اکیسویں صدی کا آغاز جن واقعات سے ہوا، انھوں نے اسلام اور مغرب کی تاریخی آویزش کو ایک نئی شکل دے دی اور ہر دو فریق جن خدشات، خطرات اور تنازعات کا شکار ہوئے، وہ عالمی نقشے پر بعض بنیادی تبدیلیوں کا سبب بن گئے۔ مغربی اقوام خصوصاً امریکا کے سامراجی عزائم عملی شکل اختیار کر گئے اور مغرب کے تمام حقوق انسانی، سرحدی آزادی، ملکی خود مختاری اور امن عالم کے نام نہاد نعروں کی قلعی کھل کر سامنے آگئی۔ مغرب کے بعض نمایندہ مفکرین نے سیاسی، سامراجی عزائم کو نئے عالمی نظام (نیو ورلڈ آرڈر) کا چوغا پہنا کر مسلم ممالک کے توانائی کے وسائل پر عسکری قوت سے قبضہ کرنے کے گھنائونے عمل کو امریکا کی ـ’قومی سا لمیت کے تحفظ‘ کا نام دیا۔ ۱۹۹۲ء میں امریکی مفکر سیموئل پی ہن ٹنگٹن نے اپنے ایک مقالے میں جس تہذیبی ٹکرائو کے خدشے کا اظہار کیا تھا وہ عملاً پہلے سے تحریر شدہ ایک کہانی کے خاکے کی طرح ستمبر ۲۰۱۱ء میں افغانستان اور عراق پر یلغار کی شکل میں ظہور پذیر ہوا۔ واقعات کے اس منطقی تسلسل نے مسلم ممالک کی غالب آبادی کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ان کے فرماںروا جس امریکا یا مغرب دوستی کا دم بھرتے ہیں وہ کتنی کھوکھلی، ناپایدار اور مغرب کے مفاد پر مبنی ہے۔
نائن الیون نے جہاں منفی تاثرات پیدا کیے، وہیں خود مغرب میں اس سانحے نے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں تجسّس اور حقیقت حال کو سمجھنے کی خواہش کو بیدار کیا۔ اس واقعے کے ایک ماہ کے اندر امریکا کے کتب فروشوں کے پاس قرآن کریم کے جتنے نسخے انگریزی ترجمے کے ساتھ موجود تھے، فروخت ہو گئے اور اسلام پر کتب کی بڑی مانگ پیدا ہو گئی۔ قرآن کریم نے بالکل صحیح کہا ہے کہ بعض چیزوں سے انسان کو کراہت آتی ہے، جب کہ ان میں رحمت ہوتی ہے، اور بعض چیزیں اچھی معلوم ہوتی ہیں، جب کہ ان میں ضرر ہوتا ہے۔ اسلام اور مغرب کی اس تازہ آویزش نے دونوں جانب دانش وروں اور محققین کو اس نئی صورتِ حال کے تجزیے اور اس کے پس ِ منظر میں چھپے اسباب پر تفکر کی دعوت دی، اور مغرب جو اپنے سامراجی دورسے استشراق کے زیرِ عنوان مسلم ممالک کی زبانوں، ثقافت اور تاریخ کو سمجھنے میں مصروف تھا، اب اس کی اس کاوش میں مزید اضافہ ہوا۔
اگر تاریخ کے آئینے میں اس صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو ساتویں صدی عیسوی میں ظہور اسلام کے ساتھ ہی قرآن کریم نے اہلِ کتاب کو دعوتِ مکالمہ دینے میں پہل کرتے ہوئے مختلف سطح پر رابطہ اور تبادلۂ خیال کی راہیں نکالیں۔ اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نامۂ مبارک، جو مختلف عیسائی و غیر عیسائی فرماںروائوں کو لکھوائے گئے تھے ، رابطے کے اولین اقدامات کہا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم نے دیگر مذاہب کے ماننے والوں اور خصوصاً اہل ِکتاب کو باربار دعوتِ فکر دیتے ہوئے مشترک بنیادوں پر اس مکالمے کا آغاز کرنے کی دعوت دی۔ اس بنا پر یہ خیال کرنا درست نہ ہو گا کہ اسلام اور مغرب کا مکالمہ کوئی نئی چیز ہے۔ یہ مکالمہ اسلامی ریاست اور معاشرے کے دورِ عروج میں بھی رہا اور مسلمانوں کے دورِ زوال بلکہ مغربی سامراج کی محکومی کے دوران بھی جاری رہا ،گو ہر دور کے لحاظ سے مکالمے کے دائرے اور زاویے بدلتے رہے۔
