اگست ۲۰۲۴

فہرست مضامین

بنگلہ دیش:پس منظر اور موجودہ خونی لہر

سلیم منصور خالد | اگست ۲۰۲۴ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

بنگلہ دیش کے قیام اور پاکستان کی تقسیم میں بنیادی کردار ادا کرنے والے گروہ کا نام ’عوامی لیگ‘ ہے۔ قیام پاکستان کے پونے دو سال بعد۲۳؍جونٍ۱۹۴۹ء کو مشرقی پاکستان میں، مسلم لیگ کے لیڈر عبدالحمید بھاشانی اور شیخ مجیب وغیرہ نے علیحدہ پارٹی بنائی، جس کا نام ’آل پاکستان عوامی مسلم لیگ‘ رکھا۔ مگر بہت جلد، مشرقی پاکستان کی سات فی صد ہندو آبادی کو اپنی جانب مائل کرنے، یا پھر ہندو مقتدرہ کے زیر اثر پارٹی چلانے کے لیے ۱۹۵۳ء میں ’آل پاکستان‘ اور ’مسلم‘ کا لفظ اڑا کر اسے '’عوامی لیگ‘ بنا دیاگیا۔ اس پس منظر سے عوامی لیگ کی تشکیل میں مضمر ایک بنیاد واضح ہوتی ہے۔

عوامی لیگ نے اپنے قیام کے ساتھ ہی مغربی پاکستان کے خلاف مبالغہ آمیز پراپیگنڈے اور مسلم قومیت جو پاکستان کی بنیاد تھی، اس کی نفی پر زور دینا شروع کیا۔ اس مقصد کے لیے جھوٹ، اتہام ’غیربنگالی سے نفرت‘ اور تشدد کو اپنی پالیسی کا بنیادی پتھر قرار دیا (فاطمہ جناح کی حمایت کا ایک مرحلہ اور آخری مرحلے میں ۱۹۵۶ءکے دستور کی حمایت عوامی لیگ کے دو مثبت حوالے ہیں)۔

مارچ ۱۹۶۹ء میں جنرل یحییٰ خان کے ہاتھوں مارشل لا لگنے سے پہلے عوامی لیگ کا فسطائی رنگ، مشرقی پاکستان میں پوری طرح اپنا نقش جما چکا تھا۔ اس دوران ’اگر تلہ سازش کیس‘ جو براہِ راست بھارتی مداخلت اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے تعاون سے پاکستان توڑنے، مختلف تنصیبات پر قبضہ جمانے اور اہم حکومتی شخصیتوں کو قتل کر کے علیحدگی کے منصو بے کو عملی جامہ پہنانے پر مشتمل تھا۔ اس مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت پر عوامی لیگ اور اس کی طلبہ تنظیم ’چھاترو لیگ‘ (اسٹوڈنٹس لیگ) نے حملہ کر کے عدالتی مقام کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور ججوں نے بڑی مشکل سے جان بچائی۔ ایک مدت تک عوامی لیگ اور پاکستانی لیفٹ کی طرف سے اس سازش کے وجود کا انکار کیا جاتا رہا، لیکن ۲۲فروری ۲۰۱۱ء کو سازش کے ایک اہم کردار کیپٹن شوکت علی (ڈپٹی اسپیکر بنگلہ دیش پارلیمنٹ) نے اسمبلی کے فلور پر برملا اعتراف کیا کہ یہ منصوبہ سچ تھا، بلکہ ہم نے تو ۱۹۶۳ء ہی سے ’اگرتلہ‘ میں بھارت سے ساز باز شروع کر رکھی تھی۔ اگست ۱۹۶۹ء میں ڈھاکا یونی ورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ ڈھاکہ کے ناظم محمد عبدالمالک کو لوہے کے سریے مار مار کر شہید کر دیا گیا۔ ۱۹۷۰ء کے پورے سال میں کسی بھی مدمقابل پارٹی کو انتخابی مہم تک نہیں چلا نے دی گئی۔ انتخابی عملہ اپنی مرضی سے تعینات کرایا اور نتائج اپنی مرضی کے مطابق مرتب کیے، جنھیں عوامی لیگ کی ’زبردست جیت‘ قرار دیا جاتا ہے۔

