پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | جون ۲۰۱۳ | مقالہ خصوصی
عالمی تحریکات اسلامی کو اقامت ِ دین اور تبدیلیِ نظام کی جدوجہد میں عموماً پانچ بنیادی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔
اوّلین مرحلہ مقصد ِ حیات کے شعوروآگہی کے نتیجے میں اپنی فکر اور ذاتی زندگی میں اصلاح اور تزکیہ کا عمل ہے۔ اس مرحلے میںایک فرد جو کل تک روایتی مذہبی ماحول میں پل بڑھ کر زندگی کو دوخانوں میں تقسیم سمجھتا تھا کہ ایک خانہ عبادت اور تقویٰ کا ہے جس میں نمازوں کا اہتمام، روزے کی پابندی، عمرے اور حج کی سعادت اور کمائی ہوئی دولت اور کاروبار یا کاشت کاری میں سے ایک حصہ بطور زکوٰۃ کے ادا کردینا۔ یہ تمام کام اگر جزوی طور پر بھی کرلیے گئے تو ایک شخص کی شہرت دین دار فرد کی بن جاتی ہے اور وہ خود بھی مطمئن رہتا ہے کہ اُس نے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا حق ادا کردیا۔ اس کے ساتھ اگر اُس نے والدین کی خدمت سال میں ایک مرتبہ اپنے کاروباری مرکز سے جاکر ان کو شکل دکھاکر کر دی یا انھیں کوئی رقم بھیج دی تو وہ سمجھتاہے کہ اس نے تمام فرائض پورے کردیے۔ دوسرا خانہ اس کی کاروباری اور پیشہ ورانہ زندگی کا ہوتا ہے جس میں وہ بطور تاجر، بطور طبیب، بطور استاد، بطور سرکاری ملازم مقررہ وقت پر حصولِ نفع کے لیے کام کرتا ہے اور جس شعبے سے تعلق ہو اُس کے رواج کو بنیاد بناکر شہرت حاصل کرتا ہے۔ چنانچہ اگر وہ کاروباری ہے تو کاروباری برادری میں مروجہ طریقوں کی پیروی کرتا ہے، چاہے ان میں اسے جھوٹ بولنا پڑے اور اپنے مال کو فروخت کرنے کے لیے دوسروں کے حقوق کو پامال کرنا پڑے۔ وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ نفع کے حصول کی دوڑ میں شامل ہوکر دوسروں سے آگے بڑھنا اور اپنا مقام پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اگر وہ سرکاری ملازم ہے تو اپنی تمام نمازوں اور روزوں کے ساتھ وہ اپنے سے اعلیٰ افسر اور اقتدار پر قابض افراد کو اپنا مالک اور رب مانتے ہوئے ہرلمحہ ان کی خوش نودی اور بندگی کے ذریعے اپنا مقام پیدا کرنا چاہتا ہے۔ وہ ہوا کے رُخ کو دیکھ کر چلتا ہے اور حکمران جماعت کے ہرحکم کو اپنی ذہانت کے استعمال سے نافذ کرنے میں سرگرم رہتا ہے۔
زندگی کے یہ دوخانے نہ صرف عام کاروباری انسان یا پیشہ ور افراد ہی نہیں، بلکہ ان میں سے بھی کچھ جو دین کے خدمت گار سمجھے جاتے ہیں وہ بھی زندگی کو عملاً ان دو خانوں میں تقسیم کرنے کو عین دین کے مطابق سمجھتے ہیں اور اس طرح شعوری یا غیرشعوری طور پر دین و دنیا کے الگ الگ اصولوں پر عمل پیرا رہنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ چنانچہ منبرومحراب سے جس اعلاے کلمۃ الحق پر خطاب ہوتا ہے یا معاشرتی حقوق پر دل گداز اظہارِ خیال کیا جاتا ہے اپنے گھر اور اپنی برادری میں شادی بیاہ کے موقع پر ان تمام اصولوں اور خطابات کے برخلاف وہ تمام رسوم ادا کی جاتی ہیں جن کی بنیاد ہندومت، قبائلیت اور جاہلی برادری کے نظام میں پائی جاتی اور جو دین اسلام کی واضح تعلیمات سے ٹکراتی ہیں۔ ایسے تمام مواقع پر کہا جاتا ہے کہ آخر برادری میں رہنا ہے، اگر یہ سب کچھ نہ کیا گیا تو برادری والے کیا کہیں گے۔ زندگی میں یہ تقسیم آج کے دور کی پیداوارنہیں ہے۔ یہ تقسیم جب سے انسان نے شعور کی آنکھ کھولی ہے، پائی جاتی ہے۔ اسی لیے قرآن کریم نے کہا تھا کہ وَہَدَیْنٰـہُ النَّجْدَیْنِ(البلد ۹۰:۱۰) ’’ہم نے دونوں راستے دکھا دیے‘‘۔ حق و باطل کی نشان دہی اور اچھائی اور بُرائی کے راستوں کا علم ہونے کے باوجود، روایتی مذہبیت زندگی کو دوخانوں میں تقسیم کرنے میں کوئی ہرج نہیں سمجھتی بلکہ فخر سے اس بات کا اظہار کرتی ہے کہ دین و دنیا دونوں میں توازن رکھنا ہی اسلام ہے۔ چنانچہ زندگی میں تقسیم کے ذریعے بیک وقت دو خدائوں کی بندگی کرنے کے فن کو کامیاب زندگی قرار دیا جانا ہے۔ قرآن کریم دوسری جانب یہ واضح ہدایت دیتا ہے کہ اللہ وحدہٗ لاشریک کی بندگی کرتے ہوئے انسان پورے کا پورا اسلام میں داخل ہوجائے۔ ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ(البقرہ ۲:۲۰۸)، ’’اے ایمان لانے والو، تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو‘‘۔
