تازہ ترین حادثہ جس نے پورے ملک میں ایک فوری جذباتی ہیجان پیدا کردیا ہے، بھارت کی حکومت کا یہ افسوس ناک اقدام ہے کہ اُس نے دریاے ستلج کے پانی کی بہت بڑی مقدار بھاکراننگل کے سلسلۂ انہار میں منتقل کرلی ہے۔
پاکستان کی نہریں دریاے ستلج سے معمولاً جس مقدار میں پانی لے رہی تھیں وہ ۲۸ ہزار کیوسک سے لے کر ایک لاکھ کیوسک تک گھٹتی بڑھتی رہتی تھی۔ یکم جولائی کو بھارت کے جارحانہ تصرف کی وجہ سے یہ مقدار ۲۲ہزار کیوسک تک آگری ، اور اب ۸جولائی کو یکایک گھٹ کر یہ ۹ہزار ۸سو کیوسک رہ گئی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارا سات ہزار میل لمبا سلسلۂ انہار بے آب ہوکر رہ گیا ہے، جس پر منٹگمری، ملتان اور ریاست بہاول پور کی زمینوں کی زرخیزی کا انحصار تھا۔ تقریباً ۸۰لاکھ ایکڑ کا وہ علاقہ جو غلے اور کپاس کی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان میں درجۂ اوّل پر تھا ایک بے آب و گیاہ صحرا میں بدلنے والا ہے، اور ہمارے ۵۰لاکھ بھائی ہیں جنھیں بے روزگاری اور بھوک کے سامنے لاکھڑا کر دیا گیا ہے۔ علاوہ بریں پاکستان کی غلے کی پیداوار ضرورت کے مقابلے میں جو کمی دکھا رہی تھی اس میں خوفناک اضافہ ہونا بالکل نمایاں ہے۔ واضح رہے کہ معاہدۂ تقسیم کے تحت واجبات اور اِملاک کا جو بٹوارا ہوا تھا، اس میں پاکستان پنجاب کی نہروں کا حساب مجرا [ادایگی] دے چکا ہے۔ گویا بھارت نے نہروں کی قیمت بھی وصول کرلی، اور اب پانی بھی اڑس لیا۔
بین الاقوامی قانون اور روایات کے لحاظ سے اس طرح کے اقدامات اعلانِ جنگ کے مترادف قرار پاتے ہیں۔ اس طرح کے تصرفات کو کوئی مضبوط ملک برداشت نہیں کرسکتا اور کسی سرزمین کے شہری ایسی دراز دستیوں کو چپ چاپ گوارا نہیں کرسکتے۔ تقسیم کے بعد بھارت کی طرف سے حیدرآباد، جوناگڑھ اور کشمیر کے معاملے میں پے درپے جو زیادتیاں ہوئی ہیں، ان سب کے بعد یہ بہت بڑی کاری ضرب ہے جو پاکستان کی اقتصادی زندگی پر لگائی گئی ہے۔ یہ صریحاً ایک محاربانہ اقدام ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کی حکومت بھاکرا اسکیم سے فائدہ اُٹھانے سے زیادہ پاکستان کو نقصان پہنچانا پیش نظر رکھتی ہے۔(’اشارات‘ ، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد۴۲، عدد۵، ذیقعدہ ۱۳۷۳ھ،اگست ۱۹۵۴ء، ص۲-۳)