مسلم تاریخ کا عمیق نظر سے مطالعہ اِس امر کی جانب ہماری توجہ مبذول کرواتا ہے کہ مسلم اُمہ ایک ’وحدت‘ کے طور پر و جود میں آئی، جس کا مرکز جزیرہ نمائے عرب میں مقامِ حجاز تھا۔ تاہم، مرورِ زمانہ کے ساتھ یہ وحدت، ’کثرت‘ میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔ یہ ’کثرت‘ سیاسی و سماجی نیز ثقافتی و اقتصادی نوعیت کی بھی تھی۔ ’وحدت‘ سے ’کثرت‘ میں تبدیلی کے اِس عمل میں جغرافیائی تغیر کے ساتھ ساتھ تہذیبی تغیر و تبدل بھی وقو ع پذیر ہوتا گیا۔ یہاں یہ وضاحت ازحد ضروری ہے کہ ’کثرت‘ اپنی اساس میں ’وحدت‘ کا پرتو ہے۔ دوسرے معانی میں ’کثرت‘، وحدت کا سطحی اظہار ہے۔ اِن دو مظاہر میں دوئی محض انسانی عقل کا واہمہ ہے۔ مختلف علاقائی و سیاسی اکائیوں، بلکہ مسلم تہذیب میں انضمام نے مؤخرالذکر کو نہ صرف متنوع جہتیں فراہم کیں، بلکہ مسلم ڈسکورس (علمی روایت) کو گہرائی و گیرائی بخشی اور اس طرح مسلم تہذیب ترقی و ارتقاء کی منازل طے کرتی ہوئی عظمت کی بلندیوں کو چھونے لگی۔ اس تہذیب کو قوت بخشنے والا ڈسکورس اپنی روایت سے وابستگی رکھتے ہوئے وقت اور تاریخ کے تغیرات کے مطابق اپنی شکل اور ہیئت کو بدلنے کی سکت رکھتا تھا۔ یہ تہذیب سکوت و جمود سے ناآشنا تھی۔ اس لیے ہرآنے والے چیلنج کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتی تھی۔
معروف مؤرخ و فلاسفر آرنلڈ ٹائن بی (م:۱۹۷۵ء)کا یہ نظریہ کافی صائب ہے کہ جو تہذیبیں اپنی خلاق اقلیت کی مدد سے چیلنجوں کا مؤثر ردعمل (response) دیتی رہتی ہیں وہ ارتقاء اور ترقی کی منازل طے کرتی رہتی ہیں، اور جو تہذیبیں اِن چیلنجوں سے مغلوب ہوجاتی ہیں، وہ زوال کا شکار ہوتی چلی جاتی ہیں۔ راقم اس علمی نظریے میں اس قدر اضافہ کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ خلاق اقلیت تہذیبی ڈسکورس کو توانا رکھتی ہے اور علم و ایجاد کی نئی جہتیں دریافت کرتے ہوئے اِس ڈسکورس کو زمانی تغیر سے جنم لینے والے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کا اہل بناتی ہیں۔ خلاق اقلیت کے ساکت و جامد ہوجانے کے بعد یہ ڈسکورس پسپا ہونا شروع ہوجاتا ہے اور نتیجتاً زوال کے مہیب سائے اس تہذیب کو آن گھیرتے ہیں۔
علیٰ ہذا القیاس، ’وحدت‘ سے ’کثرت‘ کی جانب اس سفر نے بہت جلد مسلم تہذیب کو عالمی سطح پر سب سے توانااور مؤثرترین سیاسی و تہذیبی اکائی کے طور پر لاکھڑا کیا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی طور پر مسلم تہذیب منقسم ہوگئی۔ اس طرح اندلس، مصر، ایران اور وسطی ایشیا میں مختلف مملکتوں کا وجود عمل میں آگیا،لیکن اِن تمام سیاسی اکائیوں کے پس پردہ واحد تہذیبی ڈسکورس کارفرما رہا جس کی ابتداء پیغمبرؐاسلام نے حجاز سے کی تھی اور جس کا اصل الاصول ’وحدت‘ تھا، یعنی تمام نوعِ انسانی کو ایک وحدت میں پرونا، جو کہ ’وحدت میں کثرت‘ کے تصور ہی کے ذریعے سے عمل میں آسکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ڈسکورس جہاں کہیں بھی گیا، مقامی سیاق و سباق کو پیش نظر رکھا گیا۔ اندلس میں عرب اور بربر قبائلی روایات اور رسوم و رواج میں باہمی اتصال اور تعامل، اور اسی طرح ہندستان میں مسلمانوں کی صوفیانہ روایت کا بھگتی تحریک سے مشتق ہونے والے ضوابط پر صاد کرنا، دراصل مسلم ڈسکورس میں رواداری اور کثیرالجہتی عناصر کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت کی غماز کاوشیں تھیں۔ اسی حوالے سے ہم ایران، وسطی ایشیا اور براعظم افریقا میں نمو پانے والی متعدد ثقافتوں سے مسلم ڈسکورس کے اتصال کو بھی مثال کے طور پر پیش کرسکتے ہیں۔
