معاشرے پر ’اشرافیائی قبضہ‘ (Elitism)کی اصطلاح تب استعمال کی جاتی ہے، جب وسائل کا کنٹرول بلند سماجی مرتبہ رکھنے والے چند افراد کے ہاتھوں میں دے دیا جائے اور یہ گروہ عوام کی وسیع تر بھلائی کو نظر انداز کر کے ان وسائل کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرنے لگے۔ ایسے معاشرے میں فیصلہ سازی کا اختیار بھی انھی چند افراد کو حاصل ہوتا ہے، کیونکہ طبقاتی تفریق، بڑے اثاثہ جات کی ملکیت، سیاسی رسوخ، تاریخی تعصب، جماعتی وابستگی، معاشی مقام و مرتبے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مذہبی حوالے کے استعمال، جیسے عوامل ان کے مددگار ہوتے ہیں۔
بدعنوانی کی یہ قسم اس وقت جنم لیتی ہے، جب طبقۂ اشرافیہ کے لوگ عوام کے لیے مختص وسائل کو عوام پر خرچ کرنے کے بجائے ایسے منصوبوں پر خرچ کرنے لگتے ہیں، جن سے ان کا ذاتی اور گروہی مفاد وابستہ ہوتا ہے۔ معاشرے پر اس اشرافیائی قبضے کا جائزہ لینے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی ایک شعبے کو دیکھا جائے کہ اس پر خرچ ہونے والے وسائل میں سے اشرافیہ کا حصہ کتنا ہے اور بقیہ عوام پر کتنا حصہ خرچ ہوتا ہے؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ اشرافیہ کو شامل کر کے یا انھیں شامل کیے بغیر، اس منصوبے پر ہونے والے اخراجات متعین کیے جائیں اور پھر ان کے درمیان فرق کا جائزہ لیا جائے۔ اس قسم کی معلومات کی جمع و تدوین میں عموماً عوامی فلاح کے منصوبوں اور ان کے اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ کسی بھی منصوبے کے اثرات کا تجزیہ کرنے کے لیے تین طرح کی صورتیں دیکھی جاتی ہیں: اوّل، اس منصوبے سے حاصل ہونے والے فوائد کی موجودہ غیر مساوی تقسیم۔ دوم،ایک فرضی مساویانہ تقسیم اور سوم، اس منصوبے کی قطعی غیر موجودگی۔اس طرح حاصل ہونے والے اعداد و شمار کا جائزہ لے کر ہم عوامی فلاح پر ’اشرافیائی قبضے‘ کے اثرات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
یہاں پر یہ بات مدنظر رہے کہ ’اشرافیائی قبضے‘ کے ذریعے ہونے والی یہ بدعنوانی اس عام کرپشن سے مختلف ہے جسے جرم سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سرکاری ملازمین کا مال میں خردبرد کرنا وغیرہ۔کچھ ماہرین سماجیات نے اشرافیہ کو پہچاننے کے لیے تین طریقے متعین کیے ہیں:اوّل ذاتی، یعنی کسی شخص کے سرکاری یا باضابطہ عہدے کی بنیاد پر۔ دوم، فیصلہ سازی پر اثرانداز ہونے کی اہلیت کی بنا پر۔ سوم، شہرت اور پہچان کی بنیاد پر، یعنی وہ شخص بھی طبقۂ اشرافیہ میں شامل سمجھا جائے گا، جسے اشرافیہ کے لوگ یا معتبر مبصرین اشرافیہ کا حصہ تصور کریں۔ تاہم، پاکستان میں اشرافیائی طبقے یا افراد کو سمجھنے کے لیے یہ پیمانے اکثر ناکافی ثابت ہوتے ہیں۔
معلومات کی غیر مساوی تقسیم (یعنی چند مخصوص افراد کی ان معلومات تک رسائی جو عوام کی نظر سے اوجھل ہوں)، ضابطوں کی خلاف ورزی اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم، ان اشرافیائی بدعنوانیوں کو جاری رکھنے میں مددگار ہوتی ہے۔ انھی عوامل کے باعث اشرافیہ کے نمایندے قانون میں موجود سقم (anomaly)سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ٹھیکوں میں بے ضابطگی یا من پسند قیمتوں وغیرہ کے ذریعے عوامی وسائل کا رُخ اپنی جانب موڑ لیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے عوام کے لیے مختص بجٹ کا بہت کم حصہ اپنے اصل مقصد کے لیے استعمال ہو پاتا ہے۔ چنانچہ عوامی وسائل اور سہولیات کی تقسیم غیر متناسب ہونے لگتی ہے اور آبادی کا ایک بڑا حصہ ان سے محروم رہ جاتا ہے۔
