جون ۲۰۱۳

فہرست مضامین

عراق: پھر آگ و خون کی زد میں

سمیع الحق شیرپاؤ | جون ۲۰۱۳ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

گذشتہ دنوں سے عراق ایک مرتبہ پھر عالمی ذرائع ابلاغ میں نمایاں ہو رہا ہے ۔ امریکی انخلا کے بعد بظاہرلگتا تھا کہ عراق بتدریج پُرامن جمہوری راستے کی طرف بڑھے گا،لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ عراق پر امریکی قبضے کے بعد اس پر کئی عالمی رپورٹیں سامنے آچکی ہیں کہ امریکی عراق کو تین حصوں: کردستان،سُنّی اور شیعہ عراق میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔

حکومت مخالف تحریک روز بروز تیز ہوتی جارہی ہے۔سُنّی آبادی کی طرف سے مسلسل یہ شکایات آرہی تھیں کہ انھیں نظرانداز کیا جارہا ہے۔موجودہ حکومت میں ان شکایات میں اضافہ ہوا اور نوبت احتجاجی دھرنوں اور مظاہروں تک پہنچ گئی۔حکومت کی جانب سے مظاہرین کے ساتھ  سختی سے نپٹنے کا رویہ اپنایا گیا جس سے سنیوں میں غم وغصے کی لہر شدید ہوگئی۔گذشتہ چارماہ سے جاری احتجاج میں اب تک سیکڑوں افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ درجنوں مساجد شہید کردی گئی ہیں اور بم دھماکوںکی وجہ سے املاک عامہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔

  •  اھل سنت کے مطالبات: اہل سنت کی جانب سے مطالبہ کیاجارہا ہے کہ حکومتی جیلوںمیں قید سنیوں خاص طور سے خواتین کو فی الفور رہا کیا جائے ۔ جیلوں میںخواتین کی عصمت دری کرنے والوںکو کیفر کردار تک پہنچایا جائے ۔دہشت گردی کے حوالے سے دستور کی دفعہ ۴ میں ترمیم اور خفیہ جاسوسی کے قانون کو ختم کیا جائے، نیز اہل سنت کو سرکاری عہدوں سے دُور رکھنے کے رویے کو ترک کیا جائے۔ علاوہ ازیں ملازمتوں کے یکساں مواقع فراہم کرنے اور ریٹائرڈ ملازمین کی تنخواہوںکے حوالے سے مطالبات بھی شامل ہیں۔ حکومت نے یہ مطالبات تسلیم نہ کیے تو مظاہرین کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کہ وزیر اعظم کو تبدیل کرنے اور ایسے شخص کو حکمران بنانے کے لیے آواز اٹھائیں جس پرپوری قوم اور تمام سیاسی قائدین متفق ہوں، یا یہ کہ عراق کو تین ملکوں میں تقسیم کردیا جائے تاکہ ہر ایک اپنی مرضی کی حکومت قائم کرسکے۔تیسرایہ کہ یہاں متحدہ عرب امارات کے طرز پرخودمختار ریاستیں قائم کی جائیں، یا پھر حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا جائے۔ مظاہرین پر وحشیانہ تشدد اور انھیں بموں سے اڑانے کے مسلسل واقعات کے بعد مظاہرین حکومت گرانے یا الگ آزاد سُنّی ریاست کے قیام سے کم پر راضی نہیں ہیں۔
  • احتجاجی مظاھرے: اپنے مطالبات کے حق میںگذشتہ کئی ماہ سے اہل سنت آبادی نے ملک گیر پُرامن احتجاجی دھرنوں کا آغاز کیاہے۔ہر ہفتے نماز جمعہ کے بعد تمام اہل سنت مساجد سے ایک ہی موضوع پر خطبۂ جمعہ سن کر پورے ملک میں کھلے میدانوںمیں آکر جمع ہوتے ہیں۔ پُرامن مظاہروں کے اس سلسلے کو روکنے کے لیے ان میںخوں ریز بم دھماکوں کا عنصر شامل کردیا گیا۔ گذشتہ ماہ کرکوک کے شہر حویجہ میں ایک احتجاجی ریلی میں شریک ۲۰۰؍ افراد کو شہید کردیا گیا۔    اس کے ساتھ پکڑدھکڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے اور سُنّی مرد وخواتین سے جیلیں بھر دی گئی ہیں۔  احتجاجی مظاہروں کو کچلنے میں عراقی اور ایرانی ذمہ داران کی طرف سے عالمی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
  • عراق کی تقسیم: عراق کی تقسیم در تقسیم کے اس منصوبے کو مذہبی اور نسلی بنیادوں پر مسلسل آگے بڑھایا جارہا ہے۔ کہیں کردوں اور عرب کی لڑائی ہے، کہیں پر شیعہ سُنّی جھگڑا ایک خطرناک فتنے کی صورت اختیار کر گیا ہے ۔کہیں عرب اور فرس اقوام آمنے سامنے ہیں تو کہیں پڑوسی ممالک چھوٹے چھوٹے سرحدی تنازعات کی آگ بھڑکارہے ہیں۔ عراق میںیہ تمام تر اختلافات عروج پر ہیں۔

