جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ امریکی قوانین کے مطابق ہر ۳۰ سال بعد امریکی خفیہ (کلاسیفائیڈ) دستاویزات، عوام کے لیے کھول (یعنی ڈی کلاسیفائی) دی جاتی ہیں۔ ان میں مختلف امریکی سفارت کاروں کے خفیہ مراسلے، ٹیلی گرامز وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں۔ ان دستاویزات کی جانچ پڑتال کرنے سے بہت سے انکشافات سامنے آتے ہیں۔ایسے ہی انکشافات کشمیر تنازع کے حوالے سے امریکی ڈی کلاسیفائی ڈاکومنٹس سے سامنے آئے ہیں۔
ان کے مطابق تقسیم کے بعد پہلے ڈیڑھ سال تک امریکا، کشمیر میں استصواب رائے کرانے کے حق میں تھا، تب بھارت میں موجود امریکی سفیر بھی واشنگٹن یہی رپورٹیں بھیجتے تھے کہ پاکستان کا کشمیری عوام سے رائے لینے کا مطالبہ جائز اور منصفانہ ہے، تاہم بتدریج اپنی مصلحتوں کی بنا پر امریکا اس سے پیچھے ہٹتا گیا۔ امریکیوں نے تب بھارت کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دی اور اقوام متحدہ کی قرارداد کو پس پشت ڈال دیا۔
۱۹۵۶ء میں انڈیا میں امریکی سفیر نے اسٹیٹ آفس کو خط لکھا کہ بھارت کسی بھی صورت میں استصواب رائے نہیں کرائے گا اور جنگ کے بغیر اس سے یہ بات نہیں منوائی جاسکتی۔
یہ رپورٹ ممتاز کشمیری اخبار کشمیر ٹائمز نے چند دن قبل شائع کی ہے۔ اس میں ’کشمیر، لا اینڈ جسٹس پراجیکٹ‘ کی جانب سے امریکی اسٹیٹ آفس (وزارت خارجہ) کے ڈی کلاسیفائی ڈاکومنٹس کےمطالعے کے بعد اخذ کردہ نتائج کا حوالہ دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ابتدا میں امریکا نے کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کی حمایت کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا انسانی حقوق اور نوآبادیاتی نظام کے خاتمے پر زور دیا کرتا تھا۔ تاہم، جیسے جیسے سرد جنگ کا آغاز ہوا، ایشیا میں اس کے اسٹرے ٹیجک مفادات امریکی خارجہ پالیسی پر غالب آنے لگے، جس کے نتیجے میں کشمیر کے معاملے پر اس کے موقف میں نمایاں تبدیلی آئی۔
۱۹۴۸ء میں امریکا نے کشمیر میں رائے شماری کی بھرپور حمایت کی۔ پاکستان میں امریکی ناظم الامور چارلس ڈبلیو لیوس کی جانب سے کی گئی بات چیت میں پاکستان کی غیر جانب دار انتظامیہ اور بعد میں رائے شماری کی تجویز کو ’منصفانہ اور جائز‘ قرار دیا گیا۔
امریکا نے بھارت کو آزاد جموں و کشمیر کا تصور پیش بھی کیا اور یہ تجویز سامنے آئی کہ استصواب رائے دو مرحلوں میں ہو۔ کشمیریوں سے پوچھا جائے کہ کیا وہ آزاد رہنا چاہتے ہیں، الگ ملک بناکر؟ اگر جواب نفی میں ہو تو پھر بھارت یا پاکستان میں شمولیت کے ممکنہ سوال پر استصواب رائے ہو۔ امریکی سفارت کاروں نے اس تجویز پر سینئر بھارتی افسران سے تبادلۂ خیال بھی کیا۔
۱۹۵۰ء کے عشرے کے اوائل تک امریکی نقطۂ نظر میں واضح تبدیلی آچکی تھی۔ امریکی سفارت کاروں اور بھارتی حکام کے درمیان ہونے والی بات چیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رائے شماری کی حمایت سے بتدریج دوری اختیار کی گئی۔ ۱۹۵۱ء میں بھارت میں امریکی سفیر لوئے ہینڈرسن کی خط کتابت میں بھارت کی رائے شماری کرانے میں ہچکچاہٹ پر امریکی مایوسی کا اظہار کیا گیا، لیکن ساتھ ہی بھارتی اعتراضات کے حوالے سے زیادہ مفاہمتی رویہ بھی اپنایا گیا۔
