عامر خاکوانی


جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ امریکی قوانین کے مطابق ہر ۳۰ سال بعد امریکی خفیہ (کلاسیفائیڈ) دستاویزات، عوام کے لیے کھول (یعنی ڈی کلاسیفائی) دی جاتی ہیں۔ ان میں مختلف امریکی سفارت کاروں کے خفیہ مراسلے، ٹیلی گرامز وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں۔ ان دستاویزات کی جانچ پڑتال کرنے سے بہت سے انکشافات سامنے آتے ہیں۔ایسے ہی انکشافات کشمیر تنازع کے حوالے سے امریکی ڈی کلاسیفائی ڈاکومنٹس سے سامنے آئے ہیں۔

ان کے مطابق تقسیم کے بعد پہلے ڈیڑھ سال تک امریکا، کشمیر میں استصواب رائے کرانے کے حق میں تھا، تب بھارت میں موجود امریکی سفیر بھی واشنگٹن یہی رپورٹیں بھیجتے تھے کہ پاکستان کا کشمیری عوام سے رائے لینے کا مطالبہ جائز اور منصفانہ ہے، تاہم بتدریج اپنی مصلحتوں کی بنا پر امریکا اس سے پیچھے ہٹتا گیا۔ امریکیوں نے تب بھارت کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دی اور اقوام متحدہ کی قرارداد کو پس پشت ڈال دیا۔

۱۹۵۶ء میں انڈیا میں امریکی سفیر نے اسٹیٹ آفس کو خط لکھا کہ بھارت کسی بھی صورت میں استصواب رائے نہیں کرائے گا اور جنگ کے بغیر اس سے یہ بات نہیں منوائی جاسکتی۔

یہ رپورٹ ممتاز کشمیری اخبار کشمیر ٹائمز نے چند دن قبل شائع کی ہے۔ اس میں ’کشمیر، لا اینڈ جسٹس پراجیکٹ‘ کی جانب سے امریکی اسٹیٹ آفس (وزارت خارجہ) کے ڈی کلاسیفائی ڈاکومنٹس کےمطالعے کے بعد اخذ کردہ نتائج کا حوالہ دیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ابتدا میں امریکا نے کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کی حمایت کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا انسانی حقوق اور نوآبادیاتی نظام کے خاتمے پر زور دیا کرتا تھا۔ تاہم، جیسے جیسے سرد جنگ کا آغاز ہوا، ایشیا میں اس کے اسٹرے ٹیجک مفادات امریکی خارجہ پالیسی پر غالب آنے لگے، جس کے نتیجے میں کشمیر کے معاملے پر اس کے موقف میں نمایاں تبدیلی آئی۔

۱۹۴۸ء میں امریکا نے کشمیر میں رائے شماری کی بھرپور حمایت کی۔ پاکستان میں امریکی ناظم الامور چارلس ڈبلیو لیوس کی جانب سے کی گئی بات چیت میں پاکستان کی غیر جانب دار انتظامیہ اور بعد میں رائے شماری کی تجویز کو ’منصفانہ اور جائز‘ قرار دیا گیا۔

امریکا نے بھارت کو آزاد جموں و کشمیر کا تصور پیش بھی کیا اور یہ تجویز سامنے آئی کہ استصواب رائے دو مرحلوں میں ہو۔ کشمیریوں سے پوچھا جائے کہ کیا وہ آزاد رہنا چاہتے ہیں، الگ ملک بناکر؟ اگر جواب نفی میں ہو تو پھر بھارت یا پاکستان میں شمولیت کے ممکنہ سوال پر استصواب رائے ہو۔ امریکی سفارت کاروں نے اس تجویز پر سینئر بھارتی افسران سے تبادلۂ خیال بھی کیا۔

  • سرد جنگ نے سب کچھ بدل ڈالا:جیسے جیسے سرد جنگ کی شدت بڑھی، امریکی خارجہ پالیسی میں اشتراکی روسی سلطنت کے اثرورسوخ کو محدود کرنے کو ترجیح دی جانے لگی، جس نے عالمی تنازعات، بشمول کشمیر پر اس کے مؤقف کو نمایاں طور پر متاثر کیا۔ کشمیر چونکہ چین، بھارت اور پاکستان کے درمیان واقع تھا، اس لیے اس خطے کی اسٹرے ٹیجک اہمیت بڑھ گئی۔

۱۹۵۰ء کے عشرے کے اوائل تک امریکی نقطۂ نظر میں واضح تبدیلی آچکی تھی۔ امریکی سفارت کاروں اور بھارتی حکام کے درمیان ہونے والی بات چیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رائے شماری کی حمایت سے بتدریج دوری اختیار کی گئی۔ ۱۹۵۱ء میں بھارت میں امریکی سفیر لوئے ہینڈرسن کی خط کتابت میں بھارت کی رائے شماری کرانے میں ہچکچاہٹ پر امریکی مایوسی کا اظہار کیا گیا، لیکن ساتھ ہی بھارتی اعتراضات کے حوالے سے زیادہ مفاہمتی رویہ بھی اپنایا گیا۔

  • امریکا کی کشمیر کی آزادی کی مخالفت:دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ اقتصادی عوامل نے امریکی پالیسی پر اثر ڈالنا شروع کیا۔ کشمیر کے معدنی وسائل پر بات چیت کے دوران امریکی سفارت کاروں نے ایک خودمختار و آزاد کشمیر کے امکانات پر غور کیا۔ ایک کثیرالقومی ترقیاتی کارپوریشن کی تجاویز سامنے آئیں، جس میں امریکا، برطانیہ، بھارت اور پاکستان شامل ہوں تاکہ کشمیر کے وسائل کا انتظام کیا جا سکے۔ مگر یہ منصوبہ بالآخر ناقابلِ عمل ثابت ہوا۔

