گذشتہ سات سال سے محصور غزہ ایک دفعہ پھر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کی وجہ سے آگ اور خون کی میں زد میں ہے۔ ان سطور کے لکھنے تک ۶۵۰فلسطینی شہید اور۴ ہزار سے زائد زخمی ہوگئے ہیں،جب کہ سیکڑوں گھر ، سکول ،رہایشی عمارتیںاور مساجد ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیے گئے ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع گابی اشکنازی نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجاکر دم لیں گے۔ ۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۲ء کے حملے کے برعکس اس دفعہ زمینی حملہ بھی کیا گیا ہے اور اسرائیلی افواج ٹینکوںاور بھاری اسلحے سمیت غزہ پر مختلف اطراف سے چڑھائی کرچکی ہیں۔یہ تو معلوم نہیں کہ ۷جولائی سے جاری آگ اور خون کا یہ کھیل مزید کتنے بے گناہوں کی جان لے گا، تاہم اس موقعے پر مسلم دنیابالخصوص عالم عرب کی خاموشی ایک بڑا سوالیہ نشان بن کر سامنے آئی ہے۔
حالیہ حملے کے جواز کے لیے اسرائیل نے الزام عائد کیا ہے کہ حماس ۲۰۱۲ء کے امن معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کرتی رہی ہے اور اسرائیلی آبادیوں کوغزہ سے اپنے راکٹوں سے نشانہ بنا تی رہی ہے۔اس کشیدگی میں اضافہ اس وقت ہوا جب۱۲ جون ۲۰۱۴ء کو اچانک تین اسرائیلی نوجوان غائب ہوگئے اور چند دن بعد سرحد کے قریب سے ان کی لاشیں ملیں۔ اسرائیل نے اس کا الزام براہ راست حماس پر لگا یا اور انتقامی کارروائی کا فیصلہ کیا۔ حماس نے اس الزام کی تردید کی اور کہا کہ اگر انھوں نے ان اسرائیلی لڑکوں کو پکڑا ہوتاتوانھیں قتل کرنے کے بجاے ان کے بدلے اپنے قیدی رہا کرواتے ، جیسا کہ اس نے جلعاد شالیط کے بدلے تقریباً ۱۳۰۰فلسطینی مرد وخواتین قیدیوں کو رہا کروایا تھا۔ اس کے باوجود اسرائیل نے بزدلانہ کارروائی کرتے ہوئے ایک ۱۴ سالہ فلسطینی بچے کو اغوا کرکے زندہ جلادیا اور رفح کی سرحد پر حماس کے چھے قائدین کو شہید کردیا اور بڑے پیمانے پر کارروائیوں کا آغاز کردیا۔وہائٹ ہاؤس نے بھی فوری طور پراسرائیل کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیلی جنگی کارروائیوں کو حقِ دفاع قرار دے دیا۔ امریکی شہ ملتے ہی اسرائیل نے بمباری میں اضافہ کیا اورسرکاری عمارتوںسمیت عام آبادی کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔
در اصل جب سے مصر میں فوجی انقلاب کے ذریعے اسرائیل کے حامی اقتدار میں آئے ہیں تب سے اسرائیل کے تیور بدلے ہوئے ہیں۔ حماس نے شروع ہی سے اس صورت حال کا ادراک کیا اور الفتح کے ساتھ مصالحت کرکے ایک دفعہ پھر مشترکہ قومی حکومت تشکیل دینے کا دانش مندانہ فیصلہ کیا ۔ مسلمانوں کو ہمیشہ سے تقسیم کرنے کی پالیسی پر گامزن امریکا واسرائیل کو منظور نہ تھا کہ دونوں دھڑے ایک ہوکر اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں۔یہی وجہ ہے کہ لڑکوں کی گم شدگی اور قتل کا بہانہ بنا کر ا س نے غزہ پر چڑھائی کردی ۔
