گذشتہ سات سال سے محصور غزہ ایک دفعہ پھر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کی وجہ سے آگ اور خون کی میں زد میں ہے۔ ان سطور کے لکھنے تک ۶۵۰فلسطینی شہید اور۴ ہزار سے زائد زخمی ہوگئے ہیں،جب کہ سیکڑوں گھر ، سکول ،رہایشی عمارتیںاور مساجد ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیے گئے ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع گابی اشکنازی نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجاکر دم لیں گے۔ ۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۲ء کے حملے کے برعکس اس دفعہ زمینی حملہ بھی کیا گیا ہے اور اسرائیلی افواج ٹینکوںاور بھاری اسلحے سمیت غزہ پر مختلف اطراف سے چڑھائی کرچکی ہیں۔یہ تو معلوم نہیں کہ ۷جولائی سے جاری آگ اور خون کا یہ کھیل مزید کتنے بے گناہوں کی جان لے گا، تاہم اس موقعے پر مسلم دنیابالخصوص عالم عرب کی خاموشی ایک بڑا سوالیہ نشان بن کر سامنے آئی ہے۔
حالیہ حملے کے جواز کے لیے اسرائیل نے الزام عائد کیا ہے کہ حماس ۲۰۱۲ء کے امن معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کرتی رہی ہے اور اسرائیلی آبادیوں کوغزہ سے اپنے راکٹوں سے نشانہ بنا تی رہی ہے۔اس کشیدگی میں اضافہ اس وقت ہوا جب۱۲ جون ۲۰۱۴ء کو اچانک تین اسرائیلی نوجوان غائب ہوگئے اور چند دن بعد سرحد کے قریب سے ان کی لاشیں ملیں۔ اسرائیل نے اس کا الزام براہ راست حماس پر لگا یا اور انتقامی کارروائی کا فیصلہ کیا۔ حماس نے اس الزام کی تردید کی اور کہا کہ اگر انھوں نے ان اسرائیلی لڑکوں کو پکڑا ہوتاتوانھیں قتل کرنے کے بجاے ان کے بدلے اپنے قیدی رہا کرواتے ، جیسا کہ اس نے جلعاد شالیط کے بدلے تقریباً ۱۳۰۰فلسطینی مرد وخواتین قیدیوں کو رہا کروایا تھا۔ اس کے باوجود اسرائیل نے بزدلانہ کارروائی کرتے ہوئے ایک ۱۴ سالہ فلسطینی بچے کو اغوا کرکے زندہ جلادیا اور رفح کی سرحد پر حماس کے چھے قائدین کو شہید کردیا اور بڑے پیمانے پر کارروائیوں کا آغاز کردیا۔وہائٹ ہاؤس نے بھی فوری طور پراسرائیل کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیلی جنگی کارروائیوں کو حقِ دفاع قرار دے دیا۔ امریکی شہ ملتے ہی اسرائیل نے بمباری میں اضافہ کیا اورسرکاری عمارتوںسمیت عام آبادی کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔
در اصل جب سے مصر میں فوجی انقلاب کے ذریعے اسرائیل کے حامی اقتدار میں آئے ہیں تب سے اسرائیل کے تیور بدلے ہوئے ہیں۔ حماس نے شروع ہی سے اس صورت حال کا ادراک کیا اور الفتح کے ساتھ مصالحت کرکے ایک دفعہ پھر مشترکہ قومی حکومت تشکیل دینے کا دانش مندانہ فیصلہ کیا ۔ مسلمانوں کو ہمیشہ سے تقسیم کرنے کی پالیسی پر گامزن امریکا واسرائیل کو منظور نہ تھا کہ دونوں دھڑے ایک ہوکر اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں۔یہی وجہ ہے کہ لڑکوں کی گم شدگی اور قتل کا بہانہ بنا کر ا س نے غزہ پر چڑھائی کردی ۔
