فروری ۲۰۲۵

فہرست مضامین

امریکی ’جارحانہ نوسامراجیت‘

ڈاکٹر طاہر کامران | فروری ۲۰۲۵ | مغربی تہذیب

Responsive image Responsive image

حال ہی میں امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ٹیسلا کے چیف ایگزیکٹو اور ٹرمپ کے سیاسی معاون ایلون مسک کے بیانات اور اقدامات نے دنیا بھر میں تشویش پیدا کر دی ہے۔ سامراجی قوم پرستی پر مبنی ان کے بیانات اور سامراجی عزائم نے نہ صرف عالمی جغرافیائی و سیاسی توازن کو متاثر کیا ہے بلکہ عالمی تعاون اور امن کے لیے خطرہ بھی پیدا کر دیا ہے۔ یہ تبدیلی خاص طور پر خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی سفارت کاری کے میدان میں پیدا ہوئی ہے، جس نے دنیا بھر میں کشیدگی میں اضافہ کیا ہے۔بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے ٹرمپ کے اختیار کیے گئے رویے اور ایلون مسک کے ایسے متنازعہ بیانات سے پیدا ہونے والی تشویش کو بہت سے لوگوں نے شدت سے محسوس کیا ہے۔

اپنی صدارت (۲۰۱۶ء-۲۰۲۰ء) کے دوران، ڈونلڈ ٹرمپ پر اکثر الزام لگایا جاتا رہا کہ انھوں نے قوم پرستی کے ایک ایسے انداز کو فروغ دیا، جو امریکی عوام کے ایک خاص طبقے میں مقبول تو ہوا، لیکن سفارتی نزاکتوں کو قتل کرنے کی قیمت پر۔ ان کا نعرہ ’سب سے پہلے امریکا‘، جو بظاہر قومی مفادات کو ترجیح دینے کے لیے تھا، اکثر تنقید کی زد میں رہا کہ اس سے دُنیا کی اقوام میں امریکا کو تنہا کرنے کی تلخی ملی اور قائم شدہ بین الاقوامی اتحادوں کو نقصان پہنچا۔

مزید تشویشناک امر یہ ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے دیرینہ اتحادیوں کے ساتھ اجنبیت بلکہ گاہے دشمنی پر مبنی اور عالمی سطح پر زیادہ جارحانہ پالیسیوں کے مطالبات یا دھونس ہیں۔ گرین لینڈ کی حیثیت، نہر پاناما سے متعلق اشتعال انگیز بیانات، اور کبھی کے بھولے بسرے علاقائی دعوؤں کی بحالی جیسے مسائل پر ٹرمپ کا جارحانہ موقف عالمی برادری کے لیے دھچکے کا باعث بنے ہیں۔ گرین لینڈ، جو ڈنمارک کی خودمختاری کے تحت آتا ہے، پر قبضے کی دھمکیاں اور پاناما نہر ، جو ایک اہم بین الاقوامی آبی گزرگاہ ہے، پر غلبہ جتانے (dominance) ،اپنی برتری اور دعوے نے نوسامراجی (Neo-Imperialist) طرز ِ بیان کو ایک نئی نعرے بازی کا عکاس بنایا ہے، اور مذموم نوآبادیاتی دور کی تلخ یادوں کو تازہ کیا ہے۔

ٹرمپ نے مسلسل امریکا کے روایتی اتحادیوں، مثلاً کینیڈا، برطانیہ، جرمنی اور ڈنمارک کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ اتحادی، جو کبھی امریکی خارجہ پالیسی کے مضبوط ستون سمجھے جاتے تھے، آج غیردوستانہ بیانات اور غیر معمولی مطالبات کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ ٹرمپ کا یہ دورِاقتدار بین الاقوامی تعلقات میں اپنے اتحادیوں کے لیے ہمدردی کے فقدان سے داغ دار ہوگا۔

ان کی حکومت کا بین الاقوامی تنازعات، جیسے یوکرین اور امریکا-روس کشیدگی کے بارے میں موقف ایک غیرسنجیدہ رویے کی عکاسی کرتا ہے، جو بین الاقوامی سفارت کاری کی پیچیدگیوں کو نظرانداز کرتا ہے۔ وہ تجزیہ کار جو امید کر رہے تھے کہ ٹرمپ کی صدارت کشیدگی میں کمی اور بین الاقوامی مسائل سے دستبرداری کا باعث بنے گی، وہ اس طرزِعمل اور طرزِ فکر سے غلط ثابت ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