بعض تجزیہ نگاروں نے لکھا ہے کہ چند سال قبل غزہ کی پٹی میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں ،اسرائیل انھیں اپنی تحویل میں لینا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ ہر قیمت پر غزہ کو اپنے کنٹرول میں لینا چاہتا ہے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین نے اپنی ۹ جولائی ۲۰۱۴ء کی اشاعت میں معروف دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر نفیز احمد کے حوالے سے لکھا ہے کہ ۲۰۲۰ء تک اسرائیل کا توانائی بحران شدت اختیار کرسکتا ہے جس کے پیش نظر اسرائیل فلسطینی ذخائر پر قبضے کو ضروری سمجھتا ہے ۔ غزہ کے ساحل کے قریب تقریبا ڈیڑھ کھرب کیوبک فٹ گیس کے ذخائر موجود ہیں۔اسی وجہ سے اسرائیل نے حماس کے خاتمے کے لیے غزہ پر جنگ مسلط کی ہے۔ معروف امریکی ماہرِ توانائی ڈاکٹر گرے لفت نے امریکی جریدے جرنل آف انرجی سیکورٹی میں اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اسرائیل ، مصر سے گیس کی مسلسل فراہمی کے باوجود آیندہ چند سالوں میں گیس کے شدید بحران کا سامنا کرے گا۔ اس لیے اس کی نظریں خطے میں موجود تیل اور گیس کے ذخائرپر لگی ہوئی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پہلے ہی دن سے غزہ اسرائیل کی نظروں میں خاردار کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے اور وہ ہر قیمت پر اسے باقی مقبوضہ فلسطین میں شامل کرنا چاہتا ہے، تاکہ وہاں مصر کے آمر سیسی کی طرح وفادار اور محمود عباس کی طرح کٹھ پتلی حکومت قائم کرکے جب چاہے فلسطینیوں کو وہاں سے نکال باہر کرے اور جب چاہے وہاں نئی یہودی آبادیاں قائم کرے۔
غزہ پر حملے کے اگلے ہی دن امریکی ترجمان نے اسرائیل کی مکمل حمایت اور حماس کی مذمت پر مشتمل بیان جاری کیا ۔ اقوام متحدہ نے دونوں اطراف کو معاملات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے اور جنگ بندی کا مشورہ دیا۔ گویا کہ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور حماس کی جانب سے چلائے گئے دفاعی میزائل برابر ہیں۔امریکی رد عمل کے آتے ہی مسلم دنیا جیسے چپ سادھ گئی اور گاجر مولی کی طرح کٹتے نہتے فلسطینیوں پر جاری وحشیانہ بمباری گویا انھیں نظر ہی نہ آرہی ہو۔
عرب ممالک پہلے تو خاموش تھے لیکن جب سوشل میڈیا پراسرائیلی بموں سے معصوم فلسطینی بچوںکے جسموں کے پرخچے اڑتے ہوئے دکھائے گئے اور ہر طرف سے عرب حکمرانوںکو بے حسی کے طعنے دیے جانے لگے، تو کاغذی کارروائی کے لیے عرب وزراے خارجہ کا اجلاس طلب کیا گیا، حملے کی مذمت کی گئی اورتصویری سیشن کرکے بات ختم کردی گئی۔ مصر نے البتہ جنگ بندی کی ایک تجویز پیش کی جو در اصل اسرائیلی تجویز تھی، سب نے اس کی حمایت کا اعلان کیا۔ اسرائیل نے بھی اسے تسلیم کیا لیکن معاملے کے اصل فریق حماس سے نہ تو کوئی رابطہ کیا گیا نہ مشاورت ، بلکہ حماس کے ترجمان کے مطابق انھیں صرف میڈیا کے ذریعے اس معاہدے کی خبریںملیں ۔اب جس جنگ بندی کے معاہدے کا حماس کو کچھ معلوم ہی نہ تھااسے قبول کرنے سے انکار پر مطعون کیا جا رہا ہے۔
