باولے کتّے کے کاٹنے سے ہونے والی بیماری کو Rabies کہتے ہیں۔ اس کی ایک نمایاں علامت یہ ہے کہ اس میں مبتلا شخص پانی کو دیکھ کر وحشت زدہ ہوجاتا ہے اور چیخ و پکار کرنے لگتا ہے۔ اس علامت کو فزع الماء (Hydrophobia) کہا جاتا ہے۔ ٹھیک یہی معاملہ گذشتہ کچھ عرصے سے اسلام کے حوالے سے ہے۔ عالمی سطح پر اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے شیطان اور اس کے کارندے بہت پریشان ہیں اور ان پر بُری طرح خوف اور دہشت طاری ہے۔ وہ اسلاموفوبیا میں مبتلا ہیں۔ ہندستان میں بھی اسلاموفوبیا کی بیماری میں مبتلا افراد کی تعداد کچھ کم نہیں ہے۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے ہر جتن کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جھوٹے اور حددرجہ اشتعال انگیز پراپیگنڈے کا کچھ شمار نہیں ہے، مگر اس کے ساتھ اسلافوبیا کی بیماری کو پھیلانے کا سب سے بڑا مؤثر ذریعہ فلمیں اور ڈراما سیریلز ہیں ، جن کے ذریعے وہ ناظرین کے ذہنوں کو بڑے پیمانے پر مسموم کررہے ہیں۔ ’کشمیر فائلس’ ، ’کیرلا اسٹوری‘ اور ’اجمیر ۹۲ ‘کے بعد ان دنوں نئی فلم ’۷۲ حُوریں‘ کا چرچا ہے۔
’۷۲حُوریں‘ نامی فلم میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ماضی قریب میں دنیا میں جتنے بڑے بڑے دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں ، جیسے امریکا میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی اور ممبئی کے تاج ہوٹل کا واقعہ وغیرہ، یہ سب مسلمانوں کی کارستانی ہے۔ ان واقعات کی تصویروں کے ساتھ اسامہ بن لادن، اجمل قصاب ، یعقوب میمن ، مسعود اظہر اور حافظ سعید کی تصاویر دکھاکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان دہشت گردانہ حملوں کو ، انجام دینے کے ذمہ دار تمام افراد مسلمان ہیں۔ انھیں مذہبی جنون میں مبتلا کرکے اور ان کو ذہنی غسل (برین واشنگ) دے کر خودکش بمباروں کی شکل میں تبدیل کردیا جاتا ہے ۔ انھیں یہ سمجھایا اور پڑھایا جاتا ہے کہ یہ عمل جہاد ہے اور اس راہ میں اپنی جان کی قربانی پیش کرنے والا شہید ہے ، جو جنّت کا مستحق بنتا ہے ، جہاں اس کے جنسی تلذّذ کے لیے ۷۲ حُوریں یعنی حسین ترین عورتیں ملیں گی ۔
اس وقت اس بحث کا موقع نہیں ہے کہ یہ دہشت گردانہ واقعات واقعی مسلمانوں نے انجام دیے ہیں ، یا بلا تحقیق و ثبوت غلط طور سے ان کی طرف منسوب کردیے گئے ہیں۔ یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ دہشت گردی اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ جو مذہب ایک انسان کو بلا قصور قتل کرنے کو دنیا کے تمام انسانوں کو قتل کرنے کے مترادف سمجھتا ہے، وہ دہشت گردانہ حملوں کی کیوں کر اجازت دے سکتا ہے؟ اس وقت صرف اس موضوع پر کچھ اظہارِ خیال کرنا مقصود ہے کہ ’’جنّت میں ۷۲ حُوروں کی کیا حقیقت ہے ، جس کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے؟‘‘
اسلامی نقطۂ نظر سے یہ دنیا امتحان گاہ ہے۔ یہاں انسان جیسے کام کریں گے، ان کا بدلہ مرنے کے بعد برپا ہونے والی دوسری دنیا میں پائیں گے ، جسے آخرت کہا گیا ہے۔ دنیا فانی ہے اور آخرت ہمیشہ باقی رہنے والی۔ دنیا میں جو لوگ اچھے کام کریں گے، وہ ان کا بدلہ آخرت میں جنّت کی شکل میں پائیں گے ، جہاں ہر طرح کی نعمتیں ہوں گی۔ اور جو لوگ یہاں بُرے کام کریں گے انھیں آخرت میں ان کا بدلہ جہنم کی شکل میں ملے گا ، جس میں ہر طرح کی تکلیف دہ چیزیں ہوں گی ۔
قرآن و حدیث میں جنت کی نعمتوں اور جہنم کی سزاؤں کا تذکرہ بہت تفصیل سے کیا گیا ہے، لیکن وہ محض تقریبِ فہم کے لیے ہے۔ کوئی شخص ان کی حقیقت کا ادراک نہیں کرسکتا ، اس لیے کہ انسانی عقل ان کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ حدیث میں کہا گیا ہے کہ جنت میں ایسی ایسی نعمتیں ہوں گی جنھیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا ، نہ کسی کان نے سنا ہوگا اور نہ وہ کسی کے حاشیۂ خیال میں آئی ہوں گی۔ (بخاری : ۴۷۷۹، مسلم : ۷۳۱۰)
قرآن و حدیث میں حُوروں کا بھی تذکرہ ہے۔ اس سے مراد خوب صورت عورتیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان مردوں کو جنّت میں بھی ان سے نوازے گا۔ حُوروں کا بس یہ تصور ہے ، جو قرآن مجید اور صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔
قرآن میں حُوروں کی تعداد کا کہیں ذکر نہیں۔ بعض صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہرمومن کو جنّت میں دو حُوریں ملیں گی (بخاری : ۳۲۴۵ ، مسلم: ۲۸۳۴)۔ محدثین نے لکھا ہے کہ جیسے قرآن میں دو جنتوں اور دو چشموں کا تذکرہ ہے، اسی طرح حدیث میں دو بیویوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن جہاں تک یہ ۷۲ حُوروں کا تعلق ہے ، اس کا تذکرہ کسی صحیح حدیث میں نہیں ہے۔ مشہور محدثین نے یہ بات بڑی صراحت سے بیان کی ہے۔ مثلاً علامہ ابن تیمیہ ( مجموع الفتاویٰ: ۴۳۲/۶) علامہ ابن حجر (فتح الباری :۳۲۵/۶) وغیرہ۔ علامہ ابن قیم الجوزیہ کی کتاب: حادي الأرواح الٰی بلاد الأفراح میں جنت اور اس کی نعمتوں کا تذکرہ بہت تفصیل سے کیا گیا ہے، اور علامہ ابن قیم نے صراحت کی ہے کہ صحیح احادیث میں دو بیویوں سے زیادہ کا تذکرہ نہیں ہے (ص ۱۵۶-۱۵۷)۔
یہ بات درست ہے کہ بہت سی احادیث و روایات میں ۷۲ حُوروں کا ذکر ہے۔ یہی نہیں ، بلکہ بعض احادیث میں سو ، پانچ سو ، چار ہزار ، بلکہ آٹھ ہزار حُوروں کا ذکر ہے ، لیکن یہ تمام احادیث ضعیف ، بلکہ ان میں بہت سی موضوع یعنی من گھڑت ہیں۔ اسلام دشمن لوگ قرآن مجید میں تو تحریف نہ کرسکے اور اس کا ایک حرف بھی بدلنے پر قادر نہ ہوسکے، تو انھوں نے بے بنیاد اور من گھڑت حدیثیں پھیلادیں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے امت کے محدثین اور ناقدینِ حدیث کو، جنھوں نے احادیث میں سے صحیح ، ضعیف اور من گھڑت کو چھانٹ کر الگ الگ کردیا ۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض علما اب بھی اپنے خطبات اور وعظوں میں اعمال کے فضائل بیان کرتے ہوئے ان کے بدلے میں ملنے والی جنت کی نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہیں، تو حُوروں کے حُسن و جمال ، ان کی ہیئت ، قد و قامت اور دوسری چیزوں کا تذکرہ بہت مزہ لے لے کر کرتے ہیں۔ ان واعظین کو معلوم ہونا چاہیے کہ ضعیف اور موضوع حدیثیں پیش کرکے وہ دین کی کوئی خدمت نہیں کررہے ہیں ، بلکہ اس کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں ۔
بھارتی فسطائی اور نسل پرست تنظیم ’راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ‘ (RSS) نے مغالطہ انگیزی پر مبنی تین سوال فضا میں اُچھالے ہیں، جن سے ایک عام سطح کا فرد ان مغالطہ انگیز سوالات سے متاثر ہو سکتا ہے۔ آر ایس ایس کے مرکزی نظریہ ساز لیڈر نے بھارت میں بسنے والے ۲۰کروڑ سے زاید مسلمانوں سے کہا ہے کہ اگر وہ بھارت میں سکون کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو انھیں تین شرطیں پوری کرنا ہوں گی:
درحقیقت یہ تین نکاتی ایجنڈا محض بھارتی نسل پرست برہمنی تنظیم تک محدود نہیںہے، بلکہ آج مغربی ممالک کی حکومتوں اور ان کے زیر اثر مسلم معاشروں کی مقتدر قوتوں کے جارحانہ پروگرام کا بھی حصہ ہے۔تین محترم علماے کرام نے ہماری دعوت پر اس مسئلے پر جو جوابات تحریر کیے ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔ س م خ
بلاشبہہ بھارت میں راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ(RSS) ایک فسطائی (Fascist)، نسل پرست (Racist) اور ہندوئوں کی جنونی مذہبی انارکسٹ ( Anarchist) تنظیم ہے۔اس سے مراد وہ گروہ ہے، جو کسی آئین وقانون کو نہیں مانتا۔ ان کا مقصد لاقانونیت ، نِراج اور فساد ہوتا ہے، وشوا ہندو پریشد (WHP)اس کی ذیلی تنظیم ہے ‘‘، نیز یہ کہ اُن کے فکری رہنما رام مادھو نے بھارتی مسلمانوں کو ہندستان میں پرامن طور پر رہنے کے لیے تین شرائط پیش کی ہیں کہ مسلمان بھارت میں ہندوئوں کی طرح اسلام کو ایک پوجا پاٹ کے مذہب کے طور پر اختیار کر کے رہیں۔جنابِ افتخار گیلانی لکھتے ہیں: ’’بھارتی آرمی کے ایک حاضر سروس بریگیڈئر نے ایک تھنک ٹینک کے تحت منعقدہ سیمی نار میں کہا تھا: ’’مسلمان بھارت ہی میں مکہ یا کعبہ کا کوئی ماڈل تیار کر کے اس کا طواف کریں یا ہرسال سعودی عرب جانے کے بجائے اجمیر کی درگاہ میں جاکر اپنی عبادت کرلیں ،کیونکہ مسلمانوں کا تصورِ اُمّت ہی مسئلہ کشمیر کی جڑ ہے‘‘۔
ویدانتیوں کا ایک مطالبہ یہ ہے :’’مسلمان اپنے علاوہ دوسروں کو کافر نہ کہیں‘‘، جب کہ اسلام کے نزدیک جو اسلامی عقائد واحکام اور فرائض ومحرمات کو تسلیم نہیں کرتا یا جس کے عقائد ضدِّاسلام ہیں، اُن کا حامل کافر کہلاتا ہے ، اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے، جیسے ’’اگرہندو اپنے آپ کوہندو یاویدانتی کہلوائیں یا نصاریٰ اپنے آپ کو مسیحی کہلوائیں یا یہوداپنے آپ کو یہودی کہلوائیں تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے‘‘، معنوی اعتبار سے اس کا مآل (consequence) یا نتیجہ ایک ہی ہے، اس لیے کفر کو کفر ہی کہاجائے گا۔
دراصل ہندو انتہا پسند یہ سمجھتے ہیں کہ دینِ اسلام ، اسلامی اقدار و روایات اور اسلامی شعائر بھارتی مسلمانوں کو اُمّت سے جوڑتے ہیں۔ اس طرح بھارتی مسلمان ’عالمی اخوتِ اسلامی‘ کے رشتے میں منسلک ہوجاتے ہیں۔ اگر مسلمانانِ عالَم اور مسلم حکومتیں باحمیت ہوں تو وہ بھارتی مسلمانوں کے لیے تقویت کا باعث بن سکتے ہیں۔ اُن کے نزدیک امت اور ملّت کایہی تصورہے، جو انھیں بُری طرح کھٹکتا ہے اور جسے وہ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن شعائر کو مسلمان کی ظاہری پہچان قرار دیا ہے، حدیث پاک میں ہے:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہماری طرح نماز پڑھی ،(نماز میں) ہمارے قبلے کی جانب رُخ کیا اور ہمارا ذبیحہ کھایا، تو یہ وہ مُسلم ہے جس کو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ضمان، (یعنی تحفظ) حاصل ہے، سو اللہ کے ضمان کو نہ توڑو، (صحیح البخاری:۳۹۱)۔
