فروری ۲۰۲۵

فہرست مضامین

دولت خرچ کرنے کے صحیح طریقے

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | فروری ۲۰۲۵ | ۶۰سال پہلے

Responsive image Responsive image

معقول حد کے اندر اپنی ضروریات پر خرچ کرنے کے بعد آدمی کے پاس اس کی حلال طریقوں سے کمائی ہوئی دولت کا جو حصہ بچے اسے خود اِن کاموں پر صرف کرنا چاہیے:

  • لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ (راہِ خدا میں) وہ کیا خرچ کریں؟ کہو جو کچھ تمھاری ضرورت سے زیادہ ہو۔ (البقرہ ۲:۲۱۹)
  • نیکی اس چیز کا نام نہیں ہے کہ تم نے مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرلیا، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی ایمان لائے اللہ پر اور یومِ آخر پر اور ملائکہ اور کتاب اور نبیوں پر، اور مال دے اللہ کی محبت میں اپنے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور مدد مانگنے والوں کو اور خرچ کرے غلامی سے لوگوں کی گردنیں چھڑانے میں…(البقرہ ۲:۱۷۷)
  • تم نیکی کا مقام ہرگز نہ پاسکو گے جب تک کہ خرچ نہ کرو اپنے وہ مال جو تمھیں محبوب ہیں اور جو کچھ بھی تم خرچ کرو گے وہ اللہ کو معلوم ہوگا۔(اٰل عمرٰن ۳:۹۲)
  • اللہ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور نیک سلوک کرو والدین کے ساتھ، رشتہ داروں کے ساتھ ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ، رشتہ دار پڑوسی اور اجنبی پڑوسی اور ہم نشین دوست کے ساتھ، مسافر کے ساتھ اور اُن غلاموں کے ساتھ جو تمھارے قبضے میں ہوں۔ درحقیقت اللہ اِترانے والوں اور فخر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، جو خود بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخل کی تلقین کرتے ہیں، اور اُس فضل کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے انھیں بخشا ہے۔ ایسے ناشکروں کے لیے ہم نے رُسوا کن عذاب مہیا کررکھا ہے۔ اور وہ جو اپنے مال کو دکھاوے کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ (النساء ۴: ۳۶ تا ۳۸)
  • (راہِ خدا میں خرچ کے مستحق) وہ تنگ حال لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں ایسے گھِر گئے ہیں کہ زمین میں اپنی روزی کمانے کے لیے دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے، ناواقف آدمی ان کی خودداری کی وجہ سے ان کو غنی سمجھتا ہے، مگر تم ان کے چہروں سے ان کو پہچان سکتے ہو، وہ پیچھے پڑ کر لوگوں سے نہیں مانگتے۔ جو کچھ مال تم ان پر خرچ کرو گے اللہ کو اس کا علم ہوگا۔(البقرہ ۲:۲۷۳)
  • (اور نیک لوگ) اللہ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں، مسکین اور یتیم اور قیدی کو اور کہتے ہیں کہ ہم محض اللہ کی خوشنودی کے لیے تمھیں کھلاتے ہیں، تم سے کسی بدلے یا شکریے کے خواہش مند نہیں ہیں۔ (الدھر ۷۶:۸-۹)
  • (اور دوزخ کی آگ سے محفوظ) وہ لوگ ہیں جن کے مالوں میں ایک طے شدہ حصہ ہے، مدد مانگنے والے اور محروم کے لیے (یعنی انھوں نے اپنے مال میں ان کا باقاعدہ حصہ مقرر کر رکھا ہے)۔ (المعارج ۷۰:۲۴-۲۵)
  • اور تمھارے غلاموں میں سے جو (فدیہ دے کر آزادی حاصل کرنے کا) معاہدہ کرنا چاہیں ان سے معاہدہ کرلو اگر تم ان کے اندر کوئی بھلائی پاتے ہو اور (اس فدیہ کی ادائی کے لیے) ان کو اللہ کے اس مال میں سے دو جو اس نے تمھیں عطا کیا ہے۔ (النور۲۴:۳۳)

اس خرچ کو قرآن نہ صرف یہ کہ ایک بنیادی نیکی کہتا ہے بلکہ تاکیداًوہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ایسا نہ کرنے میں معاشرے کی مجموعی ہلاکت ہے:

  • خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو، اور احسان کرو ، اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (البقرہ ۲:۱۹۵)

(سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۲،عدد۶، فروری ۱۹۶۵ء، ص۳۹-۴۱)