کسی اِسلامی تحریک یا نظامِ جماعت کو چلانے کے لیے ذرا مختلف قسم کے اوصاف درکار ہیں۔ اس معاملے میں سرکارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت مقدسہ اور ان کے مسلکِ پاکیزہ کا مطالعہ اوّلین ضرورت ہے۔ بعد ازاں حضوؐر کی پیروی میں حضوؐر کے پروگرام کے مطابق اقامت ِ دین کا کام کرنے والوں کا جائزہ لینا مفید ہوسکتا ہے۔ اِس نقطۂ نظر سے جب مولانا مودودیؒ کے حُسنِ گفتار اور حسنِ کردار کو دیکھتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ شخص اپنے نبیؐ کی مشعل کو بلند کرنے اور اس کے گرد لوگوں کو جمع کرنے کے لیے خاص صلاحیتوں سے نوازا گیا تھا۔
وہ مرکز کے کارکنوں یا جماعت کے رفیقوں یا آنے والے مہمانوں سے ہمیشہ محبت و اعتماد کا معاملہ کرتے تھے۔ یہ کسی کو کبھی محسوس نہ ہوا کہ مولانا اس پر کوئی شک رکھتے ہیں، اس کو ناپسند کرتے ہیں، کسی اور کو ترجیح دے کر اسے محسوس کراتے ہیں کہ ہمارے پاس تو تم سے بہتر لوگ موجود ہیں اور تم بھی اگر اِن جیسا بننا چاہو تو ہماری پسند کی ترازو پر پورے اُترو۔
وہ ہر سوال یا اعتراض یا اختلاف پر تندوتیز بحث کرکے آدمی کو دبوچ نہیں لیتے تھے کہ اس کی جرأت ِ اظہار ہی کچل جائے۔ وہ کبھی اتھارٹی اور اختیار نہیں جتاتے تھے۔ وہ کسی سوال کا جواب یہ نہیں دیتے تھے کہ ’بس یہ ہمارا فیصلہ ہے‘۔ نہیں، وہ بار بار مختلف لوگوں سے مختلف طرز پر استدلال کرتے رہتے، اہلِ علم سے، اہلِ اخلاص سے، اختلاف کرنے والوں سے، دفتر کے کارکنوں سے، معترضین سے۔ اس طرح وہ دلیل کی قوت سے آہستہ آہستہ میدان فتح کرتے چلے جاتے۔ بات کرنے والے کی بات کو کبھی کاٹ کر نہ رکھ دیتے۔ یہ نہ محسوس کراتے کہ یہ ہم پہلے سے جانتے ہیں یا اس پر ہم پہلے بات کرچکے ہیں یا بیان دے چکے ہیں۔
کسی کو یہ بھی نہ کہتے کہ تم کسی سازش کا شکار ہو، تم پر کسی غلط قوت کا اثر ہے، بلکہ ان کا بنیادی طریقِ کار محبت سے تبادلۂ خیال کرنا ہوتا۔ پھر اگر کوئی شخص ساتھی بنتا تو وہ اس پر پورا اعتماد کرتے اور اس کو ایسی ذمہ داری یا ایسا مقام تفویض کرتے کہ وہ ہکّا بکّا نہیں، بلکہ کانپتا رہ جاتا اور درخواست کرتا کہ مجھ سے بہتر آدمی مل سکتے ہیں۔ وہ فرماتے کہ آپ یہ کام کریں تو سہی، شاید آپ ہی موزوں آدمی ثابت ہوں۔ چنانچہ مولانا مودودی کا اعتماد میرے جیسے چھوٹے چھوٹے آدمیوں کو بڑے بڑے کام کرنے کے قابل بنا دیتا۔
اُن کی بڑائی یہی تھی کہ جو اِن کے قریب ہوا، اُس کو انھوں نے احساس دلایا کہ ’تم ایک اہم آدمی ہو‘ اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ آہستہ آہستہ وہ آدمی بلند تر ہوتا چلا جاتا۔