۱۹۷۱ء شروع ہوا تو بھٹو، مجیب اور جنرل یحییٰ کے درمیان تناؤ کی فضا پیدا ہوئی۔ انجام کار یکم مارچ سے لے کر۲۵؍مارچ۱۹۷۱ء تک عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کے طول و عرض میں غیربنگالیوں کا قتل عام کیا، لُوٹ مار کی، عورتوں کی عصمت دری کی اور محب وطن بنگالی پاکستانیوں کو چُن چن کر مارنا شروع کیا۔ جس پر مارچ، اپریل ۱۹۷۱ء میں دنیا بھر کے اخبارات نے رپورٹنگ کی اور حقائق کے شائع کیے۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ نہ بنگلہ دیش میں، نہ انڈیا میں اور حد تو یہ ہے کہ خود پاکستان میں اس نسل کشی (Genocide) کا تذکرہ تک نہیں کیا جاتا اور تواریخ کی درسی کتب کو اس وحشیانہ جنون اور قاتلانہ شیطنت سے خالی رکھا گیا ہے۔ معلوم نہیں کون سا دستِ شرانگیز ہے، جس نے نصابوں اور اخباری صفحات کو ان دردناک تفصیلات سے دُور رکھا ہے۔

۱۶دسمبر۱۹۷۱ء کو انڈین فوج کے تعاون سے مشرقی پاکستان الگ کر کے بنگلہ دیش بنا لیا گیا۔ جس میں پاکستانی حاکم طبقوں کی غلط پالیسیوں کا ایک اہم حصہ تھا۔ لیکن مرکزی کردار بہرحال دشمن سے ساز باز کر نے والی عوامی لیگ ہی تھی۔ مراد یہ ہے کہ اپنے جائز حقوق کےلیے جدو جہد ایک جائز جمہوری عمل ہے، لیکن جھوٹ، نفرت، نسل کشی، فسطائیت اور دشمن سے ساز باز کو سیاسی جدوجہد نہیں کہا جاسکتا۔

مجیب نے اقتدار سنبھال کر ’مکتی باہنی‘ کے لوگوں کے لیے ملازمتیں محفوظ کرنے کی خاطر مخصوص کوٹا رکھا۔ ایسے مستحقین کا فیصلہ عوامی لیگ پارٹی ہی کرتی، نہ کہ کوئی غیر جانب دار اتھارٹی۔  مجیب نے ۱۹۷۲ء میں ڈھا کہ پہنچتے ہی پارٹی کا مسلح مافيا ’جاتیا راکھی باہنی‘ (JRB) کے نام سے قائم کیا، جو مجیب کی زندگی تک سیاسی مخالفین کے لیے تشدد اور دہشت کی علامت بنا رہا۔ (اس کے بارے میں معروف صحافی انتھونی مسکرہینس نے اپنی کتاب Bangladesh: A Legacy of Blood میں اسے ’’ہٹلر کی خاکی وردی والے غنڈوں کی طرح کا ایک ریاستی گینگ قرار دیا‘‘۔ہوڈر اینڈ سٹوگٹس، لندن، ۱۹۸۶ء، ص ۳۷)

 اس نوعیت کے اقدامات سے لوگوں میں ردعمل پیدا ہونا شروع ہوا۔ آگے چلیں تو شیخ مجیب کے خون میں رچے فسطائی جذبے نے، ۲۴جنوری ۱۹۷۵ء د کو بنگلہ دیش میں ’بکسل‘(BKSAL) یعنی ’بنگلہ دیش کرشک سرامک عوامی لیگ‘ (بنگلہ دیش مزدورکسان عوامی لیگ) کی بنیاد رکھی، اور اس کے مقابلے میں ملک سے باقی تمام سیاسی پارٹیوں کو کالعدم قراردے دیا۔ پھر اسی سال ۱۵؍اگست کو بغاوت ہوئی، جس میں فوج کے نوجوان افسروں نے مجیب کے گھر پر حملہ کرکے اسے قتل کر دیا۔

۲۲جنوری ۲۰۰۶ء کو وزیراعظم خالدہ ضیاء (بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی: BNP )نے ملک میں عام الیکشن کرانے کا اعلان کیا، مگر شیخ مجیب کی بیٹی اور عوامی لیگی لیڈر حسینہ واجدنے ہنگامہ کھڑا کرکے ۱۱جنوری ۲۰۰۶ء کو انتخابی عمل پٹڑی سے اُتار دیا، یہی وہ موڑ ہے جہاں سے فساد کا آغاز ہوا۔ پھر اُس وقت بنگلہ دیش آرمی کے چیف جنرل معین الدین احمد کی سرپرستی میں ٹیکنوکریٹ کی ایسی حکومت بنی کہ اُس نے دسمبر ۲۰۰۸ء کے الیکشن میں عوامی لیگ کو کامیاب کرا دیا۔