اشرافیہ کے شکنجے میں جکڑے معاشرے میں ان کاغذی معاشی و فلاحی منصوبوں کو نہ تو سماج دوست سمجھا جا سکتا ہے، اور نہ معاشرے میں دولت کی تقسیم کو درست قرار دیا جاسکتا ہے۔ ’سماج دوست معاشی منصوبہ‘ اس صورت حال کو کہتے ہیں، جب کسی ایک نظام میں وسائل کی تقسیم ایسی ہو کہ کسی ایک فریق کو متاثر کیے بغیر دوسرا فریق بھی ان وسائل سے کماحقہٗ فائدہ اٹھارہا ہو۔
شروع میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ عدم مرکزیت پر مبنی حکومتیں، منصوبہ سازی میں ایک مرکزی حکومت کی نسبت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گی، کیونکہ مرکزیت پر مبنی نظامِ حکومت میں معلومات تک رسائی مؤثر نہیں ہوتی اور یہاں کسی ایک فریق کی جانب سے لابنگ کر کے حکومت پر اثر انداز ہونے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے، چنانچہ کچھ شعبے نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ ماہرین معاشیات و سماجیات کے خیال میں لوگوں کو حکومت کاری، نگرانی اور فیصلہ سازی میں شریک کرنا مجموعی طور پر سودمند ثابت ہوتا ہے اور عوامی وسائل کی ایک منصفانہ، عادلانہ اور پائیدار تقسیم عمل میں آتی ہے۔
تاہم، عدم مرکزیت کے اصولوں پر قائم حکومتوں کی سرپرستی میں چلنے والے کئی منصوبوں کے نتائج نے ان خوش کن توقعات کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ سامنے آئی کہ جب اختیارات کئی چھوٹی اکائیوں میں تقسیم ہوتے ہیں تو بااثر گروہوں کے لیے ان مقامی حکومتوں پر اثر انداز ہونا آسان ہو جاتا ہے۔ پھر یہی گروہ اپنے مفاد کے لیے اجتماعی مفاد کو قربان کرتا ہے، تو ریاستی اعتماد زوال کی ڈھلوان پر لڑھک جاتا ہے۔ قومی حکومتوں کے مقابلے میں مقامی حکومتوں پر اشرافیہ کے قبضے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے کئی قسم کی کوششیں بروئے کار لائی جاتی ہیں۔ مثلاً منصوبہ بندی کے لیے ایک مرکزی نظام کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے یا پھر منصوبے کے لیے مختص فنڈ براہِ راست شہریوں کے حوالے کیے جا سکتے ہیں۔
یہاں دوسرے مجوزہ حل پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ کسی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سیاسی رہنماؤں اور عام شہریوں کی صلاحیتوں میں فرق ہوتا ہے۔ ’عالمی بنک‘ (WB) نے بھی اس مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ’’ترقیاتی امداد کسی شکل میں بھی ہو، عوام تک منتقلی کے دوران اس پر اشرافیہ کے قبضے کا امکان موجود رہتا ہے، کیونکہ اسے اُچکنے کے لیے درمیان میں کوئی نہ کوئی سہولت کار شامل ہوتا ہے۔ چنانچہ مرکزی و غیر مرکزی نظام دونوں میں عوامی وسائل کی غیر مؤثر تقسیم سے کئی خطرات جنم لیتے ہیں، جو مقامی آبادی میں وسائل کی غیر مساویانہ تقسیم اور فلاحی منصوبوں کی ناکامی کا باعث بنتے ہیں۔