بعض تجزیہ نگاروں نے لکھا ہے کہ چند سال قبل غزہ کی پٹی میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں ،اسرائیل انھیں اپنی تحویل میں لینا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ ہر قیمت پر غزہ کو اپنے کنٹرول میں لینا چاہتا ہے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین نے اپنی ۹ جولائی ۲۰۱۴ء کی اشاعت میں معروف دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر نفیز احمد کے حوالے سے لکھا ہے کہ ۲۰۲۰ء تک اسرائیل کا توانائی بحران شدت اختیار کرسکتا ہے جس کے پیش نظر اسرائیل فلسطینی ذخائر پر قبضے کو ضروری سمجھتا ہے ۔ غزہ کے ساحل کے قریب تقریبا ڈیڑھ کھرب کیوبک فٹ گیس کے ذخائر موجود ہیں۔اسی وجہ سے اسرائیل نے حماس کے خاتمے کے لیے غزہ پر جنگ مسلط کی ہے۔ معروف امریکی ماہرِ توانائی ڈاکٹر گرے لفت نے امریکی جریدے جرنل آف انرجی سیکورٹی میں اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اسرائیل ، مصر سے گیس کی مسلسل فراہمی کے باوجود آیندہ چند سالوں میں گیس کے شدید بحران کا سامنا کرے گا۔ اس لیے اس کی نظریں خطے میں موجود تیل اور گیس کے ذخائرپر لگی ہوئی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پہلے ہی دن سے غزہ اسرائیل کی نظروں میں خاردار کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے اور وہ ہر قیمت پر اسے باقی مقبوضہ فلسطین میں شامل کرنا چاہتا ہے، تاکہ وہاں مصر کے آمر سیسی کی طرح وفادار اور محمود عباس کی طرح کٹھ پتلی حکومت قائم کرکے جب چاہے فلسطینیوں کو وہاں سے نکال باہر کرے اور جب چاہے وہاں نئی یہودی آبادیاں قائم کرے۔
غزہ پر حملے کے اگلے ہی دن امریکی ترجمان نے اسرائیل کی مکمل حمایت اور حماس کی مذمت پر مشتمل بیان جاری کیا ۔ اقوام متحدہ نے دونوں اطراف کو معاملات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے اور جنگ بندی کا مشورہ دیا۔ گویا کہ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور حماس کی جانب سے چلائے گئے دفاعی میزائل برابر ہیں۔امریکی رد عمل کے آتے ہی مسلم دنیا جیسے چپ سادھ گئی اور گاجر مولی کی طرح کٹتے نہتے فلسطینیوں پر جاری وحشیانہ بمباری گویا انھیں نظر ہی نہ آرہی ہو۔
عرب ممالک پہلے تو خاموش تھے لیکن جب سوشل میڈیا پراسرائیلی بموں سے معصوم فلسطینی بچوںکے جسموں کے پرخچے اڑتے ہوئے دکھائے گئے اور ہر طرف سے عرب حکمرانوںکو بے حسی کے طعنے دیے جانے لگے، تو کاغذی کارروائی کے لیے عرب وزراے خارجہ کا اجلاس طلب کیا گیا، حملے کی مذمت کی گئی اورتصویری سیشن کرکے بات ختم کردی گئی۔ مصر نے البتہ جنگ بندی کی ایک تجویز پیش کی جو در اصل اسرائیلی تجویز تھی، سب نے اس کی حمایت کا اعلان کیا۔ اسرائیل نے بھی اسے تسلیم کیا لیکن معاملے کے اصل فریق حماس سے نہ تو کوئی رابطہ کیا گیا نہ مشاورت ، بلکہ حماس کے ترجمان کے مطابق انھیں صرف میڈیا کے ذریعے اس معاہدے کی خبریںملیں ۔اب جس جنگ بندی کے معاہدے کا حماس کو کچھ معلوم ہی نہ تھااسے قبول کرنے سے انکار پر مطعون کیا جا رہا ہے۔