جنوری ۲۰۰۹ء میں عوامی لیگ ایک خونیں رنگ و رُوپ کے ساتھ میدان میں اُتری، مگر جلد ہی ۲۵ اور ۲۶ فروری ۲۰۰۹ء کی رات ’بنگلہ دیش رائفلز‘ (BDR) کے جوانوں نے ہیڈکوارٹر پُل خانہ میں بغاوت کرکے بی ڈی آر کے ڈائریکٹر جنرل احمد سمیت ۵۷؍افسروں اور ۱۶ سویلین شہریوں کو قتل کردیا۔ یہاں پر ’مجیب اندرا گٹھ جوڑ‘ کی طرح ’حسینہ ، من موہن سنگھ گٹھ جوڑ‘ کا آغاز ہوا۔ پروفیسر ایویناش پلوال نے اپنی کتاب India`s  Near East: A New History  (۲۰۲۳ء) میں تفصیل بتائی ہے کہ حسینہ واجد نے پرنام مکھرجی کے ذریعے نئی دہلی حکومت کو پیغام بھیجا: ’جان بچائو‘ (SOS)۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی ہدایت پر انڈین آرمی پیراشوٹ رجمنٹ بٹالین کے میجر کمل دیپ سنگھ سندھو نے حکم ملنے پر ۲۶فروری کی شام تیاری شروع کی اور ڈھائی گھنٹے بعد ایک ہزار چھاتہ برداروں کے ساتھ ڈھاکہ اُترنے کے لیے تیار ہوگئے۔ بھارتی کمانڈوز نے ۲۷فروری کو بنگلہ دیش میں براہِ راست مداخلت شروع کی اور چار روز میں ناراض فوجیوں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ وہ دن اور آج کا دن، بنگلہ دیش آرمی اور اس کی مسلح معاون رجمنٹیں، انڈین فوج کی براہِ راست اور تابع مہمل اکائیاں ہیں، بلکہ حسینہ واجد نے یہ طے کرایا ہے کہ بنگلہ دیشی فوج کا سربراہ، انڈین فوج کے مشورے سے مقرر کیا جائے گا۔

حسینہ واجد نے ۲۰۰۹ء سے ۲۰۲۴ء کے دوران میں جو حکمرانی کی ہے، اس میں اپنے اقتدار کی مضبوطی، مدمقابل قوتوں سے انتقام، اپنی پارٹی مافیا کے استحکام اور انڈیا کے تابع نظامِ حکومت کو وسعت دینا شامل رہا ہے۔ اس دوران نام نہاد انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل (ICT) کے ذریعے جماعت اسلامی کے چوٹی کے رہنمائوں کو پھانسیاں دی گئی ہیں۔ جماعت اسلامی کو الیکشن لڑنے سے نااہل قرار دیا اور مولانا مودودی کی کتب کی اشاعت پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

اگرچہ ۲۰۱۸ء میں بھی کوٹہ سسٹم ، جو کہ عوامی لیگی کارکنوں کو نوازنے کا ایک شرمناک بہانہ تھا، اس کے خلاف مظاہرے ہوئے، مگر ان کو دبا دیا گیا۔ پھر عوامی لیگ نے اپنے فعال کارکنوں پر مشتمل ہائی کورٹ ججوں کے ذریعے کوٹہ سسٹم میں ۳۰ فی صد استحقاق کو محفوظ بنایا، تو نئی نسل میں بے چینی پھیلنا شروع ہوئی۔

یہ تقسیم اس طرح ہے کہ ۳۰ فی صد مکتی باہنی کے لوگوں کے پوتوں دوہتوں کا حق، ۱۰فی صد عورتوں کا، ۱۰ فی صد غیرترقی یافتہ علاقوں کا، ۵ فی صد قبائل کا اور ایک فی صد معذوروں کا حق ہے۔ اس طرح عوامی لیگ کے من پسندوں کو چھوڑ کر، پورے بنگلہ دیش کے نوجوانوں کے لیے ۴۴ فی صد حصہ رہ جاتا ہے، جو اپنی جگہ انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہے، کہ وہ جسے چاہے رکھیں۔