اس ضمن میں ما سوائے ترکی کے کسی مسلمان ملک سے سرکاری طور پرکوئی احتجاج یا مذمتی بیان سامنے نہیں آیا۔ترکی نے نہ صرف سخت احتجاج کیا بلکہ حملے بندنہ کرنے کی صورت میں سفارتی تعلقات ختم کرنے کی دھمکی بھی دی۔ ترک وزیر اعظم نے اس پورے معاملے میں مصر کے منافقانہ رویے کی سخت مذمت کرتے ہوئے فوجی حکمران جنرل سیسی کو ظالم آمر قرار دیا۔
عرب وزراے خارجہ کے اجلاس منعقدہ ۱۴ جولائی قاہرہ میں مصر نے جنگ بندی کی تجویز میں کہا کہ حماس اور اسرائیل کو فوری طور پر جنگ بندی کرنی چاہیے ۔ تجویز میں حماس سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ کسی قسم کے راکٹ اسرائیل کی طرف فائر نہ کرے۔ مصر نے غزہ اور اسرائیل کے مابین سرحد پر موجود تمام گزرگاہوں کو کھولنے کی بھی تجویز دی ، تاہم تجویز میں اپنی سرحد کو کھولنے کی کوئی پیش کش نہیں کی۔حماس اور دیگر جہادی تنظیموں نے اس تجویز کو مسترد کردیا ۔ القسام بریگیڈ نے اسے اسرائیلی بالادستی تسلیم کرنے کے مترادف قرار دیا ۔حماس نے موقف اختیار کیا کہ ہماری شرائط تسلیم کیے بغیر جنگ بندی قبول نہیں ہے ۔ اس تجویز میں ہمارے مطالبات کا ذکر ہے نہ ہمیں مشاورت کے بارے میں مطلع کیا گیا ہے۔عرب وزراے خارجہ کے اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیے کی عبارت ایسے مرتب کی گئی جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ فریقین موجودہ صورت حال کے برابر ذمہ دار ہیں۔
حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ ہم جنگ بندی چاہتے ہیں۔ ہم ۲۰۱۲ء کے معاہدے کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری بند ہو اور ہمارے عوام سُکھ کا سانس لیں لیکن ہمارا اصل مسئلہ سات سال سے جاری محاصرہ ہے جس سے ہماری قوم فاقوں کا شکار ہے اور ایک بڑی جیل میں قیدیوں کی سی زندگی گزار رہی ہے، جب کہ مصری تجویز میں اس کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ ۲۰۱۲ء کے امن معاہدے میں اسرائیل کو پابندکیاگیا تھا کہ وہ حماس کے قائدین اور دیگر مجاہدین کو ٹارگٹ نہیں کرے گا ،جب کہ موجودہ تجویز میں اسرائیل کواس کا پابند نہیں کیا گیاہے ۔گویا اسے کھلی چھٹی دے دی گئی ہے کہ جب چاہے اور جسے چاہے ٹارگٹ کرے۔ اس تجویز میں اسرائیل کو پابند کیا گیاہے کہ ضرورت کی اشیا لانے لے جانے کے لیے گزرگاہوں کو کھول دے ،تاہم اسے امن وامان کی صورت حال سے مشروط کیاگیا ہے۔گویا اسرائیل جب چاہے ان گزرگاہوں کو بند کردے۔
غزہ پر مسلط کی گئی اس جنگ میں اگر چہ سیکڑوں فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں ، لیکن پہلی بار حماس کی طرف سے داغے گئے ۱۰۰ فی صد مقامی ساخت کے میزائل تمام یہودی آبادیوں تک پہنچ رہے ہیں۔ پہلی بار خود اسرائیلی سرکاری ذرائع نے دو درجن سے زائد اسرائیلی فوجی جہنم رسید ہونے کا اعتراف کیا ہے ۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دکھائی گئی ہے، جس میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو امریکی صدر کا فون سن رہا ہے ۔ فون کے دوران حماس کے راکٹوں کی آواز آئی اور وہ فون چھوڑ کر بھاگا۔شاروول نامی ایک یہودی فوجی حماس کے مجاہدین کے ہاتھ لگ گیاتو فلسطینی آبادی میں خوشیوں کے شادیانے بج گئے کہ جلعاد شالیط کی طرح اب مزید قیدی رہا ہوں گے۔