۱۹۵۰ء میں امریکی وزیرخارجہ کو ایک یادداشت میں واضح طور پر کہا گیا کہ اگر کشمیر الگ ملک ہوا تو اس پر کمیونسٹوں کا قبضہ ہو جائے گا، یوں امریکا، کشمیر کی آزادی کا مخالف ہوگیا۔

۱۹۵۰ء کے عشرے میں امریکا نے کشمیر کے معاملے پر محتاط موقف اختیار کیا۔ بھارتی اور پاکستانی ریاستوں کے درمیان توازن برقرار رکھا۔ اندرونی یادداشتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے بارے میں مایوسی کا احساس موجود تھا، اور امریکی سفارت کار اکثر کسی معاہدے کی عملیت کے بارے میں شک کا اظہار کرتے تھے۔

۱۹۵۰ء کے عشرے کے وسط تک امریکا نے کشمیر میں فعال طور پر حل تلاش کرنے سے دستبرداری اختیار کرنا شروع کی، جیسا کہ ۱۹۵۶ء کے ایک ٹیلیگرام میں کہا گیا کہ ’’جنگ کے بغیر کوئی دباؤ بھارتی حکومت کو وادیٔ کشمیر چھوڑنے پر مجبور نہیں کرےگا‘‘۔ دراصل یہ جوں کی توں صورتِ حال قبول کرنے کی علامت تھی۔

۱۹۵۷ء میں ان دستاویزات کا اختتام ہوتا ہے۔ سرد جنگ یعنی کولڈ وار نے نہ صرف امریکی خارجہ پالیسیوں کو تشکیل دیا بلکہ کشمیر جیسے غیر حل شدہ تنازعات کو بھی چھوڑا۔ آخر کار امریکی اسٹرے ٹیجک مفادات غالب آئے اور حقِ خودارادیت و بین الاقوامی اصول پیچھے رہ گئے۔

  • پنڈت نہرو کا خط اور دھوکا دہی کا اعتراف:مئی ۱۹۴۸ء میں سونمرگ سے اندرا گاندھی نے اپنے والد وزیراعظم جواہر لال نہرو کو خط لکھا، جس میں انھوں نے ذکر کیاکہ کشمیر میں صرف شیخ عبداللہ صاحب ہی رائے شماری جیتنے کے بارے میں پُراعتماد ہیں۔ ’’دراصل اندرا کو خطرہ تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں اگر استصواب رائے ہوا تو کشمیری، انڈیا کے خلاف رائے دے کر پاکستان کے ساتھ شامل ہوجائیں گے‘‘۔پنڈت نہرو نے جواب دیا: یہ وعدہ بین الاقوامی رائے عامہ کو دھوکا دینے اور وقت حاصل کرنے کے لیے تھا اور یہ کہ ’’کشمیری لوگ آسانی سے مطمئن ہونے والے ہیں۔ وہ اپنی بھوک مٹانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے اور وقت کے ساتھ ساتھ اچھی حکمرانی کے تحت اپنی قسمت پر راضی ہو جائیں گے‘‘۔ نہرو کا یہ خط ان کے خطوط کے مجموعہ جات میں شامل ہے، جو شائع ہوچکے ہیں۔

ہمارے ہاں اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ جب بھارت نے خود اقوام متحدہ جا کر استصواب رائے کا وعدہ کیا تھا تو اس پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا جاتا؟ پنڈت نہرو کے خطوط اور دیگر دستاویزات سے اس کا اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت دانستہ طور پر اقوام متحدہ گیا تھا۔

جب بھارت نے اقوامِ متحدہ سے جنگ بندی کی درخواست کی، تو یہ خدشہ تھا کہ اگر بھارت ایسا نہ کرتا تو پاکستان خود اقوامِ متحدہ سے رجوع کرسکتا تھا یا اقوامِ متحدہ قرارداد منظور کرسکتی تھی جو عمل درآمد کے طریقۂ کار کا تقاضا کرتی۔

کہا جاتا ہے کہ انڈیا نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے باب ششم کے تحت درخواست دی، جو پُرامن حل پر زور دیتا ہے اور عمل درآمد کے لیے لازمی طریقۂ کار فراہم نہیں کرتا۔ چونکہ پاکستان نے رائے شماری پر اتفاق کیا تھا، اس لیے اقوامِ متحدہ نے عمل درآمد کا کوئی مخصوص طریقۂ کار وضع نہیں کیا۔

اس حوالے سے قانون کے استاد پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق خان کا کہنا ہے: یہ انڈین پروپیگنڈا ہے کہ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قرارداد کم اہم ہے اور کشمیر کے متعلق سلامتی کونسل کی قراردادیں اقوام متحدہ کے منشور کے بابِ ششم کے تحت تھیں اور اس وجہ سے کم اہمیت کی حامل تھیں، یا اس وجہ سے کم وزن ہیں کہ سلامتی کونسل نے تنفیذ کا کوئی نظام وضع نہیں کیا۔ بھارتی پروپیگنڈا کے زیر اثر لوگوں کا یہ دعویٰ بین الاقوامی قانون اور تعلقات، دونوں کے لحاظ سے غلط ہے۔

اس لیے بابِ ششم کی قراردادیں ہوں یا بابِ ہفتم کی، دونوں کا وزن یکساں ہے۔  ان میں فرق کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔ مزید یہ کہ جب انڈیا نے یہ قراردادیں نہ صرف اقوامِ متحدہ میں تسلیم کیں، بلکہ باقاعدہ ان پر عمل کا اعلان کیا اور پھر اپنے آئین میں بھی دفعہ ۳۷۰ ڈال کر اسے آئینی حیثیت بھی دے دی، تو پھر یہ سوال ہی بے معنی ہے کہ کیا یہ قراردادیں اس پر لازم تھیں یا نہیں؟ ان کاموں کے بعد وہ اس پر لازم ہوگئیں۔اس لیے کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو کمزور قرار دینا درست نہیں ہے۔ بین الاقوامی قانون میں انھی قراردادوں پر تو پاکستان کا، بلکہ کشمیر کا، پورا مقدمہ قائم ہے۔

