۱۵؍ اپریل ۲۰۲۳ءکو خرطوم کے باسیوں کی آنکھ گولیوں کے چلنے اور گولہ باری اور فضائی بمباری کے دھماکوں سے کھلی۔ نیلے اور سفید دریائے نیل کے سنگم پر واقع دارالحکومت خرطوم کے تینوں مرکزی اضلاع کے داخلی راستوں پر سوڈانی فوج اور الدعم السریع (Rapid Force) کے جنگجوؤں کے درمیان لڑائی شروع ہوچکی تھی۔ حکومتی انتظامی دفاتر سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کے مرغولے لڑائی کی شدت اور ہولناکی پر دلالت کر رہے تھے ۔
سوڈانی وزیر صحت کے مطابق اس وقت تک اس لڑائی میں ۵ہزارافراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جب کہ ۶ہزار سے زائد شدید زخمی ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک کروڑ سے زیادہ بچے، مرد اور خواتین، بے گھر اور بے در ہوچکے ہیں۔
یہ مسلح ملیشیا جسے’ریپڈ فورس‘ کا نام دیا گیا تھا، ۲۰۱۳ ءمیں اس وقت قائم کی گئی تھی جب مقتدرہ کو دارفور کے علاقے میں علیحدگی پسند مسلح تحریک کا سامنا تھا ۔مسلح تنظیمیں یکے بعد دیگرے قصبوں اور شہروں پر قبضہ کرتی چلی جارہی تھیں اور اس کھلے صحرائی علاقےاور دُور دراز کے پہاڑی علاقوں میں ا ن کے سامنے سوڈان کی مسلح فوج بے بس تھی ۔خصوصاً اس لیے بھی کہ باقاعدہ فوج کی جنگی تربیت صحرائی جنگ لڑنے کی تھی ہی نہیں اور نہ وہ ایسی جنگ لڑنے کے لیے ضروری اسلحے اور وسائل و نقل و حمل سے لیس تھی۔ عشروں تک یہ فوج جنوبی سوڈان کے جنگلوں میں جنگ لڑتی آئی تھی۔ اس کی تربیت اور اس کے لیے اسلحہ بھی اسی نوعیت کی جنگ لڑنے کے لیے فراہم کیا گیا تھا ۔ دوسری طرف دارفور کے علیحدگی پسندوں کا اصل ہتھیار ان کی تیز ترین نقل و حرکت ،گوریلا جنگی چالیں، ’فور بائی فور گاڑیاں‘ اور ان پر نصب مشین گنیں تھیں، جن کا مقابلہ سوڈان کی باقاعدہ فوج اور اس کے بھاری بھرکم اسلحے کے بس میں نہیں تھا ۔
لہٰذا، فوج کے منصوبہ سازوں نے اس کا حل یہ سوچا کہ دارفور کے علاقے میں موجود قبائلی جنگجوؤں کو منظم اور مسلح کیا جائے ۔علیحدگی پسندوں کے مقابل انھیں بھی ویسی ہی ’فور بائی فور گاڑیاں‘ اور ہلکی مشین گنیں اور آٹومیٹک رائفلیں دی جائیں اور انھیں تربیت دی جائے تاکہ یہ دشمن کا مقابلہ اسی چابک دستی سے کرسکیں ۔اس مقصد کے لیے علاقے کے ان عرب جنگجو قبائل کے افراد کو منظم کیا گیا جو پہلے ہی خانہ جنگی اور علیحدگی پسندوں کے ہاتھوں ستائے ہوئے اور انتقام کی آگ میں سُلگ رہے تھے ۔عوامی زبان میں ان کا نام ’جنجوید‘ تھا یعنی گھڑسوار سپاہی۔ جلدہی علاقے میں ان جنگجو سپاہیوں کی دھاک بیٹھ گئی اور انھیں یکے بعد دیگرے کامیابیاں ملنے لگیں،بہت سے علاقے جو باغیوں کے زیر تسلط تھے یکے بعد دیگرے وا گزار ہونے لگے۔تاہم، اس ساری کارروائی میں باقاعدہ فوجی ڈسپلن کا نہ صرف فقدان تھا بلکہ طاقت کے استعمال میں حد سے تجاوز ہی اس فورس کا طرۂ امتیاز تھا۔’جنجوید‘ پر تسلسل کے ساتھ انسانیت کے خلاف جرائم ،قتل عام اور نسل کشی جیسے الزامات لگتے رہے ۔