قرآنی زاویے سے اس مکالمے کا پہلا مقصد الہامی ہدایت کو ماننے والے مذاہب میں قُرب پیدا کرنا ہے، تا کہ ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کے لیے جس میں اسلامی نظام نافذ ہو چند مشترک بنیادوں پر اہلِ کتاب کو معاشرتی اور عائلی تعلق کے دائرے میں لے آیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اسلام نے اہلِ ایمان مسلمان مردوں کو صالح اہلِ کتابیہ سے عقد نکاح کی اجازت دے کر اہلِ کتاب کے ساتھ خاندانی تعلق کے قیام کو ممکن بنایا، لیکن اس بات کی اجازت نہیں دی کہ ایک مسلمان خاتون کسی اہلِ کتاب سے نکاح کر سکے۔ وجوہات بڑی واضح ہیں۔ اس طرح مادی طور پر خاندانی رشتہ تو قائم ہو جاتا ہے لیکن گھر کے تمام امور کا فیصلہ اسلامی شریعت کو تسلیم نہ کرنے والے کے ہاتھ میں رہتا ہے، اور نہ صرف یہ بلکہ آیندہ آنے والی اولاد بھی غیر اسلامی اصولوں پر پرورش پاتی ہے، جب کہ اہلِ کتابیہ سے شادی کی شکل میں گھر کا ماحول اور اولاد کی تربیت مکمل طور پر ایک صاحب ِ ایمان کی سرپرستی میں ہوتی ہے۔ یہ موقع تفصیلات میں جانے کا نہیں ہے ہم صرف یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام اور دیگر مذاہب کے درمیان مکالمہ محض نظری سطح پر نہیں بلکہ خاندان، تجارت اور بین الاقوامی امور پر ہر سطح پر ظہور ِ اسلام سے رہا ہے، اس لیے کثرتیت (Pluralism) کی بات اسلام کے تناظر میں کوئی نئی دریافت نہیں ہے۔
تاریخی حیثیت سے مغرب اور عیسائی دنیا کا تعلق اتنا قریبی رہا ہے کہ عموماً مغرب دوستی یا مغرب دشمنی کو عیسائی دوستی اور دشمنی سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے، جب کہ مغرب نے سولھویں صدی عیسوی کے بعد شعوری طور پر عیسائیت سے اپنا فاصلہ بڑھانے کے عمل___ آزادیِ راے، جمہوریت، انفرادیت، مادیت، مثبتیّت (Positivism) ___کو اپنی فکری بنیاد قرار دیا اور سرمایہ دارانہ فکر کو اپنا بنیادی نظریہ اور پہچان قرار دیتے ہوئے اپنے معمولات میں ہفتہ میں ایک دن کا کچھ حصہ اپنے مذہب کے لیے مخصوص کرنے میں اپنی بھلائی جانی، اور مذہب اور دیگر معاملات کے درمیان عدم تعلق اور فاصلہ رکھنے کو علمی اور عملی حیثیت سے اتنی تکرار کے ساتھ پیش کیا کہ دیارِ مغرب کے باہر بسنے والے افراد بھی اپنی تمام ’مذہبیت‘ کے باوجود زندگی کی اس دوئی میں عملاً مبتلا ہو گئے۔
لیکن غیر مغربی معاشروں کو جب اور جہاں بھی اس خرابی کا شعور ہوا، ان کے دانشوروں اور علما و اساتذہ نے اس پہلو پر توجہ دی۔ چنانچہ تاریخ کے ہر دور میں اصلاح و تجدید کی کوششوں کا بنیادی نکتہ یہی رہا کہ قرآن و سنت کی طرف رجوع کرتے ہوئے اپنی زندگی کے تمام معاملات کو اللہ کی بندگی میں لایا جائے۔
