہنر جانتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ:’’قوت کے بغیر مذہب محض ایک فلسفہ ہے ،قوت کے بغیر اسلامی نظریات کی حفاظت نہیں کی جاسکتی‘‘۔ سوال یہ ہے کہ قوت کیسے حاصل کی جائے؟ اہلِ مغرب نے مشینی ایجادات، معاشی ترقی اور بحری تجارتی راستوں پر غلبے کے بل بوتے پر کمزور ممالک کواپنا محکوم بنایا تھا۔ احیائے امت کے لیے مسلمانوں کو بھی انھی میدانوں میں آگے آنے کی ضرورت ہے۔
یہ تو طے ہے کہ ’قوت‘میں زندگی ہے اور کمزوری کا دوسر انام موت ہے۔مسلمانوں کو زندہ رہنا ہے تو ’قوت‘حاصل کرنی ہوگی۔ فکری، اخلاقی، سیاسی، معاشی ، اقتصادی، اور عسکری،ہر نوع کی قوت۔ یہ قوت اسی وقت حاصل ہوگی جب مسلمانوں کو عملی بنایا جائے۔فی زمانہ اقبال کے شاہین کی ضرورت ہے۔
ان مسائل پر قابو پانے ہی میں’احیائے اسلام‘ پوشیدہ ہے۔