دوسری طرف خرطوم کے فیصلہ ساز اپنے فیصلے کی اصابت پر داد و تحسین وصول کرنے میں لگے ہوئے تھے اور نتائج و عواقب سے بے نیاز ہوکر اس ریپڈ فورس کے لیے ریاست کے بجٹ میں بڑے بڑے وسائل رکھے جارہے تھے۔ اس وقت بھی جہاندیدہ لوگوں نے اس سارے عمل اور اس کے خوف ناک نتائج و عواقب سے یہ کہہ کر خبردار کیا تھا کہ ’’ایک ہی ریاست میں دو فوجیں نہیں ہوسکتیں ‘‘۔لیکن اس رائے کو کوئی وقعت نہیں دی گئی اور ایسے خیالات کے مالک بہت سے افسران کو فارغ کردیا گیا۔
تاہم، اصلاح احوال کی خاطر ۲۰۱۷ء میں سوڈانی پارلیمنٹ نے ایک قانون پاس کیا، جس کا نام Rapid Forces Act رکھا گیا ۔اس قانون میں صاف لکھا تھا کہ یہ ریپڈ فورس ،سوڈان کی باقاعدہ افواج کے کمانڈر ان چیف کے تابع ہوگی۔ سیکڑوں فو جی افسروں اور ملٹری انتظامیہ کے دیگر ارکان کو ڈیپو ٹیشن پر اس ’جنجوید فور س‘ میں تعینات کیا گیا جنھوں نے انھیں لڑنے کی تربیت بھی دی اور جنگی چالیں بھی سکھائیں۔ تاہم، اس سب کے باوجود مجموعی طور پر اس ملیشیا کا رنگ ڈھنگ قبائلی ہی رہا اور قائد اعلیٰ کی حیثیت سے اس پر گرفت جنرل حمیدتی کی رہی، جن کا تعلق اسی علاقے کے طاقت ور قبیلے دقلو سے ہے۔
۲۰۱۵ءمیں یمن کی خانہ جنگی شروع ہوئی اور محمد بن سلمان نے عرب فوجی اتحاد قائم کیا تو سوڈان کی مسلح افواج کے ساتھ اس ’جنجویدفورس‘ کے سپاہی بھی دادِ شجاعت دینے یمن پہنچے ۔اس طرح بین الاقوامی فرنٹ پر بھی انھیں اپنی لڑنے کی صلاحیت آزمانے ،جنگی تجربہ حاصل کرنے اور اس کے قائد حمیدتی کو بین الاقوامی شخصیات اور اداروں کے ساتھ خصوصی نجی اور ذاتی تعلقات استوار کرنے کا خوب موقع ملا ۔
۲۰۱۸ءکے اختتام پر خرطوم میں مظاہرے پھوٹ پڑے، جن کا اختتام صدر عمر حسن البشیر کے استعفا اور پھر قید کی صورت میں نکلا۔’ریپڈ فورس‘ کے قائد حمیدتی کو اپنا مفاد اسی میں نظر آیا کہ صدر عمر حسن البشیر کی طاقت ور اور تجربہ کار شخصیت ان کے راستے سے ہٹ جائے اور انھیں طالع آزمائی کا موقع مل سکے، لہٰذا انھوں نے اپنا وزن صدر مخالف پلڑے میں ڈال دیا ۔
اگلے ہی سال ۲۰۱۹ء میں مظاہرین ایک بار پھر سڑکوں پر تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ مسلح افواج یکسر سیاسی عمل سے باہر ہو جائیں۔اس بار مظاہرین نے دھرنے کا مقام سوڈانی افواج کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے چنا ۔دھرنا طویل ہوا تو طاقت کے استعمال کا فیصلہ کیاگیا اور جس میں مبینہ طور پر سیکڑوں نوجوان جان سے گئے۔اس قتل عام میں ’جنجوید‘ کے سپاہی پیش پیش تھےاور ان پر ایک بار پھر یہ الزام لگا کہ ’’اس ملیشیا نے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے‘‘۔حد یہ ہے کہ اس واقعہ کی تحقیقات کے لیے بننے والے کمیشن کی رپورٹ کبھی منظر عام پر نہیں آسکی ۔
