ہمارے محسن اور قائد مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ’اشارات‘ کا ایک مخصوص اسلوب اختیار کیا تھا۔ حتی الوسع ہم نے اس کے اتباع کا اہتمام کیا ہے۔ اس ماہ محترم قاضی حسین احمدکے تذکرے کی خاطر اس منہج میں تبدیلی کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے لیے بھی مولانا مرحوم کے دور میں دو مثالیں موجود ہیں: ایک ۱۹۴۸ء میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کے انتقال پر اور دوسرے، مولانا مسعودعالم ندوی کے وصال پر___ مولانا نے ’اشارات‘ ہی میں اللہ کے ان فیصلوں پر اپنے احساسات کا اظہار کیا تھا۔ مَیں بھی اس ماہ عام روایت سے ہٹ کر ایک شاذ نظیر پر عمل پیرا ہورہا ہوں۔ مدیر
اتوار ۶جنوری ۲۰۱۳ء نمازِ فجر سے فارغ ہوکر حسب ِ عادت سیل فون کو بیدار (on) کیا تو ایک دم ایس ایم ایس کی یلغار رُونما ہوئی۔ ۲۰ سے زیادہ ایس ایم ایس تھے لیکن پیغام ایک ہی دل خراش اطلاع تھی کہ محترم قاضی حسین احمد کا انتقال ہوگیا ہے___ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ دل کو یقین نہیں آرہا تھا۔ ابھی ۱۰ دن پہلے پروفیسر عبدالغفور احمد کا جنازہ ساتھ پڑھ کر اسی جہاز سے ہم کراچی سے اسلام آباد آئے تھے۔ صرف ایک دن پہلے جمعہ کی نماز ساتھ پڑھ کر گرم جوشی سے ایک دوسرے سے رخصت ہوئے تھے۔ اب یہ کلیجہ پھاڑ دینے والی خبر کہ جو اللہ کا پیارا تھا، وہ اللہ کو پیارا ہوگیا!
اللہ کا حکم ہرچیز پر غالب ہے، اس کے فیصلے کے آگے سرِتسلیم خم ہے، مگر دل پارہ پارہ ہے اور آنکھیں اَشک بار ہیں۔ ۱۲ دن کے اندر اندر اپنے دو محبوب ساتھیوں، بزرگوں اور قائدین سے یوں محروم ہوجانا ؎
مصائب اور تھے پر دل کا جانا
عجب ایک سانحہ سا ہوگیا ہے
بات تو معلوم ہوچکی تھی مگر پھر بھی رفقا سے تصدیق چاہی۔ میت اسلام آباد سے پشاور لے جائی جاچکی تھی۔ نمازِ جنازہ ۳بجے پشاور میں تھی۔تلاوت اور دعاے مغفرت کے بعد پشاور کے لیے رخت ِ سفر باندھا۔ برادرم خالد رحمان اور ڈاکٹر متین رفیق سفر ہوئے۔ پہلے راحت آباد ان کے گھر پہنچے اور پھر موٹروے کے پاس اجتماع گاہ میں محترم قاضی صاحب کے جسدخاکی کے پاس کرسی نشین ہوگیا کہ کھڑے رہنے کی سکت نہ تھی۔ جس چہرے کو ۴۰ برس مسکراتے اور ہم کلام ہوتے دیکھا تھا آج اسے ہمیشہ کی نیند سوتے ہوئے مگر پُرنور حالت میں آخری بار دیکھا اور معاً لوحِ قلب پر ربِ کائنات کے یہ الفاظ اس طرح رُونما ہوئے جیسے آج ہی نازل ہورہے ہوں:
یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ o ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً o فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ o وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (الفجر ۸۹:۲۷-۳۰)، اے نفسِ مطمئنہ! چل اپنے رب کی طرف، اس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے) خوش ہو اور (اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔ شامل ہوجا میرے نیک بندوں میں اور داخل ہوجا میری جنت میں۔
قاضی حسین احمد صاحب ایک سچے انسان، اللہ کے ایک تابع دار بندے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق، اُمت مسلمہ کے بہی خواہ، تحریکِ اسلامی کے مخلص خادم، کلمۂ حق کو بلند کرنے والے ایک اَن تھک مجاہد اور پاکستان کے حقیقی پاسبان تھے۔ اللہ کے دین کے جس پیغام اور مشن کو طالب علمی کی زندگی میں دل کی گہرائیوں میں بسا لیا تھا اسے پورے شعور کے ساتھ قبول کیا، اپنی جوانی اور بڑھاپے کی تمام توانائیاں اس کی خدمت میں صرف کردیں۔ اس دعوت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا، اس کی خاطر ہرمشکل کو بخوشی انگیز کیا، ہر وادی کی آبلہ پائی کی، ہر خطرے کو خوش آمدید کہا، ہرقربانی کو بہ رضا و رغبت پیش کیا اور پورے خلوص، مکمل دیانت، اور ناقابلِ تزلزل استقامت کے ساتھ زندگی کے آخری لمحے تک اس کی خدمت میں لگے رہے۔ بلاشبہہ وہ ان نفوس میں سے ہیں جن کے بارے میں ہم سب ہی نہیں در و دیوار بھی گواہی دے رہے ہیں کہ:
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا o (الاحزاب ۳۳:۲۳)، ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
قاضی حسین احمد ۱۲جنوری ۱۹۳۸ء کو صوابی کی تحصیل نوشہرہ کے ایک مردم خیز گائوں زیارت کاکاخیل میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم قاضی عبدالرب نے، جو ایک معروف عالمِ دین اور جمعیت علماے ہند کے اعلیٰ عہدے دار تھے اور دیوبند مکتبۂ فکر کے گل سرسبد تھے، ایک روایت کے مطابق مولانا حسین احمد مدنی سے اپنی عقیدت کے اظہار کے طور پر اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کا نام انھی کے نام پر رکھا اور یہ ہونہار بچہ قدیم اور جدید تعلیم سے آراستہ ہوکر ۴۹سال کی عمر میں امام عصر ، مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی قائم کردہ جماعت اسلامی کا امیر منتخب ہوا اور پاکستان ہی نہیں، پورے عالمِ اسلام میں دینِ حق کی دعوت کو بلند کرنے اور تاریخ کے دھارے کو موڑنے کی عالم گیر جدوجہد میں گراں قدر خدمات انجام دینے کی سعادت سے شادکام ہوا۔ جماعت اسلامی کے تیسرے امیر کی حیثیت سے ۲۲برس تحریک کی قیادت کی اور ملک کے طول و عرض ہی میں نہیں دنیا کے گوشے گوشے میں اسلام کی دعوت کو پہنچانے کے لیے سرگرم رہا۔ ۲۰۰۹ء میں جماعت کی امارت سے فارغ ہونے کے باجود جوانوں کی طرح سرگرمِ عمل رہا۔ نومبر ۲۰۱۲ء میں ایک عالمی کانفرنس وحدتِ اُمت کے موضوع پر منعقد کی اور جدوجہد کے منجدھار میں جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔
ان کی زندگی کوششِ پیہم، جہدِ مسلسل ، عزم و استقامت اور جہاد فی سبیل اللہ کی زندگی تھی___ ایک ایسا دریا جس کی پہچان اس کی روانی، تلاطم اور بنجر زمینوں کی فراخ دلی کے ساتھ سیرابی سے تھی، جس نے اپنی ذات کو اپنے مقصدحیات کی خدمت کی جدوجہد میں گم کردیا تھا، جس کی لُغت میں آرام اور مایوسی کے الفاظ نہ تھے اور جس نے زمانے کو تبدیل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیا تھا۔ اقبال نے جس زندگی کا خواب دیکھا تھا، قاضی صاحب اس کا نمونہ تھے ؎
زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ
ُجوے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی
قاضی حسین احمد کی دینی تعلیم اور تربیت مشفق باپ کے ہاتھوں ہوئی۔ قرآن سے شغف اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ان کی گھٹی میں پڑا تھا۔ طالب علمی کے دور ہی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے نسبت قائم ہوگی اور مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے لٹریچر کا پورے شوق سے مطالعہ کیا اور ان کے پیغام کو حرزِجاں بنالیا۔ جمعیت سے تعلق رفاقت کا رہا جو جماعت اسلامی تک رسائی کے لیے زینہ بنا۔ ان کے اصل جوہر جماعت ہی میں کھلے۔ پشاور یونی ورسٹی سے جغرافیے میں ایم ایس سی کرنے کے بعد ریاست سوات میں جہان زیب کالج سیدوشریف میں بطور لیکچرار تدریسی کیریئر کا آغاز کیا لیکن تین ہی سال میں اس وقت کی ریاست کے ماحول میں وہ ’ناپسندیدہ شخص‘ قرار دے دیے گئے اور ریاست بدری پر نوبت آئی۔ اس کے بعد اپنی خاندانی روایات کا احترام کرتے ہوئے کاروبار (فارمیسی) کو آزاد ذریعۂ معاش بنایا اور ۱۹۷۰ء میں جماعت اسلامی کی رکنیت اختیار کرلی۔ جلد ہی پشاور اور پھر اس وقت کے صوبہ سرحد کے امیر منتخب ہوئے۔ سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں بھی بھرپور شرکت کی اور اس کے صدر کے عہدے پر بھی خدمات انجام دیں۔ ۱۹۷۸ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے قیم مقرر ہوئے اور اس حیثیت سے ۱۹۸۷ء تک خدمات انجام دیں۔
یہ بات کم لوگوں کے علم میں ہے کہ جب اگست ۱۹۷۸ء میں پی این اے نے مارشل لا کے نظام کو جمہوریت کی طرف لانے اور انتخابات کا راستہ ہموار کرنے کے لیے حکومت میں شرکت کا فیصلہ کیا، تو جماعت کی طرف سے دیے گئے اولین ناموں میں پروفیسر عبدالغفور احمد، چودھری رحمت الٰہی اور قاضی حسین احمد کا نام تھا،لیکن قاضی صاحب کے غالباً افغانستان میں اس وقت کی تحریکِ مزاحمت سے قریبی تعلقات کی وجہ سے جنرل ضیاء الحق اور ان کے رفقا نے ان کے نام پر اتفاق نہ کیا اور پھر یہ نگہِ انتخاب محمود اعظم فاروقی پر پڑی۔میری شرکت پی این اے کے کوٹے پر نہیں تھی، حتیٰ کہ سیاسی ٹیم کے حصے کے طور پر بھی نہیں تھی۔ مجھے کابینہ کے بن جانے کے ۱۰ دن بعد بحیثیت ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن شریکِ کار کیا گیا اور یہی وہ حیثیت تھی جس کی بنا پر مجھے پلاننگ اور معیشت کا وزیر مقرر کیا گیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب امیرجماعت محترم میاں طفیل محمد صاحب نے چودھری رحمت الٰہی صاحب کی جگہ جو اس وقت قیم جماعت تھے محترم قاضی صاحب کو قیم کے لیے تجویز کیا اور مرکزی شوریٰ نے انھیں قیم مقرر کیا اور اس طرح ملکی سطح پر ان کے تاریخی کردار کا آغاز ہوا۔
مولانا مودودیؒ نے ۱۹۴۱ء سے ۱۹۷۲ء تک قید کے زمانوں کو چھوڑ کر جماعت کی امارت کی ذمہ داریاں ادا کیں۔ میاں طفیل محمدصاحب نے ۱۹۷۳ء سے ۱۹۸۷ء تک ۱۵سال تحریک کی قیادت کا عظیم اور نازک کام انجام دیا، اور ۱۹۸۷ء سے ۲۰۰۹ء تک اس خدمت کا سہرا محترم قاضی حسین احمد کے سر رہا، اور ۲۰۰۹ء سے عزیزمحترم سیّد منور حسن صاحب اس عظیم منصب پر مامور ہیں۔ جماعت اسلامی میں امیرکا انتخاب ارکان نے ہمیشہ اپنی آزاد راے کے ذریعے کیا ہے۔ کسی بھی سطح پر اُمیدواری کا کوئی شائبہ کبھی بھی نہیں پایا گیا۔ ۱۹۷۲ء سے مرکزی شوریٰ ارکان کی رہنمائی کے لیے تین نام ضرور تجویز کرتی ہے مگر ارکان ان ناموں کے پابند نہیں اور جسے بہتر سمجھیں اسے اپنے ووٹ کے ذریعے امیر بنانے کے مجاز ہیں۔ الحمدللہ یہاں نہ وراثت ہے اور نہ وصیت، نہ اُمیدواری ہے اور نہ کنوسنگ۔ اسلام کے حقیقی جمہوری اصولوں کے مطابق قیادت کا انتخاب ہوتا ہے اور بڑے خوش گوار ماحول میں تبدیلیِ قیادت انجام پاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اس روشن راستے پر قائم رکھے۔
میں آج اس امر کا اظہار کر رہا ہوں کہ ۱۹۸۷ء کے امیر جماعت کے انتخاب کے موقع پر شوریٰ نے جو تین نام تجویز کیے تھے ان میں محترم قاضی صاحب کے علاوہ محترم مولانا جان محمد عباسی اور میرا نام تھا۔ میں ایک طے شدہ پروگرام کے تحت جنوبی افریقہ میں قادیانیت کے سلسلے میں ایک مقدمے کی پیروی کے لیے کیپ ٹائون میں تھا، اور قاضی صاحب کے امیرجماعت منتخب ہونے کے لیے برابر دعائیں کر رہا تھا۔ مجھے ان کے انتخاب کی خبر کیپ ٹائون ہی میں ملی اور مَیں سجدۂ شکر بجالایا۔ الحمدللہ قاضی صاحب نے اپنی صلاحیت کے مطابق اللہ کی توفیق سے جماعت کی بڑی خدمت کی اور جس تحریک کا آغاز سید مودودی نے کیا تھا اور جس پودے کو میاں طفیل محمد صاحب نے اپنے خون سے سینچا تھا، اسے ایک تناور درخت بنانے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور ان کے لیے بلندیِ درجات کا ذریعہ بنائے، آمین!
