یہ ایک ناقابل فراموش منظر تھا ۔ میران شاہ بنوں شاہراہ پر ہزاروں گاڑیاں آہستہ آہستہ رینگ رہی تھیں ۔ ٹرکوں ، بسوں ، ٹرالیوں ،منی بسوں ، کاروں اور موٹر سائیکلوں پر سوار تاحد نظر لوگوں کا ایک اژدھام تھا جو اُمڈ پڑا تھا ۔ بوڑھوں ، نوجوانوں ،عورتوں اور بچوں کے چہرے بھوک و پیاس کی تکلیف سے کرب بلا کی مجسم تصویر بنے ہوئے تھے ۔ وہ مرد جن کے سروں پر مقامی وزیرستانی کالی دھاریوں والی پگڑی عزت و وقار کی علامت ہوتی تھی، اب ننگے سر ، پریشان حال ، دھول و مٹی سے اَٹے ہوئے تھے ۔ عورتیں کالی چادریں اوڑھے ہوئے نصف چہرہ چھپائے کسی پناہ، کسی سایے کی تلاش میں تھیں اور پھول سے سرخ و سفید بچے ، پچکے گال،کملائے چہروں کے ساتھ پانی کے لیے بلک رہے تھے۔۴۳ ڈگری سنٹی گریڈ کی شدیدگرمی میں ۱۸جون کا یہ دن یقینا ان لاکھوں انسانوں کے لیے قیامت کا دن تھا ۔
پاکستان کے سات قبائلی علاقوں میں سے ایک شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا آغاز ہو چکا ہے ۔۱۵جون کو اچانک پاک فوج کے دستوں نے زمینی کارروائی ،توپخانے سے گولہ باری اور فضائی بمباری شروع کر دی ۔ اس سے چند دن پہلے قبائلی جرگے کو بلا کر ان کو ۱۵دن کا الٹی میٹم دیا گیا کہ وہ ۱۵دن کے اندر علاقے سے غیر ملکیوں اور دیگر مسلح افراد کو نکال باہر کریں وگرنہ سخت کارروائی ہو گی ۔ پھر وقت سے پہلے ہی عسکری کارروائی شروع کر دی گئی ۔ تین دن کے بعد کرفیو میں وقفہ دیا گیا اور لوگوں کو موقع دیا گیا کہ وہ محفوظ مقامات پر چلے جائیں ۔ چنانچہ لاکھوں افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر بے یارومددگار پیدل یا سوار انجان منزل کی طرف روانہ ہو گئے ۔ جن کو سواری میسر آئی وہ سوار ہو گئے اور جن کو نہ ملی وہ پیدل ہی چل پڑے ۔ مردوں اورعورتوں نے سروں پر سامان رکھا اور ہاتھوں میں چھوٹے بچوں کو اٹھایا ۔ بوڑھوں اور بچوں نے مال مویشی کی رسیاں ہاتھوں میں تھامیں اور اہل خانہ کے ساتھ اپنے محفوظ گھروں کوخیر باد کہتے ہوئے انجان منزل کی جانب روانہ ہوگئے ۔
پاکستان کے قبائلی علاقہ جات ایک طویل عرصے سے مسلح گروہوں اور پاکستانی فوج کے درمیان جار ی جنگ کا شکار ہیں ۔ فاٹا میں سات قبائلی ایجنسیاں ، باجوڑ ،مُہمند ، اورکزئی ، خیبر ، کُرم، شمالی اور جنوبی وزیرستان شامل ہیں، جب کہ پاٹا میں سوات ،دیر بالا، دیر پایان ، بونیر اور شانگلہ کے اضلاع شامل ہیں جو خیبر پختونخوا کے نیم قبائلی علاقے ہیں ۔ اس کے علاوہ فرنٹیئرریجن کے نام سے بھی چھے اضلاع میں ایسے قبائلی علاقے موجود ہیں، جو ضلعی ایڈمنسٹریشن کے ماتحت ہیں، جن میں پشاور ،کوہاٹ ، لکی مروت ، بنوں ، ٹانک او رڈیر ہ اسماعیل خان شامل ہیں۔ ان علاقوں میں گذشتہ برسوں میں فوج نے پانچ بڑے اور کئی چھوٹے آپریشن کیے ہیں۔ جن تنظیموں اور مسلح گروہوں کے حامیوں کے خلاف یہ کارروائیاں کی گئی ہیں ان میں تحریک نفاذ شریعت محمدی ، تحریک طالبان پاکستان کے مختلف دھڑے اور کئی مقامی مسلح مذہبی گروپ شامل ہیں ۔ ان علاقوں میں مسلح گروپوں کی موجودگی اور فعالیت کی ایک بڑی وجہ وہ کمزور قانونی او ر آئینی نظام ہے جو قیام پاکستان کے بعد سے ان پر نافذ ہے ۔ اس نظام کو FCR،یعنی فرنٹیئرکرائمز ریگولیشن کہتے ہیں، جو کہ انگریزدور سے ایک کالے قانون کے طور پر چلا آرہا ہے ۔
۲۰۰۱ء میں جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے اس کا ساتھ دیتے ہوئے افغان سرحد پر اپنی فوجی چوکیا ں قائم کیں، تاکہ القاعدہ اور طالبان کی جو قیادت افغانستان سے پاکستان بھاگنے کی کوشش کر ے اس کو پکڑا جائے ۔ خاص طور پر تورا بورا،ا ٓپریشن کے دوران میں پاکستانی حکام نے سرحد عبور کرنے والے کئی اہم القاعدہ رہنمائوں کو پکڑا جن میں ابوزبیدہ ، رمزی وغیرہ شامل تھے ۔ البتہ اہم ترین شخصیات اسامہ بن لادن اور ان کے معاون ایمن الزواہری ان کے قابو میں نہ آئے ۔ اسی طرح حکومت نے ان غیر ملکی جنگجوئوں کو بھی نہ پکڑاجو روسی جارحیت کے خلاف جہاد کرنے افغانستان آئے تھے اور اب پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ ان میں ازبک ، چیچن اور عرب مجاہدین شامل تھے ۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد امریکی افواج نے یہ شکایت کی کہ پاکستانی علاقوں سے ان کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں ، اس کا سدّ باب کیا جائے۔ اس طرح ۲۰۰۳ء میں پہلی مرتبہ پاکستان نے بڑی تعداد میں فوج( ۷۰؍۸۰ہزار )جنوبی وزیرستان روانہ کی جس کا مقصد یہ تھا کہ ان غیر ملکی جنگجوئوں کو قابو کرنے کے ساتھ ساتھ ان مقامی محسود قبائلی عوام پر مشتمل لشکر کا بھی خاتمہ کرے جو نیک محمد وزیر کی قیادت میں ان کی پشت پناہی کر رہے تھے ۔ پشاور کے کور کمانڈر جنرل صفدر حسین کی قیادت میں اس کارروائی کو آپریشن ’کلوشہ‘ کا نام دیا گیا اور یہ ۲۶مارچ ۲۰۰۳ء کو مکمل ہوا ۔ نیک محمد کی ہلاکت کے بعد بیت اللہ محسود نے اس قبائلی لشکر کی کمان سنبھالی جس نے فروری ۲۰۰۵ء کو ’سراروغہ‘ کے مقام پر پاکستانی فوج کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستخط کیے جس کے بعد کچھ عرصے تک محسود علاقے میں نسبتاً امن رہا ۔ مارچ ۲۰۰۷ء میں بیت اللہ محسود نے کئی مسلح گروپوں کے انضمام کا اعلان کیا اور تحریک طالبان پاکستان کے نام سے نئی تنظیم بنائی ۔