تحریکاتِ اسلامی قرآن کریم کے اس مطالبے کو اپنی دعوت کا اوّلین نکتہ قرار دیتی ہیں اور جب بھی ایک شخص کا تحریکی شعور جاگتا ہے وہ زندگی میں اس تقسیم سے نجات حاصل کر کے اپنی ذاتی اور گھریلو زندگی میں، اپنے کاروبار اور اپنے تمام ’دنیاوی‘ معاملات میں صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا بندہ بن کر اپنے تمام معاملات کو صرف اس کی رضا کا تابع فرمان کردینے میں لگ جاتا ہے۔
تحریکِ اسلامی کی دعوت پر لبیک کہنے والوں میں ایک بڑی تعداد ان افراد کی بھی پائی جاتی ہے جو پہلے جاہلیت کی زندگی گزارتے تھے اور نجی زندگی میں بھی اسلام کے احکام اور تعلیمات کی پاسداری نہیں کرتے تھے لیکن جب اللہ نے انھیں ہدایت دی تو بتدریج انھوں نے اپنی ذاتی اور گھریلو زندگی کے تضادات دُور کرنے کی بھرپور کوشش کی اور وہ اس دعوت کے نتیجے میں ایک نومسلم کے جذبے کے ساتھ اپنی زندگی کو مکمل طور پر عبدیت میں تبدیل کرنے میں لگ جاتے ہیں۔
دوسرا مرحلہ ان کا اپنی ذات سے آگے بڑھ کر اپنے اہلِ خانہ کو اس نئے شعورِحیات سے واقف کرانا اور اپنی عملی زندگی کے نمونے کے ذریعے بندگیِ رب کی دعوت دینا ہے۔ تحریکِ اسلامی کا ہر کارکن اور ہرہم خیال فرد اللہ تعالیٰ کے سامنے اس بات پر جواب دہ ہے کہ جو ہدایت اُس تک پہنچی اس نے اسے اپنے اہلِ خانہ تک پہنچایا یا نہیں اور اپنے عمل سے کس حد تک اس دعوت کی عملی مثال پیش کی۔ اگر وہ بڑے بڑے اجتماعات میں تزکیۂ نفس پر تقاریر کرتا ہے اور گھر میں اس کا طرزِعمل ایک جابر اور نفس پرست انسان کا ہے اور وہ صرف اپنے آرام، اپنی سہولت، اپنی ذات کو اہمیت دیتا ہے تو اس نے خود ابھی تک دعوت کا صحیح شعور حاصل نہیں کیا۔ یہ مرحلہ آسان نہیں ہے، نہ مختصر ہے بلکہ مسلسل شعوری جدوجہد کا مطالبہ کرتا ہے اور عین ممکن ہے مسلسل کوشش کے باوجود بھی ایک کارکن اپنے اہلِ خانہ کو مکمل طور پر تحریکی شعور نہ دے سکے۔ قرآن کریم بعض انبیاے کرام ؑ کے واقعات بیان کرکے سمجھاتا ہے کہ یہ امکان بھی ہوسکتا ہے کہ بہترین کوشش کے باوجود ایک بیوی یا ایک بیٹا یا ایک بیٹی سربراہِ خاندان کی طرح دعوت کو اختیار نہ کرے۔ ایسی شکل میں قرآن نااُمیدی کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ آخروقت تک کوشش کرتے رہنے کا حکم دیتا ہے۔ اہم بات جو اس مرحلے میں ہرکارکن کے لیے قابلِ غور ہے وہ اس کی کامیابی سے بھی کہیں زیادہ اہم اس کی وہ پُرخلوص کوشش ہے جو اسے اِس دنیا اور آخرت دونوں جگہ بہترین اجر کا مستحق بناتی ہے، یعنی رضاے الٰہی کا حصول۔
تیسرا مرحلہ اپنے خاندان سے آگے نکل کر اہلِ محلہ اور اردگرد کے معاشرے کو دینی شعور سے آگاہ کرنے کا ہے اور اس میں سب سے زیادہ بنیادی کردار مسجد اور معاشرتی فلاح کے کاموں کا ہے۔اگر ایک کارکن مسجد میں نظر نہیں آتا اور ہر عوامی مظاہرے میں سب سے آگے دکھائی دیتا ہے تو یہ اس دعوتی مرحلے کی کمزوری کی علامت ہوگی اور ایک عام فرد اسے سیاسی کارکن تو سمجھے گا دین کا کارکن نہیں سمجھے گا۔ مسجد میں چندلمحات کے لیے قرآن کی تلاوت اور اگر ممکن ہو تو ایک ایسے حلقے کا قیام جو صرف قرآن کریم پر غور کرنے کے لیے قائم ہو، اس مرحلے کی بنیادی ضرورت ہے۔ ان تمام مشکلات کے علی الرغم جو مساجد کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں اگر حکمت سے کام کیا جائے تو قرآنی حلقے کا قیام ممکن ہے۔ آخر بعض تبلیغی جماعتوں کے افراد ہر مسجد میں کھڑے ہوکر مقررہ جملوں میں اپنی بات کہتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ایک فرد یہ بات نہ کہہ سکے کہ نماز کے بعد پندرہ منٹ کے لیے قرآنی حلقہ ہوگا اس میں شرکت کی درخواست ہے۔
اگر یہ کام خلوصِ نیت سے ذاتی اَنا کو رد کرتے ہوئے کیا جائے گا تو ان مساجد میں بھی جہاں تحریک کے ساتھ فکری ہم آہنگی موجود نہ ہو وہاں بھی ان شاء اللہ کامیابی ہوگی۔ یہاں بھی یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اگر ایک کارکن جو اہلِ محلہ سے نہ ملتا ہے نہ ان کے غم اور خوشی میں شرکت کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ مسجد میں اس کے اعلان پر لوگ درس میں شرکت کرلیں تو وہ خام خیالی میں مبتلا ہے۔ ایک کارکن کا طرزِعمل ہی اسے عوام الناس میں تحریک کی دعوت سے روشناس کرانے کا اصل ذریعہ ہوتا ہے۔