حدیث پاک سے مراد یہ ہے: اگر مندرجہ بالا ظاہری علامات کسی میں پائی جائیں ، تو جب تک اس کا کفر ثابت نہ ہو، اُسے مسلمان تصور کیا جائے گا۔ اسی تصور کو علامہ اقبال نے ان اشعار میں بیان کیا ہے:
مَنفَعت ایک ہے اس قوم کی، نُقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرَمِ پاک بھی، اللہ بھی، قُرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی، ہوتے جو مسلمان بھی ایک
حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم مومنوں کو ایک دوسرے پر رحم کرنے ، ایک دوسرے سے محبت کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ شفقت سے پیش آنے میں ایک جسم کی طرح پائو گے کہ جب اُس کا کوئی عُضو تکلیف میں ہوتا ہے تواس کے سبب سارا جسم بیداری اور بخار میں مبتلا ہوجاتاہے، (صحیح البخاری:۶۰۱۱)‘‘۔
علامہ محمد اقبال نے اسی حدیثِ پاک کو منظوم کیا ہے:
مبتلائے درد ہو کوئی عُضو ،روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی، ہوتی ہے آنکھ
ہندو فسطائی نسل پرست جنونیوں نے مسلمانانِ ہند پرہندستان میں پُرامن طور پر رہنے کے لیے جو تین شرائط عائد کی ہیں، وہ وہی ہیں جو پاکستان کے لبرل سیکولر عناصر یہاں کے مسلمانوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستانی لبرل عناصر بھی یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان میں مسلمان امت اور ملّت کے تصور سے نکل آئیں ، اسلامی ریاست کی بات کرنا چھوڑ دیں اور ’قومی ریاست‘ کی بات کریں۔ کیونکہ جب ہم مسلم دنیا سے لاتعلقی کے اس تصور کو اپنائیں گے تو بھارتی مسلمانوں، مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں ،فلسطین کے مسلمانوں اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں پر جوبھی گزرے، اس سے ہمارا کچھ لینا دینا نہیں ہوگا، اسرائیل کو تسلیم کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہوگا۔
ہمارے لبرل یہ بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان میں دین سے انحراف، یعنی ارتداد، مذہبی مسلّمات ومقدّسات کی اہانت ،الغرض ایسی کسی بات پر، کسی کو مواخذہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ہرایک اسلام کی اپنی تعبیر کرسکتا ہے، اپنے نظریات میں آزاد ہے،کسی عالم یا مفتی کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ کسی کے کفر کو کفر کہہ سکیں۔ یہی ہے مادر پدر آزادی ، بے راہ روی اور دین اور اہلِ دین سے بیزاری۔ نیز وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ: ’’جہاد کی بات نہ کی جائے، کیونکہ اس سے عالَمِ کفر ناراض ہوتا ہے‘‘۔
بھارتی پارلیمنٹ کے سابق رکن اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی کہا: ’’مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دیگر اقلیتوں ،سکھوں ، جَین مت اور بدھ مت کے ماننے والوں اور پارسیوں کی طرح ہندو دھرم کی برتری کو تسلیم کرتے ہوئے اس ملک میں چین سے رہیں ‘‘، جب کہ مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ دینِ اسلام کو حق سمجھے اور اس کے مقابل ادیان کو باطل سمجھے۔ اپنے حالات میں دین کے غلبے کی ہرممکن کوشش کرے ، البتہ اسلام، اپنی قبولیت کے لیے جبر واِکراہ اور دہشت و فساد کی اجازت نہیں دیتا ،مگر دعوت وتبلیغ کے ذریعے دینِ اسلام کو پھیلانا ہرمسلمان کی ذمے داری قرار دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’وہی ہے، جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اُسے تمام (باطل)ادیان پر غالب کردے ،خواہ مشرک اسے ناپسند کریں، (التوبہ ۹:۳۳، الصف۶۱:۹)‘‘___ اور یہ کہ: ’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اُسے تمام (باطل) ادیان پر غالب کردے اور اللہ کی گواہی اس پر کافی ہے (کہ یہ ہوکر رہے گا)، (الفتح ۴۸:۲۸)‘‘۔
اسی طرح کفر کو کفر کہنا پڑے گا۔قرآنِ کریم اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ناطِق و شاہد ہیں ۔ حق وباطل میں تمیز کرنا اور حق کوباطل سے ممتاز کرنا ہرمسلمان کی ذمے داری ہے۔ قرآنِ کریم کی ’سورۃ الکافرون ‘اور دیگر متعددآیات اس پر شاہد ہیں، علامہ اقبال نے کہا ہے:
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
اسلام نے بیانِ حق کے بارے میں مُداہَنت کی اجازت تونہیں دی،لیکن کافروں سے مُدارات ہوسکتی ہے اور قرآن نے اس کی اجازت دی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اللہ تعالیٰ تمھیں اُن لوگوں کے ساتھ نیک برتائو کرنے اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا، جنھوں نے نہ دین کے معاملے میں تم سے جنگ کی ہے اور نہ تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ اللہ تمھیں صرف اُن لوگوں کے ساتھ دوستی سے منع فرماتا ہے جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے اور تمھارے نکالنے میں (تمھارے دشمنوں کی )مدد کی ہے اور جو ایسے لوگوں سے دوستی کریں گے ، تووہی لوگ ظالم ہیں ،(الممتحنہ۶۰:۸-۹)‘‘۔
سورۃ التوبہ۹:۲۴، اور سورۃ المجادلہ ۵۸:۲۲میں قرآنِ کریم نے واضح طور پربتایاہے کہ ایمان اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے،نیز اسلام نے مومن کوکائنات کی اُن تمام چیزوں سے اپنی حد کے اندررہتے ہوئے محبت کرنے یا وابستگی رکھنے کی اجازت دی ہے، جن سے لگائو انسان کافطری تقاضا ہے۔ لیکن اگران تمام چیزوں کی محبت یکجا ہوکر بھی اللہ تعالیٰ،اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اور اُس کی راہ میں جہاد کے مقابل آجائیں تو ایمان تب سلامت رہے گا جب صرف اللہ تعالیٰ ،اُس کے رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی راہ میں جہاد کومحبوب ترین مانا جائے۔
’جہاد‘ایک جامع اصطلاح ہے ،گذشتہ کچھ عشروں سے دشمنانِ اسلام نے جہاد کو فساد کا ہم معنی قرار دے رکھا ہے۔ یہ نظریہ ایک فریب ہے، باطل ہے اور اسلام سے نفرت کا آئینہ دار ہے۔ جہاد کے اپنے تقاضے اور حدود وقیود ہیں۔ اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ مسلمان ہر وقت اور ہر ایک کے ساتھ جِدال وقِتال کے لیے آمادہ رہتے ہیں ، بحیثیت مسلمان ہم ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ِاس وقت جن اقوام کو دنیا پر مادّی وسائل اور حربی صلاحیت کے اعتبار سے غلبہ حاصل ہے، انھوں نے آج تک دانستہ انتہاپسندی،دہشت گردی، عسکریت پسندی کی کوئی جامع مانع متفق علیہ(Comprehencive & Agreed upon) تعریف نہیں کی تاکہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں،ان الزامات کو ایک حربے کے طور پر مسلمانوں کے خلاف استعمال کرسکیں۔ انھوں نے حریّتِ وطن کی جِدّوجُہد(Struggle for Freedom) اور دہشت گردی میں بھی نہ تفریق کی ہے اور نہ ان دونوں کے درمیان ’مابہ الامتیاز‘ (Distinctive Feature)بتایاہے۔انسانی تاریخ میں جِدال وقِتال ہمیشہ ایک غیر مطلوب اور ناگزیر ترجیح رہی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعے پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:’’لوگو! دشمن سے تصادم کی تمنا نہ کرواور اللہ سے عافیت مانگتے رہو، لیکن جب (ناگزیر طور پر)دشمن سے ٹکرائو ہوجائے تو (پھر) صبر کرو (اور ثابت قدم رہو)، (صحیح البخاری: ۲۹۶۶)‘‘۔
امریکیوں کے اجداد نے بھی برطانوی استعمار سے آزادی کے لیے اٹھارھویں صدی کے رُبعِ آخر میں مسلح جِدّوجُہد شروع کی تھی اور امریکی آج بھی اپنی آزادی کے لیے مسلّح جِدّوجُہد کرنے والوں کو اپنا ہیرو اور نشانِ افتخار (Symbol of Pride)مانتے ہیں۔
بھارتی دستور کی دفعات ۲۵ تا ۳۰ کے تحت بھارتی شہریوں کو آزادیِ ضمیرو آزادیِ مذہب کی اجازت ہے۔انھیں اپنے مذہب،زبان، رسم الخط، ثقافت ،مذہبی تعلیم اور رفاہی مقاصد کے لیے ادارے قائم کرنے ، وقف قائم کرنے اور اُن کے انتظامی امور کو چلانے کاحق حاصل ہے،جب کہ ڈاکٹر پروین بائی توگڑیاجیسے متعصب ہندو توا کے نظریات کے حامل لوگ، مسلمانوں سے آئینی حقوق کو سلب کرنا چاہتے ہیں۔
اسلام ایک دعوتی دین ہے۔اسے کسی خاص ملک کی سرحدوں کے اندر محدود نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی دعوت سارے عالَمِ انسانیت کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’(اے رسولِ مکرّم!) آپ کہیے: لوگو!میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں، (الاعراف ۷:۱۵۸)‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’(مجھ سے پہلے) نبی ایک خاص قوم کی طرف بھیجا جاتا تھااور مجھے سارے عالَمِ انسانیت کا رسول بناکر بھیجا گیا ہے، (صحیح البخاری: ۳۳۵)‘‘، ’’مجھے تمام مخلوق کی طرف رسول بناکر بھیجا گیا ہے اور مجھ پر نبوت کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے، (صحیح مسلم:۵۲۳)‘‘۔