وَلَا تَھِنُوْا فِی ابْتِغَآئِ الْقَوْمِ ط اِنْ تَکُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّھُمْ یَاْلَمُوْنَ کَمَا تَاْلَمُوْنَ ج وَ تَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا یَرْجُوْنَ ط ( النساء :۴:۱۰۴) اس گروہ کے تعاقب میں کمزوری نہ دکھاؤ- اگر تم تکلیف اٹھا رہے ہو تو تمھاری طرح وہ بھی تکلیف اٹھا رہے ہیںاور تم اللہ سے اس چیز کے امیدوار ہو جس کے وہ امیدوار نہیں ہیں۔
ایسا ہرگز نہیں ہے کہ نقصان صرف نہتے فلسطینیوں کا ہورہا ہے۔خود اسرائیل کے اندر یہودی اپنی حکومت کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں کہ خدا را غزہ پر بمباری بند کرو اور ہمیں سکون سے رہنے دو۔فتح ان شاء اللہ حق کی ہوگی اور شیخ احمد یاسین شہید کی پیشین گوئی سچ ثابت ہوگی۔ انھوں نے کہا تھا کہ الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے اور ان شاء اللہ اس صدی کی تیسری دہائی اسرائیل کے مکمل خاتمے اور صفحۂ ہستی سے مٹ جانے کی دہائی ہوگی۔
غزہ کے نہتے اور معصوم عوام پر ظلم و سفاکیت کی یہ نئی مثال بھی ختم ہوجائے گی ، لیکن تاریخ بین الاقوامی برادری کی جانب داری ، او آئی سی اور عالم عرب کی بزدلانہ خاموشی کو کبھی معاف نہیں کرے گی ۔ مصر کا منافقانہ رویہ اور اسرائیل دوستی بھی کھل کر سامنے آگئی ہے اور ترک وزیر اعظم نے بجا طور اسے اسرائیل کے ساتھ اس وحشیانہ اور ظالمانہ کارروائی میں برابر کا شریک قرار دیا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر پوری امت یک جا ہوکر اسرائیل کی طرف پھونک بھی مارے تو وہاں ایک پتّا بھی نہیں رہے گا، لیکن افسوس کہ مسلم حکمران بزدلی اور بے حسی کی تمام حدیں عبور کرچکے ہیں۔ ان سے خیر کی امید تو نہیں پھر بھی ہماری تجویز ہے کہ فوری طور پر تمام مسلم ممالک کا ہنگامی سربراہی اجلاس بلایا جائے اور غزہ پر جارحیت کو رکوانے کے لیے واضح عملی اقدامات کا اعلان کیا جائے۔ اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ عالمی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے ایسے سخت اقدامات کرے جن سے محصور اہل غزہ کے اجتماعی قتل کو روکا جا سکے۔مصرکو پابند کیا جائے کہ اہل غزہ کا بیرونی دنیا سے رابطے کا واحد راستہ رفح گیٹ وے کوفوری اور مستقل طورپر کھول دے ،تاکہ زخمیوں اور بیماروں کو مناسب علاج معالجے کے لیے مصر اور دیگر ممالک لے جایا جاسکے ۔ مسلمان ممالک بالخصوص عرب ممالک اسرائیل کے سرپرست اور اس جارحیت کی حمایت کرنے والے ممالک کے ساتھ تمام تجارتی معاہدوں خصوصاً تیل کے معاہدوں پرنظر ثانی کریں ۔اورمشترک دشمن کے مقابلے میں فلسطینی دھڑوں میں انتشار پیدا کرنے کے بجاے انھیں متحدکرنے کی سنجیدہ کوششیں کریں۔