جب مہاراجا ہری سنگھ نے جموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی مبینہ درخواست کی، تو بھارت کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو اس الحاق کو قبول کرتے ہوئے مہاراجا کو ایک خط لکھا: ’’یہ میری حکومت کی خواہش ہے کہ جیسے ہی جموں و کشمیر میں قانون اور نظم بحال ہو جائے اور اس کی سرزمین کو حملہ آوروں سے پاک کردیا جائے، ریاست کے الحاق کا سوال عوام کی رائے سے طے کیا جائے‘‘۔ یہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سے بہت پہلے کی بات ہے۔ لہٰذا اقوامِ متحدہ نے کسی عمل درآمد کے طریق کار کو وضع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ نہرو صرف وقت گزارنے کی کوشش کررہے تھے۔ ان کا رائے شماری کرانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ انھیں صرف کشمیر کی وادی اور جموں چاہیے تھا، انھیں باغ، پلندری، میرپور، مظفرآباد وغیرہ کی کوئی خواہش نہیں تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ شیخ عبداللہ کا ان علاقوں میں کوئی اثرورسوخ نہیں ہے اور ان علاقوں پر قبضہ کرنا ہمیشہ کی سردردی مول لینے کے مترادف ہوگا۔

  • کشمیری قوم پرستوں کی غلط فہمیاں:جب آزاد جموں و کشمیر کے کچھ نام نہاد قوم پرست دانش وَر کتابیں لکھنا شروع کرتے ہیں، تو وہ آزاد کشمیر کے آزاد ملک ہونے کا خواب دکھاتے ہیں اور غلط طور پر دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’دنیا آزاد کشمیر کو ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے تیار تھی‘‘۔

اس طرح پاکستان کو اس بات کا موردِ الزام ٹھیراتے ہیں کہ اس نے رائے شماری نہیں کروائی۔ یہ انکشافات بتاتے ہیں کہ ان کے یہ دعوے قطعی طور پر غلط ہیں۔ امریکی خفیہ دستاویزات صاف بتا رہی ہیں کہ امریکی یہ نہیں چاہتے تھے کہ کشمیر ایک آزاد ملک کے طور پر وجود میں آئے۔

کشمیری قوم پرستوں کی بیان کی گئی کہانیوں کے برعکس یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر قبائلیوں اور بعد میں پاکستانی فوج نے مداخلت نہ کی ہوتی تو مہاراجا کے وزیراعظم مہر چند مہاجن اور ان کے نائب رام لال بٹرا میرپور، پونچھ اور مظفرآباد میں مسلمانوں کا قتلِ عام کرنے کے لیے تیار تھے، تاکہ جموں کی طرح مسلمانوں کو ان علاقوں سے نکال کر پاکستان دھکیل دیا جائے۔

  • جموں میں قتلِ عام :جموں میں ہونے والے قتل عام کے بارے میں جاننے کے لیے پھر ممتاز کشمیری صحافی اور کشمیر ٹائمز کے بانی وید بھیسن کی لکھی کتب پڑھنی چاہییں۔ وید بھیسن کے بقول جب وہ بلراج پوری اور اوم صراف جموں میں مہاراجا کی پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے مسلمانوں کے سفاکانہ قتل عام پر احتجاج کرنے مہاراجا کے محل پہنچے تو انھیں وزیراعظم مہر چند مہاجن کے پاس لے جایا گیا، جس نے انھیں کہاکہ بطور ہندو انھیں ریاست میں اقتدار تک پہنچنے کے راستے ڈھونڈنے ہوں گے۔ جب وید بھیسن اور دیگر نے حیرت سے پوچھا کہ کشمیر تو مسلم اکثریتی علاقہ ہے، یہاں ہندو حکومت کیسے بن سکتی ہے؟ اس پر مہاجن نے کھڑکی سے اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ ’ایسے‘۔ نیچے کھائیوں میں چند مسلم گجروں کی لاشیں پڑی تھیں جو صبح محل دودھ پہنچانے آئے تھے۔

یہ حقیقت ہے کہ مہاجن کے منصوبے کی وجہ سے جموں کی مسلم اکثریتی آبادی جو ۷۰ فی صد کے قریب تھی، قتل عام کے بعد آدھی رہ گئی۔ یہی سب کچھ مہاجن مظفرآباد، باغ، راولا کوٹ وغیرہ میں کرنا چاہتا تھا، مگر قبائلی دستوں اور پھر پاکستانی فوج کی مداخلت کی وجہ سے آزاد کشمیر کے ان علاقوں کے مسلمانوں کی جانیں بچ گئیں۔ اس نکتے کا ادراک بیش تر کشمیری قوم پرست نہیں کرتے۔

ان حقائق کو پیش کرتے ہوئے معروف کشمیری دانش ور اور صحافی جناب افتخار گیلانی کی مشاورت اور رہنمائی بہت کام آئی۔ انھوں نے کشمیر ٹائمز کی خصوصی رپورٹ کی طرف رہنمائی کی، نہرو کے خط کی تفصیل فراہم کی اور بعض دیگر حقائق بھی آشکار کیے۔