یہاں صرف یہ اشارہ کرنا مقصود ہے کہ مغرب سے مکالمہ ہو یا مجادلہ، دونوں شکلوں میں مشترک بنیادوں پر تبادلۂ خیال کرتے ہوئے بعض بدیہی پہلو نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ مغرب جس فکر کا ملغوبہ ہے اس کی روح ’مذہب‘ کو محدود کرنے میں مضمر ہے۔ چنانچہ سیکولرازم عموماً یہ نہیں کہتا کہ خالق کائنات، انسانوں کے مالک اور رب کا مکمل انکار کیا جائے، بلکہ صرف اتنی بات کہہ کر اس مقصد کو حاصل کر لیتا ہے کہ اللہ کے دائرہ کار کو مسجد، کلیسا اور ہیکل تک محدود کر دیا جائے۔ مسلمان ہو یا عیسائی یا یہودی وہ اپنے مقررہ دن اور مقررہ وقت پر اپنے عبادت خانے میں جا کر جو چاہے کرے لیکن ہفتہ کے بقیہ دنوں میں کاروبار ہو یا سیاست، معاشرت ہو یا ثقافتی سرگرمیاں، ان تمام معاملات میں ’مذہب‘ کو دخل دینے کا اختیار نہ ہو۔ دین اور دنیا کی یہ تفریق مغربی ذہن اور مغربی تہذیب کی بنیاد ہے۔ اسی کو ہم لادینیت یا سیکولر ازم کہتے ہیںجسے لامذہبیت یا الحاد کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔ لادینیت مذہب کو غیر فعال بنانے اور زندگی کو دو خانوں میں بانٹ دینے کا نام ہے۔ یہ ذہن اور یہ فکر اگر ایک ایسے شخص کے اندر پائی جاتی ہو جو ہر جمعہ کو نماز پڑھتا ہو اور ہفتہ کے بقیہ دنوں میں سر پر نماز کی ٹوپی پہن کر اسٹاک ایکسچینج میں بازی لگاتا ہو ،تو اس کا نماز کی ٹوپی پہننا اور جمعہ کو باقاعدگی سے نماز ادا کرنا اسے غیر سیکولر نہیں بنا سکتا۔ سیکولرازم وہ بنیادی مرض ہے جس کے زہریلے اثرات مغربی تہذیب اور مغرب کے ہر ہر شعبۂ حیات میں سرایت کر چکے ہیں، اور اب یہ زہر اس کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ اس لیے مغرب خود اپنے اس اندرونی مرض کا احساس بھی نہیں کر پاتا۔
مغرب سے مکالمے کی طرف بڑھتے وقت اس تاریخی پس منظر پر نگاہ دوڑائی جائے تو اسلام کا مکالمہ کم از کم چھے محاذوں یا چھے سطح (levels) پر کرنا ہوگا۔
ان میں سب سے اول سطح تصور حیات ہے، یعنی مغربی تہذیب جس تصور حیات کی نمایندگی کرتی ہے اور اسلام جو تصور حیات دیتا ہے، ان میں کون سی چیزیں مشترک ہیں اور کہاں پر شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ کن مقامات پرمفاہمت کی شکل کا امکان ہے اور کہاں پر کوئی تعاون نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک ان حدود کا تعین نہ کر لیا جائے مکالمہ اور مکالمے کا تذکرہ ایک نمایش سے زیادہ نہ ہو گا۔ کسی بھی سنجیدہ اور مخلصانہ کوشش کے لیے ضروری ہے کہ قواعدِ عمل اور موضوعات کا تعین پہلے کرتے ہوئے گفتگو کو انھی نکات تک محدود رکھا جائے۔