’اشرافیائی قبضے‘ اور امتیازی سلوک پر مبنی نظام میں کئی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ دونوں میں طاقت کی تقسیم غیر منصفانہ ہوتی ہے اور دونوں عوام کے لیے وسائل سے محرومی کا باعث بنتے ہیں۔ تاہم، یہ دونوں مظاہر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ’اشرافیائی قبضہ‘ طاقت کی غیر ہموار تقسیم سے جنم لیتا ہے، جب کہ امتیازی سلوک ضروری نہیں کہ ریاست میں طاقت کے عدم توازن کا ہی نتیجہ ہو۔
اشرافیائی قبضہ ایک متحرک اور مسلسل عمل کا نام ہے کیونکہ کسی نئے اشرافیائی فریق کے شامل ہونے سے طاقت کا توازن تبدیل ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف امتیازی سلوک تقریباً جامد رہتا ہے۔ ’اشرافیائی قبضہ‘ بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے،جب کہ سماجی امتیازی رویہ، سماجی روایات کی مریضانہ پیروی سے جنم لیتا ہے۔ ’اشرافیائی قبضے‘ اور ’ریاستی قبضے‘ میں یہ بات مشترک ہے کہ دونوں صورتوں میں نجی فائدے کے لیے اجتماعی وسائل استعمال ہوتے ہیں،لیکن طاقت کے استعمال کو دیکھا جائے تو یہ دونوں مظاہر مختلف ہیں۔
کسی معاشرے پر ’اشرافیائی قبضہ‘ معاشرے کو بجا طور پر اپنی جاگیر سمجھنے والے اشرافیائی طبقات کی جانب سے عمل میں آتا ہے،جب کہ ریاست پر قبضہ ان فریقین کی جانب سے ہوتا ہے جن کے پاس ریاست کی اصل طاقت ہوتی ہے۔ بین الاقوامی کمپنیاں (MNCs)یا طاقت ور تنظیمیں اور سوسائٹیاں اکثر اپنی طاقت کے بل پر پوری ریاست کو یرغمال بنا کر فیصلہ سازی کے عمل پر مسلط ہو جاتی ہیں۔ بہرحال یہ دونوں عوامل بُری حکومت کاری کا باعث بنتے ہیں اور معاشرہ ایسے خوفناک چکر میں داخل ہو جاتا ہے، جس سے سرکاری اور اداراتی کارکردگی بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔
پاکستان میں ’درمیانی طبقے‘ (Bourgeois) سے متعلق کسی قسم کا تجرباتی علم نہ ہونے اور بدیسی اصطلاحی مفہوم سے متاثر ہونے کے باعث لوگ اس ڈاکازنی کو سمجھ نہیں پاتے۔ چنانچہ لوگ اپنا اشرافیائی مرتبہ پہچاننے میں بھی غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر معاشرے نے اپنی آسانی کے لیے کئی تعریفیں متعین کر لی ہیں۔ اعلیٰ طبقاتی تعلیمی اداروں جیسے لمز اور ایچی سن کالج وغیرہ سے سند یافتہ تمام طالب علم، مہنگے علاقوں یعنی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی یا بحریہ ٹاؤن کے تمام رہائشی، یا بیوروکریسی اور دفاعی اداروں کے تمام افراد کو اشرافیہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن اس طرح وہ اصل لوگ نظر انداز ہو جاتے ہیں، جو ریاست اور معاشرے پر حقیقی معنوں میں قابض ہیں۔
جب ہمارے ہاں اکثر اشرافیہ اور اس کے دائرہ اثر کی درست تعریف کیے بغیر اس مسئلے پر بات کی جاتی ہے اور اصل فیصلہ ساز قوتوں کو نہ پہچاننے کی کوشش کی جاتی ہے، تو یہ سوال پوچھنا بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ کون سا طبقۂ اشرافیہ ہے جو ریاست پر قبضے کا ذمہ دار ہے؟