جنوری ۲۰۰۸ء میں پاکستان نے جنوبی وزیرستان میں ایک بڑے فوجی آپریشن کا اعلان کیا۔ جس کا نام آپریشن ’زلزلہ‘ رکھا گیا ۔ اس آپریشن کے دوران میں پہلی مرتبہ بڑے پیمانے پر انسانی آبادی کا انخلا ہوا تھا جن میں ۲لاکھ سے زیادہ مقامی قبائلی عوام شامل تھے ۔ اس آپریشن میں فوج کو جزوی کامیابی ملی ۔ اسی دوران تحریک طالبان کا دائرہ کار جنوبی وزیرستان سے دیگر قبائلی علاقوں میں پھیلتا چلا گیا اور خصوصاً باجوڑ ایجنسی میں فقیر محمد اور ضلع سوات میں ملا فضل اللہ اور صوفی محمد نے اپنی گرفت مضبوط کی ۔ اسی زمانے میں جہاں ایک طرف امریکا نے بغیر پائلٹ جنگی جہازوں، یعنی ڈرون حملوں کا قبائلی علاقوں میں آغاز کیا وہا ں تحریک طالبان نے بھی قبائلی علاقوں سے نکل کر ملک کے مختلف علاقوں میںمسلح کارروائیوں اور خود کش حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا ۔
۹ستمبر ۲۰۰۸ء کو پاکستانی فوج نے باجوڑ میں ایک بڑی فوجی کارروائی آپریشن ’شیر دل‘ کے نام سے شروع کر دی جو قریباً ایک سال تک جاری رہی۔ بعد میں فوج نے مہمند ایجنسی کو بھی اس آپریشن میں شامل کیا ۔ اس فوجی کارروائی کے دوران بھی باجوڑ اور مہمند ایجنسی سے لاکھوں افراد بے دخل ہوئے اور انھوں نے دیر ، ملاکنڈ، پشاور اور چارسدہ میں پناہ لی ۔ رجسٹرڈ خاندانوں کی تعدادایک لاکھ ۵ہزار تھی۔
سب سے بڑا فوجی آپریشن ’راہِ حق‘ تھا جو جنوری ۲۰۰۹ئمیں سوات میں شروع کیا گیا اور بعد میں ضلع بونیر اور ضلع دیر کو بھی جزوی طور پر اس میں شامل کیا گیا ۔ اس آپریشن کی وجہ سے پاکستانی تاریخ کا سب سے بدترین انسانی انخلا وقوع پذیر ہوا جس میں ۳۰لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے اور انھوں نے خیبر پختونخوا کے قریبی اضلاع جن میں صوابی ، مردان ، چارسدہ اور پشاور وغیرہ شامل ہیں پنا ہ لی ۔ ایک خاصی تعداد ملک کے دیگر صوبوں پنجاب اور سندھ بھی منتقل ہوئی ۔ اس انسانی المیے کے دورا ن میں پاکستانی قوم نے زبردست انسانی ہمدردی اور بھائی چارے کا مظاہر ہ کیا اور ان بے دخل ہونے والے پاکستانی بھائی بہنوں کی مدد کی ۔ جن اداروں نے قابل قدر سماجی خدمات سرانجام دیں ان میں الخدمت فائونڈیشن سرفہرست تھی۔
۱۷؍اکتوبر ۲۰۰۹ء کو پاکستان آرمی نے ایک او ر بڑی فوجی کارروائی آپریشن ’راہ نجات‘ کے نام سے ایک بار پھر جنوبی وزیرستان کو ہدف بناتے ہوئے کی۔ اس آپریشن میں پاک فوج کے ساتھ ساتھ پاکستان کی فضا ئیہ بھی شریک تھی ۔ اس کے علاوہ ٹینکوں کا بھی بڑے پیمانے پر استعمال ہوا ۔آپریشن کی کامیابی کو یقینی بناتے ہوئے بھارتی سرحد پر متعین دو انفینٹری بریگیڈ اور SSGکی بٹالین بھی استعمال کی گئیں ۔ گن شپ ہیلی کاپٹر بھی استعمال ہوئے ۔ سراروغہ، مکین اور لدھا کے علاقوں کو ہدف بنایا گیا ۔کل ۱۵بریگیڈ آرمی استعمال ہوئی ۔ جنوبی وزیرستان میں بڑی کامیابیوں کے دعوے کیے گئے ۔ لاکھوں افراد ایک بار پھر بے گھر ہوئے اور انھوں نے ٹانک ، ڈیرہ اسماعیل خان ، لکی مروت ، کرک اور بنوں کے اضلاع میں پناہ لی ۔ رجسٹرڈ خاندانوں کی تعداد ۴۱ہزار۴سو۸۹تھی ۔