چوتھا مرحلہ اہلِ محلہ سے آگے بڑھ کر اپنے گائوں اور اپنے شہرمیں ان مواقع کا استعمال کرنا ہے جو تحریکی دعوت کو عام کرنے کا ذریعہ بن سکیں۔ یہ ماہانہ فکری حلقہ بھی ہوسکتا ہے ادبی حلقہ بھی، اور معاشرتی فلاح کے کاموں کا ایک سلسلہ بھی۔ یہ بیٹھک اسکول بھی ہوسکتا ہے۔ یہ خواتین کے لیے طبی مشورہ اور امداد کا مرکز بھی ہوسکتا ہے۔ یہ سلائی سکھانے کا ادارہ بھی ہوسکتا ہے اور یہ محلے کے بچوں یا بچیوں کو مختلف درجوں میں کوچنگ فراہم کرنا بھی ہوسکتا ہے۔ فلاحی کام وہ سنت ہیں جنھیں اگر خلوصِ نیت کے ساتھ کیا جائے تو دعوت کے پھیلنے کو کوئی نہیں روک سکتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی بوڑھی خاتون کی عیادت کرنا اور حضرت ابوبکرؓ کا خلافت کے بعد بھی ایک بوڑھی خاتون کی بکریوں کا دودھ دوہنا خدمت ِ خلق کی وہ واضح مثالیں ہیں جن پر عمل کرنا سنت پر عمل کرنا ہے۔
شہروں اور گائوں میں طبی مراکز، تعلیمی مدارس، یتامیٰ اور ناداروں کے لیے تربیتی و تعلیمی اداروں کا قیام، خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد یہ وہ اہم کام ہیں جو دعوت کے لازمی مراحل میں شامل ہیں۔ اگر تحریکی کارکن یا قائدین ایسے تعلیمی مراکز تو قائم کردیں جن میں سرکاری نظامِ تعلیم کے نصاب کے مطابق سیکڑوں اور ہزاروں بچوں کو تعلیم دی جارہی ہو لیکن ان طلبہ و طالبات کے ساتھ اساتذہ کا طرزِعمل کاروباری ہو، اور رضاے الٰہی کے حصول کی جگہ محض تنخواہ کا حصول مقصد بن گیا ہو تو پھر بظاہر تعلیمی شعبے میں کام پھیلنے کے باوجود اس کی دعوتی افادیت صفر بلکہ منفی صفر رہے گی۔ اس حوالے سے اعلیٰ ترین سطح پر اور انتظامی سطح پر یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر تحریکِ اسلامی سے وابستہ افراد کی زیرنگرانی اسکولوں کا ایک سلسلہ (chain)موجود ہے جس میں ایک ایک اسکول سسٹم نے تین تین سو اسکول قائم کررکھے ہیں تو کیا ان اسکولوں کے طلبہ و طالبات اور ان کے والدین تک دعوت مؤثر طور پر پہنچائی گئی یا نہیں؟ اگر اس بڑے دعوتی بنک کو ضائع ہونے دیا گیا اور محض ہراسکول میں طلبہ کی تعداد بڑھانے کو مقصد بنا لیا گیا تو پھر یہ دعوت سے صریح انحراف ہے۔ طلبہ کے والدین تک پیغام پہنچانے سے یہ مراد نہیں ہے کہ اسکول کے سالانہ پروگرام میں دین اسلام پر کوئی جوشیلی تقریر ہوجائے بلکہ اسکول کی نصابی سرگرمی کے علاوہ ہم نصابی سرگرمیوں کے ذریعے طلبہ و طالبات میں دین کا شعور، بنیادی تصورات کی وضاحت اور ان کے ذریعے ان کے والدین سے قریبی رابطہ تاکہ ان کے سامنے ایک ایسا عملی ماڈل آسکے جس میں تعلیم میں اعلیٰ مہارت کے حصول کے ساتھ وہ اپنے بچے میں سیرت و کردار کی تبدیلی دیکھ سکیں اور خود ان کو والدین اساتذہ اجتماعات کے ذریعے دعوت کا شعور دینا، انھیں مختلف مواقع پر دعوت دے کر تبادلۂ خیال کے ذریعے تحریک سے قریب لانا۔اگر صرف تحریکِ اسلامی کے افراد کے قائم کردہ اسکولوں میں بچوں اور ان کے والدین تک دین کا صحیح تصور دیا جائے اور عملاً اسلامی اخلاق پر عمل کیا جائے تو نتائج کے لحاظ سے یہ کسی عظیم الشان جلسے یا دھرنے سے کم مؤثر نہیں ہوسکتا۔ اگر صرف اسکولوں کے سلسلے کو صحیح طور پر استعمال کرلیا جائے تو ہزاروں لاکھوں گھروں تک اللہ کے دین کا پیغام پہنچ سکتا ہے اور یہ لوگ آخرکار اپنے سیاسی تصورات پر غور کرنے پر آمادہ ہوں گے اور ’دعوتی ووٹ‘ سیاسی ووٹ میں تبدیل ہوسکے گا۔
پانچواں مرحلہ قومی سطح پر اپنی دعوت کو مؤثر انداز میں ملک کے مختلف طبقات تک پہنچانے اور ملکی سطح پر ان افراد کو ایک تنظیم میں شامل کرنے کا ہے جو دعوت سے اتفاق رکھتے ہوں۔ یہی وہ مرحلہ ہے جس میں خود تحریکی ذہن رکھنے والے افراد خلوصِ نیت کے ساتھ ایک سے زائد طریق کار اور حکمت عملی کے ممکن ہونے کی بنا پر بعض اوقات مغالطے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس پانچویں مرحلے کے اوّلین حصے پر، یعنی اقامت دین کی دعوت کو کس طرح اس کے مخاطبین تک پہنچایا جائے؟ ایک سے زائد طریق کار کا وجود بارہا یہ سوال ذہن میں اُٹھاتا ہے کہ کیا جو طریق کار دعوت کے لیے اختیار کیا گیا ہے یہی سب سے زیادہ مناسب اور سنت انبیا کی روح اور مثال سے قریب ہے یا اس کے علاوہ دیگر طریقۂ ہاے کار بھی حصولِ مقصد کے لیے اختیار کیے جاسکتے ہیں؟