ریپڈ فورس کی خود سری کا آغاز اس وقت ہوا جب عبوری دور کے لیے حکمران کونسل کے سربراہ اور سوڈانی افواج کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عبد الفتاح برھان نے ریپڈ فورس ایکٹ کی دفعہ ۵ کو منسوخ کرتے ہوئے اسے کسی بھی قانونی مواخذے سے بالاتر قرار دیا۔مقصد یہ تھا کہ اس کے غیر قانونی اقدامات کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔اس استثنا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ریپڈفور س کے قائد حمیدتی نے بہت سے اہم اُمور، جن میں فورس میں نئی بھرتیاں ، نئے اور جدید اسلحے کی خریداری، اپنی فورس اور اپنے لیے مالی وسائل کی فراہمی وغیرہ شامل تھے، ان میں من مانی شروع کردی۔ گذشتہ چار برسوں میں ریپڈ فورس جس کی تعداد صدر عمر حسن البشیر کے دور میں صرف ۲۵ہزار تھی، اس سے چار گنا زیادہ بڑھا کر اس کے سپاہیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ کرلی گئی ہے۔اس فورس کی قائدانہ آسامیوں پر اپنے بھائی بندوں اور اقربا، برادری اور قبیلہ کے افراد سے بھر لیا گیا ہے۔مالی وسائل کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے علاقے میں موجود اور سونے کی کانوں کے لیے مشہور ’جبل عامر‘ پرمکمل قبضہ کرلیا ہے ۔
دوسری طرف جنرل حمیدتی نے اندرون ملک امور سیاست و سیادت میں بھی تیزی کے ساتھ اپنا اثر و نفوذ بڑھایا۔جنرل عمر حسن البشیر کے بعد بننے والی مجلس حاکمہ میں دو بار نائب صدر مقرر کیے گئے ۔مالیات اور فائنانس کی شد بد نہ ہونے کے باوجود وہ کابینہ کی مالیاتی کمیٹی کے صدر بنے اور طرفہ تماشا یہ تھا کہ نامزد وزیر اعظم جو کہ سوڈان کے معروف معیشت دان ہیں، عبداللہ حمدوک کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی اس کمیٹی میں نائب کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حمیدتی کا شروع سے ہی ارادہ قومی ذرائع اور وسائل دولت و ثروت پر قبضہ جمانا اور اسے اپنے ذاتی تصرف اور اختیار و نفوذ میں اضافے کے لیے استعمال کرنا تھا۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں تواتر کے ساتھ یہ امر رپورٹ ہوتا رہا ہے کہ سوڈانی سونا خلیجی ملک متحدہ عرب امارات اور اسی طرح روس میں بھی بلاروک ٹوک اور بڑی مقدار میں فروخت کیا جاتا رہا ہے ۔
یہ بالکل درست بات ہے کہ ’’وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا‘‘۔ سوڈان کے معاملے میں بھی حالیہ خانہ جنگی کے اسباب کو برسوں نشوونما پانے کا موقع ملا اور آخرکار ۱۵؍ اپریل ۲۰۲۳ء کو وہ تاریک ایام شروع ہوئے، جن کے گہرے سایوں نے سوڈان اور سوڈانی قوم کے ترقی و خوش حالی اور امن و استحکام اور اس خطے کے لیے رول ماڈل بننے کے سارے خوابوں کو گہنا دیا ۔