یہ انجینیررضاسعیدی ہیں۔ ۱۷ سال مدرسہء یوسف علیہ السلام (یعنی جیل) میں رہے، اس وقت حکومت میں اقتصادی اُمور کے ذمہ دار ہیں۔ یہ ڈاکٹر منصف با سالم ہیں،۱۵ سال مدرسۂ یوسف میں گزارے اور اس وقت وزیر تعلیم عالی ہیں۔ یہ عبد الکریم ہارونی ہیں، ۱۷ سال جیل میں گزارے، اس وقت وزیر مواصلات ہیں۔ یہ فتحی العیادی ہیں، ۲۰ سال ملک بدری کی زندگی گزاری، اس وقت جماعت کی مجلس شوریٰ کے اسپیکر ہیں___ تحریک نہضت کا ایک کارکن تیونس میں ہمارے پانچ روزہ دورے کی اختتامی نشست میں اپنے اہم ذمہ داران کا تعارف کروا رہا تھا۔
پوری مجلس بالخصوص ہم مہمانوں پر سناٹا طاری تھا۔ سب حیران ہورہے تھے کہ آخر اعلیٰ تعلیم یافتہ، انتہائی باوقار و محترم شخصیت رکھنے والے یہ کیسے عجیب لوگ ہیں؟ کیا یہ دیوانے ہوگئے تھے کہ انھوں نے اپنی ساری تعلیم، اپنا مقام و مرتبہ، اپنے اہل و عیال اور دنیا کی ہر نعمت اپنے دین اور نظریے پر قربان کردیے۔ تحریک اسلامی سے براء ت کا اظہار کردیتے تو ساری کلفتیں دور ہوجاتیں، لیکن انھوں نے الٹ فیصلہ کیا۔ اللہ سے بغاوت اور اس کے دین سے دست برداری سے انکار کرتے رہے، اور نتیجتاً جیلوں میں مزید عذاب و تشدد جھیلتے رہے۔
ہماری اس حیرت اور مجلس میں تعارف کا سلسلہ جاری تھا:یہ ڈاکٹر رفیق عبد السلام ہیں ساری جوانی ملک بدری میں گزار دی، اب ملک کے وزیر خارجہ ہیں۔ یہ عبد اللطیف مکی ہیں ۱۲ سال جیل میں رہے، اب وزیر صحت ہیں۔ یہ عبد الحمید ہیں ۱۷سال جیل میں رہے، اب تحریک میں تنظیمی اُمور کے ذمہ دار ہیں۔ یہ نور الدین العرباوی ہیں ۱۷ سال جیل میں رہے، اب سیاسی جماعتوں سے روابط کے ذمہ دار ہیں۔ یہ محمد عکروب ہیں ۱۷سال جیل میں رہے۔ یہ ریاض الشعیلی ہیں پانچ سال جیل میں رہے..... بات کاٹتے ہوئے راشد غنوشی صاحب نے تبصرہ کیا: ’’صرف پانچ سال___ یعنی بھرپور دسترخوان پر بھی صرف سینڈوچ پر اکتفا___؟‘‘ پوری مجلس نے قہقہہ لگایا، لیکن ہم سب سننے والوں کا تعجب جوں کا توں تھا۔ یا پروردگار یہ تیرے کیسے پراسرار بندے ہیں۔ یہ کیسا ذوق خدائی، کیسی لذت آشنائی ہے؟ سالہا سال کی قید و بند بھی ان کے ارادوں، اور حوصلوں کو شکستہ نہ کرسکی۔ اس حیرت کے ساتھ ہی یہ امر بھی قدرت کی طرف سے ایک مکمل پیغام پہنچا رہا تھا کہ دیکھو ۱۷،۱۷ سال تشدد سہنے والے مظلوم آج ایوان اقتدار میں ہیں، جب کہ جلاد عبرت کا نشان!