عرب ملکوں میں فلسطین پر اسرائیل کی نہ ختم ہونے والی جارحیت کو تسلیم کرنے کے جس سفر کا آغاز مصری ڈکٹیٹر صدر انورالسادات نے ۱۹۷۸ء میں کیا تھا، اب وہ سفراور زیادہ آگے بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ افسوس کہ امریکی اور صہیونی خدائی کےسامنے تسلیم و رضا کی علامت بننے والے عرب حکمرانوں کو اس دردناک کھیل میں اپنے اقتدار کی بقا نظر آتی ہے، جو بہرحال ایک حقیر اور فانی چیز ہے۔ مگر دوسری جانب عرب دُنیا کے بے بس اور آزادیِ راے سے محروم عوام، اپنے حکمرانوں کی ’اسرائیل، امریکا نواز پالیسیوں‘ سے سخت نفرت کرتے ہیںاور فلسطینی مظلوموںکے لیے دل، جان اور مال کےساتھ کھڑے ہیں۔ اسی طرح یہ پہلو بھی واضح ہے کہ اسرائیلی جارحیت کی مزاحمت کرنے والوں میں: دُنیا بھرکے منصف مزاج لوگ، اسلامی فکروکردار سے سرشار فرزانے، سوشلسٹ انقلابی اور انسانی حقوق کے رکھوالے ہم قدم اور ہم آواز کھڑے رہے ہیں۔ افسوس کہ بدلے زمانے میں مسلم دنیا کے اقتدار پرست رجواڑوں اور انسانیت کش نام نہاد جدیدیت پسندوں نے، بلاجواز فسطائیت اور نسل پرستانہ جارحیت کوسند ِ جواز دینے کے انسانیت سوز کھیل میں شدت پیدا کی۔ اور اب وہ یہ درسِ ذلّت دینے کے لیے پاکستان میں بھی رفتہ رفتہ قدم بڑھا رہے ہیں۔ اس صورتِ حال میں یہ بحث کئی زاویوں سے نمایاں ہوئی ہے۔ ہم یہاں دو معروف پاکستانی تجزیہ نگاروں کے خیالات پیش کر رہے ہیں، جس میں اسرائیل کی منظوری کے لیے زور دینے والے ایک کالم نگار جاوید چودھری صاحب کی چارج شیٹ بھی سامنے آگئی ہے۔ (س م خ)