ابن خلدون کے مقدمہ کی تفہیم جو راقم کو محسن مہدی اور روزنیتھال کے تراجم و تشریح کی مدد سے حاصل ہوتی ہے، اس کے مطابق تہذیب کا سیاسی و سماجی اظہار ،عصبیہ‘ کی بابت ہوتا ہے اور عصبیت کے باعث انسانی گروہ ارتقا کی منازل کو طے کرتے ہوئے اپنی انتہائی حالت میں سلطنت کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ عہدحاضر جو کہ ’جدیدیت‘ اور ’بعد از جدیدیت‘ کے اثرات سے عبارت ہے، اس میں سلطنت کو عہد ِ وسطیٰ کی بدترین سیاسی و حکومتی تنظیم کے طور پر تصور کیا جاتا ہے، جو جبرواستبداد کا مظہر تھی۔ ان تنقیدی نکات کا اقرار کرتے ہوئے راقم اس پہلو کی جانب اشارہ ضرور کرے گا کہ نظمِ سلطنت میں فرد کو اجتماع کے مقابلے میں قدرے زیادہ آزادی میسر تھی۔ ریاستی کنٹرول کی وہ شدت جو بعدازاں قومی ریاست کے وجود میں آجانے کے ساتھ عمل میں آئی، وہ سلطنت کے نظم میں عنقاء تھی۔ اس تمام تر بحث میں، یہ نکتہ پیش نظر رہنا ازحد ضروری ہے کہ قرون وسطیٰ میں مسلم تہذیب کامحور ایسی سلطنتیں ہی تھیں۔ فرد کو میسر آزادی اور ثقافتی، علمی و نظری اختلاط کے باعث مسلم ڈسکورس مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا اور ’کثرت‘ کے پھیلائو کے باوجود اس کا ’وحدت‘ سے ناتا برقرار رہا۔ سیاسی عداوتیں بھی تمدنی اور فکری جہتوں کا وحدت کے ساتھ تعلق نہ توڑ سکیں۔ شریعت اور طریقت کی سطحوں پر یہ ہم آہنگی قائم رہی۔
امام غزالی، بوعلی سینا، مولانا رومی، فرید الدین عطار، مسعودی، البیرونی اور ابن خلدون جیسے مشاہیر اسی وحدت کے غماز تھے، جو کثرت کو استحکام عطا کرتی تھی۔ یہ مشاہیر کسی ایک تمدن، ملک یا معاشرے کی نمائندگی کرنے کے بجائے ایک مربوط اور آفاقی مسلم طرزِفکر کی نمائندگی کرتے تھے، جسے راقم مسلم ڈسکورس کا نام دے رہا ہے۔ عباسیوں کے عہد میں بغداد، اندلس میں اُمویوں کے دور میں غرناطہ، وسطی ایشیا میں سمرقند و بخارا اور ہندستان میں دہلی، آگرہ اور جونپور مسلم ڈسکورس کے علَم بردار تھے، اور ان کا باہمی ربط بھی قائم و دائم تھا۔ اہل علم اور صوفیا تلاشِ حق کی خاطر سفر اختیار کرتے اور ان کی ایک مقام سے دوسرے مقام پر جاکر سکونت اختیار کرلینے کے سبب مسلم ڈسکورس ایک عالم گیر حقیقت بن گیا۔ ان مشاہیر کے ایک سلطنت کے علاقوں سے دوسری سلطنت میں جاکر بس جانے پر قطعاً پابندی نہ تھی۔ چنانچہ ان کے ذریعے سے مسلم ڈسکورس کے پھیلنے اور مقامی علمی و ثقافتی روایات سے اختلاط کا عمل جاری رہا۔
یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اٹھارھویں صدی کو مسلم تہذیب اور علمی روایت کے زوال کی صدی کہا جاتا ہے۔ یہ زوال انیسویں صدی کے نصف تک مکمل انحطاط پر منتج ہونے پر نوآبادیاتی نظام کی باقاعدہ شروعات کا باعث بنا۔ ہمارے خیال میں اٹھارھویں صدی میں مسلم سلطنتوں میں سیاسی شکست و ریخت کا عمل شروع ہوا جو کہ سیاسی تنظیمِ نو کا تقاضا کر رہا تھا۔ تمدنی و فکری حوالے سے یہ انحطاط قطعاً نہ تھا۔ زوال (Decline) کا سبق مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے پیروئوں کو برطانوی نوآبادیاتی افسروں اور مستشرقین نے پڑھایا۔ مسلم معاشروں اور مسلم فکری روایت کے لیے یہ پروانۂ اجل سے کم تر صورت نہ تھی۔ مسلم دُنیا میں جغرافیائی و لسانی نیشنلزم کی داغ بیل پڑی، جس سے ’کثرت‘ نے اپنی الگ ’وحدت‘ کو تشکیل دینا شروع کیا، جس سے ربط و ضبط اور علمی و تمدنی اختلاط کا عمل مکمل طور پر معطل ہوکر رہ گیا۔
یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ’وحدت‘ کا سب سے وقیع جوہر ’خلاقیت‘ (Innovation) ہے جو جزوی طور پر ’کثرت‘ کے ذریعے اپنے آپ کو آشکار کرتی ہے۔ ’کثرت‘ میں یہ خلاقی جوہر انسانی فکر کے ذریعے سے تشکیل پاتا ہے اور ارادہ اس خلاقیت کے طبعی اظہار کا محرک بنتا ہے۔ اس خلاقیت کو اپنی تکمیل تک پہنچنے کے لیے تسلسل کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تسلسل (روایت کا) خلاقیت کو اس کے منبع سے منسلک رکھتا ہے اور خلاقیت اسی تسلسل سے قوت حاصل کرکے اپنی اَزسرنو تنظیم کرتی ہے اور اپنے عناصر ترکیبی کو نئی توانائی بھی فراہم کرتی رہتی ہے۔ مشرق اور مغرب کی خلاقی روایتوں میں چند بنیادی اختلافات (differences) ایک روایت کے تسلسل میں تعطل کا پیدا ہوجانا ہے۔ انیسویں صدی میں ہم نے یہ عملاً ہوتے ہوئے دیکھا۔
مسلم اشرافیہ کو یہ یقین دلایا گیا کہ وہ زو ال پذیر ہے اور اسے حیاتِ نو کے لیے اپنے ڈسکورس کو تیاگ کر مغربی ڈسکورس کو اپنانا ہوگا۔ اس طرح انیسویں صدی کے تمام مقامی ڈسکورس لایعنی ہوکررہ گئے اور ہرطرف مغربی جدیدیت نے ڈیرے ڈال لیے۔ مقامی فکری و نظری روایات کو طاقِ نسیاں پر رکھ دیا گیا اور آج ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں رائج ڈسکورس کا اپنی کلاسیکی روایت سے دُور پار کا بھی کوئی رشتہ، واسطہ نہیں ہے۔
وحدت کے حوالے سے یہ واضح کرنا بھی اہمیت کا حامل ہے کہ انسانی عقل کی دسترس وحدت کی مکمل تفہیم کے لیے قطعاً ناکافی ہے۔ ’وحدت‘ ایک تسلسل کے ساتھ ’نامعلوم‘ سے ’معلوم‘ کی جانب انسانی رسائی کو ممکن بناتی چلی جاتی ہے۔ انسانی انحطاط کی بڑی وجہ یہی ہے کہ انسانی ارادہ کمزور پڑنے کی وجہ سے شعور ’نامعلوم‘ میں پوشیدہ حقائق کو ’معلوم‘ کے پیرائے میں منتقل کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
انیسویں صدی کے وسط میں مسلم فکر اور شعوراجتماعی طور پر اس اہلیت سے محروم ہوچکا تھا۔ قومیت کے مغربی تصور اور عقلیت پر حد سے زیادہ انحصار کرنے کی روش نے تخیل اور عینیت (Idealism) سے مسلم ڈسکورس کو دُور کردیا تھا۔ نوآبادیاتی عہد میں تقلید کو ترجیحی آپشن سمجھ کر اپنا لیا گیا۔ ’وحدت‘ اور ’کثرت‘ کا باہمی ربط و ضبط شکست و ریخت کا شکار ہوکر فکری انتشار میں بدل گیا۔ تفرقہ اور مذہبی نفاق روزمرہ کا معمول بن گیا۔ مقامی روایتوں نے اپنے آپ کو مغربی پیمانوں پر پرکھنا شروع کر دیا۔ خود تشخیصی کا عمل معدوم ہوگیا اور مسلم ڈسکورس ’اطراف‘ میں گم ہوکر رہ گیا۔
مغربی علوم کے غلبے کا اثر زائل کرنے کے لیے مسلم ڈسکورس کوحیاتِ نو بخشنا، سب سے اہم ہے اور اُسے محض مذہبی تفکر تک محدود کر دینا مغربی علمی و ثقافتی غلبے کو مضبوط تر بنانے کے مترادف ہے۔ چنانچہ مسلم کلاسیکی علمی روایت کو ایک نئے ولولے کے ساتھ جدید علوم کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے محض مدرسوں یا مساجد تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے۔
