عرب ملکوں میں فلسطین پر اسرائیل کی نہ ختم ہونے والی جارحیت کو تسلیم کرنے کے جس سفر کا آغاز مصری ڈکٹیٹر صدر انورالسادات نے ۱۹۷۸ء میں کیا تھا، اب وہ سفراور زیادہ آگے بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ افسوس کہ امریکی اور صہیونی خدائی کےسامنے تسلیم و رضا کی علامت بننے والے عرب حکمرانوں کو اس دردناک کھیل میں اپنے اقتدار کی بقا نظر آتی ہے، جو بہرحال ایک حقیر اور فانی چیز ہے۔ مگر دوسری جانب عرب دُنیا کے بے بس اور آزادیِ راے سے محروم عوام، اپنے حکمرانوں کی ’اسرائیل، امریکا نواز پالیسیوں‘ سے سخت نفرت کرتے ہیںاور فلسطینی مظلوموںکے لیے دل، جان اور مال کےساتھ کھڑے ہیں۔ اسی طرح یہ پہلو بھی واضح ہے کہ اسرائیلی جارحیت کی مزاحمت کرنے والوں میں: دُنیا بھرکے منصف مزاج لوگ، اسلامی فکروکردار سے سرشار فرزانے، سوشلسٹ انقلابی اور انسانی حقوق کے رکھوالے ہم قدم اور ہم آواز کھڑے رہے ہیں۔ افسوس کہ بدلے زمانے میں مسلم دنیا کے اقتدار پرست رجواڑوں اور انسانیت کش نام نہاد جدیدیت پسندوں نے، بلاجواز فسطائیت اور نسل پرستانہ جارحیت کوسند ِ جواز دینے کے انسانیت سوز کھیل میں شدت پیدا کی۔ اور اب وہ یہ درسِ ذلّت دینے کے لیے پاکستان میں بھی رفتہ رفتہ قدم بڑھا رہے ہیں۔ اس صورتِ حال میں یہ بحث کئی زاویوں سے نمایاں ہوئی ہے۔ ہم یہاں دو معروف پاکستانی تجزیہ نگاروں کے خیالات پیش کر رہے ہیں، جس میں اسرائیل کی منظوری کے لیے زور دینے والے ایک کالم نگار جاوید چودھری صاحب کی چارج شیٹ بھی سامنے آگئی ہے۔ (س م خ)
اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ایک پرانی بحث، نئے زاویے سے پاکستان میں ہورہی ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ پاکستان کو صرف بھارت نہیں، بلکہ کئی اور ملکوں کی سازشوں کا بھی سامنا ہے، جن میں اسرائیل سرفہرست ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے اس پاکستان دشمن اتحاد کے تناظر میں فروری ۲۰۱۹ء سے وزیراعظم عمران خان کو مشورہ دیا جارہا ہے کہ ’’ہمیں بھارت اسرائیل اتحاد توڑنے کے لیے اسرائیل کےساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلینے چاہییں‘‘۔ پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’اگر تنظیم آزادی فلسطین، مصر، اُردن، ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اسرائیل سے سلسلۂ جنبانی کرسکتے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں؟‘‘ ان مشوروں پر وزیراعظم کا مختصرجواب تھا: دل نہیں مانتا۔ میں فلسطینیوں پر اسرائیل کے ظلم کی تائید نہیں کرسکتا‘‘۔
ذرا پیچھے چلتے ہیں۔ یوسف السباعی مصر کے ایک معروف ادیب اور اخبار الاہرام کے ایڈیٹر تھے۔ وہ صدر انور السادات کی حکومت میں وزیرثقافت بھی رہے، ساتھ ہی افریقی اور ایشیائی ترقی پسند ادیبوں کے جریدے Lotus (لوٹس)کی ادارت کی ذمہ داری ادا کرتے رہے، جس کا عربی ایڈیشن قاہرہ سے شائع ہوتا تھا ۔یوسف السباعی کو فروری ۱۹۷۸ء میں فلسطین کے ابوندال گروپ نے قتل کر دیا تو انجمن نے لوٹس کی ادارت پاکستان کے معروف شاعر فیض احمد فیض کے سپرد کردی۔ جب مصر کی اسرائیل نواز خارجہ پالیسی کے باعث اس جریدے کی اشاعت قاہرہ سے ممکن نہ رہی تو لوٹس کی اشاعت بیروت سے شروع ہوئی۔ اس زمانے کی خانہ جنگی میں بیروت لرز رہا تھا اور فیض صاحب اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر اس طرح تحریک آزادی فلسطین کا حصہ بن گئے کہ اُن کے دن رات فلسطینی مجاہدوں کے ساتھ گزرتے تھے۔ ۲۰۰۶ء میں لبنان اور اسرائیل کی جنگ کے دوران رپورٹنگ کے لیے مجھے بیروت میں بعض صحافیوں نے بتایا کہ اُمّ کلثوم کی طرف سے علامہ اقبال کے گائے گئے کلام کا حوالہ دے کر فیض صاحب بتایا کرتے تھے کہ ’’پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال کو فلسطینیوں سے بڑی محبت تھی‘‘۔
بیروت میں قیام کے دوران مجھے مفتی اعظم فلسطین جناب امین الحسینی کی قبر پر فاتحہ خوانی کی سعادت حاصل ہوئی، اور یہ معلوم ہوا کہ مفتی امین الحسینی صرف ایک عالم دین نہیں تھے بلکہ فلسطینیوں کی مسلح جدوجہد کے بانیوں میں شامل تھے، اور ان کے قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ بڑے گہرے تعلقات تھے۔ پاکستان واپسی پر مفتی امین الحسینی اور بانی پاکستان کے درمیان ہونے والی خط کتابت کو تلاش کیا، تو اخوان المسلمون کے مرشدعام حسن البنااور قائداعظم کے درمیان ہونے والی یہ مراسلت ڈاکٹر زوار حسین زیدی کے مرتب کردہ جناح پیپرز میں محفوظ ملی۔
یہ حیرت کا مقام ہے کہ فلسطین کے متعلق علامہ اقبال اور قائد اعظم کے دو ٹوک موقف کو ہماری نصابی کتب کے کسی بھی درجے کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ غالباً اس لیے کہ فلسطین کے متعلق اقبال اور قائداعظم کے بیانات اور خطوط میں برطانیہ و امریکا کے بارے میں بہت سخت الفاظ شامل ہیں۔
مسئلہ فلسطین پر ۱۹۳۳ء سے ۱۹۴۷ء کے دوران میں، آل انڈیا مسلم لیگ نے ۱۸قراردادیں منظور کیں، جن میں برطانوی حکومت پر شدید تنقید کی گئی۔ یہ قراردادیں اُن نام نہاد تاریخ نویسوں کا منہ بند کر دینے کے لیے کافی ہیں، جو گاہے گاہے تحریک پاکستان، قیام پاکستان اور قائد اعظم کی جدوجہد کے پیچھے ’برطانوی حکومت کا ہاتھ‘ تلاش کرتے رہتے ہیں۔ سلام ہے فیض احمد فیض کی راست فکری کو، جنھوں نے اشتراکی روس نواز ادیبوں کی ’انجمن ترقی پسند مصنّفین‘ کی مرضی کے مطابق علامہ اقبال کی مذمت سے انکار کر دیا تھا، اور بعد ازاں اقبال کے فارسی کلام پیامِ مشرق کا اُردو ترجمہ بھی کیا تھا۔ آج ماضی کےبہت سے ترقی پسند اپنے آپ کو صرف ’لبرل‘ کہتے اور ہر سال فیض ڈے مناتے ہیں، لیکن اس موقعے پر فیض کی اقبال سے محبت کا ذکر تک نہیں کرتے۔ ماضی کے سوشلسٹ اور حال کے انھی لبرل دانش وروں میں سے کچھ صاحبان آج کل ہمیں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے فائدے گنوا رہے ہیں۔ جب اُنھیں اقبال کا یہ شعر یاد دلایا جائے:
ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا
جواب ملتا ہے کہ ’اقبال تو ایک بنیاد پرست تھا‘۔ ان دانش وَروں کے نزدیک یہی معاملہ قائداعظم کے ساتھ ہے۔ ان کے ہاتھوں تاریخ کے مسخ کردہ اور خودساختہ حقائق کے نام پر یہ تک کہا گیا کہ ’’انھوں نے ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کی قرارداد انگریزوں کے کہنے پر منظور کرائی‘‘۔ ایسے فضول الزام لگانے والے بھول گئے کہ ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کو صرف ایک علیحدہ وطن کی قرارداد منظور نہیں ہوئی تھی بلکہ اسی اجلاس میں ایک اور قرارداد فلسطینیوں کے حق میں بھی منظور کی گئی تھی۔