گذشتہ دنوں سے عراق ایک مرتبہ پھر عالمی ذرائع ابلاغ میں نمایاں ہو رہا ہے ۔ امریکی انخلا کے بعد بظاہرلگتا تھا کہ عراق بتدریج پُرامن جمہوری راستے کی طرف بڑھے گا،لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ عراق پر امریکی قبضے کے بعد اس پر کئی عالمی رپورٹیں سامنے آچکی ہیں کہ امریکی عراق کو تین حصوں: کردستان،سُنّی اور شیعہ عراق میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔
حکومت مخالف تحریک روز بروز تیز ہوتی جارہی ہے۔سُنّی آبادی کی طرف سے مسلسل یہ شکایات آرہی تھیں کہ انھیں نظرانداز کیا جارہا ہے۔موجودہ حکومت میں ان شکایات میں اضافہ ہوا اور نوبت احتجاجی دھرنوں اور مظاہروں تک پہنچ گئی۔حکومت کی جانب سے مظاہرین کے ساتھ سختی سے نپٹنے کا رویہ اپنایا گیا جس سے سنیوں میں غم وغصے کی لہر شدید ہوگئی۔گذشتہ چارماہ سے جاری احتجاج میں اب تک سیکڑوں افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ درجنوں مساجد شہید کردی گئی ہیں اور بم دھماکوںکی وجہ سے املاک عامہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔
صدام کے بعد عراق میںجتنی حکومتیں برسراقتدار آئی ہیںوہ شیعہ حکومتیں ہیں۔ تجزیہ نگار یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ عراق میں واقعی شیعہ آبادی اتنی اکثریت اور قوت رکھتی ہے کہ ہر انتخابی کھیل میں وہی برسر اقتدار آئیں۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس پورے عرصے میں دونوںطرف (شیعہ اور سُنّی) سے لاکھوں افراد موت کے گھاٹ اُتارے جا چکے ہیں۔
عراق عملًا تین حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔کردستان اپنی الگ شناخت ، الگ پارلیمنٹ، الگ پرچم اور الگ حکومتی ڈھانچے کے ساتھ کسی بھی وقت باقی ملک سے کاٹ دیے جانے کے لیے تیار ہے۔ باقی ملک شیعہ اور سُنّی کی واضح تقسیم کی نذر کیا جاچکا ہے۔ اہل سنت آبادی جو کہ اکثریت رکھتی ہے ‘شاکی ہے کہ ان پر شیعہ حکومت مکمل طور پر ایرانی سرپرستی کے ساتھ مسلط رکھی جا رہی ہے۔ ملک کے سُنّی نائب صدر طارق الہاشمی پر مختلف گھناؤنے الزامات لگا دیے گئے، جو انھیں گرفتار کرنے اور سزاے موت دینے کے مطالبے کی صورت میں سامنے آئے۔ طارق الہاشمی اپنے آپ کو بچانے کے لیے بمشکل پہلے کرد علاقے اور پھر مختلف پڑوسی ممالک میں جاکر پناہ لینے پر مجبور کردیے گئے۔
کویت سے شائع ہونے والے ہفت روزہ المجتمع نے اپنے شمارہ نمبر :۲۰۵۱، ۴ تا ۱۰مئی ۲۰۱۳ء میں ایک چشم کشا رپورٹ شائع کی ہے جس میںناصر شعبانی کے حوالے سے پُرامن مظاہروں کو کچلنے کا صرف اعتراف ہی نہیں کیا بلکہ اسے دونوںملکوں کے مشترکہ مفاد میں قرار دیا ہے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ عراق میں اصل حکمران ایرانی فوج کے ایک اہم ذمہ دار قاسم سلیمانی ہیں۔صرف یہی نہیں مذکورہ شخص لبنان، افغانستان اور شام میں ایرانی ایجنڈے کو نافذ کرنے پر بھی مامور ہے۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ایران نے پاس داران انقلاب اور اعلیٰ فوجی افسران کے کئی وفود عراقی حکومت کی مدد کے لیے بھیجے ہیں جنھوں نے عراقی ذمہ داران کے ساتھ مل کر مظاہرین کو کچلنے کے لیے عراقی حزب اللہ، البدر فورس اور جیش المہدی کے ساتھ مل کر پلان ترتیب دیے۔