اس کے بعد کے سالوں میں تمام قبائلی ایجنسیوں میں فوج اور طالبان کے درمیان یہ کش مکش جا ری رہی ۔ اس دوران میں خیبر ایجنسی کی باڑہ تحصیل اور کرزئی ایجنسی، FR،کوہاٹ و دیگر مقامات پر فوجی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہا ۔ ان تمام فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں ہر علاقے سے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں عام لوگ بے گھر ہوتے رہے ۔ معاشی تنگ دستی اور گھروں کی تباہی و بربادی نے پورے قبائلی علاقے کو ایک جہنم بنادیا۔ بچوں کی تعلیم کی بند ش اور دیگر سماجی معاشرتی برائیوں نے جنم لیا ۔ بدا منی اور قتل و غارت گری ایک معمول بن گئی ۔ بندوبستی علاقوں میں بم دھماکوں، خودکش حملوں ،پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں پر مسلسل حملوں نے پوری قوم کو ایک شدید عذاب اور اضطراب میں مبتلا کر دیا۔ اس دوران میں قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کا سلسلہ بھی جاری رہا جس میں املاک کی تباہی کے ساتھ ساتھ انسانی جانوں کی ہلاکت ہزاروں تک پہنچ گئی، جن میں معصوم بچے ،گھر وں میں مقیم خواتین اور امدادی کارکن بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔
موجودہ آپریشن کو ’ضرب عضب‘ کا نام دیا گیا ہے ۔ یہ کافی عرصے کی تیاری اور پس و پیش کے بعد کیا جا رہا ہے ۔ کئی سالوں سے یہ امریکی مطالبہ تھا کہ شمالی وزیرستان میں بھر پور فوجی آپریشن کیا جائے ۔ ان کو تحریک طالبان کے ساتھ حقانی نیٹ ورک سے بھی شکایت تھی کہ افغانستان میں امریکی مفادات کے خلاف کارروائیوں میں ان کا اہم کردار ہے جس کا ہیڈ کوارٹر شمالی وزیرستان میں واقع ہے ۔ ایک طویل عرصے تک گومگو کی کیفیت رہی جس میں پاکستانی حکومت مسلسل امریکی دبائو میں رہی۔ اس دوران میں پاکستانی راے عامہ بھی فوجی آپریشن کو ناپسند یدہ قرار دیتی رہی۔ دینی و سیاسی جماعتوں کا بھی مطالبہ تھا کہ ایسا نہ کیا جائے ۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ ایسے حالات و واقعات پیش آتے رہے جس سے راے عامہ بدلنا شروع ہوئی ۔ اس دوران میں طالبان سے مذاکرات کا ایک اہم فیصلہ بھی ہوا لیکن اسی دوران ہی اندازہ ہو گیا کہ فوجی قیادت مذاکرات کے حق میں نہیں۔ پھر بدامنی، دھماکوں اور حملو ں کے مسلسل ایسے خون ریز واقعات رُونما ہوئے جس نے راے عامہ کو متاثر کیا ۔ خاص طور پر کراچی ائر پورٹ پر حملے میں ازبک جنگجوئوں کو استعمال کیا گیا۔ اس نے آیندہ لائحہ عمل واضح کر دیا اور طبل جنگ بجا دیا گیا ۔ جو پارٹیاں پہلے سے آپریشن کے حق میں تھیں انھوں نے بغلیں بجائیں اور جو اس کے خلاف تھیں انھوں نے خاموشی اختیار کی اور بالآخر بھر پور فوجی آپریشن کا آغاز ہو گیا۔حسب ِتوقع امریکی حکومت نے اس آپریشن کی تائید کی اور کولیشن سپورٹ فنڈ سے اس کی مالی معاونت کا اعلان بھی کیا ۔