قائداعظم نے جولائی ۱۹۴۶ء میں بمبئی میں یونائٹیڈ پریس امریکا کے خصوصی نمایندے ارنسٹ سی مارٹی کو انٹرویو دیتے ہوئے مطالبہ کیا تھا:
مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لیے سب سے پہلے قدم کے طور پر فلسطین سے برطانوی امریکی اثرورسوخ سے دست بردار ہونا پڑے گا۔اس طرح نہ صرف یہودیوں کی فلسطین میں آمد کو ختم کیا جائے بلکہ جو یہودی پہلےسے فلسطین میں موجود ہیں، ان کی آبادکاری کا بھی آسٹریلیا، کینیڈایا کسی ایسے ملک میں انتظام وانصرام کیا جائے، جہاں ان کی گنجایش ہو، ورنہ پھر ایک دن ایسا آئے گا کہ جب ان کی قسمت اس سے بھی زیادہ خراب ہوگی، جیسی کہ ہٹلر کے تحت تھی۔ یہ بالکل واضح ہے کہ یہودی، امریکا اور انگلستان کی مدد سےفلسطین کو دوبارہ فتح (reconquer)کرنا چاہتے ہیں۔
یہودیوں کے ساتھ بھی یہ ظلم عظیم (monstrous) ہے کہ انھیں فلسطین میں دھکیلا جارہا ہے۔ دیانت داری کا تقاضا تو یہ ہے کہ تبدیلی وطن کی خاطر یہودیوں کی فلسطین میں آمد کو ختم (cessation)کر دیا جائے۔ پہلے ہی پانچ لاکھ یہودیوں کو فلسطین میں داخلے کا پروانہ دیا جاچکا ہے، اور یہ تعداد مقامی عرب آبادی کی ایک تہائی کے برابر ہے، جسے کوئی ملک نہ گوارا کرے گا اور نہ کرسکتا ہے،اور نہ اس کی کوئی مثال موجود ہے۔
امریکا کا نہ کوئی ضمیر ہے، نہ اسے عدل یا انصاف کا کوئی پاس و لحاظ ہے (United States as having no conscience or any regard for fairplay or justice) امرواقعہ یہ ہے کہ امریکی صہیونی، امریکا کو ناک سے پکڑ کر جدھر چاہتے ہیں موڑ کر لے جاتے ہیں....انگلستان اور امریکا، فلسطین سے نکل جائیں اور عربوںاور یہودیوں کو اپنے طور پرمسئلہ حل کرنے دیں۔ (The Dawn / The Chronical ،۳۱جولائی ۱۹۴۶ء، Quaid-e-Azam and The Muslim World، ص۱۵۱،۱۵۲)
پاکستان بننے کے فوراً بعد بھی پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے فلسطینیوں کے حق میں قرارداد منظور کی اور ۱۳ستمبر ۱۹۴۷ء کو قائداعظم نے مفتی امین الحسینی کو خط میں یقین دلایا کہ ’’ہم آپ کی آزادی پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے‘‘۔ قائداعظم کے خیالات کو پاکستان کی تمام حکومتوں نے بھرپور طریقے سے آگے بڑھایا اور اب وزیراعظم عمران خان نے بھی کھل کر اعلان کیا ہے کہ ’’اسرائیل کے بارے میں پاکستان کی پالیسی وہی رہے گی جو قائداعظم کی تھی‘‘۔ وزیراعظم کے لیے یہ الفاظ کہنا آسان نہیں تھے، وہ بھی اپنے دفتر خارجہ کی طرح ایک گول مول بیان دے سکتے تھے۔ دفتر خارجہ اور وزیراعظم کے موقف میں فرق سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان پر دباؤ ہے۔
پاکستان کو چاہیے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے والوں کو بتائے کہ ’’ہم نے بڑی مشکل سے انتہا پسندی پر قابو پایا ہے۔ اگر پاکستان پر کوئی ایسا فیصلہ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو ردعمل میں انتہاپسندی پھیلے گی۔ اس لیے ہمیں علامہ اقبال اور قائداعظم کے راستے پر رہنے دو‘‘۔
اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں یوں تو طرح طرح کے مفروضے گھڑے اور قسم قسم کی باتیں پھیلائی جارہی ہیں، تاہم اُردوکے ایک معروف کالم نگار نے گذشتہ دنوں لکھا: ’’ہم پاکستانی بھی کیا دل چسپ قوم ہیں، ہم نے فلسطینیوں کی محبت میں اسرائیل کو تسلیم بھی نہیں کیا اور ہم نے عملی طور پر آج تک فلسطینیوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔ آپ تاریخ نکال کر دیکھ لیں ہمارا کون سا صدر، وزیرساعظم یا وزیر آج تک فلسطین گیا، یا ہم نے آج تک فلسطین کے لیے کون سی قربانی دی؟‘‘
کالم نگار کو یاد نہیں رہا کہ فلسطین، اسرائیل کے محاصرے میں ہے۔ ۱۹۹۴ء میں پاکستان کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو، بوسنیا کے بعد غزہ کا دورہ کرنا چاہتی تھیں، لیکن جب اُنھیں مصری حکام نے بتایا کہ’’ غزہ جانے کے لیے اسرائیل سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہے‘‘ تو اُنھوں نے فلسطین کے دورے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ ۱۹۹۴ء ہی کے دوران جنیوا میں یاسرعرفات سے مرحومہ بے نظیر کی ملاقات ہوئی، جس میں انھوں نے یاسرعرفات کو بتایا کہ ’’مجھے کہا جاتا ہے اگر پی ایل او کے اسرائیل سے مذاکرات ہوسکتے ہیں تو پاکستان اور اسرائیل میں بات کیوں نہیں ہوسکتی؟‘‘ یہ بات سن کریاسرعرفات غصے سے پھٹ پڑےاور بوجھل لہجے میں کہا : ’’ہمیں تو مار مار کر اسرائیل سے مذاکرات پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل کے لیے تیار نہیں لیکن وہ مذاکرات کے ذریعے ہمیں صرف غلام بنانا چاہتا ہے۔ اور اگر پاکستان نے اسرائیل سے دوستی کرلی تو ہم مذاکرات کے بھی قابل نہیں رہیں گے‘‘۔ اس ملاقات کے بعد اپنی زندگی کے آخری لمحے، تک بے نظیر نے اسرائیل کی مناسبت سے ایسی کسی بات کا صفحہ ہی پھاڑ دیا تھا۔
مذکورہ کالم نگار نے ایک جانب اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں بڑے مضحکہ خیز دلائل دیے ہیں، اور دوسری طرف اس معاملے پر مہذب انداز سے علمی اور منطقی دلائل پیش کرنے کے بجائے فلسطین کے بارے میں علامہ اقبال اور قائداعظم کے خیالات کا حوالہ دینے والوں کا مذاق اُڑایا ہے۔ گذشتہ برسوں کے دوران فلسطین کے بارے علامہ اقبال اور قائداعظم کے بیانات اور تقریروں کا سب سے زیادہ ذکر تو اپنے کالموں میں، میں نے کیا تھا۔ اگر اس جُرم کے ارتکاب پر موصوف مجھ پر تنقید کرتے تو بُرا نہ مانتا، لیکن وہ بانیان پاکستان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
ہمارے پاس دلیل ختم ہو جاتی ہے تو ہم سفارتی اور سیاسی ایشوز میں بھی اسلام ڈال دیتے ہیں، اور اگر اسلام فٹ نہ ہو رہا ہو تو ہم اس میں علامہ اقبال اور قائداعظم ڈال کر دوسروں کو خاموش کر دیتے ہیں، اور ہم یہ کارنامہ سرانجام دیتے وقت بھول جاتے ہیں کہ علامہ اقبال نے سانحۂ جلیانوالہ باغ کے باوجود ’سر‘ کا خطاب قبول کر لیا تھا، اور قائداعظم ۱۹۴۷ء میں اس ملکہ برطانیہ کے دستخطوں سے پاکستان کے گورنر جنرل بنے تھے، جس نے فلسطین پر قبضہ کر رکھا تھا۔
