گذشتہ دنوں سے عراق ایک مرتبہ پھر عالمی ذرائع ابلاغ میں نمایاں ہو رہا ہے ۔ امریکی انخلا کے بعد بظاہرلگتا تھا کہ عراق بتدریج پُرامن جمہوری راستے کی طرف بڑھے گا،لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ عراق پر امریکی قبضے کے بعد اس پر کئی عالمی رپورٹیں سامنے آچکی ہیں کہ امریکی عراق کو تین حصوں: کردستان،سُنّی اور شیعہ عراق میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔
حکومت مخالف تحریک روز بروز تیز ہوتی جارہی ہے۔سُنّی آبادی کی طرف سے مسلسل یہ شکایات آرہی تھیں کہ انھیں نظرانداز کیا جارہا ہے۔موجودہ حکومت میں ان شکایات میں اضافہ ہوا اور نوبت احتجاجی دھرنوں اور مظاہروں تک پہنچ گئی۔حکومت کی جانب سے مظاہرین کے ساتھ سختی سے نپٹنے کا رویہ اپنایا گیا جس سے سنیوں میں غم وغصے کی لہر شدید ہوگئی۔گذشتہ چارماہ سے جاری احتجاج میں اب تک سیکڑوں افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ درجنوں مساجد شہید کردی گئی ہیں اور بم دھماکوںکی وجہ سے املاک عامہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔
صدام کے بعد عراق میںجتنی حکومتیں برسراقتدار آئی ہیںوہ شیعہ حکومتیں ہیں۔ تجزیہ نگار یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ عراق میں واقعی شیعہ آبادی اتنی اکثریت اور قوت رکھتی ہے کہ ہر انتخابی کھیل میں وہی برسر اقتدار آئیں۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس پورے عرصے میں دونوںطرف (شیعہ اور سُنّی) سے لاکھوں افراد موت کے گھاٹ اُتارے جا چکے ہیں۔
عراق عملًا تین حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔کردستان اپنی الگ شناخت ، الگ پارلیمنٹ، الگ پرچم اور الگ حکومتی ڈھانچے کے ساتھ کسی بھی وقت باقی ملک سے کاٹ دیے جانے کے لیے تیار ہے۔ باقی ملک شیعہ اور سُنّی کی واضح تقسیم کی نذر کیا جاچکا ہے۔ اہل سنت آبادی جو کہ اکثریت رکھتی ہے ‘شاکی ہے کہ ان پر شیعہ حکومت مکمل طور پر ایرانی سرپرستی کے ساتھ مسلط رکھی جا رہی ہے۔ ملک کے سُنّی نائب صدر طارق الہاشمی پر مختلف گھناؤنے الزامات لگا دیے گئے، جو انھیں گرفتار کرنے اور سزاے موت دینے کے مطالبے کی صورت میں سامنے آئے۔ طارق الہاشمی اپنے آپ کو بچانے کے لیے بمشکل پہلے کرد علاقے اور پھر مختلف پڑوسی ممالک میں جاکر پناہ لینے پر مجبور کردیے گئے۔
کویت سے شائع ہونے والے ہفت روزہ المجتمع نے اپنے شمارہ نمبر :۲۰۵۱، ۴ تا ۱۰مئی ۲۰۱۳ء میں ایک چشم کشا رپورٹ شائع کی ہے جس میںناصر شعبانی کے حوالے سے پُرامن مظاہروں کو کچلنے کا صرف اعتراف ہی نہیں کیا بلکہ اسے دونوںملکوں کے مشترکہ مفاد میں قرار دیا ہے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ عراق میں اصل حکمران ایرانی فوج کے ایک اہم ذمہ دار قاسم سلیمانی ہیں۔صرف یہی نہیں مذکورہ شخص لبنان، افغانستان اور شام میں ایرانی ایجنڈے کو نافذ کرنے پر بھی مامور ہے۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ایران نے پاس داران انقلاب اور اعلیٰ فوجی افسران کے کئی وفود عراقی حکومت کی مدد کے لیے بھیجے ہیں جنھوں نے عراقی ذمہ داران کے ساتھ مل کر مظاہرین کو کچلنے کے لیے عراقی حزب اللہ، البدر فورس اور جیش المہدی کے ساتھ مل کر پلان ترتیب دیے۔
ا س پورے فتنے سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ برادر ملک عراق کے تمام شہری ، سیاسی جماعتیں اور دوست پڑوسی ممالک باہمی احترام کی پاس داری اور عراق کی خود مختاری کااحترام کریں۔عراق کے اندرونی معاملات اورملکی امور میں مداخلت نہ کریں۔یہ بات طے ہے کہ عراق جیسے اہم برادر ملک کو ایک دفعہ پھر پورے عالم اسلام میںفتنوں اور اختلافات کا ایندھن بنانے سے تمام تر نقصان اُمت مسلمہ کا ہی ہوگا۔