۲۰۱۳ فروری

فہرست مضامین

رسولِؐ اکرم کی تشریعی حیثیت

ڈاکٹرمحمدرضی الاسلام ندوی | ۲۰۱۳ فروری | فقہ و اجتہاد

Responsive image Responsive image

 سوال: قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو    بہ حیثیت رسول جو ذمہ داری دی گئی تھی، وہ کتاب اللہ کی تشریح ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور (اے نبیؐ) یہ ذکر ہم نے تمھاری طرف اس لیے نازل کیا ہے کہ تم لوگوں کے لیے واضح کردو اس تعلیم کو جو ان کی طرف اُتاری گئی ہے‘‘ (النحل۱۶:۴۴)۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نبیؐ کو اللہ تعالیٰ نے ذمہ داری دی تھی کہ قرآن میں جو احکام وہدایات دیے جارہے ہیں، ان کی آپؐ وضاحت اورتشریح فرمادیں، تاکہ لوگوں کو کلام اللہ کے سمجھنے میں دشواری پیش نہ آئے۔

یہ فریضہ منصب ِرسالتؐ کا ایک اہم جز ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی ذمہ داریاں آپؐ کے سپرد کی گئی تھیں اور سبھی معاملات میں آپؐ  کی اتباع کو لازمی قرار دیا گیا ہے، بلکہ یہاں تک فرمایا گیا ہے کہ رسول کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے (النساء۴:۶۴،۸۰، محمد ۴۷:۳۳) اس کے ساتھ آپؐ کو کچھ اختیارات بھی عطا کیے تھے۔ فرمایا: ’’جو کچھ رسول تمھیں دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رُک جاؤ‘‘ (الحشر۵۹:۷)۔ یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ  فرائض نبوت کی ادائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہی بصیرت اور حکمت عطا فرمائی تھی، جس کی بنیاد پر آپؐ  مقاصد قرآن کی گہرائیوں تک پہنچتے تھے۔ یہ بصیرت اور حکمت لازمۂ نبوت تھی، جو کتاب کے ساتھ آپؐ  کو عطا کی گئی تھی اور اسی کی بدولت آپؐ  لوگوں کو تعلیم خداوندی کے مطابق عمل کرنے کی تلقین فرماتے تھے۔ قرآن میں اس کا بہ کثرت تذکرہ ملتا ہے (ملاحظہ کیجیے البقرہ ۲:۱۲۷، ۱۲۹،۱۵۱،اٰل عمرٰن۳:۱۶۴، الجمعۃ ۶۲ :۲)۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے (القیامۃ۷۵:۱۹)۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآنی تعلیمات واحکام کی جو تشریح وتعبیر آپؐ  اپنے قول وعمل سے کرتے تھے وہ آپؐ  کے ذہن کی پیداوار نہ تھی، بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات مبارک ہی آپؐ  پر قرآن نازل کرتی تھی اور وہی آپؐ  کو اس کا مطلب بھی سمجھاتی اور اس کے وضاحت طلب امور کی تشریح بھی کرتی تھی۔ یہاں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ آپؐ  کے ذرائع معلومات کتاب اللہ کے علاوہ بھی ہیں، جو قرآن سے ثابت ہیں۔ سورۂ بقرہ میں ہے: ’’اور وہ قبلہ جس کی طرف تم پہلے رُخ کرتے تھے، اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھرجاتا ہے‘‘ (۲: ۱۴۳)۔ چونکہ قبلۂ اوّل کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم قرآن میں کہیں نہیں پایا جاتا، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ  کو قرآن کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایات ملتی تھیں۔ لہٰذا حضوؐر کی زندگی کا وہ کارنامہ جو آپؐ  نے بعث کے بعد اپنی ۲۳ سالہ پیغمبرانہ زندگی میں انجام دیا وہ قرآن کے منشا کی توضیح وتشریح کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں منصب ِرسالتؐ کے دیگر کاموں کی ادائی ہے۔ اس تفصیل سے بہ خوبی واضح ہوجاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب شارح کا تھا، نہ کہ ’شارع‘ کا۔ لیکن بعض علما آپؐ  کے لیے شارع کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا نام پیش کیا جاسکتا ہے۔ ان کا مسلک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریعی اختیارات (Legislative Powers)عطا کیے تھے۔ اس بات کا تذکرہ انھوں نے اپنی تصانیف، خاص کر سنت کی آئینی حیثیت میں زور و شور سے کیا ہے اور ایک دوجگہ آپؐ  کو ’شارع علیہ السلام‘ کے لقب سے نوازا ہے۔ مولانا مرحوم کی علمی صلاحیتوں کا قائل ہونے کے باوجود ان کا یہ نظریہ ناچیز کی عقل وفہم سے پرے ہے۔ کیوں کہ شارع تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے، جس کا قرآن میں صراحت سے ذکر کیاگیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت تو صرف شارح کی تھی۔