ا س پورے فتنے سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ برادر ملک عراق کے تمام شہری ، سیاسی جماعتیں اور دوست پڑوسی ممالک باہمی احترام کی پاس داری اور عراق کی خود مختاری کااحترام کریں۔عراق کے اندرونی معاملات اورملکی امور میں مداخلت نہ کریں۔یہ بات طے ہے کہ عراق جیسے اہم برادر ملک کو ایک دفعہ پھر پورے عالم اسلام میںفتنوں اور اختلافات کا ایندھن بنانے سے تمام تر نقصان اُمت مسلمہ کا ہی ہوگا۔
تاجکستان سابق سویت یونین سے آزادی حاصل کرنے والا وسطی ایشا کا سب سے چھوٹا ملک ہے ۔وسطی ایشیا کے جنوب میں واقع یہ ملک ایک لاکھ ۴۳ہزار مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ اس کی سرحدیں افغانستان، کرغیزستان، ازبکستان اور مشرقی ترکستان(صوبہ سنکیانگ) سے ملتی ہیں۔ ۲۰۰۷ء کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی آبادی تقریباً۷۰ لاکھ ہے جن میں ۸۰ فی صد کا تعلق تاجک اور ۱۵ فی صدکا ازبک قوم سے ہے ۔یہاں روسی، قرغیزی ، ترکمانی ، یوکرائنی اورکئی دیگر نسلوں کی قومیں بھی آباد ہیں۔ مسلمان آبادی کا تناسب ۹۶ فی صد ہے ۔بڑے پیمانے پرروسیوں کی آباد کاری کی وجہ سے مسلمانوں کی تعداد ۸۳فی صد رہ گئی تھی، لیکن ۱۹۹۲ء اور ۱۹۹۷ء کے عرصے میں جاری خانہ جنگی اور خراب معاشی صورت حال کی وجہ سے روسی آبادی کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں عیسائی اور یہودی نقل مکانی کر گئے۔ ملک میں شرح خواندگی حوصلہ افزا ہے اور تقریباً ۹۸فی صد آبادی پڑھنے لکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
تاجکستان معاشی اعتبار سے کمزور ملک ہے جس کا سارا دارومدار بیرونی امداد پرہے۔ ۲۰۰۱ء میں ریڈ کراس نے تاجکستان اور ازبکستان کو قحط زدہ قرار دے کر عالمی برادری سے امداد کا مطالبہ کیا۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۴ء کے بعد اب اس کی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ کُل رقبے کا ۹۳فی صد پہاڑی سلسلہ ہے اور صرف پانچ فی صد قابل کاشت ہے جس کی وجہ سے بنیادی اشیاے خوردنی درآمد کرنے پر کثیر زر مبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے، جب کہ ملک میں صنعت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
