مسلم تاریخ کا عمیق نظر سے مطالعہ اِس امر کی جانب ہماری توجہ مبذول کرواتا ہے کہ مسلم اُمہ ایک ’وحدت‘ کے طور پر و جود میں آئی، جس کا مرکز جزیرہ نمائے عرب میں مقامِ حجاز تھا۔ تاہم، مرورِ زمانہ کے ساتھ یہ وحدت، ’کثرت‘ میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔ یہ ’کثرت‘ سیاسی و سماجی نیز ثقافتی و اقتصادی نوعیت کی بھی تھی۔ ’وحدت‘ سے ’کثرت‘ میں تبدیلی کے اِس عمل میں جغرافیائی تغیر کے ساتھ ساتھ تہذیبی تغیر و تبدل بھی وقو ع پذیر ہوتا گیا۔ یہاں یہ وضاحت ازحد ضروری ہے کہ ’کثرت‘ اپنی اساس میں ’وحدت‘ کا پرتو ہے۔ دوسرے معانی میں ’کثرت‘، وحدت کا سطحی اظہار ہے۔ اِن دو مظاہر میں دوئی محض انسانی عقل کا واہمہ ہے۔ مختلف علاقائی و سیاسی اکائیوں، بلکہ مسلم تہذیب میں انضمام نے مؤخرالذکر کو نہ صرف متنوع جہتیں فراہم کیں، بلکہ مسلم ڈسکورس (علمی روایت) کو گہرائی و گیرائی بخشی اور اس طرح مسلم تہذیب ترقی و ارتقاء کی منازل طے کرتی ہوئی عظمت کی بلندیوں کو چھونے لگی۔ اس تہذیب کو قوت بخشنے والا ڈسکورس اپنی روایت سے وابستگی رکھتے ہوئے وقت اور تاریخ کے تغیرات کے مطابق اپنی شکل اور ہیئت کو بدلنے کی سکت رکھتا تھا۔ یہ تہذیب سکوت و جمود سے ناآشنا تھی۔ اس لیے ہرآنے والے چیلنج کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتی تھی۔
معروف مؤرخ و فلاسفر آرنلڈ ٹائن بی (م:۱۹۷۵ء)کا یہ نظریہ کافی صائب ہے کہ جو تہذیبیں اپنی خلاق اقلیت کی مدد سے چیلنجوں کا مؤثر ردعمل (response) دیتی رہتی ہیں وہ ارتقاء اور ترقی کی منازل طے کرتی رہتی ہیں، اور جو تہذیبیں اِن چیلنجوں سے مغلوب ہوجاتی ہیں، وہ زوال کا شکار ہوتی چلی جاتی ہیں۔ راقم اس علمی نظریے میں اس قدر اضافہ کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ خلاق اقلیت تہذیبی ڈسکورس کو توانا رکھتی ہے اور علم و ایجاد کی نئی جہتیں دریافت کرتے ہوئے اِس ڈسکورس کو زمانی تغیر سے جنم لینے والے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کا اہل بناتی ہیں۔ خلاق اقلیت کے ساکت و جامد ہوجانے کے بعد یہ ڈسکورس پسپا ہونا شروع ہوجاتا ہے اور نتیجتاً زوال کے مہیب سائے اس تہذیب کو آن گھیرتے ہیں۔
علیٰ ہذا القیاس، ’وحدت‘ سے ’کثرت‘ کی جانب اس سفر نے بہت جلد مسلم تہذیب کو عالمی سطح پر سب سے توانااور مؤثرترین سیاسی و تہذیبی اکائی کے طور پر لاکھڑا کیا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی طور پر مسلم تہذیب منقسم ہوگئی۔ اس طرح اندلس، مصر، ایران اور وسطی ایشیا میں مختلف مملکتوں کا وجود عمل میں آگیا،لیکن اِن تمام سیاسی اکائیوں کے پس پردہ واحد تہذیبی ڈسکورس کارفرما رہا جس کی ابتداء پیغمبرؐاسلام نے حجاز سے کی تھی اور جس کا اصل الاصول ’وحدت‘ تھا، یعنی تمام نوعِ انسانی کو ایک وحدت میں پرونا، جو کہ ’وحدت میں کثرت‘ کے تصور ہی کے ذریعے سے عمل میں آسکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ڈسکورس جہاں کہیں بھی گیا، مقامی سیاق و سباق کو پیش نظر رکھا گیا۔ اندلس میں عرب اور بربر قبائلی روایات اور رسوم و رواج میں باہمی اتصال اور تعامل، اور اسی طرح ہندستان میں مسلمانوں کی صوفیانہ روایت کا بھگتی تحریک سے مشتق ہونے والے ضوابط پر صاد کرنا، دراصل مسلم ڈسکورس میں رواداری اور کثیرالجہتی عناصر کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت کی غماز کاوشیں تھیں۔ اسی حوالے سے ہم ایران، وسطی ایشیا اور براعظم افریقا میں نمو پانے والی متعدد ثقافتوں سے مسلم ڈسکورس کے اتصال کو بھی مثال کے طور پر پیش کرسکتے ہیں۔