مولانا مودودیؒ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریعی اختیارات حاصل ہونے کی جتنی بھی دلیلیں دی ہیں وہ سب دراصل تشریح کے زمرے میں آتی ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ’’اگر تم کو جنابت لاحق ہوگئی ہوتو پاک ہوئے بغیر نماز نہ پڑھو‘‘۔ (النساء۴:۴۳) اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپؐ  نے بتایا کہ جنابت کیا ہے اور اس سے پاک ہونے کا طریقہ کیا ہے؟ یعنی غسل کیسے کیا جائے گا؟ یہ سب اضافی باتیں تشریح وتفسیر کے زمرے میں ہی آئیں گی۔ اسی طرح قرآن میں اللہ تعالیٰ نے دوسگی بہنوں کو بہ یک وقت ایک مرد سے نکاح کرنے سے منع فرمایا (النساء۴:۲۳)۔ اس کی تشریح وتوضیح آپؐ  نے یوں کی کہ جس طرح دوسگی بہنیں ایک جگہ جمع نہیں کی جاسکتیں اسی طرح خالہ اور بھانجی یا پھوپھی اور بھتیجی کو بھی ایک جگہ جمع نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح وراثت کا قانون بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اگر (میت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انھیں ترکے کا دوتہائی دیا جائے‘‘ (النساء۴:۱۱) ۔یہاں یہ نہیں بتایاگیا کہ اگر صرف دولڑکیاں ہوں تو ان کو کتنا حصہ ملے گا؟ اس کی وضاحت آپؐ  نے یوں فرمائی کہ دو لڑکیاں ہونے کی صورت میں بھی دونوں کو ترکے میں سے دوتہائی دیا جائے گا۔

یہاں یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ سورۃ النحل آیت ۴۴ میں جس طرح حضوؐر کو قرآنی آیات کی تشریح وتوضیح کا حکم دیاگیا ہے، اسی طرح قرآن میں تشریعی اختیارات عطا کرنے کا کہیں ذکر نہیں کیاگیا ہے۔ اس لیے آپؐ  کے تشریعی اختیارات کے حق میں مولانا مودودیؒ نے جو دلائل دیے ہیں اور جو مثالیں پیش کی ہیں وہ ناکافی معلوم ہوتی ہیں۔

یہاں یہ بات توجہ طلب ہے کہ یہ دین کی کوئی فروعی بحث نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق بنیادی عقائد سے ہے۔ مولانا مودودیؒ کی راے مان لینے سے اوّل توعقیدۂ توحید پرزد پڑتی ہے۔ دوسرے حضوؐر کے اختیارات میں غلو کے باعث فرقہ واریت کو تقویت پہنچتی ہے، جس سے     ملت اسلامیہ کے مزید کم زور ہونے کا اندیشہ ہے۔اُمید ہے کہ تشفی بخش جواب سے نوازیں گے۔

