سوال: عموماً کہا جاتا ہے کہ فی زمانہ مادیت کا غلبہ ہے روحانیت نہیں رہی۔ سوال یہ ہے کہ: روحانیت کیا ہے
جواب: روحانیت،ایمان اور نورِ ایمان کا نام ہے۔ جب ایمان قوی ہوجاتا ہے تو پھر اعمال اسی طرح صادر ہوتے ہیں جس طرح زیرزمین پانی جوش مارتا ہے تو چشمہ پھوٹ پڑتا ہے اور پھر جاری و ساری ہوجاتا ہے۔ یہ مضمون قرآنِ پاک میں بھی پوری تفصیل سے بیان ہوا ہے اور احادیث میں اس کے لیے ایک مستقل کتاب ہے جسے کتاب الایمان کہا جاتا ہے۔ انسان روح اور جسم کا مرکب ہے۔ روح کی غذا ایمان ہے اور جسم کی غذا عمل ہے۔ ایمان کی وجہ سے روح میں روحانیت ہوتی ہے اور عمل کی وجہ سے جسم اسلام کا مظہر ہوتا ہے۔
اس مسئلے کو حدیث جبریل ؑ میں اچھی طرح واضح کیا گیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان عقیدے کا نام ہے اور اسلام عمل کا نام ہے، اور احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت اس طرح کی جائے گویا انسان اللہ کو دیکھ رہا ہے، اور اگر یہ کیفیت اپنے اُوپر طاری نہیں کرسکتا تو پھر یہ کیفیت تو ایک حقیقت ہے کہ اللہ انسان کو دیکھ رہا ہے، لہٰذا اس کیفیت کو اپنے اُوپر طاری کرے۔ جب آدمی پر ان کیفیتوں میں سے کوئی کیفیت طاری ہوجاتی ہے تو اسے ایمان اور اسلام کا کمال کہا جاتا ہے اور اس وقت آدمی جو عبادت کرتا ہے اس میں اعلیٰ درجے کا خشوع اور خضوع اور اخلاص ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے عمل بھی کامل درجے کا ہوتا ہے۔ نماز پڑھے گا تو وہ عام نماز نہ ہوگی بلکہ وہ مومن کی معراج ہوگی، اور روزہ ہوگا تو عام روزہ نہ ہوگا بلکہ تزکیۂ نفس کا اُونچا مرتبہ ہوگا، علیٰ ہذا القیاس۔ حج، زکوٰۃ، معاشرت، معیشت، سیاست، تمدن، حکومت ہر چیز قربِ الٰہی کی بلند ترین چوٹی ہوگی۔
اس کے بعد ترتیب کے ساتھ آپ کے سوالوں کا جواب عرض ہے:
۱- روحانیت ایمان کے بغیر نہیں ہوتی اور ایمان ہی روحانیت کی اساس ہے، اور عرفِ شرع میں روحانیت سے مراد یہ ہے کہ آدمی علم کے اس مرتبے پر فائز ہو جو ایمان کی شکل میں ڈھل جاتا ہے اور پھر وہ قوتِ متحرکہ بن کر زندگی کی گاڑی کو چلاتا ہے۔ وہ قربِ الٰہی کی منازل طے کرنے میں مصروف ہوتا ہے، دن ہو یا رات، سفر ہو یا حضر، خلوت ہو یا جلوت، اس کی سیر جاری رہتی ہے۔ اسے سالک کہا جاتا ہے اور اس کی رفتار کو سلوک کہا جاتا ہے۔ وہ جلوت میں ہوکر بھی خلوت میں ہوتاہے۔ وہ ہرلحظہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
۲- روح اور روحانیت میں تعلق یہ ہے کہ روحِ بدن کے لیے زندگی ہے، جب کہ روحانیت روح کے لیے قوتِ محرکہ ہے۔ روحانیت نہ ہو، یعنی ایمان نہ ہو، تو پھر روح بدن کے لیے زندگی کا باعث تو ہے لیکن یہ زندگی ایک حیوان کی سی زندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سمجھتے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں‘‘۔(اعراف ۷:۱۷۹)