جولائی ۲۰۲۴ء میں مضطرب طلبہ و طالبات نے ڈھاکہ یونی ورسٹی میں احتجاج کیا تو ۱۳جولائی کی سہ پہر حسینہ واجد نے طنز کرتے ہوئے کہا: ’’کوٹے کی مخالفت کرنے والے غدار ہیں، یہ پاکستان کے ایجنٹ ہیں، اور رضاکار ہیں‘‘۔ یاد رہے ۵۴ سالہ تاریخ میں بنگلہ دیش نے اپنے ہاں لفظ ’رضاکار‘ کو: تعلیم، صحافت، تاریخ اور سیاست کے میدان میں گالی بنادیا ہے۔ جیسے ہی حسینہ واجد نے یہ جملہ کہا تو طلبہ و طالبات نے اس ’گالی‘ کو اپنے لیے اعزاز سمجھ کر اپنا لیا اور ڈھاکا یونی ورسٹی کے درودیوار گونجنے لگے: ’تو کون، میں کون___ رضاکار، رضاکار۔ اس پر حکومت نے جھنجلاہٹ میں کہا: ’’یہ نعرے لگانے والے غدار ہیں، جماعت اسلامی کے ایجنٹ ہیں، ان کو سبق سکھانے کے لیے عوامی لیگ کے کارکن اور ہماری طلبہ تنظیم چھاترو لیگ ہی کافی ہے‘‘۔ یہ بیان وزیرقانون، وزیرداخلہ اور وزیر اطلاعات نے تکرار کے ساتھ دُہرایا۔ ساتھ ہی عوامی لیگی مسلح کارکنوں کو کھلی چھٹی دے دی کہ وہ طلبہ و طالبات پر حملے کریں، ان کے سامان کو لوٹیں، کمروں کو آگ لگائیں، ہڈیاں توڑیں یا قتل کریں۔ یوں صرف دو دن میں پورا بنگلہ دیش ایک دہکتا ہوا الائو بن گیا۔

اسلامی جمعیت طلبہ جو اس تحریک میں حصہ لینے والا ایک حامی اور مددگار کردار ہے، اس کے تین ہزار سے زائد کارکنوں کو صرف پہلے دو روز میں گرفتار کرلیا گیا۔ پولیس تماشائی بن کر عوامی لیگیوں کی سرپرستی کے لیے ساتھ ساتھ چلتی رہی، اور عوام میں غصہ بڑھتا گیا، طلبہ و طالبات کٹ کٹ کر سڑکوں پر گرتے رہے۔ پھر جب بہتے خون کا دریا بلند ہوا تو حسینہ واجد نے جمعہ ۱۹جولائی کی رات پورے بنگلہ دیش میں فوج طلب کرکے کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کردیا، اخبارات کی اشاعت پر پابندیاں عائد کردیں، انٹرنیٹ کی سروس معطل اور سڑک پر آتے ہی مظاہرین کو گولی مار دینے کا حکم دے دیا۔ اس سب کے باوجود ہنگامے تھمنے میں نہیں آرہے۔

۲۴ جولائی کو طلبہ تحریک کے لیڈروں نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا، جو وی پی این کے ذریعے دُنیا میں پھیل گیا: ’’حسینہ واجد نے چھاترو لیگ (اسٹوڈنٹس لیگ) کے نام سے دہشت گرد پیدا کیے ہیں۔ اس نے ووٹ کی عزّت پامال کی ہے۔ اس نے جمہوریت کو برباد کیا ہے۔اس نے عدالتی نظام کو کچل کر رکھ دیا ہے۔ اس نے پولیس میں عوامی لیگی غنڈوں کو بھرتی کرکے عوامی لیگ پارٹی کو ذاتی مافیا کا درجہ دے رکھا ہے۔ اس نے بنگلہ دیش رجمنٹ کے ذہین ترین افسروں کو گولیوں سے اُڑا دیا ہے۔ اس نے میرٹ کے نام پر پارٹی بدمعاشوں کو بھرتی کرنے کا ایک مربوط نظام قائم کیا ہے، جس کے جال کو توڑنا عام آدمی کے لیے ممکن نہیں رہا۔ اس نے ملک کا اقتداراعلیٰ، انڈین حکومت اور انڈین فوج کے ہاتھوں بیچ دیا ہے۔ ہم ایسی حکومت اور ایسی پارٹی کے اقتدار کو مسترد کرتے ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق ڈیڑھ ہزار سے زیادہ طلبہ و طالبات اور شہری شہید ہوچکے ہیں۔ ۲۵ہزار سے زیادہ مہلک زخموں سے چور موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا ہیں۔ ۶۱ہزار سے زیادہ طلبہ و طالبات اور شہری گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ ہم عالمی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ نہتے بنگلہ دیشی طلبہ و طالبات کو بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں‘‘۔