رسولِؐ اکرم کی تشریعی یا توضیحی حیثیت

جواب:اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے اپنا جو کلام آخری رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا اسے قرآن کہا جاتا ہے اور آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال وغیرہ کو، خواہ ان کا تعلق قرآن کی تشریح وتبیین سے ہویا وہ دیگر معاملات سے متعلق ہوں، ان کے لیے حدیث کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ایک مسئلہ ابتدا سے یہ زیر بحث رہا ہے کہ دین کے معاملے میں احادیث حجت ہیں یا نہیں؟ بعض گروہ اور افراد ایسے پائے گئے ہیں، جو ان کی حجیت کا انکار کرتے ہیں۔ اس معاملے میں ماضی بعید میں ’خوارج ‘ نامی گروہ کو شہرت ملی اور ماضی قریب میں اس قسم کے افکار رکھنے والے ’اہل قرآن‘ کہلائے۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ دین کے معاملے میں صرف ’قرآن‘ حجت ہے۔ وہی احکام قابلِ قبول اور لائق نفاذ ہیں جو قرآن سے ثابت ہیں۔ اللہ کے رسول دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان تھے۔ آپؐ  کا اصل کام صرف قرآن کو اللہ کے بندوں تک بے کم وکاست پہنچادینا تھا۔ اس کی تعبیر وتشریح کے طور پر آپ نے جو کچھ ارشاد فرمایا وہ اپنی بشری حیثیت میں کیا، جسے قبول کرنے کے ہم پابند نہیں ہیں۔ آپؐ  نے احکام قرآن کی اپنے عہدکے اعتبار سے تعبیر وتشریح فرمائی اور ہمیں بھی حق حاصل ہے کہ ان کی تعبیر وتشریح اپنے زمانے کے اعتبار سے کریں۔

جمہورِاُمت نے اس فکر کو قبول نہیں کیا ہے اور اسے گم راہی قرار دیا ہے، چنانچہ خوارج اور اہل قرآن دونوں کا شمار فرق ضالّہٗ (گم راہ فرقوں) میں ہوتا ہے۔ جمہور کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح اور ثابت شدہ اقوال وافعال دین میں اسی طرح حجت ہیں جس طرح قرآن حجت ہے، اگرچہ ان کا درجہ قرآن کے بعد آتا ہے۔ ان کی حجیت کے دلائل خود قرآن کریم میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے، ان کے فیصلوں اور احکام کو    واجب التعمیل قرار دیا ہے اور ان کی مخالفت سے ڈرایا ہے۔ چند آیات درج ذیل ہیں:

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِیْ الاَمْرِ مِنکُمْ فَاِن تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ (النساء۴:۵۹) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کو جو تم میں سے صاحب ِامرہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیردو، اگر  واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو۔

فَلاَوَرَبِّکَ لاَیُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لاَیَجِدُوْا فِیْ اَنفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْاْ تَسْلِیْمًا (النساء۴:۶۵) (اے محمدؐ) تمھارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں۔

وَمَآ اٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا(الحشر۵۹:۷)جو کچھ رسول تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رُک جاؤ۔

فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہِٓ اَنْ تُصِیْبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْیُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (النور ۲۴:۳۶) رسولؐ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہوجائیں یا ان پر دردناک عذاب نہ آجائے۔

قرآن سے حدیث کے تعلق کے تین پہلو ہیں:

۱- کچھ احادیث ایسی ہیں جن میں قرآن میں مذکور احکام ہی کا تذکرہ بطور تاکید وتائید آیا ہے، مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی ادائی کا حکم اور شرک، جھوٹی گواہی، والدین کی نافرمانی اور ناحق قتل نفس کی ممانعت وغیرہ۔

۲-بہت سی احادیث قرآن کی تفسیر وتشریح کرتی ہیں۔ چنانچہ قرآن میں کوئی حکم مجمل بیان ہوا ہے، احادیث میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ کوئی حکم قرآن میں مطلق مذکور ہے، احادیث میں اس کے سلسلے میں بعض قیود عائد کردی گئی ہیں۔ کسی حکم کا تذکرہ قرآن میں عمومی صیغے میں ہے، احادیث میں اس کی تخصیص کردی گئی ہے، مثلاً قرآن میں نمازقائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور حج کرنے کے احکام ہیں۔ احادیث میں نمازوں کے اوقات، رکعتوں کی تعداد، ادائی نماز کا طریقہ، زکوٰۃ کی مقدار اور حج کے مناسک وغیرہ بیان کردیے گئے ہیں۔ قرآن میں خرید وفروخت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ احادیث میں خریدوفروخت کی جائز اور ناجائز صورتیں اور سود کی تفصیلات مذکور ہیں۔