اسلام میں دین اور ملّت ہم معنی ہیں۔ ان میں فرق محض اعتباری ہے: شریعت ،اِس حیثیت سے کہ اُس کی اطاعت کی جاتی ہے، دین ہے اور جب اُسے مدون اور منضبط کردیا جائے تو یہ ملّت اور مذہب کہلاتی ہے۔دین اللہ کی طرف منسوب ہوتا ہے، ملّت رسول کی طرف منسوب ہوتی ہے۔ وہ قوم یا گروہ جس کی طرف کوئی رسول مبعوث کیا گیا ہے، امت کہلاتی ہے، سو تمام مسلمانانِ عالم سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت ہیں۔ اس نظریے سے مسلمان کبھی دست بردار نہیں ہوسکتے۔ مسلمان مصلحت پسندی کا شکار ہوکر غیر مسلموں کے ساتھ کتنی ہی ملاطفت (leniency) کا برتائوکریں یا مداہنت سے کام لیں، قرآنِ کریم نے متنبہ کیا ہے کہ کافر اس حد تک جانے کے باوجود تم سے خوش نہیں ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (۱)’’اور یہود ونصاریٰ آپؐ سے ہرگز راضی نہیں ہوں گے تاوقتیکہ آپؐ ان کی ملّت کی پیروی کریں ،آپؐ کہیے : اللہ کی (دی ہوئی) ہدایت ہی(حقیقی ) ہدایت ہے (اور اے مخاطَب!) اگر(حق کا) علم آنے کے بعد بھی تم اُن کی خواہشات کی پیروی کروگے تو تمھیں اللہ (کے عذاب سے) بچانے کے لیے نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ مددگار، (البقرہ ۲:۱۲۰)‘‘، (۲)’’اور اگر آپ اہلِ کتاب کے پاس ہر قسم کی نشانیاں بھی لے کر آجائیں، پھر بھی وہ آپ کے قبلے کی پیروی نہیں کریں گے ، نہ آپ ان کے قبلے کی پیروی کرنے والے ہیں ،نہ وہ ایک دوسرے کے قبلے کی پیروی کرنے والے ہیں، اور (اے مخاطَب!) اگر علم حاصل ہونے کے بعد تم نے اُن کی خواہشات کی پیروی کی تو تم بے شک ضرور ظلم کرنے والوں میں سے ہوگے، (البقرہ۲:۱۴۵)‘‘، (۳)’’اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بنائو ،وہ ایک دوسرے کے دوست ہیںاور تم میں سے جو اُنھیں دوست بنائے گا تویقینا وہ ان ہی میں سے ہوگا، بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا، (المائدہ:۵۱)‘‘۔
الغرض اگرچہ کفار کے درمیان باہم مفادات کا ٹکرائو(Conflict of Interest) بھی ہوتا ہے،وہ ایک دوسرے کو ناپسند بھی کرتے ہیں ، لیکن جب ان کا مقابلہ اسلام اور مسلمانوں سے ہوجائے تو پھر وہ اپنے باہمی اختلافات کوپسِ پشت ڈال کر اسلام کے مقابل یکجا ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ مشہور مقولہ ہے:اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَّاحِدَۃٌ،یعنی سارے کافر اسلام کے مقابل ایک ہی ملّت ہیں، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمان اپنے تصورِ امّت اور ملّت سے دست بر دار ہوکر اپنے سارے امتیازات اور خصوصیات کو چھوڑ دیں اور کافروں میں اس حد تک گھُل مِل جائیں کہ ان کا کوئی امتیاز باقی نہ رہے۔ علامہ اقبال نے اسی حقیقت کو عام فہم زبان میں بیان کیا ہے:
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسَب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے، جَمعِیَّت تیری
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اسی حقیقت کو بیان فرمایا ہے:’’اے لوگو! ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اورہم نے تمھیں قومیں اور قبیلے بنادیا تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرو ،بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، بے شک اللہ خوب جاننے والا، بے حد خبر رکھنے والا ہے ، (الحجرات ۴۹:۱۳)‘‘، علامہ اقبال نے کہا ہے:
قوم مذہب سے ہے ، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں ،مَحفلِ انجم بھی نہیں
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
قرآنِ کریم نے غزوۂ بدر کو ’یوم الفرقان‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اس کے معنی ہیں: ’’حق کو باطل سے ممتاز کرنے والا دن‘‘۔ غزوۂ بدر میں جو لشکر ایک دوسرے کے مقابل صف آرا تھے، اُن میں دنیاوی لحاظ سے ایک دوسرے سے جڑے رہنے کے تمام اسباب موجود تھے۔ اُن کی زبان ایک تھی، نسب ، قبیلہ اور برادری ایک تھی، خونی رشتے بھی موجود تھے، رنگ بھی ایک تھا، حتیٰ کہ اگر ایک طرف باپ تھا تو دوسری طرف بیٹا، ایک طرف چچا تھا تودوسری طرف بھتیجا تھا۔ ایک طرف ماموں تھا تودوسری طرف بھانجا۔ الغرض وہ تمام نسبتیں موجود تھیں جو انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ باہم ٹکرائے اور فیصلہ کن جنگ ہوئی۔ پھر یہی منظر غزوۂ اُحد اور غزوۂ خندق میں تھا، کم وبیش یہی رشتے صلح حدیبیہ کے موقع پر موجود تھے ، لیکن جب یہ رشتے اسلام سے متصادم ہوئے توامام الانبیاء والرُّسل،خاتِمُ النَّبِیّٖن سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشتۂ اسلام کو مقدم رکھا اور ان تمام رشتوں ، نسبتوں اور قربتوں کو اسلام پر قربان کردیا۔
اقوامِ عالَم اگرچہ نظریاتی طور پر حقوقِ انسانیت ،حقِ آزادیِ مذہب اور حقِ آزادیِ اظہار کی داعی ہیں اور حقوقِ انسانی کے منشور پر دستخط کرچکی ہیں، اپنے آپ کو اُن کا پابند سمجھتی ہیں، لیکن کشمیر ،فلسطین ،مشرقی تیموراور سوڈان کے حوالے سے ان کے معیار ات بدل جاتے ہیں۔ بھارت چونکہ آبادی کے لحاظ سے ایک بڑا ملک اور ایک بڑی عالمی منڈی ہے،نیز امریکا اور اس کے اتحادی اُسے چین کے مقابل قوت بنانا چاہتے ہیں، اس لیے بھارت کی جانب سے حقوقِ انسانی ، مذہبی منافرت وعصبیت اور اقلیتوں پر مظالم کے حوالے سے اس کے خلاف انضباطی اور تادیبی اقدامات نہیں کیے جاتے ، صرف رسمی بیانات پر اکتفا کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے بھارت اقوامِ عالَم کی پروا بھی نہیں کرتا، کیونکہ چین کے محاصرے کے لیے جو چار رکنی اتحاد بنایا ہے ،اس میں امریکا ، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ بھارت بھی شامل ہے۔ ماضی میں جب امریکا اور اشتراکی روس کے درمیان دنیا کے ممالک کو اپنے زیرِ اثر لانے کے لیے سرد جنگ جاری تھی ، تو اُس وقت نہرو کی قیادت میں بھارت ’غیر وابستہ ممالک‘ میں اہم کردار ادا کر رہا تھا ، لیکن اب نریندر سنگھ مودی کی قیادت میں بھارت نے غیر وابستگی کا چولا اُتار پھینکا ہے اور وہ چین کے مقابل امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔
اللہ کی قدرت سے بیش تر مسلم ممالک بحری اور برّی ذرائع سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے بعض مسلم ممالک کو معدنیات کی بے پناہ دولت سے مالا مال کررکھا ہے۔یہ ممالک عالمی تجارتی گزرگاہوں پر واقع ہیں،ان کی مجموعی آبادی بھی بہت ہے۔ اگر یہ صدقِ دل سے اپنی اپنی خود مختاری کو قائم رکھتے ہوئے ایک مشترکہ بلاک اور مشترکہ منڈی قائم کریں تو بلاشبہہ عالمی پالیسیوں پر اثر انداز ہوسکتے ہیں ، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے اور نہ اس کے آثار نظر آرہے ہیں ۔ ان مسلم ممالک میں باہم آویزش بھی جاری ہے، ان میں سے بیش تر امریکا اور مغرب کے زیرِ اثر ہیں ، بعض ممالک بدستور روس کے زیرِ اثر ہیں ،اس لیے یہ اپنی کوئی متفقہ پالیسی بنانے کی پوزیشن میںنہیں ہیں ، یعنی آزاد ہوتے ہوئے بھی آزاد نہیں ہیں، ورنہ بھارتی انتہا پسند کبھی مسلمانانِ ہند کے بارے میں یہ رویہ اختیار کرنے کی جسارت نہ کرپاتے۔
بھارت کی انتہاپسند ہندو تنظیم ’آر ایس ایس‘ کے لیڈر رام مادھو کی طرف سے انڈیا میں رہنے والے مسلمانوں سے تقاضا کیا گیا ہے کہ ’’وہ غیرمسلموں کو کافر نہ کہیں، خود کو عالمی مسلم اُمہ کا حصہ سمجھنا ترک کردیں اور نظریۂ جہاد سے خود کو الگ کرلیں‘‘۔
یہ تقاضا کوئی نیا نہیں ہے اور نہ صرف بھارتی انتہاپسندوں کا یہ مطالبہ ہے، بلکہ آج کے عالمی سیکولر حلقوں کا بھی مسلمانوں سے یہی مطالبہ ہے۔ اس کی بنیاد صرف وطنیت پر نہیں بلکہ انسانی سوسائٹی کے اجتماعی معاملات میں آسمانی تعلیمات سےلاتعلقی اور تمام قومی و معاشرتی معاملات کو طے کرنے کے لیے علاقائی معاشرتی مزاج اور خواہشات کو بنیاد بنانے کے اصول سے منسوب ہے، جسے قرآن کریم نے اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہْوَى الْاَنْفُسُ۰ۚ (النجم ۵۳:۲۳)سے تعبیر کیا ہے اور اس کی نفی کرتے ہوئے وَلَقَدْ جَاۗءَہُمْ مِّنْ رَّبِّہِمُ الْہُدٰى۲۳ۭ (النجم ۵۳:۲۳)کا فطری قانون سب کے سامنے رکھا ہے۔
انڈیا میں چونکہ وطنیت کو ہی تمام اُمور کی اساس قرار دینے کے ہندو فلسفہ میں مسلمانوں کی کش مکش عملاً صدیوں سے چلی آرہی ہے، اس لیے یہاں یہ بات زیادہ شدت اور سنگینی کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ عالمی سطح پر اس کش مکش کا تناظر یہ ہے کہ مغرب اپنے فکروفلسفہ اور تہذیب و ثقافت کو پوری انسانیت کے لیے حتمی معیار قرار دیتے ہوئے، دُنیا بھر میں اس کے غلبے اور تمام تر مذہبی و علاقائی ثقافتوں کو روندتےچلے جانے کے لیے ہرحربہ اختیار کر رہاہے۔
مگر جب یہی بات آسمانی تعلیمات کا فائنل ایڈیشن اسلام کے عنوان سے کہتا ہے کہ انسانی فلاح و بہبود اور نجات و کامیابی کا واحد معیار آسمانی تعلیمات ہیں تو اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہْوَى الْاَنْفُسُ۰ۚ کی پیروکار قوتیں ہرجگہ اسے کسی قسم کے معاشرتی کردارکا موقع دیئے بغیر ہرحال میں روکنے اور کچل دینے پر تلی بیٹھی ہیں۔ حالانکہ یہ حقیقت روز بروز واضح ہوتی جارہی ہے کہ آسمانی تعلیمات کو اپنے فائنل ایڈیشن اسلام کی صورت میں دنیا میں کسی جگہ بھی آزادی کے ساتھ معاشرتی کردارادا کرنےکا موقع مل جائے تو مغربی فلسفہ و نظام کے لیے اس کا سامنا کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ اسی خوف سے نہ صرف مغرب بلکہ اپنے محدود تصورات و افکار کو دُنیا پر غالب کرنے کا خواہش مند ہرطبقہ، اسلام دشمنی کا علَم بردار بنا ہوا ہے۔
بھارت میں یہ صورتِ حال قدرےمختلف ہے کہ یہاں اسلامی فلسفہ و ثقافت پر یلغار کا پرچم ہندو مذہب کے انتہاپسندوں کے ہاتھ میں ہے اور وہ مسلمانوں کو اسلام کی آفاقی تعلیمات اور فطری قوانین و احکام پرعمل سےروکنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔
ہمیں اس سلسلے میں بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کی اجتماعی سوچ اور اپنے عقیدہ و ثقافت کے تحفظ کے لیے ان کی جدوجہد میں ان کا معاون بننا چاہیے۔ معروضی حالات و ظروف کا لحاظ رکھتے ہوئے، سنجیدگی کے ساتھ ان کی علمی و اخلاقی مدد کرنا چاہیے۔ مسلمانوں پر اسی قسم کی آزمایشیں اور چیلنجز تاریخ کے مختلف اَدوار میں سامنے آتے رہے ہیں،جن کا سامنا عقیدہ و ایمان پر پختگی، استقامت، حوصلہ اور حکمت و تدبر کے ساتھ کرنے والے ہمیشہ سرخرو رہے ہیں اور اب بھی ان شاء اللہ العزیز ایسا ہی ہوگا۔ اگرچہ بظاہر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ شاید یہ دور زیادہ سنگین اور کہیں زیادہ صبرآزما ہے۔ اللہ تعالیٰ بھارت بلکہ دُنیابھر کے مسلمانوں کو اس میں باوقار سرخروئی سے بہرہ ور فرمائے، آمین یارب العالمین!