اس معاملے میں تو کوئی ابہام یا غلط فہمی نہیں پائی جاتی کہ پاکستان کے عوام طاقت اور اختیار کے دائرے سے باہر ہیں۔ اس دائرے کا تمام تر پھیلائو، پاکستانی اشرافیہ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے لیے مخصوص ہے، جو بڑے بڑے تاجروں، صنعت کاروں، جاگیرداروں، روحانی لیڈروں اور سول و فوجی افسران کے منظم نیٹ ورک پر مشتمل ہے۔ یہ تمام عناصر مل کر اپنے سیاسی غلبے کا تحفظ کرتے ہیں اور پھر اس سیاسی رسوخ کو بڑی بے رحمی سے باہمی فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اپنے ظاہری اختلافات اور تفریق کے باوجود یہ عناصر طبقاتی مفادات کے تحفظ کے لیے کئی معاملات میں متحد رہتے ہیں۔ اس طبقے کے داخلی تعلقات کی دُنیا لازمی طور پر باہمی تعاون، اشتراک، اور دوطرفہ کاوشوں کے لیے راہ ہموار کر تے ہیں تا کہ ریاستی وسائل پر قبضہ برقرار رکھا جاسکے۔
بڑے بڑے پراپرٹی ڈیلر، چینی کے صنعت کار، بااثر فوجی افسران، اور کاروباری اشرافیہ فیصلہ سازی کے عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں اور بلاواسطہ و بالواسطہ اپنا معاشی و سیاسی رسوخ استعمال کرتے ہیں۔ بدلے میں انھیں یقین دہانی کروائی جاتی ہے کہ کوئی ایسا بامعنی اصلاحی پروگرام متعارف نہیں کروایا جائے گا، جو ان کے اقتدار پر اثرانداز ہو سکتا ہو۔
ریاست پر اشرافیائی قبضہ اس لیے برقرار رہتا ہے کہ یہ اشرافیہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے تئیں منافع اور کاروبار کے مائی باپ سمجھتے ہیںاور اس عمل کو ریاستی وجود کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ ان کے کاروبار زیادہ تر کرائے کے ماڈل پر چلتے ہیں، یعنی یہ بغیر کچھ کیے فقط اپنی ساکھ، تعلقات کی دھونس اور اپنے سرمایے سے سرمایہ پیدا کرتے ہیں۔ اس نمونے پر چلنے والی معیشتوں کے لیے بیرونی ممالک سے آنے والا ’کرایہ‘ یعنی منافع آمدن کا اہم ذریعہ ہوتا ہے۔ لیکن اس ضمن میں پاکستان کو سری لنکا کی مثال سے سبق سیکھنا چاہیے کہ فقط کرائے کی آمدن پر معیشت نہیں چلائی جا سکتی۔ ہمارے پاس ابھی وقت ہے کہ ہم اپنا قبلہ درست کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے اس منظرنامے کو سمجھنے کے لیے حسب ذیل دو آراء قابلِ غور ہیں:
حمزہ علوی یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ سول اور عسکری افسر شاہی کا غیر ضروری پھیلاؤ ’افراط ترقی‘ کو جنم دیتا ہے، جو معاشرے کی حقیقی ترقی کے لیے رکاوٹ ہے۔ نوآبادیاتی دور سے گزرنے کے بعد چلنے والے معاشروں میں کم ہی ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ حکمران طبقے میں مکمل یکسانیت پائی جاتی ہو۔ یہاں حکمران طبقہ کئی ذیلی طبقات میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ذیلی طبقے کا ریاست کے ساتھ رشتہ مختلف ہوتا ہے۔ ایک مابعد نوآبادیاتی ریاست کی بقا انھی مقتدر طبقات پر منحصر ہوتی ہے اور یہ طبقے باہمی مفاد کے لیے ایک دوسرے کا سہارا بنتے اور مفادات سمیٹتے ہیں۔ ان طبقات میں ایک مقامی اشرافیہ، ایک جدید نوآبادیاتی اشرافیہ یعنی بین الاقوامی کمپنیوں کے نمایندے اور جاگیر دار اشرافیہ شامل ہیں۔ ریاست ان مختلف طبقات کے درمیان محض ثالث کا کام کرتی ہے تا کہ ان کے پورے اور کسی حد تک ریاست کے مفادات کو محفوظ بنایا جا سکے۔
عائشہ صدیقہ ’فوجی کاروبار‘ کی اصطلاح پیش کرتے ہوئے لکھتی ہیں: ’’دفاع کے لیے مختص سرمایہ مختلف فلاحی اداروں،ٹال پلازوں، شاپنگ سینٹرز، پیٹرول اسٹیشن وغیرہ کے ذریعے دفاعی اداروں کے افسران پر استعمال ہوتا ہے، جب کہ ریٹائر افسران کو زمین اور کاروباری مواقع بھی مہیا کیے جاتے ہیں‘‘۔