۳- کچھ احادیث ایسی ہیں جن میں ایسے احکام بیان کیے گئے ہیں جو قرآن میں مذکور نہیں ہیں۔ یہ بھی واجب الاتباع ہیں، مثلاً نکاح میں دوایسی عورتوں کو جمع کرنے کی حرمت جن کے درمیان پھوپھی بھتیجی یا خالہ بھانجی کا رشتہ ہو، یا شکاری درندوں اور پرندوں اور گھریلو گدھوں کی حرمت، یا مردوں کے لیے ریشم اور سونا پہننے کی حرمت ، یا میراث میں دادی کا حصہ، یا شادی شدہ زانی کو   رجم کی سزا ،یا دیت کے احکام وغیرہ (اصول الفقہ، محمد ابوزہرۃ، دارالفکر العربی القاہرۃ، ۱۹۵۸ء ص۲۱۱، علم اصول الفقہ، عبدالوہاب خلاف، مکتبۃ الدعوۃ، الاسلامیۃ، قاہرہ، ص ۳۹-۴۰، السنۃ و مکانتہا فی التشریع الاسلامی، ڈاکٹر مصطفی السباعی، المکتب الاسلامی بیروت، ص۴۱۴-۶۱۴)

یہ تقسیم جمہور کے نقطۂ نظرسے ہے۔ بعض علما جن میں علامہ شاطبیؒ صاحب الموافقات خصوصیت سے قابل ذکر ہیں، حدیث کی صرف اوّل الذکر دوقسمیں قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک جملہ احادیث قرآن کی تشریح وتبیین کے قبیل سے ہیں۔ کوئی حدیث ایسی نہیں جس کی   اصل قرآن میں موجود نہ ہو۔ مثال کے طور پر حدیث میں درندوں اور شکاری پرندوں کی حرمت کا تذکرہ ہے۔ اس کی اصل آیت قرآنی: وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبٰئِثَ (الاعراف ۷:۵۱) میں موجود ہے۔ حدیث میں مذکور احکام دیت کی اصل آیت فَدِیَۃٌ مُسَلَّمَۃٌ اِلیٰ اَھْلِہٖ (النساء۴:۲۹) میں پائی جاتی ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: الموافقات فی اُصول الشریعۃ، ابواسحاق الشاطبی، المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ، مصر، ۴/۲۱-۷۱)

موجودہ دور میں عالم اسلام کے مشہور فقیہ شیخ ابوزہرہ نے بھی اس موضوع پر لکھا ہے۔ انھوں نے حدیث کی مذکورہ بالا تینوں قسمیں بیان کرتے ہوئے ہر قسم کی مثالیں دی ہیں۔ پھر تیسری قسم کی مثالوں کے ضمن میں لکھاہے:’’حقیقت یہ ہے کہ ان تمام مثالوں کی اصل کتاب الٰہی میں موجود ہے۔۔۔ ہم سنت میں مذکور ایک حکم بھی ایسا نہ پائیں گے جس کی اصل قریب یادُور سے قرآن میں موجود نہ ہو۔ اسی لیے بعض علما نے فرمایا ہے: سنت میں جو حکم بھی مذکور ہے اس کی اصل اللہ کی کتاب میںضرور پائی جاتی ہے۔ اس راے کو امام شافعیؒ نے الرسالہ میں نقل کیا ہے۔ ان کے بعد شاطبیؒ نے بھی اپنی کتاب الموافقات میں اس کا اثبات کیا ہے۔۔۔ تم سنت میں کوئی ایک حکم بھی ایسا نہ پاؤ گے جس کے مفہوم پر قرآن اجمالی یا تفصیلی انداز سے دلالت نہ کرتا ہو‘‘۔(اصول الفقہ،  ابوزہرہ، ص ۱۱۳-۱۱۴)

حقیقت یہ ہے کہ احادیث کی تقسیم کے سلسلے میں علما کا یہ اختلاف کچھ اہمیت نہیں رکھتا۔  اس لیے کہ جمہوراُمت کا اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی اور ثابت شدہ تمام احادیث اور احکام ، خواہ انھیں مستقل حیثیت دی جائے یا قرآن کی تشریح وتببین کے قبیل سے مانا جائے، واجب التعمیل ہیں۔ جو علما تمام تراحادیث کو قرآن کی شارح ومبّین قرار دیتے ہیں وہ بھی اس سے اختلاف نہیں کرتے۔ اسی بنا پر موجودہ دَور کے مشہور شامی عالم ڈاکٹر مصطفی سباعی نے اس اختلاف کو لفظی قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں:

