فروری ۲۰۲۵

فہرست مضامین

تہذیبی خود کشی کاراستہ

ڈاکٹر زاہد منیر عامر | فروری ۲۰۲۵ | پاکستانیات

Responsive image Responsive image

اطلاع ہے کہ ’پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ‘ نے نہم جماعت کے لیے سات کتابوں کا نیا نصاب تیار کر لیا ہے، اب طلبہ اپنی مرضی سے اردو یا انگریزی میں نصاب پڑھ سکیں گے۔ خبر کے مطابق پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے تمام تعلیمی اداروں اور بورڈز کو کتابوں کی تبدیلی کے حوالے سے آگاہ کردیا ہے۔جولائی۲۰۱۹ء میں حکومت پنجاب نے ذریعۂ تعلیم کو انگریزی سے تبدیل کر کے اردو بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس مقصد کے لیے پنجاب کے محکمۂ تعلیم نے بائیس اضلاع میں اساتذہ، طلبہ اور والدین کا سروے کروایا تھا، جس کے مطابق ہر طبقے سے ۸۵ فی صد افراد نے اردو کو ذریعۂ تعلیم بنانے کے حق میں رائے دی۔ اس کے باجود ذریعۂ تعلیم میں زبان کی دورنگی جاری رہی۔ یہ خبر اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ حیرت ہے کہ جو بات ’ایسٹ انڈیا کمپنی‘ کو ۱۸۳۷ء میں معلوم ہو گئی تھی، جب انھوں نے اردو کو سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ کیا تھا وہ بات ہمارے منصوبہ سازوں کو اب تک کیوں معلوم نہیں ہو سکی ہے؟ برطانوی دورِ حکومت میں ہندستان کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک ہی بڑی یونی ورسٹی، کلکتہ یونی ورسٹی تھی، جس کا ذریعۂ تعلیم انگریزی تھا۔ انگریزی کو یہ منصب فارسی سے چھین کر دیا گیا تھا، جس نے سات سو سال تک ہندستان کے نظام تعلیم پر حکمرانی کی تھی۔ خطے کی تہذیبی اور تعلیمی زبان سے اس کا منصب چھین کر ایک اجنبی زبان کو دیے جانے کے نتائج اسی دورمیں آنا شروع ہو گئے تھے۔

 حیرت ہے کہ ہمارے اربابِ حل و عقد آج تک ان نتائج سے بے خبر ہیں۔ ہم کوئی تبصرہ کیے بغیر انگریزوں ہی کے قائم کردہ دہلی کالج کے ایک پرنسپل ای ولموٹ کی ۱۳دسمبر ۱۸۶۷ء کی رپورٹ کی جانب توجہ مبذول کروانا چاہتے ہیں۔ یہ رپورٹ آج بھی ’محکمہ پنجاب آرکائیوز‘ میں موجودہے۔ ای ولموٹ، کیمبرج یونی ورسٹی کے ممتاز ماہر تعلیم تھے۔ انھوں نے انگریزی کو ذریعۂ تعلیم بنانے والی کلکتہ یونی ورسٹی کے حاصل کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا:’’ہمارے فاضلین کی اکثریت نہایت سطحی علم کے سوا کچھ حاصل نہیں کر پاتی، خواہ وہ انگریزی ہو یا اس زبان میں حاصل کیے جانے والے دوسرے علوم۔ اس لیے عمومی طور پر اس سے جو ذہنی تربیت ہو رہی ہے، وہ خالص نقالی کے سوا کچھ نہیں‘‘۔

سطحیت ،نقالی اور تحصیلِ علوم میں زبان کی اجنبیت کے باعث پیدا ہونے والی رکاوٹ جیسے عوامل کواسی عہد میں جس اعلیٰ ترین سطح تک محسوس کیا گیا اس کا بڑا ثبوت اورینٹل کالج، پنجاب یونی ورسٹی اور گورنمنٹ کالج لاہور کے بانی ڈاکٹر جی ڈبلیو لائٹنر کے خیالات ہیں، جو انھوں نے ہندستان آنے اور یہاں اعلیٰ ترین تعلیمی عہدوں پر فائز ہونے کے بعد ظاہر کیے۔ یہی احساس تھا، جس نے ۱۸۶۵ء میں انجمن پنجاب کی تشکیل کی اور ڈاکٹر جی ڈبلیو لائٹنر نے اس نیم علمی، ادبی، سماجی انجمن کے مقاصد میں یہ بات شامل کروائی کہ ’’اس انجمن کے ذریعے قدیم مشرقی علوم کا احیا کیا جائے گا اور اس ملک کے باشندوں کو مقامی زبانوں کے ذریعے تعلیم دے کر ان میں مفید علوم کی اشاعت کی جائے گی‘‘۔ اس کے نتیجے میں جہاں لاہور سے اردو اخبارات ورسائل جاری ہوئے، وہاں اورینٹل اسکول بھی قائم ہوا۔ ’انجمن پنجاب‘ کی رپورٹوں کے مطابق قیام انجمن کے پہلے ہی سال ۱۱ستمبر ۱۸۶۵ء کو منعقد ہونے والے اجلاس میں ڈاکٹر لائٹنر نے اورینٹل یونی ورسٹی کے قیام کا تخیل بھی پیش کیا، جس کے نتیجے میں بعد ازاں ۱۸۸۲ء میں پنجاب یونی ورسٹی کا قیامِ عمل میں آیا۔