اسرائیل نوازی کے لیے حقائق کا قتل
حامد میر

اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ایک پرانی بحث، نئے زاویے سے پاکستان میں ہورہی ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ پاکستان کو صرف بھارت نہیں، بلکہ کئی اور ملکوں کی سازشوں کا بھی سامنا ہے، جن میں اسرائیل سرفہرست ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے اس پاکستان دشمن اتحاد کے تناظر میں فروری ۲۰۱۹ء سے وزیراعظم عمران خان کو مشورہ دیا جارہا ہے کہ ’’ہمیں بھارت اسرائیل اتحاد توڑنے کے لیے اسرائیل کےساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلینے چاہییں‘‘۔ پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’اگر تنظیم آزادی فلسطین، مصر، اُردن، ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اسرائیل سے سلسلۂ جنبانی کرسکتے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں؟‘‘ ان مشوروں پر وزیراعظم کا مختصرجواب تھا: دل نہیں مانتا۔ میں فلسطینیوں پر اسرائیل کے ظلم کی تائید نہیں کرسکتا‘‘۔
ذرا پیچھے چلتے ہیں۔ یوسف السباعی مصر کے ایک معروف ادیب اور اخبار الاہرام  کے ایڈیٹر تھے۔ وہ صدر انور السادات کی حکومت میں وزیرثقافت بھی رہے، ساتھ ہی افریقی اور ایشیائی ترقی پسند ادیبوں کے جریدے Lotus (لوٹس)کی ادارت کی ذمہ داری ادا کرتے رہے، جس کا عربی ایڈیشن قاہرہ سے شائع ہوتا تھا ۔یوسف السباعی کو فروری ۱۹۷۸ء میں فلسطین کے ابوندال گروپ نے قتل کر دیا تو انجمن نے لوٹس کی ادارت پاکستان کے معروف شاعر فیض احمد فیض کے سپرد کردی۔ جب مصر کی اسرائیل نواز خارجہ پالیسی کے باعث اس جریدے کی اشاعت قاہرہ سے ممکن نہ رہی تو لوٹس کی اشاعت بیروت سے شروع ہوئی۔ اس زمانے کی خانہ جنگی میں بیروت لرز رہا تھا اور فیض صاحب اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر اس طرح تحریک آزادی فلسطین کا حصہ بن گئے کہ اُن کے دن رات فلسطینی مجاہدوں کے ساتھ گزرتے تھے۔ ۲۰۰۶ء میں لبنان اور اسرائیل کی جنگ کے دوران رپورٹنگ کے لیے مجھے بیروت میں بعض صحافیوں نے بتایا کہ اُمّ کلثوم کی طرف سے علامہ اقبال کے گائے گئے کلام کا حوالہ دے کر فیض صاحب بتایا کرتے تھے کہ ’’پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال کو فلسطینیوں سے بڑی محبت تھی‘‘۔
بیروت میں قیام کے دوران مجھے مفتی اعظم فلسطین جناب امین الحسینی کی قبر پر فاتحہ خوانی کی سعادت حاصل ہوئی، اور یہ معلوم ہوا کہ مفتی امین الحسینی صرف ایک عالم دین نہیں تھے بلکہ فلسطینیوں کی مسلح جدوجہد کے بانیوں میں شامل تھے، اور ان کے قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ بڑے گہرے تعلقات تھے۔ پاکستان واپسی پر مفتی امین الحسینی اور بانی پاکستان کے درمیان ہونے والی خط کتابت کو تلاش کیا، تو اخوان المسلمون کے مرشدعام حسن البنااور قائداعظم کے درمیان ہونے والی یہ مراسلت ڈاکٹر زوار حسین زیدی کے مرتب کردہ جناح پیپرز میں محفوظ ملی۔
یہ حیرت کا مقام ہے کہ فلسطین کے متعلق علامہ اقبال اور قائد اعظم کے دو ٹوک موقف کو ہماری نصابی کتب کے کسی بھی درجے کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ غالباً اس لیے کہ فلسطین کے متعلق اقبال اور قائداعظم کے بیانات اور خطوط میں برطانیہ و امریکا کے بارے میں بہت سخت الفاظ شامل ہیں۔
 مسئلہ فلسطین پر ۱۹۳۳ء سے ۱۹۴۷ء کے دوران میں، آل انڈیا مسلم لیگ نے ۱۸قراردادیں منظور کیں، جن میں برطانوی حکومت پر شدید تنقید کی گئی۔ یہ قراردادیں اُن نام نہاد تاریخ نویسوں کا منہ بند کر دینے کے لیے کافی ہیں، جو گاہے گاہے تحریک پاکستان، قیام پاکستان اور قائد اعظم کی جدوجہد کے پیچھے ’برطانوی حکومت کا ہاتھ‘ تلاش کرتے رہتے ہیں۔ سلام ہے فیض احمد فیض کی راست فکری کو، جنھوں نے اشتراکی روس نواز ادیبوں کی ’انجمن ترقی پسند مصنّفین‘ کی مرضی کے مطابق علامہ اقبال کی مذمت سے انکار کر دیا تھا، اور بعد ازاں اقبال کے فارسی کلام پیامِ مشرق  کا اُردو ترجمہ بھی کیا تھا۔ آج ماضی کےبہت سے ترقی پسند اپنے آپ کو صرف ’لبرل‘ کہتے اور ہر سال فیض ڈے مناتے ہیں، لیکن اس موقعے پر فیض کی اقبال سے محبت کا ذکر تک نہیں کرتے۔ ماضی کے سوشلسٹ اور حال کے انھی لبرل دانش وروں میں سے کچھ صاحبان آج کل ہمیں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے فائدے گنوا رہے ہیں۔ جب اُنھیں اقبال کا یہ شعر یاد دلایا جائے:
ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا
جواب ملتا ہے کہ ’اقبال تو ایک بنیاد پرست تھا‘۔ ان دانش وَروں کے نزدیک یہی معاملہ قائداعظم کے ساتھ ہے۔ ان کے ہاتھوں تاریخ کے مسخ کردہ اور خودساختہ حقائق کے نام پر یہ تک کہا گیا کہ ’’انھوں نے ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کی قرارداد انگریزوں کے کہنے پر منظور کرائی‘‘۔ ایسے فضول الزام لگانے والے بھول گئے کہ ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کو صرف ایک علیحدہ وطن کی قرارداد منظور نہیں ہوئی تھی بلکہ اسی اجلاس میں ایک اور قرارداد فلسطینیوں کے حق میں بھی منظور کی گئی تھی۔