خلاصہ یہ کہ دونوں فریق اس بات پر متفق ہیں کہ سنت میں کچھ ایسے نئے احکام پائے جاتے ہیں جو قرآن میں منصوص اور صراحت سے مذکور نہیںہیں۔ پہلا فریق کہتا ہے کہ اس سے اسلامی قانون سازی میں سنت کی مستقل حیثیت ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے کہ سنت سے ایسے احکام ثابت ہیں جو اللہ کی کتاب میں مذکور نہیں ہیں۔ دوسرا فریق تسلیم کرتا ہے کہ وہ احکام قرآن میں صراحت سے مذکور نہیں ہیں، لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ وہ احکام کسی نہ کسی پہلو سے نصوصِ قرآن کے تحت آجاتے ہیں۔ اس بنا پر وہ کہتا ہے کہ کوئی بھی صحیح حدیث، جس سے ایسا حکم ثابت ہوتا ہو جو قرآن میں مذکور نہیں ہے، وہ ضرور قرآن کے کسی نص یا اس کے کسی اصول کے تحت داخل ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو یہ دلیل ہے اس بات کی کہ وہ حدیث صحیح نہیں ہے، اس لیے اس پر عمل درست نہیں۔ اس سے واضح ہوا کہ یہ اختلاف محض لفظی ہے۔ دونوں فریق اس بات کے قائل ہیں کہ سنت میں ایسے احکام پائے جاتے ہیں جو قرآن میں مذکور نہیںہیں۔ ایک فریق سنت کو مستقل تشریعی حیثیت دیتا ہے۔ دوسرا فریق اسے مستقل حیثیت نہیں دیتا، لیکن دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے۔(السنۃ ومکانتہا فی التشریع الاسلامی، مصطفی السباعی، ص۴۲۰)

گذشتہ صدی میںانکار سنت کا فتنہ ہندستان میں زور وشور سے اٹھا۔ اس کے علم برداروں کا کہنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب صرف اللہ کا پیغام قرآن کی شکل میں انسانوں تک پہنچادینا تھا۔ وہ کام آپؐ  نے کردیا۔ اس کی تعبیر وتشریح کا جو کام آپؐ  نے انجام دیا وہ آپؐ  کی شخصی حیثیت میں تھا۔ ہم صرف احکام قرآن پر عمل ونفاذ کے مکلف ہیں، ارشاد اتِ رسولؐ ہمارے لیے حجت نہیں ہیں۔ اسلامی قانون کا ماخذ صرف قرآن ہے، سنت کو بھی ماخذ قانون قرار دینا درست نہیں۔ اس فتنے کی سرکوبی کے لیے جو علما میدان میں آئے ان میں سے ایک مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ بھی تھے۔ انھوں نے ان منکرین سنت سے لوہا منوا لیا اور ان کے افکار ونظریات کے تاروپود   بکھیر کررکھ دیے۔ اپنی تحریروں میں مولانا مودودیؒ نے پورے زور وقوت کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب محض ایک ’نامہ بر‘ کا نہیں تھا، بلکہ آپؐ  کو معلم ومربیّ،      راہ نما وپیشوا، حاکم وفرماںروا، قاضی، کتاب اللہ کا شارح ومفسر اور شارعِ قانون بھی بنا کر بھیجا گیا تھا۔ آپؐ  کی اطاعت وپیروی اور آپؐ  کے دیے ہوئے احکام پر عمل مسلمانوں پر فرض ہے اور  سنت کے ماخذ قانون ہونے پر پوری امت کا اجماع ہے۔ جو شخص سنت سے آزاد ہو کر قرآن کی پیروی کا دعویٰ کرتا ہے وہ حقیقت میں قرآن کا پیرونہیں ہے۔ مولانا کی یہ تمام تحریریں پہلے ماہ نامہ ترجمان القرآن لاہور کے ’منصب رسالت نمبر‘ میں شائع ہوئیں، بعد میں سنت کی آئینی حیثیت کے نام سے کتابی صورت میں ان کی اشاعت ہوئی۔ یہ مولانا کی بہترین کتابوں میں سے ہے۔ اس کے ذریعے انھوں نے پوری اُمت کی طرف سے دفاع سنت کا فرض کفایہ ادا کردیا ہے۔