ہم ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے تیونس آئے تھے۔ یہ بھی عجیب بات تھی کہ کانفرنس میں شریک تقریباً تمام مہمان شرکا پہلی بار تیونس آئے تھے۔ اس سے پہلے اس اہم اور برادر اسلامی ملک کے دروازے، مغربی سیاحوں اور ان کی آوارگی کے لیے تو کشادہ تھے، لیکن مسلم ممالک کے اکثر شہریوں بالخصوص اسلامی شناخت رکھنے والے ہر غیر تیونسی پر بند تھے۔ غیر تیونسی ہی کیا خود ایک کروڑ ۶ لاکھ نفوس پر مشتمل تیونس کی ساری آبادی بھی عملاً ایک قید خانے ہی میں بند تھی۔ گذشتہ دور حکومت میں ۳۰ ہزار کارکنان تو صرف تحریک نہضت کے گرفتار رہے۔ سیکولر ذہن رکھنے والے ہزاروں افراد بھی گرفتارِ بلا رہے۔ بائیں بازو کی ایک جماعت کے سربراہ اور معروف دانش ور منصف المرزوقی جو اس وقت نہضت کے حلیف اور اس کے تعاون سے منتخب صدر مملکت کے عہدے پر فائز ہیں، بھی گرفتار رہے۔ چونکہ ان کا تعلق اسلامی تحریک سے نہیں تھا، چار ماہ کی قید تنہائی کے بعد ہی مغربی دنیا اور نیلسن منڈیلا کی ذاتی مداخلت پر رہا کردیے گئے، پھر وہ فرانس چلے گئے۔ ان کے لیے بھی ملک واپسی کے دروازے ۱۰سال بعد بن علی کے زوال کے بعد ہی کھلے۔
تیونس شمالی افریقہ کا ایک انتہائی خوب صورت اور زرخیز ملک ہے۔ دار الحکومت کانام بھی تیونس ہی ہے۔ اگرچہ ایک لاکھ ۶۲ہزار ایک سو۵۵ مربع کلومیٹر کے کُل رقبے کا ۳۰ فی صد صحراے اعظم کا حصہ ہے، لیکن باقی سرزمین زرخیز ہے۔ بحیرۂ روم پر ۱۳۰۰ کلومیٹر لمبا ساحل خاص طور پر خوش گوار ہے۔ یہاں نورِ اسلام کی کرنیں حضرت عثمان بن عفانؓ اور حضرت علی بن ابی طالبؓ کے زمانے ہی میں پہنچ گئی تھیں۔ یورپ کی جانب خلافت عثمانیہ کی پیش رفت میں بھی تیونس کا کردار نمایاں تھا۔ یہاں سے پھیلنے والی علم کی روشنی نے ساری مسلم دنیا کو منور کیا۔ یہاں واقع جامعۃ الزیتونہ ( الزیتونہ یونی ورسٹی) مصر کی معروف جامعۃ الازہر سے بھی پہلے قائم ہوئی تھی۔ جامعہ الازہر کے پہلے سربراہ جناب محمد الخضر حسین جامعۃ الزیتونہ ہی سے بھیجے گئے تھے۔ ابن خلدون اور علامہ الطاہر بن عاشور جیسے جلیل القدر علما کا تعلق بھی تیونس ہی سے ہے۔ الزیتونہ ان کی مادر علمی تھی۔ الجزائر کے مردِ حُر امام عبد الحمید ابن بادیس بھی الزیتونہ کے دروس علمی سے مستفید ہوئے۔ بدقسمتی سے سابق حکمرانوں نے الزیتونہ کے اس منارہء نور کو ایک بے جان جسم بنا دیا۔