۱۹۵۰ء میں امریکی وزیرخارجہ کو ایک یادداشت میں واضح طور پر کہا گیا کہ اگر کشمیر الگ ملک ہوا تو اس پر کمیونسٹوں کا قبضہ ہو جائے گا، یوں امریکا، کشمیر کی آزادی کا مخالف ہوگیا۔
۱۹۵۰ء کے عشرے میں امریکا نے کشمیر کے معاملے پر محتاط موقف اختیار کیا۔ بھارتی اور پاکستانی ریاستوں کے درمیان توازن برقرار رکھا۔ اندرونی یادداشتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے بارے میں مایوسی کا احساس موجود تھا، اور امریکی سفارت کار اکثر کسی معاہدے کی عملیت کے بارے میں شک کا اظہار کرتے تھے۔
۱۹۵۰ء کے عشرے کے وسط تک امریکا نے کشمیر میں فعال طور پر حل تلاش کرنے سے دستبرداری اختیار کرنا شروع کی، جیسا کہ ۱۹۵۶ء کے ایک ٹیلیگرام میں کہا گیا کہ ’’جنگ کے بغیر کوئی دباؤ بھارتی حکومت کو وادیٔ کشمیر چھوڑنے پر مجبور نہیں کرےگا‘‘۔ دراصل یہ جوں کی توں صورتِ حال قبول کرنے کی علامت تھی۔
۱۹۵۷ء میں ان دستاویزات کا اختتام ہوتا ہے۔ سرد جنگ یعنی کولڈ وار نے نہ صرف امریکی خارجہ پالیسیوں کو تشکیل دیا بلکہ کشمیر جیسے غیر حل شدہ تنازعات کو بھی چھوڑا۔ آخر کار امریکی اسٹرے ٹیجک مفادات غالب آئے اور حقِ خودارادیت و بین الاقوامی اصول پیچھے رہ گئے۔
ہمارے ہاں اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ جب بھارت نے خود اقوام متحدہ جا کر استصواب رائے کا وعدہ کیا تھا تو اس پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا جاتا؟ پنڈت نہرو کے خطوط اور دیگر دستاویزات سے اس کا اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت دانستہ طور پر اقوام متحدہ گیا تھا۔
جب بھارت نے اقوامِ متحدہ سے جنگ بندی کی درخواست کی، تو یہ خدشہ تھا کہ اگر بھارت ایسا نہ کرتا تو پاکستان خود اقوامِ متحدہ سے رجوع کرسکتا تھا یا اقوامِ متحدہ قرارداد منظور کرسکتی تھی جو عمل درآمد کے طریقۂ کار کا تقاضا کرتی۔
کہا جاتا ہے کہ انڈیا نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے باب ششم کے تحت درخواست دی، جو پُرامن حل پر زور دیتا ہے اور عمل درآمد کے لیے لازمی طریقۂ کار فراہم نہیں کرتا۔ چونکہ پاکستان نے رائے شماری پر اتفاق کیا تھا، اس لیے اقوامِ متحدہ نے عمل درآمد کا کوئی مخصوص طریقۂ کار وضع نہیں کیا۔
اس حوالے سے قانون کے استاد پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق خان کا کہنا ہے: یہ انڈین پروپیگنڈا ہے کہ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قرارداد کم اہم ہے اور کشمیر کے متعلق سلامتی کونسل کی قراردادیں اقوام متحدہ کے منشور کے بابِ ششم کے تحت تھیں اور اس وجہ سے کم اہمیت کی حامل تھیں، یا اس وجہ سے کم وزن ہیں کہ سلامتی کونسل نے تنفیذ کا کوئی نظام وضع نہیں کیا۔ بھارتی پروپیگنڈا کے زیر اثر لوگوں کا یہ دعویٰ بین الاقوامی قانون اور تعلقات، دونوں کے لحاظ سے غلط ہے۔