مغربی تصورِ حیات تین بنیادوں پر قائم ہے۔ اولاً: انسان کی معاشی ضروریات اس کی تمام مساعی کا محرک اور کامیابی کا پیمانہ ہیں۔ چنانچہ مادیت اور مادی ترقی زندگی کا اولین مقصد ہے۔ ثانیاً: زندگی گزارنے کے لیے خوشی اور لذت کا حصول، انسان کی تمام توجہات کا مرکز ہونا چاہیے۔ چنانچہ لذیذ کھانے، تفریحی سفر، شام کے اوقات میں ثقافت کے نام پر حصولِ لذت و خوشی کے لیے موسیقی، ڈراما اور ٹاک شوز، فیشن شوز میں شرکت ایک بنیادی داعیہ اور ضرورت ہے۔ ثالثاً: ’مذہب‘ ایک شخص کا ذاتی معاملہ ہے۔ اس لیے مذہب کو زندگی کے دیگر معاملات میں داخل ہونے سے روکا جائے اور کائنات اور انسانی معاشرہ دونوں کو کسی الٰہی ہدایت کا پابند نہ بنایا جائے ۔انسان اپنی ذاتی راے اور قوتِ فیصلہ سے اپنے معاملات طے کرے۔ اخلاق اور مذہب ایک اضافی چیز ہے۔ انفرادیت (Individualism) یا فرد کی مکمل آزادی کہ وہ جو چاہے کرے، مغربی تہذیب کی پہچان ہے۔
تصورِ حیات کی سطح پر اسلام ان تمام تہذیبوں سے اختلاف کرتا ہے، جو مغرب میں ہوں یا مشرق میں، اور جن کی بنیا داُوپر تحریر کردہ تثلیث ہو۔ اسلام انسان کو ایک اخلاقی مخلوق قرار دیتے ہوئے زندگی کے تمام معاملات عالم گیر اخلاقی اصولوں کے مطابق کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اگر جھوٹ بولنا اور عدل نہ کرنا انفرادی سطح پر غلط ہے، تو معاشرتی اور ملکی اور عالم گیر سطح پر بھی ناقابلِ قبول ہے۔ یہ وقت کے ساتھ نہ تبدیل ہوتا ہے اور نہ فرد کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنی صوابدید اور عقل کے مطابق سچ اور عدل کی تعریف کرلے۔ اسلامی تہذیب کی بنیاد ایک ایسے خالق کے وجود پر نہیں ہے جو کائنات بنانے کے بعد کسی گوشے میں آرام کر رہا ہو، بلکہ وہ حي و قیوم(زندۂ جاوید ہستی) اور عزیز و علیم(صاحب ِ اقتدار و صاحب ِ علم ہستی) ہونے کی بنا پر، ہر لمحے اپنی مخلوق کی نگرانی اور بھلائی میں مصروفِ عمل ہے۔ وہ انسان کو اس کی ضروریات کے پیش نظر ہدایت سے نوازتا ہے اور وقتاً فوقتاً الہامی ہدایت کی شکل میں عالم گیر اخلاقی ضابطہ اور قانون دیتا ہے، تا کہ معاشرے میں عدل و اخوت اور رواداری قائم ہو اور لوگوں کے حقوق پر ڈاکے نہ ڈالے جاسکیں۔ وہ اپنے بندوں کو مال، صحت اور وسائل دیتا ہے، تاکہ وہ اس کے نمایندہ اور خلیفہ ہونے کی حیثیت میں ان وسائل کو انسانیت کی فلاح کے لیے امانت کے احساس کے ساتھ توازن و اعتدال سے استعمال میں لائیں۔ اسلامی نظریۂ حیات اس دنیا کو ایک تجربہ گاہ قرار دیتے ہوئے، انسان کی محدود زندگی کا مقصد تعمیری، اصلاحی اور اخلاقی طرزِ عمل سے ایک طرف مثالی عادلانہ معاشرہ قائم کرناقرار دیتا ہے، جس میں ایک جانب انسان خوشی، لذت اور اطمینان پاتا ہے اور دوسری طرف اس دنیا میں اخلاقی طرزِ عمل اختیار کرنے کے نتیجے میں وہ آنے والی ابدی زندگی میں انسان سے بہترین اجر اور انعامات سے نوازے جانے کا حقیقی اور سچا وعدہ فرماتا ہے۔