ہمیں اپنی مرضی کی تاریخ پڑھانے والے یہ امرواقعہ کیوں نہیں بتاتے کہ جون ۱۹۶۷ء میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران یہاں صدر ایوب حکمران تھے، تب پاکستان ایئر فورس نے اُردن اور عراق کی فضائی حدود میں کئی اسرائیلی طیارے مار گرائے تھے۔ پھر ۶سے ۲۴؍اکتوبر ۱۹۷۳ء کے دوران عرب اسرائیل جنگ رمضان میں پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان ایئر فورس کا ایک پورا اسکواڈرن شام بھیج دیا تھا، جس میں شامل پاکستانی جاںبازوں نے صرف شام نہیں بلکہ مصر کی فضائی حدود میں بھی اسرائیلی طیارے مار گرائے اور پوری عرب دنیا سے داد پائی۔ کیا یہ عربوں کی عملی مدد نہیں تھی؟ یہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ جناب فیض نے اپنے بڑھاپے کے آخری چند سال بیروت میں گزارے اور فلسطینیوں کے لیے نظمیں لکھیں۔ کیا یہ ایک سربرآوردہ پاکستانی کی فلسطین کے لیے عملی جدوجہد نہیں تھی؟___ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ بہت سے طاقت وَر اور با اثر لوگ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حق میں خود سامنے آ کر بولنے کے بجائے میڈیا کے کچھ لوگوں کو استعمال کر رہے ہیں۔
اب آ جائیے علامہ اقبال اور قائداعظم پر کیے جانے والے اعتراضات کی طرف:
افسوس کہ اسرائیل سے تعلقات کے ’فضائل‘ بیان کرنے والوں کو مسئلہ فلسطین کی مناسبت سے علامہ اقبال اور قائداعظم کے ذکر پر بہت غصہ آ جاتا ہے۔ اسی لیے اب ان دو محترم شخصیات کو متنازعہ بنا کر اپنا ہدف حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ کچھ عرب حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کی جا سکے۔ یہ کہنا کہ علامہ اقبال نے ’سانحۂ جلیانوالہ باغ کے باوجود ’سر‘ کا خطاب قبول کیا‘ کوئی نیا اعتراض نہیں ہے۔{ FR 664 } علامہ اقبال نے ۱۳؍اپریل ۱۹۱۹ء کے سانحہ جلیانوالہ باغ کے خلاف لاہور میں ہونے والے جلسے سے خطاب کیا اور اس سانحے پر اشعار بھی کہے۔{ FR 665 } اس سانحے کے چار سال بعد ۱۹۲۳ء میں علامہ اقبال نے ’سر‘ کا خطاب قبول کیا تھا، اور دل چسپ بات یہ ہے کہ اس خطاب کی قبولیت کے باوجود اقبال کے طرزِ فکر اور اظہارِبیان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ ۱۹۳۰ء میں تواُنھوں نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ مملکت کا مطالبہ بھی کر دیا۔
یہ کہنا کہ ’’اُنھوں نے ملکہ برطانیہ کے دستخطوں سے گورنر جنرل بننا کیوں قبول کر لیا؟‘‘ ایک کمزور اور نہایت بودی دلیل ہے۔اصل بات یہ ہے کہ قائداعظم اور مسلم لیگ ۱۹۱۷ء سے ۱۹۴۷ء تک مسلسل فلسطین کی حمایت کرتے رہے اور ۲۶؍ اگست ۱۹۳۸ء کا دن یومِ فلسطین کے طور پر منایا۔
وہ جو یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ’’براہِ مہربانی یہ بتائیں کہ پاکستان کو اسرائیل سے تعلقات قائم نہ کرکے کیا ملا؟‘‘ میں ان افلاطونوں سے یہ پوچھتا ہوں کہ آپ ہی بتا دیجیے کہ ’’ترکی، مصر اور اُردن کو غاصب، ظالم اور جارح اسرائیل کو تسلیم کر کے کیا ملا؟ ‘‘
یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اسرائیل پر تنقید کا مطلب یہودیوں سے دشمنی نہیں بلکہ نسل پرست، انسانیت کش اورفسطائی صہیونیت کی مخالفت اور فلسطین پر جارحیت کرکے قبضہ کرنا قابلِ مذمت ہے۔ بلاشبہہ بہت سے یہودی بھی اسرائیل کی اس درندگی پر تنقید کرتے ہیں۔ انسانی، اخلاقی، قانونی، تہذیبی بنیادوں پر ہم فلسطینیوں کی حمایت اس لیے بھی کرتے ہیں کہ وہ کشمیریوں کی طرح مظلوم ہیں۔ اسی لیے قائداعظم نے مسئلۂ فلسطین کو مسئلۂ کشمیر سے جوڑا ہے۔ اگر ہم نے فلسطین پر اقوام متحدہ کی قراردادیں نظر انداز کر کے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تو کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بارے میں پاکستان کا موقف ختم ہوجائے گا۔ یہاں پاکستان کے حکمران طبقوں پر یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اس معاملے پر جو بات بھی ہو اسے بندکمروں میں نہیں بلکہ پارلیمنٹ کے کھلے اجلاس میں زیربحث لانا ہوگا۔قوم کو نہ دھوکے میں رہنا چاہیے اور دھوکے میں رکھنا چاہیے۔
اسرائیل کو تسلیم کرنے یا تسلیم نہ کرنے کے سوال پر غیرجذباتی اور منطقی گفتگو کرنے کے بجائے، یہ سخت افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے دانش وَر نہایت جذباتی لب ولہجے میں تاریخ کے پرخچے اڑا نے میں بھی کچھ حرج نہیں سمجھتے، واقعات کی من پسند تعبیرکرتے اور تاریخ کے سینے میں خنجر گھونپ دیتے ہیں۔
اسرائیل کو تسلیم کرنے کے سوال پر اُردو کے ایک کالم نگار نے طنزیہ اسلوب میں تحریر کیا ہے: ’’ہمارے پاس جب دلیل ختم ہوجاتی ہے تو ہم سفارتی اور سیاسی ایشوز میں بھی اسلام کو ڈال دیتے ہیںاور اگر اسلام فٹ نہ ہو رہا ہوتو ہم اس میں علامہ اقبال اور قائداعظم ڈال کر دوسروں کو خاموش کردیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیںکہ قائداعظم ۱۹۴۷ء میں اس ملکہ برطانیہ کے دستخطوں سے گورنر جنرل بنے تھے، جس نے فلسطین پر قبضہ کر رکھا تھا…‘‘۔
سب سے پہلے تو یہ واضح رہے کہ ۱۹۴۷ءمیں ملکہ برطانیہ حکمران نہیں تھی بلکہ اس کے والد کنگ جارج ششم حکمران تھے۔ ملکہ ایلزبتھ دوم تو پانچ سال بعدفروری ۱۹۵۲ء میں اس مسند پر فائز ہوئیں۔ موصوف نے یہ بات اس طرح کہی ہے، جیسے برطانوی بادشاہ نے قائداعظم کو کسی نجی ملازمت کے تقرر کا کوئی خط جاری کیا ہو۔ تاریخ اور سیاسیات کے طالب علم جانتے ہیں کہ برطانوی بادشاہ تو براے نام حکمران ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ ہی میں ’انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ۱۹۴۷‘منظور ہوا ، تاہم رسمی طور پر شاہ برطانیہ کی جانب سے حکم نامہ جاری ہوا۔
یہ وضاحت ضروری ہے کہ گورنر جنرل کے حلف میں کنگ جارج ششم سے وفاداری کاحلف لیا جانا تھا، لیکن قائداعظم نے اپنے قلم سے حلف نامہ میں یہ جملہ لکھ کر شامل کیا کہ ’میں پاکستان کے آئین کا وفاداررہوں گا‘۔ قائداعظم نے اس رسمی وثیقے میں بھی واضح کر دیا کہ بطور گورنر جنرل میرے لیے پاکستان کا بننے والا آئین زیادہ اہم ہوگا، شاہ جارج ششم نہیں۔ دوسری جانب نام نہاد ترقی پسندی کے دعوے دار پنڈت نہرو نے بھارتی گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن کے حلف میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں کرائی۔