ہندستان کی شدّت پسند اور’ ہندوتوا‘ کی عَلَم بردار تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ (RSS) کے ایک راہ نما اور نظریہ ساز رام مادھو نے ایک سہ نکاتی فارمولہ پیش کیا ہے، جس پر عمل کرکے ہندستانی مسلمان ملک میں سکون کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں۔ اس فارمولے کے نکات درج ذیل ہیں:
یہ مطالبات اسی نوعیت کے ہیں، جیسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آپؐ کے زمانے کے مشرکین کرتے تھے۔آپؐ نے اسلام کی دعوت دینی شروع کی تو مشرکین نے اس سے روکنے اور اس کام سے باز رکھنے کے لیے مختلف حربے اختیار کیے۔ ابتدا میں مخالفت ہلکی رہی ، لیکن بعد میں اس میں شدّت آتی گئی۔کمزور سماجی حیثیت رکھنے والے مسلمانوں کو طرح طرح سے ستایا گیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سودا بازی کرنے کی کوشش کی گئی ۔ آپؐ سے مطالبہ کیا گیا کہ کچھ باتیں آپؐ ان کی مان لیں تو وہ کچھ باتیں آپؐ کی مان لیں گے ، لیکن ان سے صاف صاف کہہ دیا گیا کہ دین کے معاملے میں کوئی مداہنت نہیں ہوسکتی۔قرآن مجید میں ہے:
فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِيْنَ۸ وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَيُدْہِنُوْنَ۹ (القلم ۶۸: ۸-۹) لہٰذا تم ان جھٹلانے والوں کے دباؤ میں ہرگز نہ آؤ۔یہ تو چاہتے ہیں کہ کچھ تم مداہنت کرو تو یہ بھی مداہنت کریں۔
قرآن نے مخالفین ِ اسلام کی مسلمانوں سے عداوت اور ان کی قولی اور عملی شر انگیزی کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے دلوں میں چھُپے ارمانوں سے ان الفاظ میںپردہ اٹھایا ہے :
اِنْ يَّثْقَفُوْكُمْ يَكُوْنُوْا لَكُمْ اَعْدَاۗءً وَّيَبْسُطُوْٓا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَہُمْ وَاَلْسِنَتَہُمْ بِالسُّوْۗءِ وَوَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ۲ۭ ( الممتحنۃ۶۰:۲)ان کا رویّہ تو یہ ہے کہ اگر تم پر قابو پاجائیں تو تمھارے ساتھ دشمنی کریں اور ہاتھ اور زبان سے تمھیں آزار دیں ۔ وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ تم کسی طرح کافر ہوجاؤ۔
وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ كَـمَا كَفَرُوْا فَتَكُوْنُوْنَ سَوَاۗءً (النساء۴:۸۹)وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں اسی طرح تم بھی کافر ہوجاؤ ، تاکہ تم اور وہ سب یکساں ہوجائیں۔
یہی رویّہ موجودہ دور کے مشرکین کا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان اپنے امتیازات سے دست بردار ہوجائیں اور جو بنیادی عقائد و تصوّرات ان کے درمیان خطِّ امتیاز کھینچتے ہیں ان سے لاتعلّقی اختیار کرلیں ۔ ہندستانی مسلمانوں سے اِن دنوں جو مطالبات کیے جا رہے ہیں وہ اسی نوعیت کے ہیں۔
ذیل میں ان مطالبات کا ا سلامی نقطۂ نظر سے جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی۔
’کافر‘ عربی زبان کا لفظ ہے۔ یہ ’کفر‘ سے مشتق ہے۔ عربی زبان میں لفظ ’کفر‘ کے اصل معنٰی چھپانے اور ڈھانپنے کے ہیں ۔ عربوں کے کلام میں اس مادہ سے جتنے الفاظ آئے ہیں ، سب میں یہ معنیٰ کسی نہ کسی شکل میں پایا جاتاہے۔ اسی لیے وہ لفظ ’کافر‘ کا اطلاق ان چیزوں پر کرتے ہیں جو کسی چیز کو ڈھانپ لیں،مثلاً رات، سمندر، وادی،دریا، گہرا بادل، کسان،زرہ ،وغیرہ۔اسی طرح اس میں ناشکری کے معنٰی بھی پائے جاتے ہیں۔ لفظ ’کفر‘ کا استعمال اسلام کے بالمقابل ایک اصطلاح کے طور پر بھی ہوا ہے ، یعنی ’اسلام کو نہ ماننے والا‘۔ اسلام کی کچھ بنیادی تعلیمات ہیں ۔ کچھ لوگ اس کو مانتے ہیں، کچھ نہیں مانتے ۔ اسلام کسی کو مجبور نہیں کرتا۔ وہ ہر انسان کو آزادی دیتا ہے کہ چاہے اس پر ایمان لائے، چاہے نہ لائے۔ قرآن مجید میں ہے:
لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۰ۣۙ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۰ۚ (البقرہ ۲: ۲۵۶) دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔
اللہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو منع فرمایا تھاکہ ایمان لانے کے معاملے میں کسی پر جبر سے کام نہ لیں:
وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِيْعًا۰ۭ اَفَاَنْتَ تُكْرِہُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ۹۹ (یونس۱۰: ۹۹)اگر تیرے ربّ کی مشیّت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرماں بردار ہی ہوں) تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ پھر کیا تُو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟
اسلام ایک نظریاتی مذہب ہے ۔انسانوں کو آزادی ہے۔ جو لوگ چاہیں اسے مانیں، جو چاہیں نہ مانیں۔ جو اسے مان لیتے ہیں انھیں قرآن مجید’مومن‘ (یعنی ایمان لانے والا) کہتا ہے اور جو اسے نہیں مانتے انھیں ’کافر‘(یعنی ایمان نہ لانے والا) کہتا ہے۔ یہ حقیقت ِ واقعہ کا بیان ہے ۔ اس میں اہانت اور مذمّت کا کوئی پہلو نہیں ہے۔
مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اگر دوسرے اہلِ مذاہب کا رویّہ ان سے دشمنی، جنگ اور فساد کا نہ ہو تو وہ بھی ان سے خوش گوار سماجی تعلقات رکھیں، ان سے اچھا برتاؤ کریں اور ان کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آئیں۔ صرف ان لوگوں سے دوستانہ اور رازدارانہ تعلقات رکھنے کی ممانعت ہے، جو دشمنی پر آمادہ ہوں اور مسلمانوں کے جانوں اور مالوں کے درپے ہوں۔ قرآن میں ہے:
لَا يَنْہٰىكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْہِمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ۸ اِنَّمَا يَنْہٰىكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِيْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَاَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ وَظٰہَرُوْا عَلٰٓي اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ۰ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۹(الممتحنۃ ۶۰:۸-۹) اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم اُن لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنھوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ وہ تمھیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم اُن لوگوں سے دوستی کرو جنھوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے اور تمھارے اِخراج میں ایک دُوسرے کی مدد کی ہے۔ اُن سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ (الحجرات۴۹ :۱۰)مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان ِ نبوّت کے بعد جو لوگ آپ پر ایمان لائے انھیں مکہ مکرّمہ میں بہت ستایا گیا ، یہاں تک کہ وہ پہلے حبشہ ، پھرمدینہ منورہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ یہ لوگ’ مہاجر‘ کہلائے ۔مدینہ کے لوگ ، جو پہلے ایمان لا چکے تھے، انھوں نے ان بے سر و ساماں لوگوںکی خوب بڑھ چڑھ کر مدد کی۔ انھیں ’انصار‘ کہا گیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت ِ مدینہ کے کچھ ہی دنوں کے بعد مہاجرین و انصار کے درمیان میں’ مواخات‘ (بھائی چارہ) کرائی ۔اس کے نتیجے میں وہ باہم شِیر و شکر ہوگئے۔ انسانی تاریخ نے ایمان کی بنیاد پر ایسے مضبوط رشتے کی کوئی مثال نہیں دیکھی۔ قرآن مجید میں بھی کہا گیا ہے کہ ایمان لانے کے بعد انسانوں میں دوئی باقی نہیں رہتی ، بلکہ وہ ایک ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا مَعَكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ مِنْكُمْ۰ۭ (الانفال۸:۷۵)اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کرکے آگئے اور تمھارے ساتھ مل کر جدّوجہد کرنے لگے وہ بھی تم ہی میں شامل ہیں۔
اسلام اہلِ ایمان کو ایک امّت قرار دیتا ہے ، جو ایک عقیدے اور ایک نظریے کے حامل ہوتے ہیں اور ان کے درمیان فکر و نظر کا کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا۔ قرآن مجید میں ہے:
اِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً۰ۡۖ وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ۹۲ (الانبیاء ۲۱: ۹۲) یہ تمھاری امّت حقیقت میں ایک ہی ا مّت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، پس تم میری عبادت کرو۔
وَاِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّــقُوْنِ۵۲ (المومنون۲۳:۵۲) اوریہ تمھاری اُمّت ایک ہی ا مّت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، پس مجھی سے ڈرو۔
موجودہ دور میں وطنیت اورقومی ریاست کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ دنیا مختلف ممالک کے دائروں میں تقسیم ہوگئی ہے ۔ ہر ملک کے اپنے مفادات ہیں،جن کی تکمیل کے لیے وہاں کی حکومت کوشاں رہتی ہے اور اس سلسلے میں جائز و ناجائز کی بھی پروا نہیں کرتی___ ایک ملک کے شہریوں کا دوسرے ملک کے شہریوں سے کوئی تعلق نہیں رہتا ۔ اگر رہتا ہے تو وہ بھائی چارہ ، ہمدردی اور مودّت کے بجائے شک و شبہہ، منافرت، بلکہ بسا اوقات دشمنی پر مبنی ہوتا ہے۔یہ سراسر جاہلی تصوّر ہے ، جسے نیا پیراہن پہنا دیا گیا ہے۔جاہلی شاعر دُرید بن صمّہ کہتا ہے:
وَ مَا أنا الاّ مِن غَزیّۃ اِن غَوَتْ غَوَیتُ ، واِن تَرشُدْ غَزِیّۃ أرشُد
