تاجکستان سابق سویت یونین سے آزادی حاصل کرنے والا وسطی ایشا کا سب سے چھوٹا ملک ہے ۔وسطی ایشیا کے جنوب میں واقع یہ ملک ایک لاکھ ۴۳ہزار مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ اس کی سرحدیں افغانستان، کرغیزستان، ازبکستان اور مشرقی ترکستان(صوبہ سنکیانگ) سے ملتی ہیں۔ ۲۰۰۷ء کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی آبادی تقریباً۷۰ لاکھ ہے جن میں ۸۰ فی صد کا تعلق تاجک اور ۱۵ فی صدکا ازبک قوم سے ہے ۔یہاں روسی، قرغیزی ، ترکمانی ، یوکرائنی اورکئی دیگر نسلوں کی قومیں بھی آباد ہیں۔ مسلمان آبادی کا تناسب ۹۶ فی صد ہے ۔بڑے پیمانے پرروسیوں کی آباد کاری کی وجہ سے مسلمانوں کی تعداد ۸۳فی صد رہ گئی تھی، لیکن ۱۹۹۲ء اور ۱۹۹۷ء کے عرصے میں جاری خانہ جنگی اور خراب معاشی صورت حال کی وجہ سے روسی آبادی کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں عیسائی اور یہودی نقل مکانی کر گئے۔ ملک میں شرح خواندگی حوصلہ افزا ہے اور تقریباً ۹۸فی صد آبادی پڑھنے لکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
تاجکستان معاشی اعتبار سے کمزور ملک ہے جس کا سارا دارومدار بیرونی امداد پرہے۔ ۲۰۰۱ء میں ریڈ کراس نے تاجکستان اور ازبکستان کو قحط زدہ قرار دے کر عالمی برادری سے امداد کا مطالبہ کیا۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۴ء کے بعد اب اس کی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ کُل رقبے کا ۹۳فی صد پہاڑی سلسلہ ہے اور صرف پانچ فی صد قابل کاشت ہے جس کی وجہ سے بنیادی اشیاے خوردنی درآمد کرنے پر کثیر زر مبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے، جب کہ ملک میں صنعت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
آزادی کے بعد حزب نہضت اسلامی نے اپنی حلیف جماعتوں کے ساتھ مل کر انتخابات میں کامیابی حاصل کی لیکن بائیں بازو کی جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن نے روس اور اوزبکستان کے ایما پر ملک میں پُر تشدد مظاہروں کا آغاز کیا ۔ حزب نہضت نے ملک کو تباہی سے بچانے کے لیے قومی حکومت تشکیل دینے کی دعوت دی اور حکومت اپوزیشن کے سپرد کردی۔ سابق کمیونسٹ حکمرانوں کے ساتھی صدر امام علی رحمانوف نے حکومت سنبھالتے ہی اسلام پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا ،جس کے نتیجے میں پُر تشدد مظاہرے شروع ہوئے جو بالآخر خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گئے۔
حزب نہضت کے مجاہدین نے مسلح جدوجہد جاری رکھی اور ملک کے اہم حصوں اور سرکاری عمارتوںپر قبضہ کرلیا۔ مجاہدین یکے بعد دیگر علاقے فتح کرتے ہوئے دارالحکومت کے قریب پہنچ گئے کہ اس دوران افغانستان کے اندرونی حالات خراب ہوگئے، نیز وسطی ایشیا میں روس، امریکا اور چین کے مفادات میںبھی تصادم پیداہوگیا، چنانچہ حزب نہضت کی قیادت حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور ہوئی۔ نہضت اسلامی کے صدرسید عبداللہ نوری کی صدارت میں قائم مصالحتی کمیٹی نے حکومت کے ساتھ طویل مذاکرات کیے اور آخر کار ۲۷جولائی ۱۹۹۷ء کو ماسکو میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین امن معاہدہ طے پایا۔ یوں یہ طویل خانہ جنگی اختتام کو پہنچی ۔ امن معاہدے میں ۳۰ فی صدسرکاری مناصب اور وزارتیں حزب نہضت کو دیے جانے کا فیصلہ ہوا، تاہم یہ وعدہ تاحال پورا نہیں ہوا۔
۲۰۱۰ء کے پارلیمانی انتخابات سے پہلے حزب نہضت نے بھر پور انتخابی مہم چلائی اور حکومتی بدترین دھاندلی کے باوجود ۶۰ فی صد نشستوں،یعنی۶۳نشستوں میں سے۳۷ پر کامیابی حاصل کی لیکن حکومت نے نتائج تبدیل کرتے ہوئے صرف ۱۰فی صد نشستوں پر اسلامی پارٹی کی کامیابی کا اعلان کیا۔ انتخابات کے نتائج نے حکومت کو اپنے حقیقی حجم سے آگاہ کردیا چنانچہ اس نے اسلام پسندوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور ان کے خلاف کارروائیوں میں اضافے کا منصوبہ بنایا۔ لیکن پارٹی قیادت کے مطابق ان کارروائیوں سے جماعت کو مزید تقویت مل رہی ہے۔ نومبر۲۰۱۳ء میںپھر صدارتی انتخابات ہوں گے ۔ حکمران پارٹی نے موجودہ صدر کو ایک مرتبہ پھر میدان میں اُتارنے کا فیصلہ کیا ہے اور توقع ہے کہ حزب نہضت اسلامی موجودہ صدر امام علی رحمانوف کی موجودگی میںاپنے صدارتی امیدوار کے بجاے، کسی دوسرے امیدوار کی حمایت کا اعلان کرے گی۔