صدام کے بعد عراق میںجتنی حکومتیں برسراقتدار آئی ہیںوہ شیعہ حکومتیں ہیں۔ تجزیہ نگار  یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ عراق میں واقعی شیعہ آبادی اتنی اکثریت اور قوت رکھتی ہے کہ ہر انتخابی کھیل میں وہی برسر اقتدار آئیں۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس پورے عرصے میں دونوںطرف (شیعہ اور سُنّی) سے لاکھوں افراد موت کے گھاٹ اُتارے جا چکے ہیں۔

عراق عملًا تین حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔کردستان اپنی الگ شناخت ، الگ پارلیمنٹ، الگ پرچم اور الگ حکومتی ڈھانچے کے ساتھ کسی بھی وقت باقی ملک سے کاٹ دیے جانے کے لیے تیار ہے۔ باقی ملک شیعہ اور سُنّی کی واضح تقسیم کی نذر کیا جاچکا ہے۔ اہل سنت آبادی جو کہ اکثریت رکھتی ہے ‘شاکی ہے کہ ان پر شیعہ حکومت مکمل طور پر ایرانی سرپرستی کے ساتھ مسلط رکھی جا رہی ہے۔ ملک کے سُنّی نائب صدر طارق الہاشمی پر مختلف گھناؤنے الزامات لگا دیے گئے، جو انھیں گرفتار کرنے اور سزاے موت دینے کے مطالبے کی صورت میں سامنے آئے۔ طارق الہاشمی اپنے آپ کو بچانے کے لیے بمشکل پہلے کرد علاقے اور پھر مختلف پڑوسی ممالک میں جاکر پناہ لینے پر مجبور کردیے گئے۔

  • ایرانی مداخلت:  ایران کے پاسداران انقلاب کے ایک اہم ذمہ دار جنرل ناصر شعبانی کا روزنامہ اخبار روز کو دیا گیا یہ بیان کہ’’ کرکوک شہر کے کھلے میدان کو باغی وہابیوں سے آزاد کروانے میں عراقی حکومت کا مکمل ساتھ دیا‘‘، عرب اخبارات اور جرائد میں نمایاں طور پر شائع ہوا۔

 کویت سے شائع ہونے والے ہفت روزہ المجتمع نے اپنے شمارہ نمبر :۲۰۵۱، ۴ تا ۱۰مئی ۲۰۱۳ء میں ایک چشم کشا رپورٹ شائع کی ہے جس میںناصر شعبانی کے حوالے سے پُرامن مظاہروں کو کچلنے کا صرف اعتراف ہی نہیں کیا بلکہ اسے دونوںملکوں کے مشترکہ مفاد میں قرار دیا ہے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین  نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ عراق میں اصل حکمران ایرانی فوج کے ایک اہم ذمہ دار قاسم سلیمانی ہیں۔صرف یہی نہیں مذکورہ شخص لبنان، افغانستان اور شام میں ایرانی ایجنڈے کو نافذ کرنے پر بھی مامور ہے۔  رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ایران نے پاس داران انقلاب اور اعلیٰ فوجی افسران کے کئی وفود عراقی حکومت کی مدد کے لیے بھیجے ہیں جنھوں نے عراقی ذمہ داران کے ساتھ مل کر مظاہرین کو کچلنے کے لیے عراقی حزب اللہ، البدر فورس اور جیش المہدی کے ساتھ مل کر پلان ترتیب دیے۔

ا س پورے فتنے سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ برادر ملک عراق کے تمام شہری ، سیاسی جماعتیں اور دوست پڑوسی ممالک باہمی احترام کی پاس داری اور عراق کی خود مختاری کااحترام کریں۔عراق کے اندرونی معاملات اورملکی امور میں مداخلت نہ کریں۔یہ بات طے ہے کہ عراق جیسے اہم برادر ملک کو ایک دفعہ پھر پورے عالم اسلام میںفتنوں اور اختلافات کا ایندھن بنانے سے تمام تر نقصان اُمت مسلمہ کا ہی ہوگا۔