پاکستانی معاشرے پر نوآبادیاتی اثرات بہت گہرے ہیں۔ دوسری نوآبادیات کے برعکس جہاں انگریز خود آباد ہو گئے تھے،یہاں اس قسم کے ادارے تشکیل دیے گئے تھے، جو یہاں سے برطانیہ کے صنعتی انقلاب کے لیے وسائل مہیا کر سکیں۔ اشرافیہ کا طاقت ور ترین ہتھیار ریاست کا وہ نظام ہے، جو یہاں سے منافع حاصل کرنے کے لیے کئی عشروں کی محنت سے تشکیل دیا گیا ہے۔ اشرافیہ نہ صرف ہر طرح کی پالیسیوں کے اثرات متعین کرتے ہیں بلکہ وہ ان پالیسیوں اورریاستی مشینری کو اپنے فائدے کے لیے استعمال بھی کرتے ہیں۔ اس سارے عمل کے لیے سرکاری ادارے، سیاسی خاندان، یا مخصوص افراد ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ ریاستی ڈھانچے کے اندر اشرافیہ نے اپنے لیے جو جگہ متعین کرلی ہے وہ اس سارے عمل کو ممکن بناتی ہے۔
’یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام ‘(UNDP) کی جانب سے جاری کردہ ’نیشنل ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ ۲۰۲۰ ء‘کے مطابق پاکستان کی سرکاری مشینری پر آٹھ گروہ قابض ہیں جو اس کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں، جن میں سرکاری ادارے، فوجی اسٹیبلشمنٹ، امیرترین افراد (ایک فی صد طبقہ)، بڑے تجار، برآمد کنندگان، بنک، صنعت کار اور جاگیردار شامل ہیں۔
سال ۲۰۱۷ءتا ۲۰۱۸ء میں ان میں سے صرف صنعت کار طبقے نے ملکی معیشت کو ۵۲۸؍ارب روپے کا نقصان پہنچایا تھا۔ یہ وہ رقم تھی جو محصولات کی مد میں اکٹھی کی جانی تھی، لیکن ٹیکس چھوٹ اور صنعت کاروں کی من پسند قیمتوں کے ذریعے اسے ضائع کر دیا گیا۔ متذکرہ بالا تمام عناصر اسی شرح سے معیشت کو نقصان پہنچاتے رہے ہیں۔ اسی دوران بینکوں نے ۱۹۶ ؍ارب روپے کی رعایت(سبسڈی) حاصل کی اور اوسطاً ہر شعبے نے معیشت کو ۳۳۲ ؍ارب روپے کا نقصان پہنچایا۔ مجموعی طور پر یہ رقم۲ء۷ کھرب روپے بنتی ہے، جو ہماری ’خالص قومی پیداوار‘ (GDP) کا تقریباً ۸ فی صد حصہ ہے۔
پاکستانی اشرافیہ بیرون ملک سے کرائے کی آمدن حاصل کرنے کے لیے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔انھوں نے اندرون ملک مواقع پیدا کرنے کے بجائے مغربی ممالک، چین اور تیل پیدا کرنے والے خلیجی ممالک سے ڈالر کمانے کے ذرائع تلاش کر لیے ہیں۔ تاریخی طور پر پاکستانی اشرافیہ ملک کی جغرافیائی اہمیت سے فائدہ اٹھاتے آئے ہیں۔
مہاجرین کسی متوقع بحران سے بچنے کے لیے امریکا اور یورپ اب تک پاکستان کے ریاستی ڈھانچے کو سہارا دیتے رہے ہیں۔ ان کی یہ مدد عالمی مالیاتی فنڈ سے قرضوں کی فراہمی، تیل کی ادائیگیوں میں تاخیر، سفارتی مدد، اور فوجی ادائیگیوں کی شکل میں ہمیں ملتی رہی ہے۔ اندرونی طور پر یہ امداد ہمارے فیصلہ سازوں کے لیے مددگار رہی ہے کہ وہ اپنے نجی مفادات کو قربان کیے بغیر ریاست کا موجودہ ڈھانچا قائم رکھ سکیں۔
پاکستانی اشرافیہ اس تصور کے ساتھ اپنا کاروبارِ اختیار و معاش چلاتا آیا ہے کہ دنیا میں پاکستان کی جیواسٹرے ٹیجک (جغرافیائی) اہمیت ہمیشہ یونہی برقرار رہے گی اور اس کا فائدہ ان کو پہنچتا رہے گا۔ تاہم، گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اور امریکا، چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی بدلتی سیاست کے ساتھ ہماری یہ پوزیشن مشکل میں پڑ سکتی ہے۔ بین الاقوامی نظام میں رُونما ہونے والی تبدیلیوں نے ’پاکستانی اشرافیہ‘ کی اہمیت کم کردی ہے۔ اب ضروری ہے کہ وہ بیرونی آمدن پر انحصار کم کریں اور اندرونِ ملک اصلاحات پر توجہ دیں۔