آزادی کے بعد حزب نہضت اسلامی نے اپنی حلیف جماعتوں کے ساتھ مل کر انتخابات میں کامیابی حاصل کی لیکن بائیں بازو کی جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن نے روس اور اوزبکستان کے ایما پر ملک میں پُر تشدد مظاہروں کا آغاز کیا ۔ حزب نہضت نے ملک کو تباہی سے بچانے کے لیے قومی حکومت تشکیل دینے کی دعوت دی اور حکومت اپوزیشن کے سپرد کردی۔ سابق کمیونسٹ حکمرانوں کے ساتھی صدر امام علی رحمانوف نے حکومت سنبھالتے ہی اسلام پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا ،جس کے نتیجے میں پُر تشدد مظاہرے شروع ہوئے جو بالآخر خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گئے۔
حزب نہضت کے مجاہدین نے مسلح جدوجہد جاری رکھی اور ملک کے اہم حصوں اور سرکاری عمارتوںپر قبضہ کرلیا۔ مجاہدین یکے بعد دیگر علاقے فتح کرتے ہوئے دارالحکومت کے قریب پہنچ گئے کہ اس دوران افغانستان کے اندرونی حالات خراب ہوگئے، نیز وسطی ایشیا میں روس، امریکا اور چین کے مفادات میںبھی تصادم پیداہوگیا، چنانچہ حزب نہضت کی قیادت حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور ہوئی۔ نہضت اسلامی کے صدرسید عبداللہ نوری کی صدارت میں قائم مصالحتی کمیٹی نے حکومت کے ساتھ طویل مذاکرات کیے اور آخر کار ۲۷جولائی ۱۹۹۷ء کو ماسکو میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین امن معاہدہ طے پایا۔ یوں یہ طویل خانہ جنگی اختتام کو پہنچی ۔ امن معاہدے میں ۳۰ فی صدسرکاری مناصب اور وزارتیں حزب نہضت کو دیے جانے کا فیصلہ ہوا، تاہم یہ وعدہ تاحال پورا نہیں ہوا۔
۲۰۱۰ء کے پارلیمانی انتخابات سے پہلے حزب نہضت نے بھر پور انتخابی مہم چلائی اور حکومتی بدترین دھاندلی کے باوجود ۶۰ فی صد نشستوں،یعنی۶۳نشستوں میں سے۳۷ پر کامیابی حاصل کی لیکن حکومت نے نتائج تبدیل کرتے ہوئے صرف ۱۰فی صد نشستوں پر اسلامی پارٹی کی کامیابی کا اعلان کیا۔ انتخابات کے نتائج نے حکومت کو اپنے حقیقی حجم سے آگاہ کردیا چنانچہ اس نے اسلام پسندوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور ان کے خلاف کارروائیوں میں اضافے کا منصوبہ بنایا۔ لیکن پارٹی قیادت کے مطابق ان کارروائیوں سے جماعت کو مزید تقویت مل رہی ہے۔ نومبر۲۰۱۳ء میںپھر صدارتی انتخابات ہوں گے ۔ حکمران پارٹی نے موجودہ صدر کو ایک مرتبہ پھر میدان میں اُتارنے کا فیصلہ کیا ہے اور توقع ہے کہ حزب نہضت اسلامی موجودہ صدر امام علی رحمانوف کی موجودگی میںاپنے صدارتی امیدوار کے بجاے، کسی دوسرے امیدوار کی حمایت کا اعلان کرے گی۔
تاجکستان نے آزادی تو حاصل کرلی لیکن روسی اثر ورسوخ تاحال قائم ہے۔روس کی کوشش ہے کہ یہاں پر اسلامی شعائر اور قوانین کی جڑیں مضبوط نہ ہوں۔ حکومت کی طرف سے ملک میںاسلامی شعائر کے خاتمے اور اسلام پسندوں کو کچلنے کے لیے پے درپے حملے روس ہی کے ایما پر ہورہے ہیں۔
موجودہ حکومت تاجکستان کے اسلامی تشخص کے خاتمے کی پالیسی پر ایسے کاربند ہے جیسے اس کا اصل ہدف بس یہی کام ہے ۔ تمام تعلیمی اداروں اور سرکاری دفاتر میں اسکارف لینے پر مکمل پابندی ہے ۔ حکومت کا موقف ہے کہ حجاب ایک خاص نظریے کی عکاسی کرتا ہے جو کہ ملکی قوانین کی خلاف ورزی ہے ، حالانکہ ملکی دستور واضح طور پر عوام کوشخصی آزادی کی ضمانت دیتا ہے ۔ آئین کے مطابق حکومت کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کی انفرادی آزادی کو تحفظ فراہم کرے۔ حکومت نے اس کے برعکس کئی اسلامی مراکز ، حفظ و تعلیم قرآن کے مدارس ، عربی زبان سکھانے والے سینٹر اور۱۹۹۰ء کے بعد قائم کی جانے والی تمام مساجد کو یہ کہہ کر تالے لگا دیے ہیں کہ یہ غیرقانونی ہیں اوریہاں پر تشدد کی تعلیم دی جاتی ہے۔
