پروفیسر خورشید احمد | اگست ۲۰۱۴ | شذرات
دہشت گردی کی روک تھام اور دہشت گردی کے جرائم پر قانون کی گرفت کے مؤثر بنانے کے لیے قرارواقعی اقدام کی ضرورت نہ پہلے متنازع تھی اور نہ آج ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ قانون سازی میں اصل ضرورت سیکورٹی اور عدل و انصاف اور قانون کی بالادستی___ دونوںکے تقاضوں کو بیک وقت ملحوظ رکھنا ہے۔ کسی ایک طرف جھکائو ظلم کی ایک شکل ہے جو دستورِ پاکستان، اصولِ قانون اور شریعت، سب سے متصادم ہے اور کوئی بھی مہذب معاشرہ، چہ جائیکہ ایک اسلامی معاشرہ اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔
نوازشریف حکومت نے اپنی مصالح یا مجبوری کے تحت اکتوبر ۲۰۱۳ء میں دو قوانین بذریعہ آرڈی ننس جاری کیے تھے، جن میں سے ایک دہشت گردی کے خلاف قانون میں ترامیم اور دوسرا ’تحفظ ِ پاکستان‘ کے نام پر ایک نیا Draconian (اژدہائی)قانون تھا، جن پر ملک کے گوشے گوشے سے شدید تنقید ہوئی اور حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیموں نے بھی انھیں تنقید کا نشانہ بنایا۔ ہم نے بھی نومبر ۲۰۱۳ء کے عالمی ترجمان القرآن میں ان قوانین پر گرفت کی اور تین بنیادوں پر اسے ایک ظالمانہ اور خلافِ دستور و شریعت اقدام قرار دیا:
حکومت نے اب پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کا راستہ اختیار کیا ہے، جس کا ہم اصولی طور پر خیرمقدم کرتے ہیں۔ البتہ پارلیمنٹ سے شکایت ہے کہ اس نے اپنی ذمہ داری ٹھیک ٹھیک ادا نہیں کی اور سیاسی سمجھوتہ کاری اور بیرونی دبائو کے آگے سپر ڈال دینے کی روش اختیار کر کے، عوام کے حقوق کے تحفظ کے باب میں اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ قومی اسمبلی نے پہلے ہی دن سے تحفظ ِ پاکستان بل کے سلسلے میں سہل انگاری اور سمجھوتہ کاری کا راستہ اختیار کیا۔ پیپلزپارٹی، جمعیت علماے اسلام (ف) ، ایم کیو ایم اور اے این پی نے بظاہر مخالفت کا رویہ اختیار کیا، لیکن سیاسی مصلحتوں اور مراعات کے سایے میں چند جزوی اور غیرمؤثر ترامیم کا سہارا لے کر قانون کی تائید کا راستہ اختیار کرلیا اور یہی رویہ سینیٹ کا رہا، جس نے پہلے تو بہت شورشرابا برپا کیا اور چیلنج کیا کہ اس بل کو ہرگز منظور نہیں ہونے دیں گے، لیکن پھر ایک دم ہتھیار ڈال دیے۔
تحریکِ انصاف نے اصولی مخالفت کی مگر راے شماری کے وقت وہ بھی صرف غیر جانب دار ہوگئے۔ صرف جماعت اسلامی کے ارکان نے ڈٹ کر اس بل کی مخالفت کی،اس کے خلاف ووٹ دیا اور اب اس کے قانون بن جانے کے بعد اسے عدالت ِ عظمیٰ میں چیلنج کیا ہے۔
دوسرا پہلو ان قوانین کے نفاذ کے وقت کے بارے میں تھا جو اب بڑی حد تک غیرمتعلق (irrelevant) ہوگیا ہے۔ بہت سا پانی پُلوں کے نیچے بہہ چکا ہے اور شمالی وزیرستان میں آپریشن کا آغاز ہوگیا ہے۔ ہم صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس آزمایش میں ملک، ہماری افواج، پاکستانی عوام خصوصیت سے متعلقہ علاقے کے ۱۰ لاکھ سے زیادہ بے گھر ہونے والے ہمارے بھائیوں، بہنوں اور بچوں کی حفاظت کرے اور ان کی اپنے گھروں کو جلد واپسی ہو۔