بعض حضرات کے نزدیک اگر صرف عبادات کے صحیح طریقے کی اصلاح کرلی جائے تو دین کی اقامت ہوجاتی ہے چنانچہ وہ عبادات کی ظاہری شکل پر اپنی توجہ مرکوز رکھنے کو کافی سمجھتے ہیں۔ کچھ حضرات زندگی کے اسلامی ہونے کے لیے قلب کو مرکز قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ قلب کی اصلاح ہر شے پر مقدم ہے اور اس غرض سے اذکار اور اوراد کا اہتمام ساری توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ بلاشبہہ مسنون اذکار و اوراد تزکیۂ نفس کا اہم ذریعہ ہیں لیکن اگر باقی اُمور کو نظرانداز کر کے صرف اذکار کو دین سمجھ لیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کاروبارِ حیات کے بہت سے اہم معاملات کو تزکیۂ قلب کی روح کے منافی سمجھتے ہوئے ترک کردیا جائے گا اور دین و دنیا کی تقسیم کو مزید مستحکم کردیا جائے گا اور اللہ والے افراد خانقاہوں اور زاویوں میں گوشہ نشین ہونے اور دنیاوی معاملات کو خیرباد کہنے میں اپنی عافیت سمجھیں گے۔ یہ طرزِفکر روحانیت میں اضافے کو بنیادی اہمیت دیتا ہے تاکہ قلب کی دنیا میں تبدیلی آجائے اور قلب اللہ تعالیٰ کے نور سے بھر جائے تو پھر نظامِ کفر ہو یا استحصالی معاشرہ ہر ایک فرد خود بخود ٹھیک ہوجائے گا۔
ایک طرف یہ رویہ ہے تو دوسری طرف منہج نبویؐ کا گہری نظر سے مطالعہ کرنے اور قرآن و سنت سے استدلال کرتے ہوئے انبیاے کرام ؑ کے طریق کار کے تجزیے کے نتیجے میں ایک نقطۂ نظر یہ سامنے آتا ہے کہ اقامت دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے حضرت سلیمان ؑ سلطنت اور حکومت کو قائم فرماتے ہیں۔ حضرت دائود ؑ کو اللہ تعالیٰ خلافت کے منصب پر خود فائز فرماتے ہیں اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ میں مقامِ قیادت اور تھوڑے عرصے میں فاتحِ مکّہ کی حیثیت سے حضرت ابراہیم ؑ کے شہر میں داخل فرماتے ہیں۔ آپؐ مدینہ منورہ میں بین الاقوامی معاہدے کرتے ہیں۔ مختلف ممالک کے فرماں روائوں کو مدینہ منورہ میں قائم شدہ اسلامی ریاست کے امیر اور اللہ کے نبیؐ کی حیثیت سے دعوتی خطوط تحریر فرماتے ہیں۔ قرآن کریم کی مقرر کردہ تعلیمات کو خاندانی معاملات میں، معیشت میں اور تعزیراتی معاملات میں حکومتی اختیارات کے ذریعے نافذ فرماتے ہیں۔ گویا عملاً کر کے دکھاتے ہیں کہ تزکیہ محض قلب کا نہیں بلکہ معیشت و سیاست کا تزکیہ بھی یکساں طور پر بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔
اس نقطۂ نظر کی روشنی میں جو طریق کار اور حکمت عملی تحریکاتِ اسلامی اختیار کرتی ہیں وہ انبیاے کرام ؑ کے طریق دعوت سے براہِ راست ماخوذ اور اسی پر مبنی ہوتی ہے۔
پانچویں مرحلے کے اس اوّلین پہلو کے ساتھ ہی جو دوسرا اہم پہلو ہمارے سامنے آتا ہے، اس کا تعلق دعوت سے متاثر افراد کی تنظیم، ان میں دعوت کی تطبیق اور جو لوگ دعوت سے اتفاق نہ کرتے ہوں ان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کا ہے۔ تحریکِ اسلامی کا تنظیمی ڈھانچا کیا ہو؟ کیا یہ ضروری ہے کہ تحریک ہر کام خود کرے یا وہ بعض مقاصد کے حصول کے لیے تقسیم کار کے اصول پر عمل کرتے ہوئے اپنی عمومی رہنمائی اور تائید کے ساتھ تحریک کے ہم خیال افراد کو معاشی خدمت ِ خلق یا سیاسی معاملات میں بڑی حد تک خودمختاری کے ساتھ کام کا موقع دینی حکمت عملی کے ایک حصے کے طور پر اختیارکرے؟
اسی طرح اس مرحلے میں یہ امر بھی غورطلب ہوگا کہ کیا تحریک ہمیشہ سیاسی محاذ پر اپنی دعوت اور اصولوں کی بنا پر تنہا سیاسی محاذ پر کام کرے یا وقتی طور پر دیگر سیاسی جماعتوں سے متعین وقت کے لیے تعاون کو حسب ِ ضرورت اختیار کرے؟ ایک زاویہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں سے کسی قیمت پر اتحاد یا اشتراک نہ کیا جائے اور مکمل طور پر اپنے افرادی اور مادی وسائل پر بھروسا کیا جائے، چاہے تحریک کو حصولِ مقصد میں سو دو سو سال لگ جائیں ۔ وہ ہر کام اپنے نظریاتی اصولوں کے مطابق کرے اور کسی کے ساتھ مخصوص اہداف کے لیے بھی تعاون و اشتراک پر غور نہ کرے۔
دوسروں سے عدم تعاون کے نقطۂ نظر کے لیے فکری بنیاد عموماً قرآن و سنت کے بعض جزوی احکام سے اخذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اسلام اور جاہلیت، اسلام اور طاغوت، اسلام اور کفر کا مقابلہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ جو جماعتیں اپنے اہداف اور دعوت کے لحاظ سے قرآن و سنت کی تعلیمات سے انحراف کرتی ہوں وہ جاہلی جماعتیں ہیں اور ان کے ساتھ کسی معاملے میں تعاون کرنا اسلام کے منافی ہے۔