ابن خلدون کے مقدمہ کی تفہیم جو راقم کو محسن مہدی اور روزنیتھال کے تراجم و تشریح کی مدد سے حاصل ہوتی ہے، اس کے مطابق تہذیب کا سیاسی و سماجی اظہار ،عصبیہ‘ کی بابت ہوتا ہے اور عصبیت کے باعث انسانی گروہ ارتقا کی منازل کو طے کرتے ہوئے اپنی انتہائی حالت میں سلطنت کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ عہدحاضر جو کہ ’جدیدیت‘ اور ’بعد از جدیدیت‘ کے اثرات سے عبارت ہے، اس میں سلطنت کو عہد ِ وسطیٰ کی بدترین سیاسی و حکومتی تنظیم کے طور پر تصور کیا جاتا ہے، جو جبرواستبداد کا مظہر تھی۔ ان تنقیدی نکات کا اقرار کرتے ہوئے راقم اس پہلو کی جانب اشارہ ضرور کرے گا کہ نظمِ سلطنت میں فرد کو اجتماع کے مقابلے میں قدرے زیادہ آزادی میسر تھی۔ ریاستی کنٹرول کی وہ شدت جو بعدازاں قومی ریاست کے وجود میں آجانے کے ساتھ عمل میں آئی، وہ سلطنت کے نظم میں عنقاء تھی۔ اس تمام تر بحث میں، یہ نکتہ پیش نظر رہنا ازحد ضروری ہے کہ قرون وسطیٰ میں مسلم تہذیب کامحور ایسی سلطنتیں ہی تھیں۔ فرد کو میسر آزادی اور ثقافتی، علمی و نظری اختلاط کے باعث مسلم ڈسکورس مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا اور ’کثرت‘ کے پھیلائو کے باوجود اس کا ’وحدت‘ سے ناتا برقرار رہا۔ سیاسی عداوتیں بھی تمدنی اور فکری جہتوں کا وحدت کے ساتھ تعلق نہ توڑ سکیں۔ شریعت اور طریقت کی سطحوں پر یہ ہم آہنگی قائم رہی۔
امام غزالی، بوعلی سینا، مولانا رومی، فرید الدین عطار، مسعودی، البیرونی اور ابن خلدون جیسے مشاہیر اسی وحدت کے غماز تھے، جو کثرت کو استحکام عطا کرتی تھی۔ یہ مشاہیر کسی ایک تمدن، ملک یا معاشرے کی نمائندگی کرنے کے بجائے ایک مربوط اور آفاقی مسلم طرزِفکر کی نمائندگی کرتے تھے، جسے راقم مسلم ڈسکورس کا نام دے رہا ہے۔ عباسیوں کے عہد میں بغداد، اندلس میں اُمویوں کے دور میں غرناطہ، وسطی ایشیا میں سمرقند و بخارا اور ہندستان میں دہلی، آگرہ اور جونپور مسلم ڈسکورس کے علَم بردار تھے، اور ان کا باہمی ربط بھی قائم و دائم تھا۔ اہل علم اور صوفیا تلاشِ حق کی خاطر سفر اختیار کرتے اور ان کی ایک مقام سے دوسرے مقام پر جاکر سکونت اختیار کرلینے کے سبب مسلم ڈسکورس ایک عالم گیر حقیقت بن گیا۔ ان مشاہیر کے ایک سلطنت کے علاقوں سے دوسری سلطنت میں جاکر بس جانے پر قطعاً پابندی نہ تھی۔ چنانچہ ان کے ذریعے سے مسلم ڈسکورس کے پھیلنے اور مقامی علمی و ثقافتی روایات سے اختلاط کا عمل جاری رہا۔
یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اٹھارھویں صدی کو مسلم تہذیب اور علمی روایت کے زوال کی صدی کہا جاتا ہے۔ یہ زوال انیسویں صدی کے نصف تک مکمل انحطاط پر منتج ہونے پر نوآبادیاتی نظام کی باقاعدہ شروعات کا باعث بنا۔ ہمارے خیال میں اٹھارھویں صدی میں مسلم سلطنتوں میں سیاسی شکست و ریخت کا عمل شروع ہوا جو کہ سیاسی تنظیمِ نو کا تقاضا کر رہا تھا۔ تمدنی و فکری حوالے سے یہ انحطاط قطعاً نہ تھا۔ زوال (Decline) کا سبق مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے پیروئوں کو برطانوی نوآبادیاتی افسروں اور مستشرقین نے پڑھایا۔ مسلم معاشروں اور مسلم فکری روایت کے لیے یہ پروانۂ اجل سے کم تر صورت نہ تھی۔ مسلم دُنیا میں جغرافیائی و لسانی نیشنلزم کی داغ بیل پڑی، جس سے ’کثرت‘ نے اپنی الگ ’وحدت‘ کو تشکیل دینا شروع کیا، جس سے ربط و ضبط اور علمی و تمدنی اختلاط کا عمل مکمل طور پر معطل ہوکر رہ گیا۔
یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ’وحدت‘ کا سب سے وقیع جوہر ’خلاقیت‘ (Innovation) ہے جو جزوی طور پر ’کثرت‘ کے ذریعے اپنے آپ کو آشکار کرتی ہے۔ ’کثرت‘ میں یہ خلاقی جوہر انسانی فکر کے ذریعے سے تشکیل پاتا ہے اور ارادہ اس خلاقیت کے طبعی اظہار کا محرک بنتا ہے۔ اس خلاقیت کو اپنی تکمیل تک پہنچنے کے لیے تسلسل کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تسلسل (روایت کا) خلاقیت کو اس کے منبع سے منسلک رکھتا ہے اور خلاقیت اسی تسلسل سے قوت حاصل کرکے اپنی اَزسرنو تنظیم کرتی ہے اور اپنے عناصر ترکیبی کو نئی توانائی بھی فراہم کرتی رہتی ہے۔ مشرق اور مغرب کی خلاقی روایتوں میں چند بنیادی اختلافات (differences) ایک روایت کے تسلسل میں تعطل کا پیدا ہوجانا ہے۔ انیسویں صدی میں ہم نے یہ عملاً ہوتے ہوئے دیکھا۔
مسلم اشرافیہ کو یہ یقین دلایا گیا کہ وہ زو ال پذیر ہے اور اسے حیاتِ نو کے لیے اپنے ڈسکورس کو تیاگ کر مغربی ڈسکورس کو اپنانا ہوگا۔ اس طرح انیسویں صدی کے تمام مقامی ڈسکورس لایعنی ہوکررہ گئے اور ہرطرف مغربی جدیدیت نے ڈیرے ڈال لیے۔ مقامی فکری و نظری روایات کو طاقِ نسیاں پر رکھ دیا گیا اور آج ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں رائج ڈسکورس کا اپنی کلاسیکی روایت سے دُور پار کا بھی کوئی رشتہ، واسطہ نہیں ہے۔