ایلون مسک، جو ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے مالک اربوں ڈالر کے اجارہ دار سرمایہ دار ہیں، وہ بھی تنازعے کا ذریعہ بنے ہیں۔ مسک کے اشتعال انگیز بیانات نے، جن میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اسلاموفوبک ہیں، دُنیا بھر میں مسلم معاشروں اور برادریوں کے لیے شدید پریشانی پیدا کی ہے۔ ان کے تبصروں نے جو بعض اوقات تضحیک پر مبنی ہوتے ہیں، انھوں نے سماجی سطح پر نشانہ بننے والے مسلمانوں میں ردعمل پیدا کیا ہے۔

ایلون مسک کی شخصیت، جسے ان کے بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا اثر و رسوخ نے مزید مضبوط بنایا ہے، موجودہ تلخیوں کو بڑھاوا دیتی ہے۔ حالیہ ہفتوں میں، ایلون مسک نے برطانوی سیاست میں مداخلت کی ہے، اور اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X کو استعمال کرتے ہوئے برطانیہ کے وزیراعظم اور ان کی حکومت کے دیگر اراکین کے بارے میں غیر مصدقہ افواہیں پھیلائیں۔ ۲۱کروڑ ۱۰لاکھ فالورز میں پھیلائے گئے، ان کے اشتعال انگیز بیانات میں، مسک نے وزیراعظم اور لیبر پارٹی کے دیگر قانون سازوں پر برطانیہ کے نام نہاد ’گرومنگ گینگز‘ کو معاونت فراہم کرنے کا الزام لگایا ہے۔ یہ اصطلاح ایک اسکینڈل کی طرف اشارہ کرتی ہے جس میں کئی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیسز شامل تھے، جہاں مختلف شہروں میں لڑکیوں کو مردوں کے گروہوں نے نشانہ بنایا اور ان کے ساتھ زیادتی کی۔ ان مجرموں کی اکثریت مبینہ طور پر برٹش نسل سے تعلق رکھتی تھی۔ ایلون مسک کی پوسٹوں میں بے شمار غلطیاں موجود ہیں، جنھوں نے ایک انتہائی مشہور مسئلے کو ایسے پیش کیا ہے جیسے یہ حال ہی میں دریافت ہوا ہو۔ ان تبصروں نے برطانیہ میں نسل پرستی، امیگریشن، اور استحصال سے متعلق شدید مباحثے کو دوبارہ جنم دیا ہے اور اُس تکلیف دہ اسکینڈل پر توجہ مرکوز کی ہے، جو پہلے ہی معاشرتی تقسیم، تضاد اور گاہے تصادم کا باعث بن چکا ہے۔

عالمی اہمیت کے مسائل، جیسے غزہ کی جنگ اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایلون مسک کے موقف کو خاص طور پر مشرق وسطیٰ اور مسلم ممالک میں شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ان کی بیان بازی نے امریکا اور مسلم دنیا کے درمیان پولرائزیشن اور کشیدگی کو مزید بڑھا دیا ہے، جس سے سفارت کاری اور بین الثقافتی ہم آہنگی کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔

ایسے وقت میں جب دنیا کو ثقافتی اور قومی سرحدوں سے بالاتر ہو کر تعاون کی اشد ضرورت ہے، مسک کے متنازعہ بیانات اور اقدامات امریکا اور اس کے بین الاقوامی شراکت داروں کے درمیان تقسیم کو مزید پھیلا بھی رہے ہیں اور گہرا بھی کر رہے ہیں۔ ’فلسطین-اسرائیل تنازع‘ جیسے حساس مسئلے پر ان کا غیرسنجیدہ رویہ اور خطے کی پیچیدہ تاریخ کو نظر انداز کرنے کی بظاہر لاپروائی نے صورتِ حال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ ان بیانات نے نہ صرف موجودہ دشمنیوں کو بڑھایا ہے بلکہ مسلم دُنیا کے ساتھ معاملات میں امریکا کی ساکھ کو بُری طرح کمزور کیا ہے۔