اقامت دین اور قیامِ نظامِ اسلامی کی جدوجہد کے اس پانچویں مرحلے میں جو ملک گیر بنیاد پر دعوتِ دین کو حکمت کے ساتھ عوام الناس تک پہنچانے اور انھیں منظم کرنے کا ہے،دعوتی اور سیاسی تنظیم بندی بالعموم یک جان ہوجاتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے مکہ سے مدینہ منورہ آنے کے بعد اسلام کے عالم گیر دعوتی اصول بالخصوص دعوتِ توحید، معیشت اور سیاست کے شعبے میں انقلاب لانے کا سبب بنی۔ اس مرحلے میں تحریک اسلامی کے لیے قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ جس طرح اس کی دعوت کا منطقی اور قرآن و سنت پر مبنی ہونا عوام کو مطمئن کرتا ہے کہ یہ دعوتِ حق ہے، کیا وہی افراد جو اس کی دینی دعوت کو پسند کرتے ہیں تحریک کی سیاسی حمایت اور اُس کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرنا پسند کرتے ہیں؟کہیں ایسا تو نہیں کہ تحریکی کارکنوں کے خلوص اور قربانی کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی دعوت کو تو پسند کیا جا رہا ہو لیکن سیاسی فیصلے میں وفاداری، برادری، موروثی سیاست دانوں یا جذباتی نعرے بلند کرنے والوں کے ساتھ ہو اور اگر بالفرض ایسا ہے تو تحریک کی دعوت کی حکمت عملی اس پہلو کو حل کرنے کے لیے اور ان افراد کو جیتنے کے لیے جو دعوت کو تو پسند کرتے ہیں لیکن ووٹ ڈالتے وقت جذبات یا پرانی وابستگی سے متاثر ہوجاتے ہیں،کیا مؤثر اقدامات کرتی ہے؟ اس مرحلے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ رضاے الٰہی کے حصول کے لیے اگر بعض ایسے سیاسی طبقات کے ساتھ وقتی اور جزوی تعاون کرنا پڑرہا ہے جو چاہے اپنی ذات میں اسلام کے اعلیٰ اصولوں پر عامل نہ ہوں لیکن اس تعاون کے نتیجے میں ملک میں اسلامی معاشرہ اور نظامِ عدل قائم کرنے کے امکانات پیدا ہو رہے ہوں تو تحریک کا ان کے ساتھ تعاون کرنا وسیع تر حکمت عملی کا ایک جزو سمجھا جائے گا نہ کہ مداہنت کی کوئی شکل! بات بہت واضح ہے، ایسے حالات میں سیاست شرعیہ کا تقاضا ہے کہ ایسے جزوی تعاون کو اختیار کرکے بڑے مقصد کے حصول کے راستے کو ہموار کیا جائے۔ ایسا تعاون کفر اور طاغوت کے ساتھ تعاون قرار نہیں دیا جاسکتا۔
عصرِحاضر کے تحریکِ اسلامی کے نام وَر مفکرین سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ اور سید قطب شہیدؒ نے اسلام اور جاہلیت کے حوالے سے جو تصور پیش کیا ہے وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ایک جانب وہ طاغوتی نظام کے خلاف فکری، دستوری اور عملی جہاد کا تصور پیش کرتے ہیں اور دوسری جانب طاغوتی نظام کے زنجیری حلقے کو توڑنے کے لیے نقطۂ آغاز کے حوالے سے یہ تصور پیش کرتے ہیں کہ اگر اصولی طور پر ایک ریاست اپنے آپ کو غیراسلامی ریاست قرار دیتی ہو،مثلاً خود کو سکیولر کہے تو اس کے ساتھ سیاسی معاملات میں شراکت نہ کرنا افضل ہوگا، جب کہ ایک ریاست اصولی طور پر خود کو اسلامی ریاست اپنے دستور کی دفعات کے ذریعے قرار دے لیکن نظامِ حکومت ابھی مکمل طور پر اسلامی نہ ہو تو اس کے معاملات کی اصلاح کے لیے دستور کی روشنی میں معاملات میں شراکت نہ کرنا دین کی حکمت کے منافی ہوگا۔ ایسے حالات میں اُمت مسلمہ کی فلاح اور حقوق کے حصول کے لیے آواز بلند کرنا، سیاسی جدوجہد کرنا اور اس جدوجہد میں دیگر جماعتوں کے ساتھ اس مقصد کے حصول کے لیے تعاون کرنا دین کی حکمت کے مطابق ہوگا۔ اس کی مثال ایک نومسلم کی حیثیت سے بھی سمجھی جاسکتی ہے جس کا صرف اقرارِ ایمان اسے مسلمان بنادیتا ہے۔ گو ابھی اسلامی شعور اور کردار کا حصول ایک وقت لے گا، بلکہ مدت عمر کا متقاضی ہوگا۔