کانفرنس کے تمام سیشن ایک بڑے ہوٹل میں منعقد ہوئے تھے لیکن اختتامی سیشن تاریخی جامعۃ الزیتونہ کے ہال میں رکھا گیا تھا۔ طلبہ، اساتذہ اور شرکا کے جمگھٹے میں سے ہم بمشکل راستہ بناتے ہوئے یونی ورسٹی کے ’سب سے بڑے‘ ہال کے اندر پہنچے تو سخت حیرت ہوئی۔ ہال میں بارہ بارہ کرسیوں کی ۱۲ قطاریں تھیں، یعنی عظیم اور تاریخی یونی ورسٹی کے سب سے بڑے ہال میں کُل صرف ۱۴۴ نشستیں تھیں۔ راہ داریوں اور سیڑھیوں پر لوگ بیٹھے تھے، باقی طلبہ کھڑکیوں سے لگے بیٹھے تھے یا پھر باہر میدان میں کھڑے کارروائی سن رہے تھے۔ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عبدالسلام جلیل بہت فعال، متحرک اور خوش گوار شخصیت کے مالک ہیں۔ خیر مقدمی کلمات میں بتایا کہ آپ کو ہوٹل کے ’تنگ‘ ہال سے اس ’بڑے‘ ہال میں اس لیے لائے ہیں کہ آپ خود گذشتہ دور کی علم دوستی کا مشاہدہ کرسکیں۔ اس موقع پر جناب راشد غنوشی نے اعلان کیا کہ ان شاء اللہ ہم الزیتونہ کا اصل مقام بحال کرتے ہوئے اسے افریقہ کی سب سے اہم یونی ورسٹی بنائیں گے۔
جامعۃ الزیتونہ کی طرح دار الحکومت تیونس میں قائم جامع مسجد زیتونہ بھی عالم اسلام کا ایک روشن تارا ہے۔ ۵۰ ہجری میں جلیل القدر صحابی حضرت عقبہ بن نافعؓ نے رومیوں کو شکست دیتے ہوئے شمالی افریقہ کے پہلے باقاعدہ شہر قیروان کی بنیاد رکھی تھی۔ قیروان اب تیونس کا اہم شہر ہے اور اس کی جامع مسجد عُقبہ بن نافعؓ ایک انتہائی اہم اور یادگار ثقافتی ورثہ۔ دونوں مساجد علم کا گہوارا ہوا کرتی تھیں۔ ہر دور میں ان کا یہ مقام مسلّمہ تھا۔ مساجد کے ساتھ عظیم الشان لائبریریاں بھی قائم تھیں جنھیں ’دار الحکمت‘کہا جاتا تھا۔ لیکن ۱۵۷۳ء میں ہسپانوی فوجوں نے اسے تاراج کردیا، اس کی نایاب لائبریریاں برباد کردیں، لیکن اصل بربادی ۱۹۵۶ء میں خود تیونس کے ایک سپوت اور خودکو ’ولی امرالمسلمین‘ قرار دینے والے، فرانسیسی استعمار کے غلام حبیب بورقیبہ کے ہاتھوں ہوئی۔ اس نے الزیتونہ یونی ورسٹی کی طرح جامع مسجد زیتونہ میں بھی تدریس کے دروازے بند کردیے۔ وہ مسجد جس کے درجنوں ستون اور ۱۲ دروازے دنیا بھر سے مشتاقان علم کے لیے اپنے بازو وا کیے رکھتے تھے۔ ہر ستون کے ساتھ کوئی نہ کوئی نابغۂ روزگار، علم کے خزانے لٹایا کرتا تھا۔ بورقیبہ نے اسے زنجیروں اور تالوں کی نذر کردیا۔ علماے کرام کو جیلوں میں ٹھونس دیا۔
تیونس نے ۱۹۵۶ء میں فرانس سے آزادی حاصل کی۔ حبیب بورقیبہ پہلے صدر بنے۔ ۱۹۸۷ء میں وزیراعظم زین العابدین بن علی نے ڈاکٹروں سے یہ رپورٹ جاری کرواتے ہوئے اس کا تختہ الٹ دیا کہ’’ بورقیبہ کا دماغ چل گیا ہے‘‘۔ پھر بن علی اس وقت تک ملک کے سیاہ و سفید کا مالک رہا جب تک عوامی انقلاب نے دو سال قبل ۱۴ جنوری ۲۰۱۱ء کو اسے فرار ہونے بر مجبور نہ کردیا۔ آزادی کے ۵۵ برس تک پورا ملک ایک ہی ٹولے بلکہ دو افراد کی گرفت میں رہا۔ اس دوران ظلم و جبر کی وہ داستانیں رقم کی گئیں کہ خود بھگتنے والوں کی زبان سے بھی سنیں تو اپنے کانوں پر یقین نہ آئے۔
