اللہ تعالیٰ کے کلام کی تشریح و تفسیر کا کام حضور اکرمؐ کے زمانے ہی سے شروع ہوگیا تھا۔ مسلمانوں نے اپنی فتوحات کا دائرہ وسیع کیا تو نئے نئے علاقوں میں اللہ تعالیٰ کا یہ آخری پیغام پہنچا اور ساتھ ہی اس کے مطالب کی تشریح و تفہیم کا سلسلہ بھی قائم ہوتا گیا۔ زیرتبصرہ کتاب میں قرآنِ مجید کی ان تفاسیر کا جائزہ اور تعارف پیش کیا گیا ہے جو بیسویں صدی عیسوی میں منصہ شہود پر آئیں۔
کتاب میں مصنف نے تفسیری ارتقا کے جائزہ لیا ہے۔ مآخذ تفسیر کے ساتھ ساتھ عہدنبویؐ اور صحابہ کرامؓ کے دور کی تفسیری خصوصیات بھی تحریر کی ہیں۔ پاک و ہند میں لکھی گئی تفاسیر کے اجمالی تذکرے کے بعد بیسویں صدی کے تفسیری ذخیرے کے اوّلین نقوش واضح کیے ہیں۔
کتاب میں ۲۶ مکمل تفسیروں کا تعارف اس انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ ہرتفسیر کی خصوصیات، سنہ تکمیل اور اہم مباحث کا خلاصہ لکھنے کے ساتھ ساتھ تفسیری نمونے کا شذرہ بھی دیا گیا ہے۔ تفسیر کا مرکزی خیال لکھ کر اس کے مجموعی طرزِفکر اور اسلوبِ بیان کا اظہار بھی کیا ہے۔ حکیم سید محمد حسن نقوی کی تفسیر غایۃ البرہان فی تاویل القرآن کے بارے میں لکھا ہے: حکیم صاحب نے تصوف پر خاطرخواہ روشنی ڈالی ہے، نیز قرآنِ مجید کے فلسفیانہ مباحث کو بھی اختصار سے بیان کیا ہے۔ ثقیل اُردو زبان کا استعمال کیا گیا ہے‘‘ (ص ۱۱-۱۲)۔ دوسرے باب میں ۳۷ جزوی تفاسیر کا اجمالی تذکرہ کیا گیا ہے۔ تیسرے باب میں تفسیری حواشی پر مشتمل ان تفاسیر کا ذکر کیا گیا ہے جو ہرچند کہ تفسیر ہی کے زمرے میں آتی ہیں لیکن مصنف کے خیال میں انھیں تفسیری حواشی کہنا مناسب ہے۔ چوتھے باب میں پوری کتاب کے حوالے دیے گئے ہیں۔مصنف نے جملہ تفاسیر کے پہلے ایڈیشن سے لے کر اس کتاب کے سالِ تصنیف تک جتنے ایڈیشن مل سکے، ان سب کے کتابیاتی کوائف بھی درج کیے ہیں۔ اسلوبِ بیان علمی وقار کا حامل ہے۔ مصنف کی تحقیقی و تنقیدی محنت قرآن کے مطالعے کے شائقین کے لیے یقینا ایک نعمت ہے۔(ظفرحجازی)
حضور اکرمؐ کی حیاتِ مبارکہ، آپؐ کی احادیث اور آپؐ کی سنت کی توضیح و تشریح کے لیے اہلِ علم ہر دور میں مستعد رہے ہیں۔ اُردو زبان میں بھی سیرت النبیؐ پر بے شمار کتابیں تحریر کی گئیں اور کتب احادیث کے تراجم و تشریحات پر مبنی متعدد کتب اہلِ علم میں متداول ہیں۔ مولانا خالدسیف اللہ رحمانی کو برعظیم کے علماے دین میں ممتاز مقام حاصل ہے۔ ان کی اس کتاب میں حضور اکرمؐ کی سیرت کے متعدد پہلوئوں پر ایمان افروز اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ کتاب کے پہلے باب میں مطالعہ سیرت کے مبادی بیان ہوئے ہیں۔ دوسرے باب میں حضور اکرمؐ کی حیاتِ مبارکہ کے واقعات قلم بند کیے گئے ہیں۔ تیسرے باب میں سیرت النبیؐ کے سبق آموز پہلوئوں کا احاطہ کیا گیا ہے اور چوتھے باب میں اُمت مسلمہ پر نبیؐ کے حقوق بتائے گئے ہیں۔
مصنف کی یہ کوشش قابلِ تعریف ہے کہ سیرت النبیؐکے واقعات کے بیان میں ان سے حاصل ہونے والے سبق کو اُجاگر کیا گیا ہے تاکہ قارئین اسے آج کی زندگی میں راہنما بنائیں۔ یہ احساس دلانے کی کوشش بھی کی ہے کہ حضور اکرمؐ پر ہمارے ایمان کا تقاضا کیا ہے۔ ہمیں اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہنا چاہیے۔ اسی ضمن میں ختم نبوت کے مباحث پر بھی خامہ فرسائی کی گئی ہے۔