حکمت عملی کے حوالے سے دوسرا اقدام مروجہ نظام میں موجود افراد کو اس تبدیلی کے لیے آمادہ کرنا ہوگا اور اس غرض سے پارلیمان ہو یا ایوانِ تجارت، جامعات ہوں یا سرکاری دفاتر، فوج ہو یا مذہبی اُمور میں رہنمائی کرنے والے افراد ہر ایک سے رابطہ، تبادلۂ خیالات اور ان تمام اداروں میں ایسے افراد کو داخل کرنا ہوگا جو ان مختلف محاذوں پر دین کے مفاد کا تحفظ کرسکیں۔ اسی کا نام دین کی حکمت ہے۔ قرآن کریم اس سلسلے میں حضرت یوسف ؑ کے ایک ایسے نظام میں جو بظاہر شریعت الٰہی پر مبنی نہ تھا داخل ہوکر اس کی اصلاح کرنے کی حکمت عملی ہمارے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ اولوالالباب اس پر غور کریں اور حالات و مواقع کے لحاظ سے اللہ کے ایک برگزیدہ نبی ؐ کے اسوہ کی پیروی کرتے ہوئے چاہے پارلیمان ہو یا ایوانِ تجارت، عدلیہ ہو یا دیگر اہم ادارے، ان میں شمولیت کر کے اندر سے اصلاح کے عمل کو آگے بڑھایا جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو یہ سیاست شرعیہ اور مصلحت عامہ کے اصولوں کے منافی ہوگا۔
یہاں یہ بات واضح کردینی ضروری ہے کہ ایک اصولی اور دستوراً اسلامی ریاست اور ایک عملاً غیراسلامی ریاست میں دینی حکمت عملی یکساں نہیں ہوسکتی۔ دین کی بنیادی دعوت بلاشبہہ ایک ہی ہوگی، یعنی نفس، معاشرہ، معیشت اور سیاست کے خدائوں سے نجات حاصل کرکے صرف اور صرف خالق کائنات کی حاکمیت کا قیام اور اسلام کے نظامِ عدل کا قیام۔
ہم یہاں ایک اصولی، دستوری اور اسلامی ریاست کی بات کر رہے ہیں جس میں چاہے عملاً دین کی تمام تعلیمات پر سرکاری اداروں میں مکمل طور پر عمل نہ کیا جا رہا ہو۔ ایسی صورت حال میں تبدیلی کا عمل اسلامی منہج پر عمل کرتے ہوئے surgical operation سے بھی ہوسکتا ہے اور medical treatment سے بھی۔دونوں میں کوئی تضاد نہیں۔ ایک میں اندرونی طور پر تشخیص مرض کے بعد اندر سے اصلاح کرنے کے لیے معروف اور بّر کے ذریعے نظامِ فساد کی اصلاح کی تدبیر کی جاتی ہے۔ چنانچہ حسنات اور معروف میں بتدریج اضافے کے ذریعے فساد جسم کو ختم کیا جاتا ہے، جب کہ سرجری میں، اس صورت میں جب دوسری دوائیں کام نہ کریں تو فساد کا سبب بننے والے اجزا کو نشتر کے ذریعے تراش کر الگ کردیا جاتا ہے۔ ان دونوں کی بنیاد دین کے بنیادی اصولوں پر ہے۔ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ (ھود ۱۱:۱۱۴)، ’’بلاشبہہ بھلائیاں برائیوں کو دُور کردیتی ہیں‘‘۔ اس طرح فتنہ اور فساد کو دُور کرنے کے لیے جنگ کرنے کا حکم بھی قرآنِ کریم کی تعلیمات کا حصہ ہے۔ وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ (البقرہ ۲:۱۹۳)، ’’تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہوجائے‘‘۔
قرآن کریم اور سنت مطہرہ تبدیلی کے دونوں طریقوں کے لیے بنیاد فراہم کرتے ہیں اور ایک تیسرے قرآنی اصولِ استحسان اور مصلحت عامہ کے ذمہ دارانہ استعمال سے یہ فیصلہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں کہ ایک مخصوص صورت حالات میں کس حکمت عملی کو اختیار کیا جائے۔ ان میں کوئی تضاد نہیں۔ یہ فیصلہ کہ کب تک طبابت سے کام لیا جائے اور کب نشتر کا استعمال ہو، ایک اجتہادی اقدام ہے۔ اس لیے کسی ایک طریقے کو جائز اور حلال اور دوسرے کو مردود اور حرام قرار دے دینا، نہ دین ہے اور نہ دین کی تعلیم کردہ عقل و حکمت سے مطابقت رکھتا ہے۔
یہ سوال اُٹھاتے وقت کہ انتخابی سیاست میں ضرورتاً حصہ لینے کے باوجود اگر متوقع نتائج حاصل نہ ہوں تو پھر اس سرگرمی کا کیا جواز ہے؟ بات بہت آسان سی ہے، جسے ہم بالعموم شدتِ جذبات میں نظرانداز کرجاتے ہیں، یعنی ہمارا اصل مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہے یا ایک خاص تعداد میں نشستوں کا حصول؟ کیا سیاسی جدوجہد کا مقصد محض حصولِ اقتدار ہے یا اسلامی اخلاقی اصولوں پر مبنی دعوت کو عوام الناس تک پہنچا کر ان میں حق و باطل کے درمیان انتخاب کرنے کا شعور بیدار کرنا اور یہ یاد دہانی کرانا کہ وہ اپنے ذاتی مفادات، برادری سے تعلق اور سیاسی وابستگی کے باوجود اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ اپنا ووٹ کا حق استعمال کریں۔اگر ہمارا مقصد اپنی دعوت پہنچانا اور دعوت کو بہتر طور پر پیش کرنے کے لیے ایوانِ نمایندگان میں پہنچ کر ملک میں اصلاح اور عدل کے نظام کا قیام ہے تو نشستوں کی کثرت یا قلت اور انتخاب میں بھرپور کامیابی یا ناکامی سے بلند ہوکر اپنے احتساب کی ضرورت ہے کہ ہم نے کس حد تک صحیح حکمت عملی اور اخلاقی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے اپنی جدوجہد کو سرانجام دیا۔