قرآن سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جملہ اقوال وارشادات وحی الٰہی پر مبنی تھے: وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْھَویٰ اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحیٰ(النجم۵۳:۳) ’’وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا۔ یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے‘‘۔ آپؐ  کے تمام اجتہادات کی بنیاد قرآن یااللہ تعالیٰ کی بہ راہ راست رہ نمائی ہوتی تھی۔ شیخ ابوزہرہؒ نے لکھا ہے:

اس چیز کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ قانون سازی میں رسول کے اجتہاد کی بنیاد قرآن اور ان کے اندروں میں ودیعت شدہ قانون سازی کی روح اور اس کے اصول ومبادی پر تھی۔ آپؐ  جو احکام وقوانین وضع کرتے تھے ان کے معاملے میں قرآنی بیانات پر قیاس کرتے تھے یا قرآنی قانون سازی کے عام اُصولوں کو تطبیق دیتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سنت میں مذکورہ احکام کامرجع وماخذ قرآن کے احکام ہیں۔‘‘ (اصول الفقہ، ابوزہرہ، ص۴۰)

اسی بناپر علما نے سنت کو اسلامی قانون کا دوسرا بنیادی ماخذ قرار دیا ہے اور اس سے   ثابت شدہ احکام کو مسلمانوں کے لیے حجت اور واجب التعمیل مانا ہے۔ شیخ عبدالوہاب خلّاف فرماتے ہیں:

تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے جن اقوال، افعال اور ’تقریرات‘ کا صدور ہوا ہے اور ان کا مقصود قانون سازی اور اقتدا ہے اور وہ ہم تک صحیح سندوں سے ، جن سے قطعیت یا ظنِ غالب کا فائدہ حاصل ہوتا ہے، پہنچے ہیں، وہ مسلمانوں کے لیے حجت  اور قانون سازی کا سرچشمہ ہیں، جن سے اجتہاد کرنے والوں کو شرعی احکام کا استنباط کرنا ہے۔ گویا احادیث میں وارد ہونے والے احکام سے قرآن میں مذکوراحکام کے ساتھ ایک ایسا قانون تشکیل پاتا ہے جس کی اتباع مسلمانوں کے لیے ضروری ہے ۔۔۔اگریہ توضیح وتشریح کرنے والی احادیث مسلمانوں کے لیے حجت نہ ہوتیں اور ان کی حیثیت واجب الاتباع قانون کی نہ ہوتی، تو قرآن کے فرائض کا نفاذ اور اس کے احکام پر عمل ممکن نہ ہوتا۔ ان توضیحی احادیث کی اتباع اسی پہلو سے واجب ہے کہ ان کا صدور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے ہوا ہے، اور وہ ایسی سندوں سے مروی ہیں جو قطعیت یا ظن غالب کا فائدہ دیتی ہیں۔ معلوم ہوا کہ ہرحدیث جس میں کوئی حکم یا قانون مذکور ہوااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت صحیح ہو وہ حجت اور واجب الاتباع ہے، خواہ اس کے ذریعے قرآن میں مذکور کسی حکم کی تشریح وتبیین ہورہی ہو یا اس میں کوئی ایسا حکم بیان کیاگیا ہو جس کے بارے میں قرآن خاموش ہو۔ اس لیے کہ ان تمام احادیث کا سرچشمہ وہ معصوم ذات گرامی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تبیین کی ذمہ داری دی تھی اور قانون سازی کی بھی۔ (علم اصول الفقہ، عبدالوہاب، خلّاف، ص ۸۳-۹۳)

موجودہ دور کے مشہور فقیہ شیخ وہبہ زحیلیؒ نے لکھاہے:

علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سنتِ نبوی شرعی احکام کے استنباط کے معاملے میں قرآن کی طرح واجب الاتباع ہے، اور یہ کہ وہ قانون سازی کا دوسرا سرچشمہ ہے۔۔۔ ثابت شدہ سنت اپنے تمام مشتملات میں واجب الاتباع ہے، خواہ وہ قرآن کے مجمل احکام کی توضیح کررہی ہو، یا اس کے مطلق احکام پر کچھ قیود عائد کررہی ہو، یا کوئی ایسا نیا حکم بیان کررہی ہو، جس کے بارے میں قرآن خاموش ہو، اس لیے کہ آخر کار اس کا خاتمہ وحی الٰہی پر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صراحت سے اس کااعلان کیا ہے۔ فرمایا: وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَویٰ، اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُوْحیٰ (النجم۵۳: ۳-۴) ۔(الوجیز فی اصول الفقہ، وھبۃ الزحیلی ، دارالفکر دمشق،ص ۳۹-۴۱)

شریعت کے بنیادی مصادر اور رسولؐ بحیثیت شارع

گذشتہ بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی شریعت کے بنیادی مصادر دو ہیں۔ ایک قرآن، دوسرا حدیث۔ جناب مستفسر کو بھی اس سے اختلاف نہیں ہے۔ وہ جہاں یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری دی تھی کہ قرآن میں مذکور احکام کی توضیح وتشریح فرمادیں، وہیں یہ بھی فرماتے ہیں کہ آپؐ  کو دوسری بہت سی ذمہ داریاں بھی سپرد کی گئی تھیں اور سبھی معاملات میں آپؐ  کی اتباع کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ آپؐ  کو قرآن کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہ راہ راست ہدایات ملتی تھیں اور آپؐ  کے تمام اقوال وافعال  اللہ تعالیٰ کی راست نگرانی میں اور اس کی عطا کردہ بصیرت وحکمت کی روشنی میں انجام پائے تھے۔ ان کا کہنا صرف یہ ہے کہ رسول کو ’شارع‘ قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ آپؐ  کا کام صرف اللہ کی شریعت کو اس کے بندوں تک پہنچادینا تھا۔ شارع حقیقت میں صرف اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک ہے۔

یہ بات بالکل صحیح ہے کہ شارع حقیقی صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے۔ وہی حاکم ہے اور تمام شرعی احکام اسی کے دیے ہوئے ہیں، خواہ اس نے ان کا تذکرہ اپنی کتاب قرآن میں کردیا ہو یا  اس کی ہدایت کے مطابق اس کے رسولؐ نے انھیں بیان کیا ہو۔ اس بات پر تمام علما کا اتفاق ہے۔ شیخ عبدالوہاب خلّاف نے لکھا ہے:

علما کے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مکلّفین کے تمام افعال کے لیے شرعی احکام کا سرچشمہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات ہے، خواہ اس کے حکم کااظہار بہ راہ ست ان نصوص سے ہو جن کی اس نے اپنے رسولؐ کی طرف وحی کی تھی، یا اجتہاد کرنے والے استنباطِ احکام کے شرعی دلائل کے واسطے سے اس تک رسائی حاصل کریں۔ اسی لیے وہ متفقہ طور پر ’حکم شرعی‘ کی یہ تعریف کرتے ہیں کہ اس سے مراد مکلّفین کے افعال سے متعلق اللہ تعالیٰ کا خطاب ہے۔ اس کے لیے ان کے درمیان یہ اصول مشہور ہے: لاحکم الا اللّٰہ، حکم کااختیار صرف اللہ کو ہے۔ یہ اصول اللہ کے اس ارشاد سے ماخوذ ہے: اِنِ الحُکُمُ اِلاَّ لِلّٰہِ(الانعام۶:۵۷) ’’ فیصلے کا سارا اختیار اللہ کو ہے‘‘۔ (علم اصول الفقہ، عبدالوہاب، خلّاف،ص۹۶)

اسی لیے اصطلاحی طور پر لفظ ’شارع‘ کا اطلاق اللہ تعالیٰ کی ذات پر کیاجاتا ہے۔ ڈاکٹر خالد رمضان حسن لکھتے ہیں:’’شارع احکام دینے اور قوانین وضع کرنے والے کو کہا جاتا ہے۔ شارع اور حاکم صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے۔ اس کا ارشاد ہے: شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ… (الشوریٰ۴۲:۳۱) ’’اس نے تمھارے لیے دین کا طریقہ مقرر کیا ہے۔۔۔‘‘ (معجم اُصول الفقہ، خالد رمضان حسن، الطرابیشی للدراسات الانسانیۃ، مصر،۱۹۹۸ء، ص ۵۵۱)