(میں تو قبیلۂ غزیّہ کا ایک فرد ہوں۔وہ غلط راہ پر چلے گا تو میں بھی اسی راہ پر چلوں گا اور اگر وہ صحیح راہ اختیار کرے گا تو میں بھی اس کے پیچھے چلوں گا)۔
اسلام اس نظریے کا قائل نہیں۔ وہ تمام اہل ِ ایمان کو ، چاہے وہ جس علاقے اور جس ملک میں رہتے ہوں، جس رنگ و نسل کے ہوں ، جو زبان بھی بولتے ہوں اور جس سماجی حیثیت کے مالک ہوں، ایک جسم کی مانند قرار دیتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی بلیغ تمثیل بیان فرمائی:
مَثَلُ المُؤمِنِیْنَ فِی تَوَادِّھِم وَ تَراحُمِہِم وَ تَعَاطُفِہِم مَثَلُ الجَسَدِ ، اِذَا اشْتَکٰی مِنْہُ عُضْوٌ تَدَاعٰی لَہٗ سَائرُ الجَسَدِ بِالسَّھَرِ وَالحُمّیٰ (مسلم:۲۵۸۶)اہلِ ایمان کے درمیان میں باہم محبت، رحم و کرم اور اُلفت کے معاملے میں ان کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ اگر اس کے کسی ایک عضو میں کوئی تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بے خوابی اور بخار کا شکار ہوجاتا ہے۔
اس سے واضح ہے کہ اسلام اور وطنیت کا کوئی کوئی میل نہیں ہے ۔ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ علامہ محمد اقبال نے بالکل صحیح کہا ہے ؎
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اپنے افکار و خیالات کسی پر زبردستی مسلّط نہیں کرتا۔ وہ انسانوں کو آزادی دیتا ہے کہ وہ اس کے عقائد و نظریات پر غور کریں، عقل و فکر کے دریچے کھلے رکھ کر اسے سمجھیں، پھر چاہیں تو اسے قبول کرلیں اور چاہیں تو نہ قبول کریں۔ وہ بہت تفصیل سے قبولِ حق کے اچھے نتائج و ثمرات بیان کرتا اور انکارِ حق کے نتائج بد سے آگاہ کرتا ہے، لیکن کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا:
وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۰ۣ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ۰ۙ (الکہف ۱۸:۲۹)صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمھارے رب کی طرف سے، اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کردے۔
اسلام کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے سامنے حق اور ناحق دونوںکو خوب کھول کھول کر بیان کر دیا ہے، لیکن ساتھ ہی اس نے انھیں ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے۔ اس آزادی سے کام لے کر کچھ لوگ حق کو قبول کرلیتے ہیں اور اللہ کے فرماں بردار بن جاتے ہیں اور کچھ لوگ اسے قبول نہیں کرتے اور نافرمانی کی روش پر گام زن رہتے ہیں۔ کسی شخص کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنا اس آزادی کو سلب کرنے کے مترادف ہے، جس سے اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو بہرہ ور کیا ہے:
وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِيْعًا۰ۭ اَفَاَنْتَ تُكْرِہُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ۹۹ (یونس۱۰:۹۹) اگر تیرے رب کی مشیّت یہ ہوتی (کہ زمین میںسب مومن اور فرماں بردار ہی ہوں) تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہوجائیں؟
اسلامی عقائد و نظریات کے پیچھے دلائل کی قوت ہے اور اسے یقین ہے کہ جو شخص بھی کھلے دل و دماغ کے ساتھ ان پر غور کرے گا وہ ضرور حلقہ بہ گوشِ اسلام ہو جائے گا۔ اسی لیے وہ تاکید کرتا ہے کہ دین کے معاملے میں کسی پر زور زبردستی نہ کی جائے:
لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۰ۣۙ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۰ۚ (البقرہ ۲: ۲۵۶) دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔
اسلام پُر امن فضا قائم رکھنا چاہتا ہے۔تمام لوگ کھلے ماحول میں، پوری آزادی کے ساتھ بغیر کسی دباؤ کے، اسلام کے بارے میں غور و فکر کرسکیں۔ اس چیز کو یقینی بنانے کے لیے اسلام پُرامن فضا قائم رکھنا چاہتا ہے۔ فتنہ و فساد، انارکی، بدامنی اور جنگ کی حالت ہو تو افہام و تفہیم کی راہیں اور بھی مسدود ہوجاتی ہیں۔ اس لیے اسلام چاہتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو، جنگ سے بچنے کی کوشش کی جائے اور اس پر اسی صورت میں آمادہ ہوا جائے جب جنگ کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ رہے۔اسلام امن و امان کا کس حد تک خواہاں ہے، اس کا اندازہ اس تعلیم سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اگر دورانِ جنگ دشمن کی طرف سے صلح کی پیش کش ہو تو اسے فوراً قبول کرلیا جائے، خواہ اس کے پس پردہ دشمن کی بدنیتی اور دھوکے کا شبہہ ہو، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۶۱ وَاِنْ يُّرِيْدُوْٓا اَنْ يَّخْدَعُوْكَ فَاِنَّ حَسْـبَكَ اللہُ۰ۭ (الانفال۸:۶۱-۶۲) ’’اگردشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہوجاؤ اور اللہ پر بھروسا کرو، یقیناً وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ دھوکے کی نیت رکھتے ہوں تو تمھارے لیے اللہ کافی ہے۔
۶ھ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ سے عمرہ کے ارادے سے نکلے، مگر مکہ پہنچنے سے پہلے ہی دشمنوں نے آپؐ کو روک دیا اور آمادۂ جنگ ہوئے۔ اس موقع پر حدیبیہ کے مقام پر جو صلح نامہ تیار ہوا اس کی تمام شرائط یک طرفہ تھیں اور ان سے مسلمانوں کی پسپائی اور ان کے دشمنوں کی برتری ظاہر ہوتی تھی۔ اس بنا پر بہت سے مسلمان بے چینی محسوس کررہے تھے اور بعض اصحابؓ کے تو صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا۔ لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تمام شرائط تسلیم کرلیں کہ ان کی بدولت امن و امان کا زرّیں موقع ہاتھ آرہا تھا۔ بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ یہ فیصلہ درست تھا۔ امن کے نام پر یہ ظاہری پسپائی ’فتح‘ کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اور دو سال کے عرصے میں جتنی بڑی تعداد میں لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے اتنے مدنی عہد کے چھ سال میں بھی نہ ہوئے تھے۔
لیکن جب انسانوں کا ایک طبقہ دوسرے انسانوں پر اپنی مرضی مسلّط کرنے لگے، ان کی آزادیاں سلب کرلے، ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور انھیں مجبور و محکوم بنا کر رکھے تو اسلام ان مظلوموں کا حامی بن کر سامنے آتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ایسے ظالم و جابر لوگوں کی سرکوبی ضروری ہے، جو اللہ کی سرزمین پر اللہ کے بندوں کو ظلم و تشدّد کا نشانہ بناتے ہیں اور انھیں آزادی اور سکون کے ساتھ رہنے نہیں دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے:
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْيَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُھَا۰ۚ وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّا۰ۚۙ وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِيْرًا۷۵ۭ (النساء۴:۷۵) آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔
اسی طرح اسلام مسلمانوں کو ان لوگوں کا مقابلہ کرنے اور ان سے جنگ کرنے کا بھی حکم دیتا ہے جو ان سے جنگ کرنے میں پہل کریں۔ وہ جس طرح دوسروں پر ظلم کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا اسی طرح ظلم سہنے کا بھی روا دار نہیںہے۔ اسی لیے مشرکین مکہ کے مظالم جب حد سے گزرگئے، تو مسلمان اپنا دین و ایمان بچانے کی غرض سے مدینہ، ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، مگر یہاں بھی مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا، ان کے خلاف سازشیں کیں اور دوسروںکو ان کے خلاف بھڑکا دیا۔ بالآخر جب پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا تو مسلمانوں کو بھی ان سے جنگ کرنے کی اجازت دے دی گئی:
اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا۰ۭ وَاِنَّ اللہَ عَلٰي نَصْرِہِمْ لَقَدِيْرُۨ۳۹ۙ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللہُ۰ۭ (الحج ۲۲:۹ ۳-۴۰) اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے، کیوں کہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے:’’ ہمارا رب اللہ ہے‘‘۔
اسلام میں ’معروف‘ کا حکم دینے اور ’منکر ‘سے روکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے نزدیک دونوںکی یکساں اہمیت ہے۔ قرآن میں دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ کیا گیا ہے۔ لیکن ایک اعتبار سے دونوں میں فرق ہے۔ اسلام تمام انسانوں کو معروف کی دعوت دیتا ہے اور انھیں قبول کرنے کی ترغیب دیتا ہے، لیکن ان کے قبول و اختیار کو ان پر لازم نہیں کرتا۔ تاہم وہ انھیں منکرات کا ارتکاب کرنے کی کھلی چھوٹ نہیں دیتا، بلکہ ان پر روک لگاتا ہے اور انھیں ان سے باز رکھنے کی تاکید کرتا ہے۔اسلام کہتا ہے کہ جو لوگ دنیا میں ظلم و جور کر رہے ہوں، فتنہ و فساد پھیلا رہے ہوں اور برائیاں عام کر رہے ہوں، انھیں دنیا میں اللہ کے قانون کے تابع ہوکر رہنا پڑے گا اور دنیا کے اقتدار کے مالک وہ لوگ ہوںگے، جو اس پر اللہ کا حکم نافذ کریں اور اسے فتنہ و فساد سے پاک رکھیں:
وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّہٗ لِلہِ ۰ۚ (الانفال ۸:۳۹) ان سے جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہوجائے۔