اللہ تعالیٰ نے ان صالح افراد کی کامیابی کا وعدہ فرمایا ہے، جو خلوصِ نیت کے ساتھ اللہ کو اپنا رب قرار دیتے ہوئے دین پر استقامت اختیار کرلیتے ہیں۔ وہ انھیں لازمی طور پر زمین میں خلیفہ بناتا ہے۔سیاسی محاذ پر انتخاب میںکامیابی یا ناکامی ہو یا میدانِ جہاد میں کفروظلم کے مقابلے میں صف آرا ہوکر جان کی بازی لگانا ہر دعوتی جدوجہد اور جہادِ حق کے لیے قرآن کریم نے اسلامی عالمی اصول بیان کردیا ہے کہ آخرکار کامیابی اور سرفرازی دین کی ہوگی جو ایمان، خلوص، منزل کے شعور، دعوت الی اللہ اور ایثار و قربانی کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔
وَ لَا تَھِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) ، دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔
اسی بات کو ایک دوسرے انداز سے یوں فرمایا گیا:
اِِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَo (احقاف ۴۶:۱۳) یقینا جن لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے، پھر اُس پر جم گئے، ان کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
اصل غور طلب بات یہ ہے کہ کیا سیاسی جدوجہد میں ہم نے صرف اور صرف اللہ کو رب بناتے ہوئے استقامت اختیار کی یا اس جدوجہد میں جسے خالصتاً اللہ کے لیے ہونا چاہیے تھا کہیں ذات اور شخصیت تو درمیان میں نہیں آگئی یا چند لمحات ہی کے لیے سہی منصب کی طلب کا وسوسہ تو نہیں پیدا ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے جب وہ فرماتا ہے کہ میں تمھیں سربلند (الاعلون) کروں گا تو وہ ایسا ہی کرتا ہے، کمی ہماری جانب سے رہتی ہے ۔ کبھی منصوبہ بندی میں کہ جو کام انتخابات سے ایک سال پہلے کرنے کا ہو ہم نے دو ماہ پہلے کیا ہو یا حالات کا تجزیہ کہ ہم نے محض معلومات کے ایک ذریعے پر بھروسا کیا ہو وغیرہ۔
کسی بھی جماعت کے لیے کامیابی کا حصول بڑی اہمیت رکھتا ہے خصوصاً ایسی جماعت کے لیے جسے اس کے ناقدین ملک کی سب سے زیادہ منظم، نظریاتی جماعت کہتے ہوں۔ لیکن اس سے زیادہ اہم اس کا اپنے اصولوں پر قائم رہنا اور استحصال، بدعنوانی، رشوت اور اقرباپروری پر مبنی نظام کے خلاف جدوجہد کرنا ہے۔ بلاشبہہ تبدیلی اور مکمل تبدیلی ہمارا اصل ہدف ہے لیکن اس ہدف کا سو فی صد حصول پورے طور پر ہمارے ہاتھ میں نہیں۔ صحیح انداز میں کوشش ضروری ہے اور اس کا بار بار تنقیدی جائزہ بھی ضروری ہے لیکن خلاف گمان نتائج پر مایوسی کا کوئی جواز ہی نہیں۔ کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی کرتا ہے اور بعض اوقات بظاہر ناکامی بعد میں حاصل ہونے والی عظیم تر کامیابی کا ذریعہ بن جاتی ہے بشرطیکہ کوشش جاری رہے اور کبھی ہمت نہ ہاری جائے۔
یہی وجہ ہے کہ مطلوبہ اہداف کا حصول نہ ہونے کی شکل میں اسلام اپنے ماننے والوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ نااُمیدی کو کسی بھی راستے سے اپنے اندر داخل نہ ہونے دیں اور تجزیہ کر کے دیکھیں کہ ہماری جانب سے وہ کون سی کمی تھی جس کی بنا پر نتائج وہ نہ نکلے جن کی اُمید تھی۔ اس تجزیے کے ساتھ ہی اس بات کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ اقامت ِ دین کی جدوجہد کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے سیاسی تبدیلی کے عمل کو آیندہ بہتر طور پر کرنے کے لیے مطلوبہ اقدامات کیے جائیں۔
یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی حکمت عملی کو ہرحالت میں دعوتی حکمت کا تابع ہونا چاہیے اور اصل مقصد اللہ کی رضا کا حصول رہنا چاہیے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے حالات اور ضروریات کے لحاظ سے جو حکمت عملی وضع کی جائے اسے بھی وقتاً فوقتاً تنقیدی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہوگی۔ اس سلسلے میں چند بنیادی نکات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
غورکرنے کی ضرورت ہے کہ جو دعوتی زبان استعمال کی گئی کیا وہ عوامی نفسیات سے مطابقت رکھتی تھی یا جن اُمور پر ہمیں زور دینا چاہیے تھا کیا کسی اور نے ان عنوانات کو اغوا کر کے عوام کے دل میں اُترنے کا ذریعہ بنایا۔ کیا تحریکِ اسلامی نے ظلم، بدعنوانی، عدم مساوات اور عدم تحفظ، دہشت گردی، معاشی استحصال، بے روزگاری اور صحت سے متعلقہ اُمور کو ایسی زبان میں جو عوام کو متاثر کرے سیاسی مہم میں تذکرہ کیا؟کیا تبدیلی کی ضرورت جیسے بنیادی اُمور پر عوام سے رابطے میں پہل کی اور انھیں یقین دلانے میں کامیاب ہوئی کہ وہ تبدیلی لانے کی صلاحیت رکھتی ہے، یا ان موضوعات پر دیگر افراد نے زیادہ زورِ بیان کے ساتھ اپنی image بنائی، جب کہ تحریک اسلامی کے ایک پہلے سے قائم شدہ ذہنی خاکے کی بنا پر اسے ایک صالح افراد کی کم تعداد والی جماعت سمجھا جاتا رہا جس کو ووٹ دینے کے باوجود اس کے اکثریت میں آجانے کا امکان کم نظر آتا ہو۔