قائداعظم نے جولائی ۱۹۴۶ء میں بمبئی میں یونائٹیڈ پریس امریکا کے خصوصی نمایندے ارنسٹ سی مارٹی کو انٹرویو دیتے ہوئے مطالبہ کیا تھا:
مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لیے سب سے پہلے قدم کے طور پر فلسطین سے برطانوی امریکی اثرورسوخ سے دست بردار ہونا پڑے گا۔اس طرح نہ صرف یہودیوں کی فلسطین میں آمد کو ختم کیا جائے بلکہ جو یہودی پہلےسے فلسطین میں موجود ہیں، ان کی آبادکاری کا بھی آسٹریلیا، کینیڈایا کسی ایسے ملک میں انتظام وانصرام کیا جائے، جہاں ان کی گنجایش ہو، ورنہ پھر ایک دن ایسا آئے گا کہ جب ان کی قسمت اس سے بھی زیادہ خراب ہوگی، جیسی کہ ہٹلر کے تحت تھی۔ یہ بالکل واضح ہے کہ یہودی، امریکا اور انگلستان کی مدد سےفلسطین کو دوبارہ فتح (reconquer)کرنا چاہتے ہیں۔
یہودیوں کے ساتھ بھی یہ ظلم عظیم (monstrous) ہے کہ انھیں فلسطین میں دھکیلا جارہا ہے۔ دیانت داری کا تقاضا تو یہ ہے کہ تبدیلی وطن کی خاطر یہودیوں کی فلسطین میں آمد کو ختم (cessation)کر دیا جائے۔ پہلے ہی پانچ لاکھ یہودیوں کو فلسطین میں داخلے کا پروانہ دیا جاچکا ہے، اور یہ تعداد مقامی عرب آبادی کی ایک تہائی کے برابر ہے، جسے کوئی ملک نہ گوارا کرے گا اور نہ کرسکتا ہے،اور نہ اس کی کوئی مثال موجود ہے۔
امریکا کا نہ کوئی ضمیر ہے، نہ اسے عدل یا انصاف کا کوئی پاس و لحاظ ہے (United States as having no conscience or any regard for fairplay or justice) امرواقعہ یہ ہے کہ امریکی صہیونی، امریکا کو ناک سے پکڑ کر جدھر چاہتے ہیں موڑ کر لے جاتے ہیں....انگلستان اور امریکا، فلسطین سے نکل جائیں اور عربوںاور یہودیوں کو اپنے طور پرمسئلہ حل کرنے دیں۔ (The Dawn / The Chronical  ،۳۱جولائی ۱۹۴۶ء، Quaid-e-Azam and The Muslim World، ص۱۵۱،۱۵۲)
پاکستان بننے کے فوراً بعد بھی پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے فلسطینیوں کے حق میں قرارداد منظور کی اور ۱۳ستمبر ۱۹۴۷ء کو قائداعظم نے مفتی امین الحسینی کو خط میں یقین دلایا کہ ’’ہم آپ کی آزادی پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے‘‘۔ قائداعظم کے خیالات کو پاکستان کی تمام حکومتوں نے بھرپور طریقے سے آگے بڑھایا اور اب وزیراعظم عمران خان نے بھی کھل کر اعلان کیا ہے کہ ’’اسرائیل کے بارے میں پاکستان کی پالیسی وہی رہے گی جو قائداعظم کی تھی‘‘۔ وزیراعظم کے لیے یہ الفاظ کہنا آسان نہیں تھے، وہ بھی اپنے دفتر خارجہ کی طرح ایک گول مول بیان دے سکتے تھے۔ دفتر خارجہ اور وزیراعظم کے موقف میں فرق سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان پر دباؤ ہے۔
پاکستان کو چاہیے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے والوں کو بتائے کہ ’’ہم نے بڑی مشکل سے انتہا پسندی پر قابو پایا ہے۔ اگر پاکستان پر کوئی ایسا فیصلہ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو ردعمل میں انتہاپسندی پھیلے گی۔ اس لیے ہمیں علامہ اقبال اور قائداعظم کے راستے پر رہنے دو‘‘۔
اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں یوں تو طرح طرح کے مفروضے گھڑے اور قسم قسم کی باتیں پھیلائی جارہی ہیں، تاہم اُردوکے ایک معروف کالم نگار نے گذشتہ دنوں لکھا: ’’ہم پاکستانی بھی کیا دل چسپ قوم ہیں، ہم نے فلسطینیوں کی محبت میں اسرائیل کو تسلیم بھی نہیں کیا اور ہم نے عملی طور پر آج تک فلسطینیوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔ آپ تاریخ نکال کر دیکھ لیں ہمارا کون سا صدر، وزیرساعظم یا وزیر آج تک فلسطین گیا، یا ہم نے آج تک فلسطین کے لیے کون سی قربانی دی؟‘‘
کالم نگار کو یاد نہیں رہا کہ فلسطین، اسرائیل کے محاصرے میں ہے۔ ۱۹۹۴ء میں پاکستان کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو، بوسنیا کے بعد غزہ کا دورہ کرنا چاہتی تھیں، لیکن جب اُنھیں مصری حکام نے بتایا کہ’’ غزہ جانے کے لیے اسرائیل سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہے‘‘ تو اُنھوں نے فلسطین کے دورے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ ۱۹۹۴ء ہی کے دوران جنیوا میں یاسرعرفات سے مرحومہ بے نظیر کی ملاقات ہوئی، جس میں انھوں نے یاسرعرفات کو بتایا کہ ’’مجھے کہا جاتا ہے اگر پی ایل او کے اسرائیل سے مذاکرات ہوسکتے ہیں تو پاکستان اور اسرائیل میں بات کیوں نہیں ہوسکتی؟‘‘ یہ بات سن کریاسرعرفات غصے سے پھٹ پڑےاور بوجھل لہجے میں کہا : ’’ہمیں تو مار مار کر اسرائیل سے مذاکرات پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل کے لیے تیار نہیں لیکن وہ مذاکرات کے ذریعے ہمیں صرف غلام بنانا چاہتا ہے۔ اور اگر پاکستان نے اسرائیل سے دوستی کرلی تو ہم مذاکرات کے بھی قابل نہیں رہیں گے‘‘۔ اس ملاقات کے بعد اپنی زندگی کے آخری لمحے، تک بے نظیر نے اسرائیل کی مناسبت سے ایسی کسی بات کا صفحہ ہی پھاڑ دیا تھا۔