تاریخ کے طالب علم کے لیے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ تہذیبی تفاوت کے جس المیے کا رونا آج رویا جاتا ہے، اسے سب سے پہلے ان لوگوں نے محسوس کر لیا تھا جنھیں ہماری تہذیب سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ آج ہم مسٹر میکلوڈ کا نام صرف لاہور کی ایک سڑک کی نسبت سے جانتے ہیں۔بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ سر ڈونلڈ فریل میکلوڈ ۱۸۶۵ء سے ۱۸۷۰ء تک پنجاب کے گورنر رہے۔ جب اہلِ پنجاب کی جانب سے مشرقی علوم کی ایک یونی ورسٹی کے قیام کے مطالبے پر مشتمل ایک محضر نامہ انھیں پیش کیا گیا، تو انھوں نے اس حوالے سے لکھا تھا کہ غیر ملک کی زبان میں تعلیم دینے سے تعلیم کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ مسئلے کو تاریخی تناظر میں دیکھتے ہوئے مسٹرمیکلوڈ نے یہ بھی لکھا کہ خود انگلستان میں جہاں شائستگی کے حصول کے لیے لاطینی اور یونانی زبانوں کی تحصیل ضروری سمجھی جاتی ہے، عام تعلیم کے لیے دیسی زبان یعنی انگریز ی ہی کو موزوں سمجھا جاتا ہے‘‘۔

 مسٹر میکلوڈ کی یہ تحریر اپنے اندر بصیرت کا خاصا سامان رکھتی ہے۔ اس تحریر میں اعتراف کیا گیا کہ نئے نظامِ تعلیم نے اردو اور ہندی کی ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ صرف یہی نہیں اس نظام سے کوئی اچھا انگریزی دان بھی نہیں نکلا بلکہ اس نظام کا حاصل فقط وہ لوگ ہیں جو سرکاری ملازمت کے حصول کے لیے محض انگریزی بول چال سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسے طلبہ کا فقدان ہے، جو تعلیمی اداروں سے حصولِ علم کی خاطر منسلک ہوتے ہوں۔ گورنر نے اس طریقۂ تعلیم کو ناقص او ر افسوس ناک قرار دیا۔ سر ڈونلڈ میکلوڈ نے اورینٹل یونی ورسٹی کی اس تجویز پر کلکتہ کالج کے پرنسپل میجر ناسائو لیز\سے بھی مشورہ کیا۔ ناسائولیز نے یہ کہتے ہوئے کہ ’’اس نظامِ تعلیم نے صرف کلرک پیدا کیے ہیں، علمی خوبیوں کا حامل کوئی فرد پیدا نہیں کیا‘‘، گورنر پنجاب کے خیالات کی تائید کی۔

اجنبی زبان میں تعلیم کے ان نتائج سے آگاہ ہو جانے پر انگریز حکام نے مقامی باشندوں کو مقامی زبانوں ہی میں تعلیم دینے کا فیصلہ کیا، جس کے نتیجے میں پنجاب یونی ورسٹی قائم ہوئی۔ پنجاب یونی ورسٹی کے ایک کانووکیشن میں جب وائس چانسلر نے خطبۂ استقبالیہ انگریزی میں پیش کیا تو وائسرائے ہند نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے مقامی یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کو اردو میں خطاب کرنے کی ہدایت کی تھی۔ وہ بنیادی اور اصولی بات جس سے انگریز واقف تھے، ہم نجانے کیوں اب تک اس سے واقف نہیں ہو سکے؟ ذریعۂ تعلیم کی بار بار تبدیلی سے نئی نسلوں کا جو نقصان ہوتاہے اور معاشرتی تفاوت کی جو راہیں کھلتی ہیں، ہم اس سے بے خبرہیں یا بے نیاز؟ پچھلے دنوں ایک دوست نےیہ بتا کر حیران کر دیا کہ اب ہمارے سرکاری دفاتر اور ٹیلی فون کمپنیوں میں اردو پیغام رسانی کے لیے رومن حروف استعمال کیے جاتے ہیں۔ توجہ دلانے پر کہا جاتا ہے: ’’پالیسی یہی ہے‘‘! یاللعجب؟ زبان کے بعد رسم الخط بھی ہاتھ سے جاتا رہا۔ دکانوں کے بورڈ ہوں یا گاڑیوں کے نمبر ہمارے ہاں انگریزی میں لکھے جاتے ہیں، حالانکہ ملک میں انگریزی جاننے والے عوام کی تعدادآٹے میں نمک کے برابر ہے۔ پھرکیا یہ طریق کار ابلاغ کے اصولوں پر بھی پورا اترتا ہے؟ آپ جن لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں، کم از کم درجے میں زبان اور حروف تو وہ استعمال کیجیے، جوان کی سماعتوں اور نگاہوں کے لیے مانوس ہوں۔