ٹرمپ اور مسک دونوں کے اقدامات ییل یونی ورسٹی کے تاریخ دان پال کینیڈی کی مشہور کتاب The Rise and Fall of the Great Powers میں پیش کیے گئے نظریے کی عکاسی کرتے ہیں۔ کینیڈی کا ’امپیریل اوور اسٹریچ‘ کا نظریہ یہ کہتا ہے کہ ’’تاریخ میں عظیم طاقتیں اکثر اپنی فوجی اور اقتصادی صلاحیتوں کو قابلِ برداشت حد سے زیادہ بڑھا دیتی ہیں۔ یہ عمل ان کے عالمی اثر و رسوخ میں کمی کا باعث بنتا ہے کیونکہ وہ تنازعات میں اُلجھ کر عالمی غلبے کی ضروریات اور اندرونی استحکام کو برقرار رکھنے کے درمیان توازن قائم کرنے میں ناکام رہتی ہیں‘‘۔

ٹرمپ کی قوم پرستی اور علاقائی دعوؤں کو جتانا، ساتھ ہی دیگر ممالک کے خلاف جارحانہ رویہ اپنانے کا اعلان کرنا، اس تصور کی جدید شکل ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے امریکی اثر و رسوخ کو جارحانہ اقدامات کے ذریعے بڑھانے کی کوشش، چاہے وہ ’گرین لینڈ‘ یا ’پاناما نہر‘ جیسے علاقائی تنازعات ہوں یا ان کی عمومی خارجہ پالیسی، امریکا کو طاقت کے حد سے تجاوز کرنے کے ایک خطرناک مقام پر لے آئے ہیں۔ ان اقدامات نے دنیا بھر میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں، خاص طور پر امریکی اتحادیوں میں، جو اس خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ ’امریکی سلطنت‘ اپنی طاقت کو بدمست ہاتھی کی طرح بروئے کار لانے کی راہ پر چلنا چاہتی ہے۔

جان میرشائمر، ایک ممتاز سیاسی سائنس دان، اور جیفری ساکس، ایک مشہور ماہرِ اقتصادیات،  نے ایسی تشریحات پیش کی ہیں، جو ٹرمپ اور مسک جیسے لیڈروں کی پالیسیوں میں اصلاحی نقطۂ نظر فراہم کرتی ہیں۔ میرشائمر کے بین الاقوامی تعلقات پر کام میں بے قابو طاقت کے اظہار کے خطرات اور عظیم طاقتوں کی عالمی معاملات کو قابو کرنے کی صلاحیت کو سمجھنے کے رجحان پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے مطابق: ’’امریکی خارجہ پالیسی کو طاقت کے توازن پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور دیگر ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو منظم کرنا چاہیے، بجائے اس کے کہ غلبے کی خواہش میں خود کو حد سے زیادہ بڑھائے‘‘۔

دوسری طرف، جیفری ساکس نے اس بات کو مسلسل اُجاگر کیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی، اقتصادی عدم مساوات، اور تنازعات کے حل جیسے عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کثیرالجہتی تعاون کی ضرورت ہے۔ان کا موقف سفارت کاری اور بین الاقوامی شراکت داریوں کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، جو اکثر ٹرمپ کی بیان بازی اور مسک کے بیانات میں نظرانداز کی جاتی ہے۔ ساکس نے اس تصور کو چیلنج کیا ہے کہ یک طرفہ اور جارحانہ خارجہ پالیسیاں طویل مدتی امن یا استحکام کا باعث بن سکتی ہیں۔

یہ اسکالرز ٹرمپ اور مسک کی ’جارحانہ نو سامراجیت‘ کے مقابلے میں ایک متوازن نقطۂ نظر کی وکالت کرتے ہیں۔ وہ عالمی معاملات کے لیے ایک زیادہ معتدل اور تعاون پر مبنی طریقۂ کار کی حمایت کرتے ہیں، جو طاقت کی حدود کو تسلیم کرتا ہے اور شراکت داریوں کو دشمنیوں پر ترجیح دیتا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے فروغ دیے گئے قوم پرستانہ اور سامراجی عزائم، جنھیں ایلون مسک نے مزید تقویت دی ہے، عالمی امن اور استحکام کے لیے ایک سنگین خطرہ ہیں۔