’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ (AI)نے اپنے بیان میں کہا ہے: ’’ہم نے فوٹوگرافی، ویڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے اور دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ یہ معلومات جمع کی ہیں کہ بنگلہ دیشی سیکورٹی فورسز نے طلبہ و طالبات مظاہرین کے خلاف غیرقانونی اور بدترین طاقت استعمال کی ہے۔ ان نہتوں پر براہِ راست گولیاں چلائی گئی ہیں۔ بند جگہوں میں مظاہرین کو دھکیل کر خطرناک اور جان لیوا آنسو گیس کا استعمال کیا گیا ہے، اس طرح دم گھٹنے سے بہت سے لوگوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ ’اے کے پٹرن اسالٹ رائفلز‘ جیسے مہلک آتشیں اسلحے کا بے لگام اور اندھا دھند استعمال کیا گیا ہے۔ ہم فوری طور پر غیرجانب دار انہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں اور ہلاک شدگان کی درست معلومات فراہم کرنے پر زو ر دیتے ہیں‘‘۔ ۲۳جولائی کو ’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW) نے الزام عائد کیا: ’’بنگلہ دیش کی جیلیں اور حوالات سیاسی قیدیوں سے بُری طرح ٹھونسی ہوئی ہیں‘‘۔

۲۵جولائی کو ایک اور بھیانک واقعہ یہ ہوا کہ طلبہ مظاہروں کو دبانے کے لیے حکومت نے بنگلہ دیش میں اقوام متحدہ کے نشان والی بکتربند گاڑیوں اور ہیلی کاپٹروں کو استعمال کیا ۔ جس پر مختلف ممالک کے سفیروں نے عوامی لیگی حکومت پر سخت سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ معلوم ہونا چاہیے، اس وقت اقوام متحدہ کے ’امن مشن‘ پروگرام میں بنگلہ دیش آرمی، بنگلہ دیش پولیس، بنگلہ دیش بارڈر گارڈ (BBG) اور ’ریپڈ ایکشن بٹالین‘ (RAB) سستے کرائے کے فوجیوں کی مانند خدمات انجام دے رہے ہیں کہ ان کے پاس کرنے کا کوئی کام نہیں (کیونکہ ’دفاعی ذمہ داری‘ تو انڈین آرمی اپنے ہاتھوں میں لے چکی ہے، یا یہ ذمہ داری اسے دی جاچکی ہے)۔ اس لیے ان بنگلہ دیشی فورسز کا اقوام متحدہ کی گاڑیوں اور ہوائی مشینوں کے نشانات کے پردے میں طلبہ کے خلاف استعمال کرنا، دُنیا بھر میں زیربحث ہے۔

بظاہر امن کی فضا بحال ہوتی نظر نہیں آرہی۔ ان حالات میں انڈیا کی کوشش ہے کہ حسینہ واجد کی صورت میں بدنما حکومت سے جو کام لینا تھا وہ لے لیا اور اب اگر اس سے چھٹکارا پانا ضروری ہو تو اسے چلتا کیا جائے۔ جنرل معین الدین احمد کی طرح موجودہ بنگلہ دیش آرمی چیف جنرل وقارالزماں سے مدد لے کر عوام کی توجہ تقسیم کی جائے(یاد رہے جنرل وقار،حسینہ واجد کے قریبی عزیز اور بھروسے کے آدمی ہیں)۔ لیکن عوام نہ تو انڈیا کا نام سننا چاہتے ہیں اور نہ انڈیا سے منسلک کسی نسبت پہ اعتبار کرنے کو تیار ہیں۔ دوسری طرف انڈیا کے اخبارات اور آر ایس ایس کے سوشل میڈیا پر متحرک گروپ یہ کہہ رہے ہیں: ’’حسینہ واجد کی اقتدار سے بے دخلی، انڈین مفادات کی بربادی ہے۔ اگر یہ حکومت گئی تو جماعت اسلامی اسلامی نظام لانے کے لیے آگے بڑھے گی۔ پھر دوسری طرف خالدہ ضیاء کی بی این پی اور جماعت اسلامی نے پورے بنگلہ دیش میں مہم چلا رکھی ہے کہ مارکیٹ میں انڈیا کے ہرمال کا بائیکاٹ کیا جائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جماعت کے لوگوں کو دبایا،پکڑا یا مارا جائے‘‘___ دُنیا بھر کے امن پسند شہری ظلم کی اس یلغار پر نوحہ کناں ہیں۔