مذکورہ کالم نگار نے ایک جانب اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں بڑے مضحکہ خیز دلائل دیے ہیں، اور دوسری طرف اس معاملے پر مہذب انداز سے علمی اور منطقی دلائل پیش کرنے کے بجائے فلسطین کے بارے میں علامہ اقبال اور قائداعظم کے خیالات کا حوالہ دینے والوں کا مذاق اُڑایا ہے۔ گذشتہ برسوں کے دوران فلسطین کے بارے علامہ اقبال اور قائداعظم کے بیانات اور تقریروں کا سب سے زیادہ ذکر تو اپنے کالموں میں، میں نے کیا تھا۔ اگر اس جُرم کے ارتکاب پر موصوف مجھ پر تنقید کرتے تو بُرا نہ مانتا، لیکن وہ بانیان پاکستان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
ہمارے پاس دلیل ختم ہو جاتی ہے تو ہم سفارتی اور سیاسی ایشوز میں بھی اسلام ڈال دیتے ہیں، اور اگر اسلام فٹ نہ ہو رہا ہو تو ہم اس میں علامہ اقبال اور قائداعظم ڈال کر دوسروں کو خاموش کر دیتے ہیں، اور ہم یہ کارنامہ سرانجام دیتے وقت بھول جاتے ہیں کہ علامہ اقبال نے سانحۂ جلیانوالہ باغ کے باوجود ’سر‘ کا خطاب قبول کر لیا تھا، اور قائداعظم ۱۹۴۷ء میں اس ملکہ برطانیہ کے دستخطوں سے پاکستان کے گورنر جنرل بنے تھے، جس نے فلسطین پر قبضہ کر رکھا تھا۔
ہمیں اپنی مرضی کی تاریخ پڑھانے والے یہ امرواقعہ کیوں نہیں بتاتے کہ جون ۱۹۶۷ء میں  عرب اسرائیل جنگ کے دوران یہاں صدر ایوب حکمران تھے، تب پاکستان ایئر فورس نے اُردن اور عراق کی فضائی حدود میں کئی اسرائیلی طیارے مار گرائے تھے۔ پھر ۶سے ۲۴؍اکتوبر ۱۹۷۳ء کے دوران عرب اسرائیل جنگ رمضان میں پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان ایئر فورس کا ایک پورا اسکواڈرن شام بھیج دیا تھا، جس میں شامل پاکستانی جاںبازوں نے صرف شام نہیں بلکہ مصر کی فضائی حدود میں بھی اسرائیلی طیارے مار گرائے اور پوری عرب دنیا سے داد پائی۔ کیا یہ عربوں کی عملی مدد نہیں تھی؟ یہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ جناب فیض نے اپنے بڑھاپے کے آخری چند سال بیروت میں گزارے اور فلسطینیوں کے لیے نظمیں لکھیں۔ کیا یہ ایک سربرآوردہ پاکستانی کی فلسطین کے لیے عملی جدوجہد نہیں تھی؟___  ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ بہت سے طاقت وَر اور با اثر لوگ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حق میں خود سامنے آ کر بولنے کے بجائے میڈیا کے کچھ لوگوں کو استعمال کر رہے ہیں۔
اب آ جائیے علامہ اقبال اور قائداعظم پر کیے جانے والے اعتراضات کی طرف:
افسوس کہ اسرائیل سے تعلقات کے ’فضائل‘ بیان کرنے والوں کو مسئلہ فلسطین کی مناسبت سے علامہ اقبال اور قائداعظم کے ذکر پر بہت غصہ آ جاتا ہے۔ اسی لیے اب ان دو محترم شخصیات کو متنازعہ بنا کر اپنا ہدف حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ کچھ عرب حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کی جا سکے۔ یہ کہنا کہ علامہ اقبال نے ’سانحۂ جلیانوالہ باغ کے باوجود ’سر‘ کا خطاب قبول کیا‘ کوئی نیا اعتراض نہیں ہے۔{ FR 664 } علامہ اقبال نے ۱۳؍اپریل ۱۹۱۹ء کے سانحہ جلیانوالہ باغ کے خلاف لاہور میں ہونے والے جلسے سے خطاب کیا اور اس سانحے پر اشعار بھی کہے۔{ FR 665 } اس سانحے کے چار سال بعد ۱۹۲۳ء میں علامہ اقبال نے ’سر‘ کا خطاب قبول کیا تھا، اور دل چسپ بات یہ ہے کہ اس خطاب کی قبولیت کے باوجود اقبال کے طرزِ فکر اور اظہارِبیان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ ۱۹۳۰ء میں تواُنھوں نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ مملکت کا مطالبہ بھی کر دیا۔
یہ کہنا کہ ’’اُنھوں نے ملکہ برطانیہ کے دستخطوں سے گورنر جنرل بننا کیوں قبول کر لیا؟‘‘ ایک کمزور اور نہایت بودی دلیل ہے۔اصل بات یہ ہے کہ قائداعظم اور مسلم لیگ ۱۹۱۷ء سے ۱۹۴۷ء تک مسلسل فلسطین کی حمایت کرتے رہے اور ۲۶؍ اگست ۱۹۳۸ء کا دن یومِ فلسطین کے طور پر منایا۔
وہ جو یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ’’براہِ مہربانی یہ بتائیں کہ پاکستان کو اسرائیل سے تعلقات قائم نہ کرکے کیا ملا؟‘‘ میں ان افلاطونوں سے یہ پوچھتا ہوں کہ آپ ہی بتا دیجیے کہ ’’ترکی، مصر اور اُردن کو غاصب، ظالم اور جارح اسرائیل کو تسلیم کر کے کیا ملا؟ ‘‘
یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اسرائیل پر تنقید کا مطلب یہودیوں سے دشمنی نہیں بلکہ نسل پرست، انسانیت کش اورفسطائی صہیونیت کی مخالفت اور فلسطین پر جارحیت کرکے قبضہ کرنا قابلِ مذمت ہے۔ بلاشبہہ بہت سے یہودی بھی اسرائیل کی اس درندگی پر تنقید کرتے ہیں۔ انسانی، اخلاقی، قانونی، تہذیبی بنیادوں پر ہم فلسطینیوں کی حمایت اس لیے بھی کرتے ہیں کہ وہ کشمیریوں کی طرح مظلوم ہیں۔ اسی لیے قائداعظم نے مسئلۂ فلسطین کو مسئلۂ کشمیر سے جوڑا ہے۔ اگر ہم نے فلسطین پر اقوام متحدہ کی قراردادیں نظر انداز کر کے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تو کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بارے میں پاکستان کا موقف ختم ہوجائے گا۔ یہاں پاکستان کے حکمران طبقوں پر یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اس معاملے پر جو بات بھی ہو اسے بندکمروں میں نہیں بلکہ پارلیمنٹ کے کھلے اجلاس میں زیربحث لانا ہوگا۔قوم کو نہ دھوکے میں رہنا چاہیے اور دھوکے میں رکھنا چاہیے۔