مشاورتوں اور مجالسِ شوریٰ میں وہ نہ تو پہلے سے طے شدہ فیصلہ یا اسکیم یا منصوبہ لے کر آتے اور نہ جملہ ارکان سے الگ پہلے کسی گروپ کو کسی خاص امر کے لیے تیار کرتے، بلکہ صورت ِ حالات کا نقشہ سب سے سننے کے بعد کوئی ایک سوال سامنے رکھ دیتے۔ مثلاً انتخاب میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں اور پہلے سے اپنی طرف سے کوئی رجحان سامنے لائے بغیر تمام رفقا کو آزادانہ اظہارِ خیال کا موقع دیتے، یہاں تک کہ بات نتھر کر کسی ایک رُخ پر آجاتی۔ پھر وہ پھیلے ہوئے الفاظ اور خیالات کو سمیٹ کر سب سے یہ دریافت کرتے کہ کیا آپ کا نقطۂ نظر، یہ اور یہ ہے؟‘ اگر محسوس ہوتا کہ فیصلے کا مرحلہ نہیں آیا ، بلکہ اختلافی رجحانات موجود ہیں تو اجماع و اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے بحث کے خاص خاص پہلوؤں پر توجہ دلا دیتے کہ یہ اور یہ باتیں بھی زیرِ غور لاکر سوچیں۔ تاآنکہ دو تین دَور گفتگو کے چل کر کوئی ایسا فیصلہ طے پاتا ، جس پر پوری مجلس متفق الرائے ہوجاتی اور بالعموم کسی کے دل میں گھٹن نہ رہ جاتی کہ میری بات کو دبایا گیا ہے۔ اگر کسی فرد کو ایسی شکایت ہوتی تو ایک آدمی کے لیے ساری بات کے اجزا پھر سامنے لاتے۔
بہت ہی کم مواقع پر معمولی اقلیت کے استثنا کے ساتھ اکثریتی فیصلے بھی کرنے پڑے، مگر ایسے انداز میں کہ اختلافی اقلیت کو یہ محسوس نہیں ہوا کہ ہمارے خلاف کوئی خاص دباؤ ہے یا محاذ ہے۔ ایسے حضرات اپنی آراء کو ایک طرف رکھ کر بخوشی اکثریتی فیصلے کی علَم برداری میں تعاون کرتے۔
اسلامی نظام کی امارت اور اس کی تنظیم و تربیت کے بھاری کام کے لیے موجودہ دَور کے لحاظ سے بہترین نمونہ سیّد مودودیؒ نے نہ صرف عملاً پیش کیا بلکہ تحریری طور پر اپنے طریقِ کار کا ریکارڈ بھی چھوڑا اور عملی کردار کے گواہ بھی۔
مولانا کی صحت ِ قیادت اور ان کی روشن محبت و اعتماد کا راز یہ تھا کہ وہ تحریک کے کام کو اصلاً اقامت ِ دین کا کام اور اس کام کے ہر ضروری جز کو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ انھوں نے سیاست کو کاملاً تابع دین رکھا۔ دین سے آزاد سیاست، دین سے آزاد جمہوریت یا دین سے آزاد انتخابات کا کوئی تصور دُور دُور تک اُن کے ہاں نہ تھا۔ دین کی رہنمائی، مقاصد اور سرگرمیوں اور رابطوں میں بھی کار فرما رہتی۔ انھوں نے ووٹوں یا سیٹوں کی زیادہ تعداد حاصل کرنے کے لیے ایسے طریقے یا ایسے رابطے کبھی اختیار نہیں کیے، جو دینی اُصولوںکے خلاف ہوں۔
مولانا مودودیؒ کی ایک عظیم خوبی یہ تھی کہ وہ اونچے سے اونچے مرتبے پر ہوتے ہوئے بھی نچلی سے نچلی سطح کے کارکن تک برادرانہ یک جہتی کا گہرا رابطہ رکھتے۔ خط کتابت کے ذریعے، گفتگوؤں کے ذریعے، اپنی شام کی مجلسِ عام کے ذریعے، دَوروں میں ایک ایک کارکن سے ملاقات کے ذریعے، وہ اپنے رابطے کو گہرا کرتے رہتے تھے۔ وہ کارکنوں کا ذہن جس طرح کئی سال میں تشکیل کرتے تھے، پھر اس بات کا لحاظ کرتے تھے کہ وہ کوئی ایسا فیصلہ و اقدام محض منصب، امارت یا مجلسِ شوریٰ کے اختیارات کی بنا پر نہ نافذ کردیں ، جو خود اُن کی بنائی ہوئی ذہنیت سے ٹکرائے اور ان کی اپنی ہی دی ہوئی تربیت کی فصل کو ویران کر دے۔