رہا کالم نگار کا یہ طنز کہ ’’اسلام کو سیاسی اور سفارتی معاملات میں فٹ کردیتے ہیں‘‘ تو عرض یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنی سفارتی ، سیاسی اور قومی پالیسیوں میں اسلامی اصولوں کو ملحوظ کیوں نہ رکھے؟ اسلام ہماری زندگی کا اہم ترین جز ہے، ضابطۂ حیات ہے۔ ہماری انفرادی اور قومی اخلاقیات کے سوتے ہمارے دینِ اسلام اوراسی کے نظام فکروتہذیب سے پھوٹتے ہیں۔
یہی کالم نگار طعنہ زن ہیں:’’اٹھاون اسلامی ممالک میں سے کسی نے آج تک فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دیا، سوائے ایران کے، جو ۴۲برسوں سے فلسطینیوں، لبنانیوں اور شامیوں کے ساتھ کھڑا ہے‘‘۔یہ جملہ ناقابل فہم حد تک گمراہ کن ہے۔ لبنان اور شام کا فلسطین سے کیا موازنہ؟کیا ان کے نزدیک لبنان کا بھی فلسطین جیسا کوئی معاملہ ہے؟ وہاں پر کسی نے قبضہ کر رکھا ہے اور لبنانیوں کو لبنان سے نکال باہر کیا ہے ؟شام میں خانہ جنگی ہوئی اور شام کے اپنے لوگوں نے بشارالاسد کی سفاک آمرانہ حکومت کے خلاف بغاوت کی، جسے بشار کی فوج نے بے رحمی سے کچل ڈالا۔ بلاشبہہ اس بھڑکتی آگ میں دوسرے علاقائی کھلاڑی بھی کود پڑے، مگر اصل مسئلہ شام پر الاسد خاندان کا جبر اور تسلط ہے۔شام اور لبنان کا فلسطین کے ساتھ ذکر کرنا پرلے درجے کی بدذوقی ہے۔
کالم نگار نے خود پاکستانیوں کو کئی طعنے دے ڈالے ہیں:’’ہم پاکستانی اگر واقعی فلسطین سے مخلص ہیں تو چلیے پھرہم فلسطین کے لیے جہاد کرتے ہیں، نکلیں ۲۰ کروڑ پاکستانی اپنے گھروں سے اورچل پڑیں اسرائیل کی طرف…‘‘۔ آگے جا کر لکھا: ’’مجھے اس محبت کی سمجھ نہیں آئی جس میں ہم یہودیوں کی فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام پر اسرائیل مردہ باد کی پوسٹ شیئر کرتے ہیں‘‘… یہ ہے وہ آئیڈیا، جو ہم پاکستانیوں کو عقل سکھانے پراصرار کرتے ہوئے محترم دانش وَر نے پیش کیا۔ اسرائیل جیسے غاصب ملک سے فلسطینیوں کا جائز حق لیے بغیر اس کو تسلیم کر لیا جائے، اس کا قبضہ جائز مان لیں اور اگر ایسا نہیں کرتے تو پھر ۲۰ کروڑ پاکستانی گھر سے نکل کر فلسطین پہنچ جائیں۔ کیا ان دونوں انتہاؤں کے درمیان کچھ بھی نہیں ؟
’’ یہودیوں کی فیس بک، ٹوئٹر ، انسٹا گرام کا طعنہ‘‘ دیتے وقت انھیں یہ بات ضرور بتانی چاہیے تھی کہ کیا یہ ایپس بھی خود کو یہودی ایپ کہلانا پسند کرتے ہیں؟ فیس بک ، انسٹاگرام کا مالک مسٹرمارک زکربرگ اپنا تعلق اصلاح پسند یہودی فیملی سے بتاتے ہیں۔ دراصل یہ سب گھسے پٹے، اور سطحی طعنے ہیں، جو ویسے ہی مسخ ہوچکے ہیں۔ دنیا بھر میں احتجاج کے بہت سے طریقے ہیں اور مختلف حکمت عملیاں اپنائی جاتی ہیں۔ کچھ نہ ہو پا رہا ہوتب بھی اپنا اصولی موقف برقرار رکھا جاتا ہے۔ آپ کئی بار ظلم کے سامنے مجبور ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں کیا ظالم کا ساتھی بن جایا جائے؟اور اگرظالم طاقت ور ہے، اس سے لڑ نہیں سکتے تو کیا پھر اس کے قدموں میں گر جایا جائے؟
یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ قلم کار جن کا فرض قوم کی تربیت کرنا ، ان میں شعور پیدا کرنا ہے۔ جب وہی حقائق مسخ کریں، تاریخی واقعات کو توڑ موڑ کر پیش کریں، غلط تناظر میں سخت جذباتی بھاشن دیں ، تب زوال کا سفر تیز تر ہوگا اور قوم مزید انتشار کا شکار ہوگی۔