شمالی وزیرستان کا کُل رقبہ ۳ہزار ۷۰۷مربع کلومیٹر ہے جو بلند و بالا خشک پہاڑی سلسلوں اور دروں پر مشتمل ہے ۔ درمیان میں دریاے ٹوچی بہتا ہے ۔اس کی ۱۰تحصیلیں ہیں ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق آبادی ساڑھے ۷ لاکھ ہے لیکن غیر سرکاری اندازوں کے مطابق ۹سے ۱۰لاکھ کے درمیان ہے ۔ ایجنسی ہیڈ کوارٹر میران شاہ ہے جس میں ایک بڑا بازار ہے ۔ اس کی آبادی ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔ دوسرا بڑا شہر میر علی ہے ۔ میر علی قریبی ضلع بنوں سے ۳۴کلومیٹر ،جب کہ میران شاہ ۶۱کلومیٹر پر واقع ہے ۔ شمالی وزیرستان کی آبادی اتمانزئی وزیر داوڑ قبائل پر مشتمل ہے، جب کہ چھوٹے قبیلوں میںگربز ،کارسیز ،سید گئی ،حراسین ،محسود ،بنگش وغیرہ شامل ہیں ۔ پیشہ زراعت ، ٹرانسپورٹ ، کاروبار ،مویشی پالنا اور افغانستان کے ساتھ کاروبار ہے ۔ بڑی تعداد میں لوگ بیرون ملک روزگار کی تلاش میں گئے ہیں اور وہاں سے اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں جس کی وجہ سے ایک خاصی آبادی متوسط درجے کی معاشی زندگی بسر کرتی ہے ۔ بالعموم یہ پُرامن علاقہ ہے اور لوگ باہمی جنگ و جدل اور اسلحے کے استعمال سے پرہیز کرتے ہیں ۔یہاں پر جرگہ سسٹم موجود ہے اور تمام تنازعات کے فیصلے مقامی روایات اور شریعت کے مطابق کیے جاتے ہیں ۔
۲۰۱۴ئمیں اس سے پہلے دو مرتبہ چھوٹے پیمانے پر آبادی کا انخلا ہوا تھا جب فضائی بمباری کی گئی تھی اور میر علی کے بازار اور بعض دیگر علاقوں کو ہدف بنایا گیا تھا جس میں میران شاہ ، بویا اور غلام خان کے علاقے شامل ہیں ۔ اس وقت دونوں مرتبہ ۲۰،۲۵ ہزار افراد بنوں پہنچے تھے لیکن اس بار پوری کی پوری آبادی نکل پڑی ہے ۔
۱۸جولائی تک رجسٹریشن کے اعداد و شمار درج ذیل ہیں:متاثرین کی کل تعداد ۹لاکھ ۹۳ہزار ۱۶۶ہے۔ اس میں بچوں کی تعداد ۴لاکھ ۵۲ہزار ۳سو ۶۹ہے ۔ کل خاندان جو رجسٹرڈ ہوئے ہیں ان کی تعداد ۹۰ہزار ۸سو ۳۶ہے ۔ گویا سوات آپریشن کے بعد یہ دوسرا بڑا آباد ی کا انخلا ہے ۔
شمالی وزیرستان اور ضلع بنوں کے درمیان ایک نیم قبائلی علاقہ FRبنوں کہلاتا ہے ۔ اس میں فوج نے سید گئی کے مقام پر استقبالیہ کیمپ لگایا تھا جہاں افراد کی رجسٹریشن کی گئی ۔ اسی کے قریب بکاخیل میں ایک مکمل کیمپ بھی بنایا گیا جس میں کھلے میدان میں ۵۰۰کے قریب خیمے لگائے گئے ہیں۔ لیٹرین وغیرہ کی سہولت بھی موجود ہے۔ اس کیمپ میں بہت کم افراد نے سکونت اختیار کی ہے اور اس کی اب صرف نمایشی حیثیت ر ہ گئی ہے جس کو سرکاری زعما کے دوروں کے دوران فوٹو سیشن کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ بے دخل افراد کو رجسٹریشن کے وقت ۱۲ ہزارروپے نقد دیے جا رہے ہیں۔ ۲۷جون کو وزیر اعظم پاکستان کے دورے کے موقعے پر انھوں نے رمضان کے دوران فی خاندان ۴۰ہزار روپے کا اعلان کیا ۔ لیکن اس کی تقسیم کا خاطر خواہ انتظام نہ کیا جا سکا ۔ اب ایک چینی موبائل کمپنی زونگ کے ذریعے اس رقم کو تقسیم کرنے کا بندوبست کیا گیا ہے لیکن کم ہی لوگ اس سے استفادہ کر سکے ہیں۔ حکومت پنجاب نے بھی اضافی ۷ہزار روپے کا اعلان کیا ہے جو زونگ Time Pay کے ذریعے تقسیم ہوں گے ۔ متاثرین نے شمالی وزیرستان سے نکلنے اور رجسٹریشن کے عمل سے گزرنے کے بعد اپنی مرضی سے صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں کا رخ کیا اور جس کو جہاں سہولت میسر آئی وہاں چلا گیا ۔ بنوں کے سرکاری اسکولوں میں چند کیمپ موجود ہیں۔ لیکن وہاں سے بھی لوگ دوسرے مقامات پر جارہے ہیں ۔
بین الاقوامی اداروں میں ورلڈ فوڈ پروگرام نے خشک خوراک کے پیکٹ تقسیم کیے ہیں، جب کہ ICRC نے بھی نان فوڈ آئیٹم اور طبی شعبے میں امداد ی سرگرمیاں کی ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں میں صوبائی محکمہ صحت نے مریضوں کو صحت کی سہولتیں بہم پہنچانے کا بندوبست کیا ہے ۔ ایک قابل توجہ بات یہ ہے کہ جہاں پاک فوج شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف بھر پور جنگی کارروائی میں مصروف ہے وہاں امدادی سرگرمیاں بھی اسی کے زیرانتظام ہو رہی ہیں اور سویلین ادارے اس کام سے باہر نظر آتے ہیں ۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ پاکستان کے سول ادارے اور سماجی بہبود کے محکمے اگر ایسے اہم موقعے پر اپنا کردار ادا کرنے سے محروم رہیں تو پھر ان کا مقصد وجود ہی ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے ۔
الحمد للہ ملک کی سب سے بڑی سماجی تنظیم الخدمت فائونڈیشن نے اول روز سے متاثرین آپریشن کی امداد کا بیڑا اٹھایا اور اب تک پورے جوش و خروش سے سرگرم عمل ہے ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر محترم سراج الحق صاحب نے آپریشن شروع ہونے کے فوراً بعد المرکزاسلامی پشاور میں ایک مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ فوجی آپریشن پر تحفظات کے باوجود ہم متاثرین کی خدمت میں کوئی کمی نہیں کریں گے اور جماعت کے تمام کارکنان کو ہدایت کی کہ وہ فوراً بنوں پہنچ کر اپنے بھائی بہنوں کی مدد کریں ۔ چنانچہ الخدمت فائونڈیشن کے مرکزی صدر ڈاکٹر حفیظ الرحمن ، صوبائی صدر نورالحق اور فاٹا الخدمت کے صدر اول گل آفریدی کی قیادت میں الخدمت کے رضاکاروں اور جماعت اسلامی کے کارکنان نے موقعے پر پہنچ کر کام کو سنبھالا ۔ سیدگئی کے مقام سے ان کو آگے جانے کا موقع نہیں دیا گیا لیکن اس جگہ سے بنوں شہر تک جگہ جگہ استقبالیہ کیمپ لگائے گئے ۔ یہاں آنے والے مہمانوں کو پانی کی بوتلیں اور تیار کھانا دینا شروع کیا گیا۔ الخدمت فائونڈیشن کی ۲۵؍۳۰ ایمبولینسوں نے اس ریلیف آپریشن میں اہم کردار ادا کیا اور انھوں نے مریضوں کو اٹھانے کے ساتھ ان بوڑھوں عورتوں اور بچوں کو بھی ایمبولینس میں سوار کر کے شہر تک پہنچایا جو میلوں پیدل چل کر سید گئی تک پہنچے تھے ۔ ان کیمپوں میںان جانوروں کے لیے پانی اور چارے کا بندوبست بھی کیا گیا جو متاثرین اپنے ساتھ پیدل چلا کر لائے تھے ۔ معلوم ہوا کہ ایسے کئی جانور راستے میں بھوک و پیاس کی وجہ سے ہلاک بھی ہو چکے تھے ۔ تینمقامات پر میڈیکل کیمپوں کا بھی انتظام کیا گیا ۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسو سی ایشن (پیما) نے بھی طبی سہولتیں بہم پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ ضلع امیر مفتی صفت اللہ اور الخدمت فائونڈیشن ضلع بنوں کے پر عزم صدر عزیز الرحمن قریشی اور ان کی ٹیم نے شبانہ روز محنت کر کے ہزاروں متاثرین کی خدمت کی ۔ صوبائی امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان بھی اس پورے عرصے میں کام کی نگرانی کرتے رہے ۔
بنوں کے اسکولوں میں متاثرین کو آباد کیا گیا اور وہاں ان کو تیار کھانا پہنچایا گیا۔ جن کو ٹرانسپورٹ کی ضرورت تھی فراہم کی گئی ۔ رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو چکا تھا اور متاثرین کو سحر و افطار کے لیے کھانے پینے کی اشیا درکار تھیں ۔ اس لیے الخدمت فائونڈیشن نے فوری طور پر خوراک کے راشن پیک تیار کر کے تقسیم کرنے شروع کیے اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے ۔ ۱۰ہزار سے زائد خاندانوں کو راشن مہیا کیا جا چکا ہے ۔ الخدمت کے ساتھ جن اداروں نے اس امدادی مہم میں ساتھ دیا ان میں کراچی کی عمیر ثنا فائونڈیشن ،ترکی کی جانسو اور یارد ملی و دیگر کئی ادارے شامل ہیں۔ پاکستان کی جن دیگر تنظیموں نے قابل ذکر کام کیا ہے اس میں فلاح انسانیت بھی شامل ہے ۔
پورے پاکستان سے جماعت کی تنظیموں نے فنڈز جمع کیے ہیں ۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی کمیونٹی نے بھی عطیات روانہ کیے ہیں۔ حلقہ خواتین اور الخدمت خواتین ٹرسٹ بھی سرگر م عمل ہے لیکن کام بہت بڑا ہے ۔ ایک ملین آبادی کی ضروریات پوری کرنا جو پوری طرح بے یار و مدد گار ہیں۔ اپنے گھروں ، آمدن کے ذرائع ، مال و متاع سے محرو م ہو چکے ہیں۔ ان کے لیے سامان زیست فراہم کرنا کسی کے بس میں نہیں، اور معلوم نہیں کہ کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ بس ایک قادر مطلق ذات ،رب کریم ،خالق کائنات کا سہار ا ہے ۔ وہی عطا کرنے والا ہے اسی پر بھروسا ہے۔