وحدت کے حوالے سے یہ واضح کرنا بھی اہمیت کا حامل ہے کہ انسانی عقل کی دسترس وحدت کی مکمل تفہیم کے لیے قطعاً ناکافی ہے۔ ’وحدت‘ ایک تسلسل کے ساتھ ’نامعلوم‘ سے ’معلوم‘ کی جانب انسانی رسائی کو ممکن بناتی چلی جاتی ہے۔ انسانی انحطاط کی بڑی وجہ یہی ہے کہ انسانی ارادہ کمزور پڑنے کی وجہ سے شعور ’نامعلوم‘ میں پوشیدہ حقائق کو ’معلوم‘ کے پیرائے میں منتقل کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
انیسویں صدی کے وسط میں مسلم فکر اور شعوراجتماعی طور پر اس اہلیت سے محروم ہوچکا تھا۔ قومیت کے مغربی تصور اور عقلیت پر حد سے زیادہ انحصار کرنے کی روش نے تخیل اور عینیت (Idealism) سے مسلم ڈسکورس کو دُور کردیا تھا۔ نوآبادیاتی عہد میں تقلید کو ترجیحی آپشن سمجھ کر اپنا لیا گیا۔ ’وحدت‘ اور ’کثرت‘ کا باہمی ربط و ضبط شکست و ریخت کا شکار ہوکر فکری انتشار میں بدل گیا۔ تفرقہ اور مذہبی نفاق روزمرہ کا معمول بن گیا۔ مقامی روایتوں نے اپنے آپ کو مغربی پیمانوں پر پرکھنا شروع کر دیا۔ خود تشخیصی کا عمل معدوم ہوگیا اور مسلم ڈسکورس ’اطراف‘ میں گم ہوکر رہ گیا۔
مغربی علوم کے غلبے کا اثر زائل کرنے کے لیے مسلم ڈسکورس کوحیاتِ نو بخشنا، سب سے اہم ہے اور اُسے محض مذہبی تفکر تک محدود کر دینا مغربی علمی و ثقافتی غلبے کو مضبوط تر بنانے کے مترادف ہے۔ چنانچہ مسلم کلاسیکی علمی روایت کو ایک نئے ولولے کے ساتھ جدید علوم کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے محض مدرسوں یا مساجد تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے۔
اوّلاً تو ’مسلم ڈسکورس‘ کو ایک نئی زندگی عطا کرنا ہوگی، جس کے لیے ’مستشرقیت‘ کے بالمقابل اپنے نظام ہائے علوم کی ترویج و ترقی کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ نوآبادتی عہد میں مغربی علوم اور بالخصوص ’مستشرقیت‘ نے مقابل نظام ہائے علوم کو اس کے بنیادی منابع سے کاٹ دیا جس کے باعث علمی و فکری روایت اس تسلسل سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی جو کہ اس روایت کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔
اس بات کا اعادہ کرنا ضروری ہے کہ اپنی علمی و فکری روایات (جو کہ بچی کھچی رہ گئی ہیں) کو ان کے کلاسیکی سرچشمے سے جوڑنا سب سے اہم اقدام ہے۔ اس ضمن میں اپنے سماجی و انسانی علوم کی بابت نظریہ سازی کا عمل مقامی سطح پر رائج کرنا ’بعداز نوآبادیاتی‘ معاشروں کی آزادیٔ فکر وعمل کے لیے لازمی ہے۔ تدریسِ علم اور افزائشِ علم کے ذریعے سے ہی مشرقی معاشروں بالخصوص مسلم اقوام خود مختاری کا مقصد حاصل کرسکتی ہیں۔ مزید برآں مسلم دُنیا کو میسر انسانی ذرائع کی ترقی وہ واحد راستہ ہے، جو اُسے عظمت ِ رفتہ کے حصول کے لیے ’خلاقیت‘ کے اُن جواہر سے آراستہ کرسکتا ہے، جو مغربی غلبے سے نجات کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ تعلیمی اصلاحات علم و ایجاد کی راہیں کھولیں۔ قانون کی حکمرانی جس میں عدل و انصاف ہر خاص و عام کو میسر ہو، اور صحت ِ عامہ کی سہولت جس کی تمام تر ذمہ داری ریاست کی ہو۔
آخر میں یہ کہتے ہوئے راقم اس بحث کو سمیٹنا چاہتا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک کو ’نیشنل سیکورٹی اسٹیٹ‘ سے ’سوشل سیکورٹی اسٹیٹ‘ کی طرف بڑھتے رہنا ہوگا۔ علاوہ ازیں اپنے تشخص اور قومی سلامتی کے لیے اپنے فیصلے خود کرنے ہوں گے۔ چاہے اس کے لیے ہم سب کو مشکل ترین لمحات سے ہی کیوں نہ گزرنا پڑے۔
مسلم معاشروں کے شہر یوں کو آزادی کے تصور سے آگاہ کرنا تعلیمی نظام کے اہم ترین مقاصد میں سے ایک ہونا ضروری ہے۔ آزادی ہی انسانی صلاحیتوں کو توانا کرتی ہے اور ان کے اظہار کے لیے معاون ثابت ہوتی ہے۔ یہی قدر (آزادی) مسلم ڈسکورس کا کلیدی تعارف ہے جوانسانوں کو ہر طرح کی غلامی سے آزادی کی نوید سناتا تھا۔ اسی لیے راقم اس امر پر زور دیتا آیا ہے کہ فتح علی ٹیپو جیسے مسلم رہنمائوں کو پاکستان کے بانیان کی صف میں لاکھڑا کرنا چاہیے۔ ٹیپو سلطان جیسی بلندقامت شخصیات دُنیاوی کامیابیو ں کی محتاج نہیں ہوتیں۔ ان شخصیات کا مقصد کسی کی بھی ذات سے بلند تر ہوتا ہے۔ زندگی اور موت کسی بھی مقصد کے لیے ہو تو زوال سے نکلنا اور عروج کی جانب سفر کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔ اِن حالات میں زندگی کا ہرلمحہ، کسی بامعانی مقصد کے حصول میں صرف کرنے کی ترغیب ہی نوجوان نسل کو تخیل کی نئی منزلوں کی جانب گامزن کرسکتی ہے۔