اس حیثیت سے دیکھا جائے تو تصورِ حیات میں اختلاف کے باوجود ایسے اُمور میں جہاں انسانوں کا مجموعی مفاد ہو اسلام اور وہ تہذیبیں جو لذت، دولت اور فرد کی بنیاد پر قائم ہوتی ہیں، انتہائی محدود اور مخصوص صورتوں ہی میں تعاون علی البرّ کر سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلام سے وابستہ افراد کا یہ فریضہ بھی ہے کہ وہ اپنے تصور حیات کی وضاحت اور تعارف کے لیے دیگر تہذیبوں کے ساتھ تبادلۂ خیالات اور مکالمے کا مناسب استعمال کریں، تاکہ حق، عدل، اخوت اور عالمی انسانی برادری کے عالم گیر اصولوں پر تعاون کی فضا پیدا ہو سکے۔
مکالمے کی دوسری سطح تعلیم اور علمی تحقیق ہے، یعنی اسلام کے ماننے والے افراد اشاعت ِعلم، تصورِ علم، علم کی مختلف شاخوں اور مناہج پر عبور حاصل کرنے کے بعد نتائجِ فکر کو انسانی برادری کے سامنے پیش کریں، اور اس طرح اسلامی فکر عالمی سطح پر دیگر انسانوں کو غوروفکر اور اسلامی نظامِ حیات کی برکتوں سے متعارف کرا سکے۔ تاریخی طور پر مسلمان نہ صرف علوم اسلامی کے ماہربنے،بلکہ طب، ریاضی، طبیعیات، کیمیا اور دیگر علوم کے یورپ تک پہنچنے کا ذریعہ بنے۔ اور آگے چل کر مسلم دنیا سے مغرب کی جانب علوم کی یہ منتقلی ایک علمی مکالمے کی شکل میں یورپ کی ترقی کی بنیاد بنی اور یورپ بالخصوص علم کی استخراجی حکمتِ عملی (Deductive method) کی جگہ علم کی استقرائی حکمتِ عملی (Inductive method) سے آشنا ہُوا۔
مغرب کے ساتھ مکالمے کی تیسری سطح معیشت کا میدان ہے۔ جہاں آج اس حقیقت کے باوجود کہ یورپ و امریکا کے معاشی ادارے اور بین الاقوامی معاشی تنظیمات، مثلاً عالمی تجارتی تنظیم (WTO)، عالمی بنک اور آئی ایم ایف مغربی سامراجیت کے زیر سایہ ترقی پذیر اقوام کو معاشی محکوم بنانے میں مصروف ہیں۔ دوسری جانب مغرب میں سرمایہ دارانہ معیشت اور سودی بنکاری کی ناکامی اب نوشتۂ دیوار سے زیادہ ایک منہ بولتی حقیقت ہے۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر اسلامی معیشت کے عادلانہ اصول، اخلاقی طرزِ عمل اور شراکت کی بنیاد پر تجارت کا فروغ ایسے اصول ہیں، جو آج بھی علمی اور عملی مکالمے کے ذریعے مغرب کے سامنے پورے اعتماد اور فخر کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کے متبادل کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔
مغربی سرمایہ دارانہ معاشی نظام ہو یا ہندو بنیے اور یہودی سود خواری کا نظام، ان نظاموں کا زوال ایک زیادہ ذمہ دار متبادل معاشی نظام کی ضرورت کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ تاریخ کے اس نازک دور میں اسلام اور مغرب کا معاشی سطح پر مکالمہ اور اسلامی اصولوں کی اشاعت مغرب کے گرتے ہوئے معاشی نظام کو ایک نئی زندگی سے روشناس کر ا سکتا ہے۔