تیسری بنیاد دستور، اصولِ قانون اور شریعت کے اصول و ضوابط سے تصادم تھی، جو چند ترامیم کے باوجود بہت بڑی حد تک اس قانون میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر چند ترامیم کے ذریعے کچھ دانت توڑنے کے عمل کے باوجود ہم اسے ایک کالا قانون اور ظلم کا آلہ تصور کرتے ہیں۔ پاکستان کے حقوقِ انسانی کمیشن اور عالمی اداروں میں ہیومن رائٹس واچ نے بھی اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اول الذکر نے اسے بجاطور پر ایک اژدہائی قانون (Draconian Law) قرار دیا ہے، اور ہیومن رائٹس واچ نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ عام شہریوں کے دستوری اور بنیادی حقوق کی پامالی کا اس میں بے حد سامان موجود ہے۔ڈان اور ایکسپریس ٹربیون نے اپنے ۱۳جولائی ۲۰۱۴ء کے ادارایوں میں ترمیم شدہ قانون کو بھی غیرتسلی بخش اور دستور کے خلاف قرار دیا ہے۔
جو ترامیم کی گئی ہیں انھیں ایک حد تک مثبت قرار دیا جاسکتا ہے لیکن وہ بے حد ناکافی اور ان بنیادی اعتراضات کو دُور کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہیں، جن کی بنا پر اس ظالمانہ قانون پر ہم نے اور بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے والے اداروں نے شدید تنقید کی تھی۔ ان ترامیم میں سے ایک کا تعلق’جنگی دشمنوں‘ (enemy combatant) کے تصور سے ہے، جسے اب نکال دیا گیا ہے اور دہشت گردی کی دو شکلوں کو ایک دوسرے سے ممیز کرنے کی کوشش کی گئی ہے، یعنی ’بیرونی یا خارجی دشمنوں‘ (enemy alien) اور ’دہشت گرد‘ (militant)۔ اول الذکر کا تعلق دہشت گردی کے مرتکب غیرشہریوں سے ہوگا، اور دوسری کا ملک کے شہریوں سے۔ یہ ترمیم بہتر ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ ترمیم شدہ شکل میں بھی ’alien‘ (بیرونی)کی تعریف میں جھول ہے اور اس میں combatant (’جنگی‘) کے عنصر کو شامل نہیں کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں ہر کوئی ’بیرونی‘ دشمن اور دہشت گرد شمار ہوسکتا ہے، جو انصاف اور بنیادی حقوق کے تقاضوں کے منافی ہے۔ دہشت گرد صرف وہی غیرشہری ہوسکتا ہے جو جنگی عزائم کا حامل ہو۔ محض کسی مشکوک فرد کو ’دشمن‘ قرار دینا، اس وضاحت کے بغیر کہ وہ دہشت گردی کا مرتکب ہوا ہے، انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ تعریف میں یہ جھول خرابی کا باعث ہوسکتا ہے۔
ایک دوسری ترمیم کے ذریعے دہشت گردی کے مجرموں کے لیے سزا اب ۱۰سال سے بڑھا کر ۲۰سال کردی گئی ہے لیکن ان کی احتیاطی نظربندی ایک خلافِ انصاف عمل ہے۔ زیادہ سے زیادہ جو گنجایش دی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ ۲۴گھنٹے کی مدت اگر کم ہے تو ۷ یا ۱۰دن کے اندر اندر ایک شخص پر الزام عائد کیا جائے یا اس کی آزادی کو بحال کیا جائے۔ بدقسمتی سے دستور میں اس کی گنجایش موجود ہے لیکن اس قانون میں دستور کی دفعہ ۱۰ کے تحت due process of law (ضروری قانونی عمل) کے باب میں جو رخصت دی گئی ہے، یہ اس سے بہت زیادہ ہے اور اس طرح اس کے انسانی آزادیوں کے لیے خطرہ ہونے اور سیاسی بنیادوں پر استعمال کیے جانے کے خدشات موجود ہیں۔