آزادی کی ماہیت میں جاکر یہ معلوم کرنا چنداں مشکل نہیں ہوتا کہ اس جذبے کی تکمیل ذمہ داری کے احساس کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے نوجوان نسل کو باور کرانا بہت اہمیت رکھتا ہے کہ آزادی اور احساسِ ذمہ داری لازم و ملزوم ہیں، بالکل اسی طرح جیسے حق (Right) اور فرض (Obligation) ایک دوسرے کے بغیر بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں۔
معاشرے پر ’اشرافیائی قبضہ‘ (Elitism)کی اصطلاح تب استعمال کی جاتی ہے، جب وسائل کا کنٹرول بلند سماجی مرتبہ رکھنے والے چند افراد کے ہاتھوں میں دے دیا جائے اور یہ گروہ عوام کی وسیع تر بھلائی کو نظر انداز کر کے ان وسائل کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرنے لگے۔ ایسے معاشرے میں فیصلہ سازی کا اختیار بھی انھی چند افراد کو حاصل ہوتا ہے، کیونکہ طبقاتی تفریق، بڑے اثاثہ جات کی ملکیت، سیاسی رسوخ، تاریخی تعصب، جماعتی وابستگی، معاشی مقام و مرتبے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مذہبی حوالے کے استعمال، جیسے عوامل ان کے مددگار ہوتے ہیں۔
بدعنوانی کی یہ قسم اس وقت جنم لیتی ہے، جب طبقۂ اشرافیہ کے لوگ عوام کے لیے مختص وسائل کو عوام پر خرچ کرنے کے بجائے ایسے منصوبوں پر خرچ کرنے لگتے ہیں، جن سے ان کا ذاتی اور گروہی مفاد وابستہ ہوتا ہے۔ معاشرے پر اس اشرافیائی قبضے کا جائزہ لینے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی ایک شعبے کو دیکھا جائے کہ اس پر خرچ ہونے والے وسائل میں سے اشرافیہ کا حصہ کتنا ہے اور بقیہ عوام پر کتنا حصہ خرچ ہوتا ہے؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ اشرافیہ کو شامل کر کے یا انھیں شامل کیے بغیر، اس منصوبے پر ہونے والے اخراجات متعین کیے جائیں اور پھر ان کے درمیان فرق کا جائزہ لیا جائے۔ اس قسم کی معلومات کی جمع و تدوین میں عموماً عوامی فلاح کے منصوبوں اور ان کے اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ کسی بھی منصوبے کے اثرات کا تجزیہ کرنے کے لیے تین طرح کی صورتیں دیکھی جاتی ہیں: اوّل، اس منصوبے سے حاصل ہونے والے فوائد کی موجودہ غیر مساوی تقسیم۔ دوم،ایک فرضی مساویانہ تقسیم اور سوم، اس منصوبے کی قطعی غیر موجودگی۔اس طرح حاصل ہونے والے اعداد و شمار کا جائزہ لے کر ہم عوامی فلاح پر ’اشرافیائی قبضے‘ کے اثرات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
یہاں پر یہ بات مدنظر رہے کہ ’اشرافیائی قبضے‘ کے ذریعے ہونے والی یہ بدعنوانی اس عام کرپشن سے مختلف ہے جسے جرم سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سرکاری ملازمین کا مال میں خردبرد کرنا وغیرہ۔کچھ ماہرین سماجیات نے اشرافیہ کو پہچاننے کے لیے تین طریقے متعین کیے ہیں:اوّل ذاتی، یعنی کسی شخص کے سرکاری یا باضابطہ عہدے کی بنیاد پر۔ دوم، فیصلہ سازی پر اثرانداز ہونے کی اہلیت کی بنا پر۔ سوم، شہرت اور پہچان کی بنیاد پر، یعنی وہ شخص بھی طبقۂ اشرافیہ میں شامل سمجھا جائے گا، جسے اشرافیہ کے لوگ یا معتبر مبصرین اشرافیہ کا حصہ تصور کریں۔ تاہم، پاکستان میں اشرافیائی طبقے یا افراد کو سمجھنے کے لیے یہ پیمانے اکثر ناکافی ثابت ہوتے ہیں۔
معلومات کی غیر مساوی تقسیم (یعنی چند مخصوص افراد کی ان معلومات تک رسائی جو عوام کی نظر سے اوجھل ہوں)، ضابطوں کی خلاف ورزی اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم، ان اشرافیائی بدعنوانیوں کو جاری رکھنے میں مددگار ہوتی ہے۔ انھی عوامل کے باعث اشرافیہ کے نمایندے قانون میں موجود سقم (anomaly)سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ٹھیکوں میں بے ضابطگی یا من پسند قیمتوں وغیرہ کے ذریعے عوامی وسائل کا رُخ اپنی جانب موڑ لیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے عوام کے لیے مختص بجٹ کا بہت کم حصہ اپنے اصل مقصد کے لیے استعمال ہو پاتا ہے۔ چنانچہ عوامی وسائل اور سہولیات کی تقسیم غیر متناسب ہونے لگتی ہے اور آبادی کا ایک بڑا حصہ ان سے محروم رہ جاتا ہے۔