اس سے واضح ہوا کہ اسلام میں ’جہاد‘ کا مقصد دوسروں کو زور زبردستی سے مسلمان بنانا نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد ’شر‘ کا زور ٹوٹے، فتنہ و فساد کا خاتمہ ہو اور ان لوگوں کو بے اختیار کردیا جائے، جو اس دنیا میں جبر و اِکراہ، ظلم و زیادتی اور برائیوں کی ترویج و اشاعت کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں، تاکہ اللہ کے بندوں کو آزادی نصیب ہو اور وہ بغیر کسی دباؤ کے اللہ کا دین قبول کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرسکیں۔
سوال: قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بہ حیثیت رسول جو ذمہ داری دی گئی تھی، وہ کتاب اللہ کی تشریح ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور (اے نبیؐ) یہ ذکر ہم نے تمھاری طرف اس لیے نازل کیا ہے کہ تم لوگوں کے لیے واضح کردو اس تعلیم کو جو ان کی طرف اُتاری گئی ہے‘‘ (النحل۱۶:۴۴)۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نبیؐ کو اللہ تعالیٰ نے ذمہ داری دی تھی کہ قرآن میں جو احکام وہدایات دیے جارہے ہیں، ان کی آپؐ وضاحت اورتشریح فرمادیں، تاکہ لوگوں کو کلام اللہ کے سمجھنے میں دشواری پیش نہ آئے۔
یہ فریضہ منصب ِرسالتؐ کا ایک اہم جز ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی ذمہ داریاں آپؐ کے سپرد کی گئی تھیں اور سبھی معاملات میں آپؐ کی اتباع کو لازمی قرار دیا گیا ہے، بلکہ یہاں تک فرمایا گیا ہے کہ رسول کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے (النساء۴:۶۴،۸۰، محمد ۴۷:۳۳) اس کے ساتھ آپؐ کو کچھ اختیارات بھی عطا کیے تھے۔ فرمایا: ’’جو کچھ رسول تمھیں دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رُک جاؤ‘‘ (الحشر۵۹:۷)۔ یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ فرائض نبوت کی ادائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہی بصیرت اور حکمت عطا فرمائی تھی، جس کی بنیاد پر آپؐ مقاصد قرآن کی گہرائیوں تک پہنچتے تھے۔ یہ بصیرت اور حکمت لازمۂ نبوت تھی، جو کتاب کے ساتھ آپؐ کو عطا کی گئی تھی اور اسی کی بدولت آپؐ لوگوں کو تعلیم خداوندی کے مطابق عمل کرنے کی تلقین فرماتے تھے۔ قرآن میں اس کا بہ کثرت تذکرہ ملتا ہے (ملاحظہ کیجیے البقرہ ۲:۱۲۷، ۱۲۹،۱۵۱،اٰل عمرٰن۳:۱۶۴، الجمعۃ ۶۲ :۲)۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے (القیامۃ۷۵:۱۹)۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآنی تعلیمات واحکام کی جو تشریح وتعبیر آپؐ اپنے قول وعمل سے کرتے تھے وہ آپؐ کے ذہن کی پیداوار نہ تھی، بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات مبارک ہی آپؐ پر قرآن نازل کرتی تھی اور وہی آپؐ کو اس کا مطلب بھی سمجھاتی اور اس کے وضاحت طلب امور کی تشریح بھی کرتی تھی۔ یہاں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ آپؐ کے ذرائع معلومات کتاب اللہ کے علاوہ بھی ہیں، جو قرآن سے ثابت ہیں۔ سورۂ بقرہ میں ہے: ’’اور وہ قبلہ جس کی طرف تم پہلے رُخ کرتے تھے، اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھرجاتا ہے‘‘ (۲: ۱۴۳)۔ چونکہ قبلۂ اوّل کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم قرآن میں کہیں نہیں پایا جاتا، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کو قرآن کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایات ملتی تھیں۔ لہٰذا حضوؐر کی زندگی کا وہ کارنامہ جو آپؐ نے بعث کے بعد اپنی ۲۳ سالہ پیغمبرانہ زندگی میں انجام دیا وہ قرآن کے منشا کی توضیح وتشریح کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں منصب ِرسالتؐ کے دیگر کاموں کی ادائی ہے۔ اس تفصیل سے بہ خوبی واضح ہوجاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب شارح کا تھا، نہ کہ ’شارع‘ کا۔ لیکن بعض علما آپؐ کے لیے شارع کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا نام پیش کیا جاسکتا ہے۔ ان کا مسلک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریعی اختیارات (Legislative Powers)عطا کیے تھے۔ اس بات کا تذکرہ انھوں نے اپنی تصانیف، خاص کر سنت کی آئینی حیثیت میں زور و شور سے کیا ہے اور ایک دوجگہ آپؐ کو ’شارع علیہ السلام‘ کے لقب سے نوازا ہے۔ مولانا مرحوم کی علمی صلاحیتوں کا قائل ہونے کے باوجود ان کا یہ نظریہ ناچیز کی عقل وفہم سے پرے ہے۔ کیوں کہ شارع تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے، جس کا قرآن میں صراحت سے ذکر کیاگیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت تو صرف شارح کی تھی۔
مولانا مودودیؒ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریعی اختیارات حاصل ہونے کی جتنی بھی دلیلیں دی ہیں وہ سب دراصل تشریح کے زمرے میں آتی ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ’’اگر تم کو جنابت لاحق ہوگئی ہوتو پاک ہوئے بغیر نماز نہ پڑھو‘‘۔ (النساء۴:۴۳) اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپؐ نے بتایا کہ جنابت کیا ہے اور اس سے پاک ہونے کا طریقہ کیا ہے؟ یعنی غسل کیسے کیا جائے گا؟ یہ سب اضافی باتیں تشریح وتفسیر کے زمرے میں ہی آئیں گی۔ اسی طرح قرآن میں اللہ تعالیٰ نے دوسگی بہنوں کو بہ یک وقت ایک مرد سے نکاح کرنے سے منع فرمایا (النساء۴:۲۳)۔ اس کی تشریح وتوضیح آپؐ نے یوں کی کہ جس طرح دوسگی بہنیں ایک جگہ جمع نہیں کی جاسکتیں اسی طرح خالہ اور بھانجی یا پھوپھی اور بھتیجی کو بھی ایک جگہ جمع نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح وراثت کا قانون بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اگر (میت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انھیں ترکے کا دوتہائی دیا جائے‘‘ (النساء۴:۱۱) ۔یہاں یہ نہیں بتایاگیا کہ اگر صرف دولڑکیاں ہوں تو ان کو کتنا حصہ ملے گا؟ اس کی وضاحت آپؐ نے یوں فرمائی کہ دو لڑکیاں ہونے کی صورت میں بھی دونوں کو ترکے میں سے دوتہائی دیا جائے گا۔
یہاں یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ سورۃ النحل آیت ۴۴ میں جس طرح حضوؐر کو قرآنی آیات کی تشریح وتوضیح کا حکم دیاگیا ہے، اسی طرح قرآن میں تشریعی اختیارات عطا کرنے کا کہیں ذکر نہیں کیاگیا ہے۔ اس لیے آپؐ کے تشریعی اختیارات کے حق میں مولانا مودودیؒ نے جو دلائل دیے ہیں اور جو مثالیں پیش کی ہیں وہ ناکافی معلوم ہوتی ہیں۔
یہاں یہ بات توجہ طلب ہے کہ یہ دین کی کوئی فروعی بحث نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق بنیادی عقائد سے ہے۔ مولانا مودودیؒ کی راے مان لینے سے اوّل توعقیدۂ توحید پرزد پڑتی ہے۔ دوسرے حضوؐر کے اختیارات میں غلو کے باعث فرقہ واریت کو تقویت پہنچتی ہے، جس سے ملت اسلامیہ کے مزید کم زور ہونے کا اندیشہ ہے۔اُمید ہے کہ تشفی بخش جواب سے نوازیں گے۔
جواب:اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے اپنا جو کلام آخری رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا اسے قرآن کہا جاتا ہے اور آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال وغیرہ کو، خواہ ان کا تعلق قرآن کی تشریح وتبیین سے ہویا وہ دیگر معاملات سے متعلق ہوں، ان کے لیے حدیث کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ایک مسئلہ ابتدا سے یہ زیر بحث رہا ہے کہ دین کے معاملے میں احادیث حجت ہیں یا نہیں؟ بعض گروہ اور افراد ایسے پائے گئے ہیں، جو ان کی حجیت کا انکار کرتے ہیں۔ اس معاملے میں ماضی بعید میں ’خوارج ‘ نامی گروہ کو شہرت ملی اور ماضی قریب میں اس قسم کے افکار رکھنے والے ’اہل قرآن‘ کہلائے۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ دین کے معاملے میں صرف ’قرآن‘ حجت ہے۔ وہی احکام قابلِ قبول اور لائق نفاذ ہیں جو قرآن سے ثابت ہیں۔ اللہ کے رسول دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان تھے۔ آپؐ کا اصل کام صرف قرآن کو اللہ کے بندوں تک بے کم وکاست پہنچادینا تھا۔ اس کی تعبیر وتشریح کے طور پر آپ نے جو کچھ ارشاد فرمایا وہ اپنی بشری حیثیت میں کیا، جسے قبول کرنے کے ہم پابند نہیں ہیں۔ آپؐ نے احکام قرآن کی اپنے عہدکے اعتبار سے تعبیر وتشریح فرمائی اور ہمیں بھی حق حاصل ہے کہ ان کی تعبیر وتشریح اپنے زمانے کے اعتبار سے کریں۔
جمہورِاُمت نے اس فکر کو قبول نہیں کیا ہے اور اسے گم راہی قرار دیا ہے، چنانچہ خوارج اور اہل قرآن دونوں کا شمار فرق ضالّہٗ (گم راہ فرقوں) میں ہوتا ہے۔ جمہور کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح اور ثابت شدہ اقوال وافعال دین میں اسی طرح حجت ہیں جس طرح قرآن حجت ہے، اگرچہ ان کا درجہ قرآن کے بعد آتا ہے۔ ان کی حجیت کے دلائل خود قرآن کریم میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے، ان کے فیصلوں اور احکام کو واجب التعمیل قرار دیا ہے اور ان کی مخالفت سے ڈرایا ہے۔ چند آیات درج ذیل ہیں:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِیْ الاَمْرِ مِنکُمْ فَاِن تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ (النساء۴:۵۹) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کو جو تم میں سے صاحب ِامرہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیردو، اگر واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو۔