زکوٰۃ و صدقات کی وصول یابی اور تقسیم خود ایک ایسا عظیم کام ہے کہ جو بھی اسے صحیح طور پر کرے گا وہ عوام الناس میں مقبول ہوگا۔ اس کے ساتھ تعلیم، صحت ، آفات سے متاثر افراد کی خدمت، غرض یہ سارے کام جب اللہ کی رضا کے لیے کیے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی کرم سے دعوت کو مقبولیت دیں گے۔تحریک اسلامی کو آیندہ پانچ سالوں کے لیے ایک واضح منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے کہ پہلے سال میں خدمت کے کام کو کہاں تک پہنچایا جائے اور آیندہ پانچ برس میں اس کا دائرہ کہاں تک ہو۔
بعض سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے کے بعد حکومتی رقم کو اپنے آنجہانی لیڈروں کی فاتحہ سمجھتے ہوئے تقسیم کرکے ملک میں لاکھوں افراد کو اپنا ممنونِ احسان بنالیتی ہیں جو اخلاقی اور قانونی طور پر جرم اور گناہ ہے، جب کہ زکوٰۃ، صدقات و عطیات کی وصولی اور ان کی مناسب تقسیم ایک دینی فریضہ ہے اور تحریکاتِ اسلامی اس کی زیادہ مستحق ہیں کہ وہ اس کام کو اپنے ہاتھ میں لیں اور معاشرے کے نادار افراد کی جائز امداد اور ان کی سیاسی تعلیم کا بندوبست کریں۔ کیا اس سلسلے میں شعوری طور پر کوئی منصوبہ بنایا گیا اور اس پر احتساب کے ساتھ عمل کیا گیا؟ اس سلسلے میں لوگوں کی غلط فہمی کہ زکوٰۃ کی رقم کا سیاسی استعمال نہیں کیا جا رہا ،کا دُور کرنا بھی ضروری ہے۔
ان چند اُمور کو سامنے رکھتے وقت اور تنقیدی جائزہ لیتے وقت یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ کامیابی کا پیمانہ نشستوں کی تعداد کبھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کامیابی کا اصل معیار یکسوئی، خلوص، بے لوثی، قربانی اور استقامت کے ساتھ اپنی دعوت کو بغیر کسی معذرت اور مفاہمت کے اپنے عمل سے پیش کرنا ہے۔ بہترین دعوت عملی دعوت ہے۔ زبان کی قوت بلاشبہہ ایک انعام ہے لیکن اس سے محرومی کے باوجود اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی ؑکو اپنا نبی ؑاور رسول ؑبنانا پسند فرمایا اور ان کے بھائی ہارون ؑ کے ذریعے ان کی مدد فرمائی، جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بچپن سے عرب کے سب سے زیادہ فصیح قبیلے کی لغت اور زبان کو سننے اور اختیار کرنے کا موقع ملنے کے سبب کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مفہوم ادا کرنے کی صلاحیت سے نوازا گیا۔یہ تمام پہلو تنقیدی نگاہ سے باربار غور کرنے کے ہیں اور پھر آیندہ پانچ برسوں کے لیے بتدریج ایک حکمت عملی کی تیاری بلاتاخیر کرلینے کی ضرورت ہے۔ یہ حکمت عملی دعوتی حکمت عملی کے ضمیمے کے طور پر مرتب ہونی چاہیے تاکہ ہرہرمعاملے میں تحریک کے اصول عوام کے سامنے مثالی شکل میں آسکیں اور سیاسی فیصلے کرنے میں انھیں مدد فراہم کی جاسکے۔
منصوبہ بندی اور مستقبل کا لائحہ عمل تحریکاتِ اسلامی کے لیے ایک دینی فریضے کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے انتخابات یا اس جیسے دیگر امتحانات سے گزرنے کے بعد سالوں اور مہینوں کا انتظار کیے بغیر اس بات کی ضرورت ہے کہ تحریک اور تحریک سے باہر کے ایسے افراد پر مبنی ایک کمیٹی ترتیب دی جائے جو نہ صرف حالیہ انتخابات بلکہ گذشتہ تمام انتخابات کا مختلف زاویوں سے جائزہ لے کر آیندہ چھے ماہ میں ایک مفصل حکمت عملی تجویز کرے، جسے آیندہ پانچ سالہ منصوبے کے طور پر ہرسال میں ترجیحات کی شکل میں مشاورت کے بعد نہ صرف قرارداد کی شکل دی جائے بلکہ ایک بااختیار شعبہ ان اقدامات کے نفاذ، ان کے ہر تین ماہ میں جائزے اور اس کی روشنی میں مزید اقدامات کروانے کا مجاز ہو۔ اختیارات کے بغیر کوئی کام نتائج پیدا نہیں کرسکتا۔ تجزیہ و تحلیل اگر حصول نتائج میں مددگارنہ ہو تو محض ذہنی ورزش ہی ہوگی جس سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