اشرافیہ کے شکنجے میں جکڑے معاشرے میں ان کاغذی معاشی و فلاحی منصوبوں کو نہ تو سماج دوست سمجھا جا سکتا ہے، اور نہ معاشرے میں دولت کی تقسیم کو درست قرار دیا جاسکتا ہے۔ ’سماج دوست معاشی منصوبہ‘ اس صورت حال کو کہتے ہیں، جب کسی ایک نظام میں وسائل کی تقسیم ایسی ہو کہ کسی ایک فریق کو متاثر کیے بغیر دوسرا فریق بھی ان وسائل سے کماحقہٗ فائدہ اٹھارہا ہو۔
شروع میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ عدم مرکزیت پر مبنی حکومتیں، منصوبہ سازی میں ایک مرکزی حکومت کی نسبت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گی، کیونکہ مرکزیت پر مبنی نظامِ حکومت میں معلومات تک رسائی مؤثر نہیں ہوتی اور یہاں کسی ایک فریق کی جانب سے لابنگ کر کے حکومت پر اثر انداز ہونے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے، چنانچہ کچھ شعبے نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ ماہرین معاشیات و سماجیات کے خیال میں لوگوں کو حکومت کاری، نگرانی اور فیصلہ سازی میں شریک کرنا مجموعی طور پر سودمند ثابت ہوتا ہے اور عوامی وسائل کی ایک منصفانہ، عادلانہ اور پائیدار تقسیم عمل میں آتی ہے۔
تاہم، عدم مرکزیت کے اصولوں پر قائم حکومتوں کی سرپرستی میں چلنے والے کئی منصوبوں کے نتائج نے ان خوش کن توقعات کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ سامنے آئی کہ جب اختیارات کئی چھوٹی اکائیوں میں تقسیم ہوتے ہیں تو بااثر گروہوں کے لیے ان مقامی حکومتوں پر اثر انداز ہونا آسان ہو جاتا ہے۔ پھر یہی گروہ اپنے مفاد کے لیے اجتماعی مفاد کو قربان کرتا ہے، تو ریاستی اعتماد زوال کی ڈھلوان پر لڑھک جاتا ہے۔ قومی حکومتوں کے مقابلے میں مقامی حکومتوں پر اشرافیہ کے قبضے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے کئی قسم کی کوششیں بروئے کار لائی جاتی ہیں۔ مثلاً منصوبہ بندی کے لیے ایک مرکزی نظام کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے یا پھر منصوبے کے لیے مختص فنڈ براہِ راست شہریوں کے حوالے کیے جا سکتے ہیں۔
یہاں دوسرے مجوزہ حل پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ کسی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سیاسی رہنماؤں اور عام شہریوں کی صلاحیتوں میں فرق ہوتا ہے۔ ’عالمی بنک‘ (WB) نے بھی اس مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ’’ترقیاتی امداد کسی شکل میں بھی ہو، عوام تک منتقلی کے دوران اس پر اشرافیہ کے قبضے کا امکان موجود رہتا ہے، کیونکہ اسے اُچکنے کے لیے درمیان میں کوئی نہ کوئی سہولت کار شامل ہوتا ہے۔ چنانچہ مرکزی و غیر مرکزی نظام دونوں میں عوامی وسائل کی غیر مؤثر تقسیم سے کئی خطرات جنم لیتے ہیں، جو مقامی آبادی میں وسائل کی غیر مساویانہ تقسیم اور فلاحی منصوبوں کی ناکامی کا باعث بنتے ہیں۔
’اشرافیائی قبضے‘ اور امتیازی سلوک پر مبنی نظام میں کئی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ دونوں میں طاقت کی تقسیم غیر منصفانہ ہوتی ہے اور دونوں عوام کے لیے وسائل سے محرومی کا باعث بنتے ہیں۔ تاہم، یہ دونوں مظاہر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ’اشرافیائی قبضہ‘ طاقت کی غیر ہموار تقسیم سے جنم لیتا ہے، جب کہ امتیازی سلوک ضروری نہیں کہ ریاست میں طاقت کے عدم توازن کا ہی نتیجہ ہو۔
اشرافیائی قبضہ ایک متحرک اور مسلسل عمل کا نام ہے کیونکہ کسی نئے اشرافیائی فریق کے شامل ہونے سے طاقت کا توازن تبدیل ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف امتیازی سلوک تقریباً جامد رہتا ہے۔ ’اشرافیائی قبضہ‘ بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے،جب کہ سماجی امتیازی رویہ، سماجی روایات کی مریضانہ پیروی سے جنم لیتا ہے۔ ’اشرافیائی قبضے‘ اور ’ریاستی قبضے‘ میں یہ بات مشترک ہے کہ دونوں صورتوں میں نجی فائدے کے لیے اجتماعی وسائل استعمال ہوتے ہیں،لیکن طاقت کے استعمال کو دیکھا جائے تو یہ دونوں مظاہر مختلف ہیں۔
کسی معاشرے پر ’اشرافیائی قبضہ‘ معاشرے کو بجا طور پر اپنی جاگیر سمجھنے والے اشرافیائی طبقات کی جانب سے عمل میں آتا ہے،جب کہ ریاست پر قبضہ ان فریقین کی جانب سے ہوتا ہے جن کے پاس ریاست کی اصل طاقت ہوتی ہے۔ بین الاقوامی کمپنیاں (MNCs)یا طاقت ور تنظیمیں اور سوسائٹیاں اکثر اپنی طاقت کے بل پر پوری ریاست کو یرغمال بنا کر فیصلہ سازی کے عمل پر مسلط ہو جاتی ہیں۔ بہرحال یہ دونوں عوامل بُری حکومت کاری کا باعث بنتے ہیں اور معاشرہ ایسے خوفناک چکر میں داخل ہو جاتا ہے، جس سے سرکاری اور اداراتی کارکردگی بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔
پاکستان میں ’درمیانی طبقے‘ (Bourgeois) سے متعلق کسی قسم کا تجرباتی علم نہ ہونے اور بدیسی اصطلاحی مفہوم سے متاثر ہونے کے باعث لوگ اس ڈاکازنی کو سمجھ نہیں پاتے۔ چنانچہ لوگ اپنا اشرافیائی مرتبہ پہچاننے میں بھی غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر معاشرے نے اپنی آسانی کے لیے کئی تعریفیں متعین کر لی ہیں۔ اعلیٰ طبقاتی تعلیمی اداروں جیسے لمز اور ایچی سن کالج وغیرہ سے سند یافتہ تمام طالب علم، مہنگے علاقوں یعنی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی یا بحریہ ٹاؤن کے تمام رہائشی، یا بیوروکریسی اور دفاعی اداروں کے تمام افراد کو اشرافیہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن اس طرح وہ اصل لوگ نظر انداز ہو جاتے ہیں، جو ریاست اور معاشرے پر حقیقی معنوں میں قابض ہیں۔
جب ہمارے ہاں اکثر اشرافیہ اور اس کے دائرہ اثر کی درست تعریف کیے بغیر اس مسئلے پر بات کی جاتی ہے اور اصل فیصلہ ساز قوتوں کو نہ پہچاننے کی کوشش کی جاتی ہے، تو یہ سوال پوچھنا بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ کون سا طبقۂ اشرافیہ ہے جو ریاست پر قبضے کا ذمہ دار ہے؟
اس معاملے میں تو کوئی ابہام یا غلط فہمی نہیں پائی جاتی کہ پاکستان کے عوام طاقت اور اختیار کے دائرے سے باہر ہیں۔ اس دائرے کا تمام تر پھیلائو، پاکستانی اشرافیہ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے لیے مخصوص ہے، جو بڑے بڑے تاجروں، صنعت کاروں، جاگیرداروں، روحانی لیڈروں اور سول و فوجی افسران کے منظم نیٹ ورک پر مشتمل ہے۔ یہ تمام عناصر مل کر اپنے سیاسی غلبے کا تحفظ کرتے ہیں اور پھر اس سیاسی رسوخ کو بڑی بے رحمی سے باہمی فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اپنے ظاہری اختلافات اور تفریق کے باوجود یہ عناصر طبقاتی مفادات کے تحفظ کے لیے کئی معاملات میں متحد رہتے ہیں۔ اس طبقے کے داخلی تعلقات کی دُنیا لازمی طور پر باہمی تعاون، اشتراک، اور دوطرفہ کاوشوں کے لیے راہ ہموار کر تے ہیں تا کہ ریاستی وسائل پر قبضہ برقرار رکھا جاسکے۔
بڑے بڑے پراپرٹی ڈیلر، چینی کے صنعت کار، بااثر فوجی افسران، اور کاروباری اشرافیہ فیصلہ سازی کے عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں اور بلاواسطہ و بالواسطہ اپنا معاشی و سیاسی رسوخ استعمال کرتے ہیں۔ بدلے میں انھیں یقین دہانی کروائی جاتی ہے کہ کوئی ایسا بامعنی اصلاحی پروگرام متعارف نہیں کروایا جائے گا، جو ان کے اقتدار پر اثرانداز ہو سکتا ہو۔
ریاست پر اشرافیائی قبضہ اس لیے برقرار رہتا ہے کہ یہ اشرافیہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے تئیں منافع اور کاروبار کے مائی باپ سمجھتے ہیںاور اس عمل کو ریاستی وجود کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ ان کے کاروبار زیادہ تر کرائے کے ماڈل پر چلتے ہیں، یعنی یہ بغیر کچھ کیے فقط اپنی ساکھ، تعلقات کی دھونس اور اپنے سرمایے سے سرمایہ پیدا کرتے ہیں۔ اس نمونے پر چلنے والی معیشتوں کے لیے بیرونی ممالک سے آنے والا ’کرایہ‘ یعنی منافع آمدن کا اہم ذریعہ ہوتا ہے۔ لیکن اس ضمن میں پاکستان کو سری لنکا کی مثال سے سبق سیکھنا چاہیے کہ فقط کرائے کی آمدن پر معیشت نہیں چلائی جا سکتی۔ ہمارے پاس ابھی وقت ہے کہ ہم اپنا قبلہ درست کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے اس منظرنامے کو سمجھنے کے لیے حسب ذیل دو آراء قابلِ غور ہیں:
حمزہ علوی یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ سول اور عسکری افسر شاہی کا غیر ضروری پھیلاؤ ’افراط ترقی‘ کو جنم دیتا ہے، جو معاشرے کی حقیقی ترقی کے لیے رکاوٹ ہے۔ نوآبادیاتی دور سے گزرنے کے بعد چلنے والے معاشروں میں کم ہی ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ حکمران طبقے میں مکمل یکسانیت پائی جاتی ہو۔ یہاں حکمران طبقہ کئی ذیلی طبقات میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ذیلی طبقے کا ریاست کے ساتھ رشتہ مختلف ہوتا ہے۔ ایک مابعد نوآبادیاتی ریاست کی بقا انھی مقتدر طبقات پر منحصر ہوتی ہے اور یہ طبقے باہمی مفاد کے لیے ایک دوسرے کا سہارا بنتے اور مفادات سمیٹتے ہیں۔ ان طبقات میں ایک مقامی اشرافیہ، ایک جدید نوآبادیاتی اشرافیہ یعنی بین الاقوامی کمپنیوں کے نمایندے اور جاگیر دار اشرافیہ شامل ہیں۔ ریاست ان مختلف طبقات کے درمیان محض ثالث کا کام کرتی ہے تا کہ ان کے پورے اور کسی حد تک ریاست کے مفادات کو محفوظ بنایا جا سکے۔
عائشہ صدیقہ ’فوجی کاروبار‘ کی اصطلاح پیش کرتے ہوئے لکھتی ہیں: ’’دفاع کے لیے مختص سرمایہ مختلف فلاحی اداروں،ٹال پلازوں، شاپنگ سینٹرز، پیٹرول اسٹیشن وغیرہ کے ذریعے دفاعی اداروں کے افسران پر استعمال ہوتا ہے، جب کہ ریٹائر افسران کو زمین اور کاروباری مواقع بھی مہیا کیے جاتے ہیں‘‘۔
پاکستانی معاشرے پر نوآبادیاتی اثرات بہت گہرے ہیں۔ دوسری نوآبادیات کے برعکس جہاں انگریز خود آباد ہو گئے تھے،یہاں اس قسم کے ادارے تشکیل دیے گئے تھے، جو یہاں سے برطانیہ کے صنعتی انقلاب کے لیے وسائل مہیا کر سکیں۔ اشرافیہ کا طاقت ور ترین ہتھیار ریاست کا وہ نظام ہے، جو یہاں سے منافع حاصل کرنے کے لیے کئی عشروں کی محنت سے تشکیل دیا گیا ہے۔ اشرافیہ نہ صرف ہر طرح کی پالیسیوں کے اثرات متعین کرتے ہیں بلکہ وہ ان پالیسیوں اورریاستی مشینری کو اپنے فائدے کے لیے استعمال بھی کرتے ہیں۔ اس سارے عمل کے لیے سرکاری ادارے، سیاسی خاندان، یا مخصوص افراد ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ ریاستی ڈھانچے کے اندر اشرافیہ نے اپنے لیے جو جگہ متعین کرلی ہے وہ اس سارے عمل کو ممکن بناتی ہے۔
’یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام ‘(UNDP) کی جانب سے جاری کردہ ’نیشنل ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ ۲۰۲۰ ء‘کے مطابق پاکستان کی سرکاری مشینری پر آٹھ گروہ قابض ہیں جو اس کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں، جن میں سرکاری ادارے، فوجی اسٹیبلشمنٹ، امیرترین افراد (ایک فی صد طبقہ)، بڑے تجار، برآمد کنندگان، بنک، صنعت کار اور جاگیردار شامل ہیں۔
سال ۲۰۱۷ءتا ۲۰۱۸ء میں ان میں سے صرف صنعت کار طبقے نے ملکی معیشت کو ۵۲۸؍ارب روپے کا نقصان پہنچایا تھا۔ یہ وہ رقم تھی جو محصولات کی مد میں اکٹھی کی جانی تھی، لیکن ٹیکس چھوٹ اور صنعت کاروں کی من پسند قیمتوں کے ذریعے اسے ضائع کر دیا گیا۔ متذکرہ بالا تمام عناصر اسی شرح سے معیشت کو نقصان پہنچاتے رہے ہیں۔ اسی دوران بینکوں نے ۱۹۶ ؍ارب روپے کی رعایت(سبسڈی) حاصل کی اور اوسطاً ہر شعبے نے معیشت کو ۳۳۲ ؍ارب روپے کا نقصان پہنچایا۔ مجموعی طور پر یہ رقم۲ء۷ کھرب روپے بنتی ہے، جو ہماری ’خالص قومی پیداوار‘ (GDP) کا تقریباً ۸ فی صد حصہ ہے۔
پاکستانی اشرافیہ بیرون ملک سے کرائے کی آمدن حاصل کرنے کے لیے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔انھوں نے اندرون ملک مواقع پیدا کرنے کے بجائے مغربی ممالک، چین اور تیل پیدا کرنے والے خلیجی ممالک سے ڈالر کمانے کے ذرائع تلاش کر لیے ہیں۔ تاریخی طور پر پاکستانی اشرافیہ ملک کی جغرافیائی اہمیت سے فائدہ اٹھاتے آئے ہیں۔