اس ضمن میں ما سوائے ترکی کے کسی مسلمان ملک سے سرکاری طور پرکوئی احتجاج یا مذمتی بیان سامنے نہیں آیا۔ترکی نے نہ صرف سخت احتجاج کیا بلکہ حملے بندنہ کرنے کی صورت میں سفارتی تعلقات ختم کرنے کی دھمکی بھی دی۔ ترک وزیر اعظم نے اس پورے معاملے میں مصر کے منافقانہ رویے کی سخت مذمت کرتے ہوئے فوجی حکمران جنرل سیسی کو ظالم آمر قرار دیا۔
عرب وزراے خارجہ کے اجلاس منعقدہ ۱۴ جولائی قاہرہ میں مصر نے جنگ بندی کی تجویز میں کہا کہ حماس اور اسرائیل کو فوری طور پر جنگ بندی کرنی چاہیے ۔ تجویز میں حماس سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ کسی قسم کے راکٹ اسرائیل کی طرف فائر نہ کرے۔ مصر نے غزہ اور اسرائیل کے مابین سرحد پر موجود تمام گزرگاہوں کو کھولنے کی بھی تجویز دی ، تاہم تجویز میں اپنی سرحد کو کھولنے کی کوئی پیش کش نہیں کی۔حماس اور دیگر جہادی تنظیموں نے اس تجویز کو مسترد کردیا ۔ القسام بریگیڈ نے اسے اسرائیلی بالادستی تسلیم کرنے کے مترادف قرار دیا ۔حماس نے موقف اختیار کیا کہ ہماری شرائط تسلیم کیے بغیر جنگ بندی قبول نہیں ہے ۔ اس تجویز میں ہمارے مطالبات کا ذکر ہے نہ ہمیں مشاورت کے بارے میں مطلع کیا گیا ہے۔عرب وزراے خارجہ کے اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیے کی عبارت ایسے مرتب کی گئی جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ فریقین موجودہ صورت حال کے برابر ذمہ دار ہیں۔
حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ ہم جنگ بندی چاہتے ہیں۔ ہم ۲۰۱۲ء کے معاہدے کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری بند ہو اور ہمارے عوام سُکھ کا سانس لیں لیکن ہمارا اصل مسئلہ سات سال سے جاری محاصرہ ہے جس سے ہماری قوم فاقوں کا شکار ہے اور ایک بڑی جیل میں قیدیوں کی سی زندگی گزار رہی ہے، جب کہ مصری تجویز میں اس کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ ۲۰۱۲ء کے امن معاہدے میں اسرائیل کو پابندکیاگیا تھا کہ وہ حماس کے قائدین اور دیگر مجاہدین کو ٹارگٹ نہیں کرے گا ،جب کہ موجودہ تجویز میں اسرائیل کواس کا پابند نہیں کیا گیاہے ۔گویا اسے کھلی چھٹی دے دی گئی ہے کہ جب چاہے اور جسے چاہے ٹارگٹ کرے۔ اس تجویز میں اسرائیل کو پابند کیا گیاہے کہ ضرورت کی اشیا لانے لے جانے کے لیے گزرگاہوں کو کھول دے ،تاہم اسے امن وامان کی صورت حال سے مشروط کیاگیا ہے۔گویا اسرائیل جب چاہے ان گزرگاہوں کو بند کردے۔
غزہ پر مسلط کی گئی اس جنگ میں اگر چہ سیکڑوں فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں ، لیکن پہلی بار حماس کی طرف سے داغے گئے ۱۰۰ فی صد مقامی ساخت کے میزائل تمام یہودی آبادیوں تک پہنچ رہے ہیں۔ پہلی بار خود اسرائیلی سرکاری ذرائع نے دو درجن سے زائد اسرائیلی فوجی جہنم رسید ہونے کا اعتراف کیا ہے ۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دکھائی گئی ہے، جس میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو امریکی صدر کا فون سن رہا ہے ۔ فون کے دوران حماس کے راکٹوں کی آواز آئی اور وہ فون چھوڑ کر بھاگا۔شاروول نامی ایک یہودی فوجی حماس کے مجاہدین کے ہاتھ لگ گیاتو فلسطینی آبادی میں خوشیوں کے شادیانے بج گئے کہ جلعاد شالیط کی طرح اب مزید قیدی رہا ہوں گے۔
