جولائی ۲۰۲۳

فہرست مضامین

۷۲حُوریں؟

ڈاکٹرمحمدرضی الاسلام ندوی | جولائی ۲۰۲۳ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

باولے کتّے کے کاٹنے سے ہونے والی بیماری کو Rabies کہتے ہیں۔ اس کی ایک نمایاں علامت یہ ہے کہ اس میں مبتلا شخص پانی کو دیکھ کر وحشت زدہ ہوجاتا ہے اور چیخ و پکار کرنے لگتا ہے۔ اس علامت کو فزع الماء (Hydrophobia) کہا جاتا ہے۔ ٹھیک یہی معاملہ گذشتہ کچھ عرصے سے اسلام کے حوالے سے ہے۔ عالمی سطح پر اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے شیطان اور اس کے کارندے بہت پریشان ہیں اور ان پر بُری طرح خوف اور دہشت طاری ہے۔ وہ اسلاموفوبیا میں مبتلا ہیں۔ ہندستان میں بھی اسلاموفوبیا کی بیماری میں مبتلا افراد کی تعداد کچھ کم نہیں ہے۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے ہر جتن کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جھوٹے اور حددرجہ اشتعال انگیز پراپیگنڈے کا کچھ شمار نہیں ہے، مگر اس کے ساتھ اسلافوبیا کی بیماری کو پھیلانے کا سب سے بڑا مؤثر ذریعہ فلمیں اور ڈراما سیریلز ہیں ، جن کے ذریعے وہ ناظرین کے ذہنوں کو بڑے پیمانے پر مسموم کررہے ہیں۔ ’کشمیر فائلس’ ، ’کیرلا اسٹوری‘ اور ’اجمیر ۹۲ ‘کے بعد ان دنوں نئی فلم ’۷۲ حُوریں‘ کا چرچا ہے۔

’۷۲حُوریں‘ نامی فلم میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ماضی قریب میں دنیا میں جتنے بڑے بڑے دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں ، جیسے امریکا میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی اور ممبئی کے تاج ہوٹل کا واقعہ وغیرہ، یہ سب مسلمانوں کی کارستانی ہے۔ ان واقعات کی تصویروں کے ساتھ اسامہ بن لادن،  اجمل قصاب ، یعقوب میمن ، مسعود اظہر اور حافظ سعید کی تصاویر دکھاکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان دہشت گردانہ حملوں کو ، انجام دینے کے ذمہ دار تمام افراد مسلمان ہیں۔ انھیں مذہبی جنون میں مبتلا کرکے اور ان کو ذہنی غسل (برین واشنگ) دے کر خودکش بمباروں کی شکل میں تبدیل کردیا جاتا ہے ۔ انھیں یہ سمجھایا اور پڑھایا جاتا ہے کہ یہ عمل جہاد ہے اور اس راہ میں اپنی جان کی قربانی پیش کرنے والا شہید ہے ، جو جنّت کا مستحق بنتا ہے ، جہاں اس کے جنسی تلذّذ کے لیے ۷۲ حُوریں یعنی حسین ترین عورتیں ملیں گی ۔

اس وقت اس بحث کا موقع نہیں ہے کہ یہ دہشت گردانہ واقعات واقعی مسلمانوں نے انجام دیے ہیں ، یا بلا تحقیق و ثبوت غلط طور سے ان کی طرف منسوب کردیے گئے ہیں۔ یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ دہشت گردی اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ جو مذہب ایک انسان کو بلا قصور قتل کرنے کو دنیا کے تمام انسانوں کو قتل کرنے کے مترادف سمجھتا ہے، وہ دہشت گردانہ حملوں کی کیوں کر اجازت دے سکتا ہے؟ اس وقت صرف اس موضوع پر کچھ اظہارِ خیال کرنا مقصود ہے کہ ’’جنّت میں ۷۲ حُوروں کی کیا حقیقت ہے ، جس کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے؟‘‘

