’رسائل و مسائل‘ میں ’اقامت ِ دین کے لیے مسجد کو زکوٰۃ دینا‘ (جولائی ۲۰۱۴ء) عنوان کے تحت جواب مبہم ہے۔
میں ایک ایسی کمپنی سے وابستہ ہوا ہوں جو کہ دنیا کے بہت سے ممالک میں کام کررہی ہے۔ یہ کمپنی مختلف اشیا فروخت کرتی ہے۔ مجھے ۳۵ہزارروپے کی خریداری کرنا ہے۔ اس خریداری پر میں ۳ سٹار (Three Star) بن جائوں گا۔ اس کے بعد مزید تین افراد کو خریدار بنائوں گا۔ وہ افراد جیسے جیسے مزید افراد کو ممبر بناتے جائیں گے میرا گریڈ بڑھتا جائے گا۔ یوں مجھے بھی منافع ملتا رہے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے ۳سٹار، ۴سٹار وغیرہ افراد کو بھی حصہ ملے گا۔ دیا گیا منافع فی صد کے حساب سے مقرر ہوتا ہے، جیسے سیونگ اکائونٹ پر فی صد منافع ملتا ہے۔ اس طرح کا منافع سود ہے یا نہیں؟ نیز یہ منافع حلال ہے یا حرام؟
مذکورہ بالا کمپنی کے علاوہ بھی کئی کمپنیاں اس طرح کا کاروبار کرتی ہیں اور اپنی اشیا (products) کو فروخت کرتی ہیں۔ بعض کمپنیوں کی فروخت کنندہ اشیا میں ایسی اشیا بھی شامل ہوتی ہیں کہ جن کی خریدار کو ضرورت نہیں ہوتی۔ کمپنی سے وابستہ ہونے والا شخص محض مستقبل کے منافع کے لالچ میں یہ خریداری کرتا چلا جاتا ہے، جو کہ سراسر فضول خرچی اور تعیش کے زمرے میں آتا ہے، جب کہ شریعت بلاضرورت اشیا کی خرید اور استعمال کو منع کرتی ہے۔ نیز بلاضرورت اشیا کی خریدو استعمال کو اسراف اور تبذیر قرار دیتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَّ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ج اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَo (الاعراف ۷:۳۱) ’’اور کھائو پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ اس طرح کے کاروبار میں پہلی قباحت تو اسراف اور تبذیر کا پایا جانا ہے۔
اس معاملے میں دوسری قباحت خود لالچ کو اختیار کرنا اور دوسروں کو لالچ میں مبتلا کرنا ہے، یعنی اس کے نتیجے میں آپ کو منافع ملے گا۔ تیسری قباحت یہ ہے کہ آپ کس چیز کا کاروبار کر رہے ہیں؟ آپ نے تو کوئی سرمایہ کاری نہیں کی، نہ شراکت اور نہ مضاربت، اور نہ یہ اُجرت (اجارہ اشخاص) ہی کا معاملہ ہے، تو منافع کس چیز کا؟ چوتھی قباحت اس معاملے میں یہ ہے کہ نئے ممبر بنانے میں جو محنت اور جدوجہد دوسرے اشخاص نے کی ہے اس میں آپ کا حق کہاں سے آگیا؟ پانچویں قباحت یہ کہ سیونگ اکائونٹ میں تو ایک شخص اپنی رقم بچت کی صورت میں رکھ کر اس پر سود حاصل کرتا ہے (جو کہ حرام ہے)، جب کہ یہاں تو رقم بھی جمع نہیں کروائی گئی اور آپ ایک مخصوص رقم (final profit) لینے لگ گئے۔ مذکورہ بالا وجوہات کی بناپر یہ معاملہ شرعی لحاظ سے درست نہیں ہے اور مسلمانوں کو اس سے اپنا دامن بچانا چاہیے، واللّٰہ اعلم بالصواب۔(ڈاکٹر میاں محمد اکرم)
___________________________________________________________________
تصحیح: ۱-مکتبہ تعمیر انسانیت، لاہور ۔ فون: ۳۷۲۳۷۵۰۰- ۳۷۳۱۰۵۳۰-۰۴۲
۲-ماہنامہ سوچنے کی باتیں، لاہور۔ مدیر: انوار احمد، درست فون: ۳۷۱۵۸۷۵۲-۰۴۲