مولانا مودودیؒ کی خاص صلاحیت یہ تھی کہ وہ تحریک کے اُصول و مقاصد کو ، جماعت کی روایات و اقدار کو، کارکنوں کے ذہن و مزاج کو پوری طرح نگاہ میں رکھتے تھے اور یہ اندازہ کر لیتے تھے کہ کس معاملے میں کس وقت جماعت اور اس کے کارکنوں کے جذبات و احساسات کیا ہیں اور ان کی مانگ کیا ہے اور ان کی بے زاری کا رُخ کدھر ہے اور ان کی محبت کی سمت کدھر ہے ، کس بات پر وہ جمع ہوں گے، کون سی چیز ان کو بحثا بحثی میں ڈال دے گی یا بکھیر دے گی۔ نتیجہ یہ کہ وہ کسی مسئلہ خاص کو بھی اُصولِ دین اور مصالحِ شرعیہ کے تحت خوب جانچتے اور پھر کارکنوں کے ذہن کی تحریکی ساخت کا بھی صحیح ناپ تول کرتے۔ اور جب وہ کوئی بات کہتے تو لوگوں کے چہرے روشن ہوجاتے اور دل کِھل اُٹھتے اور ان میں کام کرنے اور آگے بڑھنے اور قربانیاں دینے کی سپرٹ جاگ اُٹھتی۔ سب کے دل جمع ہوجاتے۔ بہت ہی کم کبھی ایسا ہوا کہ کچھ جزئی اُمور پر کارکنوں کا فوری طور پر پورا پورا اطمینان نہیں ہوا۔ لیکن پھر بھی وہ تھوڑی بہت افہام و تفہیم ہوجانے پر جادۂ فرض پر خوش خوش متحرک ہوگئے، یعنی اُوپر سے نیچے تک رشتۂ اعتماد بحال رہا۔
اندریں صورت تمام کارکن یہ سمجھتے تھے کہ مولانا مودودیؒ خود کوئی بیان دیں، فیصلہ ہو یا مجلسِ شوریٰ میں کوئی بات طے ہو، ہم سب کا لحاظ رکھا جاتا ہے اور ہمیں اہمیت دی جاتی ہے۔ کم سے کم یہ تو بالکل طور طریق نہ تھا کہ کارکنوں کی تحقیر کرکے انھیں کوئی ادنیٰ درجے کی چیز سمجھا جائے یا یہ ظاہر کیا جائے کہ کارکنوں کا ذہن یا نقطۂ نظر کچھ بھی ہوا کرے، فیصلہ کرنے والے تو ہم ہی ہیں، جس پر انھیں لازماً عمل کرنا ہوگا۔ سوچنے اور بات کہنے کا یہ انداز ہی خطرناک ہے۔ یہ ہماری خاص طرز کی تنظیم کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ ہم تو اپنے ہر کمزور ساتھی کو بھی احساس دلانا چاہتے ہیں کہ تم بہت اہم ہو اور ہم تمھیں ساتھ لے کے چلیں گے اور تم جو جذبات و احساسات رکھتے ہو اور جو کچھ تم نے لٹریچر اور تنظیم سے حاصل کرکے اپنا ذہن بنایا ہے، اس کا ہم پورا لحاظ رکھیں گے۔ تم اس مشینری کا لازمی حصہ ہو۔ تم سوال بھی کرو، مشورے بھی دو، اعتراض بھی اُٹھاؤ، پریشانی بھی ظاہر کرو، ہمیں تمھارے اس تعاون کی ضرورت ہے۔ یہ طرزِ عمل تھا جو مولانا مودودیؒ نے اختیار کیا۔ ہم سب جنھوں نے ان کے ساتھ کام کیا، وہ اس کے گواہ ہیں۔
ایسی بہت سی باتیں ہیں مولانا مودودیؒ کے متعلق جاننے کی اور پوچھنے اور بتانے کی۔ تاہم، ان گزارشات پر اگر اخلاص کے ساتھ غور کیا جائے تو ہر رفیق روشنی حاصل کرسکتا ہے۔ دوسری طرف ناراض ہونے والے مہربان زجروتوبیخ بھی کرسکتے ہیں ع
(میں تو ایک مسکین سا دل ہوں جو موجودہ کش مکش میں گھِر گیا ہے)۔[اکتوبر ۱۹۸۸ء]