مہاجرین کسی متوقع بحران سے بچنے کے لیے امریکا اور یورپ اب تک پاکستان کے ریاستی ڈھانچے کو سہارا دیتے رہے ہیں۔ ان کی یہ مدد عالمی مالیاتی فنڈ سے قرضوں کی فراہمی، تیل کی ادائیگیوں میں تاخیر، سفارتی مدد، اور فوجی ادائیگیوں کی شکل میں ہمیں ملتی رہی ہے۔ اندرونی طور پر یہ امداد ہمارے فیصلہ سازوں کے لیے مددگار رہی ہے کہ وہ اپنے نجی مفادات کو قربان کیے بغیر ریاست کا موجودہ ڈھانچا قائم رکھ سکیں۔
پاکستانی اشرافیہ اس تصور کے ساتھ اپنا کاروبارِ اختیار و معاش چلاتا آیا ہے کہ دنیا میں پاکستان کی جیواسٹرے ٹیجک (جغرافیائی) اہمیت ہمیشہ یونہی برقرار رہے گی اور اس کا فائدہ ان کو پہنچتا رہے گا۔ تاہم، گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اور امریکا، چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی بدلتی سیاست کے ساتھ ہماری یہ پوزیشن مشکل میں پڑ سکتی ہے۔ بین الاقوامی نظام میں رُونما ہونے والی تبدیلیوں نے ’پاکستانی اشرافیہ‘ کی اہمیت کم کردی ہے۔ اب ضروری ہے کہ وہ بیرونی آمدن پر انحصار کم کریں اور اندرونِ ملک اصلاحات پر توجہ دیں۔
ہمارے فیصلہ ساز معاشی اصلاحات کی ضرورت سے باخبر ہیں۔ فی الوقت صرف ۲ فی صد پاکستانی آمدن پر ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ۶۰ فی صد سے زیادہ محصولات بالواسطہ ٹیکسوں وغیرہ کے ذریعے جمع ہوتے ہیں، جس کا بوجھ غریبوں پر زیادہ پڑتاہے۔ انفرادی دولت کا تقریباً ۸۰ فی صد حصہ رہائشی زمینوں کی شکل میں موجود ہوتا ہے، جس کا معیشت کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
بجٹ میں زیادہ تر مراعات بھی چینی اور رئیل اسٹیٹ جیسی صنعتوں کو دی جاتی ہیں، جس کی وجہ کاروباری ترقی کی خواہش نہیں بلکہ سیاسی و معاشی مفاد کا حصول ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی برآمد مزدور طبقہ کے افراد ہیں جو خلیجی ممالک بھیجے جاتے ہیں۔
بدلتے ہوئے بین الاقوامی حالات نے ہماری اشرافیہ کے پرانے کاروباری ماڈل کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ اب کرائے پر کام کرنے والی معیشت کو بدلنے کے لیے ایسی اصلاحات کی ضرورت ہے، جن کا اثر براہ راست اشرافیہ پر پڑے۔ اس اقدام سے ریاست پر ان کا قبضہ کمزور ہوگا۔
ضروری ہے کہ ریاست پر ’اشرافیائی قبضہ‘ کی سائنس کو ایک گمبھیر مسئلے کی حیثیت سے سمجھا جائے اور اس کے حل کے لیے کوشش کی جائے۔ اس کے بعد ہی ہم بحرانوں کے اس چکر سے نکل پائیں گے اور کرائے پر انحصار کم ہو گا۔ مگر اس کے لیے سیاسی مینڈیٹ کی ضرورت ہے جو صرف عام انتخابات کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ عمل ریاستی اداروں میں مراعات کی تقسیم کااَزسرنو جائزہ لینے کے لیے بھی معاون ہو سکتا ہے۔ ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ شخصی آزادی کے ساتھ محدود وسائل کو اجتماعی فائدے کے لیے مناسب ترین طریقے سے استعمال کر سکیں۔ اس سے اگرچہ بالائی طبقے کے مفادات پر سوال اٹھتا ہے لیکن یہ بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ افراد کو ان کی محنت اور ذہانت کا پھل بہرحال ملتا رہے۔ ترقی کا زینہ سب کے لیے کھلا ہونا چاہیے، جس پر صحت مند مقابلے کی فضا میں تمام افراد اپنا کردار ادا کر سکیں، بشرطیکہ نچلے طبقوں کا مفاد متاثر نہ ہو۔ کسی بھی معاشرے میں میرٹ اور سماجی ترقی کا چلن تبھی عام ہو سکتا ہے، جب معیاری ادارے موجود ہوں اور معاشی ترقی میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
’پاکستانی اشرافیہ‘ طاقت کے لیے آپس میں لڑتی بھی ہے، ان کے اتحاد بھی ہوتے ہیں اور ان کی معاشرتی سرگرمیاں بھی جداگانہ ہوتی ہیں۔ چنانچہ اشرافیہ کو ایک یکسر مختلف گروہ تصور کیا جانا چاہیے۔ اشرافیہ کے ارکان عموماً معاشی وسائل پر قابض تو ہوتے ہیں، لیکن ان کی جدوجہد کے مقاصد ہمیشہ معاشی نہیں ہوتے۔ وہ سماجی اثرات، ثقافتی رسوخ اور سیاسی گرفت کےذریعے بھی آپس میں جڑتے ہیں اورمعاشرے میں اپنا بلند علامتی مرتبہ قائم رکھتے ہیں، تا کہ عوام کے دلوں میں ان کے لیے غیر مشروط احترام موجود رہے۔ اگرچہ اب ہمارے ہاں ’اشرافیائی قبضہ‘ پر بہت بات کی جاتی ہے لیکن اس عمل کی گہری سمجھ نہ ہونے کے باعث بات زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ (ترجمہ: اطہر رسول حیدر)