اوّلاً تو ’مسلم ڈسکورس‘ کو ایک نئی زندگی عطا کرنا ہوگی، جس کے لیے ’مستشرقیت‘ کے بالمقابل اپنے نظام ہائے علوم کی ترویج و ترقی کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ نوآبادتی عہد میں مغربی علوم اور بالخصوص ’مستشرقیت‘ نے مقابل نظام ہائے علوم کو اس کے بنیادی منابع سے کاٹ دیا جس کے باعث علمی و فکری روایت اس تسلسل سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی جو کہ اس روایت کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔
اس بات کا اعادہ کرنا ضروری ہے کہ اپنی علمی و فکری روایات (جو کہ بچی کھچی رہ گئی ہیں) کو ان کے کلاسیکی سرچشمے سے جوڑنا سب سے اہم اقدام ہے۔ اس ضمن میں اپنے سماجی و انسانی علوم کی بابت نظریہ سازی کا عمل مقامی سطح پر رائج کرنا ’بعداز نوآبادیاتی‘ معاشروں کی آزادیٔ فکر وعمل کے لیے لازمی ہے۔ تدریسِ علم اور افزائشِ علم کے ذریعے سے ہی مشرقی معاشروں بالخصوص مسلم اقوام خود مختاری کا مقصد حاصل کرسکتی ہیں۔ مزید برآں مسلم دُنیا کو میسر انسانی ذرائع کی ترقی وہ واحد راستہ ہے، جو اُسے عظمت ِ رفتہ کے حصول کے لیے ’خلاقیت‘ کے اُن جواہر سے آراستہ کرسکتا ہے، جو مغربی غلبے سے نجات کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ تعلیمی اصلاحات علم و ایجاد کی راہیں کھولیں۔ قانون کی حکمرانی جس میں عدل و انصاف ہر خاص و عام کو میسر ہو، اور صحت ِ عامہ کی سہولت جس کی تمام تر ذمہ داری ریاست کی ہو۔
آخر میں یہ کہتے ہوئے راقم اس بحث کو سمیٹنا چاہتا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک کو ’نیشنل سیکورٹی اسٹیٹ‘ سے ’سوشل سیکورٹی اسٹیٹ‘ کی طرف بڑھتے رہنا ہوگا۔ علاوہ ازیں اپنے تشخص اور قومی سلامتی کے لیے اپنے فیصلے خود کرنے ہوں گے۔ چاہے اس کے لیے ہم سب کو مشکل ترین لمحات سے ہی کیوں نہ گزرنا پڑے۔
مسلم معاشروں کے شہر یوں کو آزادی کے تصور سے آگاہ کرنا تعلیمی نظام کے اہم ترین مقاصد میں سے ایک ہونا ضروری ہے۔ آزادی ہی انسانی صلاحیتوں کو توانا کرتی ہے اور ان کے اظہار کے لیے معاون ثابت ہوتی ہے۔ یہی قدر (آزادی) مسلم ڈسکورس کا کلیدی تعارف ہے جوانسانوں کو ہر طرح کی غلامی سے آزادی کی نوید سناتا تھا۔ اسی لیے راقم اس امر پر زور دیتا آیا ہے کہ فتح علی ٹیپو جیسے مسلم رہنمائوں کو پاکستان کے بانیان کی صف میں لاکھڑا کرنا چاہیے۔ ٹیپو سلطان جیسی بلندقامت شخصیات دُنیاوی کامیابیو ں کی محتاج نہیں ہوتیں۔ ان شخصیات کا مقصد کسی کی بھی ذات سے بلند تر ہوتا ہے۔ زندگی اور موت کسی بھی مقصد کے لیے ہو تو زوال سے نکلنا اور عروج کی جانب سفر کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔ اِن حالات میں زندگی کا ہرلمحہ، کسی بامعانی مقصد کے حصول میں صرف کرنے کی ترغیب ہی نوجوان نسل کو تخیل کی نئی منزلوں کی جانب گامزن کرسکتی ہے۔
آزادی کی ماہیت میں جاکر یہ معلوم کرنا چنداں مشکل نہیں ہوتا کہ اس جذبے کی تکمیل ذمہ داری کے احساس کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے نوجوان نسل کو باور کرانا بہت اہمیت رکھتا ہے کہ آزادی اور احساسِ ذمہ داری لازم و ملزوم ہیں، بالکل اسی طرح جیسے حق (Right) اور فرض (Obligation) ایک دوسرے کے بغیر بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں۔