ہمارے فیصلہ ساز معاشی اصلاحات کی ضرورت سے باخبر ہیں۔ فی الوقت صرف ۲ فی صد پاکستانی آمدن پر ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ۶۰ فی صد سے زیادہ محصولات بالواسطہ ٹیکسوں وغیرہ کے ذریعے جمع ہوتے ہیں، جس کا بوجھ غریبوں پر زیادہ پڑتاہے۔ انفرادی دولت کا تقریباً ۸۰ فی صد حصہ رہائشی زمینوں کی شکل میں موجود ہوتا ہے، جس کا معیشت کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
بجٹ میں زیادہ تر مراعات بھی چینی اور رئیل اسٹیٹ جیسی صنعتوں کو دی جاتی ہیں، جس کی وجہ کاروباری ترقی کی خواہش نہیں بلکہ سیاسی و معاشی مفاد کا حصول ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی برآمد مزدور طبقہ کے افراد ہیں جو خلیجی ممالک بھیجے جاتے ہیں۔
بدلتے ہوئے بین الاقوامی حالات نے ہماری اشرافیہ کے پرانے کاروباری ماڈل کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ اب کرائے پر کام کرنے والی معیشت کو بدلنے کے لیے ایسی اصلاحات کی ضرورت ہے، جن کا اثر براہ راست اشرافیہ پر پڑے۔ اس اقدام سے ریاست پر ان کا قبضہ کمزور ہوگا۔
ضروری ہے کہ ریاست پر ’اشرافیائی قبضہ‘ کی سائنس کو ایک گمبھیر مسئلے کی حیثیت سے سمجھا جائے اور اس کے حل کے لیے کوشش کی جائے۔ اس کے بعد ہی ہم بحرانوں کے اس چکر سے نکل پائیں گے اور کرائے پر انحصار کم ہو گا۔ مگر اس کے لیے سیاسی مینڈیٹ کی ضرورت ہے جو صرف عام انتخابات کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ عمل ریاستی اداروں میں مراعات کی تقسیم کااَزسرنو جائزہ لینے کے لیے بھی معاون ہو سکتا ہے۔ ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ شخصی آزادی کے ساتھ محدود وسائل کو اجتماعی فائدے کے لیے مناسب ترین طریقے سے استعمال کر سکیں۔ اس سے اگرچہ بالائی طبقے کے مفادات پر سوال اٹھتا ہے لیکن یہ بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ افراد کو ان کی محنت اور ذہانت کا پھل بہرحال ملتا رہے۔ ترقی کا زینہ سب کے لیے کھلا ہونا چاہیے، جس پر صحت مند مقابلے کی فضا میں تمام افراد اپنا کردار ادا کر سکیں، بشرطیکہ نچلے طبقوں کا مفاد متاثر نہ ہو۔ کسی بھی معاشرے میں میرٹ اور سماجی ترقی کا چلن تبھی عام ہو سکتا ہے، جب معیاری ادارے موجود ہوں اور معاشی ترقی میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
’پاکستانی اشرافیہ‘ طاقت کے لیے آپس میں لڑتی بھی ہے، ان کے اتحاد بھی ہوتے ہیں اور ان کی معاشرتی سرگرمیاں بھی جداگانہ ہوتی ہیں۔ چنانچہ اشرافیہ کو ایک یکسر مختلف گروہ تصور کیا جانا چاہیے۔ اشرافیہ کے ارکان عموماً معاشی وسائل پر قابض تو ہوتے ہیں، لیکن ان کی جدوجہد کے مقاصد ہمیشہ معاشی نہیں ہوتے۔ وہ سماجی اثرات، ثقافتی رسوخ اور سیاسی گرفت کےذریعے بھی آپس میں جڑتے ہیں اورمعاشرے میں اپنا بلند علامتی مرتبہ قائم رکھتے ہیں، تا کہ عوام کے دلوں میں ان کے لیے غیر مشروط احترام موجود رہے۔ اگرچہ اب ہمارے ہاں ’اشرافیائی قبضہ‘ پر بہت بات کی جاتی ہے لیکن اس عمل کی گہری سمجھ نہ ہونے کے باعث بات زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ (ترجمہ: اطہر رسول حیدر)