اسلامی نقطۂ نظر سے یہ دنیا امتحان گاہ ہے۔ یہاں انسان جیسے کام کریں گے، ان کا بدلہ مرنے کے بعد برپا ہونے والی دوسری دنیا میں پائیں گے ، جسے آخرت کہا گیا ہے۔ دنیا فانی ہے اور آخرت ہمیشہ باقی رہنے والی۔ دنیا میں جو لوگ اچھے کام کریں گے، وہ ان کا بدلہ آخرت میں جنّت کی شکل میں پائیں گے ، جہاں ہر طرح کی نعمتیں ہوں گی۔ اور جو لوگ یہاں بُرے کام کریں گے انھیں آخرت میں ان کا بدلہ جہنم کی شکل میں ملے گا ، جس میں ہر طرح کی تکلیف دہ چیزیں ہوں گی ۔

قرآن و حدیث میں جنت کی نعمتوں اور جہنم کی سزاؤں کا تذکرہ بہت تفصیل سے کیا گیا ہے، لیکن وہ محض تقریبِ فہم کے لیے ہے۔ کوئی شخص ان کی حقیقت کا ادراک نہیں کرسکتا ، اس لیے کہ انسانی عقل ان کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ حدیث میں کہا گیا ہے کہ جنت میں ایسی ایسی نعمتیں ہوں گی جنھیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا ، نہ کسی کان نے سنا ہوگا اور نہ وہ کسی کے حاشیۂ خیال میں آئی ہوں گی۔ (بخاری : ۴۷۷۹، مسلم : ۷۳۱۰)

قرآن و حدیث میں حُوروں کا بھی تذکرہ ہے۔ اس سے مراد خوب صورت عورتیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان مردوں کو جنّت میں بھی ان سے نوازے گا۔ حُوروں کا بس یہ تصور ہے ، جو قرآن مجید اور صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔

قرآن میں حُوروں کی تعداد کا کہیں ذکر نہیں۔ بعض صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہرمومن کو جنّت میں دو حُوریں ملیں گی (بخاری : ۳۲۴۵ ، مسلم: ۲۸۳۴)۔ محدثین نے لکھا ہے کہ جیسے قرآن میں دو جنتوں اور دو چشموں کا تذکرہ ہے، اسی طرح حدیث میں دو بیویوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن جہاں تک یہ ۷۲ حُوروں کا تعلق ہے ، اس کا تذکرہ کسی صحیح حدیث میں نہیں ہے۔ مشہور محدثین نے یہ بات بڑی صراحت سے بیان کی ہے۔ مثلاً علامہ ابن تیمیہ ( مجموع الفتاویٰ: ۴۳۲/۶) علامہ ابن حجر (فتح الباری :۳۲۵/۶) وغیرہ۔ علامہ ابن قیم الجوزیہ کی کتاب: حادي الأرواح الٰی بلاد الأفراح  میں جنت اور اس کی نعمتوں کا تذکرہ بہت تفصیل سے کیا گیا ہے، اور علامہ ابن قیم نے صراحت کی ہے کہ صحیح احادیث میں دو بیویوں سے زیادہ کا تذکرہ نہیں ہے (ص ۱۵۶-۱۵۷)۔

یہ بات درست ہے کہ بہت سی احادیث و روایات میں ۷۲ حُوروں کا ذکر ہے۔ یہی نہیں ، بلکہ بعض احادیث میں سو ، پانچ سو ، چار ہزار ، بلکہ آٹھ ہزار حُوروں کا ذکر ہے ، لیکن یہ تمام احادیث ضعیف ، بلکہ ان میں بہت سی موضوع یعنی من گھڑت ہیں۔ اسلام دشمن لوگ قرآن مجید میں تو تحریف نہ کرسکے اور اس کا ایک حرف بھی بدلنے پر قادر نہ ہوسکے، تو انھوں نے بے بنیاد اور من گھڑت حدیثیں پھیلادیں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے امت کے محدثین اور ناقدینِ حدیث کو، جنھوں نے احادیث میں سے صحیح ، ضعیف اور من گھڑت کو چھانٹ کر الگ الگ کردیا ۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض علما اب بھی اپنے خطبات اور وعظوں میں اعمال کے فضائل بیان کرتے ہوئے ان کے بدلے میں ملنے والی جنت کی نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہیں، تو حُوروں کے حُسن و جمال ، ان کی ہیئت ، قد و قامت اور دوسری چیزوں کا تذکرہ بہت مزہ لے لے کر کرتے ہیں۔ ان واعظین کو معلوم ہونا چاہیے کہ ضعیف اور موضوع حدیثیں پیش کرکے وہ دین کی کوئی خدمت نہیں کررہے ہیں ، بلکہ اس کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں ۔