بورقیبہ اور بن علی کی مشق ستم کا شکار رہنے والے علی سخیری اس وقت شیخ راشد الغنوشی کے مرافق خاص ہیں۔ میں نے جب ان سے باصرار پوچھا کہ آخر یہ طویل اسیری اور مظالم برداشت کیسے کرلیے؟ کہنے لگے: انھوں نے ہمیں عزتِ نفس سمیت ہر شے سے محروم کرنا چاہا، لیکن ہزار کوشش کے باوجود وہ ہمارے دلوں میں بسے ایمان کا خزانہ نہ لوٹ سکے۔ بس اسی ایمان کے سہارے ہم زندہ و سرخرو رہے۔ ہمارے جیلر سب سے زیادہ طیش میں اس وقت آتے تھے جب ہم میں سے کوئی ان کے سامنے نماز ادا کرلیتا۔ باجماعت نماز کی کوشش تو انھیں پاگل کردیتی تھی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ نماز سے روکنے کے لیے وہ ہمیں اجتماعی طور پر مکمل بے لباس کردیتے۔ قیدیوں کو ان کے باپ، دادا یا تحریکی قائدین کے ساتھ اکٹھے کسی تنگ کوٹھڑی میں اس حالت میں ٹھونس دیا جاتا کہ کسی کے بدن پر کپڑے کا چیتھڑا تک باقی نہ رہنے دیا جاتا۔ ایسا انسانیت سوز سلوک کرتے ہوئے عام طور پر یہ طعنہ بھی دیا جاتا: ’’لو ذرا اب باجماعت نماز ادا کرکے دکھاؤ‘‘۔
ایک اور سابق اسیر سعد بتارہے تھے کہ ’’شرفِ انسانیت سے محروم کردینے کی کوشش کرنا تو ان فرعون حکمرانوں کا سب سے پہلا اقدام ہوتا تھا۔ گرفتار شدگان خواتین ہوں یا مرد، بوڑھے ہوں یا بچے، عموماً اذیت کی سب سے پہلی ’خوراک‘ بے لباسی ہی کی صورت دی جاتی۔ ایک اور اسیر بتارہا تھا کہ انھوں نے ہماری کوٹھڑی کی چھت میں ایک سوراخ بنادیا تھا تاکہ وہاں سے اچانک جھانکتے ہوئے ’جرم نماز‘ کا ارتکاب کرنے والوں کو رنگے ہاتھوں پکڑا جاسکے۔ پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگا: اب بھلا اپنے رب کے ساتھ ملاقات کرنے سے بھی کوئی کسی کو روک سکتا ہے۔ ہم الحمد للہ ہمیشہ فرائض ہی نہیں، نوافل کا اہتمام کرنے میں بھی کامیاب رہے۔ ہمیں ٹکٹکی میں کس دیا جاتا، چھت سے ٹانگ دیا جاتا، ہم اس حالت میں بھی اللہ کے حضور سجدۂ بندگی بجا لانے میں کامیاب ہوجاتے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک کہ ’’میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے‘‘ یا ’’نمازمومن کی معراج ہے‘‘، جتنا اس حالت میں سمجھ میں آتا تھا، اس سے پہلے کبھی سمجھ میں نہ آیا تھا۔
فرعونی دور بالآخر لَد گیا۔ تیونس سمیت کئی ممالک میں عوام کو ایک آزاد شہری کی حیثیت سے سانس لینا نصیب ہوا۔ اب موجودہ دور میں نئے چیلنج اور خطرات درپیش ہیں۔ ایک طرف گذشتہ نصف صدی تک ملک لوٹنے والے اور اپنے اندرونی و بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے اسلام سے کھلم کھلا دشمنی رکھنے والے ہیں۔ ۵۷ سال تک ایک مخصوص ماحول اور یک طرفہ پروپیگنڈے کے سایے میں پلنے والی نئی نسلوں کا قابل لحاظ حصہ بھی نادانی، غفلت یا لاعلمی کے باعث گاہے ان کا ہم زباں بن جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کا خطرناک ہتھیار بھی تاحال اسی گروہ کے ہاتھ میں ہے۔ دوسری طرف عہد سابق سے اظہارِ براء ت کرنے والے عوام کی غالب اکثریت ہے۔ باہم منقسم ہونے اور ابلاغیاتی وسائل نہ رکھنے کی وجہ سے اکثر کمزور ہوتی محسوس ہوتی ہے، لیکن شکر ہے کہ بن علی سے نجات کے بعد اکثر اہم مواقع پر یک جائی کا اظہار کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
ملک میں دستور سازی کا عمل آخری مراحل میں ہے۔ حالیہ دستور ساز اسمبلی آیندہ جون جولائی تک دستور بناکر تحلیل ہوجائے گی اور دوبارہ عام انتخابات ہوں گے۔ حالیہ اسمبلی میں اکثریت رکھنے والی تحریک اسلامی نے ۵۷ سالہ غلاظت و فساد سے نجات پانے کے لیے صبروحکمت اور تدریج کا راستہ اختیار کیا ہے۔ ان کی اس پالیسی کو کچھ لوگ پسپائی بلکہ بعض اوقات اقتدار کی خاطر اصول و نظریے سے دست برداری کے طعنے دینے لگتے ہیں۔ یہ طعنے سن کر اپنی جوانیوں اور بڑھاپے کے طویل مہ و سال جیلوں کی نذر کردینے والوں کے ہونٹوں پر کڑوی سی مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ بعض اوقات بے اختیار کہہ بھی اٹھتے ہیں کہ پسپائی اور دست برداری اختیار کرنا ہوتی تو ’تلواروں کے سایے میں نماز عشق‘ کیونکر ادا کرتے ۔
اس ضمن میں شیخ راشد الغنوشی نے ایک بہت بنیادی اور آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل بات کہی۔ دستوری مسودے میں ’شریعت‘ اور ’حاکمیت اعلیٰ‘ جیسے الفاظ درج کرنے کے خلاف پروپیگنڈا اور محاذ آرائی عروج پر جاپہنچی، تو انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ انقلاب کے پہلے ہی مرحلے میں مکمل تبدیلی نہیں آسکتی اور جان رکھو کہ تغییر النفوس أولی من تغییر النصوص، نفس کی تبدیلی متن، (text) کی تبدیلی سے مقدم ہے۔ نفوس تبدیل ہوجائیں تو نصوص تبدیل کرنا بآسانی ممکن ہوجائے گا۔ بدقسمتی سے بعض اسلامی گروہ اور افراد اس طریق کار سے اختلاف کرتے ہوئے فوری اور زبردستی تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ تیونس کی حالیہ مخلوط حکومت کو بورقیبہ اور بن علی کی باقیات کی طرف سے جس مخالفت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے بعض اوقات اسلامی گروہوں کی مخالفت اس سے بھی شدید ہوجاتی ہے۔ سابقہ دور میں حجاب کو تاریک خیالی قرار دیتے ہوئے قانوناً ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ عریانی کی کھلی چھوٹ دے دی گئی تھی۔ شراب نوشی پانی کی طرح عام کردی گئی تھی۔ نسلوں کی نسلیں اسی ماحول میں پروان چڑھیں۔ بعض اسلام پسند حضرات کا اصرار ہے کہ تبدیلی آگئی، اب بیک جنبش قلم تمام احکام نافذ کردیے جائیں۔ انھوں نے شراب کے رسیا، عریانی کے ماروں اور بے حجابی کے دل دادہ افراد کو دعوت کے ذریعے قائل کرنے اور حسن سلوک سے تبدیل کرنے کے بجاے شراب خانوں کو بموں سے اڑانے کا راستہ اختیار کرلیا۔ سیاحوں پر قاتلانہ حملے شروع کردیے اور پولیس تھانوں پر قبضہ کرنے کا اعلان کردیا۔ ان کارروائیوں کو مغربی اور عہد سابق کے وفادار ذرائع ابلاغ نے اسلام مخالف پروپیگنڈے کے لیے خوب استعمال کیا، اور خود سادہ لوح مسلمانوں کے ذہن میں بھی دین اور شریعت کے حوالے سے سنگین سوالیہ نشان کھڑے کردیے۔
دعوت، محبت اور تربیت کے جاں گسل اور طویل راستے پر چلنے کے بجاے زبردستی اور عجلت کے راستے پر چلنے کا یہ رجحان کئی جگہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ صہیونی حصار کے شکار غزہ میں حماس کی حکومت چومکھی لڑائی لڑ رہی ہے۔ اچانک ایک قصبے میں مسلح گروہ اٹھااور ایک مسجد پر قبضہ کرتے ہوئے اعلان کردیا، کہ حماس کی حکومت اسلامی تعلیمات پر پوری طرح عمل درآمد نہیں کررہی، ہم نفاذ شریعت کا اعلان کرتے ہیں۔ حماس کے ذمہ داران نے سمجھایا کہ اللہ کے بندو! کیا صہیونی مظالم، اس کا حصار، فوجی حملے اور اسرائیل کے ساتھ معاہدے کرنے والے فلسطینی دھڑوں کی مخالفت و عناد کچھ کم تھا، کہ اب آپ نے بھی ایک نیا بحران کھڑا کردیا ہے؟ لیکن وہ نہ صرف مصر رہے بلکہ ایک خود ساختہ عدالت سے احکامات جاری کرنے لگے، بالآخر انھیں زبردستی ہٹانا پڑا۔
یہی عالم لیبیا میں بھی جابجا دکھائی دیتا ہے۔ ۴۳ سال تک بلا شرکت غیرے حکمران رہنے والے معمر قذافی نے اقتدار چھوڑنے کے بجاے اپنے ہی شہریوں کے خلاف مکمل جنگ شروع کردی۔ نتیجتاً مہلک ہتھیارایک بڑی آبادی کے ہاتھ آگئے۔ اگرچہ اکثر ہتھیار جمع کر لیے گئے ہیں لیکن کئی مسلح گروہ اور قبائل اپنی الگ مسلح شناخت پر مصر ہیں۔ آئے روز کسی نہ کسی علاقے میں دھماکے، حملے یا بغاوت کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ الجزائر، موریتانیا اور مالی سمیت شمالی افریقہ کے کئی مسلم ممالک میں یہ مسلح رجحان اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ ان تمام کارروائیوں کو القاعدہ اور طالبان کا نام دیتے ہیں، لیکن پروپیگنڈا اسلام کے خلاف کرتے ہیں۔
’مالی‘ کسی زمانے میں افریقہ میں اسلامی تہذیب کا ایک روشن تارا ہوا کرتا تھا۔ وہاں حالیہ مسلح کارروائیوں نے پورے ملک کو باقاعدہ جنگ کی آگ میں جھونک دیا ہے۔ اگرچہ وہاں مسلح جدوجہد میں صرف اسلام پسند ہی نہیں سیکولر گروہ بھی شریک تھے، لیکن دنیا بھر میں ان کا نام کہیں نہیں آتا۔’اتحاد افریقی علما‘ نام کی ایک تنظیم کی طرف سے موصولہ تفصیلی تجزیے کے مطابق، حکومت مخالف مسلح تنظیمیں دوطرح کی تھیں: (۱) ’قومی تحریک براے آزادیِ ازواد۔ یہ وہاں ازواد کے علاقے میں ایک خود مختار سیکولر ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ (۲) نفاذ شریعت کا مطالبہ کرنے والی مسلح تحریکیں۔ جن میں تین گروہ نمایاں ہیں ’انصار الدین‘ یہ سب سے بڑا گروہ ہے، ’تحریک توحید و جہاد‘ اس میں مالی کے علاوہ موریتانیا کے کئی نوجوان شامل ہیں، ’القاعدہ‘ اس میں مالی کے علاوہ الجزائر کے نوجوان بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ ۱۹۶۰ء میں مالی کی آزادی کے بعد سے ’ازواد‘ کی علیحدگی کی یہ چوتھی اور بڑی کاوش ہے۔ اس کے آغاز ہی میں شمالی مالی کے تین صوبوں پر مسلح عناصر کا قبضہ ہوگیا، اور انھوں نے آزاد ریاست قائم کرنے کا اعلان کردیا۔ تین صوبوں پر مشتمل یہ علاقہ ملک کے کُل رقبے کا دوتہائی ہے۔
بعد ازاں سیکولر اور اسلامی تنظیموں کے مابین لڑائی ہوئی۔ سیکولر گروہ کو شکست ہی ہونا تھی وہ بری طرح شکستہ بھی ہوگئے۔ اگر نئی اعلان کردہ ریاست کا قیام ہی ناگزیر تھا، اور اس میں حکمت سے کام لیا جاتا، تو شاید نقشہ مختلف ہوتا، لیکن بدقسمتی سے وہاں صرف چند ظاہری سزاؤں کا نفاذ کرتے ہوئے، ہاتھ کاٹنے، رجم کرنے اور خواتین پر پابندیاں عائد کرنے پر زور دیا گیا۔ نتیجتاً پورے علاقے میں انتشار پھیل گیا۔ لوٹ مار اور قتل و غارت شروع ہو گئی۔ ڈیڑھ لاکھ کے قریب شہری پڑوسی ممالک اور اڑھائی لاکھ کے قریب جنوبی صوبوں کی طرف ہجرت پر مجبور ہوگئے۔ اسی صورت حال کو ذرائع ابلاغ میں بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے بالآخر فرانس نے اپنا تاریخی استعماری عہد زندہ کردیا۔ امریکا اور فرانس نے ہر ممکن کوشش کی کہ تیونس اور مصر سمیت دیگر مسلمان ممالک کو بھی اس فوج کشی میں شریک کرلیا جائے، لیکن انھوں نے صاف انکار کرتے ہوئے فرانس کو بھی اس مہم جوئی سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔ استعماری طاقتیں بنیادی طور پر مسائل حل کرنے نہیں، صورت حال کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرنے کے لیے کارروائیاں کرتی ہیں۔ اسی لیے فرانس نے بھی مالی پر مکمل جنگ مسلط کردی۔ مسلح گروہوں کو بھی شدید نقصان پہنچا، لیکن عوام کی مصیبتیں بھی دوچند ہوگئیں۔ مزید کئی لاکھ افراد ہجرت پر مجبور ہوگئے اور افریقہ کو ایک بار پھر یورپی کالونی بنانے کا آغاز ہوگیا۔ یقینا فرانس کو اس فوج کشی کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ کچھ بعید نہیں کہ افغانستان کی طرح افریقہ میں ایک نئی دلدل وجود میں آجائے۔ فرانسیسی افواج کے قبضے اور موجودگی، مسلح افراد اور جماعتوں کے لیے مسلسل مہمیز کا باعث بنے گی۔ ریاست بنانے یا چلانے میں ناکام ہونے والے، گوریلا کارروائیوں میں یقینا کامیاب رہیں گے۔