امام علی رحمانوف کی حکومت نے دارالحکومت کی مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان دینے پربھی پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ دارالحکومت کے مئیر محمد سعید کے مطابق لاؤڈ اسپیکر پراذان کی وجہ سے دیگر ادیان کے پیروکار اور قائدین کو اذیت پہنچتی ہے۔ کمیونسٹ حکومت نے ایک کالے قانون کے ذریعے ۱۸سال سے کم عمر کے نوجوانوں کی مساجد آمد پر بھی پابندی لگائی ہوئی ہے اور اب صرف عمر رسیدہ افراد ہی مساجد میں جاکر نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اس قانون کو سختی سے نافذ کرنے کے لیے حکومت نے دارالحکومت کی تمام مساجد میں سیکیورٹی کیمرے بھی نصب کر دیے ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ مساجد کے علاوہ کسی بھی جگہ نماز پڑھنے پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔ چنانچہ اگر راستے میں جاتے ہوئے نماز کے وقت میں کوئی نماز پڑھنا چاہے تو قانون کی خلاف ورزی ہوگی۔
حکومت نے ۴۰سال سے کم عمر افراد پر داڑھی رکھنے پر بھی پابندی عائد کردی ہے، جب کہ پہلے سے باریش نوجوانوں کی داڑھیاں زبردستی منڈوائی گئی ہیں۔ اب یہ خبریںبھی گردش کر رہی ہیں کہ حکومت بچوں کے محمد اور عبداللہ جیسے نام رکھنے پر بھی پابندی کے بارے میں سنجیدگی سے غورکررہی ہے۔ مسلم ممالک میں دینی تعلیم حاصل کرنے والے تمام طلبہ کے اہل خانہ کو دھمکی دی گئی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو وطن واپس بلائیں ورنہ ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔ چنانچہ پاکستان سمیت تمام عرب ممالک کی دینی جامعات اور مدارس میں پڑھنے والے طلبہ تعلیم اُدھوری چھوڑ کر واپس جانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
حکومت نے نہضت اسلامی کی صفوں میں دراڑ ڈالنے کی بھی بہت کوشش کی، لیکن اسے ناکامی ہوئی۔ حالیہ پارلیمانی انتخابات میں بڑی تعداد میں لوگوں کے اسلامی رجحان کو دیکھ کر حکومت بہت خوف زدہ ہے اورنہضت اسلامی کو چھوڑنے پرارکان کو بھاری معاوضہ اور بڑے بڑے پلاٹ دینے کی پیش کش بھی کی گئی لیکن اس میں بھی ناکامی ہوئی۔
تاجکستان میںحق وباطل کایہ معرکہ اور کش مکش جاری ہے ۔ یہاں کے نوجوانوں کا جذبہ اور اسلام کے ساتھ گہری وابستگی کو دیکھتے ہوئے یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کی جانب سے بے شمار رکاوٹوں کے باوجودان شاء اللہ اسلامی بیداری کی تحریک کامیابی سے ہم کنار ہوگی۔
مضمون نگار سیّد مودودی انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ لاہور میں استاد ہیں