یہ تاریخ مسخ کرنے والے
عامر خاکوانی

اسرائیل کو تسلیم کرنے یا تسلیم نہ کرنے کے سوال پر غیرجذباتی اور منطقی گفتگو کرنے کے بجائے، یہ سخت افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے دانش وَر نہایت جذباتی لب ولہجے میں تاریخ کے پرخچے اڑا نے میں بھی کچھ حرج نہیں سمجھتے، واقعات کی من پسند تعبیرکرتے اور تاریخ کے سینے میں خنجر گھونپ دیتے ہیں۔
اسرائیل کو تسلیم کرنے کے سوال پر اُردو کے ایک کالم نگار نے طنزیہ اسلوب میں تحریر کیا ہے: ’’ہمارے پاس جب دلیل ختم ہوجاتی ہے تو ہم سفارتی اور سیاسی ایشوز میں بھی اسلام کو ڈال دیتے ہیںاور اگر اسلام فٹ نہ ہو رہا ہوتو ہم اس میں علامہ اقبال اور قائداعظم ڈال کر دوسروں کو خاموش کردیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیںکہ قائداعظم ۱۹۴۷ء میں اس ملکہ برطانیہ کے دستخطوں سے گورنر جنرل بنے تھے، جس نے فلسطین پر قبضہ کر رکھا تھا…‘‘۔
 سب سے پہلے تو یہ واضح رہے کہ ۱۹۴۷ءمیں ملکہ برطانیہ حکمران نہیں تھی بلکہ اس کے والد کنگ جارج ششم حکمران تھے۔ ملکہ ایلزبتھ دوم تو پانچ سال بعدفروری ۱۹۵۲ء میں اس مسند پر فائز ہوئیں۔ موصوف نے یہ بات اس طرح کہی ہے، جیسے برطانوی بادشاہ نے قائداعظم کو کسی نجی ملازمت کے تقرر کا کوئی خط جاری کیا ہو۔ تاریخ اور سیاسیات کے طالب علم جانتے ہیں کہ برطانوی بادشاہ تو براے نام حکمران ہے۔  برطانوی پارلیمنٹ ہی میں ’انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ۱۹۴۷‘منظور ہوا ، تاہم رسمی طور پر شاہ برطانیہ کی جانب سے حکم نامہ جاری ہوا۔
یہ وضاحت ضروری ہے کہ گورنر جنرل کے حلف میں کنگ جارج ششم سے وفاداری کاحلف لیا جانا تھا، لیکن قائداعظم نے اپنے قلم سے حلف نامہ میں یہ جملہ لکھ کر شامل کیا کہ ’میں پاکستان کے آئین کا وفاداررہوں گا‘۔ قائداعظم نے اس رسمی وثیقے میں بھی واضح کر دیا کہ بطور گورنر جنرل میرے لیے پاکستان کا بننے والا آئین زیادہ اہم ہوگا، شاہ جارج ششم نہیں۔ دوسری جانب نام نہاد ترقی پسندی کے دعوے دار پنڈت نہرو نے بھارتی گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن کے حلف میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں کرائی۔
رہا کالم نگار کا یہ طنز کہ ’’اسلام کو سیاسی اور سفارتی معاملات میں فٹ کردیتے ہیں‘‘ تو عرض یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنی سفارتی ، سیاسی اور قومی پالیسیوں میں اسلامی اصولوں کو ملحوظ کیوں نہ رکھے؟ اسلام ہماری زندگی کا اہم ترین جز ہے، ضابطۂ حیات ہے۔ ہماری انفرادی اور قومی اخلاقیات کے سوتے ہمارے دینِ اسلام اوراسی کے نظام فکروتہذیب سے پھوٹتے ہیں۔  
یہی کالم نگار طعنہ زن ہیں:’’اٹھاون اسلامی ممالک میں سے کسی نے آج تک فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دیا، سوائے ایران کے، جو ۴۲برسوں سے فلسطینیوں، لبنانیوں اور شامیوں کے ساتھ کھڑا ہے‘‘۔یہ جملہ ناقابل فہم حد تک گمراہ کن ہے۔ لبنان اور شام کا فلسطین سے کیا موازنہ؟کیا ان کے نزدیک لبنان کا بھی فلسطین جیسا کوئی معاملہ ہے؟ وہاں پر کسی نے قبضہ کر رکھا ہے اور لبنانیوں کو لبنان سے نکال باہر کیا ہے ؟شام میں خانہ جنگی ہوئی اور شام کے اپنے لوگوں نے بشارالاسد کی سفاک آمرانہ حکومت کے خلاف بغاوت کی، جسے بشار کی فوج نے بے رحمی سے کچل ڈالا۔ بلاشبہہ اس بھڑکتی آگ میں دوسرے علاقائی کھلاڑی بھی کود پڑے، مگر اصل مسئلہ شام پر الاسد خاندان کا جبر اور تسلط ہے۔شام اور لبنان کا فلسطین کے ساتھ ذکر کرنا پرلے درجے کی بدذوقی ہے۔
 کالم نگار نے خود پاکستانیوں کو کئی طعنے دے ڈالے ہیں:’’ہم پاکستانی اگر واقعی فلسطین سے مخلص ہیں تو چلیے پھرہم فلسطین کے لیے جہاد کرتے ہیں، نکلیں ۲۰ کروڑ پاکستانی اپنے گھروں سے اورچل پڑیں اسرائیل کی طرف…‘‘۔ آگے جا کر لکھا: ’’مجھے اس محبت کی سمجھ نہیں آئی جس میں ہم یہودیوں کی فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام پر اسرائیل مردہ باد کی پوسٹ شیئر کرتے ہیں‘‘… یہ ہے وہ آئیڈیا، جو ہم پاکستانیوں کو عقل سکھانے پراصرار کرتے ہوئے محترم دانش وَر نے پیش کیا۔ اسرائیل جیسے غاصب ملک سے فلسطینیوں کا جائز حق لیے بغیر اس کو تسلیم کر لیا جائے، اس کا قبضہ جائز مان لیں اور اگر ایسا نہیں کرتے تو پھر ۲۰ کروڑ پاکستانی گھر سے نکل کر فلسطین پہنچ جائیں۔ کیا ان دونوں انتہاؤں کے درمیان کچھ بھی نہیں ؟
’’ یہودیوں کی فیس بک، ٹوئٹر ، انسٹا گرام کا طعنہ‘‘ دیتے وقت انھیں یہ بات ضرور بتانی چاہیے تھی کہ کیا یہ ایپس بھی خود کو یہودی ایپ کہلانا پسند کرتے ہیں؟ فیس بک ، انسٹاگرام کا مالک مسٹرمارک زکربرگ اپنا تعلق اصلاح پسند یہودی فیملی سے بتاتے ہیں۔ دراصل یہ سب گھسے پٹے، اور سطحی طعنے ہیں، جو ویسے ہی مسخ ہوچکے ہیں۔ دنیا بھر میں احتجاج کے بہت سے طریقے ہیں اور مختلف حکمت عملیاں اپنائی جاتی ہیں۔ کچھ نہ ہو پا رہا ہوتب بھی اپنا اصولی موقف برقرار رکھا جاتا ہے۔ آپ کئی بار ظلم کے سامنے مجبور ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں کیا ظالم کا ساتھی بن جایا جائے؟اور اگرظالم طاقت ور ہے، اس سے لڑ نہیں سکتے تو کیا پھر اس کے قدموں میں گر جایا جائے؟
یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ قلم کار جن کا فرض قوم کی تربیت کرنا ، ان میں شعور پیدا کرنا ہے۔ جب وہی حقائق مسخ کریں، تاریخی واقعات کو توڑ موڑ کر پیش کریں، غلط تناظر میں سخت جذباتی بھاشن دیں ، تب زوال کا سفر تیز تر ہوگا اور قوم مزید انتشار کا شکار ہوگی۔