فَلاَوَرَبِّکَ لاَیُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لاَیَجِدُوْا فِیْ اَنفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْاْ تَسْلِیْمًا (النساء۴:۶۵) (اے محمدؐ) تمھارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں۔
وَمَآ اٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا(الحشر۵۹:۷)جو کچھ رسول تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رُک جاؤ۔
فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہِٓ اَنْ تُصِیْبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْیُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (النور ۲۴:۳۶) رسولؐ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہوجائیں یا ان پر دردناک عذاب نہ آجائے۔
قرآن سے حدیث کے تعلق کے تین پہلو ہیں:
۱- کچھ احادیث ایسی ہیں جن میں قرآن میں مذکور احکام ہی کا تذکرہ بطور تاکید وتائید آیا ہے، مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی ادائی کا حکم اور شرک، جھوٹی گواہی، والدین کی نافرمانی اور ناحق قتل نفس کی ممانعت وغیرہ۔
۲-بہت سی احادیث قرآن کی تفسیر وتشریح کرتی ہیں۔ چنانچہ قرآن میں کوئی حکم مجمل بیان ہوا ہے، احادیث میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ کوئی حکم قرآن میں مطلق مذکور ہے، احادیث میں اس کے سلسلے میں بعض قیود عائد کردی گئی ہیں۔ کسی حکم کا تذکرہ قرآن میں عمومی صیغے میں ہے، احادیث میں اس کی تخصیص کردی گئی ہے، مثلاً قرآن میں نمازقائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور حج کرنے کے احکام ہیں۔ احادیث میں نمازوں کے اوقات، رکعتوں کی تعداد، ادائی نماز کا طریقہ، زکوٰۃ کی مقدار اور حج کے مناسک وغیرہ بیان کردیے گئے ہیں۔ قرآن میں خرید وفروخت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ احادیث میں خریدوفروخت کی جائز اور ناجائز صورتیں اور سود کی تفصیلات مذکور ہیں۔
۳- کچھ احادیث ایسی ہیں جن میں ایسے احکام بیان کیے گئے ہیں جو قرآن میں مذکور نہیں ہیں۔ یہ بھی واجب الاتباع ہیں، مثلاً نکاح میں دوایسی عورتوں کو جمع کرنے کی حرمت جن کے درمیان پھوپھی بھتیجی یا خالہ بھانجی کا رشتہ ہو، یا شکاری درندوں اور پرندوں اور گھریلو گدھوں کی حرمت، یا مردوں کے لیے ریشم اور سونا پہننے کی حرمت ، یا میراث میں دادی کا حصہ، یا شادی شدہ زانی کو رجم کی سزا ،یا دیت کے احکام وغیرہ (اصول الفقہ، محمد ابوزہرۃ، دارالفکر العربی القاہرۃ، ۱۹۵۸ء ص۲۱۱، علم اصول الفقہ، عبدالوہاب خلاف، مکتبۃ الدعوۃ، الاسلامیۃ، قاہرہ، ص ۳۹-۴۰، السنۃ و مکانتہا فی التشریع الاسلامی، ڈاکٹر مصطفی السباعی، المکتب الاسلامی بیروت، ص۴۱۴-۶۱۴)
یہ تقسیم جمہور کے نقطۂ نظرسے ہے۔ بعض علما جن میں علامہ شاطبیؒ صاحب الموافقات خصوصیت سے قابل ذکر ہیں، حدیث کی صرف اوّل الذکر دوقسمیں قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک جملہ احادیث قرآن کی تشریح وتبیین کے قبیل سے ہیں۔ کوئی حدیث ایسی نہیں جس کی اصل قرآن میں موجود نہ ہو۔ مثال کے طور پر حدیث میں درندوں اور شکاری پرندوں کی حرمت کا تذکرہ ہے۔ اس کی اصل آیت قرآنی: وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبٰئِثَ (الاعراف ۷:۵۱) میں موجود ہے۔ حدیث میں مذکور احکام دیت کی اصل آیت فَدِیَۃٌ مُسَلَّمَۃٌ اِلیٰ اَھْلِہٖ (النساء۴:۲۹) میں پائی جاتی ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: الموافقات فی اُصول الشریعۃ، ابواسحاق الشاطبی، المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ، مصر، ۴/۲۱-۷۱)
موجودہ دور میں عالم اسلام کے مشہور فقیہ شیخ ابوزہرہ نے بھی اس موضوع پر لکھا ہے۔ انھوں نے حدیث کی مذکورہ بالا تینوں قسمیں بیان کرتے ہوئے ہر قسم کی مثالیں دی ہیں۔ پھر تیسری قسم کی مثالوں کے ضمن میں لکھاہے:’’حقیقت یہ ہے کہ ان تمام مثالوں کی اصل کتاب الٰہی میں موجود ہے۔۔۔ ہم سنت میں مذکور ایک حکم بھی ایسا نہ پائیں گے جس کی اصل قریب یادُور سے قرآن میں موجود نہ ہو۔ اسی لیے بعض علما نے فرمایا ہے: سنت میں جو حکم بھی مذکور ہے اس کی اصل اللہ کی کتاب میںضرور پائی جاتی ہے۔ اس راے کو امام شافعیؒ نے الرسالہ میں نقل کیا ہے۔ ان کے بعد شاطبیؒ نے بھی اپنی کتاب الموافقات میں اس کا اثبات کیا ہے۔۔۔ تم سنت میں کوئی ایک حکم بھی ایسا نہ پاؤ گے جس کے مفہوم پر قرآن اجمالی یا تفصیلی انداز سے دلالت نہ کرتا ہو‘‘۔(اصول الفقہ، ابوزہرہ، ص ۱۱۳-۱۱۴)
حقیقت یہ ہے کہ احادیث کی تقسیم کے سلسلے میں علما کا یہ اختلاف کچھ اہمیت نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ جمہوراُمت کا اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی اور ثابت شدہ تمام احادیث اور احکام ، خواہ انھیں مستقل حیثیت دی جائے یا قرآن کی تشریح وتببین کے قبیل سے مانا جائے، واجب التعمیل ہیں۔ جو علما تمام تراحادیث کو قرآن کی شارح ومبّین قرار دیتے ہیں وہ بھی اس سے اختلاف نہیں کرتے۔ اسی بنا پر موجودہ دَور کے مشہور شامی عالم ڈاکٹر مصطفی سباعی نے اس اختلاف کو لفظی قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں:
خلاصہ یہ کہ دونوں فریق اس بات پر متفق ہیں کہ سنت میں کچھ ایسے نئے احکام پائے جاتے ہیں جو قرآن میں منصوص اور صراحت سے مذکور نہیںہیں۔ پہلا فریق کہتا ہے کہ اس سے اسلامی قانون سازی میں سنت کی مستقل حیثیت ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے کہ سنت سے ایسے احکام ثابت ہیں جو اللہ کی کتاب میں مذکور نہیں ہیں۔ دوسرا فریق تسلیم کرتا ہے کہ وہ احکام قرآن میں صراحت سے مذکور نہیں ہیں، لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ وہ احکام کسی نہ کسی پہلو سے نصوصِ قرآن کے تحت آجاتے ہیں۔ اس بنا پر وہ کہتا ہے کہ کوئی بھی صحیح حدیث، جس سے ایسا حکم ثابت ہوتا ہو جو قرآن میں مذکور نہیں ہے، وہ ضرور قرآن کے کسی نص یا اس کے کسی اصول کے تحت داخل ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو یہ دلیل ہے اس بات کی کہ وہ حدیث صحیح نہیں ہے، اس لیے اس پر عمل درست نہیں۔ اس سے واضح ہوا کہ یہ اختلاف محض لفظی ہے۔ دونوں فریق اس بات کے قائل ہیں کہ سنت میں ایسے احکام پائے جاتے ہیں جو قرآن میں مذکور نہیںہیں۔ ایک فریق سنت کو مستقل تشریعی حیثیت دیتا ہے۔ دوسرا فریق اسے مستقل حیثیت نہیں دیتا، لیکن دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے۔(السنۃ ومکانتہا فی التشریع الاسلامی، مصطفی السباعی، ص۴۲۰)
گذشتہ صدی میںانکار سنت کا فتنہ ہندستان میں زور وشور سے اٹھا۔ اس کے علم برداروں کا کہنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب صرف اللہ کا پیغام قرآن کی شکل میں انسانوں تک پہنچادینا تھا۔ وہ کام آپؐ نے کردیا۔ اس کی تعبیر وتشریح کا جو کام آپؐ نے انجام دیا وہ آپؐ کی شخصی حیثیت میں تھا۔ ہم صرف احکام قرآن پر عمل ونفاذ کے مکلف ہیں، ارشاد اتِ رسولؐ ہمارے لیے حجت نہیں ہیں۔ اسلامی قانون کا ماخذ صرف قرآن ہے، سنت کو بھی ماخذ قانون قرار دینا درست نہیں۔ اس فتنے کی سرکوبی کے لیے جو علما میدان میں آئے ان میں سے ایک مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ بھی تھے۔ انھوں نے ان منکرین سنت سے لوہا منوا لیا اور ان کے افکار ونظریات کے تاروپود بکھیر کررکھ دیے۔ اپنی تحریروں میں مولانا مودودیؒ نے پورے زور وقوت کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب محض ایک ’نامہ بر‘ کا نہیں تھا، بلکہ آپؐ کو معلم ومربیّ، راہ نما وپیشوا، حاکم وفرماںروا، قاضی، کتاب اللہ کا شارح ومفسر اور شارعِ قانون بھی بنا کر بھیجا گیا تھا۔ آپؐ کی اطاعت وپیروی اور آپؐ کے دیے ہوئے احکام پر عمل مسلمانوں پر فرض ہے اور سنت کے ماخذ قانون ہونے پر پوری امت کا اجماع ہے۔ جو شخص سنت سے آزاد ہو کر قرآن کی پیروی کا دعویٰ کرتا ہے وہ حقیقت میں قرآن کا پیرونہیں ہے۔ مولانا کی یہ تمام تحریریں پہلے ماہ نامہ ترجمان القرآن لاہور کے ’منصب رسالت نمبر‘ میں شائع ہوئیں، بعد میں سنت کی آئینی حیثیت کے نام سے کتابی صورت میں ان کی اشاعت ہوئی۔ یہ مولانا کی بہترین کتابوں میں سے ہے۔ اس کے ذریعے انھوں نے پوری اُمت کی طرف سے دفاع سنت کا فرض کفایہ ادا کردیا ہے۔
قرآن سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جملہ اقوال وارشادات وحی الٰہی پر مبنی تھے: وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْھَویٰ اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحیٰ(النجم۵۳:۳) ’’وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا۔ یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے‘‘۔ آپؐ کے تمام اجتہادات کی بنیاد قرآن یااللہ تعالیٰ کی بہ راہ راست رہ نمائی ہوتی تھی۔ شیخ ابوزہرہؒ نے لکھا ہے:
اس چیز کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ قانون سازی میں رسول کے اجتہاد کی بنیاد قرآن اور ان کے اندروں میں ودیعت شدہ قانون سازی کی روح اور اس کے اصول ومبادی پر تھی۔ آپؐ جو احکام وقوانین وضع کرتے تھے ان کے معاملے میں قرآنی بیانات پر قیاس کرتے تھے یا قرآنی قانون سازی کے عام اُصولوں کو تطبیق دیتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سنت میں مذکورہ احکام کامرجع وماخذ قرآن کے احکام ہیں۔‘‘ (اصول الفقہ، ابوزہرہ، ص۴۰)