اسلوبِ بیان داعیانہ اور واعظانہ ہے۔ سیرت النبیؐ کے مختلف پہلوئوں کو علمی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کوشش میں مصنف کا قلم افراط و تفریط کا شکار نہیں ہوا۔ کتاب ہرچند کہ متعدد مضامین کا مجموعہ ہے، تاہم ان مضامین میں ایک معنوی ربط موجود ہے۔ سیرت النبیؐ کے موضوع پر یہ کتاب یقینا اپنے پُراثر بیان کے باعث قارئین کو پسند آئے گی۔(ظفرحجازی)
قصہ کہانی ادب کی وہ قسم ہے جس میں انسان کی دل چسپی بالکل فطری ہے۔اس طرح بات سمجھنا اور ذہن نشین کرانا آسان ہو تا ہے۔انسانی فطرت اور کہانی کی اثر آفرینی کے پیش نظر اسلام نے اس کو تفہیم و ترتیب کا ذریعہ بنایا ہے۔
زیر نظر کتاب معروف مسلم اسکالر مصطفی محمد طحان کی کتاب التربیۃ بالقصۃ کا اُردو ترجمہ ہے۔فاضل مؤلف نے بڑی عرق ریزی سے احادیث مبارکہ میں بیان کیے جانے والے سبق آموز واقعات اور آسمان نبوت کے درخشاں ستاروں (صحابہ کرام ؓ) کی ایمان افروز داستانوں سے انتخاب پیش کیا ہے۔ہر قصے کے آخر میں اہم علمی مباحث اور عملی رہنمائی بھی دی گئی ہے۔یوں یہ کتاب قرآن و سنت کے حوالوں سے مزین ۴۰ دروس کا خوب صورت گل دستہ ہے۔دل چسپ اور منفرد انداز ِ بیان کے واقعات ذہن کو متاثر، روح کو معطر اور انسان کو آمادہ بہ عمل کرتے ہیں۔بچوں اور بڑوں کے تزکیہ و تربیت کے لیے یکساں مفید ہے۔
مترجم نے ایسی قیمتی کتاب کو اُردو کے قالب میں ڈال کر اُردو دانوں کی بڑی خدمت کی ہے۔ ترجمہ اس طرح رواں دواں اور شُستہ کہ ترجمے کا گمان نہیں ہوتا۔ یہ کتاب جمعیت طلبہ عربیہ کی رکنیت کے نصاب میں شامل کی گئی ہے۔ یہ ہر لائبریری،ہر گھر بلکہ ہر فرد کی ضرورت ہے(حمید اللّٰہ خٹک)
علامہ اقبال نے اپنی شاعری اور فکر و فلسفے کے ذریعے جہاں اُمت ِ مسلمہ کی بیداری جیسا کارنامہ انجام دیا، وہاں ان کی شاعری اُردو زبان و ادب کے فروغ کا باعث بھی بنی۔ علامہ اقبال سے پہلے اردو شاعری میں عام طور پر گل و بلبل، عاشق و معشوق اور ہجر و وصال جیسے مضامین کی کثرت تھی۔ اصلاحی شاعری کی اکا دکا مثالیں (نظیر اکبر آبادی،اکبر الٰہ آبادی اور مولانا حالی وغیرہ) اگرچہ موجود تھیں لیکن یہ علامہ اقبال ہیں جنھوں نے اُردو شاعری کو فلسفیانہ مضامین بیان کرنے کے قابل بنایا۔ انھوں نے فلسفہ و حکمت اور اصلاحِ امت کے لیے اُردو شاعری کو اظہار کا ذریعہ بنایا ۔
یہ ایم فل اقبالیات کا ایک تحقیقی مقالہ ہے جس پر علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی نے مصنفہ کو ڈگری عطا کی۔ اس میں انھوں نے علامہ اقبال سے پہلے اُردو ادب کی صورتِ حال پر نظر ڈالی ہے، بعدازاں اردو ادب کی ترویج و ترقی میں علامہ کے کردارپر بحث کی گئی ہے ۔ علامہ اقبال کے لسانی شعور ، ادبی نظریے اورزبان و بیان کی صحت کے لیے ان کی کاوشوں کو، ان کی اُردو شاعری اور مکاتیب کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ علامہ کے خطوط کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ صحت ِ زبان کے سلسلے میں نہایت حساس تھے ۔ ان کے خطوط ( بالخصوص بنام سید سلیمان ندوی اور مولوی عبدالحق) میں اصلاحِ زبان سے متعلق بہ کثرت بحثیں اور استفسارات موجود ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اُردو زبان کے مسئلے کو کس قدر اہم سمجھتے تھے۔ اسی طرح علمِ بدیع، علمِ بیان اور علمِ عروض کی اہمیت کے متعلق بھی ہمیں ان کے خطوط سے رہنمائی ملتی ہے۔
علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں ہیئتی تجربات اور اجتہادات بھی کیے جس سے اردو شاعری کو ایک نئی جہت ملی۔ بعد ازاں ان کی تقلید میں کئی ایک شعرا نے شاعری کی ۔ان کے شعری حسن اور فکر و فلسفے کی وسعت اور کثیر الجہتی تصورات کے باعث آج اقبالیات کا ایک مکمل شعبہ وجود میں آ چکا ہے اور اقبال کی فکر و فلسفے کی تفہیم کے لیے ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ ان کی انگریزی کتابوں اور خطوط کے متعدد اُردو تراجم کیے گئے ہیں۔اس شعبے میں اُردو زبان میں جتنا بھی کام ہوا ہے وہ بالواسطہ طور پرفروغِ اردو میں علامہ اقبال ہی کی دین (contribution)ہے۔
اس کتاب میں مصنفہ نے اپنے موضوع کو نہایت محنت سے سمیٹا ہے ۔ مقالے سے ان کی لگن ، توجہ اور محنت جھلکتی ہے۔ مقالے کے نگران ڈاکٹر وحیدقریشی مرحوم تھے۔ مجموعی طور پر یہ ایک عمدہ تحقیقی اور علمی کتاب اور ذخیرئہ اقبالیات میں ایک اچھا اضافہ ہے۔(قاسم محمود احمد )
عبداللہ دانش ایک عرصے سے نیویارک میں مقیم ہیں، جہاں وہ مسلکی، گروہی کشاکش اور اختلافات سے بالاتر ہوکر اسلام کو قرآن اور صاحب ِ قرآن کے اسوئہ حسنہ کی روشنی میں پیش کرتے ہیں۔ مقالاتِ دانش ان کے خطبات اور مضامین کا مجموعہ ہے۔
۳۷موضوعات، اسلام، اُمت کا تصور، علم، مقصد تعلیم، طہارت اور پاکیزگی، نماز، حج، قربانی، شادی، حکمت ، خلق عظیم، عالم کون؟ قرآن، مغربی طریقے، شیطان کے حربے، دل کی زندگی، خرابیاں، تقویٰ اور پرہیزگاری، شہد، دو مکھیوں کا تذکرہ (شہد کی اور عام مکھی) اور دیگر مختلف موضوعات اور روزمرہ مسائل پر تحقیقی اور فکرانگیز تذکرہ عام فہم انداز میں کیا گیا ہے۔ ساتھ ساتھ امریکی معاشرت اور اس کے اثرات کا بھی احسن انداز میں جائزہ لیا گیا اور اس کے کمزور پہلوئوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ طویل عرصہ امریکا میں قیام کرنے کے بعد مصنف یہ سمجھتے ہیں کہ دنیاوی طور پر سپریم پاور، ترقی یافتہ اور مہذب کہلوانے کے باوجود امریکی معاشرے کو اسلام کی ضرورت ہے جو ہرزمانے میں صراطِ مستقیم فراہم کرنے والا دین ہے۔ قرآن، حدیث، سلف کا طرزِعمل، اقبال ، حالی اور اکبر کے اشعار کے علاوہ عربی و فارسی اشعار کا بھی برمحل استعمال کیا گیا ہے۔ کتابیات سے کتاب کی افادیت اور وقعت مزید بڑھ جاتی۔(عمران ظہورغازی)
