اُمت مسلمہ تاریخ کے ایک نازک دور سے گزر رہی ہے۔ اس ماحول میں استعماری قوتیں اور مسلم دُنیا کے غاصب طبقے، مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے مستقبل کی صورت گری کا اختیار اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے لیے شعوری طور پر وہ سیاسی، فکری، معاشی، تعلیمی، عسکری، ابلاغی، ثقافتی اور سفارتی قوتیں بروئے کار لارہے ہیں۔ ان قوتوں کے نزدیک مسلمانوں کی عمومی، مذہبی اور رواجی زندگی کو تو کسی حد تک برداشت بھی کیا جاسکتاہے، لیکن کسی مسلمان کی جانب سے اسلامی تہذیب اور اسلامی نظامِ زندگی کی جانب ایک قدم بڑھانا بھی ناقابلِ برداشت ہے۔ اس فسطائی سوچ کی علَم بردار یہ قوتیں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی اور وحشیانہ جارحیت سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ گذشتہ دو صدیاں خاص طور پر اس رویے کا قدم قدم پر ثبوت پیش کرتی ہیں۔ دوسری طرف مسلم اُمہ بہت سے انتظامی، اداراتی اور اخلاقی تضادات اور فکری انتشار کی شکار چلی آرہی ہے، پھر اخلاص، وفاداری اور احساسِ ذمہ داری کا بحران اس پر حاوی ہے۔ اس کش مکش میں سوال یہ اُبھرتا ہے:
اس سوال کے جواب میں اہل علم کی تحریریں آئندہ صفحات میں پیش کی جارہی ہیں،جب کہ ستمبر کے شمارے میں:l مفتی منیب الرحمانl مختار شنقیطی l ڈاکٹر اسعدزماں l سیّدامین الحسن lبازغہ تبسم lطارق جانlعبدالملک مجاہد l عبداللہ احسن lمبشرہ فردوس اور دیگر حضرات کے مضامین شائع ہوں گے۔ یہ جوابات اور تجزیے، مختلف پہلو اور مختلف نقطہ ہائے نظر پیش کرتے ہیں، جن میں بعض نکات سے ادارہ ترجمان کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔ تاہم، اس طرح قارئین گوناگوں افکار و خیالات سے مستفید ہوکر بہتر نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں۔(ادارہ)