اسی بناپر علما نے سنت کو اسلامی قانون کا دوسرا بنیادی ماخذ قرار دیا ہے اور اس سے ثابت شدہ احکام کو مسلمانوں کے لیے حجت اور واجب التعمیل مانا ہے۔ شیخ عبدالوہاب خلّاف فرماتے ہیں:
تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے جن اقوال، افعال اور ’تقریرات‘ کا صدور ہوا ہے اور ان کا مقصود قانون سازی اور اقتدا ہے اور وہ ہم تک صحیح سندوں سے ، جن سے قطعیت یا ظنِ غالب کا فائدہ حاصل ہوتا ہے، پہنچے ہیں، وہ مسلمانوں کے لیے حجت اور قانون سازی کا سرچشمہ ہیں، جن سے اجتہاد کرنے والوں کو شرعی احکام کا استنباط کرنا ہے۔ گویا احادیث میں وارد ہونے والے احکام سے قرآن میں مذکوراحکام کے ساتھ ایک ایسا قانون تشکیل پاتا ہے جس کی اتباع مسلمانوں کے لیے ضروری ہے ۔۔۔اگریہ توضیح وتشریح کرنے والی احادیث مسلمانوں کے لیے حجت نہ ہوتیں اور ان کی حیثیت واجب الاتباع قانون کی نہ ہوتی، تو قرآن کے فرائض کا نفاذ اور اس کے احکام پر عمل ممکن نہ ہوتا۔ ان توضیحی احادیث کی اتباع اسی پہلو سے واجب ہے کہ ان کا صدور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے ہوا ہے، اور وہ ایسی سندوں سے مروی ہیں جو قطعیت یا ظن غالب کا فائدہ دیتی ہیں۔ معلوم ہوا کہ ہرحدیث جس میں کوئی حکم یا قانون مذکور ہوااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت صحیح ہو وہ حجت اور واجب الاتباع ہے، خواہ اس کے ذریعے قرآن میں مذکور کسی حکم کی تشریح وتبیین ہورہی ہو یا اس میں کوئی ایسا حکم بیان کیاگیا ہو جس کے بارے میں قرآن خاموش ہو۔ اس لیے کہ ان تمام احادیث کا سرچشمہ وہ معصوم ذات گرامی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تبیین کی ذمہ داری دی تھی اور قانون سازی کی بھی۔ (علم اصول الفقہ، عبدالوہاب، خلّاف، ص ۸۳-۹۳)
موجودہ دور کے مشہور فقیہ شیخ وہبہ زحیلیؒ نے لکھاہے:
علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سنتِ نبوی شرعی احکام کے استنباط کے معاملے میں قرآن کی طرح واجب الاتباع ہے، اور یہ کہ وہ قانون سازی کا دوسرا سرچشمہ ہے۔۔۔ ثابت شدہ سنت اپنے تمام مشتملات میں واجب الاتباع ہے، خواہ وہ قرآن کے مجمل احکام کی توضیح کررہی ہو، یا اس کے مطلق احکام پر کچھ قیود عائد کررہی ہو، یا کوئی ایسا نیا حکم بیان کررہی ہو، جس کے بارے میں قرآن خاموش ہو، اس لیے کہ آخر کار اس کا خاتمہ وحی الٰہی پر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صراحت سے اس کااعلان کیا ہے۔ فرمایا: وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَویٰ، اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُوْحیٰ (النجم۵۳: ۳-۴) ۔(الوجیز فی اصول الفقہ، وھبۃ الزحیلی ، دارالفکر دمشق،ص ۳۹-۴۱)
گذشتہ بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی شریعت کے بنیادی مصادر دو ہیں۔ ایک قرآن، دوسرا حدیث۔ جناب مستفسر کو بھی اس سے اختلاف نہیں ہے۔ وہ جہاں یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری دی تھی کہ قرآن میں مذکور احکام کی توضیح وتشریح فرمادیں، وہیں یہ بھی فرماتے ہیں کہ آپؐ کو دوسری بہت سی ذمہ داریاں بھی سپرد کی گئی تھیں اور سبھی معاملات میں آپؐ کی اتباع کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ آپؐ کو قرآن کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہ راہ راست ہدایات ملتی تھیں اور آپؐ کے تمام اقوال وافعال اللہ تعالیٰ کی راست نگرانی میں اور اس کی عطا کردہ بصیرت وحکمت کی روشنی میں انجام پائے تھے۔ ان کا کہنا صرف یہ ہے کہ رسول کو ’شارع‘ قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ آپؐ کا کام صرف اللہ کی شریعت کو اس کے بندوں تک پہنچادینا تھا۔ شارع حقیقت میں صرف اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک ہے۔
یہ بات بالکل صحیح ہے کہ شارع حقیقی صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے۔ وہی حاکم ہے اور تمام شرعی احکام اسی کے دیے ہوئے ہیں، خواہ اس نے ان کا تذکرہ اپنی کتاب قرآن میں کردیا ہو یا اس کی ہدایت کے مطابق اس کے رسولؐ نے انھیں بیان کیا ہو۔ اس بات پر تمام علما کا اتفاق ہے۔ شیخ عبدالوہاب خلّاف نے لکھا ہے:
علما کے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مکلّفین کے تمام افعال کے لیے شرعی احکام کا سرچشمہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات ہے، خواہ اس کے حکم کااظہار بہ راہ ست ان نصوص سے ہو جن کی اس نے اپنے رسولؐ کی طرف وحی کی تھی، یا اجتہاد کرنے والے استنباطِ احکام کے شرعی دلائل کے واسطے سے اس تک رسائی حاصل کریں۔ اسی لیے وہ متفقہ طور پر ’حکم شرعی‘ کی یہ تعریف کرتے ہیں کہ اس سے مراد مکلّفین کے افعال سے متعلق اللہ تعالیٰ کا خطاب ہے۔ اس کے لیے ان کے درمیان یہ اصول مشہور ہے: لاحکم الا اللّٰہ، حکم کااختیار صرف اللہ کو ہے۔ یہ اصول اللہ کے اس ارشاد سے ماخوذ ہے: اِنِ الحُکُمُ اِلاَّ لِلّٰہِ(الانعام۶:۵۷) ’’ فیصلے کا سارا اختیار اللہ کو ہے‘‘۔ (علم اصول الفقہ، عبدالوہاب، خلّاف،ص۹۶)
اسی لیے اصطلاحی طور پر لفظ ’شارع‘ کا اطلاق اللہ تعالیٰ کی ذات پر کیاجاتا ہے۔ ڈاکٹر خالد رمضان حسن لکھتے ہیں:’’شارع احکام دینے اور قوانین وضع کرنے والے کو کہا جاتا ہے۔ شارع اور حاکم صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے۔ اس کا ارشاد ہے: شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ… (الشوریٰ۴۲:۳۱) ’’اس نے تمھارے لیے دین کا طریقہ مقرر کیا ہے۔۔۔‘‘ (معجم اُصول الفقہ، خالد رمضان حسن، الطرابیشی للدراسات الانسانیۃ، مصر،۱۹۹۸ء، ص ۵۵۱)
لیکن بعض علما، لفظ ’شارع‘ کا استعمال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی کرتے ہیں۔ ایسا وہ مجازاً کرتے ہیں۔ زبان وبیان اور بلاغت کے پہلوؤں سے اس کی گنجایش موجود ہے۔ اس لیے اسے بھی غلط نہیں قرار دیا جاسکتا۔ شرعی احکام کے بنیادی سرچشمے دو ہیں: ایک قرآن، دوسرا حدیث۔ قرآن اللہ کا کلام ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو حدیث کہتے ہیں۔ جب دونوں سے شرعی احکام حاصل ہوتے ہیں تو دونوں کو شارع کہا جاسکتاہے۔ اللہ تعالیٰ کو حقیقتاً اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مجازاً ۔ بعض علماے اصول نے اس کی رعایت سے لفظ ’شارع‘ کا یہ مطلب بتایا ہے: الشارع ھو مبیّن الاحکام،’’شارع احکام بیان کرنے والے کو کہا جاتا ہے‘‘(القاموس المبین فی اصطلاحات الاصولیین، ڈاکٹر محمود حامد عثمان، دارالتراجم الریاض، ۲۰۰۲ء، ص۱۸۵)
اس کی تائید وتصویب قرآن کریم سے بھی ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبرکا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ (الاعراف ۷:۱۵۷)،’’وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اُتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے‘‘۔
اس آیت میں تحلیل وتحریم کی نسبت صراحت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب کی گئی ہے، حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کے کام ہیں۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ تحریم وتحلیل کے جو کام آپؐ نے کیے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے اختیارات کی بنا پر کیے ہیں، اس لیے وہ بھی قرآنی احکامِ تحلیل وتحریم کی طرح واجب الاتباع ہیں۔ یہی مضمون بعض احادیث میں بھی مذکور ہے۔ ایک حدیث حضرت ابورافعؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لاَاُلْفِیَنَّ اَحَدَکُمْ مُتَّکِئاً عَلیَ اَرِیْکَتِہٖ یَاتِیْہِ الاَمْرُ مِنْ اَمْرِیْ مِمَّا اَمَرْتُ بِہٖ اَوْ نَھَیْتُ عَنْہُ فَیَقُوْلُ: لاَنَدْرِیْ مَاوَجَدْنَا فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ اتَّبِعْنَاہ۔(سنن ابی داؤد، کتاب السنۃ، ۵۰۶۴)’’میں ہرگز تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ اپنی مسند پر ٹیک لگائے ہو اور اس کے پاس میرے اوامر ونواہی میں سے کوئی بات پہنچے تو وہ یہ کہنے لگے: ہم نہیں جانتے۔ ہم جو کچھ اللہ کی کتاب میں پائیں گے صرف اسی کی اتباع کریں گے‘‘۔ اس مضمون کی اور بھی متعدد احادیث مروی ہیں۔ (ملاحظہ کیجیے: ابوداؤد، ۰۵۰۳، ۴۰۶۴، ترمذی،۳۶۶۲، ۴۶۶۲، ابن ماجہ ،۱۲،۱۳)
اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ شرعی احکام وقوانین دینے کے معاملے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کی طرح مختار مطلق تھے اور آپؐ کو کلی اختیار حاصل تھا کہ اللہ کی راہ نمائی اور بصیرت کے بغیر جو چاہیں قوانین وضع کریں تو یقینا اس کی زد عقیدۂ توحید پر پڑتی ہے اور اس سے آپؐ کے اختیارات کے معاملے میں غلو ہوجاتا ہے، لیکن اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ کی مکمل ہدایت، وحی اور راست نگرانی میں تشریعی اختیارات (Legislative Powers) حاصل تھے، اس بنا پر وہ آپؐ کے لیے بھی ’شارع‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے تو ایسا کرنا غلط نہیںہے۔ اس سے نہ عقیدۂ توحید پر زد پڑتی ہے نہ آپؐ کے اختیارات میں غلوثابت ہوتاہے۔
مقالہ نگار تصنیفی اکیڈمی، بھارت کے سیکرٹری اور سہ ماہی تحقیقات اسلامی، علی گڑھ کے معاون مدیر ہیں