بجاطور پر شکایت ہوتی ہے کہ ڈرون حملے جیسے موضوع پر بیانات اور احتجاج ہوتے ہیں لیکن اس کے تمام پہلوئوں کا مطالعہ جیساکہ حق ہے نہیں کیا جا رہا ہے۔ حملے ہمارے ملک میں ہورہے ہیں اور کچھ معلومات ملتی ہیں تو بیرونی ذرائع سے ملتی ہیں۔ کیا جامعہ پشاور میں اس کے مطالعات کا مرکز قائم نہیں کیا جاسکتا؟ Narratives پبلشرز نے ڈرون حملے کے نام سے کتاب شائع کی تو حیرانی ہوئی۔ لیکن جب اندر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اوکسفرڈ تحقیقاتی گروپ نے جو رپورٹیں شائع کی ہیں ان کے تراجم علی عباس نے مرتب کردیے ہیں اور جیساکہ کہا گیا ہے ’’زیرنظر کتاب ڈرون حملوں کے حوالے سے چند اہم حقائق سے پردہ اُٹھاتی ہے۔ یوں یہ کتاب ڈرون حملوں پر ایک معتبر دستاویز قرار پاتی ہے‘‘۔
اس مختصر کتاب میں پانچ مختصر مضامین شامل ہیں جن کے مطالعے سے اس مسئلے کے قانونی اور بین الاقوامی پہلو واضح ہوجاتے ہیں اور متعلقہ حقائق اور اعداد و شمار بھی سامنے آجاتے ہیں۔ لکھنے والوں میں پروفیسر سوسان بریو، میری ارون سون، راشیل جوئس، پیٹربرگن، کیتھرین ٹائیڈس، سمیع یوسف زئی ہیں، جو سب اپنے میدان کے معروف نام ہیں، مثلاً پیٹربرگن سی این این کے تجزیہ نگار ’’اسامہ بن لادن جیسا مَیں جانتا ہوں‘‘ (Usama Bin Laden: as I know) کے مصنف، امریکی ادارے Counter Terrorism Initiative کے ڈائرکٹر اور نیوامریکا فائونڈیشن کے سینیر فیلو ہیں۔
سمیع یوسف زئی کے مضمون میں خودکش بم بار حنیف کی کہانی خود اس کی زبانی بیان کی گئی ہے۔ اس میں یہ دل چسپ بات بھی آئی ہے کہ حنیف نے کسی مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا اور پھر اس کی طرف پیٹھ کرکے کھڑا ہوگیا۔ اس لیے کہ پٹھان معاشرے میں دروازے کی طرف منہ کر کے کھڑے ہونا، جب کہ جواب کسی خاتون سے متوقع ہو اخلاق باختگی ہے۔ اس پیٹھ کرنے سے ہی اس نے ڈرون حملہ آنکھوں کے سامنے ہوتے دیکھا۔ ڈرون حملوں سے دل چسپی رکھنے والے ہر فرد کے لیے یہ کتاب ایک ناگزیر کتاب ہے۔ اس دستاویز کو ہم بجا طور پر ایک معروضی مطالعہ قرار دے سکتے ہیں، محض جذبات کی کارفرمائی نہیں۔(مسلم سجاد)
دنیا کا مستقبل کیا ہوگا؟ آنے والے دنوں میں کیا انقلابی تبدیلیاں رُونما ہوں گی؟ حق و باطل کے معرکے اور عالمی اسلامی نظامِ حکومت کے قیام کے امکانات کا جائزہ لیتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی جنگ (Armageddon) اور یاجوج ماجوج پر علمی و تحقیقی بحث کی گئی ہے۔ یاجوج ماجوج کے موضوع پر قرآن و حدیث کے علاوہ دیگر مذاہب میں تذکرے، اور جدید تحقیقات ایک مختلف انداز میں سامنے لائی گئی ہیں۔ ’رُوے ارضی پر نسلِ انسانی کا پھیلائو‘ باب کے تحت ۶۰۰ قبل مسیح سے تاحال انسانی تہذیب کا ارتقا اور اہم تاریخی مراحل کا جائزہ اور یاجوج ماجوج کی تباہی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ مؤلف کے نزدیک موجودہ مغربی تہذیب یاجوج ماجوج کے لشکروں ہی کا دوسرا نام ہے۔ مغربی تہذیب کا بے لباسی اور عریانیت کی انتہا پر پہنچنا اور انسانیت کا حیوانیت کی سطح تک گر جانا، درحقیقت آخری معرکے اور عالمی اسلامی نظامِ حکومت کے قیام کے مرحلے کا نزدیک آجانا ہے۔ اس اشاعت ِ خاص کا مقصد مستقبل قریب میں آنے والے حالات و واقعات کو سمجھنا ہے تاکہ اسلام کی سربلندی کے لیے جاری جدوجہد ایک نئے عزم اور ولولے سے کی جاسکے۔(امجد عباسی)