اس لیے بابِ ششم کی قراردادیں ہوں یا بابِ ہفتم کی، دونوں کا وزن یکساں ہے۔ ان میں فرق کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔ مزید یہ کہ جب انڈیا نے یہ قراردادیں نہ صرف اقوامِ متحدہ میں تسلیم کیں، بلکہ باقاعدہ ان پر عمل کا اعلان کیا اور پھر اپنے آئین میں بھی دفعہ ۳۷۰ ڈال کر اسے آئینی حیثیت بھی دے دی، تو پھر یہ سوال ہی بے معنی ہے کہ کیا یہ قراردادیں اس پر لازم تھیں یا نہیں؟ ان کاموں کے بعد وہ اس پر لازم ہوگئیں۔اس لیے کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو کمزور قرار دینا درست نہیں ہے۔ بین الاقوامی قانون میں انھی قراردادوں پر تو پاکستان کا، بلکہ کشمیر کا، پورا مقدمہ قائم ہے۔
جب مہاراجا ہری سنگھ نے جموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی مبینہ درخواست کی، تو بھارت کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو اس الحاق کو قبول کرتے ہوئے مہاراجا کو ایک خط لکھا: ’’یہ میری حکومت کی خواہش ہے کہ جیسے ہی جموں و کشمیر میں قانون اور نظم بحال ہو جائے اور اس کی سرزمین کو حملہ آوروں سے پاک کردیا جائے، ریاست کے الحاق کا سوال عوام کی رائے سے طے کیا جائے‘‘۔ یہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سے بہت پہلے کی بات ہے۔ لہٰذا اقوامِ متحدہ نے کسی عمل درآمد کے طریق کار کو وضع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ نہرو صرف وقت گزارنے کی کوشش کررہے تھے۔ ان کا رائے شماری کرانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ انھیں صرف کشمیر کی وادی اور جموں چاہیے تھا، انھیں باغ، پلندری، میرپور، مظفرآباد وغیرہ کی کوئی خواہش نہیں تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ شیخ عبداللہ کا ان علاقوں میں کوئی اثرورسوخ نہیں ہے اور ان علاقوں پر قبضہ کرنا ہمیشہ کی سردردی مول لینے کے مترادف ہوگا۔
اس طرح پاکستان کو اس بات کا موردِ الزام ٹھیراتے ہیں کہ اس نے رائے شماری نہیں کروائی۔ یہ انکشافات بتاتے ہیں کہ ان کے یہ دعوے قطعی طور پر غلط ہیں۔ امریکی خفیہ دستاویزات صاف بتا رہی ہیں کہ امریکی یہ نہیں چاہتے تھے کہ کشمیر ایک آزاد ملک کے طور پر وجود میں آئے۔
کشمیری قوم پرستوں کی بیان کی گئی کہانیوں کے برعکس یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر قبائلیوں اور بعد میں پاکستانی فوج نے مداخلت نہ کی ہوتی تو مہاراجا کے وزیراعظم مہر چند مہاجن اور ان کے نائب رام لال بٹرا میرپور، پونچھ اور مظفرآباد میں مسلمانوں کا قتلِ عام کرنے کے لیے تیار تھے، تاکہ جموں کی طرح مسلمانوں کو ان علاقوں سے نکال کر پاکستان دھکیل دیا جائے۔
یہ حقیقت ہے کہ مہاجن کے منصوبے کی وجہ سے جموں کی مسلم اکثریتی آبادی جو ۷۰ فی صد کے قریب تھی، قتل عام کے بعد آدھی رہ گئی۔ یہی سب کچھ مہاجن مظفرآباد، باغ، راولا کوٹ وغیرہ میں کرنا چاہتا تھا، مگر قبائلی دستوں اور پھر پاکستانی فوج کی مداخلت کی وجہ سے آزاد کشمیر کے ان علاقوں کے مسلمانوں کی جانیں بچ گئیں۔ اس نکتے کا ادراک بیش تر کشمیری قوم پرست نہیں کرتے۔
ان حقائق کو پیش کرتے ہوئے معروف کشمیری دانش ور اور صحافی جناب افتخار گیلانی کی مشاورت اور رہنمائی بہت کام آئی۔ انھوں نے کشمیر ٹائمز کی خصوصی رپورٹ کی طرف رہنمائی کی، نہرو کے خط کی تفصیل فراہم کی اور بعض دیگر حقائق بھی آشکار کیے۔