وہی ہے جو آسمان سے تمھارے لیے رزق نازل کرتا ہے۔
’رزق‘ سے مراد یہاں بارش ہے، کیونکہ انسان کو جتنی اقسام کے رزق بھی دُنیا میں ملتے ہیں، اُن سب کا مدار آخرکار بارش پر ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی بے شمار نشانیوں میں سے تنہا اس ایک نشانی کو پیش کرکے لوگوں کو توجہ دلاتا ہے کہ صرف اسی ایک چیز کے انتظام پر تم غور کرو تو تمھاری سمجھ میں آجائے کہ نظامِ کائنات کے متعلق جو تصور تم کو قرآن میں دیا جارہا ہے، وہی حقیقت ہے۔
یہ انتظام صرف اسی صورت میں قائم ہوسکتا تھا، جب کہ زمین اور اس کی مخلوقات اور پانی اور ہوا اور سورج اور حرارت و بُرودت سب کا خالق ایک ہی خدا ہو۔ اور یہ انتظام صرف اسی صورت میں لاکھوں کروڑوں برس تک پیہم ایک باقاعدگی سے چل سکتا ہے، جب کہ وہی اَزلی و ابدی خدا اس کو جاری رکھے اور اس انتظام کو قائم کرنے والا لازماً ایک حکیم و رحیم پروردگار ہی ہوسکتا ہے، جس نے زمین میں انسان اور حیوانات اور نباتات کو جب پیدا کیا تو ٹھیک ٹھیک ان کی ضروریات کے مطابق پانی بھی بنایا، اور پھر اس پانی کو باقاعدگی کے ساتھ روئے زمین پر پہنچانے اور پھیلانے کے لیے یہ حیرت انگیز انتظامات کیے۔
اب اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوسکتا ہے، جو یہ سب کچھ دیکھ کر بھی خدا کا انکار کرے، یا اُس کے ساتھ کچھ دوسری ہستیوں کو بھی خدائی کا شریک ٹھیرائے۔ (’تفہیم القرآن ‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۱، عدد۶، اگست ۱۹۶۴ء، ص۲۱-۲۲)