مالی کا پورا مسئلہ بہت گنجلک اور اہم ہے۔ اس پر تفصیل سے لکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن بات ہورہی تھی حکمت عملی طے کرنے کی۔ مسلح جدوجہد میں شریک مسلم نوجوان اُمت کا قیمتی ترین اثاثہ ہیں۔ یہ قدسی نفوس نہ ہوں تو جہاد جیسا عظیم فریضہ پوری اُمت پر قرض بنتا چلا جائے۔ ایک کے بعد دوسری بلا اسے پھاڑ کھانے کے لیے امڈتی چلی آئے، لیکن مسلح جہاد اوردعوتی و تربیتی جہاد کے اپنے اپنے میدان ہیں۔ کشمیر، فلسطین، افغانستان اور عراق میں مسلح جہاد یقینا فرض عین ہے اور اس کی اعانت اُمت کا فریضہ ہے، لیکن مثال کے طور پر پاکستان، ترکی ، مصر یا تیونس کو دیکھیں، تو بانیان تحریک اسلامی سید ابو الاعلی مودودیؒ اور شہید امام حسن البنا ؒنے آغاز ہی میں یہاں مسلح اور خفیہ سرگرمیوں سے احتراز کرکے نقشہء کار واضح کردیا ہے۔
تحریک نہضت تیونس کی کوشش ہے کہ عوام اور دین کی حقیقی تعلیمات کے درمیان کھڑی کردی جانے والی دیواریں گرا دی جائیں۔ عوام کو اسلامی تعلیمات کے چشمۂ صافی سے سیراب کیا جائے۔ شیخ راشد الغنوشی نے بعض متشدد گروہوں کے ساتھ بند دروازوں میں ہونے والی ایک نشست میں اپنا دل ان کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا اصل مقابلہ سابقہ دین دشمن دور کی باقیات سے ہے۔ اسلام دشمنی کی آہنی دیواریں گر جانے کے بعد اب ہمیں زیادہ سے زیادہ تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ہمارا پورا معاشرہ عملاً سیکولر بنادیا گیا ہے۔ ہمیں کچے پھل توڑنے کے بجاے صبر کا دامن تھامنا ہوگا۔ قرآن و سنت کے پیغام میں اتنی قوت ہے کہ مثبت صورت میں عوام کے سامنے لایا جائے تو یقینا وہ سب اپنے رب کی طرف لوٹ آئیں گے۔ اکثر حاضرین نے ان کی راے سے اتفاق کیا، لیکن بدقسمتی سے مجلس کی یہ پوری بات خفیہ طور پر ریکارڈ کرکے ذرائع ابلاغ کو دے دی گئی۔ پروپیگنڈے کا ایک نیا طوفان برپا کردیا گیا کہ ’’غنوشی شدت پسندوں کے ساتھ مل کر سازشیں تیار کررہا ہے‘‘۔
تیسری جانب حلیف جماعتوں کے اندرونی معاملات و اختلافات بھی بچوں کو بوڑھا کردینے کے لیے کافی ہیں۔ آئے دن لگتا ہے کہ مخلوط حکومت گرنے والی ہے۔ گاہے بعض وزرا کے خلاف جھوٹے اسکینڈل بھی گھڑنے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن رب ذو الجلال کی توفیق سے حکومت اور دستور ساز اسمبلی نے اکثر وبیش تر معاملات پر قابو پالیا ہے۔ تحریک نہضت اور اس کی قیادت کو یقین ہے کہ دستور کی تکمیل کے بعد انتخابات کا چیلنج بھی بخوبی گزر جائے گا اور دنیا کو ایک ایسی کامیاب، فلاحی ریاست کا حقیقی منظر دیکھنے کو ملے گا کہ جو شاید فی الحال ’اسلامی‘ نام نہ رکھتی ہو، لیکن قرآن و سنت کے نور کامل سے روشن راستوں پر گامزن ہو۔