تاجکستان نے آزادی تو حاصل کرلی لیکن روسی اثر ورسوخ تاحال قائم ہے۔روس کی کوشش ہے کہ یہاں پر اسلامی شعائر اور قوانین کی جڑیں مضبوط نہ ہوں۔ حکومت کی طرف سے ملک میںاسلامی شعائر کے خاتمے اور اسلام پسندوں کو کچلنے کے لیے پے درپے حملے روس ہی کے ایما پر ہورہے ہیں۔
موجودہ حکومت تاجکستان کے اسلامی تشخص کے خاتمے کی پالیسی پر ایسے کاربند ہے جیسے اس کا اصل ہدف بس یہی کام ہے ۔ تمام تعلیمی اداروں اور سرکاری دفاتر میں اسکارف لینے پر مکمل پابندی ہے ۔ حکومت کا موقف ہے کہ حجاب ایک خاص نظریے کی عکاسی کرتا ہے جو کہ ملکی قوانین کی خلاف ورزی ہے ، حالانکہ ملکی دستور واضح طور پر عوام کوشخصی آزادی کی ضمانت دیتا ہے ۔ آئین کے مطابق حکومت کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کی انفرادی آزادی کو تحفظ فراہم کرے۔ حکومت نے اس کے برعکس کئی اسلامی مراکز ، حفظ و تعلیم قرآن کے مدارس ، عربی زبان سکھانے والے سینٹر اور۱۹۹۰ء کے بعد قائم کی جانے والی تمام مساجد کو یہ کہہ کر تالے لگا دیے ہیں کہ یہ غیرقانونی ہیں اوریہاں پر تشدد کی تعلیم دی جاتی ہے۔
امام علی رحمانوف کی حکومت نے دارالحکومت کی مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان دینے پربھی پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ دارالحکومت کے مئیر محمد سعید کے مطابق لاؤڈ اسپیکر پراذان کی وجہ سے دیگر ادیان کے پیروکار اور قائدین کو اذیت پہنچتی ہے۔ کمیونسٹ حکومت نے ایک کالے قانون کے ذریعے ۱۸سال سے کم عمر کے نوجوانوں کی مساجد آمد پر بھی پابندی لگائی ہوئی ہے اور اب صرف عمر رسیدہ افراد ہی مساجد میں جاکر نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اس قانون کو سختی سے نافذ کرنے کے لیے حکومت نے دارالحکومت کی تمام مساجد میں سیکیورٹی کیمرے بھی نصب کر دیے ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ مساجد کے علاوہ کسی بھی جگہ نماز پڑھنے پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔ چنانچہ اگر راستے میں جاتے ہوئے نماز کے وقت میں کوئی نماز پڑھنا چاہے تو قانون کی خلاف ورزی ہوگی۔
حکومت نے ۴۰سال سے کم عمر افراد پر داڑھی رکھنے پر بھی پابندی عائد کردی ہے، جب کہ پہلے سے باریش نوجوانوں کی داڑھیاں زبردستی منڈوائی گئی ہیں۔ اب یہ خبریںبھی گردش کر رہی ہیں کہ حکومت بچوں کے محمد اور عبداللہ جیسے نام رکھنے پر بھی پابندی کے بارے میں سنجیدگی سے غورکررہی ہے۔ مسلم ممالک میں دینی تعلیم حاصل کرنے والے تمام طلبہ کے اہل خانہ کو دھمکی دی گئی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو وطن واپس بلائیں ورنہ ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔ چنانچہ پاکستان سمیت تمام عرب ممالک کی دینی جامعات اور مدارس میں پڑھنے والے طلبہ تعلیم اُدھوری چھوڑ کر واپس جانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
حکومت نے نہضت اسلامی کی صفوں میں دراڑ ڈالنے کی بھی بہت کوشش کی، لیکن اسے ناکامی ہوئی۔ حالیہ پارلیمانی انتخابات میں بڑی تعداد میں لوگوں کے اسلامی رجحان کو دیکھ کر حکومت بہت خوف زدہ ہے اورنہضت اسلامی کو چھوڑنے پرارکان کو بھاری معاوضہ اور بڑے بڑے پلاٹ دینے کی پیش کش بھی کی گئی لیکن اس میں بھی ناکامی ہوئی۔
تاجکستان میںحق وباطل کایہ معرکہ اور کش مکش جاری ہے ۔ یہاں کے نوجوانوں کا جذبہ اور اسلام کے ساتھ گہری وابستگی کو دیکھتے ہوئے یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کی جانب سے بے شمار رکاوٹوں کے باوجودان شاء اللہ اسلامی بیداری کی تحریک کامیابی سے ہم کنار ہوگی۔
مضمون نگار سیّد مودودی انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ لاہور میں استاد ہیں