ایک اور معمولی ترمیم قانون کی اس شق میں بھی کی گئی ہے جس میں شبہے کی بنیاد پر گولی چلانے کا اختیار پولیس، فوج اور قانون نافذ کرنے والے افراد کو دیا گیا تھا اور جسے ہم نے اور تمام ہی حقوقِ انسانی کے علَم برداروں نے، شدت سے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ہمارے اصل اعتراض کا تو کوئی مداوا نہیں کیا گیا۔ بس یہ اضافہ کردیا گیا ہے کہ ایسا حکم پولیس کے گریڈ۱۵ یا اس سے اُوپر کا کوئی افسر دے سکے گا۔ ہماری نگاہ میں محض شبہے کی بنیاد پر انسانوں کو گولیوں کا نشانہ بنانا صریح ظلم اور ریاستی دہشت گردی کی ایک بدترین شکل ہے۔ پولیس مقابلے کے نام پر یہ خونیں کھیل شب و روز ہو رہا ہے ۔ حال ہی میں ماڈل ٹائون میں جو کچھ ہوا (۷جولائی ۲۰۱۴ء) وہ سب کے سامنے ہے۔ گریڈ۱۵ کی قید سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پھر یہ گریڈ۱۵ کی قید بھی صرف پولیس کے لیے ہے۔ فوج اور دوسرے نیم فوجی ادارے اس سے مستثنیٰ ہیں۔ نیز ایسے اقدام کے سلسلے میں لازمی جوڈیشل ریویو کی بھی کوئی باقاعدہ گنجایش نہیں رکھی گئی ہے۔ شکایت کی شکل میں in-house inquiry (شعبہ جاتی تحقیقات) کا ذکر ہے جو ایک bluff (فریب دہی) اور لیپاپوتی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اس شق پر ہمارا اعتراض موجود ہے اور یہ دستور، اصولِ قانون اور شریعت کے قواعد و ضوابط کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ایک اور ترمیم کے ذریعے اس قانون کی مدت دو سال کردی گئی ہے جسے قانون کی زبان میں sun-set provision (یعنی ایسا معاہدہ جو میعاد کے خاتمے پر اگر تجدید نہ کریں تو خود بخود ختم ہوجائے) کہا جاتا ہے۔ لیکن دو سال قیامت لانے کے لیے کیا کم مدت ہے کہ اس تحدید پر اطمینان کا اظہار کیا جائے۔
کم از کم یہ آٹھ پہلو ایسے ہیں جن کی وجہ سے یہ قانون ایک کالا قانون ہے۔ پارلیمنٹ نے اسے قانون کی شکل دے کر قوم کے سر شرم سے جھکا دیے ہیں اور وہ دستور اور شریعت دونوں کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ عدالت عالیہ سیاسی مصلحتوں اور مجبوریوں سے بالا ہوکر دستور اور اصولِ شریعت کی روشنی میں اس قانون کا جائزہ لے گی اور اس کی ان تمام شقوں کو خلافِ دستور قرار دے گی جو بنیادی حقوق اور اصولِ انصاف کی ضد ہیں۔ ہم پارلیمنٹ کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس قانون پر نظرثانی کرے اور قومی سلامتی اور دستور، شریعت اور انسانی حقوق کی حفاطت اور پاسداری دونوں میں مکمل توازن کے ساتھ قانون سازی کی ذمہ داری ادا کرے ورنہ وہ ان حدود کو پامال کرنے کی مجرم ہوگی جو دستور نے اس کے اختیارات کے استعمال کے لیے مقرر کیے ہیں۔ مقننہ ہو یا انتظامیہ یا عدالت، سب دستور کی تخلیق (creatures) ہیں اور دستور کی دی ہوئی حدود کے اندر ہی وہ اختیارات کے استعمال کا حق رکھتے ہیں۔ وہ عوام اور اللہ دونوں کے سامنے جواب دہ ہیں۔ انسان سے غلطی ہوسکتی ہے لیکن غلطی پر اصرار غلطی سے بھی بڑا جرم ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پارلیمنٹ کو اصلاح اور اس کالے قانون میں ضروری ترمیم کی توفیق سے نوازے تاکہ وہ اس ظلم کی تلافی کرسکیں جس کا ارتکاب انھوں نے اس قانون کو منظور کر کے کیا ہے۔