لیکن بعض علما، لفظ ’شارع‘ کا استعمال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی کرتے ہیں۔ ایسا وہ مجازاً کرتے ہیں۔ زبان وبیان اور بلاغت کے پہلوؤں سے اس کی گنجایش موجود ہے۔ اس لیے اسے بھی غلط نہیں قرار دیا جاسکتا۔ شرعی احکام کے بنیادی سرچشمے دو ہیں: ایک قرآن، دوسرا حدیث۔ قرآن اللہ کا کلام ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو حدیث کہتے ہیں۔ جب دونوں سے شرعی احکام حاصل ہوتے ہیں تو دونوں کو شارع کہا جاسکتاہے۔ اللہ تعالیٰ کو حقیقتاً اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مجازاً ۔ بعض علماے اصول نے اس کی رعایت سے لفظ ’شارع‘ کا یہ مطلب بتایا ہے: الشارع ھو مبیّن الاحکام،’’شارع احکام بیان کرنے والے کو کہا جاتا ہے‘‘(القاموس المبین فی اصطلاحات الاصولیین، ڈاکٹر محمود حامد عثمان، دارالتراجم الریاض، ۲۰۰۲ء، ص۱۸۵)

اس کی تائید وتصویب قرآن کریم سے بھی ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبرکا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ (الاعراف ۷:۱۵۷)،’’وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اُتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے‘‘۔

اس آیت میں تحلیل وتحریم کی نسبت صراحت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب کی گئی ہے، حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کے کام ہیں۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ تحریم وتحلیل کے جو کام آپؐ  نے کیے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے اختیارات کی بنا پر کیے ہیں، اس لیے وہ بھی قرآنی احکامِ تحلیل وتحریم کی طرح واجب الاتباع ہیں۔ یہی مضمون بعض احادیث میں بھی مذکور ہے۔ ایک حدیث حضرت ابورافعؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لاَاُلْفِیَنَّ اَحَدَکُمْ مُتَّکِئاً عَلیَ اَرِیْکَتِہٖ یَاتِیْہِ الاَمْرُ مِنْ اَمْرِیْ مِمَّا اَمَرْتُ بِہٖ اَوْ نَھَیْتُ عَنْہُ فَیَقُوْلُ: لاَنَدْرِیْ مَاوَجَدْنَا فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ اتَّبِعْنَاہ۔(سنن ابی داؤد، کتاب السنۃ، ۵۰۶۴)’’میں ہرگز تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ اپنی مسند پر ٹیک لگائے ہو اور اس کے پاس میرے اوامر ونواہی میں سے کوئی بات پہنچے تو وہ یہ کہنے لگے: ہم نہیں جانتے۔ ہم جو کچھ اللہ کی کتاب میں پائیں گے صرف اسی کی اتباع کریں گے‘‘۔ اس مضمون کی اور بھی متعدد احادیث مروی ہیں۔ (ملاحظہ کیجیے: ابوداؤد، ۰۵۰۳، ۴۰۶۴، ترمذی،۳۶۶۲، ۴۶۶۲، ابن ماجہ ،۱۲،۱۳)

اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ شرعی احکام وقوانین دینے کے معاملے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کی طرح مختار مطلق تھے اور آپؐ  کو کلی اختیار حاصل تھا کہ اللہ کی راہ نمائی اور بصیرت کے بغیر جو چاہیں قوانین وضع کریں تو یقینا اس کی زد عقیدۂ توحید پر پڑتی ہے اور اس سے آپؐ  کے اختیارات کے معاملے میں غلو ہوجاتا ہے، لیکن اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ آپؐ  کو اللہ تعالیٰ کی مکمل ہدایت، وحی اور راست نگرانی میں تشریعی اختیارات (Legislative   Powers) حاصل تھے، اس بنا پر وہ آپؐ  کے لیے بھی ’شارع‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے تو ایسا کرنا غلط نہیںہے۔ اس سے نہ عقیدۂ توحید پر زد پڑتی ہے نہ آپؐ  کے اختیارات میں غلوثابت ہوتاہے۔


مقالہ نگار تصنیفی اکیڈمی، بھارت کے سیکرٹری اور سہ ماہی تحقیقات اسلامی، علی گڑھ کے معاون مدیر ہیں