۳- اگر کوئی شخص فرائض، واجبات، سنن و مستحبات کا پابند ہے، منکرات سے بچتا ہے، نیکی اس کی طبیعت میں رچی بسی ہے، نیکی کرکے اسے مسرت اور بُرائی کر کے تکلیف ہوتی ہے تو اس میں روحانیت ہے۔ یہ وصف جس قدر زیادہ ہوگا اس قدر اس میں روحانیت ہوگی۔ حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ ایمان کیا ہے؟ اس پر آپؐ نے فرمایا: ’’جب تجھے تیری نیکی خوش کردے اور تیری بُرائی تجھے تکلیف دے، غمگین کردے تو تومومن ہے۔ انھوں نے سوال کیا: یارسولؐ اللہ! گناہ کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: جب ایک چیز کے بارے میں تیرے دل میں خلجان ہو کہ یہ صحیح ہے یا غلط تو اسے چھوڑ دے‘‘ (رواہ احمد، مشکوٰۃ، کتاب الایمان)۔ گناہ سے بچنے کا آپؐ نے آسان نسخہ بتلادیا کہ صرف ایسے کام کو کرو جس کے جائز ہونے کا یقین ہو اور جس کے جواز میں تردد ہو تو اسے چھوڑ دو۔ گناہ سے بچ جائو گے اور نیکیاں ہی نیکیاں سمیٹتے رہو گے۔
۵- سالک سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے احکام کی پیروی میں رواں دواں ہے اور آپ کے اسوئہ حسنہ اور سنت کے مطابق دن رات بسر کر رہا ہے، اور بدعات سے مکمل طور پر اجتناب کر رہا ہے۔ مجذوب وہ ہے جو اللہ تعالیٰ، اس کے رسولؐ، اس کے دین کے عشق میں ڈوبا ہوا ہے۔ ولی وہ ہے جو ایمان و عملِ صالح اور تقویٰ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی دوستی کے مقام پر فائز ہوگیا ہے۔ سورئہ یونس میں ولی کی یوں تعریف کی گئی ہے: الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ کَانُوْا یَتَّقُوْنَ(یونس ۱۰:۶۳) ’’یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کیے ہوئے ہیں‘‘۔ قطب اور ابدال صوفیا کی اصطلاح ہیں۔ ان سے مراد یہ ہے کہ آدمی ولایت کے مقام پر ایسا فائز ہو کہ ایمان والوں کی ہدایت اور راہ نمائی کا مرکز و محور اور مرجع بن چکا ہو۔ ابدال کے بھی یہی معنی ہیں کہ ایک علاقہ اور ملک اس کی راہ نمائی اور تربیت پر جمع ہوچکا ہو۔ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، حسن بصری، فضیل بن عیاض، سعید بن جبیر، شیخ عبدالقادر جیلانی، سیدعلی ہجویری، معین الدین چشتی، شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالعزیز، شاہ اسماعیل شہید، شاہ عبدالقادر، سید احمدشہید، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا رشیداحمد گنگوہی، مولانا علامہ انورشاہ کاشمیری اور پھر عصرِحاضر میں مفکرِاسلام مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی اور امام حسن البنا شہید، روحانیت، ولایت اور اس کے مقامات پر فائز ہوکر مرجعِ خلائق اور مرجعِ ہدایت بن گئے۔
۶- ہرکلمہ گو ایمان اور عملِ صالح کا مکلف ہے اور اسی لیے وہ روحانیت کا مکلف ہے۔
۷- جہاد فی سبیل اللہ روحانیت کی بلند ترین چوٹی ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’جہاد فی سبیل اللہ، ایمان اور اسلام کی بلند ترین چوٹی ہے‘‘۔ آخرت میں فرائض ، واجبات اور اس کے سنن کے متعلق سوال ہوگا کہ یہی روحانیت کے مدارج ہیں (مشکوٰۃ، کتاب الایمان)۔ ایک عام آدمی جس کے پاس دین کا صحیح تصور ہو، عقیدۂ توحید پر قائم ہو اور فرائض، واجبات اور سنن ادا کرتا ہو، وہ روحانیت کی منزل پر فائز ہے، جیساکہ سورئہ یونس کی آیت سے واضح ہے۔ (مولانا عبدالمالک)