وَلَا تَھِنُوْا فِی ابْتِغَآئِ الْقَوْمِ ط اِنْ تَکُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّھُمْ یَاْلَمُوْنَ کَمَا تَاْلَمُوْنَ ج وَ تَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا یَرْجُوْنَ ط ( النساء :۴:۱۰۴) اس گروہ کے تعاقب میں کمزوری نہ دکھاؤ- اگر تم تکلیف اٹھا رہے ہو تو تمھاری طرح وہ بھی تکلیف اٹھا رہے ہیںاور تم اللہ سے اس چیز کے امیدوار ہو جس کے وہ امیدوار نہیں ہیں۔
ایسا ہرگز نہیں ہے کہ نقصان صرف نہتے فلسطینیوں کا ہورہا ہے۔خود اسرائیل کے اندر یہودی اپنی حکومت کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں کہ خدا را غزہ پر بمباری بند کرو اور ہمیں سکون سے رہنے دو۔فتح ان شاء اللہ حق کی ہوگی اور شیخ احمد یاسین شہید کی پیشین گوئی سچ ثابت ہوگی۔ انھوں نے کہا تھا کہ الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے اور ان شاء اللہ اس صدی کی تیسری دہائی اسرائیل کے مکمل خاتمے اور صفحۂ ہستی سے مٹ جانے کی دہائی ہوگی۔
غزہ کے نہتے اور معصوم عوام پر ظلم و سفاکیت کی یہ نئی مثال بھی ختم ہوجائے گی ، لیکن تاریخ بین الاقوامی برادری کی جانب داری ، او آئی سی اور عالم عرب کی بزدلانہ خاموشی کو کبھی معاف نہیں کرے گی ۔ مصر کا منافقانہ رویہ اور اسرائیل دوستی بھی کھل کر سامنے آگئی ہے اور ترک وزیر اعظم نے بجا طور اسے اسرائیل کے ساتھ اس وحشیانہ اور ظالمانہ کارروائی میں برابر کا شریک قرار دیا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر پوری امت یک جا ہوکر اسرائیل کی طرف پھونک بھی مارے تو وہاں ایک پتّا بھی نہیں رہے گا، لیکن افسوس کہ مسلم حکمران بزدلی اور بے حسی کی تمام حدیں عبور کرچکے ہیں۔ ان سے خیر کی امید تو نہیں پھر بھی ہماری تجویز ہے کہ فوری طور پر تمام مسلم ممالک کا ہنگامی سربراہی اجلاس بلایا جائے اور غزہ پر جارحیت کو رکوانے کے لیے واضح عملی اقدامات کا اعلان کیا جائے۔ اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ عالمی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے ایسے سخت اقدامات کرے جن سے محصور اہل غزہ کے اجتماعی قتل کو روکا جا سکے۔مصرکو پابند کیا جائے کہ اہل غزہ کا بیرونی دنیا سے رابطے کا واحد راستہ رفح گیٹ وے کوفوری اور مستقل طورپر کھول دے ،تاکہ زخمیوں اور بیماروں کو مناسب علاج معالجے کے لیے مصر اور دیگر ممالک لے جایا جاسکے ۔ مسلمان ممالک بالخصوص عرب ممالک اسرائیل کے سرپرست اور اس جارحیت کی حمایت کرنے والے ممالک کے ساتھ تمام تجارتی معاہدوں خصوصاً تیل کے معاہدوں پرنظر ثانی کریں ۔اورمشترک دشمن کے مقابلے میں فلسطینی دھڑوں میں انتشار پیدا کرنے کے بجاے انھیں متحدکرنے کی سنجیدہ کوششیں کریں۔