اسلام اور مغرب کے مکالمہ کی ایک اور سطح ان بنیادی اقدار کے دوبارہ متعارف کرانے کا عمل ہے جو کچھ عرصہ قبل خود مغرب میں بھی قابل احترام سمجھی جاتی تھیں، لیکن مادیت، انفرادیت اور لذتیت کی تثلیث پر ایمان و عمل نے ان اقدار کو متزلزل کر دیا ہے۔ ان اقدار میں نظامِ خاندان کا احیا اور اسلامی خاندان کے تصور کا مغرب کے سامنے پیش کیا جانا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ مغربی تہذیب ہی نہیں، کسی بھی تہذیب کی بقا اور احیا اس کی آنے والی نسلوں پر منحصر ہوتا ہے ۔ اگر آنے والی نسلوں کو اخلاقی اقدار سے روشناس نہ کرایا جائے، ان کی تربیت گھر اور تعلیم گاہ میں نہ ہو، انھیں قربانی، ایثار، حق گوئی، عدل اور رواداری کی صفات گھر کے ماحول اور تعلیم گاہ میں نظر نہ آئیں تو اس تہذیب کا زوال یقینی ہو جاتا ہے۔ مغرب اور اس کی نقالی میں بہت سی دیگر اقوام نے خاندان کے ادارے کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے، شادی دیر سے کرنے اور تنہا رہنے کے تصور کو، اور ’انسانی حقوق‘ کے نام پر حیوانی حقوق سے بھی کم تراِس تصور کو سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے یک جنسی شادی کے تصور کو یورپ اور امریکا میں قانونی تحفظ فراہم کر کے، انسانی تہذیب کی مکمل طور پر تباہی کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ روم اور یونان اپنے فلسفہ اورادب کی ترقی کے باوجود، اپنی اخلاقی بے راہ روی اور خاندان کے نظام کے تباہ ہونے کے بعد سنبھالا نہیں لے سکے، تو مشینوں پر پلنے والی تہذیب اور ٹکنالوجی پر فخر کرنے والی اقوام کب تک مشینی کُل پرزوں کے سہارے تہذیب و ثقافت کی گرتی ہوئی دیوار کو سنبھالا دے سکیں گی۔ اس مکالمے میں اسلام، مغرب کو بہت کچھ دے سکتا ہے اور عالمِ انسانیت کی بقا اور احیا کے لیے صحت مند اور آزمودہ اقدار فراہم کر سکتا ہے۔
اسلام اور مغرب کے مکالمے کی ایک سطح دہشت گردی، سفاکیت اور خودکش ذہنیت کے حوالے سے وہ غلط العام ابلاغی اور دانش ورانہ یلغار ہے، جس نے اسلام اور اسلامیان کو بہت سے مقامات پر ایک معذرت پسندانہ رویہ اختیار کرنے پر آمادہ کر دیا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ قرآن و سنت کی بنیاد پر جہاد اسلامی کی حقیقی صورت کو واضح کیا جائے، کہ یہ ظلم و استحصال اور ناانصافی کو دور کرنے ، امن، اخوت، محبت اور انسانیت کے فروغ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس بات کی فوری ضرورت ہے کہ اسلامی جہاد کے صحیح خدوخال کو واضح کیا جائے۔ اب سے تین چوتھائی صدی قبل مولانا محمد علی جوہر ؒکی خواہش پر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جو تحریر اس حوالے سے لکھی تھی (الجہاد فی الاسلام) جدید تناظر میں اسی معیار اور وزن کی علمی تحریر کے ذریعے اس سطح پر مکالمے کی ضرورت ہے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ابلاغِ عامہ جس تکرار کے ساتھ بعض الزامات کو دہراتا رہا ہے، حتیٰ کہ بہت سے صحیح الفکر افراد بھی اس مغالطے میں آ چکے ہیں کہ اسلام شدت پسندی اور دہشت گردی کو گوارا کرتا ہے، اس پروپیگنڈے کا علمی سطح پر جواب دیا جائے اور مغرب کے دانش وروں اور ابلاغ عامہ کو اس طرف متوجہ کیا جائے۔ یہ نہ صرف دو تہذیبوں کے باہم افہام و تفہیم کے لیے بلکہ خود دعوتِ اسلامی کے مستقبل کے لیے غیرمعمولی اہمیت کا حامل موضوع ہے اور اس پر بلاکسی تاخیر کے علمی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