قاضی حسین احمدصاحب سے میری پہلی ملاقات ۱۹۷۳ء میں مرکزی شوریٰ کے موقعے پر ہوئی۔ میں اس زمانے میں انگلستان (لسٹر) میں مقیم تھا اور اسلامک فائونڈیشن کے قیام میں لگا ہوا تھا۔ شوریٰ کے اجتماع کے بعد رات کو دیر تک باہم مشورے ہماری روایت ہیں۔ جس کمرے میں قاضی صاحب ٹھیرے ہوئے تھے، اس میں ڈاکٹر مراد علی شاہ کی دعوت پر ہم تینوں مل کر بیٹھے اور آدھی رات تک افغانستان کے حالات پر بات چیت کرتے رہے۔ قاضی صاحب افغانستان کا دورہ کرکے آئے تھے۔ جو نوجوان وہاں دعوتِ اسلامی کا کام کر رہے تھے، وہ ظاہرشاہ کے زمانے ہی میں ظلم و ستم کا نشانہ بننے لگے تھے اور اشتراکی تحریک اور قوم پرست دونوں اپنا اپنا کھیل کھیل رہے تھے لیکن دائود کے برسرِاقتدار آنے کے بعد حالات اور بھی خراب ہوگئے۔ مجھے اس علاقے کے بارے میں پہلی مفصل بریفنگ قاضی حسین احمد صاحب نے دی جو کئی گھنٹوں پر پھیلی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر مراد علی شاہ بھی اپنے مخصوص انداز میں لقمے دیتے رہے لیکن صورتِ حال کی اصل وضاحت (presentation ) قاضی صاحب کی تھی، اور اس طرح افغانستان اور پورے خطے کے حالات سے ان کی واقفیت اور خصوصیت سے افغانستان کے مسئلے میں گہری وابستگی (involvement) کا مجھے شدید احساس ہوا۔ انھوں نے خالص فارسی لہجے میں اقبال کا یہ قطعہ بھی پڑھا جس کی صداقت پر ان کو یقین تھا:
آسیا یک پیکرِ آب و گل است
ملّتِ افغاں در آں پیکر دل است
از فسادِ او فسادِ آسیا
در کشاد او کشادِ آسیا
(ایشیا آب و گل کا ایک پیکر ہے اور اس پیکر کے اندر ملت ِ افغان دل کی مانند ہے۔ اُس کے فساد سے سارے ایشیا کی خرابی ہے اور اس کی اصلاح میں سارے ایشیا کی اصلاح ہے۔)
افغانستان کے حالات پر جس گہری نظر اور وہاں کے لوگوں سے تعلق کی جو کیفیت میں نے قاضی صاحب میں دیکھی، اس کی مثال نہیں ملتی۔ مجھے جہادِ افغانستان کے پورے دور میں ان کے ساتھ ان معاملات میں شرکت کی سعادت حاصل رہی ہے۔ ۱۹۹۳ء میں، افغان مجاہدین کی تنظیموں میں اختلافات دُور کرنے کے لیے مصالحتی کمیشن میں ان کے ساتھ ایک ماہ مَیں نے بھی افغانستان میں گزارا اور اس وقت جس مجوزہ دستوری نقشے پر اتفاق ہوا تھا اور جسے میثاقِ مکہ کی بنیاد بنایاگیا تھا ،اس کی ترتیب میں کچھ خدمت انجام دینے کی سعادت مجھے بھی حاصل رہی ہے، لیکن تحریکِ اسلامی نے افغانستان کے سلسلے میں جو کردار بھی ان ۴۰برسوں میں ادا کیا ہے اور اس کے جو بھی علاقائی اور عالمی اثرات رُونما ہوئے ہیں، ان کی صورت گری میں کلیدی کردار محترم قاضی حسین احمد ہی کا تھا۔ اپنے انتقال سے پہلے بھی وہ اس سلسلے میں بہت متفکر تھے اور اس مسئلے کے حل کے لیے بڑے سرگرم تھے، اور فاٹا میں ان پر خودکش حملے کے علی الرغم وہ افغانستان کے لیے خود افغانوں کے مجوزہ، (یعنی افغان based) حل کے لیے کوشاں تھے، اور پاکستان اور افغانستان کو یک جان اور دو قالب دیکھنا چاہتے تھے۔ ۲۰۱۲ء میں جماعت اسلامی کے جس وفد نے صدرحامدکرزئی اور ان کی ٹیم سے مذاکرات کیے تھے، وہ بظاہر میری سربراہی میں گیا تھا لیکن اصل میرکارواں قاضی صاحب ہی تھے اور ہم سب ان کے وژن کی روشنی میں اصلاحِ احوال کی کوشش کر رہے تھے۔
قاضی صاحب کی اصل وفاداری اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی اور اس وفاداری کے تقاضے کے طور پر اُمت مسلمہ اور اس کے احیا کو اپنی زندگی کا مشن سمجھتے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے سوچ سمجھ کر وہ راستہ اختیار کیا تھا جس کی طرف ہمارے دور میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے رہنمائی دی تھی اور وہ ان خطوطِ کار پر یقین رکھتے تھے جن پر جماعت اسلامی قائم ہوئی ہے۔ اس کے مقصد، طریق کار اور دستور کی وفاداری کا جو حلف انھوں نے اُٹھایا تھا، اسے عمربھر نبھانے کی انھوں نے مخلصانہ اور سرگرم کوششیں کیں۔ وہ لکیرکے فقیر نہ تھے مگر اس فریم ورک کے وفادار تھے جسے انھوں نے سوچ سمجھ کر قبول اور اختیار کیا تھا۔
مجھے الحمدللہ ان تینوں امراے جماعت کے ساتھ کام کرنے کی سعادت حاصل رہی ہے جن پر ماضی میں امارت کی ذمہ داری تھی اور موجودہ امیر کے ساتھ بھی میرا دیرینہ تعلق ہے۔ مولانا مودودیؒ کی فکر اور دعوت سے تو رشتہ ۱۹۵۰ء میں قائم ہوگیا تھا، گو خاندانی تعلقات کی وجہ سے ان کی ذات سے نسبت اس سے بھی بہت پرانی ہے۔ رکنیت کا حلف میں نے ستمبر ۱۹۵۶ء میں لیا اور ۱۹۵۷ء سے مرکزی شوریٰ میں شریک ہوں۔ مولانا محترم کے لٹریچر کے ترجمے، ادارہ معارف اسلامی کراچی اور چراغِ راہ سے وابستگی کی وجہ سے مولانا محترم کے ساتھ ۲۲برس کام کرنے کی سعادت حاصل ہے۔ میاں طفیل محمدصاحب کے ساتھ بھی ان ۲۲برس کے ساتھ ان کی اپنی امارت کے ۱۵سال اور امارت کے بعد ۲۰ سال قریبی تعلق رہا۔ اسی طرح قاضی صاحب کے ساتھ ۱۹۷۳ء کی پہلی ملاقات، ۱۹۷۸ء میں ان کے قیم مقرر ہونے اور پھر ۱۹۸۷ء میں امیرمنتخب ہونے سے لے کر ان کے انتقال تک رفاقت کی سعادت رہی۔ بلاشبہہ ان تینوں امرا کا اپنا اپنا انداز ااور مزاج تھا اور ہر ایک کا اپنا اپنا منفرد کردار بھی تھا لیکن اصل چیز وہ وژن (vision) ہے جس پر جماعت اسلامی قائم ہوئی، وہ مقاصد ہیں جو اس کی جدوجہد کے لیے متعین ہوئے، وہ طریق کار اور حکمت عملی ہے جو اتفاق راے سے طے ہوئی اور جس کا ایک حصہ دستور میں اور باقی جماعت کی قراردادوں میں موجود ہے اور جس کی تشریح ہزاروں صفحات پر پھیلے ہوئے لٹریچر میں ہے۔ اس فریم ورک کے اندر ہر امیر نے تحریک کی قیادت اور رہنمائی کی ہے اور شوریٰ کے مشورے سے نظامِ کار کو چلایا اور ترقی کے مراحل طے کیے ہیں۔ اس طرح جہاں ایک طرف تاریخی تسلسل ہے وہیں اس کے ساتھ فطری تنوع بھی ہے کہ ع
ہر گلے را رنگ و بوے دیگر است
مولانا مودودیؒ اس تحریک کے موسّس اور وژن ہی نہیں، اس کے پورے نظامِ فکروعمل کے صورت گر تھے ۔ انھوں نے تحریک کا ایک تصور دیا جس کا جوہر اُمت کو قرآنِ پاک کے اصل مشن اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے منہج انقلاب سے ازسرِنو رشتہ جوڑنے کی دعوت ہے۔ روایت کا احترام اس کا حصہ ہے مگر روایت کی اسیری سے آزادی اور اصل منبع سے تعلق استوار کرکے اس کی روشنی میں آج کے حالات کے مطابق نبوت کے مقصد اور مشن کے حصول کے لیے نقشۂ کار وضع کرنے اور عملی جدوجہد کرنے کی دعوت اس کا مرکزی تصور ہے۔ اس انقلابی عمل کے لازماً چار پہلو ہیں:
اوّلًا: اصل مقاصد سے جڑنا، قرآن و سنت کے دیے ہوئے تصورِ دین کو سمجھنا اور پھر اس ہمہ گیر تصور کی روشنی میں اقامت ِ دین اور شہادتِ حق کی ذمہ داری کو سمجھنا، اس کو ادا کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا اور اس کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کے نقشے کو تبدیل کرنے کی سعی و جہد کو منظم اور مربوط انداز میں انجام دینے کی کوشش کرنا، اس کے لیے ضروری نظامِ کار بنانا اور افرادِ کار کو اس انقلابی جدوجہد میں لگا دینا۔ ایک جملے میں ساری توجہ کو مقصد نبوت کی صحیح تفہیم اور اسے زندگی کا مقصد بنانا ہے۔
ثانیاً: اس کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ خود اپنی تاریخ کا تنقیدی جائزہ لیا جائے، زوال کے اسباب کو متعین کیا جائے، موجود الوقت کمزوریوں کی نشان دہی کی جائے، طاقت کے سرچشموں کو فعال اور متحرک کیا جائے اور نیا راستہ اختیار کیا جائے۔
ثالثاً: اس کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ وقت کے نظام، غالب تہذیب اور اس کی بنیادوں، مقاصد، اہداف اور مظاہر کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ اپنے دور کی کارفرما قوتوں کے مثبت اور منفی دونوں پہلوئوں کا مطالعہ اور تجزیہ کیا جائے اور متعین کیا جائے کہ کون سی چیزیں ایسی ہیں جو مثبت ہیں اور ان سے استفادہ ممکن ہے، اور کون کون سی چیزیں منفی بلکہ سمِّ قاتل ہیں اور ان سے کس طرح بچاجائے۔ نیز کس طرح تاریخ کے دھارے کو موڑا جائے تاکہ شر کی قوتوں کے غلبے سے نجات پائی جاسکے اور دین حق اور منہج نبویؐ کا غلبہ اور خیر کی قوتوں کے لیے کامیابی حاصل کی جاسکے۔
رابعاً: ان تینوں کی روشنی میں آج کے دور میں تحریک اسلامی کے لیے صحیح راہِ عمل کو مرتب کیا جائے، تاکہ زندگی کے ہرمیدان میں اسلامی تصورِ حیات کے مطابق اور زندگی کے اسلامی اہداف کے حصول کے لیے ہمہ گیر جدوجہد ہوسکے اور اس کے لیے مناسب نظامِ عمل تشکیل دیا جاسکے۔
مولانا مودودیؒ نے جو تاریخ ساز کام کیا، وہ یہی ہے کہ انھوں نے ان چاروں اُمور کے بارے میں دیانت اور علمی مہارت کے ساتھ دو اور دو چار کی طرح واضح ہدایات مرتب کیں، دلیل سے اپنی بات کو پیش کیا۔ جن نفوس نے اس دعوت کو قبول کیا ان کو جماعت کی شکل میں منظم کیا اور انفرادی اور اجتماعی قوت کو اُس تبدیلی کے لیے مسخر کیا جو مطلوب تھی۔ جماعت کے نصب العین کا تعین کیا ، اس کے طریق کار کو واضح کیا اور اس کے حصول کے لیے چار نکاتی لائحہ عمل مرتب کیا جسے پوری جماعت نے دل و دماغ کی یکسوئی کے ساتھ قبول کیا، یعنی:
۱- عقیدے کا احیا ، فکری اصلاح، دورِحاضر کی فکر کا محاسبہ اور اسلامی افکار کی تشکیل نو۔
۲- تمام انسانوں کے سامنے اس دعوت کو پیش کرنا اور ان میں سے جو اسے قبول کریں ان کو منظم کرنا، ان کی تربیت کرنا اور اخلاقی اور مادی ہر اعتبار سے انھیں اس تاریخی اور انقلابی جدوجہد کے لیے تیار کرنا۔
۳- معاشرے کی اصلاح اور زندگی کے ہر شعبے کی اسلامی اقدار اور احکام کی روشنی میں تعمیروتشکیلِ نو، خاندان کا استحکام، مسجد اور مدرسے کی تنظیم نو، اور تعلیم، خدمت ، امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا اہتمام اور افراد اور اداروں کی نئی صف بندی۔
۴-ان تینوں کی بنیاد پر نظام کی تبدیلی اور انقلابِ قیادت کی جدوجہد، تاکہ فرد اور معاشرہ ہی نہ بدلے بلکہ پورا نظام تبدیل ہو اور معاشرت، معیشت، سیاست، قانون، عدالت، سب کی اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں تعمیرنو ہوسکے، اور اس طرح دین کی اقامت واقع ہوسکے۔
مولانا مودودیؒ کی امارت میں یہ سارے کام ہوئے، اور اس طرح ان کے دور کو فکروعمل ، فرد اور جماعت، سب کے لیے تشکیل و تعمیرنو کا دور کہا جاسکتا ہے۔ اس دور میں اُمت مسلمہ کی تاریخی روایت کی حفاظت اور احیا کے ساتھ روایت کے ان پہلوئوں سے نجات کی بھی کوشش کی گئی جو اس تصور سے مطابقت نہیں رکھتے تھے، اور اس طرح ایک نئی روایت کے قیام کی سعی کی گئی، جو اس پیغام اور نظامِ تہذیب کی شناخت بن سکے۔ یہ دور تعمیر کے ساتھ ایجاد، اختراع اور اجتہاد کا دور بھی تھا اور اس میں تسلسل کے ساتھ تبدیلی کا بھی ایک بڑا اہم کردار تھا۔ اہداف کا تعین، نظامِ کار کا دروبست، حکمت عملی، پالیسیاں، غرض ہرجگہ روایت اور جدت کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ ارتقا کا ایک عمل ہے جو اصل ماخذ سے مکمل وفاداری کے ساتھ نئی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ایک رواں دواں دریا کی مانند موج زن نظر آتا ہے جو ایک فکری دعوت، اخلاقی احیا کی ایک منظم جدوجہد اور ایک انقلابی تحریک کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں نئے اہداف، نئی راہیں اور نئے تجربات بھی کیے جاتے ہیں لیکن اس طرح کہ اصل بنیاد سے رشتہ مضبوط تر ہوتا جائے۔ اصل شناخت پر کوئی بیرونی سایہ نہیں پڑنے دیا جاتا لیکن پیغام اور اہداف میں صبحِ نو کی سی تازگی موجود رہتی ہے، گویا ؎
فصل بہار آئی ہے لے کر رُت بھی نئی، شاخیں بھی نئی
سبزہ و گل کے رُخ پر لیکن رنگِ قدامت آج بھی ہے
لوگ بہت سی چیزوں کو آج نیا کہتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کی آزادی کے فوراً بعد اسلامی جمعیت طلبہ کی شکل میں طلبہ کی جو آزادتنظیم دسمبر ۱۹۴۷ء میں قائم ہوئی، اور جس کی برکتوں سے آج تک ہم سب فیض یاب ہورہے ہیں۔ وہ مولانا ہی کے ایما پر قائم ہوئی تھی۔ اسی طرح حفاظتی نظربندی (Preventive Detention) اور سیفٹی ایکٹ کے خلاف اور انسانی حقوق کی بحالی کے لیے شہری آزادیوں کی انجمن (Civil Liberties Union) لبرل اور لیفٹ کے عناصر کی ہم رکابی میں مولانا مودودیؒ کی قیادت میں قائم ہوئی تھی اور محمود علی قصوری صاحب بھی اس میں برابر کے شریک تھے۔ ادب اور لیبر کے محاذ پر تنظیم سازی ۱۹۵۰ء کی دہائی میں ہوئی تھی۔ اسلامی دستور کی تحریک کا آغاز جماعت اسلامی نے کیا مگر دستور کے لیے مشترک محاذ ۱۹۵۰ء میں لیاقت علی خاں صاحب کی دستوری سفارشات کے اعلان کے بعد ہی قائم ہوگیا تھا اور ۱۹۵۱ء اور ۱۹۵۳ء کی علما کی سفارشات ان کی مساعی کا حاصل تھیں۔ اتحاد کی سیاست کاآغازمولانا محترم کے دور میں ہوا ہے اور COP (Combined Opposition Parties ، متحدہ حزبِ اختلاف) کا قیام عمل میں آیا جس میں اسلام پسند قوتوں کے ساتھ سیکولر قوتیں بھی شریک تھیں اور سہروردی صاحب ، مجیب الرحمن صاحب بھی اس کا حصہ تھے۔ جنرل ایوب خان کی آمریت کے خلاف مشترک جدوجہد اسی زمانے میں ہوئی۔ انتخابات میں شرکت کا سلسلہ بھی اس زمانے میں ہوا۔ ۱۹۵۱ء کے پنجاب میں صوبائی انتخابات میں شرکت اور ۱۹۵۸ء کے کراچی کارپوریشن کے انتخابات میں کامیابی کا تعلق اسی دور سے ہے۔ آج بڑے اجتماعات کا چرچا ہے۔ ختم نبوت کی تحریک کے دوران اجتماعات کو کون بھول سکتا ہے اور اگر ان کو ایک خاص معنی میں سیاسی تبدیلی کے لیے کیے جانے والا مظاہرہ نہ بھی کہا جائے، لیکن ۱۹۷۰ء کا ’شوکت ِ اسلام مارچ‘ پاکستان کی تاریخ کا پہلا عظیم عوامی مظاہرہ تھا جو اپنی مثال آپ تھا۔ پھر ۱۹۷۷ء کے قومی اتحاد کے جلسوں اور جلوسوں کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے، جن میں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تبدیلی کا طبل بجا رہا تھا۔
مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ مولانا مودودی کی امارت کے دور میں تعمیروتشکیل کے ساتھ جدت و اختراع اور ضرورت کے مطابق نئے تجربات اور نئی راہوں کی تلاش ہماری روایت کا حصہ ہے۔ مولانا مودودی صاحب کی بصیرت کا یہ بھی شاہکار ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں جماعت کا نظام اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی ریت ڈالی اور اپنے اصرار پر ۱۹۷۲ء میں امارت سے فارغ ہو کر قیادت کے تسلسل اور نظام کو خودکار بنانے کا راستہ تحریک کو دکھایا ،اور اس طرح جماعت بانیِ جماعت کی زندگی ہی میں امارت اور مشاورت کے ایک ایسے نظام پر قائم ہوگئی جس کا انحصار فرد پر نہیں اجتماعی نظام پر ہے۔ یہ ایک انقلابی اقدام تھا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ تبدیلی (transition ) ایک بڑا مشکل اور نازک عمل تھا اور اس کا سہرا (credit) محترم میاں طفیل محمد صاحب کے سر جاتا ہے کہ انھوں نے جماعت کی زندگی میں خلا نہیں پیدا ہونے دیا۔ بلاشبہہ ان کے دور میں تسلسل (continuity)، استحکام (consolidation) کو مرکزی اہمیت حاصل رہی، اور ندرت اور جدت کی جگہ روایت اور جو کچھ حاصل کیا گیا ہے اس کی حفاظت کا پہلو غالب رہا لیکن اس وقت کی یہی ضرورت تھی۔ان کے دور میں بھی بڑے سخت مقامات آئے۔ فوجی حکومت سے معاملات کرنا اور ملک کو فوجی حکمرانی کے دور سے تصادم کے بغیر نکالنا، سیکولر قوتوں کا نیا کردار اور اس کا مناسب انداز میں مقابلہ، افغانستان میں روس کی مداخلت اور جہاد افغانستان میں پاکستان اور عالمِ اسلام کا کردار، ان سب چیلنجوں کے مقابلے کے لیے مؤثر اقدامات کیے گئے لیکن اس دور کا اصل کارنامہ جماعت کو بانیِ جماعت کی عدم موجودگی میں اپنے اصل مقصد، مشن اور مزاج پر قائم رکھنا تھا۔ الحمدللہ بحیثیت مجموعی اللہ تعالیٰ کی رہنمائی اور جماعت اور اس کی شوریٰ کے تعاون سے محترم میاں طفیل محمدصاحب کی قیادت میں تحریک نے اس مرحلے کو کامیابی سے سر کیا۔
۱۹۸۷ء میں امارت کی ذمہ داری قاضی صاحب پر پڑی۔ قاضی صاحب نے اس نظام کے تسلسل کو جاری رکھا جس کی حفاظت میاں صاحب محترم نے کی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ تبدیلی، اجتہاد اور جدت کی اس نہج کو پھر مؤثر اور متحرک کیا جو مولانا مودودیؒ کے دور کا حصہ تھی۔ ۳۱۳ساتھیوں کی معیت میں کاروانِ دعوت و محبت کے ذریعے ملک کے طول و عرض میں ایک ہلچل پیدا کردی۔ فوجی حکمرانی اور سرمایہ داری، جاگیرداری اور ظلم کے نظام کے خلاف آواز بلند کی اور تحریک کو ایک نیا ولولہ دیا۔ اس زمانے میں سیاسی بساط بدل گئی۔ ملک کے حالات اور عالمی صورت حال کی بھی تیزی سے قلب ِ ماہیت ہوئی۔ اس میں نئے اقدامات کی ضرورت تھی۔ جماعت کی اندرونی تنظیم اور ملک اور دنیا میں اس کا کردار، یہ سب نئے اطراف میں پیش رفت (initiative) کا تقاضاکر رہے تھے۔ قاضی صاحب نے ان تقاضوں کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ ۱۹۹۰ء میں مینارِ پاکستان پر کُل پاکستان اجتماع کیا اور اس کے بعد تسلسل کے ساتھ کُل پاکستان اجتماعات کی روایت کو تازہ کردیا۔ جماعت کی دعوت اور تنظیم کی وسعت ان کی اولین ترجیح رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کی نئی صف بندی ان کی توجہ کا مرکز رہے۔ متفق کے لیے عملاً ’ممبر‘ کی اصطلاح بھی ان کی اولیات میں سے ہے۔ جمعیت طلبہ عربیہ کی سرگرمیوں کی بھی وہ حوصلہ افزائی کرتے رہے۔
نوجوانوں کو منظم اور متحرک کرنے اور ظلم کی قوتوں کے خلاف صف آرا کرنے کے لیے ’پاسبان‘ کا تجربہ انھوں نے کیا۔ اس تجربے میں قاضی صاحب کا کردار مرکزی تھا اور خرم مراد مرحوم اور میری پوری تائید ان کو حاصل تھی اورمحمد علی درانی نے بھی اس کی تنظیم میں اہم کردار ادا کیا۔ اگر یہ بات ریکارڈ پر آجائے تو کوئی مضائقہ نہیں کہ ’پاسبان‘ کا نام مَیں نے تجویز کیا تھا۔ افسوس کہ یہ تجربہ اس نہج پر نہ ہوسکا جس طرح ہم چاہتے تھے اور جو ہمارا وژن تھا، مگر یہ بھی جماعت کی برکت ہے کہ جب شوریٰ میں اس کے بارے میں بے اطمینانی اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہوئی تو خوش اسلوبی سے ’پاسبان‘ کو ختم کردیا گیا اور ’شبابِ ملّی‘ کا ادارہ قائم کیا گیا جو اب بھی متحرک ہے۔ ’شباب ملّی‘ کا نام ہمارے مرحوم بھائی خلیل حامدی نے تجویز کیا تھا۔ اسی طرح پاکستان اسلامی فرنٹ کا تجربہ بھی ہماری تاریخ کا ایک اہم باب ہے اور خرم مراد مرحوم اور مَیں بھی اس میں قاضی صاحب کے دست و بازو تھے۔ مجھے اس امر کے اعتراف میں کوئی باک نہیں کہ یہ تجربہ بھی ہمارے تصور کے مطابق کامیاب نہ ہوسکا، اور ہمیں اعتراف ہے کہ اس کے لیے جتنا ہوم ورک ہونا چاہیے تھا اور جتنا جماعت کو اس کے لیے تیار کرنا ضروری تھا وہ ہم بوجوہ نہ کرسکے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جدت و اجتہاد کے جو اقدامات (initiatives) ہم نے ۹۰ کے عشرے میں لیے تھے، گذشتہ ۳۰سال میں دنیا کے مختلف ممالک میں انھی خطوط پر کیے گئے تجربات کامیاب ہوئے ہیں اور آج وہی تبدیلی کے لیے ماڈل بن رہے ہیں۔ قاضی صاحب محترم کی وفات پر یہ سارے خیالات دل و دماغ میں ہجوم کیے ہوئے ہیں اور میں تحریکی زندگی میں ان کے ۲۲سالہ دور کو ترقی کے اس سفر کے اہم مراحل کے طور پر دیکھتا ہوں، اور سمجھتا ہوں کہ تسلسل کے ساتھ تبدیلی اور جدت و اجتہاد جو وقت کی ضرورت تھے، اس سمت میں تحریک نے باب کشا کوششیں کیں۔
انسانوں اور جماعتوں کی تاریخ میں ضروری نہیں کہ ہرتجربہ ہراعتبار سے کامیاب ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہرتجربے کے بعد اس کا جائزہ لیا جائے، کامیابی اور ناکامی دونوں کے وجود کو متعین کیا جائے، اور ہرتعصب سے بالا ہوکر اپنے تجربات کی روشنی میں نئے تجربات کیے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اجتہاد کے دواجر ہیں، اگر صحیح ہو، لیکن اگر معاملہ خطا کا ہو، تب بھی سبحان اللہ ایک اجر تو ہے ہی ۔ محترم قاضی صاحب نے جماعت کے سیاسی کردار کو ایک نئی جہت دی۔ متحدہ مجلس عمل( ایم ایم اے) کے تجربے میں ان کا بڑا کردار تھا۔ دینی قوتوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور فرقہ وارانہ اور گروہی عصبیتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے انھوں نے بڑی مستعدی کے ساتھ کوششیں کیں جو بڑی حد تک کامیاب رہیں۔ملّی یک جہتی کونسل ان کے دور کا ایک نہایت کامیاب تجربہ اور قومی خدمت ہے، جسے جاری رکھنے اور آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
کشمیر کے مسئلے کو بھی انھوں نے بڑی جرأت اور بالغ نظری سے اُجاگر کیا، ملک میں بھی اور عالمی سطح پر بھی۔ مجھے ان کے ساتھ آٹھ مسلم ممالک میں کشمیر کے قومی وفد جس کی قیادت محترم قاضی صاحب کر رہے تھے، میں شرکت کا موقع ملا۔ اس کی تشکیل اور پروگرام کی تمام تنظیم جماعت اسلامی نے کی تھی، مگر اس میں دوسری جماعتوں کے نمایندوں کو بھی شریک کیا گیا تھا۔اس میں پیپلزپارٹی کی طرف سے بیرسٹر مسعود کوثر (جو آج گورنر خیبرپختونخوا ہیں) اور آغا ریاض، مسلم لیگ (ن) کے ایک ایم این اے اور جمعیت علماے اسلام کے محترم قاضی عبداللطیف شریک تھے۔ اس میں میڈیا کے نمایندے بھی شامل تھے۔ ۵فروری کو تحریکِ آزادیِ کشمیر کے ساتھ ’یومِ یک جہتی‘ کے طور پر شروع کرنے، ہر سال منانے اور اسے سیاسی زندگی کا ایک حصہ بنادینے میں بھی قاضی صاحب اور جماعت ہی کا بنیادی کردار ہے۔
عالم اسلام کے تمام ہی مسائل میں قاضی صاحب کی گہری دل چسپی تھی اور وہ حضور اکرمؐ کے اس ارشاد کی عملی مثال تھے کہ یہ اُمت ایک جسمِ واحدکی مانند ہے اور جس کے ایک عضو کو اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم اس کا درد محسوس کرتا ہے۔ مجھے ان کے ساتھ دسیوں ممالک کا دورہ کرنے کا موقع ملا اور میں نے دیکھا کہ جس طرح ہم پاکستان کے مسائل کے حل کے لیے بے چین ہوتے ہیں، اسی طرح وہ عالمِ اسلام کے ہر مسئلے کے لیے بے چین ہوتے تھے اور جو بن پڑتا، کرنے کے لیے مستعد رہتے تھے۔ خلیج کی جنگ کے موقعے پر میں بھی محترم قاضی صاحب کے ساتھ عالمی اسلامی تحریک کے ایک وفد کا حصہ تھا۔ ہرملک میں جس درد کے ساتھ اور جس جرأت کے ساتھ انھوں نے کویت پر عراق کے حملے کے مسئلے کو پیش کیا اور اس جنگ سے اُمت کو بچانے کے لیے کوشش کی، وہ ان کا بڑا قیمتی کارنامہ تھا۔ صدام حسین سے ملاقات میں جس جرأت سے انھوں نے اسے اس جنگ کو ختم کرنے کی دعوت دی، اس نے سب کو متاثر کیا، اور خود صدام کے اعلیٰ حکام میں سے کچھ نے بعد میں ہم سے کہا کہ یہی بات ہمارے دل میں بھی ہے مگر ہمیں رئیس کے سامنے کہنے کی جرأت نہیں، آپ نے حق ادا کردیا۔
قاضی صاحب بھی ایک انسان تھے اور ہر انسان میں کچھ نہ کچھ کمزوریاں بھی ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی وہ بہت جلد راے قائم کرلیتے تھے اور اپنے ردعمل کا اظہار بھی کردیتے تھے۔ اظہار اور کمیونی کیشن کے باب میں بھی بہت سے مواقع پر انھیں اپنے ساتھیوں کے شکوہ و شکایات سے پالا پڑا، لیکن بحیثیت مجموعی انھوں نے تحریکِ اسلامی کی قیادت کی ذمہ داری بڑی بصیرت اور خوش اسلوبی سے انجام دی۔ ان ۴۰برسوں میں میرے اور ان کے درمیان بڑا ہی قریبی تعلق رہا جس کی بنیاد اخلاص، باہمی اعتماد، مشاورت اور ایک دوسرے کے احترام پر تھی۔ میں شروع ہی سے ایک نظری اور ایک گونہ کتابی انسان ہوں اور قاضی صاحب اپنی فطرت کے اعتبار سے ایک حرکی وجود رکھتے تھے۔ جرأت اور استقامت کے ساتھ جہدِمسلسل کا شوق، جلدی نتائج حاصل کرنے کی تمنا اور سپاہیانہ جلال ان کی شخصیت کا حصہ تھا۔ علمی اور ادبی ذوق ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ قرآن ان کا اُوڑھنا بچھونا تھا تو اقبال کا کلام ان کی روح کا نغمہ۔ صداقت اور شجاعت کے ساتھ جہاد، شہادت اور کچھ کرڈالنے کا عزم ان کی شخصیت کے نمایاں پہلو تھے۔
اگر میں یہ کہوں کہ وہ جلال اور جمال کا مرقع تھے تو شاید غلط نہ ہو۔ ان کی طبیعت میں جلال کے پہلو بھی تھے، مگر صرف جلال نہیں جمال کا پہلو بھی وافر مقدار میں تھا اور بالعموم غالب رہتا تھا جس کی وجہ سے جلال کے لمحات بھی ایک لُطف دے جاتے تھے۔میرا اور ان کا رشتہ بڑا دل چسپ تھا۔ عمر میں مَیں ان سے بڑا تھا اور اس بڑائی کا وہ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی احترام کرتے تھے لیکن میں ان سے ہمیشہ یہی کہتا تھا کہ عمر میں خواہ مَیں بڑا ہوں لیکن تحریک میں آپ ہی بڑے ہیں اور ہم دونوں نے دلی طور پر ایک دوسرے کو اپنے سے بڑا سمجھ کر رفاقت کے یہ ۴۰سال بڑے خوش گوار ماحول میں گزارے۔ بلاشبہہ اس عرصے میں دوچار مشکل لمحات بھی آئے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے تعلقات میں کبھی کھچائو یا تلخی پیدا نہیں ہوئی۔ کبھی انھوں نے میری راے کو قبول کرلیا اور کبھی میں نے اپنی راے کو ترک (surrender) کردیا۔ اس طرح محبت اور رفاقت کا یہ سفر بڑی خوش اسلوبی سے طے ہوتا رہا ؎
محبت کیا ہے؟ تاثیرِ محبت کس کو کہتے ہیں؟
ترا مجبور کر دینا، مرا مجبور ہو جانا
مولانا محترم نے جو شفقت اور پیار دیا، وہ ایک لمحے کے لیے بھی بھولا نہیں جاسکتا۔ دوسروں کے سامنے وہ مجھے پروفیسر خورشید کہتے تھے لیکن جب مجھ سے بات کرتے تھے تو ’خورشیدمیاں‘ کہہ کر مخاطب ہوتے تھے جس کی لذت اور حلاوت آج تک محسوس کرتا ہوں۔ میرے والدین اور اساتذہ کے بعد مولانا ہی نے مجھے ’خورشید میاں‘ کہہ کر خطاب کیا (منور بھائی کو بھی یہ سعادت حاصل ہے کہ مولانا نے ان کو ’منورمیاں‘ اور میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر انیس کو ’انیس میاں‘ کہا ہے)۔ محترم میاں صاحب ہمیشہ پروفیسر خورشید ہی کہتے رہے لیکن قاضی صاحب نے ہمیشہ ’خورشید بھائی‘ کہا جس کا دل پر گہرا نقش ہے۔یہ ان کی محبت اور شفقت تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
آج قاضی صاحب ہم میں نہیں، کل ہم بھی نہیں ہوں گے، ان کی باتیں یاد رہیں گی۔ ان کی خدمات صدقۂ جاریہ ہیں جن سے ہمارے ساتھی اور ہمارے بعد آنے والے سب ہی مستفید ہوتے رہیں گے اور ان شاء اللہ وہ بھی اس کے اجر سے شادکام ہوتے رہیں گے۔ ان کی پاک صاف زندگی، ان کے علمی اور ادبی ذوق، ان کی تحریکی خدمات، اُمت کے لیے ان کی دوڑ دھوپ اور قربانیاں، پاکستان کی تعمیر اور تشکیلِ نو کے لیے ان کی مساعی، اپنوں اور غیروں سب سے محبت، دعوت اور خدمت کی بنیادوں پر رشتہ اور تعلق کی استواری، امارت کی ذمہ داریوں کو خلوص، دیانت، محنت، قربانی و ایثار، مشاورت اور انصاف کے ساتھ ادا کرنے کی کوششیں___ یہ سب روشنی کے ایسے مینار ہیں جو ایک زمانے تک ضوفشاں رہیں گے۔ اس طرح وہ ہم سے رخصت ہونے کے باوجود ہمارے درمیان ہیں اور رہیں گے۔
ان کے انتقال پر ان کے چاہنے والوں اور ان سے اختلاف رکھنے والوں، بلکہ ذہنی بُعد تک رکھنے والوں نے جو کچھ لکھا ہے، اس سے ان کی زندگی کا ایک ایسا پہلو سامنے آتا ہے جو زندگی میں شاید اتنا نمایاں نہ تھا، یعنی ہر ایک سے خلوص اور شفقت سے معاملہ کرنا، اختلاف میں بھی حدود کا لحاظ، سختی کے ساتھ نرمی، خفگی کے ساتھ پیار، مخالفین کے ساتھ بھی ہمدردی اور پاس داری۔ ہم تو شب و روز ان کی شخصیت کے اس پہلو کو دیکھتے اور اس کا تجربہ کرتے تھے مگر جس پیمانے پر اور جس یک زبانی کے ساتھ سب ہی شرکاے غم نے ان پہلوئوں پر اظہارِ خیال کیا ہے، اس سے مولانا محمد علی جوہر کی اس پیش گوئی کی دل نے تائید کی ؎
جیتے جی تو کچھ بھی نہ دکھلایا مگر
مر کے جوہرؔ آپ کے جوہر کھلے
میں اپنے رخصت ہونے والے بھائی کے بارے میں اپنی تاثراتی گزارشات کو اقبال کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں جو محترم قاضی حسین احمد کی شخصیت کا آئینہ اور ان کے بعد ذمہ داری کے مقام پر فائز تمام افراد کے لیے ایک پیغام ہے ؎
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِکارواں کے لیے