خواتین کے حوالے سے مغرب اور مغرب زدہ مسلمانوں نے جن شبہات اور اعتراضات کو بار بار دہرایا ہے ان پر بھی مکالمے کی ضرورت ہے، تاکہ ہر دو جانب سے رجوع کے بعد اسلام کی صحیح تعلیمات کھل کر سامنے آ سکیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام مساواتِ مرد و زَن کو بنیادی انسانی خمیر (Constituent) کی سطح پر تسلیم کرتا ہے، یعنی مرد اور عورت دونوں کا خالق اللہ ہے اور دونوں کو ایک ہی جان سے پیدا کیا گیا ہے۔ اس اصولی موقف کے بعد اسلام ہر دو صنفوں کے حقوق و فرائض اور معاشرے میں کردار کی روشنی میں عادلانہ بنیاد پر دائرۂ کار کو متعین کرتا ہے، اور اس میں بعض اوقات مردوں کو اور اکثر اوقات عورتوں کو فضیلت دیتا ہے۔ لیکن غیر مسلم تہذیبوں کے اثرات جو صدیوں سے مسلم معاشرے میں نفوذ کرتے رہے ہیں، ان کے سبب بہت سے ایسے رواج نہ صرف مسلم معاشرے میں بلکہ عالمی طور پر دیگر معاشروں میں رائج ہوگئے جن کا کوئی رشتہ اسلام سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ یہ قبائلی روایتی عصبیت اور نام نہادمردانگی کے تصور پر مبنی رویے اسلام کی بنیادی تعلیمات سے ٹکراتے ہیں، اور بعض اوقات مسلمانوں کا انھیں اختیار کرنا ایسا ہی ہے جیسے بعض مسلمان اپنے پیدایشی اسلام کے باوجود غیر اخلاقی حرکات کا ارتکاب کرتے ہوں۔ کیا ان کے اس انحراف کو اسلام سے منسوب کیا جا سکتا ہے؟ کیا ایک یورپی جو صرف اتوار کے دن چرچ جاتا ہو اور بقیہ تمام دنوں میں سخت بد اخلاقیوں کا ارتکاب کرتا ہو، تشدد کو پسند کرتا ہو، اس کے اس عمل کی بنا پر ہم عیسائیت کو اس کی بے راہ روی کا ذمہ دار قرار دے سکتے ہیں؟ لیکن جب انسانی ذہن ابلاغ عامہ کی زہر پھیلانے والی یلغار کا شکار ہو جاتا ہے تو پھر عقل کی آنکھ بند ہو جاتی ہے اور وہ محض سنی سنائی بات پر یقین کر بیٹھتا ہے۔ مغرب کے ساتھ مکالمے کا ایک اہم پہلو اسلام کے حوالے سے خواتین کے حقوق اور ان کا مقامِ فضیلت ہے جس پر غیر معمولی سنجیدگی اور توجہ کے ساتھ علمی سطح پر کام کی ضرورت ہے۔
اسلام اور مغرب کے مکالمے کے موضوعات اورکس کس سطح پر اس مکالمے کو ہونا چاہیے، کے حوالے سے ایک طویل فہرست پیش کی جاسکتی ہے لیکن ہمارا مقصود کوئی حتمی فہرست ِ موضوعات پیش کرنا نہیں، بلکہ صرف اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ ٹکرائو اور آویزش کی جگہ علمی اور فکری مکالمہ ایک ایسی تعمیری کوشش ہے جسے ہمیشہ اولیت حاصل ہونی چاہیے۔ اگر صرف ان چھے بنیادی مباحث پر علمی اور سنجیدہ مکالمے کو آگے بڑھایا جائے تو نہ صرف ان سے متعلق مغا لطوں کو دُور کیا جاسکتا ہے، بلکہ اسلام اور مغرب کی آویزش میں کمی اور افہام و تفہیم کے ذریعے اسلام کے عالمی پیغام کو متعارف کرایا جاسکتا ہے۔(بہ شکریہ مغرب اور اسلام، شمارہ ۳۹، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد)